روزہ اور تقویٰ

مولانا محمد اکرم اعوان


روزہ روحانی تربیت اور حصولِ رحمت کیلئے خاص اہتمام ہے ۔روزے کی فرضیت محض مشقت نہیں بلکہ خاص مقصد تقویٰ کے حصول کیلئے تربیتی پروگرام ہے۔تقویٰ ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جو انسان کو اللہ کی نافرمانی سے روک دے اور عملاً اللہ کی عظمت سے آشنائی نصیب ہو یعنی انسان کا ہر عمل اس بات کی گواہی دے کہ اسے اللہ سے تعلقِ عبدیت حاصل ہے اور وہ اپنی حیثیت کے مطابق اللہ کی عظمت سے آشنا ہے گویا روزہ وہ نعمت ہے جس کے نتیجے میں مومن کو اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ سے ایسا تعلق نصیب ہو جائے جو ہاتھ کو اُٹھنے اور قدم کو چلنے سے تھام لے اور حدود اللہ سے تجاوز نہ کرنے دے ۔

رمضان المبارک بہت برکتوں ،رحمتوں اور بہت زیادہ بخشش کا مہینہ ہے ۔یہ ماہ ِمبارک اپنی برکات اپنے انعامات اور اللہ کی عطا و بخشش کے اعتبارسے تمام مہینوں کا سردار مہینہ ہے۔جسے اللہ کریم نے اپنا مہینہ قرار دیا ہے اور انسانی فطرت اورمزاج کے مطابق اس کا اہتمام فرمایا ہے کہ ساری کائنات سے کاٹ کر جائز ضروریات سے بھی مقررہ اوقات میں کنارہ کش کرکے اپنے روبرو بٹھا کر شرف ہم کلامی عطا فرمایا۔ اللہ کریم فرماتے ہیں یہی تو وہ مہینہ ہے جس میں مَیں نے تم سے بات کی اور جس کی خوشی میں ہر سال یہ پورا مہینہ تمہیں عطا کر دیا ۔

رمضان المبارک کی اصل اساس یہ ہے کہ یہ وہ مبارک مہینہ ہے جسے ایک خاص تقدس ،ایک خاص اعزازدے کر ایک سر بلندی دے کر اس لیے منتخب فرمایا گیاکہ اس میں اللہ کا کلام نازل ہوا۔ ہر نبی پر جو کلام الٰہی نازل ہوا اس کی ابتداء رمضان المبارک ہی میں ہوئی اور قرآن کریم بھی سارے کا سارا علم الٰہی سے لو حِ محفوظ میں آیا، لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر رمضان المبارک میں منتقل فرمایا گیا او ر نزول وحی کی ابتد ا ء اسی ماہِ مبارک میںہوئی پھر مسلسل نازل ہوتا رہا ۔اس مہینے کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہ مشتِ غبارمیں وہ اہلیت پیدا کرتا ہے ،وہ پاکیزگی پیدا کرتا ہے ،وہ طہارت پیدا کرتا ہے،وہ لطافت لے آتا ہے کہ کلامِ الٰہی کو سننے ،سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق ارزاں ہو جاتی ہے۔جس میں عملاً یہ تربیت دی جاتی ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جہاں یہ تقدس نہیں ہو تا وہاں کلامِ الٰہی سے ہدایت نصیب نہیں ہو تی ۔سومجاہدہ کرنا ہے تو رمضان میں تقویٰ کے حصول کیلئے کرو۔اللہ کو پانے اور اُسے راضی کرنے کیلئے کرو۔اس کے قرب کو پانے کیلئے کرو۔اس کا قرب مل گیا تو جنت آپ کے قدموں میں ہو گی اور اس مقصد ہی سے ہٹ گئے تو اس کا قرب کیسے ملے گا ؟

یوں تو رمضان کی ہر رات کا قیام تراویح اور تہجد ،ہر ایک کی اپنی خصوصیت ہے ۔دن بھر اللہ کی فرمانبرداری میں جائز امور سے پرہیز بندۂ مومن کو ذات باری سے ایک خاص قرب عطا کرتا ہے کہ اللہ تو رگِ جاں سے بھی زیادہ قریب تر ہے لیکن قریب ہونا اور بات ہے اور بندے کو قرب کا احساس ہو یہ اور بات ہے۔ تو روزہ انسان کے اندر اس احساس کو بیدار کرتا ہے کہ اس کامالک اس کے پاس ہے یہ احساس ترقی کرتا ہے اور بندہ اپنا محاسبہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے ۔

پہلے عشرے میں احساس ِرحمت پیدا ہو اجیسا کہ حدیث پاک میں ارشاد ہے کہ اس کا پہلا عشرہ رحمت عامہ کا ہے۔ جس میں رحمت باری کا سیلاب امڈتا ہے اور رحمت باری ہر لحظہ ہر آن پورے جوبن سے برس رہی ہوتی ہے ۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اپنے کاسۂ دل کو سیدھا رکھتے ہیں۔ اگر کہیں کمی ہوتی ہے تو ٹیڑھا پن کاسئہ دل میں ہوتا ہے ۔بارانِ رحمت میں کمی نہیں ہوتی کہیں ہمارے اعتقاد کی کمزوریاں ، کہیں رسومات کی پیروی ،کہیں ہمارے کردار کی خامیاںہمارے کاسئہ دل کو ٹیڑھا کر دیتی ہیں اور اس میں کچھ نہیں پڑتا ۔خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے کاسئہ دل کو سیدھا رکھا اور رحمت باری سے بھر لیا۔دوسرے عشرے تک احساسِ ندامت نے زور پکڑا اور اصلاح احوال ،توبہ اور مغفرت کیلئے کوشاں ہواجب اپنا احتساب کرنے کا حوصلہ آیا تو تیسرے عشرے کی طاق راتوں میں اپنے ربِّ کریم کی بے پایاں مغفرت کا طالب ہوا ۔راتوں کو قیام کا ذوق عطا ہوا تو اللہ کریم کی طرف سے مزید سہولت عطا ہوئی ۔رمضان المبارک کو اپنے نقوش ثبت کرنے چاہئیں مثال کے طور پر عملاً اور شکلًا جو روزہ ہے کہ کھانے پینے سے رک گئے یا اور امور سے رک گئے یہ پابندی جب ختم ہو گی ۔رمضان المبارک کا مہینہ جب گزر جائے گا لیکن ہر خطا سے رکنے کی پابندی کو اگر طبیعت میں جگہ دے گیا تو رمضان گیا نہیں رمضان موجود ہے ۔اگر جھوٹ بولنے سے ڈرلگتا ہے تو رمضان موجود ہے ،اس کی برکات موجود ہیں ۔اگر حرام کھانے سے ڈر لگتا ہے تو رمضان موجود ہے ،اس کی برکات موجود ہیں۔اطاعت الٰہی کی رغبت باقی ہے تو رمضان باقی ہے اسکی برکات باقی ہیںاور اگر یہ چیزیں نصیب نہیں ہوئیںتو پھر واقعی رمضان گزر جائے گااور گزرے ہوئے لمحات لوٹا نہیں کرتے ۔ اپنی زندگی کا محاسبہ کرتے ہوئے اپنی خطائوں کی بخشش چاہتے ہوئے اپنے گناہوں اور لغزشوں کو پیش نظر رکھ کر اللہ سے بخشش طلب کی اور ماہ رمضان المبارک کا روزہ رکھا تو ایک روزہ زندگی بھر کی خطائو ں کی بخشش کیلئے کافی ہے ۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا ایمان بڑا مضبوط ہے ۔یا د رکھیے جو ایمان اللہ کی نافرمانی کرنے سے روکنے کا کام نہیں کرتا وہ مضبوط نہیں کمزور ہے۔جو ایمان حرام کھانے کو برداشت کر لیتا ہے اور حلال پہ اصرار نہیں کرتا جو ایمان فرائض کی پابندی سے محروم انسان کے ساتھ گزارا کرتا ہے وہ کمزور ہے ۔ آج ہمارے ایمان میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔جب اطاعت الٰہی کی بات آتی ہے تو ہم نرم پڑ جاتے ہیں۔طبیعت خراب ہو تو نماز چھوٹ جاتی ہے۔مہمان آجائیں تو ذکر الٰہی رہ جاتا ہے ۔حلال و حرام کی تمیز بہت کم رہ جاتی ہے یہ کمزوری نہیں تو کیا ہے ؟

رمضان کے روزے فرض کیے جانے کی غرض و غایت ہی یہی ہے کہ صفت ِ تقویٰ عطاہو جائے یعنی اندر کا انسان بہار آشنا ہو سکے ، پھل پھول سکے اپنی خوشبو دے سکے اور اپنے کمال کو پا سکے۔یہ مہینہ صرف روزوں کا نہیں حقیقی تبدیلی کا مہینہ ہے ۔یہ ایک بھٹی ہے جس طرح سونے کو بھٹی میں ڈالا جائے تو اس کا کھوٹ نکل جاتا ہے ۔اس طرح رمضان کے 30دن ایک بھٹی ہیں ۔اس میں سے مومن کندن بن کر نکلتاہے۔ اللہ کریم اس پر استقامت دے اور آئندہ نیکی پر کاربند رہنے کی توفیق عطا فرمائے تو بندہ روزے کے مقصد کو پا گیا۔اللہ کریم تم سے بیگار نہیں لینا چاہتے ،تم پر بوجھ نہیں لادنا چاہتے بلکہ تمہیں وہ طرزِ عمل بتا رہا ہے جس میں تمہیں اللہ سے ایک خالص تعلق پیدا ہو جائے گااور اس حد تک اللہ کے طالب بن جائو کہ تمہیں نافرمانی کا تصور بھی نہ آئے ۔انسان کو مجبور کرنے یا اس پر مصیبت ڈالنے یا اس پر بوجھ ڈالنے کیلئے نہیں بلکہ یہ تونری آسانیاں ہیں س میں آسانی بھی ہے ،اس میں اللہ کی رحمت بھی ہے اور اس میں اللہ کی یاد قدم قدم پہ وابستہ ہے ایک ایک دم کے ساتھ وابستہ ہے ۔ہم جب کوئی کام اللہ کے حکم کے مطابق کر رہے ہیں ، نبی کریمﷺ کی سنت کے مطابق کر رہے ہیں تو اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی یا د بھی اس میںدم دم کے ساتھ وابستہ ہے اور یہی مقصدِ حیات ہے ۔یہ سعادت ہے کہ ہم سب کو اللہ کریم سے اتنا تعلق پیدا ہو جائے ،اتنی محبت پیدا ہو جائے ،جنوں کی حد تک عشق پیدا ہو جائے کہ اللہ کی نافرمانی کا تصور بھی نہ کریں ۔

ہدایت و رہنمائی

مولانامحمد طارق نعمان گڑنگی


رمضان المبارک اورقرآن کا آپس میں گہر ا تعلق ہے رمضان کے مبارک مہینے میں لوگوں کی ہدایت کیلئے ہدایت و رہنمائی کی واضح نشانیوں کے طور پر قرآن کو نازل کیا چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ، ترجمہ ’’ رمضان المبارک کے مہینے میں قرآن پاک کو نازل کیا گیا لوگوں کی ہدایت کیلئے۔‘‘ (سورہ بقرہ)اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا ’’ہم نے اس (قرآن)کو ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے۔‘‘اورایک مقام پرفرمایا:’’ہم نے اس کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔تو اس طرح یہ مہینہ قرآن مجید کے نزول کا مہینہ ہے کیونکہ شب قدر بھی رمضان ہی کے مہینے میں ہے ۔‘‘مسلمان اس مبارک مہینے میں قرآن پاک کی تلاوت کا خاص اہتمام فرماتے ہیں۔نبی پاک ﷺہر سال رمضان المبارک میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ ہر رات قرآن پاک کا دور کرتے تھے۔ قرآن کریم اور رمضان المبارک کی مناسبت یہ بھی ہے کہ جس طرح اس ماہ میں قرآن کریم کا نزول ہوا اسی طرح مسلمانوں پر اس ماہ کے روزے فرض کئے گئے ، ارشاد الہٰی ہے :’’جو اس ماہ میں گھر پر موجود رہے وہ اس کا روزہ رکھے ۔‘‘ (البقرہ)

نیز قرآن اور روزہ دونوں قیامت کے دن بندے کیلئے سفارش کریں گے ، رسول اکرمؐ کا ارشاد ہے ’’قیامت کے دن روزہ اور قرآن دونوں بندے کیلئے سفارش کریں گے ، روزہ کہے گا: اے پروردگار میں نے اسے دن میں کھانے پینے اور شہوتوں سے روک دیا تھا ، لہٰذا میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما ، اور قرآن کہے گا :میں نے اسے رات میں سونے سے روک دیا تھا ، اس واسطے میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما، چنانچہ دونوں کی سفارش قبو ل کی جائے گی ۔‘‘(رواہ حمد :2/174،شعب الایمان :3/378)

اس لیے اس مبارک ماہ میں قرآن کی تلاوت ، سمع اور دروس کا خوب اہتمام کرنا چاہئے ، قرآن تو وہ مقدس کتاب ہے جس کی تلاوت ہر اعتبار سے اجر وثواب اور خیر و برکت کا باعث ہے ۔

قرآن کریم وہ مقدس کتاب ہے جس کے پڑھنے اور پڑھانے والے کو زبانِ رسالت ؐسے بندوں میں سب سے اچھا ہونے کی سند ملی ، ارشاد نبویؐ ہے : ’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے ۔‘‘(صحیح البخاری: 6/236)

یہ وہ مقدس کتاب ہے جس کے درس کی مجلس میں شرکت کرنے والوںکوفرشتے چاروں طرف سے اپنے گھیرے اور جھرمٹ میں لے لیتے ہیں ، انہیں رحمت ڈھانپ لیتی ہے اور ان کا ذکر خیر اللہ جل شانہ اپنے مقرب فرشتوں میں کرتا ہے۔حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے’’ جب بھی کچھ لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اکٹھا ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں آپس میں درس و تدریس کا اہتمام کرتے ہیں ا نہیں رحمت الہٰی ڈھانپ لیتی ہے ، اور فرشتے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں اور ان کا تذکرہ اللہ اپنے پاس کے فرشتوں میں فرماتا ہے ۔‘‘ (صحیح مسلم: 8/71۔سنن ابی دائود :544،1)

قرآن اللہ کی وہ پاکیزہ کتاب ہے جس کے اندر ایسی کشش ہے کہ اگر اس کی بلند اور اچھی آواز میں تلاوت کی جائے تو فرشتے اس کے سماع کے لئے بالکل قریب آجاتے ہیں ۔

صحیح بخاری میں حضرت اسید بن حضیر ؓسے مروی ہے کہ وہ رات کو سورہ بقرہ کی تلاوت کر رہے تھے ان کا گھوڑا ان کے قریب ہی بندھا ہوا تھا ،مجبور ہوکر انہوںنے پڑھنا بند کردیا ،جب صبح صادق ہوئی تو انہوں نے واقعہ کو رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا ۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اے ابن حضیر تمہیں اپنی قرأت جاری رکھنی چاہئے ، ابن حضیر تمہیں قرآن پڑھتے رہنا چاہئے ۔‘‘میں نے کہا اے اللہ کے رسولﷺ ! مجھے ڈر ہوا کہ کہیں میرا بیٹا کچلا نہ جائے ، پھر میں نے سر اوپر کی طرف اٹھایا اور اس کی طرف متوجہ ہوا تو کیا دیکھتا ہوں ایک چیز سایہ کی طرح ہے جس میں چراغوں کی طرح قمقمے ہیں ، پھر میں باہر نکل کر دیکھتا رہا یہاں تک کہ وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جانتے ہو وہ کیا تھا ؟ ‘‘ حضرت حضیرؓ نے کہا : نہیں ۔آپ ﷺنے فرمایا ’’وہ فرشتے تھے جو تمہاری تلاوت کی آواز سننے کے لئے قریب آگئے تھے ، اگر تم قرآن پڑھتے رہتے تو صبح لوگ انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ،اور وہ ان کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہوتے ۔‘‘(رواہ البخاری: 6/234،)