• Iftar Time Ramazan 29
  • Lahore 06:29 PM
  • Karachi 06:53 PM
  • Islamabad 06:36 PM
  • Peshawer 06:43 PM
  • Quetta 07:58 PM

تیسویں پارے کے اہم مضامین
سورۃ النباء: ''نبا‘‘ خبر کو کہتے ہیں۔ سورت کے شروع میں فرمایا کہ لوگ ایک عظیم خبر کے متعلق‘ جس کے بارے میں یہ باہم اختلاف کر رہے ہیں‘ ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں‘ یعنی قیامت‘ اس کے وقوع اور حق ہونے کے بارے میں کچھ لوگوں کو اختلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: عنقریب قیامت برپا ہوگی تو انہیں معلوم ہو جائے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فیصلے کے دن کا وقت مقرر ہے اور پھر علاماتِ قیامت کا بیان فرمایا۔ اس کے بعد جہنمیوں کے لیے عذاب اور اہلِ تقویٰ کیلئے انعامات کا بیان ہوا۔ سورۃ النازعات میں بتایا کہ موت کے فرشتے جہنمیوں کی روح نہایت سختی سے نکالتے ہیں اور اہلِ ایمان کی روح کو نہایت نرمی سے‘ اس کے بعد فرشتوں کا ذکر ہے کہ جنہیں کارخانۂ قدرت کے معاملات کی تدبیر تفویض کی جاتی ہے‘ پھر اس امر کا بیان ہے کہ فرعون نے اپنے آپ کو ''ربِ اعلیٰ‘‘ قرار دیا‘ یعنی خدائی کا دعویٰ کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے عذاب دے کر درسِ عبرت بنا دیا۔ اس سورت میں حیات بعد الموت کے منکرین کے اس اشکال کا جواب دیا کہ ایک بار مر جانے کے بعد دوبارہ کون زندہ کرے گا؟ اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کی تخلیق کا حوالہ دے کر فرمایا کہ دوبارہ پیدا کرنا دشوار ہے یا اتنے بڑے نظامِ کائنات کو جو تمہارے سامنے ہے‘ قائم کرنا؟ سورۃ التکویر میں بھی علاماتِ قیامت کا ذکر ہے کہ سورج کی بساطِ نور کو لپیٹ دیا جائے گا‘ ستارے جھڑ جائیں گے‘ پہاڑ چلائے جائیں گے‘ دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں بے کار چھوڑ دی جائیں گی‘ وحشی جانور جمع کیے جائیں گے‘ سمندر بھڑکائے جائیں گے‘ جانیں ایک بار پھر جسموں سے ملا دی جائیں گی‘ اعمال کے صحیفے پھیلا دیے جائیں گے‘ دوزخ بھڑکائی جائے گی‘ جنت قریب کر دی جائے گی اور ہر شخص جان لے گا کہ اس نے اپنی آخرت کیلئے کیا ذخیرہ عمل آگے بھیجا ہے۔ اس کے بعد سورۃ الانفطار میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر بندے کے نامۂ اعمال کو لکھنے کیلئے فرشتے مقرر کر رکھے ہیں‘ جنہیں ''کراماً کاتبین‘‘ (معزز لکھنے والے) کہا گیا ہے اور بندہ جو بھی عمل کرتاہے‘ وہ جانتے ہیں ۔ سورۃ المطففین: ''تطفیف‘‘ کے معنی ناپ تول میں کمی کرنے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ناپ تول میں کمی کرنے والوں کیلئے شدید عذاب ہے کہ جب وہ لوگ دوسروں سے لیتے ہیں تو پورا پورا ناپ کر لیتے ہیں اور جب دوسروں کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کمی کر دیتے ہیں‘ یعنی ڈنڈی مار تے ہیں۔ فرمایا کہ کافروں کا نامۂ اعمال ''سجین‘‘ میں ہے جو مہر لگایا ہوا صحیفہ ہے۔ نیکوکاروں کا صحیفۂ اعمال ''علیین‘‘ میں ہو گا‘ یہ بھی ایک مہر بند صحیفہ ہے جس پر اللہ کے مقرب بندے گواہ ہیں۔ سورۃ الانشقاق میں بھی آثار واحوالِ قیامت کا بیان ہے اور یہ کہ قیامت کے دن جس کا صحیفۂ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا‘ اُس کا اخروی حساب بہت آسان ہو گا اور وہ اپنے اہل کی طرف خوشی خوشی لوٹے گا اور جس کا نامۂ اعمال پیٹھ پیچھے سے دیا جائے گا‘ وہ کہے گا: کاش کہ مجھے موت آ جائے اور اسے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونک دیا جائے گا۔ سورۃ البروج میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اللہ عزیز و حمید پر ایمان لانے کی پاداش میں ''اصحابِ اخدود‘‘ (خندقوں والے) کو اس طرح قتل کیا گیا کہ انہیں بھڑکتی آگ میں ڈال دیا گیا‘ ان اہلِ حق کی تفصیلات کتبِ تفسیر میں موجود ہیں۔
سورۃ الطارق میں انسان کو اس کے مادۂ تخلیق اور کیفیتِ تخلیق کی جانب متوجہ فرمایا اور فرمایا: جس دن چھپی باتیں ظاہر کر دی جائیں گی‘ اس وقت اللہ کے سوا نہ کوئی مدد گار ہوگا اور نہ کسی کے پاس طاقت ہو گی۔ سورۃ الاعلیٰ کے آخر میں فرمایا؛ جس نے اپنا باطن صاف کرلیا اور اپنے رب کا نام لے کر نماز پڑھی وہ کامیاب ہوا۔ سورۃ الغاشیہ کے شروع میں ان لوگوں کے انجام کا ذکر ہے‘ جو آخرت میں عذاب سے دوچار ہوں گے‘ اس کے بعد ان خوش نصیب مومنوں کا ذکر ہے جنہیں اخروی نعمتوں سے سرفراز کیا جائے گا اور پھر اللہ تعالیٰ کی شانِ تخلیق کا ذکر ہے۔ سورۃ الفجر میں قومِ عاد‘ ثمود اور فرعون کا ذکر ہے‘ ان اقوام نے طاقت کے زعم میں آکر سرکشی اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب کے کوڑے برسائے‘ پھر فرمایا کہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے‘ ایک دوسرے کو یتیم کے کھلانے کی ترغیب نہیں دیتے‘ وراثت میں ملا ہوا سارے کا سارا مال ہڑپ کر جاتے ہو‘ تمہیں مال سے بے پناہ محبت ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ آخرت میں اس مال کی ناپائیداری کا احساس ہوگا‘ انسان پچھتائے گا مگر یہ پچھتاوا کچھ کام نہیں آئے گا۔ آخری آیت میں فرمایا کہ ''نفسِ مطمئنہ‘‘ یعنی اعلیٰ درجے کے ایمان کے حاملین کا وفات کے وقت اعزاز واکرام کے ساتھ استقبال کیا جائے گا۔ سورۃ البلد میں فرمایا کہ ہم نے انسان کو دیکھنے کیلئے دو آنکھیں‘ بولنے کیلئے زبان اور دو ہونٹ عطا کیے اور نیکی اور بدی کا شعور عطا کیا۔ سورۃ اللیل میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان کی جدوجہد دو مختلف سمتوں میں جاری رہتی ہے‘ ایک طبقہ وہ ہے کہ اللہ کے عطا کردہ مال میں سے اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے ‘ تقویٰ پر کاربند رہتا ہے اور نیک باتوں کی تصدیق کرتا ہے تو ہم اس کیلئے آسانی‘ یعنی جنت تک رسائی کی منزل آسان کر دیں گے۔ دوسرا طبقہ وہ ہے کہ جو اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے بخل کی وجہ سے خرچ نہیں کرتا‘ وہ دولت کی فراوانی میں مست ہوکر اللہ سے بے پروا ہو جاتا ہے اور نیک باتوں کو جھٹلاتا ہے تو اس کیلئے ہم مشکل منزل یعنی دوزخ کا راستہ آسان کر دیتے ہیں۔ سورۃ الضحیٰ سیدالمرسلینﷺ کی عظمت کو بیان کر رہی ہے۔ اللہ عزوجل نے فرمایا کہ اے رسولِ مکرمﷺ! آپ کے رب نے نہ آپ کو چھوڑا ہے‘ نہ آپ سے وہ ناراض ہوا ہے‘ آپ کی ہر آنے والی ساعت آپ کی پہلی ساعت سے بہترہو گی اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔
سورۃ الانشراح میں رسولﷺ کے شرحِ صدر کا ذکر ہے۔ اِس میں ایک آیت رفعتِ شانِ مصطفیﷺ کیلئے غیر معمولی عطائے ربانی ہے کہ اللہ نے فرمایا ''اور ہم نے آپ کے لیے آپ کا ذکر بلند کر دیا ہے‘‘۔ سورۃ التین میں فرمایا ''بے شک ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیا اور پھر اُس کو سب سے نچلے طبقے میں لوٹا دیا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں تقرب اور عِزّو شرف کامدار انسان کی ظاہری صورت پر نہیں بلکہ ایمان و عمل پر ہے۔ سورۃ العلق کی پہلی پانچ آیات وہ پہلی وحیٔ ربانی ہے‘ جو غارِ حرامیں سید المرسلینﷺ پر نازل ہوئی اور آپﷺ کی نبوت کا اعلان ہوا۔ سورۃ القدر شبِ قدر کی فضیلت میں نازل ہوئی۔ اسے ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا۔ شبِ قدر کو قطعیت کے ساتھ متعین نہیں فرمایا تاکہ بندوں کے ذوق اور خیر کی جستجو کا امتحان ہو۔ سورہ زلزال میں قیامت کا منظر بیان کیاگیا کہ زمین کے سینے میں جو بھی راز چھپے ہیں‘ وہ سارے اگل دے گی یا جو بھی میتیں مدفون ہیں‘ اُنہیں نکال باہر کرے گی اور ہر ایک اپنی معمولی سے معمولی نیکی یا بدی کا انجام دیکھ لے گا۔ سورۃ العادیات میں اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کے گھوڑوں کی مختلف کیفیات کو قسم کے ساتھ بیان فرمایا۔ سورۂ تکاثر میں بتایا کہ زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کی خواہش نے انسان کو اللہ سے غافل کر دیا مگر جب قبروں میں پہنچیں گے تو اس کا انجام معلوم ہوجائے گا۔ سورۃ العصر میں بتایا کہ انسان خسارے میں ہے اور اس سے نکلنے کی صورت صرف یہی ہے کہ ایمان لائیں، عملِ صالح کریں اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی وصیت کریں۔ سورۃ الھمزہ میں اللہ تعالیٰ نے طعنہ زنی اور عیب جوئی کی شدید مذمت فرمائی اور بتایا کہ ایسے لوگوں کا انجام اللہ کی بھڑکائی ہوئی ایسی آگ ہے جو چورا چورا کر دے گی۔ سورۃ الماعون میں اللہ تعالیٰ نے یتیم کے ساتھ ناروا سلوک اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہ دینے جیسے مذموم عمل کو قیامت کے جھٹلانے سے تعبیر کیا اور نمازوں میں ریاکاری کی مذمت بیان فرمائی ۔ سورۃ الکوثرمیں اللہ عزوجل کی جانب سے رسول اللہﷺ کو کوثر عطاکیے جانے کا ذکر ہے، اس سے مراد خیرِ کثیر ہے‘ جس کا ایک حصہ حوضِ کوثر بھی ہے جہاں محشر میں رسول اللہﷺ اہلِ ایمان کو سیراب کریں گے۔ سورۃ الکافرون میں یہ پیغام دیاگیا کہ حق اور باطل میں کوئی مفاہمت نہیں ہو سکتی۔ سورۃ النصر میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت سے اسلام کی فتح کو اپنی نعمت کے طور پر بیان کیا۔ سورۃ الاخلاص میں اللہ تعالیٰ کی توحیدِ خالص کا بیان ہے کہ وہ بے نیاز ہے، ابنیت اور اُبوّت کی نسبت سے پاک ہے اور اُس کاکوئی ہمسر نہیں۔ سورۃ الفلق اور سورۃ الناس میں اللہ تعالیٰ نے تعلیم فرمائی کہ اس کی مخلوق کے شر، ہر قسم کی ظلمت کے شر، جادوگروں کے شر، حاسدین کے شر، چھپ کر وسوسے ڈالنے والوں کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی جائے اور بتایا کہ انسانوں کو بہکانے والے، وسوسے اور توہمات میں ڈالنے والے جن بھی ہوتے ہیں اور انسان بھی۔ رسول اللہﷺ کا معمول تھاکہ آپ صبح و شام ان آخری تین سورتوں کی تلاوت فرماکر اپنے ہاتھوں پر دَم فرماتے اور پھر ہاتھوں کو اپنے سر اور چہرۂ مبارک اور پورے بدنِ مبارک پر پھیر دیتے اور یہ عمل آپ تین مرتبہ فرماتے۔

تیسویں پارے میں چونکہ سورتوں کی تعداد زیادہ ہے اس لیے تمام سورتوں پر گفتگو نہیں ہو سکے گی بلکہ پارے کے بعض اہم مضامین کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی۔
سورۂ نباء: تیسویں پارے کا آغاز سورۂ نباء سے ہوتا ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کی گھڑیوں کا ذکر کیا ہے کہ قیامت کی آمد ایک بہت بڑی خبر ہو گی کیونکہ اس کی آمد سے قبل بہت سے لوگوں کو اس کے واقع ہونے کے بارے میں شبہات اور اختلافات تھے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے جہنمیوں کی سزا کا بھی ذکر کیا کہ وہ کس طرح صد ہا ہزار سال جہنم کی قید میں پڑے رہیں گے۔
سورۃالنازعات
اس کے بعد سورۂ نازعات ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں پروردگارِ عالم ارشاد فرماتے ہیں: جو اپنے پروردگار کے مقام سے ڈر گیا اور اس نے اپنے آپ کو خواہش سے بچا لیا تو اس کا ٹھکانہ جنت ہے۔ بنیادی طور پر انسان کی ہلاکت کا بڑا سبب اس کی خواہشات ہی ہوتی ہیں‘ اگر وہ اپنی خواہشات پر قابو پا لے تو وہ یقینا کامیاب اور کامران ہو سکتا ہے۔
سورۂ عبس
سورۂ نازعات کے بعد سورۂ عبس ہے۔ سور ۂ عبس میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کی گھڑیوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ جب قیامت کا دن آئے گا تو بھائی اپنے بھائی سے دوڑے گا اور بیٹا اپنے والدین سے دوڑے گا اور بیوی اپنے شوہر سے بھاگے گی اور والدین اپنے بیٹے سے بھاگیںگ ے۔ ہر کسی کی خواہش ہو گی کہ وہ آگ سے کسی بھی طور پر بچ جائے چاہے اس کے بدلے کسی دوسرے عزیز کو پکڑ لیا جائے۔
سورۃالتکویر
اس کے بعد سورۂ تکویر ہے۔ سورۃ التکویرمیں اللہ تعالیٰ نے قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا ہے کہ قرآنِ مجید کل کائنات کے ان لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو صراطِ مستقیم پر چلنا چاہتے ہیں۔ اور کوئی بھی انسان اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر صراطِ مستقیم پر گامزن نہیں ہو سکتا ۔
سورۃ الانفطار
سورۂ تکویر کے بعد سورۂ انفطار ہے۔ سورۃ الانفطار میں اللہ تعالیٰ نے جہاں قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر کیا ہے وہیں دنیا میں انسانوں کے حساب و کتاب کو نوٹ کرنے والے فرشتوں کا بھی ذکر کیا جن کو کراماً کاتبین کہا جاتا ہے۔ کراماً کاتبین انسانوں کے عمل کو نوٹ کرتے ہیں اور یہی اعمال نامہ قیامت کے دن انسانوں کو پیش کیا جائے گا۔
سورۃ المطففین
سورۂ انفطار کے بعد سورۂ مطففین ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو اپنے حق میں تو ترازو کو پوری طرح استعمال کرتے ہیں لیکن دوسروں کے لیے ترازو میں کمی کرتے ہیں۔ قیامت کے دن ایسے لوگوں کو تباہی اور بربادی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سورۃ الانشقاق
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے کہ انسان محنت و مشقت کا خوگر ہے اور اس کو چاہیے کہ اپنے پروردگار کے لیے محنت کرے جس سے اس نے ملاقات کرنی ہے۔ اگر انسان اپنے پروردگار کے لیے محنت کرے گا تو اس کو آسان حساب کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ اپنے اہل خانہ کی طرف مسرت کے ساتھ پلٹے گا۔
سورۃ البروج
اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اخدود کی بستی کا ذکر کیا کہ جنہوں نے ایک صاحبِ ایمان بچے کی دعوتِ تبلیغ کی وجہ سے اسلام قبول کر لیا تھا مگر اسلام قبول کرنے کی پاداش میں ان کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور وہاں کے بے دین بادشاہ نے خندقیں کھود کر ان تمام افراد کو خندقوں میں جلا دیا تھا۔ بستی کے اہلِ ایمان افراد نے ہر طرح کی اذیت کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا لیکن دعوتِ توحید سے دستبردار ہونا گوارا نہیں کیا۔
سورۃ الطارق
اس کے بعد سورۂ طارق ہے۔ سورۂ طارق میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کا ذکر کیا کہ کس طرح انسان کو پانی کے معمولی قطرے سے اللہ تعالیٰ نے تخلیق کیا اور جو اللہ تعالیٰ انسان کو پانی کے معمولی قطرے سے پیدا کر سکتا ہے وہ انسان کو اس کی موت کے بعد بھی آسانی سے زندہ کر سکتا ہے ۔ اس لیے انسان کو اپنی حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
سورۃ الاعلیٰ
سورۃ الا علیٰ میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا کہ لوگوں کی نگاہ تو دنیا کی زندگی پر ہوتی ہے لیکن حقیقی اور باقی رہنے والی زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔ اس حقیقت کو صرف اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ہی بیان نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے یہ تمام حقائق ابراہیم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے صحیفوں میں بھی بیان فرما دیے ہیں۔
سورۃ الفجر : اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے سابقہ اقوام کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ جب قیامت کا دن آئے گا تو اللہ تعالیٰ مومن کو مخاطب ہو کر کہیں گے: اے مطمئن جان! اپنے پروردگار کی طرف راضی ہو کر پلٹ جا اور میرے بندوں اور میری جنت میں داخل ہو جا۔
سورۃ البلد : سورۃ البلد میں اللہ تعالیٰ نے انسان پر اپنے انعامات کا ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو دو آنکھیں، زبان اور دوہونٹ عطا فرمائے اور اس کی رہنمائی دو راستوں کی طرف کی ہے۔ اب اس کی مرضی ہے کہ وہ کس راستے کا انتخاب کرتا ہے۔ جو صحیح راستے پر چلے گا جنت میں جائے گا اور جو غلط راستہ اختیار کرے گا تو وہ جہنمی ہو گا۔
سورۃ الشمس: اس کے بعد سورۂ شمس ہے اور اس سورت میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نفس کو تخلیق کیا اور اس میں نیکی اور برائی کی سمجھ کو الہام کر دیا تو جو اپنے نفس کو نیکی کے راستے پر چلائے گا وہ جنتی ہو گا اور جو اپنے نفس کو آلودہ کرے گا‘ وہ تباہ و برباد ہو جائے گا۔
سورۃ اللیل
سورۂ لیل میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ جس نے صدقہ دیا اور نیکی کی تائید کی اس کے لیے اللہ تعالیٰ آسان راستے کو ہموار کر دیں گے اور جس نے بخل کیا اور اچھی بات کی تکذیب کی اللہ تعالی اس کے لیے مشکل راستے یعنی جہنم کے راستے کو ہموار کر دیں گے۔
اس کے بعد سورۂ ضحی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کی تلقین کی ہے کہ پروردگار کی نعمتوں کا اعتراف کرنا چاہیے اور ان کا اظہار بھی کرنا چاہیے۔ اس کے بعد سورۂ الم نشرح ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہر تنگی کے بعد آسانی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس امر کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے رسو ل اللہﷺ کے تذکروں کو بلند کر دیا ہے۔ اس کے بعد سورۃ التین ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ فر ماتے ہیں کہ انہوں نے انسانوں کو بہترین تقویم میں پیدا کیا مگر جو لوگ ایمان اور اعمالِ صالح کے راستے سے ہٹ گئے ان کو اللہ تعالیٰ نے بدترین مخلوق میں تبدیل کردیا۔ سورۃ التین کے بعد سورۃ العلق ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں حبیبﷺ کو اپنے پروردگار کے نا م سے پڑھنے کا حکم دیا کہ اس نے انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ سورۂ علق کے بعد سورۃ القدر ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کو قدر والی رات میں نازل کیا اور قدر والی رات ہزار مہینوں سے زیادہ فضیلت کی حامل ہے اوراس رات میں جبریلؑ امین ہر امر کا فیصلہ لے کر فرشتوں کے ساتھ نازل ہو تے ہیں اور یہ رات طلوع فجر تک سلامتی والی رات ہے۔ اس کے بعد سورۃ العصر ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے زمانے کی قسم اٹھا کر انسان کو ناکام کہا ہے کہ ہر انسان نا کام ہے سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے ایمان اور عمل صالح کو اختیار کیا اور جو حق بات اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔ سورۃ العصر کے بعد ایک اہم سورہ‘ سورۃ الکوثر ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو حوضِ کوثر کی بشارت دی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتلایا ہے کہ آپ کا دشمن بے نام و نشان رہے گا۔ ان کے بعد آخری تین قل نہایت اہم ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی پناہ طلب کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآنِ مجید پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے، آمین!

سورۃ الملک : حدیث پاک میں سورۃ الملک کے بڑے فضائل بیان کیے گئے ہیں‘ اسے ''المنجیہ‘‘ (نجات دینے والی) اور ''الواقیاہ‘‘ (حفاظت کرنے والی) کہا گیا‘ اس سورۂ مبارکہ کی تلاوت عذابِ قبر میں تخفیف اور نجات کا باعث ہے‘ اس کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے موت وحیات کی حکمت بیان فرمائی کہ اس کا مقصد بندوں کی آزمائش ہے کہ کون عمل کے میزان پر سب سے بہتر ثابت ہوتا ہے۔ اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اوپر تلے سات آسمانوں کی تخلیق کو اپنی قدرت کی نشانی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کی تخلیق میں تمہیں کوئی عیب یا نقص نظر نہیں آئے گا‘ ایک بار پھر نظر پلٹ کر دیکھ لو‘ کیا اس میں تمہیں کوئی شگاف نظر آتا ہے‘ پھر بار بار نظر اٹھا کر دیکھ لو (اللہ کی تخلیق میں کوئی عیب یا جھول تلاش کرنے میں) تمہاری نظر تھک ہار کر ناکام پلٹ آئے گی۔ آسمانِ اول کے نیچے لاتعداد چمکتے تاروں کو اللہ نے قمقموں سے تعبیر فرمایا۔
سورۃ القلم :اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے قلم اور کارکنانِ قضا وقدر کے نوشتوں کی قسم فرما کر کفار کے الزامات سے اپنے رسولِ مکرمﷺ کا دفاع فرمایا کہ اپنے رب کے فضل سے آپ مجنون نہیں ہیں اور آپﷺ کیلئے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے اور آپﷺ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں‘ عنقریب آپ دیکھ لیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ حقیقت میں کون مجنون تھا۔ عام اصول یہ ہے کہ جس پر الزام ہو‘ وہ اپنی صفائی پیش کرتا ہے‘ لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ اعزاز عطا فرمایا کہ آپﷺ پر کفار ومشرکین کی جانب سے جو الزام لگائے جاتے رہے‘ اللہ تعالیٰ نے آیاتِ قرآنی میں ان کا ردّ فرمایا۔
سورۃ الحاقہ : اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں قیامت کے حق اور یقینی ہونے کو بیان کیا گیا ہے‘ پھر قومِ ثمود و عاد اور فرعون پر نازل ہونے والے عذاب کا ذکر ہے۔ آیت 19سے بتایا کہ قیامت میں جس کا نامۂ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا‘ یہ اس کے سرخرو ہونے کی علامت ہو گی اور وہ افتخار کے ساتھ لوگوں سے کہے گا: آؤ میرا نامۂ اعمال پڑھو۔ اس کے برعکس جس کا نامۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا‘ یہ اس کی رسوائی کی علامت ہو گی اور وہ کہے گا کہ کاش مجھے میرا نامۂ اعمال دیا ہی نہ جاتا اور موت کے ساتھ ہی میرا قصہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکا ہوتا۔ انہی آیات میں صالحین کے لیے جنت کی نعمتیں اور منکرین کے لیے اخروی عذاب کا بیان ہے۔
سورۃ المعارج : اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں عذابِ قیامت کے بارے میں ایک بار پھر بیان ہے کہ حشر کا ایک دن پچاس ہزار سال کے برابر ہو گا‘ آسمان پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوجائے گا‘ پہاڑ دُھنکی ہوئی رنگین اون کی طرح ہو جائیں گے اور کوئی کسی کا پرسانِ حال نہ ہو گا‘ اس وقت مجرم یہ تمنا کرے گا کہ بیوی‘ بھائی اور رشتے دار‘ سب کو اپنا فدیہ دے کر اپنی جان چھڑا لے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اہلِ حق‘ ان کی اعلیٰ صفات اور اُخروی جزا کا بیان ہے۔ اس امر کا بھی بیان ہے کہ قرآن نہ کسی شاعر کا بیان ہے اور نہ کسی کاہن کا کلام‘ یہ صرف اور صرف اللہ کا کلام ہے۔
سورۂ نوح : حضرت نوح علیہ السلام اللہ کی بارگاہ میں فریاد کرتے ہیں کہ میں نے اپنی قوم کو شب و روز دعوتِ حق دی مگر ان کی سرکشی میں اضافہ ہی ہوتا رہا اور جب بھی میں انہیں دعوتِ حق دیتا تو وہ قبولِ حق سے انکار کے لیے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے اور ضد اور تکبر میں اپنے آپ کو کپڑوں سے ڈھانپ لیتے۔ جب نوح علیہ السلام جماعتِ انبیاء میں طویل ترین عرصۂ تبلیغ گزارنے کے بعد قوم کے ایمان سے مایوس ہوئے تو انہوں نے ان کیلئے دعائے عذاب کی کہ اے اللہ ان کا نام ونشان مٹا دے اور اسی موقع پر اپنے لیے‘ اپنے والدین کے لیے اور جملہ مومنین اور مومنات کے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔
سورۃ الجن : اس سورت میں اس امر کا بیان ہوا کہ جنات عالَم بالا میں خبروں کی سن گن لینے کے لیے جایا کرتے تھے‘ مگر اب وہ وقت آ گیا تھا کہ عالَم بالا میں ان کا داخلہ بند ہوگیا اور جو بھی جاتا محافظ ان کا راستہ روک لیتے اور آگ کے گولے ان پر برسائے جاتے۔ جنات نے مشورہ کیا کہ پورے روئے زمین کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ آخر یہ سارا منظر کیوں تبدیل ہوگیا‘ ضرور کوئی بڑی تبدیلی آئی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان کی ایک جماعت تہامہ (مکہ) کی طرف گئی اور وہاں نبی کریمﷺ عکاظ کے بازار میں اپنے اصحاب کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے۔ جب انہوں نے قرآن کو سنا تو کہا: یہی وہ چیز ہے جو ہمارے اور آسمان کے درمیان حائل ہو گئی ہے اور پھر انہوں نے جا کر اپنی قوم کو بتایا کہ ہم نے عجب قرآن سنا ہے جو راہِ ہدایت کی طرف رہنمائی کرتا ہے‘ ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم ہرگز اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے‘ بے شک ہمارے رب کی شان بلند ہے اور اس کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ بیٹا۔ انہوں نے کہا کہ ہم میں سے کچھ اطاعت گزار ہیں اور کچھ سرکش ہیں اور جنات کا سرکش گروہ جہنم کا ایندھن بنے گا۔
سورۃ المزمل : اس سورۂ مبارکہ میں محبت کے انداز میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو ان کی ایک خاص ادا کے ساتھ مخاطَب فرمایا کہ ''اے چادر اوڑھنے والے!‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کے ''قیام اللیل‘‘ کا بیان فرمایا‘ قرآن کے اندازِ بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ساری ساری رات قیام فرماتے تھے‘ تو اللہ نے فرمایا: آپ رات کو نماز میں قیام کریں‘ مگر تھوڑا‘ آدھی رات یا اس سے کچھ کم کر لیں یا اس پر کچھ اضافہ کر دیں اور قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں۔ یہ بھی فرمایا کہ: رات کو اٹھنا نفس پر سخت بھاری ہے اور کلام کو درست رکھنے والا ہے۔ نیز فرمایا کہ آپﷺ اپنے رب کے نام ذکر کرتے رہیں اور سب سے منقطع ہوکر اسی کے ہو رہیں۔ دوسرے رکوع میں پھر فرمایا کہ آپ کا رب جانتاہے کہ آپ (کبھی) دو تہائی رات کے قریب قیام کرتے ہیں اور کبھی آدھی رات تک اور کبھی تہائی رات تک اور آپﷺ کے ساتھ صحابہ کی ایک جماعت بھی مصروفِ عبادت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تکرار کے ساتھ فرمایا کہ جتنا آسانی سے قرآن پڑھ سکتے ہیں‘ پڑھ لیا کریں۔ علمائے کرام نے فرمایا کہ یہ تہجد کے بارے میں ہے اور آپﷺ پر نمازِتہجد فرض یا واجب تھی۔
سورۃ المدثر : اس سورۂ مبارکہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو شانِ محبوبی کے ساتھ خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ''اے چادر لپیٹنے والے‘ اٹھئے اور لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیے اور اپنے رب کی کبریائی کا اعلان کیجئے‘‘۔ آیت 42 میں فرمایا: جہنمیوں سے پوچھا جائے گا کہ تمہارے جہنم میں جانے کا سبب کیا بنا‘ تو وہ کہیں گے ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے‘ ہم مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے اور ہم لغو کاموں میں مشغول رہتے تھے اور ہم قیامت کے دن کو جھٹلاتے تھے کہ موت سر پہ آ گئی۔
سورۃ القیامۃ: ان لوگوں کے بارے میں جو آخرت کے منکر ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے نفس لوامہ (اپنے اوپر ملامت کرنے والے نفس) کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا: کیا انسان نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ہم مرنے کے بعد اس کی ہڈیوں کو جمع نہیں کریں گے‘ کیوں نہیں‘ ہم اس بات پر بھی قادر ہیں کہ ان کی انگلیوں کے پور جیسے پہلے تھے‘ ویسے ہی بنا دیں۔ آیت 16سے فرمایا: (اے رسول!) وحیِ ربانی کو جلد یاد کرنے کے شوق میں آپ اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کیجئے‘ اس قرآن کو جمع کرنا اور آپ کی زبان پر جاری کرنا ہمارے ذمۂ کرم پر ہے‘ سو جب ہم (یعنی ہمارا بھیجا ہوا فرشتہ) پڑھ لیں تو آپ اس پڑھے ہوئے کی اتباع کریں‘ پھر اس کا (معنی) بیان کرنا بھی ہمارے ذمہ ہے۔
سورۃ الدھر: اس سورۂ مبارکہ میں انفاق فی سبیل اللہ‘ مسکین ‘ یتیم اور اسیر (قیدی) کو کھانا کھلانے کی نیکی کو اپنے بندوں کے وصفِ کمال کے طور پر بیان کیا ہے۔
سورۃ المرسلات : اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں آثارِ قیامت کا ذکر ہے اور فرمایا گیا ہے کہ اس دن قیامت کو جھٹلانے والوں کیلئے ہلاکت ہے اور آخر میں ایک بار پھر اہلِ تقویٰ کیلئے اجرِ آخرت اور اُخروی نعمتوں کی بشارت ہے۔

سورۃ المُلک: انتیسویں پارے کا آغاز سورۃالملک سے ہوتا ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں حکومت ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انہوں نے زندگی اور موت کو اس لیے بنایا تاکہ جان لیں کہ کون اچھے عمل کرتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی قوتِ تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اس نے سات آسمان بنائے اور اس نے اس انداز میں ان کو بنایا کہ اس کی تخلیق میں کسی بھی قسم کی کوئی کمزوری نظر نہیں آتی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انہوں نے آسمانِ دنیا کو ستاروں کے چراغوں سے مزین کیا اور یہ شیطانوں کو مارنے کے بھی کام آتے ہیں۔
سورۃ القلم
سورۂ ملک کے بعد سورۃ القلم ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا ذکر فرمایا کہ رسول اللہﷺ کا اخلاق عظیم ہے۔ رسول کریمﷺ نے خود بھی اعلان فرمایا کہ مجھے مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہے۔ کسی نے حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہﷺ کا اخلاق کیسا تھا؟ تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ آپﷺ کا اخلاق قرآنِ پاک تھا ‘یعنی جو کچھ قرآنِ مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپﷺ پر نازل فرمایا‘ آپ ﷺ ساری زندگی اسی پر عمل پیرا رہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک سخی اور نیک زمیندار کا بھی ذکر کیا کہ وہ اپنے باغات کی آمدنی میں سے اللہ تعالیٰ کے حق کو احسن طریقے سے ادا کیا کرتا تھا‘ جب اس کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹوں نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ وہ فصلوں کی کٹائی میں سے کسی بھی غریب کو کچھ ادا نہ کریں گے۔ جب فصلوں کی کٹائی کا وقت آیا تو وہ صبح سویرے نکلے تاکہ راستے میں ان کو کوئی مسکین نہ مل جائے۔ جب وہ باغ میں پہنچے تو کیا دیکھا کہ وہاں پر کھیت یا باغ نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی‘ ان کو شک ہوا کہ شاید وہ راستہ بھول گئے ہیں لیکن اچھی طرح غور کرنے کے بعد وہ سمجھ گئے کہ وہ راستہ نہیں بھولے‘ بلکہ حقیقتاً ان کا باغ اجڑ چکا تھا۔ یہ واقعہ اس امر کی دلیل ہے کہ جب مال کو راہِ خدا میں خرچ نہ کیا جائے تو اس مال کے ضائع ہونے کے خدشات پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ کافر رسول کریمﷺ پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں‘ جب وہ قرآنِ پاک کو سنتے ہیں تو (نعوذ باللہ) آپﷺ کو مجنون کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ آپﷺ کو اپنی نگاہوں سے گرانا چاہتے ہیں‘ اس لیے آپ کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے ہیں؛ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآنِ مجید تمام جہانوں کے لیے نصیحت ہے۔
سورۃ الحاقہ
سورۃ القلم کے بعد سورۃ الحاقہ ہے اور الحاقہ سے مراد حقیقت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورۂ مبارکہ میں قیامت کو حقیقت کے نام سے پکارا ہے اور اس حقیقی کھڑکھڑاہٹ کو جھٹلانے والوں کے انجام سے آگاہ کیا ہے۔ اس سورت میں قومِ ثمود اور قومِ عاد کے انجام سے آگاہ کیا گیا‘ جنہوں نے قیامت کو جھٹلایا تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قوم ثمود کو ایک چیخ کے ذریعے اور قوم عاد کو تیز ہوا کے ذریعے ہلاک کر دیا تھا۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبیﷺ کے بارے میں کافروں کے اقوال کو نقل کر کے ان کی تردید کی ہے۔ کافر رسول اللہﷺ کو (نعوذ باللہ) شاعر اور کاہن کہتے تھے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو کچھ بھی آپﷺ پر اترا ہے‘ پروردگارِ عالم نے اتارا ہے اور اس میں جھوٹ والی کوئی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات پر جھوٹ باندھنے والے کو کبھی فلاح نہیں دیتے‘ جبکہ اللہ کے حبیبﷺ کے تذکروں کو اللہ تعالیٰ نے رہتی دنیا تک جاری و ساری فرما دیا ہے۔
سورۃ المعارج
سورۃ الحاقہ کے بعد سورۃ المعارج ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کا ذکر کیا ہے کہ اس کی طوالت پچاس ہزار برس کے برابر ہو گی‘ وہ دن ایسا ہو گا کہ ہر مجرم کی خواہش ہو گی کہ اپنا آپ چھڑوانے کے لیے اپنے بیٹے کو پیش کر دے یا اپنی بیوی اور اپنے بھائی کو پیش کر دے یا زمین میں جو کچھ ہے‘ اس کو بطورِ فدیہ دے دے۔ اس دن جو لوگ عذاب سے بچیں گے ان کے اوصاف بھی اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو اپنی پاکدامنی کا تحفظ کرنے والے ہوں گے۔ یہ لوگ امانتوں اور وعدوں کی پاسداری کرنے والے ہوں گے‘ یہ لوگ حق کی گواہی پر قائم رہنے والے ہوں گے اور نماز کی حفاظت کرنے والے ہوں گے۔ یہی لوگ جنتوں کے حقدار ٹھہریں گے۔
سورۂ نوح
سورۃ المعارج کے بعد سورۂ نوح ہے۔ سورۂ نوح میں اللہ تعالیٰ نے جنابِ نوح علیہ السلام کی دین کے لیے محنت کا ذکر کیا کہ جناب نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کے لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے رہے انہوں نے صبح و شام پوری تندہی سے اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کی اور اپنی قوم کے لوگوں کو یہ بات سمجھائی کہ وہ پروردگار سے استغفار کیا کریں‘ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اللہ تعالیٰ بارشوں کو ان کے لیے سود مند بنا کر نازل فرمائے گا اور ان کے مال اور بیٹوں میں بھی اضافہ کرے گا اور ان کے لیے نہروں کو جاری کر دے گا اور باغات کو آباد کر دے گا۔
سورۃ الجن
سورۂ نوح کے بعد سورۃالجن ہے۔ سورۂ جن میں اللہ تعالیٰ نے جنات کی ایک جماعت کے قبولِ اسلام کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے قرآنِ مجید کی تلاوت کو سنا تو کہنے لگے کہ قرآن کیا خوبصورت کلام ہے‘ ہدایت کی طرف رہنمائی کرتا ہے‘ پس ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور ہم اپنے پروردگار کے ساتھ شرک نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پروردگار کا مقام بہت بلند ہے‘ نہ اس کی کوئی بیوی ہے اور نہ ہی کوئی بیٹا۔ انہوں نے قرآنِ مجید کے نزول کے بعد اپنی قوم کے لوگوں کو بھی توحید کی دعوت دی؛ چنانچہ انسانوں کی طرح جنات کی بھی ایک جماعت اہلِ توحید میں شامل ہو گئی۔
سورۃالمزمل
سورۂ جن کے بعد سورۃ المزمل ہے۔ سورۂ مزمل میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے حبیبﷺ کو کہا کہ وہ پوری رات عبادت نہ کیا کریں بلکہ نصف رات اس سے کچھ زیادہ یا کم‘ عبادت کیا کریں۔ اس لیے کہ انہوں نے دن کو بھی بہت سے کام انجام دینا ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا نام وقفے وقفے سے لیتے رہا کریں۔ رسول اللہﷺ اللہ کی محبت کے سبب عبادت میں بہت زیادہ محو ہو گئے تو اللہ نے پیار سے اپنے حبیبﷺ کو بتلایا کہ آپ پر اپنی جان‘ اہل و عیال اور سماج کا بھی حق ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ قرآنِ مجید جس حد تک ممکن ہو‘ ضرورپڑھنا چاہیے۔
سورۃ المدثر
اس کے بعد سورۂ مدثر ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے انجامِ بد کا ذکر کیا جو قرآنِ مجید کو غرور کی وجہ سے جھٹلاتے ہیں ان کو جہنم کا مزہ چکھنا پڑے گا۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے جہنم کے پہریدار فرشتوں کی تعداد انیس بتلائی ہے اور جہنم میں لے کر جانے والے بڑے بڑے گناہوں میں‘ نمازمیں کوتاہی اور مساکین کو کھانا نہ کھلانے کا بھی ذکر کیا ہے۔
سورۃ القیامہ
سورۂ مدثر کے بعد سورۃ القیامہ ہے جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے قیامت کی گھڑیوں کا ذکر کیا کہ یقینا قیامت آئے گی اور کافر جو اللہ کے بارے میں یہ گمان کرتا ہے کہ وہ ہڈیوں کو دوبارہ کیسے بنائے گا تو اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہمارے لیے انگلیوں کے پوروں کو بھی دوبارہ ٹھیک ٹھیک پیدا کرنا مشکل نہیں ہے۔
سورۃ الدھر
اس کے بعد سورۂ دھر ہے۔ اس میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسان پر ایک دور ایسا تھا‘ جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے پانی کے قطرے سے اسے دیکھنے اورسننے والا بنا دیا۔ اس کو دو راہیں بھی بتلا دیں‘ چاہے تو شکرکرے یا انکارکر دے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیںکہ بیشک ہم نے کافروں کے لیے زنجیریں‘ طوق اور لپکتی ہوئی آگ کو تیارکیا ہے جبکہ نیک لوگ جنت میں جائیں گے‘ جہاں ان کو اَن گنت نعمتیں حاصل ہوں گی۔
سورۃ المرسلات
اس کے بعد سورۂ مرسلات ہے اور اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مرتبہ قیامت کو جھٹلانے والوں کے لیے تباہی کا دن قرار دیا ہے اور کامیابی و کامرانی کو اہلِ تقویٰ کا مقدر قرار دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآنِ مجید میں مذکور مضامین اورحقائق سے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق دے، آمین!

سورۃ المجادلہ: اس سورۂ مبارکہ کا پسِ منظر یہ ہے کہ صحابیہ خولہؓ بنت ثعلبہ کے ساتھ ان کے شوہر اوسؓ بن صامت نے ظِہار کر لیا تھا۔ ظِہارکے ذریعے زمانۂ جاہلیت میں بیوی شوہر پر حرام ہو جاتی تھی۔ حضرت خولہؓ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا: پہلے میں جوان تھی‘ حسین تھی اب میری عمر ڈھل چکی ہے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں‘ انہیں شوہر کے پاس چھوڑتی ہوں تو ہلاک ہو جائیں گے اور میرے پاس کفالت کے لیے مال نہیں ہے۔ رسول اللہﷺ خاموش رہے‘ کیونکہ ابھی ظِہار کا حکم نہیں آیا تھا۔ حضرت خولہؓ رسول اللہﷺ سے بحث و تکرار کرنے لگیں کہ میرے مسئلے کا حل کیا ہے اور اللہ سے فریاد کرنے لگیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتدائی آیات میں بیان فرمایا: ''(اے رسول!) اللہ نے اس عورت کی بات سن لی‘ جو آپ سے اپنے خاوند کے بارے میں بحث کر رہی تھی اور اللہ سے شکایت کر رہی تھی اور اللہ تم دونوں کی باتیں سن رہا تھا ‘ بے شک اللہ بہت سننے والا خوب دیکھنے والا ہے‘‘؛ چنانچہ حضرت خولہؓ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے نزول کا سبب بنیں۔ ایک بار حضرت عمر فاروقؓ سواری پر آ رہے تھے کہ حضرت خولہؓ نے انہیں روک لیا اور باتیں کرنے لگیں۔ کسی نے کہا: امیر المومنین اس بڑھیا کی خاطر آپ اتنی دیر سے رکے ہوئے ہیں۔ انہوں نے فرمایا: میں زمین پر اس کی بات کیوں نہ سنوں‘ جس کی فریاد کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر سن لیا۔ اس سورۂ مبارکہ کے بعد اسلام میں ظِہار کا حکم نازل ہوا کہ جو لوگ اپنی بیویوں سے ظِہار کر لیں اور پھر رجوع کرنا چاہیں تو ان کا کفارہ بیوی سے قربت سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا ہے اور جسے اس کی استطاعت نہ ہو‘ اُس کے لیے دو مہینے کے لگاتار روزے رکھنا ہے اور جو یہ بھی نہ کر سکے تو ساٹھ مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلانا ہے۔ ظِہار یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے: ''تو مجھ پر میری ماں کی پشت کی مثل ہے‘‘ یا بیوی کے کسی عضو کو اپنی ماں کے عضو سے تشبیہ دے‘ تو اس سے ظِہار ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو صرف اتنا کہے کہ تو میری ماں ہے یا بہن ہے تو اگر چہ یہ قولِ ناپسندیدہ ہے‘ مگر اس سے کوئی چیز لازم نہیں آتی‘ یعنی اس کی بیوی حرام نہیں ہو گی۔ آیت 9 سے معصیت پر مبنی سرگوشیوں سے منع کیا گیا ہے اور آیت 10میں آدابِ مجلس بیان کیے گئے اور آخری آیت میں فرمایا کہ مومنِ صادق اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی نہیں کر سکتا ‘ خواہ وہ اس کے ماں باپ یا اولاد یا بہن بھائی یا خاندان کے لوگ ہی کیوں نہ ہوں۔
سورۃ الحشر: اس سورۂ مبارکہ کی آیت 9 میں ایک واقعے کے پسِ منظر میں بیان ہوا کہ اہلِ ایمان خود حاجت مندہونے کے باوجود ایثار و قربانی کا پیکر بن کر دوسروں کی حاجات پوری کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ آیت 10میں السابقون الاولون مہاجرین و انصار صحابۂ کرامؓ کا مدح کے انداز میں ذکر فرمانے کے بعد فرمایا کہ وہ بعد میں آنے والے اپنے سابق اہلِ ایمان بھائیوں کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور یہ آیت ایصالِ ثواب کی اصل ہے۔ آیت 21 میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کی جلالت و ہیبت کو بیان فرمایا کہ اگر ہم اس قرآن کو پہاڑ پر نازل کرتے اور (اسے عقل وشعور کی نعمت عطا کرتے تو) تو اے انسان! تُو دیکھتا کہ وہ پہاڑ (قرآن کی ہیبت سے) جھکا ہوا ہوتا اور اللہ کے خوف سے پاش پاش ہو جاتا۔ اس سورۂ مبارکہ کی آخری آیات وہ ہیں جہاں اللہ کے متعدد اسمائے صفات کو یکجا بیان کیا گیا ہے کہ صرف وہی مستحقِ عبادت ہے‘ ہر ظاہر و باطن کا جاننے والا ہے۔
سورۂ ممتحنہ: اس سورت میں اہلِ ایمان کو دشمنانِ خدا اور دشمنانِ اسلام کی دوستی سے منع کیا گیا ہے؛ البتہ یہ فرمایا کہ جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں قتال نہیں کیا اور تمہیں جلا وطن نہیں کیا تو ان سے نیکی کرنے اور انصاف کرنے سے اللہ نہیں روکتا‘ لیکن جنہوں نے دین کے معاملے میں مسلمانوں سے قتال کیا اور انہیں جلاوطن کیا یا اس سلسلے میں مسلمانوں کے دشمنوں کی مدد کی تو اللہ ان کی دوستی سے منع فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ ان سے دوستی کرنے والے ظالم ہیں۔ آیت 11 میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو فرمایا کہ اگر مومنات صحابیات آپ سے ایک طے شدہ دستور اور منشور پر بیعت کرنا چاہیں تو ان کی بیعت قبول کیجئے اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے استغفار کیجئے‘ وہ منشور یہ ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی‘ چوری نہیں کریں گی‘ زنا نہیں کریں گی‘ (افلاس کے خوف سے) اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی ‘ بے اصل بہتان طرازی نہیں کریں گی اور کسی بھی نیک کام میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی۔
سورۃ الصف: اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں قول و فعل کے تضاد سے منع کیا گیا ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے ناراض ہوتا ہے‘ جن کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ مزید فرمایا: اللہ تعالیٰ ان مجاہدین کو پسند فرماتاہے‘ جو اس کی راہ میں صف بستہ قتال کرتے ہیں‘ جیسے وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔ آیت 8 میں فرمایا کہ دشمنانِ دین چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں سے (پھونکیں مار کر) بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو پورا کرنے والا ہے‘ خواہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔
سورۃ الجمعہ: اس سورت کے شروع میں بعثتِ رسول کے مقاصد کو بیان کیا گیا‘ یعنی تلاوتِ آیاتِ الٰہی‘ تزکیۂ باطن اور کتاب و حکمت کی تعلیم۔ اس کے بعد یہود کا ذکر ہوا اور انہیں دعوت دی گئی کہ اگر تمہارا دعویٰ سچاہے کہ تمام لوگوں کو چھوڑ کر تم ہی اللہ کے دوست ہو تو‘ اگر تم اس دعوے میں سچے ہو تو موت کی تمنا کرو‘ کیونکہ مُحب اپنے محبوب سے جلد از جلد ملنا چاہتا ہے اور پھر قرآنِ مجید نے پیش گوئی کی کہ اپنے ناروا کرتوتوں کے سبب یہ کبھی موت کی تمنا نہیں کریں گے۔ اس سورۂ مبارکہ کے دوسرے رکوع میں نمازِ جمعہ کی فرضیت کا حکم نازل ہوا کہ جب نمازِ جمعہ کے لیے ندا دی جائے تو سب کام کاج چھوڑ کر نماز کے لیے دوڑے چلے آؤ اور جب نماز ادا کر چکو تو وسائلِ رزق کو تلاش کرو۔
سورۃ المنافقون: اس سورۂ مبارکہ کے دوسرے رکوع میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مال اور اولاد (کی محبت) تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دے اور فرمایا کہ ہم نے تمہیں جو مال عطا کیا ہے‘ موت سر پر آنے سے پہلے اسے دین کی راہ میں خرچ کرو‘ ورنہ فرشتۂ اجل کو دیکھ کر ہر ایک کہے گا کہ مجھے تھوڑی سی مہلتِ حیات مل جائے کہ میں صدقہ کروں اور نیکو کاروں میں سے ہو جاؤں۔
سورۃ التغابن: اس سورۂ مبارکہ میں فرمایا گیا کہ ''تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے کچھ تمہارے دشمن ہیں‘ سو ان سے ہوشیار رہو‘‘ یعنی بعض اوقات اہل وعیال کی محبت کے غلبے اور ان کی جائز و ناجائز فرمائشوں اور خواہشات کی تکمیل کیلئے انسان دین سے دور ہوجاتا ہے۔
سورۃ الطلاق: اس سورہ کے شروع میں فرمایا کہ جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دو‘ ان کی عدت کا وقت (شروع ہونے سے پہلے طُہر میں) انہیں طلاق دو‘ یعنی طلاق کے بعد عدت کا حساب رکھنا اور پورا کرنا ضروری ہے۔ قرآنِ مجید میں مختلف احوال کی مناسبت سے عدت کے احکام بیان کیے گئے ہیں کہ ایک بوڑھی عورت کی عدت تین ماہ ہے‘ عام عورت کی عدت تین حیض ہے‘ جبکہ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل تک ہے۔ قرآنِ کریم نے یہ بھی فرمایا کہ طلاقِ رجعی کی صورت میں عدت کی تکمیل سے پہلے بھلائی کے ساتھ یعنی نیک ارادے سے رجوع کر لو یا دستور کے مطابق جدا کر دو اور رجوع کی صورت میں دو گواہ مقرر کر لو۔ قرآنِ پاک نے یہ بھی حکم دیا کہ مطلقہ عورتوں کو عدت کے دوران اپنی حیثیت کے مطابق نان نفقہ دو اور انہیں تنگ نہ کرو اور اگر وہ حاملہ ہیں تو وضعِ حمل تک ان کو نان نفقہ دو اور اگر وہ وضعِ حمل کے بعد بچے کی پرورش کرنے اور دودھ پلانے پر آمادہ ہوں تو انہیں اس کی اجرت بھی دو اور یہ تمام مصارف صاحبِ حیثیت اپنی حیثیت کے مطابق ادا کرے اور تنگ دست اپنی حیثیت کے مطابق کرے۔
سورۃ التحریم: اس سورہ کے شروع میں بیان ہوا کہ رسول کریمﷺ نے بعض وجوہ سے شہد نہ کھانے کی قسم فرما لی‘ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کفارہ ادا کرکے قسم توڑ دیں۔ ازواجِ رسول کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر نبی نے تمہیں طلاق دے دی‘ تو عنقریب ان کا رب ان کو تمہارے بدلے میں تم سے بہتر بیویاں عطا کر دے گا جو فرمانبردار‘ ایمان دار‘ عبادت گزار‘ روزے دار‘ شوہر دیدہ اور کنواریاں ہوں گی۔ ظاہر ہے کہ اس کی نوبت نہیں آئی تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ازواجِ مطہرات طیبات امہات المومنین رضی اللہ عنہما نے اللہ تبارک و تعالیٰ کے رسول کو دل وجان سے راضی رکھا۔ آیت 6 میں مسلمانوں کو حکم ہوا کہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔

قرآنِ پاک کے اٹھائیسویں پارے کا آغاز سورۃالمجادلہ سے ہوتا ہے۔ سورۂ مجادلہ کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے سیدہ خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ ذکر کیا ہے کہ جن کے شوہر نے ناراضی میں ان کو کہہ دیا تھا کہ تم میرے لیے میری ماں کی پشت کی طرح ہو۔ یہ درحقیقت عربوں کا ایک رواج تھا جسے 'ظِہار‘ کہا جاتا تھا۔ یہ طلاق ہی کی ایک قسم تھی جس سے بیوی شوہر پر حرام ہو جاتی تھی۔ حضرت خولہؓ اس معاملے پر رہنمائی حاصل کرنے کے لیے رسول کریمﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں تو آپﷺ نے بھی اس مسئلے پر رخصت دینے سے تردد فرمایا (سیدہ خولہ رضی اللہ عنہا نے اس مسئلے پر آپﷺ سے مزید بات کرنا چاہی تو آپﷺ نے ان سے اعراض کر لیا) اس پر سیدہ خولہ رضی اللہ عنہا نے بارگاہ رب العالمین میں دعا مانگی کہ اے اللہ! اس سلسلے میں میری مدد فرما۔ اللہ تعالیٰ نے سیدہ خولہ رضی اللہ عنہا کی فریاد سن لی اور حضرت رسول کریمﷺ پر وحی نازل فرمائی کہ اللہ نے اس عورت کی بات سن لی ہے‘ جو آپﷺ سے اپنے شوہر کے بارے میں بحث کر رہی تھی اور اللہ تعالیٰ آپ دونوں کا مکالمہ سن رہا تھا‘ بے شک اللہ خوب سننے اور بڑا دیکھنے والا ہے۔ اس کے بعد اللہ نے ''ظہار‘‘ کے کفارے کے لیے حکم نازل فرما دیا کہ جو لوگ اپنی بیویوں سے ''ظہار‘‘ کریں اور پھر اپنی کی ہوئی بات سے رجوع کرنا چاہیں تو انہیں یا تو ایک غلا م آزاد کرنا ہو گا یا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا ہو ں گے اور ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہو گا۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے محبت اور نفرت کا معیار بھی بتایا کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والا کوئی شخص ایسا نہیں‘ جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے دشمن کے بارے میں محبت ہو۔ جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے لیے محبت ہے‘ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے نفرت کرتا ہے‘ چاہے وہ اس کا قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو۔
سورۃالحشر: سورۂ مجادلہ کے بعد سورۂ حشر ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں‘ جو رسول اللہﷺ عطا کرتے ہیں اس کو تھام لیا کرو اور جس سے روکتے ہیں‘ اس سے رک جایا کرو۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کے تین طبقوں کا ذکر کیا ہے۔ ایک طبقہ وہ کہ جنہوں نے اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے ہجرت کی اور اپنے گھر بار اور اموال کو اللہ تعالیٰ کے فضل اور خوشنودی کے حصول کے لیے خیرباد کہہ دیا، دوسرا طبقہ انصاری صحابہ کرام کا تھا‘ جو مہاجرین سے محبت کرتے تھے اور ان کو دیے گئے مال کے بارے میں اپنے دل میں معمولی سی تنگی بھی محسوس نہیں کرتے تھے اور انہیں اپنے آپ پر ترجیح دیتے تھے‘ چاہے انہیں خود تنگی کا سامنا کرنا پڑتا ہو۔ تیسرا طبقہ مہاجرین اور انصار کے بعد آنے والے اہلِ ایمان کا تھا‘ جو مہاجرین اور انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے لیے یا اپنے سے پیشتر دنیا سے چلے جانے والے مومنوں کے لیے دعا مانگتے تھے کہ اے ہمارے رب! تُو ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو معاف فرما جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمان لانے والوں کے بارے میں کینہ پیدا نہ فرما، بے شک تو بڑی شفقت اور بہت رحم کرنے والا ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعا لیٰ نے اس امر کا بھی ذکر کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید کو کسی پہاڑ پر نازل فرماتے تو پہاڑ اللہ تعالیٰ کے خوف سے ریزہ ریزہ ہو جاتا اور ان مثالوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ غور و فکر کرنے والوں کے لیے بیان فرماتے ہیں۔ سورۃالحشر کی آخری تین آیات میں اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنیٰ کا ذکر ہوا ہے۔
سورۃالممتحنہ : سورۂ حشر کے بعد سورۂ ممتحنہ ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو اسلام کے دشمنوں سے برأت کرنے کاحکم دیا ہے اور اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کے کردار کو نمونے کے طور پر اہلِ ایمان کے سامنے رکھا ہے کہ جنہوں نے مشرکوں اور غیر اللہ کے پجاریوں سے کامل برأت کا اظہار کیا تھا۔ اس سورت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ بھی بتلایا ہے کہ وہ کافر جو مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں اور ان کے خلاف سازشیں نہیں کرتے‘ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے اور جو کافر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں‘ ان کے ساتھ سختی والا معاملہ کرنا چاہیے۔ اس سورت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمان عورتوں کے کافر مردوں کے ساتھ نکاح کو ناجائز قرار دیا ہے اور یہ بھی بتلایا ہے کہ اگر کافر عورت‘ ہجرت کر کے اہلِ ایمان کے پاس آ جائے تو اہلِ ایمان کو حق مہر ادا کرنے کی صورت میں اس عورت کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت ہے۔
سورۃ الصف: اس کے بعد سورۂ صف ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو اللہ کے راستے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح صف باندھ کر لڑتے ہیں۔ اس سورت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کے اس فرمان کا بھی ذکر کیا کہ انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں کو کہا تھا کہ تم مجھے کیوں تکلیف دیتے ہو‘ جبکہ تمہارے علم میں ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ جب وہ سیدھے راستے پر نہ آئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا۔
سورۃ الجمعہ : اس کے بعد سورۃ الجمعہ ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہود کے ان علماء کا ذکر کیا ہے جو توریت کو پڑھتے تو ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے‘ جیسے گدھے پر کتابوں کو لاد دیا جائے جو کتابوں کا بوجھ تو اٹھا سکتا ہے لیکن اس کے معنی اور مفہوم کو سمجھ نہیں سکتا۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو نمازِ جمعہ کے آداب بتلائے ہیں کہ جب جمعہ کی اذان ہو جائے تو کاروبار چھوڑ کر فوراًجمعہ کی طرف متوجہ ہو جانا چاہیے اور جب جمعہ کی نماز کو ادا کر لیا جائے تو اس کے بعد کاروبار کرنے کی اجازت ہے۔
سورۃ المنافقون ـ: سورۂ جمعہ کے بعد سورۂ منافقون ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا ذکر کیا کہ منافق رسول کریمﷺ کے پاس آ کے قسمیں کھا کھا کر شہادت دیتے تھے کہ آپﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ کو پتا ہے کہ یقینا آپﷺ اس کے رسول ہیں‘ لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق جھوٹ بولتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ذکر کیا کہ دنیا کا مال و دولت اور ان کے جسموں کی کیفیت دیکھ کر عام انسان متاثر ہوتا ہے‘ لیکن منافقوں کے لیے آخرت میں کچھ بھی نہیں ہے۔
سورۃ التغابن : اس کے بعد سورۂ تغابن ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو مصیبت بھی آتی ہے‘ اللہ کے حکم سے آتی ہے اور جو کوئی اللہ پر ایمان لاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی رہنمائی فرما دیتے ہیں۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جس حد تک ممکن ہو‘ اللہ تعالیٰ کے ڈر (تقویٰ) کو اختیار کرنا چاہیے۔
سورۃ الطلاق : اس کے بعد سورۃ الطلاق ہے۔ سورۂ طلاق میں اللہ تعالیٰ نے طلاق کی مختلف عدتوں کا ذکر کیا ہے کہ بوڑھی عورت کی عدت تین ماہ ہے جبکہ عام عورت کی عدت تین حیض ہے اور حاملہ کی عدت وضع حمل تک ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے فوائد کا بھی ذکر کیا کہ جو تقویٰ کو اختیار کرتا ہے‘ اللہ تعالیٰ اس کی تنگیوں کو دور فرما دیتے ہیں‘ اس کے معاملات کو آسان فرما دیتے ہیں اور اس کو رزق وہاں سے عطا کرتے ہیں‘ جہاں سے انسان گمان بھی نہیں کر سکتا۔
سورۃ التحریم: اس کے بعد سورۂ تحریم ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے کامیابی کو ایمان و عمل سے مشروط کیا ہے اور ازواجِ مطہراتؓ اور اہلِ ایمان کو سیدنا نوح علیہ السلام اورسیدنا لوط علیہ السلام کی بیویوں کا حوالہ دیا ہے کہ وہ نبیوں کی رفاقت میں رہ کر بھی اپنی بدعملی کی وجہ سے ناکام ہو گئیں اور ان کے مدمقابل فرعون کی بیوی آسیہ سلام اللہ علیہا اورسیدہ مریم سلام اللہ علیہا کامیاب رہیں کہ جنہوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی بندگی کو اختیار کیا اور اپنے کردار کو ہر طرح کی آلودگی سے بچا لیا۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں قرآنِ مجید میں مذکور مضامین سے نصیحت حاصل کرنے اور اس کی تعلیمات پر عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین!

اس پارے کے شروع میں اس بات کا بیان ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آنے والے اجنبی انسان نہیں تھے بلکہ بشری شکل میں فرشتے تھے‘ تو ابراہیم علیہ السلام نے اُن سے پوچھا کہ آپ کا مشن کیا ہے‘ اُنہوں نے کہا: ہم مجرموں کی ایک قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ اُن پر مٹی سے پکے ہوئے پتھر برسائیں‘ جو آپ کے رب کے نزدیک حد سے تجاوز کرنے والوں کیلئے نشان زدہ (Guided) ہیں۔ سائنسی دنیا گائیڈڈ میزائل کی جس تکنیک تک بہت دیر میں پہنچی ہے‘ قرآنِ مجید نے اُس کا تصور بہت پہلے پیش کیا۔ اُنہوں نے یہ بھی کہاکہ ہم اہلِ ایمان کو صحیح سلامت اُس بستی سے باہر نکال دیں گے اور اُس میں مسلمانوں کا ایک ہی گھر ہے‘ یعنی حضرت لوط علیہ السلام۔ اس کے بعد موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا ذکر ہے اور فرعونیوں کے سمندر میں غرق ہونے کا نیز قومِ عاد و ثمود پر عذاب کا ذکر ہے۔ پھر فرمایا: آسمان کو ہم نے اپنے دستِ قدرت سے بنایا اور ہم (ہر آن) اِس کو توسیع دینے والے ہیں۔ آج ماہرینِ فلکیات اور سائنس دان نت نئی کہکشاؤں کے دریافت کرنے کی بات کرتے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ ابھی لاتعداد کہکشائیں ایسی ہیں جو دریافت نہیں ہو سکیں‘ تو قرآن مجید نے بالائی کائنات کی وسعت کی بات بہت پہلے بیان کر دی۔ آیت 56 وہ مشہور آیت ہے جس میں رب کائنات نے جنوں اور انسانوں کے مقصدِ تخلیق کوبیان کیا یعنی اللہ کی عبادت اور اُس کی معرفت۔
سورۃ الطور: اس سورت میں اللہ تعالیٰ کے اَٹل عذاب کا ذکر ہے کہ جب اُس کا فیصلہ ہو جاتا ہے تو اُسے کوئی ٹالنے والی طاقت نہیں ہے‘ آسمان تھرتھرانے لگتا ہے اور پہاڑ بہت تیزی سے چلنے لگتے ہیں۔ آیت 17 میں اہلِ جنت کیلئے اللہ عزوجل کی جانب سے جو نعمتیں‘ راحتیں تیار ہیں‘ اُن کا ذکر ہے اور یہ بھی کہ اہلِ ایمان کی اولاد میں سے جو اُن کے سچے پیروکار ہوں گے‘ وہ بھی اُن سے جا ملیں گے۔ آیت 35 میں قدرتِ باری تعالیٰ کے منکرین کو مخاطب کرکے بتایا گیا کہ کیا وہ بغیر کسی سبب کے پیدا کر دیے گئے یا وہ خود ہی اپنے خالق ہیں‘ کیا آسمانوں اور زمینوں کو انہوں نے پیدا کیا ہے‘ کیا تیرے رب کی رحمت کے خزانے ان کے قبضہ و قدرت میں ہیں یا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر یہ بالائی کائنات کی باتوں کو سن لیتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو کوئی واضح دلیل تو پیش کریں۔
سورۃ النجم: اس سورہ کی ابتدائی 18 آیات میں سید المرسلین رحمۃ للعالمین سیدنا محمد رسول اللہﷺ کے سفرِ معراج کی اُس منزلِ رفعت کا ذکر ہے کہ جس میں آپﷺ کو اللہ تعالیٰ کا قُربِ خاص عطا ہوا اور اللہ نے اپنے مُقدّس بندے کی طرف جو چاہا‘ وحی فرمائی۔ رسول اللہﷺ اپنے قلبِ اطہر کی پوری حضوری اور یقین کے ساتھ اپنے خالق و مالک کے جلوؤں کو دیکھتے رہے تو اللہ تعالیٰ نے ریب و شک میں مبتلا لوگوں کو فرمایا کہ کیا تم ان سے اس پر جھگڑ رہے ہو کہ انہوں نے دیکھا‘ انہوں نے تو نورِ نزول کے اس جلوے کو بارِ دیگر دیکھا ہے‘ وہاں ''جنت المأویٰ‘‘ ہے اور آپﷺ اپنے خالق کے جلوۂ نور کو اس قرار و انہماک کے ساتھ دیکھ رہے تھے کہ آپ کی نظر نہ کج ہوئی نہ بہکی۔ آیت نمبر 32 سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ صغیرہ گناہوں کے ماسوا کبیرہ گناہوں سے بچے رہتے ہیں‘ انہیں بشارت دی گئی کہ بیشک آپ کا رب وسیع مغفرت والا ہے‘ اسی مفہوم کی ایک اور آیت میں فرمایا کہ نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہے۔
سورۃ القمر: اس سورت کے شروع میں فرمایا: ''قیامت قریب آ گئی اور چاند دو ٹکڑے ہو گیا اور (کافر) اگر کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو رخ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو وہ جادو ہے جو پہلے سے چلا آ رہا ہے‘‘۔ ''شق القمر‘‘ کا واقعہ تقریباً آٹھ سنِ نبوی میں پیش آیا۔ اہلِ مکہ نے معجزے کا مطالبہ کیا تو آپ نے ان کو یہ معجزہ دکھایا یہاں تک کہ انہوں نے چاند کا ایک ٹکڑا حرا پہاڑ کے ایک جانب اور دوسرا دوسری جانب دیکھا۔ اس واقعے کی صداقت کی عقلی دلیل یہ ہے کہ قرآنِ مجید نے برملا اس کا دعویٰ کیا اور اس دور میں کسی نے بھی اس واقعے کی صداقت کو چیلنج نہیں کیا اور قرآن نے اسے علاماتِ قیامت میں سے قرار دیا۔
سورۃ الرحمن: اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں فرمایا: ''رحمن نے اپنے رسولِ مکرم کو قرآن کی تعلیم دی‘ اس نے انسان (کامل) کو پیدا کیا اور ان کو (ہر چیز کے) بیان کی تعلیم دی‘‘۔ آیت 6 میں اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کے غیر مرئی نظم و ضبط‘ زمین پر بچھے ہوئے سبزے اور درختوں کی کیفیتِ سجدہ اور آسمان کی رفعت کو اپنی قدرت کی دلیل کے طور پر پیش فرمائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورۂ مبارکہ میں اپنی قدرت کی بے پایاں نعمتوں کا بار بار ذکر فرمایا اور پھر اکتیس بار اپنی ذی عقل مخلوق‘ جنوں اور انسانوں سے خطاب کر کے فرمایا ''پس تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے‘‘۔ آیت 46 سے دو جنتوں کی نعمتوں کا بیان ہے کہ وہاں سرسبز شاخوں والے باغات ہوں گے‘ ان جنتوں میں دو چشمے بہہ رہے ہوں گے‘ ہر پھل کی دو قسمیں ہوں گی‘ اہلِ جنت ایسی مسندوں پر جلوہ افروز ہوں گے جن کے استر نفیس دبیز ریشم کے ہوں گے‘ وہاں یاقوت و مرجان کی طرح باحیا حوریں ہوں گی‘ پھر فرمایا کہ ان دونوں کے علاوہ دو جنتیں اور ہوں گی جن میں فوارے کی طرح چھلکتے ہوئے دو چشمے ہوں گے اور اسی طرح کی مزید نعمتوں کو بیان کرنے کے بعد فرمایا ''احسان کا بدلہ احسان ہی ہے‘‘۔
سورۃ الواقعہ: اس سورہ مبارکہ میں انسانوں کے تین طبقات بیان کیے؛ ایک ''اصحاب المیمنہ‘‘ یعنی اہلِ سعادت و خیر‘ دوسرے ''السابقون المقربون‘‘، یہ وہ لوگ ہوں گے جو نیکی میں سب پر سبقت لے جائی گے اور تیسرے ''اصحاب المشئمہ‘‘ یہ بدنصیب لوگ اہلِ جہنم ہوں گے۔ اس کے بعد ایک بار پھر جنت کی پُرکشش نعمتوں کا ذکر ہے کہ وہ ایک دوسرے کے بالمقابل تکیوں پر ٹیک لگائے‘ زر و جواہر سے مرصع تختوں پر بیٹھے ہوں گے‘ ان پر شرابِ طہور کے جام گردش کر رہے ہوں گے اور یہ ایسی شراب ہو گی کہ عقل پر اثر انداز نہیں ہو گی اور پُر کیف ہو گی۔ اس کے بعد ''اصحابِ یمین‘‘ کے لیے مزید نعمتوں کا ذکر ہے اور پھر ''اصحاب الشمال‘‘ (یعنی اللہ کے نافرمان لوگ) کیلئے عذاب کی مختلف صورتوں کا ذکر ہے‘ ان میں سے ایک یہ کہ ان کی خوراک ''زقوم‘‘ (تھوہر کے درخت) سے ہو گی‘ ( اس درخت کا پھل انتہائی کڑوا ہے)‘ اس سے وہ پیـٹ بھریں گے اور اس پر کھولتا ہوا پانی پئیں گے۔ آیت 77 سے قرآن عظیم کا ذکر ہے کہ یہ کتاب لوحِ محفوظ میں ہے اور اس کتاب کو صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔
سورۃ الحدید: اس سورۂ مبارکہ کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر اپنی آیاتِ قدرت کا ذکر فرمایا۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے صحابۂ کرام کے مابین درجاتِ فضیلت میں مختلف مدارج بیان کیے ہیں۔ آیت 12میں فرمایا کہ میدانِ حشر میں مومنین اور مومنات کی امتیازی شان ہو گی اور ان کا نور ان کے سامنے اور ان کی دائیں جانب ضوفشاں ہو گا اور انہیں جنت کی بشارت دی جائے گی۔ اگلی آیت میں فرمایا کہ ''منافق مرد اور عورتیں مومنوں سے کہیں گے: تم ہماری طرف دیکھو کہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کریں‘ ان سے کہا جائے گا: تم اپنے پیچھے لوٹ جاؤ پھر کوئی نور تلاش کرو‘ پھر ان کے درمیان ایک ایسی دیوار حائل کر دی جائے گی‘ جس میں دروازہ ہوگا‘ اس کے اندرونی حصے میں رحمت ہو گی اور باہر کی جانب عذاب ہو گا‘‘۔ آیت 25 میں فرمایا ''بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو قوی دلائل کے ساتھ بھیجا اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان (عدل) کو نازل فرمایا تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں اور ہم نے لوہا نازل کیا‘ جس میں سخت قوت ہے اور انسانوں کے لیے فوائد‘‘۔ قرآنِ مجید کی اس آیت کی حقانیت کی قوی دلیل یہ ہے کہ آج دنیا بھرمیں سامانِ حرب کی تیاری اور دفاعی اور اقدامی جنگ کے لیے فولاد بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور تمام قدیم و جدید صنعتوں کی اساس یہی ہے۔

سورۃ الذاریات: قرآنِ پاک کے ستائیسویں پارے کا آغاز سورۃ اَلذَّارِیَات سے ہوتا ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں اور جنات کی تخلیق کے مقصد کا بھی ذکر کیا ہے کہ جنات اور انسان کی تخلیق کا مقصد صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ نہ تو مجھے ان سے رزق کی طلب ہے اور نہ میں نے کبھی ان سے کھانا مانگا ہے۔
سورہ طور: اس کے بعد سور ہ طور ہے۔ سورہ طور میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے طور پہاڑ‘ بیت معمور‘ بلند و بالا آسمان‘ سمندر کی لہروں اور کتابِ مقدس کی قسم اٹھا کر کہا ہے کہ قیامت کا دن ضرور آ ئے گا اور اس دن پہاڑ چلنے لگیں گے۔ اس دن یومِ جزا کو جھٹلانے والوں کو جہنم کی آگ کا سامنا کرنا پڑے گا اور ان کو کہا جائے گا کہ یہ وہ آگ ہے‘ جس کا تم انکار کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس بات کاذکر کیا ہے کہ اہلِ تقویٰ جنت اور نعمتوں میں پروردگارکی عطاؤں سے بہرہ مند ہو رہے ہوں گے اور ان کا رب ان کو عذابِ جہنم سے بچا لے گا۔ ان سے کہا جائے گا کہ اپنے اعمال کے بدلے جو جی چاہے کھاؤ اور پیو اور وہ ایک دوسرے سے جڑے قطارمیں بچھے تختوں پر ٹیک لگائے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کشادہ اور بڑی آنکھوں والی حوروں کو ان کی زوجیت میںد ے گا اور اہلِ ایمان کی اولاد نے بھی‘ اگر ایمان اور اعمالِ صالح میں اپنے آبا کی پیروی کی ہو گی‘ تو اللہ تبارک و تعالیٰ جنت میں ان کی اولاد کو بھی ان سے ملا دیں گے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا بھی ذکر کیا ہے کہ رسولِ کریمﷺ نہ تو (معاذ اللہ) کاہن تھے اور نہ ہی شاعر۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر کافر اپنے الزامات میں سچے ہیں تو ان کو چاہیے کہ قرآنِ مجید جیسی کوئی دلیل‘ کوئی بات پیش کریں۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کو نہیں مانتے ان کو سوچنا چاہیے کہ ان کو کس نے بنایا ہے یا وہ خود ہی اپنے خالق ہیں؟ درحقیقت اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات کا انکار کرنے والوں کے دلائل انتہائی کمزور اور کھوکھلے ہیں۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو صبر کی تلقین بھی کی اور کہا کہ آپ اپنے پروردگار کے حکم پر صبر کریں‘ بے شک آپ میری آنکھوں کے سامنے ہیں‘ یعنی جو صبر بھی رسول کریمﷺ کریں گے‘ اللہ تعالیٰ اس سے بخوبی آگاہ ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور معیت ہمیشہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتی ہے۔
سورۃ النجم: سورۂ طور کے بعد سورۂ نجم ہے اور اس سورۂ مبارکہ میں پروردگار عالم نے فرمایا ہے کہ رسول اللہﷺ اس وقت تک کوئی کلام نہیں کرتے‘ جب تک مالکِ کائنات ان پر وحی کا نزول نہیں فرماتے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریمﷺ کے سفرِ معراج کا بھی ذکر کیا ہے اور یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ انہوں نے سفرِ معراج میں اپنے پروردگار کی بہت سی نشانیوں کو دیکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: کیا جو میرے بندے نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تم اس پر شک کرتے ہو؟ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ کفرکے اس باطل عقیدے کابھی ذکرکیا ہے کہ وہ فرشتوں کو عورتیں قرار دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے‘ وہ فرشتوں کو عورتیں قرار دیتے ہیں اور ان کے پاس اس حوالے سے کچھ بھی علم نہیں۔ وہ لوگ صرف وہم اور گمان کی پیروی کرتے ہیں‘ جبکہ گمان حق کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ کبیرہ گناہوں اور فحاشی کے کاموں سے اجتناب کرتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے گا۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کی وسعت کا بھی ذکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو اس وقت سے جانتے ہیں ‘جب ان کے خمیروں کو مٹی سے اٹھایا گیا اور جب وہ اپنی مائوں کے پیٹوں میں (جنین کی حیثیت سے) موجود تھے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کے صحیفوں اور موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہونے والی وحی کے اہم مضامین کا ذکر کیا کہ ان صحیفوں میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرما دیا تھا کہ بے شک انسان کے لیے وہی کچھ ہے‘ جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور وہ اپنی کوشش کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو قرآن مجید پر تعجب کرتے ہیں اور رونے کے بجائے ہنسی مذاق میں اپنا وقت بِتا رہے ہیں اور موسیقی سننے میں اور دیگر لغویات میں اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہونا چاہیے اور اُسی کی عبادت کرنی چاہیے۔
سورۃ القمر: اس کے بعد سورۂ قمر ہے‘ جس کے شروع میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا۔ شقِ قمرکا واقعہ رسول اللہﷺ کی ہجرت سے تقریباً پانچ برس قبل رونما ہوا تھا اور چاند جبل حرا کے دونوں طرف ہو گیا تھا۔ اتنی بڑی نشانی کو دیکھ کر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کافرایمان لے آتے لیکن وہ سرکشی پرتلے رہے‘ جس پر اللہ تعالیٰ نے اعلان فرما دیا۔ کفار اگرکوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو ایک جادو ہے‘ جو پہلے سے چلا آ رہا ہے۔ سورۃ القمر میں اللہ تعالیٰ نے قوم نوح‘ قوم لوط‘ قوم عاد اور قوم ثمود کا ذکر کیا کہ جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنیں۔ قوم نوح پر سیلاب‘ قوم عاد پر ہوا‘ قوم ثمود پر چیخ اور قوم لوط پر پتھروں کی بارش کو برسایا گیا۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اس حقیقت کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کو سمجھنے والوں کے لیے آسان بنا دیا‘ پس ہے کوئی جو نصیحت کو حاصل کرے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے متقیوں کے مقام کا ذکر کیا کہ بے شک پرہیزگار لوگ جنت اور نہروں میں ہوں گے‘ اپنے حقیقی گھروں میں مقتدر بادشاہ کے پاس۔
سورۃ الرحمن: سورۂ رحمن میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ رحمن نے قرآنِ مجید سکھلایا‘ انسان کو بنایا اور اس کو بیان کرنے کی صلاحیت عطا فرمائی۔ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور ستارے اور درخت اللہ تبارک و تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں۔ اسی نے آسمان کو بنایا اور ترازو کو قائم کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسانوں کو چاہیے کہ ترازو کو صحیح طریقے سے قائم کیا کریں اور تولنے میں کوتاہی نہ کیا کریں۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے زمین کی تخلیق کا بھی ذکر کیا اور اس میں مختلف طرح کے پھلوں اور خوشبوئوں کو پیدا فرمایا اور انسانوں اور جنات کو مخاطب ہو کر کہا کہ تم دونوں گروہ پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے؟ اللہ تبارک و تعالی نے اس سورۂ مبارکہ میں جنت کے حسین مناظرکو بیان کیا ہے کہ جو شخص اپنے رب کے مقام سے ڈرتا ہے‘ اس کے لیے دو باغات ہیں۔ وہ دونوں باغ سبز شاخوں والے ہوں گے۔ ان دونوں باغوں میں دوچشمے رواں ہوں گے۔ ان دونوں میں ہر پھل کی دو قسمیں ہوں گی۔ اس سورۂ مبارکہ کے آخر میں اللہ تبارک وتعالیٰ ذوالجلال والاکرام نے اپنے نام کے بابرکت ہونے کا بھی ذکر کیا ہے۔
سورۃ الواقعہ: سورۃ الرحمن کے بعد سورۂ واقعہ ہے۔ سورۂ واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے تین گروہوں کا ذکر کیا۔ ایک گروہ مقربین کا‘ دوسرا عام جنتیوں کا اور تیسرا گروہ جہنمیوں کا ہے۔ مقربین کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی نعمتوں کو تیار کیا ہے جبکہ عام جنتی بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی عنایات پر شاداں و فرحاں ہوں گے‘ ان کے برعکس جہنمیوں کو تھوہر کا درخت کھانا پڑے گا‘ جس سے ان کے معدے ابل اور پگھل جائیں گے اور ان کو پیپ اور بھاپ والا پانی پلایا جائے گا۔
سورۃ الحدید: سورۃ الواقعہ کے بعد سورۃ الحدید ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کا ذکر کیا کہ وہ اول بھی ہے اور آخر بھی‘ ظاہر بھی ہے اور پوشیدہ بھی اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ اس سورت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے صحابہ کرام ؓکی دو جماعتوں کا بھی ذکر کیا کہ فتح مکہ سے پہلے اسلام لانے والے صحابہ کرامؓ کا مقام فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والوں کے مقابلے میں زیادہ ہے؛ البتہ دونوں گروہ جنتی ہیں۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ کتاب کی ایمانی حالت کا بھی ذکرکیا ہے کہ کتاب کے نزول کا ایک عرصہ بیت جانے کے بعد ان کے دل سخت ہوگئے اور ان کی اکثریت گناہ گار ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو تلقین فرماتے ہیں کہ ان کی مانند مت ہو جانا۔
دعاہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآنِ مجید میں مذکور مضامین اور حقائق سے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق دے، آمین!

سورۃ الاحقاف: اس سورہ میں ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کا تاکیدی حکم ہے اور ماں نے حمل اور وضعِ حمل کے دوران جو بے پناہ مشقتیں اٹھائیں‘ ان کا ذکر ہے اور یہ بھی بتایا کہ حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس ماہ ہے‘ چونکہ حدیث کی رو سے دودھ پلانے کی مدت دو سال ہے‘ اس لیے فقہا نے فرمایا کہ ممکنہ طور پر کم ازکم مدتِ حمل چھ ماہ ہے۔ پھر قرآنِ مجید نے بتایا کہ صالح اولاد پختگی کی عمر کو پہنچنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے اس کی ان نعمتوں کا جو اس نے اس پر اور اس کے والدین پر کیں‘ شکر ادا کرنے کی توفیق طلب کرتی ہے اور اس بات کی دعا بھی کہ مجھے اپنا پسندیدہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرما اور میری اولاد کی بھی اصلاح فرما اور میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتاہوں اور میں اطاعت گزاروں میں سے ہوں۔ اللہ تعالیٰ اپنے وفا شِعار اور اپنے ماں باپ کے فرمانبردار بندوں کے لیے فرماتا ہے کہ ہم ان کے نیک اعمال کو قبول فرماتے ہیں اور ان کی لغزشوں سے درگزر کرتے ہیں‘ یہ لوگ اہلِ جنت میں سے ہیں اور یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے۔ اس آیت میں ابتداً ماں باپ دونوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا ذکر ہے‘ لیکن ماں کی قربانیوں کا قرآنِ مجید نے زیادہ ذکر فرما کر اس کے زیادہ استحقاق کی طرف متوجہ فرمایا، رسول اللہﷺ نے حدیثِ پاک میں بھی اس کی مزید تاکید فرمائی۔ آیت 29 سے حضورﷺ کی بارگاہ میں جنات کے حاضر ہونے کا ذکر ہے کہ جنات کے ایک گروہ نے آپﷺ کے پاس سے گزرتے ہوئے قرآن سنا اور جا کر اپنی قوم سے کہا کہ ہم نے ایسی آسمانی کتاب سنی ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے بعد نازل کی گئی اور جو پہلی آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے‘ ان جنات نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت کو قبول کرو اور اس پر ایمان لاؤ‘ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور تمہیں درد ناک عذاب سے نجات عطا فرمائے گا اور جو شخص اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت کو قبول نہیں کرے گا تو زمین میں اللہ کی گرفت سے اس کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہوگی۔
سورہ محمد: غزوۂ بدر سے پہلے اسلام کے تفصیلی جنگی قانون نازل نہیں ہوئے اور یہ ہدایت نہیں آئی تھی کہ جنگی قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ اس سورۂ مبارکہ کی آیت 4 میں فرمایا کہ جب جنگ ختم ہو جائے‘ مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہو جائے تو جنگی قیدیوں کے ساتھ تین طرح کا سلوک کیا جا سکتا ہے‘ انہیں قید کر دیا جائے تا کہ وہ مسلمانوں کو دوبارہ شر نہ پہنچا سکیں یا ان کی اصلاح اور قبولِ اصلاح کی امید ہو تو ان پر احسان کر کے انہیں آزاد کر دیا جائے یا فدیہ لے کر ان کو چھوڑ دیا جائے۔ آیت 15 سے اہلِ تقویٰ کے لیے جنت کی نعمتوں کا ذکر ہے کہ جنت کی نہروں میں ایسا شفاف اور تازہ پانی ہو گا جس میں کوئی باسی پن یا تغیر نہیں آئے گا‘ دودھ جیسی نہریں ہوں گی جن کا ذائقہ کبھی نہیں بدلے گا‘ شرابِ طہور کی ایسی نہریں ہوں گی‘ جو لذت سے مامور ہوں گی اور خالص اور شفاف شہد کی نہریں ہوں گی اور ان کے لیے ہر طرح کے پھل دستیاب ہوں گے‘ پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کے عقلِ سلیم کو مخاطَب کرکے فرمایا کہ کیا ان عالی مرتبت لوگوں کی تقلید کی جائے یا ان کی راہ پہ چلا جائے جو دائمی طور پر جہنم میں رہیں گے اور انہیں جہنم کی آگ میں کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتوں کو کاٹ دے گا۔
سورۃ الفتح: اس سورہ کی آیت 8 سے اللہ عزوجل نے رسولِ مکرمﷺ کی شان کو بیان فرمایا کہ ہم نے آپ کو گواہی دینے والا‘ جنت کی بشارت دینے والا اور عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، مزید فرمایا کہ اللہ کے رسولﷺ کی تعظیم وتوقیر کرو۔ آیت 10 میں اللہ تعالیٰ نے بیعت رضوان کے منظر کو بیان کرتے ہوئے رسول اللہﷺ کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا‘ اس لیے ان کے ہاتھ پر بیعت درحقیقت اللہ ہی سے بیعت ہے۔ آیت 11 میں جہاد سے پیچھے رہنے والوں کی حقیقتِ حال سے اپنے نبیِ کریمﷺ کو باخبر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ بہانہ بازی کریں گے کہ ہم اپنے مال اور اہلِ خانہ کی مصروفیت کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے‘ سو ہماری خطا معاف فرما دیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ اپنے منہ سے وہ بات کہتے ہیں ‘ جو ان کے دل میں نہیں ہے۔ آیت 18 سے اللہ تعالیٰ نے ان وفا شِعار صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو‘ جنہوں نے حدیبیہ کے مقام پر رسول اللہﷺ کے ہاتھ پر جانثاری اور جاں سپاری کی بیعت کی تھی‘ ا پنی رضا مندی کی قطعی سند سے نوازا‘ پس جس سے اللہ راضی ہو جائے‘ اس کے ایمان کی صداقت‘ اخلاص اور بے ریائی ہر قسم کے شک وشبہے سے بالا تر ہوتی ہے اور ان کے بارے میں دل میں کوئی بھی بدگمانی اللہ تعالیٰ کی اس سندِ رضا کی نفی ہے۔ رسول اللہﷺ نے صحابۂ کرام کو فرمایا تھا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ ہم بے خوف وخطر ہو کر بیت اللہ میں داخل ہو رہے ہیں لیکن جب صلحِ حدیبیہ کے موقع پر معاہدۂ حدیبیہ کی شرائط کے تحت صحابۂ کرام کو عمرہ ادا کیے بغیر احرام کھولنا پڑا تو بعض صحابۂ کرام کے جذبات کو ٹھیس پہنچی اور انہوں نے اپنے قلبی اضطراب کا اظہار کیا‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: اللہ نے اپنے رسول کے حق پر مبنی خواب کو سچ کر دکھایا اور ایک نہ ایک دن تم ضرور بے خوف وخطر ہوکر سرکو منڈاتے ہوئے یا بال ترشواتے ہوئے ان شاء اللہ حرمِ کعبہ میں داخل ہو گے اور پھر اللہ تعالیٰ نے عنقریب فتح کی نوید بھی سنائی۔ اس سورہ کی آخری آیت میں رسول اللہﷺ کے اصحاب کی وہ صفات بیان فرمائیں جو پہلے سے تورات اور انجیل میں بیان کر دی گئی تھیں کہ وہ کفار کے مقابلے میں انتہائی سخت ہیں، آپس میں رحیم وشفیق ہیں، اے مخاطَب تو جب بھی انہیں دیکھے گا اللہ کی عبادت میں مشغول پائے گا، وہ اللہ کے فضل اور رضا کے طلبگار رہتے ہیں اور ان کی جبینیں سجدے کے اثر سے نیر و تاباں ہیں۔ مفسرینِ کرام نے فرمایا کہ اس آیت میں خلافتِ راشدہ کی ترتیب کی طرف بھی اشارہ ہے۔
سورۃ الحجرات: سورۂ حجرات کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے بارگاہِ نبوت کے آداب کو بیان فرمایا کہ ان کی آواز پر آواز کو اونچا کرنا بھی ادب کے منافی ہے‘ رسول اللہﷺ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کرنا بھی ایسی بے ادبی ہے جس سے ساری نیکیاں برباد ہو سکتی ہیں اور اہلِ ادب کے لیے مغفرت اور اجرِ عظیم کی نوید سنائی گئی ہے ۔ آیت 9 میں مسلمانوں کے متحارب گروہوں میں عدل وانصاف پر مبنی صلح کا حکم دیا گیا ہے اور اخوتِ ایمانی کا بیان ہوا ہے۔ اس سورہ کے دوسرے رکوع میں اخلاقیات کی تعلیم ہے خاص طور پر یہ کہ مسلمان مرد و زن ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑائیں‘ ایک دوسرے کی عیب جوئی نہ کریں‘ ایک دوسرے کو برے ناموں سے نہ پکاریں‘ ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی نہ کریں‘ ایک دوسرے کے پوشیدہ احوال کا سراغ نہ لگائیں اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کریں اور پھر غیبت کو اتناگھناؤنا جرم قرار دیا کہ گویا اپنے مردہ بھائی کا گوشت نوچنا ہے۔ یہ بھی بتایا کہ انسانیت کی اصل ایک ہی ہے‘ یعنی سب آدم و حوا علیہما السلام کی اولاد ہیں اور قبائل اور برادریاں تفاخر کے لیے نہیں‘ تعارف کے لیے ہیں۔
سورہ ق: اس سورہ میں ایک بار پھر اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں کو بیان کیا گیا ہے‘ یعنی آسمانوں کی رفعت اور شمس و قمر اور کواکب و نجوم سے اس کا مزین کرنا‘ اس میں کسی شگاف کا نہ ہونا‘ زمین کی وسعت اور اس میں بلند و بالا پہاڑوں کو لنگر کی طرح ثبت کر دینا‘ آسمان سے بارش کا برسنا اور اس سے طرح طرح کا اناج‘ پھل‘ پھول اور باغات کا اگانا‘ مردہ زمین کو زندہ کرنا وغیرہ۔
سورۃ الذاریات: اس سورہ میں اہلِ تقویٰ کے انعاماتِ اخروی کو بیان کرنے کے بعد ان کے اوصاف بیان کیے کہ وہ راتوں کو بہت کم سوتے ہیں‘ رات کے پچھلے پہر استغفار کرتے ہیں اور یہ بھی اللہ تعالیٰ نے جن کو نعمتِ مال سے نوازا ہے‘ ان کے مال میں سائل کا بھی حق ہے اور ان کا بھی جو نعمتِ مال سے محروم ہیں۔ اس سورہ کے آخر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتوں کی بشری شکل میں آمد اور ان کی طرف سے ضیافت کے اہتمام کا ذکر ہے اور فرشتوں کے کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھانے پر جو انہیں بہ تقاضائے بشری خوف لاحق ہوا‘ اس کا ذکر ہے اور پھر حضرت ابراہیم اور حضرت سارہ علیہما السلام کے بڑھاپے کی عمر میں حضرت اسحاق علیہ السلام کی بشارت کا ذکر ہے۔

سورۃ الاحقاف : قرآن پاک کے چھبیسویں پارے کا آغاز سورۃ الاحقاف سے ہوتا ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ مشرک کے پاس شرک کی کوئی دلیل نہیں ہے اور جو شرک کرتے ہیں‘ ان کو کہیے کہ اگر وہ سچے ہیں تو کوئی سابقہ کتاب یا علم کا ٹکڑا اپنے موقف کی دلیل کے طور پر لے کر آئیں۔ مزید ارشاد ہوا کہ اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہو گا‘ جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو پکارتا ہے‘ جو قیامت تک اس کی پکار کا جواب نہیں دے سکتے اور وہ ان کے پکارنے سے غافل ہیں۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارارب اللہ ہے‘ پھر اس پر استقامت کو اختیار کیا تو نہ ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ غم اور یہی لوگ جنتی ہیں‘ ہمیشہ اس میں رہیں گے اور ان کو ان کے نیک اعمال کی جزا ملے گی۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین سے اچھے برتاؤ کا حکم دیا۔ اس کی ماں نے تکلیف کے ساتھ اس کو اٹھائے رکھا اور تکلیف کے ساتھ اسے جنم دیا اور اس کے حمل اور اس کے دودھ پینے کی مدت تیس ماہ ہے‘ یہاں تک کہ جب وہ اپنی جوانی کی انتہا کو پہنچا اور چالیس سال کا ہوا تو اس نے کہا: اے میرے رب مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو دی اور مجھے توفیق دے کہ میں ایسے نیک اعمال کروں‘ جنہیں تو پسند کرتا ہے اور تو میری اولاد کی اصلاح کر دے‘ میں تیری بارگاہ میں آکر توبہ کرتا ہوں اور بے شک میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بارے میں کہتے ہیں؛ یہی وہ لوگ ہیں‘ جن کے بہترین اعمال کو ہم قبول کرتے ہیں اور ان کی خطاؤں کو معاف کرتے ہیں اور یہی لوگ جنتی ہیں۔ اس سچے وعدے کے مطابق جو‘ ان سے دنیا میں کیا جاتا تھا۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریمﷺ کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ آپ ویسے صبر فرمائیں‘ جس طرح آپ سے قبل اولو العزم انبیاء کرام‘ یعنی نوح‘ ابراہیم‘موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام اجمعین صبر فرماتے رہے۔ جب رسول اللہ حضرت محمدﷺ نے دعوتِ دین پر صبر کیا تو آپﷺ کا صبر تمام انبیائے سابقہ کے صبر پر سبقت لے گیا۔ ایک حدیث شریف میں خود آپﷺ نے فرمایا کہ جس قدر تکالیف مجھ پر نازل ہوئیں‘ مجھ سے پہلے کسی نبی پر اتنی مصیبتیں نہیں آئیں۔
سورہ محمد: سورۃ الاحقاف کے بعد سورہ محمد ہے۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ اعلان فرماتے ہیں کہ جو لوگ کفر کا ارتکاب کرتے ہیں اور اللہ کے راستے سے روکتے ہیں ان کے اعمال گمراہ کن ہیں اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور رسول اللہﷺ پر نازل ہونے والی کتاب پر ایمان لائے‘ جس کو اللہ نے حق کے ساتھ نازل فرمایا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی خطائوں کو معاف کر دیا اور ان کے معاملات کو سنوار دیا ہے۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے منکروں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اہل کفر کا رہن سہن اور کھانا جانوروں کے کھانے کی مانند ہے اور جہنم ان کا ٹھکانہ ہے۔ جس طرح جانور حلال وحرام کی تمیز کے بغیر کھاتے ہیں‘ اسی طرح کافر بھی حلال و حرام کی تمیز کے بغیر کھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لیے جہنم کے دہکتے ہوئے انگاروں کو تیار کر دیا ہے‘ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ لوگ قرآنِ مجید پر کیوں غور نہیں کرتے؟ کیا ان کے دل پر تالے لگے ہوئے ہیں؟ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستے سے روکتے رہے اور ہدایت واضح ہو جانے کے باوجود رسول کریمﷺ کی مخالفت کی‘ وہ اللہ تعالیٰ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے اور ان کے اعمال برباد ہو چکے ہیں۔
سورہ فتح : اس کے بعد سورہ فتح ہے۔ سورہ فتح میں رسول کریمﷺ کو اللہ تعالیٰ نے فتحِ مبین کی بشارت دی تھی۔ اس فتح مبین کا پس منظر یہ ہے کہ رسول کریمﷺ اپنے 1400 رفقاء کے ہمراہ عمرہ کرنے کے لیے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ روانہ ہوئے۔ جب منزل قریب آئی تو مشرکین مکہ نے نبی کریمﷺ اور آپ کے اصحاب کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ آپﷺ نے مذاکرات کے لیے جناب عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو سفیر بنا کر روانہ فرمایا۔ جب آپؓ کی واپسی میں تاخیر ہوئی تو یہ افواہ پھیل گئی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا ہے۔ اس موقع پر رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہ کرامؓ سے قصاصِ عثمان کیلئے بیعت کا تقاضا کیا تو صحابہ کرام ؓنے فوراً سے پہلے نبی رحمتﷺ کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ اللہ تعالیٰ ان فدا کار مومنوں سے راضی ہوئے اور قرآنِ مجید میں اللہ نے فرمایا کہ اللہ ان مومنوں سے راضی ہے‘ جنہوں نے درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ کچھ دیر بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بخیر و عافیت واپس آ گئے، البتہ اس بیعت کی خبر مکہ والوں کو ہو گئی اور انہوں نے مسلمانوں کو جنگ کیلئے تیار پایا تو صلح پر آمادہ ہو گئے۔ اس موقع پر رسول کریمﷺ نے مکہ والوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جسے صلح حدیبیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس معاہدے کی کچھ شرائط ایسی تھیں جو بظاہر مسلمانوں کے خلاف محسوس ہوتی تھیں جس کی وجہ سے کچھ لوگوں میں غصہ بھی پایا جاتا تھا کہ اگر ہم کفارِ مکہ کے مقابلے میں کمزور نہیں ہیں تو ایسا معاہدہ کیوں قبول کر رہے ہیں جس کی تمام شرائط کا بظاہر فائدہ اہلِ مکہ کو جاتا ہے۔ اس مو قع پر اللہ تعالیٰ نے سورہ فتح نازل فرما کر رسول کریمﷺ کو فتحِ مبین کی بشارت دی اور ان آیات کے نزول کے بعد رسول کریمﷺ اور صحابہ کرامؓ کے دل خوشی سے معمور ہو گئے۔ اللہ نے فرمایا کہ جن شرائط کو تم اپنے خلاف سمجھ رہے ہو درحقیقت یہ مسلمانوں کی کھلی فتح کے مترادف ہیں۔ اور حقیقتاً ایسا ہی ہوا کہ صرف دو برس کے قلیل عرصے میں مسلمانوں کو فتح مکہ جیسی عظیم کامیابی حاصل ہو گئی۔
سورۃ الحجرات: اس کے بعد سورۃ الحجرات ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اہلِ ایمان کو اللہ اور اس کے رسول کریمﷺ سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ سورۃ الحجرات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''اے ایمان والو! نبیﷺ کی آواز سے اپنی آواز اونچی نہ کرو اور ان کے سامنے بلند آواز سے اس طرح بات نہ کرو‘ جس طرح تم میں سے بعض‘ بعض کے سامنے اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔ ورنہ تمہارے اعمال برباد ہو جائیں گے اور تمہیں اس کا پتا بھی نہیں چلے گا۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرما یا کہ جب کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ تم بغیر سبب کے کسی قوم کے خلاف ہو جائو اور بعد میں تمہیں اپنے کیے پر ندامت کا سامنا کرنا پڑے۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اگر مومنوں کے دو گروہوں کی آپس میں جنگ ہو جائے تو ان کے درمیان صلح کروا دینی چاہیے‘ اگر ایک گروہ سرکشی پر تلا رہے تو ایسی صورت میں باغی گروہ کے خلاف جنگ کرنی چاہیے‘ یہاں تک کہ وہ صلح پر آمادہ ہو جائے۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ یہ بھی ارشاد فرماتے ہیں کہ بے شک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں‘ ان کی صلح صفائی کروا دیا کرو۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے تجسس کی بھی شدت سے مذمت کی ہے اور بدگمانی کو گناہ قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں اس سورہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ قبائل‘ قومیں اور گروہ تمہارے تعارف کے لیے بنائے گئے ہیں جبکہ فضیلت کا سبب تقویٰ ہے۔ جو پر ہیزگارہے‘ وہی اللہ کی نظروں میں عزت دار ہے۔
سورہ ق: اس کے بعد سورہ ق ہے۔ سورہ ق میں اللہ تعالیٰ نے تخلیقِ ارض و سماوات کا ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو چھ دن میں بنایا اور چھ دن میں کائنات کی تخلیق کے بعد اس کو تھکاوٹ اور اکتاہٹ کا احسا س تک بھی نہیں ہوا۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا بھی ذکر کیا کہ جہنم میں جب جہنمی ڈال دیے جائیں گے تو جہنم کہے گی کہ میرے اندر اور لوگوں کو ڈالا جائے۔ جہنم سے بچ نکل کرجنت میں داخل ہوجانے والے خوش نصیب وہی ہوں گے جنہوں نے تقویٰ اور پرہیز گاری کو اختیار کیا ہو گا۔ اس سورہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ آپ قرآنِ مجید کے ذریعے ان کو نصیحت کر یں جن کے دلوں میں خوف ہے۔
سورۃ الذاریات : اس کے بعد سورۃ الذاریات ہے۔ اس سورت میںاللہ تعالیٰ نے بہت سی قسمیں اٹھانے کے بعد کہا ہے کہ قیامت ضرور آئے گی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآنِ پاک پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے، آمین!

سورہ حم السجدہ:اس پارے کی ابتدا میں بتایا کہ قیامت‘ شگوفوں سے نکلنے والے پھلوں‘ حمل اور وضع حمل کا علم اللہ ہی کی طرف لوٹایا جائے گا۔ انسان کی فطری خود غرضی کو آیت 49 میں بیان کیا کہ انسان اپنی بھلائی کی دعا مانگتے ہوئے تو کبھی نہیں تھکتا لیکن اگر اسے کبھی کوئی شر پہنچ جائے تو وہ مایوس اور ناامید ہو جاتا ہے۔ آیت 51 میں پھر فرمایا: اور جب ہم انسان پر کوئی انعام کرتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتا ہے اور پہلو بچا کر ہم سے دُور ہو جاتا ہے اور جب اس پر مصیبت آتی ہے تو لمبی چوڑی دعائیں کرنے والا ہو جاتا ہے‘ یعنی اللہ کی ذات سے وہ خود غرضی اور ذاتی منفعت پر مبنی تعلق تو قائم رکھتا ہے مگر اس کے اَحکام کو فراموش کر دیتا ہے۔ انسان کو تکلیف پہنچنے کے بعد اللہ کوئی رحمت عطا کرے تو وہ اسے انعامِ الٰہی سمجھنے کے بجائے‘ اپنا استحقاق سمجھنے لگتا ہے اور قیامت کا انکار کرنے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر قیامت آ بھی گئی تو وہاں بھی مجھے یہ سب نعمتیں حاصل ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم کافروں کو ان کے اعمالِ بد کی سخت سزا دیں گے۔
سورۃ الشورٰی: اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں ایک بار پھر اللہ تعالیٰ کی قدرت کو بیان کیا اور قیامت کا منظر بیان کرتے ہوئے فرمایا: عنقریب آسمان (اس کی ہیبت سے) اپنے اوپر پھٹ پڑیں گے‘ (یعنی آسمانوں کی شکست وریخت اوپر سے نیچے کی طرف ہو گی) اور فرشتے اس کی حمد کے ساتھ تسبیح پڑھتے رہتے ہیں اور زمین والوں کیلئے مغفرت طلب کرتے رہتے ہیں‘ سنو! بے شک اللہ ہی بہت بخشنے والا بے حد رحم فرمانے والا ہے۔ آیت 8 میں بتایا کہ اگر سب لوگوں کی جبری اطاعت‘ اللہ کی مشیت ہوتی تو وہ سب لوگوں کو ایک دین پر کاربند فرما دیتا لیکن جزا وسزا کا مَدار اختیاری اطاعت پر ہے اور جو اپنے اختیار سے اطاعت کریں گے‘ وہی رحمت کے حق دار ہوں گے۔ آیت 27 میں بتایا کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے سب بندوں کا رزق وسیع کر دیتا تو وہ ضرور زمین میں سرکشی کرتے لیکن اللہ اپنی حکمت سے جتنا چاہتا ہے روزی عطا کرتا ہے‘ بے شک وہ اپنے بندوں کے حالات سے باخبر ہے۔ آیت 36 سے بتایا: سو تم کو جو کچھ بھی دیا گیا ہے‘ وہ دنیا کی زندگی کا فائدہ ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے‘ وہ ایمان والوں کے لیے زیادہ اچھا ہے اور زیادہ باقی رہنے والا ہے اور وہ اپنے رب پر ہی توکل کرتے ہیں۔ مزید بتایا کہ مسلمانوں کے معاملات باہمی مشاورت سے طے ہوتے ہیں اور برائی کا بدلہ اس جیسی برائی ہے‘ (یعنی یہ عدل کا تقاضا ہے) لیکن ‘جس نے اپنے (قصوروار کو) معاف کر دیا‘ تو اس کا اجر اللہ کے ذمۂ کرم پر ہے۔ آیت 49 سے بتایا کہ آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کے لیے ہے‘ وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے اور جس کو چاہے بیٹیاں عطا کرے اور جسے چاہے بیٹے دے اور جسے چاہے بانجھ کر دے‘ بے شک وہ بہت علم والا ‘ قدرت والا ہے۔ مزید فرمایا: کسی بشر کی شان میں نہیں کہ وہ اللہ سے کلام کرے ‘ سوائے اس کے کہ وہ وحی فرمائے یا پردے کی اوٹ سے کلام فرمائے یا وہ کسی فرشتے کو بھیج دے کہ وہ اللہ کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کرے‘ اس سے مراد یہ ہے کہ وحی ہی اللہ سے ہم کلام ہونے کا ذریعہ ہے‘ خواہ بالمشافہ اور بالمشاہدہ بندے سے ہم کلام ہو‘ جیسا کہ معراج کی حدیث میں ہے یا اس صورت میں ہو کہ کلام تو سنائی دے‘ لیکن جلوۂ ذات دکھائی نہ دے جیسا کہ اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا۔ مزید فرمایا: اور اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے آپ کی طرف روح (قرآن) کی وحی کی ہے‘ اس سے پہلے آپ از خود یہ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا چیز ہے اور ایمان کیا ہے‘ لیکن ہم نے اس کتاب کو نور بنا دیا‘ جس سے ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہیں ہدایت دیتے ہیں اور بے شک آپ ضرور صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کتاب اللہ کا مآخذ وحیِ ربانی ہے‘ اس کا مَدار عقل و قیاس پر نہیں ہے۔
سورۃ الزخرف: اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں بتایا کہ ہر عہد کے منکرین اپنے نبی کا مذاق اڑاتے رہے‘ مگر پھر ہم نے بڑی طاقت ور قوموں کو بھی ہلاک کر دیا۔ کفار فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے؛ حالانکہ وہ اللہ کی مخلوق ہیں۔ اللہ نے فرمایا: کیا یہ لوگ ان (فرشتوں) کی پیدائش کے وقت موجود تھے؛ چنانچہ آیت 16 میں کفار کے اِس انداز کے بارے میں فرمایا: کیا اس نے مخلوق میں سے اپنے لیے بیٹیاں بنائیں اور تمہارے لیے بیٹے مختص کر دیے؛ حالانکہ ان میں سے جب کسی کو اس کی بشارت دی جائے‘ جس کے ساتھ اس نے رحمن کو متصف کیا ہے‘ (یعنی بیٹیاں) تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتاہے اور وہ غصے میں کڑھتا رہتا ہے۔ آیت31 سے کفارِ مکہ کا یہ مطالبہ بیان ہوا کہ یہ قرآن دو بستیوں مکہ اور طائف کے کسی بڑے آدمی‘ (یعنی ولید بن مغیرہ اور ابو مسعود ثقفی) پر کیوں نازل نہ کیا گیا؟ اللہ نے فرمایا: کیا آپ کے رب کی رحمت کو یہ تقسیم کرتے ہیں‘ (یعنی یہ فیصلہ تو اللہ نے کرنا ہے کہ منصبِ نبوت کسے عطا کیا جائے) ہم نے ان کی دنیاوی زندگی میں ان کی معیشت (کے وسائل) کو تقسیم کیا ہے اور ہم نے (معاشی اعتبار سے) بعض کو بعض پر کئی درجے فضیلت عطا کی ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے خدمت لیں اور آپ کے رب کی رحمت اس مال سے بہت بہتر ہے‘ جس کو یہ جمع کر رہے ہیں۔ دنیا کی زندگی کی بے وقعتی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر لوگوں کے کفر میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو ہم ان کے لیے گھروں کی چھتیں‘ سیڑھیاں‘ دروازے اور مسندیں چاندی کی بنا دیتے (اور چاندی ہی کیا) سونے کی بھی بنا دیتے مگر یہ سب دنیا کا سامانِ زیست ہے اور آپ کے رب کے پاس آخرت (کی نعمتیں صرف) متقین کے لیے ہیں۔ مزید فرمایا: جو رحمن کی یاد سے (غافل ہو کر) اندھا ہو جاتا ہے‘ اس پر ہم شیطان کو مسلط کر دیتے ہیں‘ تو وہی اس کا ساتھی ہے۔
سورۃ الدخان: اس سورت کے شروع میں لیلۂ مبارَکہ کا ذکر ہے‘ بیشتر مفسرین نے اس سے لیلۃ القدر ہی مراد لی ہے جس میں قرآنِ حکیم کا نزول ہوا، البتہ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے حوالے سے بعض مفسرین نے اس سے شعبان المعظم کی پندرہویں شب مراد لی ہے۔ اس رات کے طے شدہ معاملات فرشتوں کو تفویض ہوتے ہیں۔ آیت 25 سے بنی اسرائیل کی نجات اور فرعونیوں کے غرق کیے جانے کے پسِ منظر میں فرمایا: وہ کتنے ہی باغات، چشمے، (لہلہاتے) کھیتوں، عمدہ محلات اور وہ نعمتیں جن میں وہ مصروفِ عیش تھے‘ (اپنے پیچھے ) چھوڑ گئے، اور ہم نے سب چیزوں کا دوسروں کو وارث بنا دیا، سو ان کی بربادی پر نہ آسمان رویا اور نہ زمین اور نہ ہی انہیں مہلت دی گئی۔ اس میں ان سب لوگوں کے درسِ عبرت ہے جو دنیا کی ناپائیدار عیش وعشرت ہی کو اپنا مقصودِ حیات بنا لیتے ہیں اور پھر ایک دن منظر یوں ہوتاہے کہ سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا، جب لاد چلے گا بنجارا۔ اس سورت کے آخر میں بتایا کہ کفار و مشرکین کی غذا جہنم میں زقوم (تھوہر) کا درخت ہوگا‘ جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح پیٹوں میں جوش مارے گا‘ جیسے کھولتا ہوا پانی جوش مارتا ہے‘ انہیں گھسیٹتے ہوئے جہنم کے وسط میں لے جایا جائے گا اور پھر ان کے سر پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا اور یہ صورتِ عذاب ہوگی۔ اس کے بعد متقین کے لیے جنت کی عالی شان نعمتوں کا ذکر ہے۔
سورۃ الجاثیہ: اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں اللہ تعالیٰ کی قدرت وجلالت کی نشانیوں کا ذکر ہے۔ ان مضامین کو قرآنِ مجید میں بار بار بیان کیا گیا ہے۔ آیت 23 میں فرمایا: پس کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا کہ جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا اور اللہ نے اس کو علم کے باوجود گمراہ کر دیا اور اس کے کان اور اس کے دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ پس‘ اللہ کے بعد اس کو کون ہدایت دے سکتا ہے‘ تو کیا تم نصیحت قبول نہیں کرتے۔ یعنی اگر ایک طرف اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے اور دوسری جانب بندے کے اپنے نفس کے مطالبات اور خواہشات ہوں اور وہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو نظر انداز کر کے اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی اختیار کر لے‘ تو خواہ وہ کلمہ پڑھتا ہو‘ عملاً تو اس نے اپنے نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے۔ اس کے بعد منکرینِ آخرت کے اس نظریے کو بیان کیا‘ جو ہر دور کے ملحدین کا عقیدہ رہا ہے کہ جو کچھ ہے یہ دنیا کی زندگی ہے، پسِ مرگ کچھ بھی نہیں۔ قرآنِ مجید نے بتایا کہ جس نے پہلی بار پیدا کیا‘ وہی دوبارہ زندہ کرے گا۔ جنہوں نے اس دنیا میں قیامت کے دن کو فراموش کر رکھا ہے‘ قیامت کے دن انہیں رحمتِ باری تعالیٰ نظر انداز کر دے گی اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اور کوئی ان کا مددگار نہیں ہو گا۔

قرآنِ پاک کے پچیسویں پارے کا آغاز سورہ حم سجدہ سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پچیسویں پارے کے شروع میں ارشاد فرماتے ہیں کہ قیامت کا علم اسی کی طرف لوٹایا جاتا ہے‘ اسی طرح ہر اُگنے والے پھل کا علم اس کے پاس ہے اور ہر عورت کے حمل اور اس کے بچے کی پیدائش کا علم اللہ کے پاس ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ خود بنانے والے ہیں‘ اس لیے ان سے کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کافروں کو پکارے گا اور پوچھے گا کہ وہ کہاں ہیں جنہیں تم نے میرا شریک قرار دے رکھا تھا؟ تو کافر کہیں گے کہ ہمیں ان کی کچھ خبر نہیں اور جن کو وہ خدا کے سوا پکارتے ہوں گے‘ وہ سب غائب ہو جائیں گے اور کافر یقین کر لیں گے کہ آج اللہ کے سوا کوئی مخلص نہیں‘اس کے در کے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہیں۔ لیکن اس موقع پر کسی کا ایمان لانا اسے نفع نہ دے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سورۂ مبارکہ میں فرماتے ہیں کہ انسان بھلائی کی دعائیں کرتے ہوئے نہیں تھکتا لیکن جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو مایوس ہو جاتا ہے اور آس توڑ بیٹھتا ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا ہے کہ وہ انسان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذاتوں میں بھی‘ یہاں تک کہ انسانوں کو یقین ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ ہی حق ہے۔
سورۃ الشورٰی: اس کے بعد سورۃ الشوریٰ ہے۔ سورۃ الشورٰی میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا ذکر کیا ہے کہ فرشتے اپنے رب کی پاکی اور اس کی تعریف بیان کرتے ہیں اور زمین میں رہنے والے اہلِ ایمان کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی مخلوق پر کس قدر مہربان ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نورانی فرشتے جہاں اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں‘ وہیں پر اللہ کے حکم سے اہلِ ایمان کے لیے دعائے مغفرت بھی کرتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نے آپﷺ پر قرآنِ عربی کی وحی کی ہے تاکہ آپﷺ ام القریٰ (مکہ مکرمہ) اور اس کے گرد بسنے والوں کو قیامت کے دن سے ڈرائیں‘ جس کی آمد میں کوئی شبہ نہیں ہے اور جب ایک گروہ جنت میں جائے گا اور ایک گروہ جہنم میں۔ رسول کریمﷺ سے پہلے جتنے بھی انبیاء کرام مبعوث ہوئے‘ وہ سب کے سب اپنی بستیوں‘ اپنے علاقوں اور اپنی اقوام کے لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے رہے‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو جمیع انسانیت کا رہنما بنایا اور آپﷺ کی دعوت مکہ مکرمہ سے شروع ہوئی‘ جو بستیوں کی ماں یعنی ان کا مرکز ہے اور اس کے بعد یہ پوری دنیا میں پھیل گئی۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب قیامت کا دن آئے گا تو آپ اس دن ظالموں کو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے خوفزدہ دیکھیں گے اور اس کا وبال ان پر آ کر رہے گا اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے تو وہ جنت کے باغات میں ہوں گے۔ اس سورت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول کریمﷺ کو تلقین کی کہ آپ اعلان فرما دیں کہ میں دین کی دعوت کے سلسلے میں کسی اجر کا طلبگار نہیں ہوں‘ لیکن میں اتنا ضرور چاہوں گا کہ میرے اعزہ و اقارب سے پیار کا سلوک کیا جائے۔ انبیاء کرام علیہم السلام دعوتِ دین کا کام صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا کے لیے کرتے ہیں اور اس کے بدلے وہ دنیا کی زندگانی اور آسائشوں کے طلبگار نہیں ہوتے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ انسان کو زندگی میں جتنی بھی مصیبتیں آتی ہیں‘ ان کا بنیادی سبب انسان کے اپنے گناہ ہوتے ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ بہت سے گناہوں کو نظر انداز فرما دیتے ہیں۔ قرآنِ مجید فرقانِ حمیدکے ایک اور مقام پر ارشاد ہوا کہ اگر اللہ تعالیٰ انسانوں پر گرفت فرمائیں تو زمین پر کو ئی مخلوق زندہ باقی نہ رہے۔ اس سورت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ مسلمانوں کے تمام کام مشاورت سے طے ہوتے ہیں‘ یعنی حقیقی مسلمان ہر کام میں اپنی رائے کو مقدم سمجھنے کے بجائے مشاورت کے راستے کو اختیار کرتا ہے۔
سورۃ الزخرف: سورۃ الشوریٰ کے بعد سورۃ الزخرف ہے۔ سورۃ الزخرف میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس قرآن کو عربی میں اتارنے کی وجہ یہ تھی کہ اہلِ عرب اس زبان کو جانتے تھے اور اس کو پڑھ کر وہ شعور حاصل کر سکتے ہیں اور یہ بھی بتلایا گیا کہ اپنے نزول سے قبل قرآنِ مجید‘ لوحِ محفوظ میں موجود تھا۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کیا کہ انہوں نے اپنے والد اور قوم کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ میں تمہارے معبودوں سے برأت کا اظہار کرتا ہوں اور میرا پروردگار کہ جس نے مجھے پیدا کیا ہے‘ یقینا وہی میری رہنمائی کرے گا۔ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اس بات کو اپنی اولاد میں بھی جاری فرما دیا تاکہ وہ حق کی طرف رجوع کرتے رہیں۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مشرکین مکہ کی معاندانہ روش کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وہ کہتے تھے کہ یہ قرآن مکہ اور طائف کے کسی بااثر شخص پر کیوں نہیں اترا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یوں دیا کہ کیا میری رحمتوں کو تقسیم کرنا ان کے اختیار میں ہے؟ میں جب چاہتا ہوں اور جہاں چاہتا ہوں اپنی رحمت کو اتار دیتا ہوں۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اعراض کرتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ شیطان کو ان کا ساتھی بنا دیتے ہیں اور وہ راہِ ہدایت سے بھٹک جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ سیدھے راستے پر ہیں۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا بھی ذکر کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے تھے‘ جن پر اللہ نے اپنا انعام کیا تھا اور ان کو بنی اسرائیل کے لیے اپنی نشانی بنا دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی ایک نشانی ہیں اور حدیث پاک میں اس بات کی صراحت ہے کہ قربِ قیامت حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرشتوں کے جلو میں دمشق کی جامع مسجد کے شرقی مینار پر اتریں گے۔ خنزیر کو قتل کریں گے‘ صلیب کو توڑیں گے ‘ جزیے کو موقوف کریں گے اور فتنۂ دجال کا خاتمہ فرمائیں گے۔
سورۃ الدخان : اس کے بعد سورۃ الدخان ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نے قرآنِ مجید کو برکت والی رات میں نازل فرمایا ہے۔ سورۂ دخان میں بھی اللہ تعالیٰ نے قومِ فرعون کا ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے قومِ فرعون کو آزمائش میں ڈالا اور ان کے پاس ایک عزت والے رسول یعنی موسیٰ علیہ السلام آئے‘ جنہوں نے اس (فرعون) سے کہا: تم اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کر دو‘ میں بے شک تمہارے لیے اللہ کا امانت دار پیغمبر ہوں اور اللہ کے حکم سے سرکشی اختیار نہ کرو، بے شک میں تمہارے پاس ایک واضح دلیل لے کر آیا ہوں۔ فرعون نے اس موقع پر جناب موسیٰ علیہ السلام کو سنگسار کرنے کی دھمکی دی‘ جناب موسیٰ علیہ السلام نے اس سے کہا کہ میں اپنے اور تمہارے رب سے پناہ مانگتا ہوں کہ تم مجھے سنگسار کرو۔ اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو مجھ سے دور ہو کر رہو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پروردگارِ عالم کو پکار کر کہا کہ اے رب! یہ تو مجرموں کی قوم ہے۔ تو اللہ نے ان سے کہا: آپ میرے بندوں کو لے کر رات میں نکل جائیے‘ آپ کا پیچھا کیا جائے گا اور آپ کے لیے ہم سمندر کو ٹھہری ہوئی حالت میں چھوڑ دیں گے۔ بے شک یہ (تعاقب کرنے والے) ڈوبنے والا لشکر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس طریقے سے بنی اسرائیل کو سرکش اور حد سے تجاوز کرنے والے فرعون کے رسوا کن عذاب سے نجات دی۔
سورۃ الجاثیہ : اس کے بعد سورۃ الجاثیہ ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بہت سی نشانیوں کا ذکر کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زمین و آسمان میں نشانیاں ہیں ایمان والوں کے لیے اور انسانوں اور جانوروں کی تخلیق میں نشانیاں ہیں‘ یقین رکھنے والوں کے لیے اور صبح و شام کی گردش میں اور آسمان سے اترنے والے پانی میں جس سے مردہ زمینیں زندہ ہوتی ہیں اور ہوائوں کے چلنے میں نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سمندروں کو مسخر کیا تاکہ اس کے حکم سے ان سمندروں میں کشتیوں کو چلایا جائے اور اس کے فضل کو تلاش کیا جائے تاکہ اس کا شکریہ ادا کیا جائے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب و حکمت اور نبوت دی اور پاکیزہ رزق بھی دیا اور ان کو جہانوں پر فضیلت دی۔ پھر اس کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی شریعت اور یہ فضیلت بنی اسرائیل سے لے کر رسول کریمﷺ کے ذریعے مسلمانوں کے سپرد کر دی اور تلقین کی کہ یہود و نصاریٰ کی خواہشات کو کوئی اہمیت نہیں دینی اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کرنی ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں قرآنِ پاک پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے، آمین!

سورۃ الزمر: اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے اور حق کو جھٹلانے والے کو جہنمی قرار دیا گیا اور سچے دین کو لے کر آنے والے‘ یعنی رسول اللہﷺ اور ان کی تصدیق کرنے والے (مفسرین نے اس سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مراد لیا ہے) کو متقی قرار دیا گیا ہے۔ آیت 38 میں بتایاکہ اللہ کی قدرت پر کسی کا بس نہیں چلتا۔ آیت 41 میں رسول اللہﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے آپ پر حق پر مبنی کتاب نازل کی‘ سو جو ہدایت کو اختیار کرے گا‘ اس کا فائدہ اسی کو پہنچے گا اور جو گمراہی کو اختیار کرے گا‘ اس کا وبال اسی پر ہوگا‘ آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ اگلی آیت میں نیند کو عارضی موت سے تعبیر کیا اور بتایا کہ نیند اور موت میں اتنا ہی فرق ہے کہ موت کی صورت میں بندے کی روح عارضی طور پر نہیں‘ بلکہ مدتِ دراز کیلئے قبض کرلی جاتی ہے۔ آیت 47 میں بے پناہ دولت جمع کرنے والوں کو خبردار کیا کہ اگر وہ زمین کی ساری دولت کے مالک بن جائیں اور اس کے برابر اور بھی ان کو مل جائے اور وہ قیامت کے دن یہ سب کچھ دے کر عذاب سے اپنی گردن چھڑانا چاہیں تو بھی ان کی گلو خلاصی نہیں ہو سکے گی۔ آیت 53 میں گناہگارانِ امت کو بشارت دی گئی کہ ''(اے رسولؐ!) کہہ دیجئے اے میرے وہ بندو جو گناہ کرکے اپنی جانوں پر ظلم کر چکے ہو‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘ بے شک اللہ تمام گناہوں کو بخش دے گا‘ یقینا وہ بہت بخشنے والا‘ بہت مہربان ہے‘‘۔ یعنی جو اللہ کی راہ سے بھٹک چکا ہے‘ اسے امید دلائی گئی ہے کہ سچی توبہ کے ذریعے واپسی کا راستہ باقی ہے۔ آیت 71 میں بتایا کہ کافروں کو گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانکا جائے گا اور وہاں ان کا استقبال توہین آمیز انداز میں ہو گا‘ جبکہ اہلِ ایمان کو اکرام کے ساتھ جنت کی طرف لے جایا جائے گا اور وہاں ان کا استقبال اعزاز و اکرام کے ساتھ ہو گا۔
سورۃ المؤمن: اس سورۂ مبارکہ کی آیت 2 میں اللہ کے بندوں کو ایک بار پھر نویدِ مغفرت دیتے ہوئے فرمایا: ''وہ گناہوں کا بخشنے والا اور توبہ قبول فرمانے والا‘ (سرکشوں کو ) سخت عذاب دینے والا ہے اور (نیکو کاروں پر) بڑا احسان فرمانے والا ہے‘‘۔ آیت7 میں فرمایا: ''وہ فرشتے جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اس کے گرد ہیں‘ وہ سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور مومنوں کیلئے مغفرت طلب کرتے ہیں‘ (اور کہتے ہیں) اے ہمارے رب! تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز کو محیط ہے‘ سو جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرے راستے کی اتباع کی ہے‘ ان کی مغفرت فرما اور ان کو دوزخ کے عذاب سے بچا‘‘۔ اس آیت میں بتایا گیا کہ اللہ کے مقرب فرشتے نہ صرف اس کے تائب بندوں کیلئے‘ بلکہ ان کے صالح آبائو اجداد‘ ان کی بیویوں اور ان کی اولاد کیلئے بھی جنت کی دائمی نعمتوں کی دعائیں مانگتے رہتے ہیں۔ آیت 17 میں بتایا کہ قیامت کے دن سب کے ساتھ پورا پورا انصاف ہوگا‘ وہاں ظالموں کا کوئی حمایتی اور سفارشی نہیں ہوگا‘ اللہ خیانت کرنے والی آنکھوں اور سینوں میں چھپے رازوں کو بھی جانتا ہے۔ آیت 23 میں بتایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ہم نے اپنی نشانیاں اور روشن معجزے عطا کرکے فرعون‘ ہامان اور قارون کی طرف بھیجا تو انہوں نے انہیں (معاذ اللہ) جادوگر اور جھوٹا قرار دیا اور اس کے بعد انہی واقعات کا ذکر ہے‘ جو اس سے پہلے بھی گزر چکے ہیں۔ آیت 37 میں بتایا کہ فرعون نے ہامان سے کہا: میرے لیے ایک بلند عمارت بناؤ تاکہ میں آسمانوں کے راستوں تک پہنچوں اور موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کے بارے میں خبر لوں اور میرا گمان تو یہ ہے کہ (معاذ اللہ) یہ جھوٹے ہیں اور اسی طرح فرعون کے برے عمل کو اس کے نزدیک خوشنما بنا دیا گیا اور (اس کی سرکشی کے سبب) اسے سیدھے راستے سے روک دیا گیا۔ آیت 46 میں فرمایا: جس نے برا کام کیا‘ اس کو صرف اسی کے برابر سزا دی جائے گی اور جس مرد وعورت نے ایمان پر قائم رہتے ہوئے نیک کام کیا‘ تو وہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے‘ جہاں انہیں بے حساب رزق عطا کیا جائے گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں‘ بے شک اللہ بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے۔ سو‘ اللہ نے مخالفین کی سازشوں سے انہیں محفوظ رکھا اور فرعونیوں کو بدترین عذاب نے گھیر لیا‘ انہیں صبح و شام دوزخ کی آگ پر پیش کیا جاتاہے اور جس دن قیامت آئے گی‘ (یہ حکم دیا جائے گا کہ) آلِ فرعون کو شدید ترین عذاب میں ڈال دو۔ آیت 49 میں بتایا کہ جہنمی‘ جہنم کے داروغوں سے کہیں گے کہ اپنے رب کو بلاؤ کہ ہمارے ساتھ عذاب میں ایک دن کی تخفیف کر دے‘ جہنم کا محافظ عملہ ان سے کہے گا کہ کیا دنیا میں تمہارے پاس رسول نشانیاں لے کر نہیں آئے تھے؟ وہ اقرار کریں گے۔ آگے چل کر فرمایا کہ قیامت میں ظالموں کی عذر خواہی ان کے کوئی کام نہیں آئے گی‘ ان کیلئے لعنت ہے اور برا گھر ہے۔ آیت 64 میں فرمایا: وہی (ہمیشہ) زندہ رہنے والا ہے‘ اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں‘ سو تم اخلاص کے ساتھ اسی کی بندگی کو اختیار کرو۔ آیت 77 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''بے شک ہم نے آپ سے پہلے بھی بہت رسول بھیجے‘ ہم نے ان میں سے بعض کے واقعات آپ کے سامنے بیان کیے ہیں اور بعض کے واقعات بیان نہیں کیے‘‘ البتہ سورۂ ہود کی آیت 120 میں فرمایا: ''ہم آپ کے سامنے تمام رسولوں کی خبریں بیان کر رہے ہیں‘‘ یعنی رسول اللہﷺ کو تمام انبیائے کرام کے احوال بتا دیے گئے تھے‘ قرآن میں جن انبیائے کرام کے نام بتا دیے گئے ہیں‘ ان پر نام بہ نام ایمان لانا فرضِ عین ہے اور دیگر انبیائے کرام علیہم السلام پر تعداد کے تعین کے بغیر اجمالی طور پر ایمان لانا فرض ہے۔
سورہ حٰمٓ السجدہ: اس سورۂ مبارکہ کی آیت 5 میں کفار کی انتہائی سرکشی کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ''اور انہوں نے کہا: جس دین کی طرف آپ ہمیں بلا رہے ہیں، ہمارے دلوں میں اس پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور ہمارے کانوں میں لاٹ ہے اور ہمارے اور آپ کے درمیان حجاب ہے، سو آپ اپنے کام سے کام رکھیے اور ہم اپنے ڈھب پر کاربند رہیں گے‘‘، یعنی وہ کسی بھی طور پر قبولِ حق کیلئے تیار نہیں تھے۔ آیت 9 سے ایک بار پھر اس کائنات کی تخلیق کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی بے پایاں قدرت وجلالت کا ذکر ہے اور ان کھلی نشانیوں کو دیکھنے کے باوجود منکر قوموں کی سرکشی کا ذکر ہے۔ آیت 15 سے قومِ عاد کی سرکشی کا ذکر ہے کہ انہیں اپنی مادی طاقت پر بڑا ناز تھا اور کہتے تھے کہ ہم سے بڑھ کر بھی کوئی زبردست ہے؟ ان کو جواب دیا گیا کہ تم سے بڑا زبردست وہ اللہ ہے، جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر قومِ عاد پر منحوس دنوں میں خوفناک آواز والی آندھی بھیجی اور ان کا نام ونشان مٹا دیا گیا، قومِ ثمود کا انجام بھی برا ہوا۔ آیت 19 سے بیان ہوا کہ قیامت کے دن اللہ کے دشمنوں کو جمع کرکے جہنم کی طرف لے جایا جائے گا تو جب وہ جہنم تک پہنچیں گے تو ان کے کان، آنکھیں اور ان کی جلدیں ان کے خلاف سلطانی گواہ بن جائیں گی، کفار اپنی جلدوں سے کہیں گے: تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی؟ (ان کے اعضاء) جواب دیں گے: ہمیں اسی اللہ نے قوتِ گویائی عطا کی، جس نے ہر چیز کو بولنا سکھایا اور اسی نے تم کو پہلی بار پیدا کیا اور اسی کی جانب لوٹائے جاؤ گے۔ آیت 30 سے بتایا کہ ایمان پر ثابت قدم رہنے والے اہلِ ایمان کی روح جب اس دنیا سے پرواز کرے گی تو اس کے استقبال کیلئے فرشتے نازل ہوں گے اور کہیں گے کہ تم نہ کسی آنے والی بات کا خوف کرو اور نہ کسی گزشتہ بات کا رنج و ملال اور اس جنت کی بشارت سنو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا، پھر انہیں بتایا جائے گا کہ اللہ غفور الرحیم نے ان کیلئے جنت میں ضیافت کا اہتمام فرمایا ہے اور وہاں وہ جس نعمت کی بھی خواہش کریں گے انہیں دستیاب ہو گی۔ آیت 24 میں بتایا کہ نیکی اور بدی برابر نہیں ہیں، دوسروں کی بدی کا جواب نیکی سے دو، اس کے نتیجے میں تمہارا مخالف تمہارا سرگرم اور پُرجوش دوست بن جائے گا۔ آیت 39 سے اللہ تعالیٰ نے حیات بعد الموت کے ثبوت کیلئے حسی مثال دی کہ تم دیکھتے ہو کہ زمین خشک، بنجر اور غیر آباد ہوتی ہے تو ہم اس پر بارش کا پانی نازل کرتے ہیں، جس کے ذریعے وہ سرسبز اور شاداب ہو جاتی ہے اور نمو یعنی نباتات اگانے اور بڑھانے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، جو زمین کیلئے حیات ہے؛ پس جو اللہ بے جان زمین میں جان ڈالتاہے، وہی آخرت میں مردوں کو زندہ کرے گا۔ آیت 42 میں قرآن کی شانِ اعجاز کو بیان کیا کہ اس میں کسی بھی جانب سے باطل کی آمیزش نہیں ہو سکتی، یہ سراسر حق ہے۔ اگلی آیت میں بتایا کہ یہ قرآن مومنوں کیلئے ہدایت اور شفا ہے اور کافر جن کے حق میں ہدایت مقدر نہیں ہے، ان کے کان قبولِ حق کیلئے بند ہو جاتے ہیں اور ان کی آنکھیں اندھی بن جاتی ہیں۔ آخری آیت میں فرمایا کہ ہر شخص کو اس کے نیک عمل کی جزا اور برے عمل کی سزا ملے گی اور تمہارا رب اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔

چوبیسویں پارے کا آغاز سورۂ زمر سے ہوتا ہے۔ اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا اور جب سچی بات اس تک پہنچ گئی تو اسے جھٹلا دیا۔ جھوٹ باندھنے والے لوگوں میں وہ تمام گروہ شامل ہیں جنہوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات کیساتھ شرک کیا۔ کفارِ مکہ نے بتوں کو اللہ کا شریک ٹھہرایا اور فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیا۔ اسی طرح عیسائیوں نے سیدنا مسیح علیہ السلام کو جبکہ یہودیوں نے حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیا۔ یہ تمام گروہ اس بات سے غافل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جہنم کو کافروں کیلئے تیار کر رکھا ہے۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ رسول اللہﷺ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سچائی کی دعوت کو لے کر آئے ہیں اور جس کسی نے آپﷺ کی تصدیق کی‘ وہ اہلِ تقویٰ ہیں اور ان لوگوں کے لیے پروردگارِ عالم کے پاس وہ سب کچھ موجود ہے‘ جو وہ چاہیں گے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ بے شک ہم نے لوگوں کی ہدایت کے لیے آپﷺ پر کتاب کو نازل کیا ہے؛ پس جو ہدایت کو قبول کرے گا اپنی ذات کے لیے کرے گا اور جو کوئی رو گردانی کرے گا‘ اس کا نقصان اسی کو سہنا پڑے گا۔ اللہ کے حبیبﷺ کو کافر طرح طرح کی باتیں کرکے ایذا دیا کرتے تھے اور رسول اللہﷺ ان پر رنجیدہ ہو جاتے کہ آپ ان کو صراطِ مستقیم کی دعوت دیتے ہیں اور وہ آپ کی حق پر مبنی دعوت کو ٹھکرا دیتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے کہا کہ جو ہدایت کو قبول کرے گا تو وہ اپنے فائدے کے لیے کرے گا اور جو کوئی گمراہ ہو گا اس کا نقصان اسی کی ذات کو ہوگا۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ اے میرے بندو! جو اپنی جانوں پر ظلم کر چکے ہو‘ میری رحمت سے ناامید نہ ہو‘ بے شک اللہ تعالیٰ سب گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کی منظر کشی بھی کی ہے کہ قیامت کے دن تمام زمین اللہ کی مٹھی میں ہو گی اور سارے آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ اس سے آگے چل کر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب صور میں پھونک ماری جائے گی تو آسمان اور زمین میں جتنے رہنے والے ہیں‘ سب بے ہوش ہو جائیں گے سوائے ان کے جنہیں اللہ چاہے گا۔ پھر دوسری بار اس میں پھونک ماری جائے گی تو وہ کھڑے ہوکر دیکھنے لگیں گے اور زمین اپنے رب کے نور سے روشن ہو جائے گی اور تمام اعمال نامے کھول کر رکھے جائیں گے اور انبیاء کرام اور شہداء لائے جائیں گے اور ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور ہر جان کو اس کے کیے کا پورا بدلہ دیا جائے گا۔
سورۃ المومن
سورۃ الزمر کے بعد سورۂ مومن ہے۔ اس سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بعض صفات کا ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ گناہوں کو معاف کرنے والا اور توبہ کو قبول کرنے والا ہے اور اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے عرشِ عظیم کو اٹھانے والے فرشتوں کا بھی تذکرہ کیا ہے کہ عرشِ عظیم کو اٹھانے والے فرشتے اور جو فرشتے اس (عرش) کے ارد گرد جمع ہیں‘ یہ سب اپنے رب کی پاکی بیان کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں، ایمان والوں کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! تُو نے اپنی رحمت اور علم کے ذریعے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے پس تو ان لوگوں کو معاف کر دے جنہوں نے توبہ کی اور تیری راہ کی پیروی کی اور تو انہیں جہنم کے عذاب سے نجات دے۔ اے ہمارے رب! تو انہیں ہمیشہ رہنے والی ان جنتوں میں داخل فرما جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کے ہمراہ ان کے ماں باپ، بیویوں اور اولادوں میں سے ان لوگوں کو بھی داخل فرما‘ جو نیکی کی راہ پر چلے ہوں، بے شک تو زبردست حکمتوں والا ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے والے لوگ کافروں کے علاوہ کوئی نہیں ہوتے اور زمین پر ان کے ٹھاٹ باٹ اور شاہانہ اندازِ زندگی کو دیکھ کر انسان کو گمراہ نہیںہونا چاہیے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ عرشِ عظیم کو اٹھا نے والے فرشتے اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی حمد اور تسبیح کو بیان کرتے ہیں اور زمین پر موجود اہلِ ایمان کے لیے دعا ئے مغفرت بھی کرتے ہیں۔ اس سورۂ مبارکہ میں قیامت کی ہولناکیوں کا بھی ذکر ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ شدید غضبناک ہوں گے اور تکرار سے یہ آواز بلند فرمائیں گے ''آج کے دن کسی کی بادشاہی ہے؟‘‘ اور پھر خود ہی جواب دیں گے کہ ''اللہ واحد و قہار کی بادشاہی ہے‘‘۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے فرعون کے اس عزم کا بھی ذکر کیا کہ اس نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو شہید کرنے کا ارادہ کیا تھا تو جناب موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ میں اپنے اور تیرے پرور دگار کی پناہ طلب کرتا ہوں ہر اس متکبرکے شر سے جو یومِ حساب پر یقین نہیں رکھتا۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے فرعون کے قبیلے کے ایک مومن شخص کا ذکر کیا ہے جو دربارِ فرعون میں ایک اعلیٰ منصب پر فائز تھا اور اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا‘ لیکن جب فرعون نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو شہید کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو اس صاحبِ ایمان شخص کیلئے یہ بات نا قابلِ برداشت ہو گئی اور اس نے اس موقع پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی علانیہ حمایت کی اور اپنے ایمان کا بر ملا اظہار کیا۔ اس نے فرعونیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا تم ایک ایسے شخص کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہو جو صرف یہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے پاس کھلی نشانیاں بھی لے کر آیا؟ اگر بالفرض وہ جھوٹا ہو گا تو اس کے گناہ کا وبال اسی پر ہو گا لیکن اگر وہ سچا ہوا اور جس عذاب کی وہ وعید سناتا ہے‘ وہ لازماً تم پر نازل ہو کر رہے گا اور یقینا اللہ ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے بڑھنے والا اور جھوٹا ہو۔پھر اس شخص نے اپنی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے خوف ہے کہ تم پر بھی پچھلی امتوں‘قومِ نوح، قوم عاد، قوم ثمود اور دوسرے جھٹلانے والوں کی طرح عذاب نہ نازل ہو جائے اور تم ایک ایسے شخص کو جھٹلا رہے ہو جو اللہ کا رسول ہونے کا دعویدار ہے حالانکہ اس سے قبل یوسف علیہ السلام بھی تمہارے پاس اپنے رب کی طرف سے کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے اور جب وہ فوت ہو گئے تو تم کہنے لگے کہ اب اللہ کوئی اور پیغمبر نہیں بھیجے گا۔اللہ تعالیٰ نے اس مومن کے ایمان کو قبول کر لیا اور اس کو فرعون کے مکر سے نجات دلا دی۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ بے شک ہم مدد کریں گے اپنے رسولوں اور اہلِ ایمان کی دنیا میں بھی اور تب جب قیامت قائم ہو گی۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا کہ تم مجھے پکارو میں تمہاری دعائوں کو سنوں گا۔ بے شک وہ لوگ جو اللہ کی عبادت سے تکبر کرتے ہیں ان کو جہنم میں داخل کیا جائے گا۔
حم السجدہ
سورۂ مومن کے بعد سورۂ حم السجدہ ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ قرآنِ مجید کے نزول کا مقصد یہ تھا کہ رسول اللہﷺ لوگوں کو ڈرائیں اور ان کو بشارت دیں مگر لوگوں کی اکثریت قرآنِ مجید کی دعوت سے اعراض کرتی ہے اور کہتی ہے ہمارے کان اور دل آپ کی دعوت کو سننے اور ماننے سے قاصر ہیں۔ یہ کافروں کی بدنصیبی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی کھلی آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ نہ دینے والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایسے لوگ مشرک اور آخرت کا انکار کرنے والے ہیں‘ ان کے مدمقابل جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کرنے والے ہیں‘ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہت بڑے اجر کو تیار کیا ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے قومِ عاد و ثمود پر آنے والے عذابوں کا بھی ذکر کیا ہے کہ قومِ عاد کے لوگ اپنی قوت پر نازاں تھے اور اس بات کو بھول چکے تھے کہ اللہ تعالیٰ جو ان کو بنانے والا‘ ان کا خالق و مالک ہے‘ ان سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ اس طرح قومِ ثمود کو اللہ تعالیٰ نے اپنی واضح نشانیاں دکھلائیں لیکن وہ قوم اللہ تعالیٰ کی نشانیاں دیکھ کر بھی بغاوت پر آمادہ و تیار رہی۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور انہوں نے اس پر استقامت کو اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ ان پر موت کے وقت فرشتوں کا نزول فرمائے گا اور فرشتے ان کو کہیں گے کہ نہ ڈرو اور نہ غم کھائو‘ تم کو جنت کی بشارت دی جاتی ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآنِ پاک پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین!

سورہ یٰسٓ
اس پارے کی ابتدا میں بجائے اس کے کہ مشرکین کے باطل معبودوں کی مذمت کی جاتی‘ نہایت حکیمانہ انداز میں فرمایا: ''میں اس معبود کی عبادت کیوں نہ کروں‘ جس نے مجھے پیدا کیا اور تم بھی اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے‘ کیا میں معبودِ برحق کو چھوڑ کر ان (بتوں) کو معبود قرار دوں کہ اگر رحمن مجھے نقصان پہنچانا چاہے تو ان کی شفاعت میرے کسی کام نہ آئے اور نہ ہی وہ مجھے نجات دے سکیں‘‘۔ آیت 38 سے اللہ تعالیٰ کی قدرت وجلالت کو بیان کیا کہ سورج‘ چاند اور سیارے قادرِ مطلق کے نظم کے تابع چل رہے ہیں اور یہ ممکن ہی نہیں کہ ان میں کوئی فساد یا ٹکراؤ ہو جائے۔ آیت 65 سے بتایا کہ قیامت کے دن مجرموں کے مونہوں پر مہریں لگا دی جائیں گی اور ان کے ہاتھ اور پاؤں (اور دیگر اعضا) سلطانی گواہ بن کر اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ان کے خلاف گواہی دیں گے کہ ہم سے کیا کیا جرائم کرائے جاتے رہے۔ آیت 78 سے منکرینِ آخرت کے اس عقلی سوال کا ذکر فرمایا کہ جب انسان مر جائے گا اور ہڈیاں تک بوسیدہ ہو جائیں گی ‘ تو دوبارہ کون زندہ کرے گا؟ اور پھر جواب دیا کہ دوبارہ بھی وہی خالق تبارک وتعالیٰ زندہ کرے گا‘ جس نے بغیر کسی نام ونشان کے پہلے پیدا کیا تھا؛ حالانکہ اب تو ذرۂ خاک یا راکھ موجود ہے۔ مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کا ارادہ فرماتاہے تو فرماتا ہے ''کُن‘‘ (ہو جا)‘ تو وہ چیز وجود میں آ جاتی ہے۔ یہ واضح رہے کہ ''کُن‘‘ کہنا بھی ضروری نہیں‘ صرف اللہ تعالیٰ کا ارادہ کافی ہے۔
سورۃ الصّٰفٰت
پہلے شیطان کا داخلہ عالَمِ بالا کی طرف ہوتا تھا‘ مگر آیت 10 میں بتایا کہ اب اس کا داخلہ عالَمِ بالا میں بند ہے اور اگر وہ ادھر کا رخ کرے تو اس پر آگ کے کوڑے برسائے جاتے ہیں۔ آیت 40 سے اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کو آخرت میں عطا کی جانے والی نعمتوں کا ذکر ہے کہ انہیں عمدہ میوے ملیں گے‘ وہ جنت میں اعزاز و اکرام کے ساتھ ایک دوسرے کے مقابل مسندوں پہ بیٹھے ہوئے ہوں گے‘ سفید اور لذیذ شرابِ طہور کے جام گردش میں ہوں گے کہ جن سے نہ دردِ سر ہو گا اور نہ ہوش اڑیں گے‘ پیکرِ شرم و حیا حوریں ہوں گی اور وہ بلند مقام سے جہنمیوں کا مشاہدہ کر رہے ہوں گے۔ آیت 62 سے جہنمیوں کی کیفیت کو بیان کیا کہ شیطان کے سروں کی طرح دوزخ کی جڑ سے پیدا ہونے والا ''زقوم‘‘ (تھوہر) کا درخت ان کی غذا ہوگا‘ پھر انہیں جہنم کا کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا۔ آیت 83 سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ ایک بار پھر مذکور ہوا کہ آپ قوم کے ساتھ میلے میں نہ گئے اور ان کے بڑے بت کو پاش پاش کر دیا اور پھر انہوں نے آگ کا ایک الاؤ تیار کرکے ابراہیم علیہ السلام کواس میں ڈال دیا ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ان کی تدبیر کو ناکام بنا دیا۔ اس کے بعد اسماعیل علیہ السلام کی ولادت کی بشارت‘ اپنے باپ کا ہاتھ بٹانے کی عمر کو پہنچنے کے بعد خواب میں ان کے ذبح کا حکم دیے جانے اور پھر باپ بیٹے دونوں کے حکمِ ربانی کے سامنے سرِ تسلیم خم کئے جانے کا ذکر ہے۔ آیت 105 میں فرمایا کہ ابراہیم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا اور اسماعیل علیہ السلام کے فدیے کے طور پر غیب سے نمودار ہونے والے ایک مینڈھے کے ذبح کئے جانے کا ذکر ہے‘ جسے قرآن نے ''ذبحِ عظیم‘‘ قرار دیا ہے۔ اس کے بعد یونس علیہ السلام کے قوم سے بھاگ کر کشتی میں سوار ہونے‘ پھر قرعہ اندازی کے ذریعے ڈولتی ہوئی کشتی سے دریا میں ڈالے جانے اور پھر مچھلی کے انہیں نگل جانے کا ذکر ہے اور اللہ کی شانِ اعجاز کہ انہیں مچھلی کے پیٹ میں سلامت رکھا اور ان تمام مراحل میں وہ اپنی خطائے اجتہادی پر اپنے آپ کو ملامت کرتے رہے۔ پھر انہوں نے توبہ کے ارادے سے یہ تسبیح پڑھی: ''لاالٰہ الا انت سبحانک انی کنت من الظٰلمین‘‘۔اللہ عزوجل نے فرمایا: اگر وہ تسبیح نہ پڑھتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے مچھلی نے انہیں ساحل پر اگل دیا۔ وہ بیمار تھے‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کیلئے لوکی کی ایک بیل کو اُگا کر ان پر سایہ فگن کر دیا۔ قرآن نے یہ بھی بتایا کہ وہ ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔ آیت 149سے مشرکوں کی عجب فطرت کا ذکر ہے کہ اپنے لئے بیٹوں کی تمنا کرتے ہیں اور اللہ کی طرف بیٹیوں کی نسبت کرتے ہیں، (وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے)۔ وہ اللہ کی طرف جھوٹ پر مبنی اولاد کی نسبت کرتے ہیں حالانکہ اللہ اس سے پاک ہے۔
سورہ صٓ
اس سورہ میں ان مشرکین کو‘ جنہیں اپنی طاقت پر ناز تھا اور جو خدائی کے دعوے کرتے تھے‘ فرمایا کہ اگر آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان ہر چیز کی بادشاہت ان کی ہے تو پھر انہیں چاہئے کہ آسمانوں کی طرف چڑھیں اور ظاہر ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے‘ تو پھر انہیں اپنے عجز کا اعتراف کر لینا چاہیے۔ اس سورہ مبارکہ میں قومِ نوح‘ عاد و فرعون‘ ثمود‘ قومِ لوط اور اصحاب الایکہ کا ایک بار پھر ذکر ہے کہ انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا تو ان پر اللہ کا عذاب سچا ثابت ہوا۔ آیت 17سے داؤد علیہ السلام اور ان کے معجزات کا ذکر ہے کہ پرندے زبور کی تلاوت کرتے وقت جمع ہوتے تھے اور اللہ نے انہیں سلطنت‘ حکمت اور قولِ فیصل عطا کیااور ان کے پاس دائر ایک مقدمے کا ذکر آیا۔ ایک شخص نے کہا کہ میرے بھائی کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک ہی دنبی ہے اور وہ مجھ پر دباؤ ڈال رہا کہ میں وہ ایک بھی اسی کو دے دوں۔ داؤد علیہ السلام نے کہا کہ ایک دنبی کا مطالبہ کرکے اس نے ظلم کیا ہے اور اکثر شرکا ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں‘ سوائے ان کے جو ایمان لائے اور اعمالِ صالحہ کئے۔ قرآن سلیمان علیہ السلام کا ذکر فرماتا ہے کہ وہ اللہ کے بہت اچھے بندے اور اس کی طرف بہت رجوع کرنے والے تھے۔ آیت31 سے سلیمان علیہ السلام کے سامنے سدھائے ہوئے تیز رفتار گھوڑوں کے پیش کئے جانے کا ذکر ہے، آپ علیہ السلام نے ان پر ہاتھ پھیرا، پھر ان کی آزمائش کا ذکر ہے جس کی تفصیل کو قرآن نے بیان نہیں کیا، تفاسیر میں مختلف روایات ہیں لیکن ہر ایسی روایت جو مقامِ نبوت کے خلاف ہو‘ اسے رد کر دیناچاہئے۔ آیت 41 سے حضرت ایوب علیہ السلام اور ان کے مصائب کا ذکر ہے ۔ اللہ نے انہیں حکم دیا: اپنا پاؤں زمین پر مارو‘ ان کے پاؤں کی ضرب سے غسل اور پینے کیلئے ٹھنڈا پانی نکل آیا اور مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ ان کیلئے وسیلۂ شفا بھی بنا‘ پھر اللہ تعالیٰ نے آزمائش کے طور پر اہل ومال کی جونعمتیں ان سے سلب فرمائی تھیں وہ ان کو دگنی مقدار میں دوبارہ عطا فرما دیں۔ انہوں نے کسی وجہ سے اپنی بیوی کو سو کوڑے مارنے کی قسم کھائی تھی‘ اللہ تعالیٰ نے اس قسم سے بری ہونے کیلئے ان کو یہ تدبیر بتائی کہ سو تنکوں کا ایک جھاڑو بنا کر ایک ضرب لگائیں تو یہ قسم پوری ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایوب علیہ السلام صابر تھے‘ اللہ کے پیارے بندے تھے اور اس کی طرف بہت رجوع کرنے والے تھے۔ آیت 49 سے اہلِ تقویٰ کیلئے جنت کی نعمتوں اور جہنمیوں کیلئے عذاب کی مختلف صورتوں کا ذکر ہے۔ آیت 71 سے آدم علیہ السلام کی تخلیق‘ تمام فرشتوں کے انہیں سجدہ کرنے اور تکبر کی بنا پر شیطان کی طرف سے سجدے سے انکار کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان سے جواب طلب فرمایا کہ آدم کو میں نے اپنے دستِ قدرت سے بنایا‘ تو تمہارے اس کو سجدہ کرنے سے کون سی چیز مانع ہوئی۔ شیطان نے کہا کہ میں آدم سے افضل ہوں‘ میرامادۂ تخلیق (آگ) آدم علیہ السلام کے مادۂ تخلیق (مٹی) سے افضل ہے۔ اللہ نے فرمایا: تُو مردود ہے‘ جنت سے نکل جا اور قیامت تک تجھ پر میری لعنت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اپنی خطا (اجتہادی) کو تسلیم کرنا اور اس پر اللہ سے معافی مانگنا آدم علیہ السلام کی سنت ہے اور اپنی معصیت پر ڈٹ جانا اور اس کو درست ثابت کرنے کے لئے دلیل کا سہارا لینا‘ یہ ابلیس کا شعار ہے۔ پھر بتایا کہ شیطان کو قیامت تک کیلئے مہلت دے دی گئی اور اُس نے عہد کیا کہ میں اللہ کے مخلص بندوں کے سوا تمام اولادِ آدم کو گمراہ کروں گا۔

تئیسویں پارے کا آغاز سورہ یٰسٓ سے ہوتا ہے۔ بائیسویں پارے کے آخر میں انبیا علیہم السلام کی تائید کرنے والے مومن کا ذکر تھا۔ اس پارے میں اس مردِ مومن کی تبلیغ کا ذکر ہے کہ اس نے بستی کے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں اللہ کی عبادت کیوں نہ کروں کہ اسی نے مجھے پیدا کیا اوراسی کی طرف مجھے پلٹ کر جانا ہے۔ اللہ کو چھوڑ کر اگر میں کوئی اور معبود پکڑ لوں تو مجھے اس معبود کا کیا فائدہ کہ اللہ تعالیٰ اگر مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو وہ میرا کچھ بھی بھلا نہیں کر سکتے۔ بستی والوں نے اس کی دعوت قبول کرنے کے بجائے اس کو شہید کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو جنت میں داخل کر دیا اس پر اس شخص نے خواہش ظاہر کی کہ اے کاش! میری قوم کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ رب العزت نے مجھے بخش دیا ہے اور مجھے عزت والوں میں شامل کیا ہے۔ اس بندۂ مومن کی شہادت کے بعد اللہ کی رحمتیں بستی والوں سے روٹھ گئیں۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کے اعتراضات کا ذکر کیا ہے کہ کافر کہتے ہیں کہ کون ہڈیوں کو زندہ کرے گا‘ جبکہ ہماری ہڈیاں چور چور ہو چکی ہوں گی۔ فرمایا کہ وہی ان ہڈیوں کو زندہ کرے گا‘ جس نے پہلی مرتبہ ان کو پیدا کیا تھا اور اس کو ہر قسم کی تخلیق کی پوری خبر ہے۔
سورۃ الصّٰفٰت
اس کے بعد سورۃ الصّٰفٰت ہے‘ مجموعی طور پر اس سورہ کے مطالب کا پانچ حصوں میں خلاصہ ہوتا ہے‘ پہلا حصہ: خدا کے فرشتوں کے مختلف گروہوں کے بارے میں بحث کی گئی ہے اور ان کے مقابلے میں سرکش شیطانوں کے گروہوں اور ان کے انجام کو بیان کیا گیا ہے۔ دوسرا حصہ: کافروں کے بار ے میں ہے‘جس ان کے انکار اور قیامت میں ان کے انجام کو بیان کیا گیا ہے۔ تیسرا حصہ: انبیاء کرام‘ جیسے حضرت نوح علیہ السلام‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام‘ حضرت اسحٰق علیہ السلام‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام‘ حضرت ہارون علیہ السلام‘ حضرت الیاس علیہ السلام‘ حضرت لوط علیہ السلام اور حضرت یونس علیہ السلام کے بارے میں ہے۔ چوتھا حصہ: شرک کی ایک بدترین قسم کاذکرہے یعنی جنوں اورخدا یا فرشتوں اور خدا کے درمیان قرابت کا اعتقاد اور مختصر جملوں میں اس عقید ے کی اس طرح دھجیاں بکھیری گئی ہیں کہ اس میں معمولی سی رمق بھی باقی نہیں رہتی۔ پانچواں حصہ اس سورہ کا آخری حصہ ہے اور لشکرِحق کی کفر و شرک پر فتح کا ذکر ہے۔ اہل ِشرک و نفاق کے عذابِ الٰہی میں گرفتار ہونے کا تذکرہ ہے۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے ستاروں کی تخلیق کے مقاصد واضح کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان ستاروں کے ذریعے آسمان کو زینت عطا کی اور ان میں سے بعض ستاروں کو اللہ تعالیٰ آسمان کی خبریں چوری کرنے والے شیاطین کو مارنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ پھر جنابِ ابراہیم علیہ السلام کی عظیم قربانی کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو خواب میں دکھلایا کہ وہ اپنے بیٹے (جناب اسماعیل علیہ السلام) کے گلے پر چھری چلا رہے ہیں۔ جنابِ ابراہیم علیہ السلام نے جنابِ اسماعیل علیہ السلام سے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تمہارے گلے پر چھری چلا رہا ہوں‘ اب بتائو کہ تمہاری رائے کیا ہے۔ جناب اسماعیل علیہ السلام نے جواب میں کہا: بابا! آپ وہ کام کریں‘ جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اور ان شاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے۔ جب ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل لٹایا تو اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کو پکارا کہ آپ نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے جنابِ ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام کی قربانی قبول فرما کر جہاں اخروی جزا کو ان کا مقدر بنا دیا‘ وہیں پر رہتی دنیا تک کے لیے بھی اس قربانی کو ایک مثال بنا دیا۔ اسی سورہ میں جناب یونس علیہ السلام کا ذکر ہے کہ وہ رسولوں میں سے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک لاکھ افراد کی طرف مبعوث فرمایا تھا۔ جناب یونس علیہ السلام جب مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی کثرت سے تسبیح کی اور دعا مانگی ' لاالٰہ الا انت سبحانک انی کنت من الظٰلمین‘اس وظیفے اور دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت بڑی مصیبت سے نجات دے دی۔
سورہ صٓ
اس کے بعد سورہ صٓ ہے‘ جس میں اللہ تعالیٰ نے جناب رسول کریمﷺ کی دعوت پر مشرکوں کے اعتراض کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اللہ واحد کی عبادت کا درس دیا اور باقی تمام معبودوں کی نفی کی اور یہ بات مشرکین کو کسی طور گوارا نہیں تھی‘ پھر جناب دائود علیہ السلام کی حکمت اور قوتِ بیان کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے فرزند جناب سلیمان علیہ السلام کی دعا کا بھی ذکر کیا کہ انہوں نے پروردگار عالم سے دعا مانگی کہ اے میرے پروردگار! مجھے بخش دے اور مجھے ایسی حکومت دے جو میرے بعد کسی دوسرے کے نصیب میں نہ آئے‘ بیشک تُو سب سے بڑھ کر عطا کرنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جنابِ سلیمان علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی اور آپ کو ایسی سلطنت عطا فرمائی کہ جنات اور ہوائوں کو آپ کے تابع فرما دیا۔ جنات آپ کے حکم پر عمارتیں ،بڑے حوض اور جمی ہوئی دیگیں بناتے اور آپ کے حکم سے غوطہ خوری بھی کرتے۔ اسی طرح تیز ہوائیں آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم پر صبح و شام ایک ماہ کی مسافت طے کرتیں تھیں۔ آپ کے دربار میں تمام چرند پرند کے نمائندے موجود ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پربہت زیادہ انعامات کیے‘لیکن آپ اس تمام انعام واکرام کے باوجود اللہ کی بندگی میں مشغول رہے اور اپنی تمام تر توانائیوں کو اللہ کی توحید کی نشر واشاعت میں صرف کرتے رہے اور جب بھی کبھی آپ کے علم میں یہ بات آئی کہ کہیں اللہ کی ذات کے ساتھ شرک ہو رہا ہے تو آپ علیہ السلام اس مقام تک رسائی حاصل کرتے اور لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے۔ سبا کی ملکہ سے آپ کے تنازع کا اصل سبب یہی تھا کہ سبا کے لوگ اللہ کو چھوڑ کر سورج کی پرستش کر رہے تھے۔ اسی وجہ سے آپ نے ملکہ سبا کو اپنے دربار میں طلب کر کے توحید کی دعوت دی‘ جس کو اس نے قبول کر لیا۔ اللہ تعالیٰ نے جناب ایوب علیہ السلام کی بیماری اور شفا کا بھی ذکر کیا۔ جناب ایوب علیہ السلام طویل عرصہ تک بیمار رہے اور اس بیماری نے آپ کو بے بس کر دیا۔ جنابِ ایوب علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا مانگی کہ اے پروردگار! شیطان مجھے تکلیف دے رہا ہے‘ آپ مجھ پر رحم فرمائیں‘ بے شک آپ سب سے زیادہ رحم کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تمام تکلیفوں کو دور فرما دیا۔
سورۃ الزمر
اس کے بعد سورہ زمر ہے‘ جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب پاکﷺ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر حق کے ساتھ کتاب نازل کی ہے۔ پس‘ آپ مخلص ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ فرمایا کہ بہت سے لوگ اللہ تعالیٰ کے علاوہ مددگار تلاش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ان کی پوجا اس لیے کر رہے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب کر دیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان اختلافات کا فیصلہ وہ خود فرمائے گا اور بے شک وہ جھوٹ بولنے والے گمراہوں کو کچھ ہدایت نہیں دیتا۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے انسانوں کو تین اندھیروں میں سے پیدا فرمایا‘ پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حقیقی گھاٹا ان لوگوں کیلئے ہے‘ جن کو اللہ تعالیٰ نے آخرت میں گھاٹا دیا اور یہ وہ لوگ ہیں جن کوآگ کا عذاب سہنا ہو گا اور ان کے مقابلے میں جنتیوں کو ایسے بالا خانے ملنے والے ہیں‘ جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے خلاف نہیں کرتا۔ اللہ فرماتا ہے کہ اُس نے بہترین بات کو نازل کیا‘ جس کے مضامین میں ہم آہنگی اور تکرار بھی ہے۔ اس کو پڑھنے کے بعد جن کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے‘ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور دل اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور جس کو اللہ گمراہ کر دے‘ کوئی اس کو ہدایت دینے والا نہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!

بائیسویں پارے کے شروع میں ازواجِ مطہراتؓ سے کہا گیا کہ آپ لوگوں کا مقام امتیازی ہے۔ سو‘ تقویٰ اختیار کرو‘ غیر محرم مردوں کے ساتھ نرم لہجے میں بات نہ کرو اور ضرورت کے مطابق بات کرو‘ اپنے گھروں پر رہو اور زمانۂ جاہلیت کی طرح زیب و زینت کی نمائش نہ کرو‘ نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کرو اور اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی اطاعت پر کاربند رہو اور جو ایسا کریں گی تو اُن کو دُہرا اجر ملے گا اور اُن کیلئے آخرت میں عزت کی روزی کا اہتمام ہے۔ اسی مقام پر اہلِ بیتِ رسول کیلئے نوید ہے کہ اللہ اُن سے ناپاکی کو دور کرنا چاہتا ہے اور اُنہیں خوب پاکیزہ رکھنا چاہتا ہے۔ مفسرین کے مطابق؛ اس آیتِ تطہیر کا مصداق سیدہ فاطمہؓ، حضرت علی اور حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ ساتھ اُمہات المومنین رضی اللہ عنہن بھی ہیں‘ کیونکہ قرآنِ مجید میں حضرت ابراہیم وموسیٰ علیہم السلام کے واقعات میں ''اہلِ بیت‘‘ کا بیوی پر بھی اطلاق کیا گیا ہے۔ آیت 46 میں سیدنا محمد رسولﷺ کے ایک عظیم ترین اعزاز کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں آخری نبی و رسول بنایا اور ''خاتم النبیین‘‘ ہونا آپﷺ کے مقامِ فضیلت میں بیان ہوا۔ آیت 44 میں رسول کریمﷺ کی امتیازی صفات کا ذکر ہے کہ آپ کو شاہد‘ مبشر (رحمتِ الٰہی کی بشارت دینے والا)‘ نذیر (اللہ کے عذاب سے ڈرانے والا)‘ اِذنِ الٰہی سے دعوتِ حق دینے والا اور ''سراج منیر‘‘ (روشن کرنے والا آفتاب) بنا کر بھیجا گیا ہے۔
آیت 53 سے آدابِ بارگاہِ نبوت بیان ہوئے کہ اجازت کے بغیر نبی کے گھر میں داخل نہ ہو‘ دعوتِ طعام ہو تو کھانا کھا کر منتشر ہو جاؤ‘ نبی کی بیویوں سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو‘ نبی کی بیویوں سے آپﷺ کی رحلت کے بعد دائمی طور پر مسلمانوں کا نکاح ممنوع ہے اور اپنے کسی بھی عمل سے اللہ کے رسولﷺ کو کوئی ایذا نہ پہنچاؤ۔ آیت 56 شانِ رسالت میں عظیم ترین آیت ہے‘ فرمایا: ''بے شک اللہ اور اُس کے فرشتے نبی پر درود پڑھتے ہیں‘ اے اہلِ ایمان! تم بھی اُن پر درود پڑھو اور کثرت سے سلام بھیجو‘‘۔ مفسرین نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ''صلوٰۃ علی الرسول‘‘ کے کئی معنی بتائے ہیں‘ لیکن جو معنی آپ کے شایانِ شان ہے‘ وہ ہے: ''عظمت عطا کرنا‘‘۔ آیت57 میں بتایا کہ اللہ اور اُس کے رسولﷺ کو ایذا پہنچانے والوں پر دنیا اور آخرت میں لعنت ہے۔ اور اللہ نے اُن کیلئے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے۔ آیت 59 میں مومنات خواتین کیلئے پردے کا حکم ہے‘ یعنی ایسی چادر اوڑھنا‘ جس سے کامل ستر حاصل ہو جائے۔
سورۂ سبا
اس سورۂ مبارکہ میں دشمنانِ رسول کیلئے عبرتناک عذاب کی وعید ہے۔ آیت 10سے حضرت داؤد علیہ السلام کے معجزات کا ذکر ہے کہ اُنہیں اللہ نے فضیلت دی‘ پہاڑ اور پرندے اُن کے ساتھ تسبیح کرتے تھے‘ لوہا اُن کے لیے نرم کر دیا گیا تھا اور وہ زِرہیں بناتے اور باندھنے کیلئے اُن میں کڑیاں ڈالتے۔ اسی طرح سلیمان علیہ السلام کے معجزات کا ذکر ہے کہ ہوا اُن کے تخت کو تیز رفتاری سے اڑا کر لے جاتی‘ اُن کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ جاری کر دیا‘ اللہ کے اِذن سے جنات اُن کے اَحکام کو بجالانے کے پابند تھے‘ سلیمان علیہ السلام کے حکم سے جنات بڑے بڑے قلعے اور ٹاور‘ مجسمے اور حوضوں کے برابر ٹب اور چولہوں پر جمی ہوئی دیگیں بناتے تھے‘ ان تمام نعمتوں کا ذکر فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آلِ داؤد! شکرکرو اور میرے بہت کم بندے شکر گزار ہیں۔ دریں اثنا جِنّات سلیمان علیہ السلام کے حکم سے تعمیرات میں مصروف تھے‘ تووہ ایک بِلّوریں (Crystal) کیبن میں تشریف فرما ہوئے اور اس دوران قضائے الٰہی سے اُن کی وفات ہو گئی مگر جِنّات کو اُن کی وفات کا تب پتا چلا جب دیمک نے اُن کے عصا کو‘ جس سے وہ ٹیک لگائے ہوئے تھے‘ اندر سے چاٹ لیا اور پھر وہ زمین پر گر گئے۔ اُس وقت جِنّات کفِ افسوس ملنے لگے کہ اگر ہمیں غیب کا علم ہوتا تو اتنے طویل عرصے تک ہم ذلت آمیز مزدوری میں مصروف نہ رہے ہوتے‘ شاید یہی وہ ''ہیکلِ سلیمانی‘‘ ہے ‘جس کے آثار کی تلاش میں اور دوبارہ تعمیر کے لیے یہود وقتاً فوقتاً بیت المقدس کی عمارت کو گرانے کی مذموم کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ موت انبیاء کرام کے اَجسام پر کوئی طبعی اثرات مرتب نہیں کرتی اور یہی وجہ ہے کہ جِنّات کو اُن کی موت کا پتا نہ چل سکا۔
سورۂ فاطر
اِس سورۂ مبارکہ کی ابتدا میں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے دو‘ دو، تین‘ تین اور چار‘ چار پروں والے فرشتے پیدا کیے‘ اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے‘ وہ کسی پر اپنی رحمت کے فیضان کو کھول دے‘ توکسی کی مجال نہیں کہ اسے روک دے اور جس کیلئے وہ روک دے توکسی کی مجال نہیں کہ وہ فیضانِ رحمت عام کر دے۔ رسول کریمﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا: آپ غمگین نہ ہوں‘ آپ سے پہلے رسولوں کو بھی جھٹلایا گیا۔ آیت 9 سے ایک بار پھر اللہ کی قدرت کے تحت بارش کے نظام کا ذکر ہے‘ انسان کو اُس کے جوہرِ تخلیق کی طرف متوجہ کیا گیا ہے تا کہ سرکشی کا شکار نہ ہو اور یہ کہ وہ مادہ کے پیٹ میں حمل کو بھی جانتاہے اور یہ کہ کسی کی عمر میں درازی یا کمی ہوتی ہے‘ تووہ اللہ کی کتاب وتقدیر میں پہلے سے لکھی ہوتی ہے۔ آیت 12 سے فرمایا کہ میٹھے اور کھارے پانی کے سمندر برابر نہیں ہوتے‘ لیکن سب سمندروں سے تمہیں مچھلی کا تازہ گوشت ملتا ہے اور تم اُن سے پہننے کے زیور نکالتے ہو اور کشتیاں پانی کو چیرتی ہوئی چلی جاتی ہیں‘ نظامِ لیل ونہار اور شمس و قمر اُسی کے حکم کے تابع ہے۔ آیت 18میں بتایا کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا‘ یعنی ہرایک کو اپنے اپنے عمل کا جواب دینا ہو گا، جو تزکیہ اور تقویٰ اختیار کرے گا‘ اُس کا فائدہ اُسی کو پہنچے گا۔ اندھا اور بینا‘ ظلمت و نور‘ سایہ اور دھوپ اور زندہ و مردہ لوگ برابر نہیں ہو سکتے‘ یہاں کُفار اور منکرین کو اندھے‘ ظلمت‘ دھوپ اور مردے سے تشبیہ دی اور اہلِ ایمان کو بینا‘ نور‘ سایہ اور زندوں سے تشبیہ دی۔ اللہ تعالیٰ نے اِن آیات میں یہ بھی بتایاکہ حُجتِ الٰہیہ قائم کرنے کیلئے ہرقوم کی طرف نذیر‘ یعنی روشن دلائل اور الہامی کتابیں دے کر نبی اور رسول بھیجے گئے لیکن ہر دور میں پیغامِ حق کو جھٹلانے والے موجود رہے۔ آیت 28 میں بتایاکہ علمائے ربانیین کے دلوں میں اللہ کی خشیت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو برگزیدہ و چنیدہ اور نیکی کے کاموں میں سبقت کرنے والے فرما کر جنت کی اُن نعمتوں کا ذکرکیا جو اُن عبادِ صالحین کیلئے تیار ہیں۔ آیت41 سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کو اپنے مرکز سے ہٹنے نہیں دیتا اور اگر وہ اپنے مرکز سے ہٹ جائیں تو اللہ کے سوا کوئی اُن کو اپنی جگہ قائم نہیں کر سکتا۔ آیت 45 میں فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان کی گرفت فرماتا توروئے زمین پر کسی جاندار کو (زندہ) نہ چھوڑتا‘ لیکن وہ ایک وقت مقررہ تک انہیں ڈھیل دے رہا ہے؛ پس جب ان کا وقت آ جائے گا تو اللہ اپنے بندوں کو خوب دیکھ لے گا‘‘۔
سورہ یٰسٓ
اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں فرمایا کہ نزولِ قرآن کا مقصد غافل لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرانا ہے اور اُن پر حق کی حجت کو قائم کرنا ہے ‘ لیکن کچھ سرکش لوگ ایسے ہیں کہ جن پر دعوتِ حق اثر انداز نہیں ہوتی۔ دعوتِ حق اُنہی پر اثر اندازہوتی ہے‘ جو نصیحت کو قبول کریں اور جن کے دلوں میں اللہ کا خوف ہو۔ اگلی آیات میں اس امر کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دعوتِ حق کیلئے اپنے نبی ایک بستی (انطاکیہ) کی طرف بھیجے‘ بستی والوں نے اُن کی تکذیب کی اوراُن سے بدفالی لی اور اُنہیں سنگسار کرنے اور دردناک عذاب دینے کی دھمکی دی‘ انبیاء کرام نے اُن پر حُجّت الٰہیہ کو قائم کیا اور شہر کے آخری کنارے سے ایک شخص دوڑتاہوا آیا اور کہاکہ ان کی پیروی کرو‘یہ تم سے کسی اجرو انعام کے طلبگار نہیں ہیں۔

قرآنِ پاک کے بائیسویں پارے کا آغاز سورۃ الاحزاب سے ہوتا ہے۔ سورۂ احزاب کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے امہات المومنین سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ جو کوئی بھی امہات المومنینؓ میں سے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے لیے اپنے آپ کو وقف کرے گا اور نیک اعمال کرے گا‘ اللہ اس کو دو گنا اجر عطا فرمائے گا اور اس کے لیے پاک رزق تیار کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے امہات المومنینؓ کو اس امر کی بھی تلقین کی کہ جب وہ کسی سے بات کریں تو نرم آواز سے بات نہ کیا کریں تاکہ جس کے دل میں مرض ہے‘ وہ ان کی آوازوں کو سن کر طمع نہ رکھے اور معروف طریقے سے بات کریں۔ اللہ تعالیٰ نے امہات المومنینؓ کو اس امر کی بھی تلقین کی کہ وہ اپنے گھروں میں مقیم رہیں اور جاہلیت کی بے پردگی اور بنائو سنگھار کا اظہار نہ کریں اور نماز کو قائم کریں‘ زکوٰۃ ادا کریں اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کریں۔ بے شک اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ نبی کریمﷺ کے گھر والوں سے ناپاکی کو دور کر دیا جائے اور ان کو پاک صاف کر دیا جائے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیویوں‘ بیٹیوں اور مومن عورتوں کو کہہ دیں کہ گھروں سے نکلیں تو وہ جلباب کو اوڑھا کریں۔ جلباب سے مراد ایک ایسا لباس ہے‘ جس نے عورت کو سر کے بالوں سے لے کر پائوں کے ناخن تک ڈھانپا ہو اور صرف ایک آنکھ نظر آ رہی ہو۔ اس لباس کا مقصد یہ تھا کہ وہ پہچان لی جائیں اور کوئی ان کو تنگ نہ کرے۔
اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے منہ بولے بیٹے کے مسئلے کو بھی واضح کیا کہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہوتا اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ امر بھی واضح فرما دیا کہ جناب رسول اللہﷺ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں‘ بلکہ اللہ کے رسول اور اس کے آخری نبی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مومنوں کو حکم دیا کہ وہ اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کریں اور صبح شام اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہا کریں۔ اللہ اور اس کے فرشتے مومنین پر رحمت بھیجتے ہیں تاکہ اہلِ ایمان کو گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر (ہدایت کی) روشنی کی طرف لے جائیں۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی کریمﷺ پر درود و سلام بھیجتے ہیں، اس لیے اے ایمان والو! تم بھی نبی اکرمﷺ پر خوب درود و سلام بھیجا کرو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کو ایذا دیتے ہیں ان کے لیے دنیا و آخرت میں درد دینے والا عذاب ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کے حوالے سے بتلایا کہ جب قیامت کا دن آئے گا تو جہنمیوں کو اوندھے منہ جہنم کی آگ میں ڈالا جائے گا۔ اس موقع پر جہنمی کہیں گے کہ اے کاش! ہم نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی بات کو مانا ہوتا اور کہیں گے کہ ہم نے اپنے بڑوں اور سرداروں کی بات کو مانا‘ پس انہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا اور کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ان کو دُگنا عذاب دے اور ان پر لعنت برسا۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو اس بات کی نصیحت کی ہے کہ اے ایمان والو! تم ان کی طرح نہ ہو جائو‘ جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو تکلیف پہنچائی تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی کہی ہوئی بات سے موسیٰ علیہ السلام کی برأت ظاہر کر دی اور وہ اللہ کے نزدیک بڑی عزت والے تھے۔ اہلِ ایمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے نبی کی تکریم کریں اور آپﷺ کی ذات کا ہر ممکن دفاع کریں۔ اس سورت میں سچی بات کہنے کے فوائد بھی بتلائے گئے ہیں کہ اگر بات سیدھی کی جائے تو معاملات سنور جاتے ہیں اور اللہ حق گو شخص کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔
سورۂ سبا
سورۃ الاحزاب کے بعد سورۂ سبا ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں‘ جس کے لیے آسمان و زمین میں موجود سب کچھ ہے اور آخرت میں بھی اسی کی حمد و تعریف ہے اور وہ باخبر حکمت والا ہے۔ وہ جانتا ہے‘ جو زمین میں جاتا ہے اور جو اس سے نکلتا ہے اور جو آسمان سے اترتا اور اس کی طرف چڑھتا ہے اور وہ رحمت کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے جناب دائود اور سلیمان علیہم السلام پر اپنے انعامات کا ذکر کیا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے جناب دائود علیہ السلام کے لیے پہاڑ اور پرندوں کو مسخر فرما دیا اور لوہے کو ان کے ہاتھوں میں نرم کر دیا تھا۔ جناب سلیمان علیہ السلام کے لیے ہوائوں کو مسخر فرما دیا تھا اور مہینے کا سفر وہ چند پہروں میں کر لیتے تھے، جنات کو ان کے احکامات کے تابع کر دیا تھا۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے سبا کی بستی کا ذکر کیا ہے کہ یقینا سبا والوں کے لیے ان کے مقامِ رہائش میں نشانی تھی کہ ان کے دائیں اور بائیں دو باغ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم اپنے رب کی دی ہوئی روزی کھائو اور اس کا شکر ادا کرو کہ یہ پاکیزہ شہر ہے اور تمہارا رب گناہوں کو معاف کرنے والا ہے‘ لیکن انہوں نے رو گردانی کی تو‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ‘ ہم نے ان پر ایک سخت اُمڈتا ہوا سیلاب بھیج دیا اور ان کے دونوں باغوں کو بدمزہ پھل‘ جھاڑیوں اور کچھ بیری والے باغوں میں بدل دیا‘ ہم نے ان کو یہ بدلہ ان کے کفر کی وجہ سے دیا تھا اور ہم صرف ناشکروں کو ایسا بدلہ دیتے ہیں۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اللہ نے اپنے رسول محمد عربیﷺ کو جمیع انسانیت کے لیے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے مگر لوگوں کی اکثریت اس بات کو نہیں جانتی۔
سورۂ فاطر
سورۂ سبا کے بعد سورۂ فاطر ہے۔ سورۂ فاطر میں اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں کہ تمام تعریفیں زمین اور آسمان بنانے والے اللہ کے لیے ہیں۔ اس نے فرشتوں میں سے بھی رسول (پیامبر) چنے ہیں۔ بعض فرشتے دو پروں والے بعض تین اور بعض چار پروں والے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی خلقت میں جس طرح چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ جناب جبریل امینؑ جو فرشتوں کے سردار ہیں‘ کو اللہ تعالیٰ نے چھ سو پر عطا فرمائے ہیں۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ان گمراہ لوگوں کا ذکر کیا کہ جن کو ان کے غلط اعمال بھی اچھے معلوم ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ نبی رحمتﷺکو دلاسہ دیتے ہیں کہ آپ ان اعمال پر حسرت نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کو پتا ہے جو یہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں دنیا میں جتنی عورتیں حاملہ ہوتیں اور جتنی بچوں کو جنتی ہیں اور جو کوئی بھی بوڑھا ہوتا ہے اور جس کی عمر کم ہوتی ہے‘ اللہ کو ہر بات کا علم ہوتا ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ یہ بھی ارشاد فرماتے ہیں کہ اندھا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے اور نہ ہی دھوپ اور چھائوں برابر ہو سکتے ہیں اور نہ ہی زندہ اور مردہ برابر ہو سکتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو شخص ہدایت کے راستے پر ہو وہ گمراہ انسانوں کے برابر نہیں ہوتا۔
سورہ یٰسٓ
سورہ فاطر کے بعد سورہ یٰسٓ ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی قسم کھا کر کہا بے شک محمدﷺ رسولوں میں سے ہیں اور ان کا راستہ ہی سیدھا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ کافر ہیں‘ ان کو ڈرایا جائے یا نہ ڈرایا جائے‘ ان کے لیے برابر ہے‘ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ رسول کریمﷺ اس کو ڈراتے ہیں جو قرآنِ مجید کی پیروی کرتا اور اللہ تعالیٰ کے ڈر اور تقویٰ کو اختیار کرنے والا ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک بستی کا ذکر کیا‘ جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دو پیغمبروں کو بھیجا لیکن بستی والوں نے ان کو جھٹلایا تب اللہ تعالیٰ نے تیسرے پیغمبر سے ان کی مدد کی۔ ان پیغمبروں نے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ہیں جس پر بستی والوں نے کہا کہ رحمن نے کچھ بھی نازل نہیں کیا اور (معاذ اللہ) تم جھوٹ بول رہے ہو۔ بستی والوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بستی کے ایک کنارے سے ایک شخص اٹھا اور اس نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو! رسولوں کی پیروی کرو جو تم سے کچھ بھی طلب نہیں کر رہے اور وہ ہدایت پر ہیں۔ اس کے بعد کا واقعہ تئیسویں پارے میں بیان ہوگا۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں قرآنِ مجید پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے، آمین!

اکیسویں پارے کی پہلی آیت میں تلاوتِ قرآن اور اقامتِ صلوٰۃ کا حکم ہے اور یہ کہ نماز کے منجملہ فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے‘ اسی معیار پر ہر مسلمان اپنی نماز کی مقبولیت اور افادیت کا جائزہ لے سکتا ہے۔ رسول کریمﷺ کی صفات میں سے ایک یہ ہے کہ آپ ''نبی امی‘‘ تھے یعنی آپﷺ نے رسمی طور پر لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا تھا اور اس میں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی حکمت پوشیدہ تھی۔ آیت 48 میں فرمایا ''اور آپ نزولِ قرآن سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ ہی اس سے پہلے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتے تھے‘ ورنہ باطل پرست شک میں مبتلا ہو جاتے‘‘ یعنی کوئی منکر یہ کہہ سکتا تھا کہ پچھلی کتابوں کاکوئی ذخیرہ یا دفینہ ان کے ہاتھ آ گیا ہے‘ جسے پڑھ پڑھ کر یہ ہمیں سناتے ہیں۔ آیت 59 میں فرمایا ''اور کتنے ہی جانور ہیں جو‘ اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے‘ ان کو اللہ ہی رزق دیتا ہے اور تم کو بھی‘‘ یعنی اسباب کا اختیار کرنا بجا لیکن رازقِ حقیقی صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات ہے۔ آیت 62 میں فرمایا کہ ''رزق کی کشادگی کو کوئی اپنے لیے معیارِ فضیلت نہ سمجھے‘‘۔
سورۃ الروم
قرآنِ مجید کی حقانیت کی ایک قطعی دلیل یہ ہے کہ قرآن میں مستقبل کی جو خبریں دی گئی ہیں‘ وہ ہمیشہ سچ ثابت ہوئیں۔ اہل روم اور اہلِ فارس میں لڑائیاں چلتی رہتی تھیں‘ ایک بار اہلِ فارس‘ جو مشرک تھے‘ اہلِ روم پر غالب آ گئے؛ چونکہ رومی اہلِ کتاب تھے؛ چنانچہ مشرکینِ مکہ اہلِ فارس کی فتح پر خوشیاں منانے لگے‘ اس پر قرآن نے فرمایا: یہ خوشیاں عارضی ہیں‘ چند سال میں رومی فارس والوں پر غالب آ جائیں گے؛ چنانچہ قرآن کی بشارت کے عین مطابق ساتویں سال میں رومیوں کو اہلِ فارس پر دوبارہ فتح نصیب ہوئی۔ آیت 9 سے بتایا کہ لوگوں کو اپنی مادّی قوت وطاقت پر اِترا کر اللہ عزوجل کی غالب قدرت کو بھول نہیں جانا چاہیے‘ ماضی میں کتنی ہی ایسی قومیں آئیں جو مادّی قوت کی حامل تھیں‘ لیکن آج ان کے کھنڈرات ان کی مادّی قوت کی ناپائیداری کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ آیت 17 سے نماز کے اوقاتِ خمسہ کی طرف اشارہ فرمایا ''پس شام کے وقت اللہ کی تسبیح کرو اور جب تم صبح کو اٹھو اور اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں۔ آسمانوں اور زمینوں میں اور پچھلے پہر اور دوپہر کو‘‘ صبح اور شام میں مغرب‘ عشا اور فجر کی نمازیں آتی ہیں‘ پچھلے پہر میں عصر کی نماز اور دوپہر میں ظہر کی نماز۔ آیت 21 سے بتایا کہ اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے انسان کیلئے اسی کی جنس میں سے جوڑے بنائے تاکہ ان سے سکون حاصل کریں اور زوجین کے مابین محبت اور ہمدردی کا رشتہ قائم کیا اور اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے زمین وآسمان کی تخلیق اور انسانوں کی بولیوں اور رنگوں کا تنوع ہے اور نیند کیلئے رات اور تلاشِ معاش کیلئے دن کا بنانا ہے اور اسی طرح آگے کی آیات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی متعدد نشانیوں کا ذکر ہے۔ آگے چل کر فرمایا کہ آپ باطل ادیان سے کنارہ کش ہوکر اپنے آپ کو دینِ فطرت پر قائم رکھیں۔ آیت 33 سے انسان کی فطری خود غرضی کو بیان کیا کہ تکلیف کے وقت اللہ کو پکارتے ہیں لیکن راحت کے وقت اسے بھول جاتے ہیں بلکہ شرک کرنے لگتے ہیں اور یہ بھی بتایا کہ اللہ کی رحمت سے ناامید ہو جاتے ہیں۔ آیت 38 میں قرابت داروں‘ مسکینوں اور مسافروں کو ان کا حق دینے کا حکم فرمایا۔ آیت 41 میں فرمایا کہ بر و بحر میں فساد لوگوں کے اپنے کرتوتوں کے سبب ہے اور لوگوں کو ایک دوسرے سے بھڑا دینا بھی ایک صورتِ عذاب ہے۔
سورۂ لقمان
سورۂ لقمان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے لقمان کو حکمت عطا فرمائی اور حکم دیا کہ اللہ کا شکر ادا کرو اور جو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے‘ اس کا فائدہ اسی کو پہنچتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو اللہ بے نیاز ہے اور تمام تعریفوں کا حق دار ہے۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو جو نصیحتیں کیں‘ وہ یہ ہیں: (1) شرک سے اجتناب (2) اللہ اور ماں باپ کا شکر گزار ہونا (3) والدین کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرنا‘ اس مقام پر قرآن نے اولاد کیلئے ماں کی مشقتوں کا بھی ذکر کیا (4) اگر خدانخواستہ کسی کے ماں باپ مشرک ہوں‘ تو ان کے دباؤ پر شرک میں مبتلا نہ ہونا ‘ لیکن اس کے باوجود دنیوی امور میں ماں باپ کے ساتھ بدستور نیک برتاؤ کرنا (5) پابندی سے نماز قائم کرنا (6) نیکی کاحکم دینا اور برائی سے روکنا (7) لوگوں کے ساتھ تکبر سے پیش نہ آنا (8) زمین میں اکڑ کر نہیں‘ بلکہ عاجزی سے چلنا (9) چال اور گفتار میں تواضع اختیار کرنا وغیرہ۔ حضرت لقمان کے بارے میں مختلف اقوال ہیں لیکن زیادہ واضح قول یہ ہے کہ وہ ایک حکیم اور دانا شخص تھے، اللہ نے انہیں فکرِ سلیم عطا کی تھی۔ اگلی آیت میں ایک بار پھر اللہ تعالیٰ کی قدرت وجلالت‘ تسخیرِ کائنات‘ تسخیرِ شمس و قمر‘ نظامِ لیل و نہار اور دیگر بے پایاں نعمتوں کا ذکر ہے۔ آیت 27 میں فرمایا کہ اگر زمین کے سارے درخت قلم بن جائیں اور سمندر روشنائی اور اس میں سات سمندر کا اضافہ ہو جائے (اور یہ اللہ کے کلمات کو لکھنے لگیں) تو قلمیں ختم ہو جائیں گی‘ سمندر خشک ہو جائیں گے لیکن اللہ کے کلمات ختم نہیں ہوں گے۔
سورۃ السجدہ
آیت 15 میں فرمایا کہ ہماری آیات پر ایمان وہ لوگ لاتے ہیں کہ جب ان آیات کے ذریعے انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اپنے رب کی تسبیح اور حمد کرتے ہوئے سجدے میں گر جاتے ہیں‘ تکبر نہیں کرتے‘ ان کے پہلو (عبادتِ الٰہی میں مشغولیت کی وجہ سے) بستروں سے دور رہتے ہیں‘ وہ اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور اس کی رحمت کا یقین رکھتے ہوئے اسے پکارتے ہیں۔ مزید فرمایا کہ مومن اور فاسق برابر نہیں ہو سکتے‘ باعمل مومنین کیلئے جنت کی صورت میں اللہ نے مہمانی تیار کر رکھی ہے جبکہ فاسقوں کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ جب بھی جہنم سے نکلنا چاہیں گے انہیں واپس اسی آگ میں لوٹا دیا جائے گا۔ آیت 24 میں فرمایا ''جن لوگوں نے صبر وتحمل کو اپنا وتیرہ بنا لیا تو ہم نے اُنہیں لوگوں کے منصبِ امامت پر فائز کر دیا‘‘۔
سورۃ الاحزاب
رسول کریمﷺ کے عہد کی تمام باطل قوتیں مجتمع ہو کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوئیں۔ ''حزب‘‘ جماعت کو کہتے ہیں اور ''احزاب‘‘ کے معنی ہیں جماعتیں‘ یعنی عہدِ رسالت میں مسلمانوں کے خلاف کفار اور مشرکین اور منافقین کی یہ اجتماعی یلغار تھی‘ جسے بالآخر اللہ تعالیٰ نے اپنی تائید ونصرت سے ناکام ونامراد فرمایا اور یہی واقعہ اس سورۂ مبارکہ کا مرکزی موضوع ہے۔ آیت 4 میں فرمایا کہ اللہ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے‘ یعنی کفر اور ایمان‘ ہدایت اور گمراہی اور حق و باطل ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے‘ اسی آیت میں فرمایا کہ کسی کے منہ بولے بیٹے حقیقی بیٹوں کے حکم میں نہیں‘ یہ لوگوں کی خود ساختہ باتیں ہیں۔ مزید فرمایا کہ لوگوں کو ان کے حقیقی باپوں کی طرف منسوب کرکے پکارو‘ اللہ کے نزدیک یہی بات مبنی برانصاف ہے اور اگر ان کے حقیقی باپوں کا پتا نہ چلے تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔ آیت 6 میں فرمایا کہ نبی مومنوں کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہیں (اور بعض مفسرین نے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ نبی مومنوں کی جانوں کے مالک ہیں) اور نبی کی بیویاں مومنوں کی روحانی مائیں ہیں۔ آیت 8 سے بیان کیا کہ غزوۂ احزاب (اسے غزوۂ خندق بھی کہتے ہیں) کے موقع پر کفار ہر جانب سے جمع ہو کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے (شدتِ خوف سے) مسلمانوں کی آنکھیں پتھرا گئیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے اور دلوں میں اللہ (کی نصرت کے بارے میں) طرح طرح کے گمان پیدا ہونے لگے۔ اس موقع پر اہلِ ایمان کی آزمائش کی گئی اور انہیں شدت سے جھنجھوڑ دیا گیا‘ یہاں تک کہ منافق اور جن کے دلوں میں شک کی بیماری تھی‘ کہنے لگے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کر رکھا تھا‘ وہ محض دھوکا تھا‘ اس پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ اے مومنو! اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم پر کفار کے لشکر حملہ آور ہوئے تو ہم نے ان پر ایک آندھی اور ایسے (غیبی) لشکر بھیجے‘ جنہیں تم نے دیکھا نہیں اور اللہ تمہارے کاموں کو خوب دیکھنے والا ہے۔ غزوۂ خندق کے موقع پر کفار ایک ماہ تک مسلمانوں کا محاصرہ کیے رہے‘ ایک موقع پر مسلمانوں کی تین نمازیں (ظہر‘ عصر‘ مغرب) بھی قضا ہوئیں‘ بالآخر طوفانی آندھی آئی‘ کفار کے خیمے اکھڑ گئے ‘ ان کی دیگیں الٹ گئیں‘ ان کے جانور رسیاں تڑا کر بھاگنے لگے اور ایسے عالم میں کہ بظاہر انہیں اپنی کامیابی کا یقین تھا‘ انہیں ناکام اور نامراد ہوکر واپس جانا پڑا، اسی کو نصرتِ الٰہی کہتے ہیں۔

قرآنِ مجید‘ فرقانِ حمید کے اکیسویں پارے کا آغاز سورۃالعنکبوت سے ہوتا ہے۔ اکیسویں پارے کے آغاز میں اللہ تعالیٰ‘ اپنے حبیبﷺ سے فرماتے ہیں کہ جو کتاب آپ پر نازل کی گئی ہے‘ اس کی تلاوت کریں اور نماز قائم کریں اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا: بیشک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ آپ پہلے سے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے‘ نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے‘ ورنہ اہلِ باطل اس قرآن کے اللہ کی جانب سے ہونے پر شک کرتے۔ اللہ کے حبیبﷺ نے کسی مکتب یا مدرسے سے رسمی تعلیم حاصل نہیں کی‘ اگر آپﷺ لکھنا پڑھنا جانتے ہوتے تو اہلِ باطل کے شک میں کوئی وزن ہوتا‘ لیکن آپﷺ کا بغیر کسی رسمی تعلیم کے قرآنِ مجید جیسی کتاب کو پیش کرنا اس امر کی واضح دلیل تھی کہ آپﷺ اللہ کے بھیجے ہوئے نبی اور اس کے سچے رسول ہیں اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ یہ واضح آیات ہیں‘ جن کو اللہ تعالیٰ نے اہلِ علم کے سینوں میں محفوظ فرما دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی آیات سے جھگڑنے والے لوگ ظالم اور کافر ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورۂ مبارکہ میں مشرکینِ مکہ کی بداعتقادی کا ذکر کیا کہ جب وہ سمندروں میں مشکلات کا شکار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کو پورے اخلاص سے پکارتے ہیں اور جب بحفاظت خشکی پہ آ جاتے ہیں تو شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں‘ جو لوگ میرے راستے میں جدوجہد کرتے ہیں‘ میں ان کو ہدایت کا سیدھا راستہ ضرور دکھائوں گا اور بے شک اللہ تعالیٰ نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔
سورۃ الروم
سورۂ عنکبوت کے بعد سورۂ روم ہے۔ یہ سورۂ مبارکہ اس وقت نازل ہوئی جب روم کے اہلِ کتاب کو ایران کے آتش پرستوں سے شکست ہوئی تھی۔ کفارِ مکہ ایرانیوں کی اس فتح پر دلی طور پر بہت خوش تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں مومنوں کی دل جوئی کے لیے اس امر کا اعلان فرمایا کہ اہلِ روم مغلوب ہو گئے‘ قریب کی سرزمین (شام) میں اور اپنی مغلوبیت کے بعد چند ہی سالوں میں غالب آئیں گے۔ پہلے بھی ہر چیز کا اختیار صرف اللہ کے پاس تھا اور بعد میں بھی صرف اسی کے پاس رہے گا اور اس دن مومن خوش ہو جائیں گے۔ جب ان آیات کا نزول ہوا تو مشرکین مکہ نے ظاہری حالات کو دیکھتے ہوئے اس کو ناممکن خیال کیا۔ ابی بن خلف تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ شرط لگانے پر اتر آیا کہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔ کافر‘ اللہ تعالیٰ کی طاقت اور اختیارات سے ناواقف تھے اس لیے کہ ان کی نگاہ صرف ظاہری حالات پر تھی۔ اللہ تعالیٰ کی برحق پیش گوئی کے مطابق ہجرت سے ایک سال قبل فارسی کمزور ہونا شروع ہو گئے اور 2 ہجری میں اہلِ فارس کا سب سے بڑا آتش کدہ بھی رومی فتوحات کی لپیٹ میں آگیا اور اسی سال بدر کے معرکے میں مسلمانوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے غلبہ عطا فرمایا اور مسلمانوں کی خوشیاں دوچند ہو گئیں کہ رومیوں کی فتح کی اچھی خبر بھی سننے کو مل گئی اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بھی کافروں کے مقابلے میں فتح یاب فرما دیا۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نصیحت کی کہ قرابت داروں‘ مساکین اور مسافروں کا حق ان کو دینا چاہیے، یہ بہتر ہے‘ ان لوگوں کے لیے جو اپنے اللہ کی زیارت کرنا چاہتے ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں‘ جو سود انسان کھاتا ہے‘ جس کا مقصد مالوں کو پرورش دینا یعنی بڑھانا ہوتا ہے ‘اس سے مال پروان نہیں چڑھتا اور جو زکوٰۃ اللہ تعالیٰ کے لیے دی جاتی ہے‘ اللہ تعالیٰ اس میں اضافہ فرماتے ہیں۔
سورۂ لقمان
سورۂ روم کے بعد سورۂ لقمان ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بتلایا ہے کہ کامیابی حاصل کرنے والے لوگ‘ نمازوں کو قائم کرنے والے‘ زکوٰ ۃ کو ادا کرنے والے اور آخرت پر پختہ یقین رکھنے والے ہوتے ہیں۔ سورۂ لقمان میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے کہ بعض لوگ لغو باتوں کی تجارت کرتے ہیں اور ان کا مقصد صرف لوگوں کو گمراہ کرنا ہوتا ہے۔ لغو باتوں میں موسیقی‘ بے راہ روی پیدا کرنے والا لٹریچر‘ مخرب الاخلاق افسانے اور ناول وغیرہ سبھی شامل ہیں اور ایسے لوگوں کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذلت والے عذاب کو تیار کر رکھا ہے۔ سورۂ لقمان میں اللہ تعالیٰ نے جناب لقمان کا ذکر کیا ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے دانائی و حکمت سے نوازا تھا۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کوکچھ قیمتی نصیحتیں کی تھیں‘ ان کا خلاصہ درج ذیل ہے: جناب لقمان نے اپنے بیٹے کو کہا کہ بیٹے شرک نہ کرنا‘ بیشک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو والدین کی خدمت کی بھی تلقین کی‘ نیز اللہ کے علم کی وسعتوں سے آگا ہ کرتے ہوئے فرمایاکہ اے میرے بیٹے! اگر رائی کے دانے کے برابر کوئی چیز کسی چٹان کے اندر یا آسمان و زمین میں موجود ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو بھی سامنے لے آئے گا، بے شک اللہ بڑا باریک بین اور بڑا باخبر ہے۔ اس نصیحت کا مقصد یہ تھا کہ انسان کو کوئی بھی عمل کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو بڑی باریک بینی سے دیکھ رہا ہے۔ آپ نے اپنے بیٹے کو یہ بھی نصیحت کی کہ اے میرے بیٹے! نماز قائم کر‘ بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روک اور تجھے جو تکلیف پہنچے اس پر صبر کر، بے شک یہ بڑی ہمت والے اور ضروری کام ہیں۔ آپ نے اپنے بیٹے کو مزید یہ نصیحت کی کہ لوگوں سے اپنا چہرہ پھیر کر بات نہ کر اور زمین پر اکڑ کر نہ چل، بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ اکڑ کر چلنے والے متکبرین کو پسند نہیں کرتا اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز پست رکھ، بے شک بدترین آواز گدھے کی آواز ہے۔ اس سورت کے آخر میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان پانچ غیب کی باتوں کا ذکر کیا ہے‘ جن کو صرف وہی جانتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں کہ بے شک اس کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہ جانتا ہے بارش کب ہو گی اور وہ جانتا ہے جو ماں کے رحم میں ہے اور کسی نفس کو نہیں پتا کہ وہ کل کیا کر سکے اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا؟ ان تمام باتوں کا علم صرف باخبر اور علم رکھنے والے اللہ ہی کے پاس ہے۔
سورۂ سجدہ
اس کے بعد سورۃ السجدہ ہے۔ سورۂ سجدہ میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے کہ اس نے ملک الموت کی ڈیوٹی انسانوں کی ارواح قبض کرنے پر لگائی ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے جنت کی نعمتوں کا ذکر کر تے ہوئے بتایا کہ کسی انسان کو علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا اہتمام فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورۂ مبارکہ میں بیان کیا کہ مومن اور گناہ گار برابر نہیں ہو سکتے۔ مومن کا مقدر جنت جبکہ سرکشی اور نافرمانی اختیار کرنے والے کا مقدر جہنم کے انگارے ہیں۔
سورۃ الاحزاب
سورۂ سجدہ کے بعد سورۃ الاحزاب ہے۔ سورۂ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے جنگِ خندق کا ذکر کیا ہے کہ جس میں کافروں کی افرادی قوت دیکھ کر منافقین کے دلوں پر ہیبت طاری ہو گئی تھی جبکہ اہلِ ایمان پوری استقامت سے میدان میں ڈٹے رہے۔ چوبیس ہزار کے لشکرِ جرار نے مدینہ منورہ پر حملہ کیا۔ رسول کریمﷺ کے ساتھ صحابہ کرامؓ کے علاوہ سترہ سو یہودی بھی حلیف تھے مگر یہ سترہ سو حلیف اتنی بڑی فوج کو دیکھ کر بھاگ گئے۔ اب رسول کریمﷺ کے ہمراہ صرف جانباز مسلمانوں کی ایک مختصر جماعت تھی۔ مسلمانوں نے جب اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے تیز آندھیوں اور فرشتوں کی جماعتوں کے ذریعے اہلِ ایمان کی مدد فرمائی اور کافر کثرتِ تعداد اور وسائل کی فراوانی کے باوجود ذلت اور شکست سے دوچار ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جس کو اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور یوم حساب کی آمد کا یقین ہے‘ اس کے لیے رسول اللہﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ رسول کریمﷺ ہرشعبہ زندگی میں ہمارے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں اور گھریلو زندگی‘ سماجی زندگی‘ انفرادی زندگی‘ اجتماعی زندگی میں آپﷺ کی ذاتِ اقدس ہی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآنِ مجید میں بیان کردہ مضامین سے عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ آمین!

بیسویں پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ استفہامی انداز میں اپنی جلالت و قدرت کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کو کس نے پیدا کیا‘ آسمان سے بارش برسا کر بارونق باغات کس نے اگائے‘ زمین کو کس نے مقامِ قرار بنایا اور اس کے بیچ دریا جاری کیے اور لنگر کی صورت میں مضبوط پہاڑ گاڑ دیے‘ مبتلائے مصیبت کی فریاد کوکون سنتا ہے اور اس کے دکھوں کا مداوا کون کرتا ہے‘ خشکی اور سمندر کی ظلمتوں میں راہ کون دکھاتا ہے‘ بارش کی نوید بنا کر ٹھنڈی ہوائیں کون چلاتا ہے‘ ابتداً مخلوق کو کون پیدا کرتا ہے اور دوبارہ کون زندہ کرے گا‘ زمین و آسمان کی مخلوق کو روزی کون دیتا ہے؟ یہ سارے سوالات اٹھانے کے بعد اللہ عزوجل انسان کی عقلِ سلیم سے سوال کرتا ہے کہ کیا اللہ معبودِ برحق کے سوا یہ سب کام کرنے والا کوئی اور ہے اور اس سوال کو قرآن بار بار دہراتا ہے تاکہ عقل کے اندھے انسانوں کا ضمیر جاگ اٹھے اور وہ حق تبارک و تعالیٰ کی جلالتِ قدرت کو تسلیم کر لیں۔ اس مقام پر بھی قرآنِ مجید فرماتا ہے کہ اے انسان! زمین پر چل پھر کر دیکھ لو باغی قومیں کس انجام سے دوچار ہوئیں۔ یہ بھی فرمایا کہ آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ بھی مستور ہے‘ سب لوحِ محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ آیت 80 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''بے شک آپ مُردوں کو نہیں سناتے اور نہ ہی بہروں کو (اپنی) پکار سناتے ہیں‘ جب وہ پیٹھ پھیر کر جا رہے ہوں‘‘۔
سورۃ القصص: سورۃ القصص کے شروع میں ایک بار پھر موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا ذکر ہے‘ یہاں اس مرحلے کا بیان ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام اللہ کی تدبیر سے فرعون کے دربار میں پہنچے۔ فرعون نے اپنی زوجہ (آسیہ) کے کہنے پر انہیں اپنا بیٹا بنا لیا اور اپنی غیر محسوس تدبیر کے ذریعے انہیں ان کی والدہ سے ملا دیا۔ خدا کی شان موسیٰ علیہ السلام فرعون کے محل میں اپنی والدہ کے دودھ پر پرورش پانے لگے‘ پھرجب وہ جوانی کی عمر کو پہنچے تو ایک مظلوم کے بچاؤ کیلئے اُنہوں نے ظالم کو مکا مارا اور وہ ہلاک ہو گیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس قتلِ سہو پر اللہ سے معافی مانگی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا۔ آیت20 میں بتایا کہ شہر کے دور والے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور اُس نے کہا ''فرعون کے لوگ آپ کے قتل کا مشورہ کر رہے ہیں‘ میں آپ کا خیرخواہ ہوں‘ آپ یہاں سے نکل جائیے‘‘۔ موسیٰ علیہ السلام وہاں سے مَدین کی طرف روانہ ہو گئے اور اللہ کی حکمت سے مدین بستی کے پیغمبر حضرت شعیب علیہ السلام تک رسائی ہوئی۔ شعیب علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا: میں اپنی دو بیٹیوں میں سے ایک کا آپ کے ساتھ اس شرط پر نکاح کردوں گا کہ آپ آٹھ سال تک اجرت پر میرا کام کریں اور اگر آپ دس سال پورے کر دیں تو یہ آپ کی طرف سے احسان ہو گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے یہ پیشکش قبول کر لی۔ آیت 29 میں فرمایا کہ جب مقررہ میعاد پوری ہو گئی تو موسیٰ علیہ السلام اپنی اہلیہ کو لے کر مصرکی طرف روانہ ہوئے۔ اس سفر کے دوران آگ کی تلاش میں اُن کے کوہِ طور پر جانے‘ مبارک سرزمین پر اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہونے کا ذکر ہے۔ وہاں آپ علیہ السلام کو نبوت عطا ہوئی‘ عصا اور یَدِ بیضا کے معجزے عطا ہوئے اور ہارون علیہ السلام کو رسالت کے مشن میں ان کی درخواست پر ان کا مددگار بنایا گیا۔ آیت 38 سے اللہ تعالیٰ نے اُن سے اپنی نصرت کا وعدہ فرمایا۔ آیت57 سے کفارِ مکہ نے رسول اللہﷺ سے کہا: ''اگر ہم آپ کے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں تو ہم اپنے ملک سے اُچک لیے جائیں گے‘‘ یعنی وہ فوائد سے محروم ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''کیا ہم نے ان کو اپنے حرم میں آباد نہیں کیا‘ جو امن والا ہے‘ اُس کی طرف ہمارے دیے ہوئے ہر قسم کے پھل لائے جاتے ہیں‘ لیکن ان میں سے (اکثر لوگ) نہیں جانتے‘ یعنی اسلام کی برکت سے دنیاوی نعمتیں چھن نہیں جائیں گی بلکہ ان میں اضافہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہم نے بہت سی ان بستیوں کو ہلاک کر دیا‘ جن کے رہنے والے اپنی خوشحالی پر اتراتے تھے‘ یعنی ماضی کی خوشحال سرکش قوموں کے کھنڈرات نشانِ عبرت ہیں۔ ان آیات میں یہ بھی بتایا گیا کہ بستیوں والوں کو اُس وقت تک ہلاک نہیں کیا جاتا جب تک کہ رسول بھیج کر اُن پر اتمامِ حجت نہیں کر دیا جاتا۔ آیت 76 سے قارون کا ذکر ہے یہ قومِ موسیٰ کا ایک سرکش شخص تھا اور اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے اُسے اتنے خزانے عطا کیے تھے کہ ایک طاقتور جماعت تھی‘ جو اُس کی چابیوں کو اٹھا نہ پاتی۔ اُس کی قوم نے اُس سے کہا ''اتراؤ نہیں‘ بے شک اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘۔ اس نعمتِ دولت کے بدلے میں آخرت کو تلاش کرو اور جس طرح اللہ نے تم پر احسان کیا ہے‘ تم بھی لوگوں کے ساتھ احسان کرو اور زمین میں فساد برپا نہ کرو‘ یعنی مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ اُس نے کہا: یہ مال مجھے میرے علم کی وجہ سے دیا گیا ہے‘ یعنی اُس نے اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے اپنے علم اور مہارت پر ناز کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس سے پہلی قوموں میں اس سے بھی زیادہ طاقتور اور بڑے مالداروں کو ہلاک کر دیا گیا۔ آیت21 میںفرمایا: (اُس کی سرکشی کی سزا کے طور پر) ہم نے اُسے اور اُس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا تھا‘ پھر اللہ کے مقابل اُس کا کوئی مددگار نہ تھا۔ قرآن نے بتایا کہ اُس کے کَرّوفر کو دیکھ کر جو لوگ اُس جیسا دولت مند ہونے کی تمنا کر رہے تھے‘ اُس کے انجام کو دیکھ کر انہوں نے کہا کہ: ہم بھول گئے تھے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کیلئے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کیلئے چاہتا ہے تنگ فرما دیتا ہے (یعنی کوئی یہ نہ سمجھے کہ دولت و طاقتِ دنیا ہرصورت میں اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبولیت کی دلیل ہے)۔ اُنہوں نے کہا: (اُس جیسی دولت کا نہ ہونا ہمارے حق میں اچھا ثابت ہوا) اگر اللہ ہم پر احسان نہ فرماتا تو ہم بھی دھنسا دیے جاتے۔ آیت 83 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''یہ آخرت کا گھر ہم اُن کے لیے مقدر کرتے ہیں‘ جو زمین میں نہ تو تکبر کرتے ہیں اور نہ ہی فساد‘ اچھا انجام صرف پرہیز گاروں کے لیے ہوتا ہے‘‘۔ اگلی آیت کا مفہوم ہے کہ ہر ایک اپنے اچھے یا برے اعمال کی جزا یا سزا پائے گا۔
سورۃ العنکبوت: اس سورت کے شروع میں قرآنِ مجید نے متوجہ کیا کہ قطعی نجات کیلئے صرف ایمان کا دعویٰ کافی نہیں ہے بلکہ آزمائش بھی ہو سکتی ہے‘ جیسا کہ پچھلی امتوں کے لوگوں کو کڑی آزمائش سے گزرنا پڑا اور ابتلا سے گزرنے کے بعد ہی سچے مومن اور جھوٹے کا فرق واضح ہوتا ہے۔ آیت 8 میں اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو‘ اور اگر وہ تمہیں شرک پر مائل کرنا چاہیں تو گناہ کے کاموں میں ماں باپ کی اطاعت واجب نہیں ہے۔ حدیث میں بھی ہے کہ کسی بھی ایسے مسئلے میں مخلوق (خواہ وہ کوئی بھی ہو) کی اطاعت لازم نہیں ہے‘ جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی لازم آتی ہو۔ آیت 14 سے ایک بار پھر حضرت نوح علیہ السلام کی ساڑھے نو سو سالہ تبلیغی زندگی اور اُن کی قوم پر عذاب کا ذکر ہوا۔ آیت 16سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی قوم کا ذکر ہے۔ ابراہیم علیہ السلام نے قوم کو متوجہ کیا کہ اللہ کو چھوڑکر بے بس بتوں کی عبادت نہ کرو‘ صرف اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کرو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت کو سن کر قوم نے کہا: اسے قتل کر دو یا جلا ڈالو‘ تو اللہ نے اُنہیں آگ سے بچا لیا۔ آیت 26 سے حضرت لوط‘ حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہما السلام کا ذکر ہے کہ ہم نے انہیں نبوت اور کتاب عطا کی۔ لوط علیہ السلام کی قوم کی انتہائی سرکشی کا ذکرہے کہ وہ غیر فطری طریق سے اپنی جنسی خواہش کو پورا کرتے اور ڈاکے ڈالتے اور انتہا یہ ہے کہ کھلے بندوں بے حیائی کے کام کرتے تھے اور لوط علیہ السلام سے نزولِ عذاب کا مطالبہ کرتے تھے یعنی یہ اُن کی سرکشی کی انتہا تھی۔ اِن آیات میں بتایا کہ بالآخر اللہ تعالیٰ نے لوط علیہ السلام اور اُن کے اہل کو بچا لیا اور قوم کے ساتھ قوم کی برائیوں کو پسند کرنے والی ان کی بیوی سمیت ساری بستی کو ہلاک کر دیا۔ پھر مدین کی سرزمین پر حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کی سرکشی کا ذکر ہوا‘ اللہ تعالیٰ نے نبی کی تکذیب کے جرم میں ان کو بھی تباہ و برباد کر دیا۔ قرآن مجید نے اہلِ مکہ کو مخاطب کرکے بیان کیا: تم اپنے تجارتی سفر کے دوران شیطان کے بہکاوے میں آنے والے عاد و ثمود کی بستیوں سے بخوبی آگاہ ہو چکے ہو‘ یہ لوگ سمجھدار ہونے کے باوجود شیطان کے نرغے میں آکر راہِ راست سے ہٹ گئے۔ آیت 41 میں فرمایا کہ جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر باطل معبودوں کو اپنا مددگار بناتے ہیں‘ اُن کے عقائد کے بودے پن کی مثال مکڑی کے جالے جیسی ہے اور سب سے کمزور گھر مکڑی کا گھر ہے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم حق کو ثابت کرنے کیلئے لوگوں کیلئے مثالیں بیان کرتے ہیں‘ لیکن صرف اہلِ عقل و خرد ہی اِن سے نصیحت حاصل کرتے ہیں۔

بیسویں پارے کا آغاز سورۂ نمل سے ہوتا ہے۔ اس پارے کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت کے ساتھ اپنی قوتِ تخلیق اور توحیدکا ذکر کیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ کے سوا کون ہے جس نے زمین و آسمان کو بنایا ہو اور آسمان سے پانی کو اتارا جس کی وجہ سے مختلف قسم کے باغات اُگتے ہیں اور فرمایا: کون ہے جس نے زمین کو ٹھہرائو اور قرار دیا ہو اور اس میں پہاڑوں کو (میخوں کی طرح) لگایا ہو اور اس میں نہروں کو جاری فرمایا ہو؟ کیا اللہ کے سوا بھی کوئی الٰہ ہے؟ اور مزید کہا کہ اللہ کے سوا کون ہے جو بے قراری کی حالت میں کی گئی دعائوں کو سننے والا ہو اور جو تکلیف پہنچتی ہے اس کو دور فرمانے والا ہو۔ اور اللہ کے سوا کون ہے جو خشکی اور رات کی تاریکی میں انسانوں کی رہنمائی فرمانے والا ہو اور کون ہے جو خوشخبری دینے والی ہوائوں کو بھیجنے والا ہو؟ نیز کہا: کیا اللہ کے سوا بھی کوئی معبود ہے جو تخلیق کا آغاز کرنے والا ہو اور دوبارہ اس کو زندہ کرنے والا ہو اور کون ہے جو زمین و آسان سے رزق عطا فرمانے والا ہو؟ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو اس کو سنائو‘ اگر تم سچے ہو۔
سورۃ القصص
سورۃالنمل کے بعد سورۃالقصص ہے۔ سورۂ قصص میں اللہ تعالیٰ نے جنابِ موسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا ذکر کیا ہے۔ فرعون ایک برس بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرواتا اور ایک سال ان کو زندہ چھوڑ دیتا تھا۔ جنابِ موسیٰ علیہ السلام اس سال پیدا ہوئے جس سال فرعون نے بچوں کے قتل کا حکم دے رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ پر وحی کو نازل فرمایا کہ ان کو دودھ پلائیں‘ جب خدشہ ہو کہ فرعون کے ہر کارے آ پہنچے ہیں تو ان کو جھولے میں لٹا کر سمندر کی لہروں کی نذر فرما دیں۔ جناب موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے ایسے ہی کیا۔ جب خطرہ محسوس ہوا تو ان کو جھولے میں بٹھا کر سمندر کی لہروں کی نذر فرما دیا۔ سمندر کی لہروں نے جھولے کو فرعون کے محل تک پہنچا دیا۔ فرعون کی اہلیہ جنابِ آسیہ نے جھولے میں ایک خوبصورت بچے کو آتے دیکھا تو فرعون سے کہا کہ اسے قتل نہ کریں‘ یہ میری اور آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن جائے گا‘ ہم اس کو اپنا بیٹا بنا لیں گے اور یہ ہمارے لیے نفع بخش بھی ہو سکتا ہے۔ فرعون نے جنابِ آسیہ کی فرمائش پر جناب موسیٰ علیہ السلام کو شہید کرنے کا ارادہ ملتوی کر دیا اور ان کو پالنے پر آمادہ و تیار ہو گیا۔ ادھر موسیٰ علیہ السلام کی بہن بھی تعاقب کرتے کرتے فرعون کے محل تک پہنچ گئی۔ فرعون نے اعلان کر دیا کہ مجھے اس بچے کے لیے ایک دایہ کی ضرورت ہے۔ بہت سی دایائوں نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو دودھ پلانے کی کوشش کی مگر اللہ تعالیٰ نے دیگر تمام دایائوں کو جنابِ موسیٰ علیہ السلام پر حرام فرما دیا تھا۔ یہاں تک کہ جناب موسیٰ علیہ السلام کی بہن آگے بڑھیں اور کہنے لگیں کہ کیا میں آپ کو ایک ایسے خانوادے سے آگاہ نہ کروں جو آپ کے لیے اس بچے کی کفالت کرے؟ فرعون نے کہا: اس خاندان کو بھی آزما لینا چاہیے۔ جناب موسیٰ علیہ السلام کی والدہ فرعون کے محل میں پہنچیں اور جب انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنی گود میں لیا تو جناب موسیٰ علیہ السلام نے فوراًدودھ پینا شروع کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا عجیب منظر ہے کہ دشمن موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو اپنے ہی بیٹے کو دودھ پلانے کی اُجرت دے رہا تھا۔
موسیٰ علیہ السلام فرعون کے محل میں پرورش پاتے ہیں۔ جب وہ جوان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو علم و حکمت سے بہرہ ور فرما دیا۔ ایک دن جنابِ موسیٰ علیہ السلام شہر میں داخل ہوتے ہیں۔ کیا دیکھتے ہیں کہ فرعون کے قبیلے کا ایک آدمی بنی اسرائیل کے ایک آدمی کے ساتھ لڑ جھگڑ رہا ہے۔ بنی اسرائیل کے آدمی نے جب موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا تو اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی دہائی دی۔ جناب موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے آدمی کی حمایت میں فرعونی کو زور دار تھپڑ دے مارا۔ تھپڑ مارنے کی دیر تھی کہ وہ آدمی ضربِ کلیم کی تاب نہ لاتے ہوئے مر گیا۔ جناب موسیٰ علیہ السلام کا اسے قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ جب آپ علیہ السلام نے یہ منظر دیکھا تو آپ نے پروردگارعالم سے توبہ و استغفار کی۔ اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کی توبہ اور استغفار کو قبول کر لیا۔ اسی اثنا میں موسیٰ علیہ السلام کو اس بات کی اطلاع ملی کہ فرعون کے ہرکارے ان کو تلاش کر رہے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی طلب کی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کی رہنمائی کی اور ان کو مدین کے گھاٹ پر پہنچا دیا۔
موسیٰ علیہ السلام مدین کے گھاٹ پر پہنچے تو دیکھا کہ لوگ پانی نکالنے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہیں اور وہاں پر دو لڑکیاں بھی پانی لینے آئی تھیں لیکن رش کی وجہ سے پانی لینے سے قاصر تھیں۔ جناب موسیٰ علیہ السلام نے ان کے لیے پانی نکالا اور ایک طرف ہٹ کر سائے میں بیٹھ گئے۔ جب انہیں بھوک اور پیاس محسوس ہوئی تو انہوں نے پروردگار عالم سے دعا مانگی: اے میرے پروردگار! تو میری جھولی میں خیر کو ڈال دے۔ دعا مانگنے کی دیر تھی کہ یکایک انہی دو لڑکیوں میں سے ایک لڑکی انتہائی شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی جناب موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئی اور کہا کہ میرے بابا آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ جو آپ ہمارے کام آئے ہیں‘ اس کا آپ کو صلہ دیا جا سکے۔ جناب موسیٰ علیہ السلام مدین کے بزرگ شخص کے پاس پہنچے۔ (چند مفسرین کے مطابق وہ بزرگ جناب شعیب علیہ السلام تھے) آپ نے ان کو اپنے حالات سے آگاہ کیا تو جناب شعیب علیہ السلام نے کہا کہ آپ میرے پاس رہیں اور آپ علیہ السلام نے جناب موسیٰ علیہ السلام کی شادی اپنی ایک بیٹی سے کر دی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام دس برس تک جنابِ شعیب کے پاس مقیم رہے اور ان کی بکریاں چراتے رہے۔ دس برس کے بعد جنابِ موسیٰ علیہ السلام نے وطن واپسی کا ارادہ کیا اور اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ چل پڑے۔ راستے میں ایک جگہ سردی کا احساس ہوا۔ طور پہاڑ کے پاس سے گزرے تو دور سے آگ کو جلتا ہوا محسوس کیا۔ اپنی اہلیہ کو فرمانے لگے کہ تم ذرا ٹھہرو! میں طور پہاڑ سے آگ لے کر آتا ہوں‘ اس سے ذرا حرارت پیدا ہو جائے گی۔ جب طور پر پہنچے تو خالقِ کائنات نے آواز دی: اے موسیٰ! میں اللہ عزیز و حکیم ہوں۔ اس موقع پر آپ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبوت سے سرفراز فرمایا اور آپ کے عصا کو معجزاتی عصا اور آپ کے ہاتھ کو نورانی بنا دیا۔ جنابِ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگی کہ اے پروردگار! میرے بھائی ہارون علیہ السلام کو بھی نبوت عطا فرما دے اس لیے کہ وہ خطابت اور بلاغت کی صلاحیتوں سے مالامال ہیں۔ اللہ نے آپ کی دعا قبول فرما لی۔ جنابِ موسیٰ علیہ السلام فرعون کے پاس آئے تو فرعون نے آپ کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے ہر طرح سے اس کو سمجھایا مگر وہ نہ مانا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو پانی میں ڈبو کر ہلاکت کے گڑھے میں گرا دیا۔
سورۃ العنکبوت
اس کے بعد سورۂ عنکبو ت ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو بھی ایمان کا دعویٰ کرے گا اس کو اللہ تعالیٰ ضرور آزمائیں گے جس طرح اللہ نے پہلے لوگوں کو آزمایا تھا اور آزمائش کے بعد اس بات کو واضح کریں گے کہ ایمان کے دعوے میں سچا کون اور جھوٹا کون ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ان سابقہ امتوں اور افراد کا ذکر کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی آزمائش پر ثابت قدم رہے۔ ان لوگوں میں اصحاب الاخدود اور قومِ موسیٰ کے جادوگر سرِفہرست ہیں جنہوں نے وقت کے حاکموں کے ظلم اور استبداد کی پروا نہ کی اور اللہ کی توحید پر بڑی استقامت کے ساتھ کاربند رہے اور اپنے ایمان کے دعوے کو عمل سے ثابت کیا۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ مشرکوں کی مثال مکڑی کی طرح ہے جو گھر بناتی ہے لیکن اس کی کوئی بنیا د نہیں ہوتی۔ اسی طرح مشرک غیر اللہ کو پکارتے ہیں مگر ان کی پکار میں کوئی وزن نہیں ہوتا۔ بے شک ان کے نظریات مکڑی کے کمزور گھروں یعنی جالوں کی طرح ہوتے ہیں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآنِ مجید‘ فرقانِ حمید پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!

انیسویں پارے کے شروع میں ایک بار پھر کفارِ مکہ کے ناروا مطالبات کا ذکر ہے کہ منکرینِ آخرت یہ مطالبہ کرتے تھے کہ ہمارے پاس فرشتہ اتر کر آئے یا ہم اللہ تعالیٰ کو کھلے عام دیکھیں۔ قرآن پاک نے بتایا کہ جس دن کفار ان نشانیوں کو دیکھ لیں گے تو وہ ان کے لیے بہت برا دن ہو گا۔ قیامت کے دن کفار ندامت سے اپنے ہاتھوں کو کاٹیں گے کہ کاش دنیا میں ہم نے رسولوں سے تعلق رکھا ہوتا۔ آیت 32 میں کفار کے اس اعتراض کا ذکر ہوا کہ پورا قرآن ایک ہی وقت میں نازل کیوں نہ کیا گیا‘ قرآن نے بتایا کہ تدریجی نزول میں حکمت یہ ہے کہ وحی کے تسلسل کے ذریعے نبیﷺ کا اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم رہے اور آپ کے دل کو قرار و سکون نصیب ہو۔ آیت 45 سے اللہ تعالیٰ نے سائے کے پھیلاؤ اور سمٹاؤ کو اپنی نشانی قرار دیا۔ آیت 48 سے بارش کے نظام‘ آسمان سے پاک پانی کے نزول‘ اس کے ذریعے بنجر زمین کو زرخیز بنانے‘ سمندروں میں میٹھے اور نمکین پانی کے الگ الگ جاری ہونے اور دیگر انعامات کا ذکر ہے۔ آیت 54 میں بتایا کہ انسان کا جوہرِ تخلیق پانی ہے اور پھر اس کے ذریعے نسب اور سسرال کے رشتے قائم ہوئے۔ سورۂ فرقان کے آخری رکوع میں آسمانوں میں برج بنانے‘ سورج اور چاند کی روشنی اور نظامِ لیل ونہار کو اللہ تعالیٰ کی قدرت کی دلیل بتایا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی اعلیٰ صفات کا ذکر ہے‘ جو یہ ہیں: زمین پر شرافت اور متانت سے چلنا‘ راتوں کو سجدہ و قیام‘ یعنی اللہ کی عبادت میں گزارنا‘ اللہ کی پناہ چاہنا‘ مال خرچ کرتے وقت بُخل اور اسراف کی دو انتہاؤں کے درمیان توازن و اعتدال سے کام لینا‘ شرک‘ قتلِ ناحق‘ زنا‘ جھوٹی گواہی‘ بیہودہ مجالس سے اجتناب‘ اللہ کی آیات یاد دلانے پر اندھا‘ بہر ا نہ بننا‘ یعنی نصیحت قبول کرنا اور اللہ تعالیٰ سے نیک اور صالح اولاد کی دعا کرنا۔ اس میں گناہگاروں کیلئے نہ صرف توبہ کی قبولیت کی نوید ہے‘ بلکہ گناہوں کے بدلے میں نیکیاں عطا کرنے کی بشارت اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا کیے جانے کا ذکر ہے۔
سورہ شعراء: اس سورہ میں ایک بار پھر موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے پاس جا کر دعوتِ حق دینے کا ذکر ہے۔ بشری تقاضے کے تحت موسیٰ علیہ السلام کے خدشات کا ذکر ہے‘ فرعون کی طرف سے موسیٰ علیہ السلام کی تربیت کا احسان جتانے کا ذکر ہے۔ فرعون نے دعوتِ توحید کے جواب میں کہا کہ ''رب العالمین‘‘ کون ہے؟‘ انہوں نے فرمایا کہ وہ آسمانوں اور زمینوں‘ مشرق و مغرب اور تمہارا اور تمہارے پہلے آبائو اجداد کا رب ہے۔ اس مقام پر بھی ایک بار پھر جادوگروں کے مقابلے میں موسیٰ علیہ السلام کے معجزات (خاص طور پر عصا کا اژدھا بننا) کے غالب آنے کا ذکر ہے‘ پھر جادو گروں کے ایمان لانے اور فرعون کی طرف سے قید میں ڈالنے‘ ہاتھ پاؤں کو مخالف سمت سے کاٹنے اور سولی چڑھانے کی دھمکیوں کا ذکر ہے۔ پھر اس بات کا بیان ہے کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر گئے‘ سامنے سمندر تھا اور پیچھے فرعون اور اس کے پیروکاروں کا تعاقب۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی کی ضرب سے سمندر پھٹ گیا‘ بنی اسرائیل کے لیے راستہ بنا‘ وہ سلامتی کے ساتھ سمندر کے پار چلے گئے اور فرعون اپنے لاؤ لشکر سمیت سمندر میں غرق ہو گیا۔ آیت 69 سے ایک بار پھر ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ہے کہ وہ اپنی قوم کو بتوں کی بے بسی کی جانب متوجہ کرتے۔ پھر ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اللہ نے مجھے پیدا کیا‘ وہی ہدایت دیتا ہے‘ وہی مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے‘ جب بیمار ہوتا ہوں تو وہی شفا دیتا ہے‘ وہی میری روح قبض کرے گا اور آخرت میں دوبارہ پیدا کرے گا‘ مجھے یقین ہے کہ قیامت کے دن میری خطاؤں کو معاف فرمائے گا۔ وہ دعاکرتے ہیں: اے پروردگار! تو مجھے صحیح فیصلہ کرنے کی قوت عطا فرما اور مجھے نیک بندوں کے ساتھ ملا دے‘ اے اللہ! بعد میں آنے والے لوگوں میں میرا ذکرِ خیر سچائی کے ساتھ جاری فرما‘ مجھے جنت کی نعمتوں کا وارث بنا اور مجھے قیامت کے دن رسوا نہ فرمانا۔ آیت 105 سے نوح علیہ السلام کی دعوتِ حق کا ذکر ہے۔ وہ رسولِ امین تھے‘ سرکش لوگوں نے کہا: ہم آپ پر کیسے ایمان لائیں‘ آپ کے پیروکار تو پسماندہ لوگ ہیں؟ پھر نوح علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے اپنے اور اپنی قوم کے درمیان آخری فیصلے کی دعا مانگتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ ان کو اور ان کے پیروکار مومنوں کو کشتی کے ذریعے نجات عطا فرما دیتا ہے اور سرکش قوم طوفان میں ڈوب جاتی ہے۔ آیت 124 سے ہود علیہ السلام اور ان کی قوم عاد کا ذکر ہے‘ نبی کی تکذیب کی بنا پر اس قوم کو ہلاک کر دیا گیا۔ آیت 141 سے حضرت صالح علیہ السلام اور ان کی قوم ثمود کی نافرمانیوں کا ذکر ہے‘ ان پر بھی اللہ تعالیٰ نے نعمتوں کی فراوانی فرما رکھی تھی‘ لیکن جب انہوں نے ''ناقۃ اللہ‘‘ (اللہ کی اونٹنی) کی بے حرمتی کی اور اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں تو ان پر عذاب نازل ہوا۔ آیت 160 سے لوط علیہ السلام اور ان کی قوم کا ذکر ہے‘ اس قوم کی بداعمالیوں کا ذکر ہے کہ وہ حلال رشتوں کو چھوڑ کر غیر فطری طریقے سے اپنی خواہش پوری کرتے تھے۔ لوط علیہ السلام کی بیوی بھی ان کی ہم خیال تھی‘ بالآخر اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو بھی تباہ و برباد کر دیا‘ پھر حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کی قوم کا ذکر ہے‘ یہ لوگ ''اصحابُ الایکہ‘‘ کہلاتے ہیں‘ یہ لوگ لین دین کے وقت ناپ تول میں ڈنڈی مارتے تھے اور ان کی سرکشی کا عالَم یہ تھا کہ اللہ کے نبی سے کہتے: اگر آپ سچے ہیں تو ہم پر آسمان کیوں نہیں پھٹ جاتا‘ پھر اس قوم پر بھی عذاب نازل ہوا اور وہ تباہ و برباد کر دیے گئے۔ آیت 192 سے بتایا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے‘ جسے واضح عربی زبان میں جبرائیل امین نے محمدرسول اللہﷺ کے قلبِ پاک پر نازل کیا۔
سورہ نمل: اس سورہ مبارکہ کی ابتدائی آیات میں ایک بار پھر موسیٰ علیہ السلام کے احوال اور معجزات کا بیان ہے۔ آیت 16 سے سلیمان علیہ السلام کا ذکر ہے کہ وہ داؤد علیہ السلام کے وارث بنے اور انہیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی۔ جنات اور انسانوں کے لشکر ایک فوجی ڈسپلن کے ساتھ ان کے پاس حاضر رہتے۔ پھر اس واقعے کا ذکر ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے لشکر کا گزر چونٹیوں کی وادی پر ہوا تو چونٹیوں کی مَلکہ نے اپنی رعایا سے کہا کہ اپنے بلوں میں گھس جاؤ‘ کہیں سلیمان کا لشکر تمہیں کچل نہ ڈالے۔ سلیمان علیہ السلام چونکہ جانوروں کی بولیا ں جانتے تھے‘ تو یہ سن کر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی: اے میرے رب! تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر جو بے پایاں نعمتیں فرمائی ہیں‘ مجھے ان کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اور مجھے اپنے پسندیدہ نیک اعمال پر قائم اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیکوکار بندوں میں داخل فرما‘ پھر ہدہد پرندہ جو ان کے لشکر کی رہنمائی کے لئے آگے جاتا تھا‘ کافی دیر غائب رہا اور پھر یمن کی ملکۂ سبا کے بارے میں ایک یقینی خبر لے کر آیاکہ ان کا ایک بڑا تخت ہے‘ یہ لوگ سورج پرست ہیں اور انہیں ہر طرح کی نعمتیں میسر ہیں۔ سلیمان علیہ السلام نے ملکۂ سبا کی طرف ایک خط بھیجا جس کا متن یہ تھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم‘ یہ خط سلیمان کی جانب سے ہے (تمہارے لئے پیغام یہ ہے) کہ سرکشی چھوڑو اور اطاعت گزار بن کر میرے پاس چلی آؤ۔ ملکۂ سبا نے قوم سے مشورہ کیا‘ قوم کو اپنی طاقت پر ناز تھا۔ ملکۂ سبا نے سلیمان علیہ السلام کو محض ایک دنیا دار بادشاہ سمجھتے ہوئے آپ کے پاس تحفے تحائف بھیجے‘ سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے جو مال دے رکھا ہے‘ وہ تمہارے مالوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہے اور ہدہد سے کہا کہ یہ خط پہنچاؤ کہ ہم ان پر حملہ کریں گے۔ ملکۂ سبا نے سلیمان علیہ السلام کے سامنے سپر انداز ہونے کا فیصلہ کیا اور چل پڑی‘ اس دوران سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں سے کہا کہ ان کے اطاعت گزار ہوکر آنے سے پہلے اس کا تخت میرے پاس کون لائے گا۔ ایک بہت بڑے جن نے کہا: ''میں اِس تخت کو آپ کی مجلس برخاست ہونے سے پہلے لے آؤںگا‘ میں امین ہوں اور اس پر قادر ہوں‘‘۔ سلیمان علیہ السلام کے کتابِ الٰہی کے عالم صحابی (ان کا نام مفسرین نے آصف بن برخیا لکھا ہے اور یہ اللہ کے ولی تھے) نے کہا: ''میں آپ کے پاس پلک جھپکنے سے پہلے اس تخت کو لے آؤں گا‘‘۔ انہوں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو تخت سامنے رکھا ہوا تھا‘ اِسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کامل بندے کا کہنا‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ''کُن‘‘ کی بمنزلہ ہوتا ہے۔ سلیمان علیہ السلام نے اللہ کے اس فضل پر اپنے رب کا شکر ادا کیا اور فرمایا ''جو اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے‘ اس کا فائدہ اسی کو پہنچتا ہے اورجو ناشکری کرتاہے تو میرا رب بے پروا‘ سب کمالات والا ہے‘‘۔

انیسویں پارے کا آغاز سورۃ الفرقان سے ہوتا ہے۔ انیسویں پارے کے آغاز میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جن لوگوں کو میری ملاقات کا یقین نہیں وہ بڑے تکبر سے کہتے ہیں کہ ہمارے اوپر فرشتے کا نزول ہونا چاہیے یا ہم پروردگار کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جب وہ قیامت کے روز اپنی آنکھوں سے فرشتوں کو دیکھیں گے تو اس دن مجرموں کو کوئی خوش خبری نہیں ملے گی۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ظالم اپنے ہاتھ کو کاٹے گا اور کہے گا کہ اے کاش! میں نے رسول اللہﷺ کے راستے کو اختیار کیا ہوتا اور کاش میں نے فلاں کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس نے تو مجھے نصیحت آ جانے کے بعد اس سے غافل کر دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے لوگ دنیا میں بری صحبت کو اختیار کرنے کی وجہ سے گمراہ ہوں گے۔
سورۃ الشعراء:سورہ فرقان کے بعد سورۃ الشعراء ہے۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے قوم نوح‘ قوم ہود‘ قوم ثمود اور قوم لوط پر آنے والے عذاب کا تذکرہ کیا کہ کس طرح ان تمام اقوام نے اپنے نبیوں کی نافرمانی کی اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے عذاب کا نشانہ بنیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا کہ ان تمام اقوام نے اللہ کے بھیجے گئے تمام نبیوں کی تکذیب کی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے کسی ایک نبی کی بھی تکذیب کرتا ہے وہ محض ایک کی تکذیب نہیں کرتا بلکہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی تکذیب کرتا ہے۔ سورۃ الشعراء میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی تذکرہ کیا ہے کہ سابقہ انبیاء کرام نے اپنی قوموں کے لوگوں سے اپنی دعوت کے بدلے کسی اجر کو طلب نہیں کیا بلکہ وہ سب اس دعوت کے بدلے جہانوں کے پروردگار سے اجر کے طلبگار تھے لیکن یہ ان کی قوم کے لوگوں کی عاقبت نا اندیشی تھی کہ انہوں نے خلوص کے ساتھ دی جانے والی دعوت کو نظر انداز کر دیا اور ان کی مخالفت پر تلے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کی تائید اور نصرت فرمائی اور ان نافرمانوں کو نشانِ عبرت بنا دیا۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کا بھی ذکر کیا کہ انہوں نے اپنی قوم سے بت پرستی کی وجہ دریافت کی کہ کیا تم جب ان کو پکارتے ہو تو کیا وہ تمہاری پکاروں کو سنتے ہیں اور کیا وہ تمہیں نفع یا نقصان پہنچاتے ہیں؟ تو جواب میں قوم کے لوگوں نے کہا کہ نہیں بلکہ ہم نے اپنے آبائو اجداد کو انہیں پوجتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس پر جناب ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ میں تمہارا اور تمہارے آبائو اجداد کے معبودوں کا مخالف ہوں۔ میری وفا اور محبت رب العالمین کے لیے ہے جس نے مجھے بنایا اور سیدھا راستہ دکھلایا‘ جو مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی ہے‘ جو مجھے امراض سے شفا عطا فرماتا ہے‘ جو مجھے موت بھی دے گا اور پھر دوبارہ زندہ بھی کرے گا اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے قیامت کے دن معاف بھی فرما دے گا۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے اپنی طرف سے نازل ہونے کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو عربی جیسی خوبصورت اور واضح زبان میں اتارا اور اس کو جبرائیل امین رسول اللہﷺ کے سینہ مبارک پر لے کر آئے تاکہ وہ لوگوں کو ڈرا سکیں اور کہا کہ اس کی ایک بڑی نشانی یہ بھی ہے کہ بنی اسرائیل یعنی یہود و نصاریٰ کے علماء بھی اس کو پہچانتے ہیں۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ شیطان ہر جھوٹ بولنے والے بڑے گناہ گار پر نازل ہوتا ہے اور بھٹکے ہوئے شاعروں پر بھی شیطان اترتا ہے۔ وہ شعرا جو ہر وقت وہم کی وادیوں میں ٹھوکریں کھاتے رہتے ہیں اورصرف باتیں بنانے میں معروف رہتے ہیں مگر وہ لوگ جو ایمان لے کر آئے اور ایمان کے بعد انہوں نے عمل صالح کا راستہ اختیار کیا‘ اللہ تعالیٰ ان سے شیاطین کو دور فرمائیں گے۔
سورۃ النمل:سورۃ الشعراء کے بعد سورۃ النمل ہے۔ سورۃ النمل میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی نشانیوں کا ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بے مثال معجزات عطا فرمائے تھے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیہم السلام کو علم کی نعمت سے مالا مال فرمایا اور ان کو اپنے بہت سے بندوں پر فضیلت عطا فرمائی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے جناب سلیمان علیہ السلام کو علم اور حکومت کے اعتبار سے جناب دائود علیہ السلام کا وارث بنایا اور ان کو پرندوں اور جانوروں کی بولیاں سکھائی تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ جنات‘ انسانوں اور ہوائوں پر بھی ان کو حکومت عطا کی تھی۔
اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اس واقعے کا ذکر فرمایا کہ جب جنابِ سلیمان علیہ السلام کا لشکر جا رہا تھا تو چیونٹیوں کی ملکہ نے چیونٹیوں کو حکم دیا کہ سب اپنے اپنے بل میں چلی جائیں ایسا نہ ہو کہ وہ سلیمان علیہ السلام کے لشکر کے گزرنے کے سبب کچلی جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے جنابِ سلیمان علیہ السلام تک یہ الفاظ پہنچا دیے اور آپ علیہ السلام نے اللہ کا شکر ادا کیا جس نے آپ کو پرندوں اور جانوروں کی بولیاں بھی سکھائی تھیں اور یہ دعا کی ''اے اللہ! مجھے توفیق عطا فرما کہ جو احسان تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیے ہیں‘ ان کا شکر ادا کروں اور ایسے نیک کام کروں کہ تُو ان سے خوش ہو جائے اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما‘‘۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے جناب سلیمان علیہ السلام کے دربار کی ایک کیفیت کا بھی ذکر کیا کہ جناب سلیمان علیہ السلام اپنے دربار میں جلوہ افروز تھے کہ آپ نے ہدہد کو غائب پایا۔ جناب سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر ہدہد نے اپنی غیر حاضری کی کوئی معقول وجہ بیان نہ کی تو میں اس کو سخت سزا دوں گا یا اس کو ذبح کر دوں گا۔ کچھ دیر کے بعد ہدہد آیا تو اس نے کہا کہ جناب سلیمان علیہ السلام! آج دربار کی طرف آتے ہوئے میرا گزر ایک ایسی بستی سے ہوا جہاں کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی بہت سی نعمتیں حاصل ہیں اور ان پر ایک عورت حکمران ہے اور قوم کی بدنصیبی یہ ہے کہ وہ سورج کی پوجا کر رہی ہے جبکہ انہیں اللہ کی پوجا کرنی چاہیے۔ جناب سلیمان علیہ السلام اس ملکہ کے نام خط لکھتے ہیں۔ ملکہ خط کو پڑھنے کے بعد درباریوں سے مشورہ کرتی ہے اور جواب میں سیدنا سلیمان علیہ السلام کو تحفے تحائف بھجوا دیتی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام تحفوں کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کیا ہے وہ ان تحفوں سے بہت بہتر ہے۔ آپ اپنے دربایوں کو مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ تم میں سے کون ہے جو ملکہ کے تخت کو میرے دربار میں لے کر آئے‘ اس پر ایک بہت بڑے جن نے کہا کہ میں دربار کے برخاست ہونے سے پہلے ملکہ کے تخت کو یہاں لا سکتا ہوں۔ اس پر ایک ایسا شخص کھڑا ہوا جس کے پاس کتاب کا علم تھا اور وہ اللہ کے اسمائے اعظم کا علم رکھنے والا تھا‘ اس نے کہا: میں ملکہ کے تخت کو آپ کے پہلو بدلنے سے پہلے یہاں حاضر کر دوں گا اور آناً فاناً میں تخت وہاں موجود تھا۔ جناب سلیمان علیہ السلام اور ملکہ کی ملاقات ہوئی تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے کچھ تبدیلی کر کے ملکہ سے پوچھا کیا یہ تمہارا ہی تخت ہے تو جواب میں ملکہ نے کہا: ہاں! یہ میرا ہی تخت ہے۔ اس کے بعد جناب سلیمان علیہ السلام نے ملکہ کو اپنے محل کے ایک خاص حصے میں آنے کی دعوت دی۔ اس حصے کا فرش شیشے کا بنا ہوا تھا لیکن دیکھنے والی آنکھوں کو پانی محسوس ہوتا تھا۔ جناب سلیمان علیہ السلا م نے جب ملکہ کو شیشے کے فرش سے گزرنے کے لیے کہا تو ملکہ نے اپنی پنڈلیوں سے کپڑے کو اٹھا لیا تاکہ کہیں اس کے کپڑے گیلے نہ ہو جائیں۔ جناب سلیمان علیہ السلام نے کہا: ملکہ یہ فرش شیشے کا بنا ہوا ہے۔ انہوں نے ملکہ کو جتلایا کہ تم پانی اور شیشے میں فرق نہیں کر سکتی۔ جناب سلیمان علیہ السلام اصل میں ملکہ کو بتلا رہے تھے کہ اسی طرح تم سورج کی روشنی اور اللہ تعالیٰ کے نور میں بھی فرق نہیں کر سکتی۔ ملکہ نے فوراً اعلان کیا کہ اے میرے پروردگار! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا۔ ملکہ نے اسلام قبول کر لیا۔ یہ واقعہ ہمیں بتلاتا ہے کہ ہمیشہ دین کی دعوت حکمت اور دانائی سے دینی چاہیے۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں قرآن مجید پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے، آمین!

سورۃ المؤمنون: سورہ مؤمنون کی ابتدائی گیارہ آیات تعلیماتِ اسلامی کی جامع ہیں‘ ان میں فلاح یافتہ اہلِ ایمان کی یہ صفات بیان کی گئی ہیں؛ نمازوں میں خشوع وخضوع‘ ہر قسم کی بیہودہ باتوں سے لاتعلقی‘ زکوٰۃ کی ادائیگی‘ اپنی پاکدامنی کی حفاظت‘ امانت اور عہد کی پاسداری اور نمازوں کی پابندی۔ آخر میں فرمایا کہ ان صفات کے حامل اہلِ ایمان ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ آیت 13 سے انسانی تخلیق کے مدارج کو بیان کیا‘ یعنی نطفہ‘ پھر علقہ (جما ہوا خون)‘ پھر گوشت کا لوتھڑا اور پھر گوشت اور ہڈیوں پر مشتمل جسم کی تشکیل اور اسی کو حیات بعد الموت کی دلیل قرار دیا۔ آیت 17سے اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر اپنی قدرت کی نشانیوں کو بیان کیا۔ آیت 33 سے بیان ہوا کہ ہود علیہ السلام کی قوم کے کفار‘ منکرینِ آخرت اور خوشحال لوگوں نے اپنے نبی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو ہم جیسے بشر ہیں‘ عام انسانوں کی طرح کھاتے اور پیتے ہیں اور اپنے جیسے بشر کی اطاعت کرنا بڑے خسارے کی بات ہے، یہ حیات بعد الموت کا وعدہ کرتے ہیں‘ جو ناقابلِ یقین بات ہے۔ انہوں نے کہا: جو کچھ ہے‘ اسی دنیا کی زندگی میں ہے‘ مرنے کے بعد کس نے جینا ہے۔ آیت 85 سے اللہ تعالیٰ نے استفہامی انداز میں بیان فرمایا کہ اگر ان منکرینِ آخرت سے پوچھا جائے کہ زمین اور اس کے خزانوں کا مالک کون ہے‘ سات آسمانوں اور عرشِ عظیم کا مالک کون ہے‘ ہر چیز کی بادشاہت کس کے قبضے میں ہے کہ جس کا مقابل کوئی نہیں‘ تو ہر سوال کے جواب میں کہیں گے کہ اللہ! تو پھر آپ ان سے پوچھئے کہ کیا تم سحر زدہ ہو‘ یعنی پھر اس مالک الملک پر ایمان کیوں نہیں لاتے‘ اس کے احکام کو تسلیم کیوں نہیں کرتے؟ آیت 91 سے بیان ہوا کہ اللہ کی کوئی اولاد نہیں‘ اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں، اگر ایسا ہوتا کہ ایک سے زیادہ خدا ہوتے تو ہر ایک اپنے لشکر کو لے کر دوسر ے پر غلبہ پانے کی کوشش کرتا حالانکہ اللہ وحدہٗ لاشریک کے اقتدار کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
سورۃ النور: سورۂ نور میں اللہ تعالیٰ نے خانگی اور معاشرتی اَحکام کو بیان فرمایا ہے۔ ابتدائی آیات میں زنا کرنے والے (غیر شادی شدہ) مرد و عورت کی سزا کو بیان کیا کہ اُن کی سزا سوکوڑے ہے اور (صاحبانِ اقتدار) اہلِ ایمان کوکہا گیا کہ تمہیں اس سزاکے نفاذ میں اُن پر رحم نہیں آنا چاہیے اور تمہاری ایک جماعت کو اس سزاکے نفاذ کے وقت موجود رہنا چاہیے۔ آیت 5 سے بیان کیا گیا کہ جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں‘ پھر (اُس کے ثبوت میں) چار گواہ نہ پیش کر سکیں‘تو تم اُن کو 80 کوڑے مارو اور اُن کی شہادت کوکبھی بھی قبول نہ کرو اور یہی لوگ فاسق ہیں۔ سوائے اُن لوگوں کے جو اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے توبہ اور اصلاح کر لیں۔ آیت 6 سے یہ ضابطہ بیان فرمایا ''اگرکوئی شخص اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے اور اُس کے ثبوت میں چار گواہ نہ پیش کر سکے اور اُس کی بیوی اس تہمت کا انکار کرے‘ تو فریقین ایک دوسرے پر لِعان کریں‘ شوہر چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ کہے: بیشک وہ ضرور سچوں میں سے ہے اور پانچویں بار یہ کہے: اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو تو اُس پر اللہ کی لعنت‘‘۔ اورعورت سے حدِ زنا اس طرح دور ہو سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھاکر کہے کہ اُس کا خاوند یقینا جھوٹوں میں سے ہے اور پانچویں بار کہے کہ اگر اُس کا خاوند سچوں میں سے ہو تو اُس (عورت) پر اللہ کا غضب نازل ہو۔ آیت 11 سے ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر جو منافقین نے تہمت لگائی تھی‘ اُس کی جانب اشارہ فرمایا اور اُن چیزوں کا سَدِّ باب کیا‘ جو معاشرے کی بگاڑ کا باعث ہو سکتی ہیں اور جن منافقین نے یہ تہمت لگائی تھی‘ اُن کا پردہ فاش کیا‘ جو مسلمان منافقین کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس گئے تھے‘ اُن پر بھی عتاب فرمایا اور اُن کو تنبیہ کی کہ وہ آئندہ ہوشیار رہیں اور منافقین کے کہنے میں نہ آئیں۔ منافق مسلمانوں کی عزت وناموس کو برباد کرنے کے درپے ہیں‘ اس لیے مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ سنی سنائی بات کو آگے بڑھا دیں بلکہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اپنوں کے متعلق نیک گمان کرنا چاہیے۔ آیت23 سے پاک دامن‘ بے خبر‘ ایمان والی عورتوں پر (بدکاری) کی تہمت لگانے والوں کے لیے دنیاو آخرت میں لعنت اور بہت بڑے عذاب کا بیان ہوا ہے۔ آیت27 سے فرمایا کہ مسلمانوں کے لیے ایک دوسرے کے گھروں میں بلا اجازت داخل ہونا جائز نہیں اور اجازت لے کر داخل ہونے پر گھر والوں کو سلام کریں اور اگر اُن سے کہا جائے کہ لوٹ جاؤ‘ تو اُنہیں واپس چلے جانا چاہیے۔ ہاں! اگر کسی گھر میں لوگوں کی رہائش نہ ہو اور وہاں مسلمانوں کی کوئی چیز ہو‘ تو وہاں داخل ہونے میں کوئی حرج نہیں۔ (جیسے پبلک مقامات وغیرہ) آیت 39 سے کافروں کے اَعمال کی مثال کو اس طرح بیان کیا کہ وہ زمین میں چمکتی ہوئی اُس ریت کی طرح ہیں‘ جس کو پیاسا دُور سے پانی گمان کرتا ہے حتیٰ کہ جب وہ اُس کے قریب پہنچتا ہے تو کچھ نہیں پاتا اور وہ اللہ کو اپنے قریب پاتا ہے‘ جو اُس کو اُس کا پورا حساب چکا دیتا ہے یا (اُن کے اعمال) گہرے سمندرکی تاریکیوں کے مثل ہیں‘ جن کو تہہ در تہہ موج ڈھانپے ہوئے ہے۔ اُس کی بعض تاریکیاں بعض سے زیادہ ہیں‘ جب کوئی اپنا ہاتھ نکالے تو اُس کو دیکھ نہ سکے اور جس کیلئے اللہ نور نہ بنائے‘ اُس کیلئے کوئی نور نہیں ہے۔ آیت 43 سے فرمایاکہ کیا آپ نے نہیں دیکھاکہ اللہ بادلوں کو چلاتا ہے‘ پھر اُن کو (باہم) جوڑ دیتا ہے‘ پھراُن کو تَہہ دَر تَہہ کر دیتا ہے۔ پھر آپ دیکھتے ہیں کہ اُن کے درمیان سے بارش ہوتی ہے اور اللہ آسمانوں کی طرف سے پہاڑوں سے اولے نازل فرماتا ہے۔ سو‘ وہ جس پر چاہے اُن اولوں کو برسا دیتا ہے اورجس سے چاہے اُن کو پھیر دیتا ہے۔ قریب ہے کہ اُس کی بجلی کی چمک آنکھوں کی بینائی کو زائل کر دے۔ اللہ دن اور رات کو بدلتا رہتا ہے‘ بے شک اس میں غور کرنے والوں کے لیے بڑی نصیحت ہے۔ آیت 55 میں اہلِ ایمان کو یہ بشارت دی کہ اللہ تمہیں زمین میں ضرور خلافت عطا فرمائے گا اور ضرور بالضرور اس دین کو مُحکم اور مضبوط کرے گا۔ تم نماز قائم کرو‘ زکوٰۃ ادا کرو اور (اخلاص کے ساتھ) رسول کی اطاعت پر ڈٹے رہو‘ اللہ تمہارے خوف اور پریشانی کو حالتِ امن اور سکون سے بدل دے گا۔ آیت 58 سے پردے کے اَحکام کی وضاحت فرمائی کہ تمہارے نوکروں اور نابالغ بچوں کیلئے بھی تین اوقات میں اجازت حاصل کرنی ضروری ہے: (1) نمازِ فجر سے پہلے (2) ظہر کے بعد‘ جب تم (قیلولہ کی غرض سے) اپنے (فالتو) کپڑے اتار دیتے ہو (3) عشاء کی نماز کے بعد۔ جب تمہارے لڑکے بلوغت کی عمر کو پہنچ جائیں‘ تو اُن کو بھی اجازت طلب کرکے آناچاہیے۔ آیت 62 میں یہ بیان کیا گیا کہ مومنین صرف وہی ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول پر حقیقتاً ایمان رکھتے ہیں اورجب وہ کسی مجتمع ہونے والی مہم میں رسول کے ساتھ ہوتے ہیں‘ تو اُن کی اجازت کے بغیر کہیں نہیں جاتے‘ ایسے ایمان والوں کوضرورت کی بنا پر اجازت دینے کیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے سفارش فرمائی ہے۔ آیت 63 میں کہا گیا کہ تم رسولﷺ کے بلانے کو ایسے قرار نہ دو‘ جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو اورجو لوگ رسولﷺ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں‘ وہ اس سے ڈریں کہ اُنہیں کوئی مصیبت پہنچ جائے یا اُنہیں کوئی دردناک عذاب پہنچ جائے۔ بے شک اللہ ہی کی ملکیت ہے‘ جوکچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے۔ اللہ کو تمہارے حال کا خوب علم ہے۔
سورۃ الفرقان: سورۂ فرقان کے شروع میں اللہ تعالیٰ کی جلالت‘ توحید‘ اولاد کی نسبت اور شرک سے برأت کا ذکر ہے۔ کفار کے باطل معبودوں کے مخلوق ہونے‘ اپنے لیے نفع اور نقصان اور موت وحیات کا مالک نہ ہونے کا ذکر ہے۔ آیت 4 سے اس بات کا بیان ہے کہ کفار نے قرآنِ مجید کے کلامِ الٰہی ہونے کا انکار کیا اور اسے رسول کریمﷺ کا خود ساختہ کلام قرار دیا کہ یہ پچھلے لوگوں کی کوئی افسانوی کہانیاں ہیں‘ جو انہوں نے لکھوا لی ہیں۔ کفارِ مکہ کے اس اعتراض کا بھی ذکر ہے کہ یہ رسول کھانا کھاتے ہیں‘ بازاروں میں چلتے ہیں‘ ان کی تائید کیلئے کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا؟ انہیں کوئی خزانہ اور باغات کیوں نہ عطا کیے گئے‘ انہوں نے اللہ کے رسول کو سحر زدہ کہا اور قیامت کے دن کو جھٹلایا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی ان بے تکی باتوں کا رَد فرمایا، قرآنِ مجید کو اللہ کا کلام قرار دیا اور اُن پر یہ بھی واضح کر دیا کہ پہلے رسول بھی بشری تقاضے کے تحت کھانا کھاتے تھے اور اپنی ضرورت کیلئے بازار جاتے تھے‘ یعنی بشری ضروریات نبوت و رسالت کے منافی نہیں۔

سورۃ المومنون
اٹھارہویں پارے کا آغاز سورہ مومنون سے ہوتا ہے‘ جس میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے اس گروہ کا ذکر کیا ہے جو جنت کے سب سے بلند مقام یعنی فردوس کا وارث بننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ''وہ مومن کامیاب ہوئے جنہوں نے اپنی نمازوں میں اللہ کے خوف اور خشیت کو اختیار کیا‘ جنہوں نے لغویات سے اجتناب کیا‘ جو زکوٰۃ کو صحیح طریقے سے ادا کرتے ہیں‘ جو امانتوں اور وعدوں کی پاسداری کرتے ہیں‘ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں‘ جو اپنی پاک دامنی کا تحفظ کرتے ہیں‘ سوائے اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے کسی کی خلوت میں نہیں جاتے، جو صاحبِ ایمان ایسا کرے گا‘ وہ فردوس کا وارث بن جائے گا‘‘۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کا تفصیلی ذکر فرمایا کہ اللہ نے انسان کو نطفے سے بنایا، پھر نطفے کا لوتھڑا بنایا، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنایا، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر اسے ایسی صورت دی کہ وہ مکمل انسان بن کر وجود میں آیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب کافروں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آئے گا تو وہ چیخ پڑیں گے۔ اس وقت ان سے کہا جائے گا‘ آج چیخ و پکار مت کرو‘ بے شک ہمارے مقابلے میں کسی طرف سے تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔ ہماری آیات کی تمہارے سامنے تلاوت کی جاتی تھی تو تم ایڑیوں کے بل بھاگ پڑتے تھے، تکبر کرتے تھے اور اپنی رات کی محفلوں میں اس قرآن کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے تھے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ کافروں کی غفلت اور سرکشی کو اجاگر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا انہوں نے قرآنِ کریم پر غور نہیں کیا یا ان کے پاس کوئی ایسی چیز آ گئی ہے جو ان کے آبائو اجداد کے پاس نہیں آئی یا انہوں نے اپنے رسولﷺ کو پہلے سے نہیں پہچانا‘ جو ان کا انکار کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس حقیقت کو واضح فرما رہے ہیں کہ رسول کریمﷺ کی سابقہ زندگی ان کے سامنے ہے‘ اس لیے ان کو صادق اور امین رسول کا انکار نہیں کرنا چاہیے اور صرف اس وجہ سے قرآنِ مجید کو رد نہیں کرنا چاہیے کہ یہ ان کے آبائو اجدا د کے عقائد سے مطابقت نہیں رکھتا بلکہ ان کو حق پر مبنی دعوت پر غور کرنا چاہیے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی اس وحی کو دل وجان سے قبول کرنا چاہیے۔ درحقیقت وہ یہ چاہتے تھے کہ حق ان کی خواہشات کے تابع ہو جائے حالانکہ اگر وحی کو ان کی خواہشات کے تابع کر دیا جائے تو آسمان و زمین میں موجود ہر چیز فساد کا شکار ہو جائے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ بعض لوگوں کا یہ گمان ہے کہ ہم نے ان کو بغیر وجہ کے پیدا کر دیا ہے اور انہوں نے ہمارے پاس پلٹ کر نہیں آنا حالانکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دوبارہ پیش ہوں گے اور ان کو اپنے کیے کا جواب دینا ہو گا۔ اس سورت کے آخر میں ارشاد ہوا کہ جو کوئی بھی غیر اللہ کو پکارتا ہے اس کے پاس ایسا کرنے کی کوئی دلیل نہیں اور اس کا حساب پروردگار کے پاس ہے اور اس نے کبھی کافروں کو کامیاب نہیں کیا۔
سورۃ النور
سورۃ النور میں اللہ تعالیٰ نے فحاشی کی روک تھام کیلئے زنا کی سزا مقرر فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ زانی اور زانیہ (غیر شادی شدہ) کو ایک سو کوڑے مارنے چاہئیں؛ اگر اس گناہ کا ارتکاب شادی شدہ مرد یا عورت کرے تو‘ حدیث پاک میں‘ ایسے مجرم کے لیے سنگسار کی حد مقرر کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاک دامن عورتو ں پر تہمت لگانے کی سخت مذمت کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں اور پھر چار گواہوں کو پورا نہیں کرتے‘ ایسے لوگوں کو بھی اسّی کوڑے مارنے چاہئیں اور مستقبل میں ان کی کوئی گواہی قبول نہیں کرنی چاہیے اور ان کا شمار فاسقوں میں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور میں ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برأت کا اظہار فرمایا ہے اور قیامت تک آنے والے اہلِ ایمان کو ازواجِ مطہرات کی حرمت اور ناموس کے بارے میں باخبر کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو یہ بھی سمجھایا کہ اہلِ ایمان کو ایک دوسرے کے بارے میں اچھا گمان رکھنا چاہیے اور اگر کوئی کسی کی کردار کشی کرے تو سننے والے کو فوراً سے پہلے کردار کشی کو بہتان سے تعبیر کرنا چاہیے اور اس بات کو سمجھ جانا چاہیے کہ اگر کسی واقعہ پر چار گواہ موجود نہ ہوں تو الزام تراشی کرنے والا اللہ تبارک و تعالیٰ کی نظروں میں جھوٹا ہے۔ معاشرے میں برائی کی روک تھام کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس پارے میں مومن مردوں کو اپنی نگاہیں جھکانے کا حکم دیا ہے اور مومن عورتوں کو اپنی نگاہیں جھکانے کے ساتھ ساتھ پردہ کرنے کا بھی حکم دیا ہے اور محرم رشتہ داروں کے علاوہ تمام لوگوں سے اپنی زینت چھپانے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے غیر شادی شدہ مردکی شادی کرنے کا حکم دیا ہے اور ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی شخص فقیر ہو تو نکاح کرنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اس کو غنی فرما دیں گے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ رب العزت نے اپنے نور کی مثال بیان فرمائی ہے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے اور اس کے نور کی مثال ایسے ہے جیسے ایک طاق میں ایک چراغ ہو‘ اور وہ چراغ دھرا ہو ایک شیشے میں اور وہ شیشہ ایسے ہے جیسے ایک چمکتا ہوا تارہ، اس چراغ میں ایک مبارک زیتون کے درخت کا تیل جلتا ہے اور وہ درخت نہ مشرق کی طرف ہے اور نہ مغرب کی طرف، اس کا تیل ایسا ہے کہ آگ نہ بھی چھوئے تو بھی وہ جلنے کو تیار ہے، خوب روشنی پر روشنی ہو رہی ہے۔اس مثال کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ زمین اور آسمان کو روشن فرمانے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے نور کے ذر یعے جس کو چاہتے ہیں‘ ہدایت کے راستے پر گامزن فرما دیتے ہیں۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ان مومن مردوں کا بھی ذکر کیا ہے کہ جو تجارت اور سوداگری یعنی کارِ دنیا میں مشغول ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز سے غافل نہیں ہوتے۔اللہ تعالیٰ نے صحیح ایمان رکھنے والے مومنوں کا ذکر کیا ہے کہ جب ان کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ جواب میں کہتے ہیں: ہم نے سنا اور اطاعت کی، اور صحیح کامیابی انہی صاحبِ ایمان لوگوں کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان سے وعدہ کیا ہے کہ جو ایمان اور عملِ صالح کے راستے پر چلے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو زمین پر خلافت عطا فرمائیں گے‘ جس طرح اللہ تعالیٰ نے سابقہ اہلِ ایمان کو خلافتِ ارضی سے نوازا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس وعدے کو اپنے نبی کریمﷺ ہی کی حیاتِ مبارکہ میں پورا فرما دیا تھا اور سرزمین حجاز پر آپﷺ کی حکومت کو قائم کر دیا اور آپﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جناب ابوبکر صدیق‘ حضرت عمر فاروق‘ حضرت عثمان غنی اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم کو بھی خلافت سے بہرہ ور فرما دیا اور خلفائے راشدینؓ کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری و ساری رہا‘ یہاں تک کہ ایمان کی کمی اور بدعملی کی شدت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حاکم سے محکوم اور غالب سے مغلوب کر دیا۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے خلوت کے تین اوقات کا ذکر کیا کہ ان اوقاتِ ممنوعہ میں کسی کے گھر جانا درست نہیں۔ ایک وقت عشاء کے بعد‘ دوسرا فجر سے پہلے اور تیسرا ظہر کے بعد ہے۔ ان تین اوقات میں کسی کے گھر جانا درست عمل نہیں ہے۔ ان تین اوقات کے علاوہ انسان کسی بھی وقت کسی کے گھر اجازت لے کر ملاقات کرنے کے لیے جا سکتا ہے۔ اس سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریمﷺ کے احکامات کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ رسولﷺ کے احکامات کی مخالفت کرتے ہیں‘ ان کو ڈر جانا چاہیے کہ کہیں وہ دنیا میں فتنے کا نشانہ نہ بن جائیں اور آخرت میں ان کو درد ناک عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سورۃ الفرقان
سورۃ النور کے بعد سورۃ الفرقان ہے‘ جس میں اللہ تبار ک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ بابرکت ہے‘ وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان کو نازل کیا تاکہ وہ دنیا والوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائیں۔ فرقان کا مطلب فرق کرنے والا ہوتا ہے۔ قرآن مجید فرقانِ حمید نیکی اور بدی‘ ہدایت اور گمراہی‘ شرک اور توحید‘ حلال اور حرام کے درمیان فرق کرنے والا ہے‘ اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو فرقان کہہ کر پکارا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآنِ مجید سمجھنے‘ پڑ ھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے، آمین!

سورۂ انبیاء: فرمایا: لوگوں کے حساب کا وقت قریب آ گیا اور وہ غفلت کا شکار ہیں‘ دین کی باتوں سے رو گردانی کر رہے ہیں اور جب بھی نصیحت کی کوئی نئی بات ان کے پاس آتی ہے تو توجہ سے نہیں سنتے‘ بس کھیل تماشے کے انداز سے سنتے ہیں اور نبی کریم کو اپنے جیسا بشر قرار دیتے ہیں‘ قرآن کو جادو‘ خوابِ پریشاں‘ شاعری اور خود ساختہ کلام قرار دیتے ہیں۔ قرآنِ مجید نے بتایا کہ پہلے رسول بھی حاملینِ وحی تھے‘ وہ بھی کھاتے پیتے تھے‘ یعنی بشری تقاضے نبوت ورسالت کی عظمتِ شان کے خلاف نہیں ہیں۔ اس کے بعد پچھلی قوموں کی سرکشی اور ان پر نازل کیے جانے والے عذاب کا ذکر ہے۔ آیت 22 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا اور معبود ہوتے تو ان کا نظام ضرور درہم برہم ہو جاتا‘ یعنی اگر بفرض محال دو خدا ہوتے اور دونوں برابر اختیارات کے مالک ہوتے‘ تو ان کی ترجیحات اور فیصلوں میں ٹکراؤ ہوتا اور نتیجہ کائنات میں فساد اور تباہی کی شکل میں رونما ہوتا۔ اور اگر ایک کا حکم چل جاتا اور دوسرے کا نہ چلتا‘ تو جس کا حکم نہ چلتا وہ خدا کیسے کہلاتا‘‘۔آیت 30 سے اللہ تعالیٰ نے تخلیقِ کائنات کے سلسلے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ آسمان اور زمین بند تھے تو ہم نے ان دونوں کو کھول دیا اور ہم نے پانی سے ہر جاندار چیز بنائی۔ آج بھی تخلیقِ کائنات کا ایک سائنسی نظریہ ''بگ بینگ تھیوری‘‘ کہلاتا ہے کہ ایک بہت بڑا آتشیں بگولا تھا‘ ایک بہت بڑے دھماکے سے وہ پھٹا اور اس کے لامحدود ٹکڑے فضا میں بکھرگئے جنہوں نے سورج‘ چاند‘ ستاروں اور سیاروں کی شکل اختیار کی۔ قرآن میں اس کے لئے ''فتق‘‘ اور ''فلک‘‘ کے کلمات آتے ہیں۔ اللہ نے زمین میں توازن قائم رکھنے کیلئے اونچے اونچے پہاڑ بنا دیے اور ان کے درمیان کشادہ راستے بنائے اور آسمان کو (بغیر ستونوں کے) محفوظ چھت بنا دیا‘ رات اور سورج اور چاند کو پیدا کیا‘ ہرا یک اپنے مدار میں تیر رہا ہے۔ آیت 35 میں قانونِ قدرت بیان کیا کہ ''ہر نفس موت کو چکھنے والا ہے‘‘ یعنی ہر ذی حیات پر موت آئے گی۔ آگے چل کر بتایا کہ قیامت اچانک آئے گی‘ حیرت زدہ کر دے گی اور نہ کوئی اسے رد کر سکے گا اور نہ کسی کو مہلت ملے گی۔ آیت 51 سے ایک بار پھر ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ہے کہ وہ اپنے عرفی باپ اور قوم کو بت پرستی پر ملامت کر رہے ہیں اور کہتے ہیں: ''اللہ کی قسم! تمہارے پیٹھ پھیر کے جانے کے بعد میں تمہارے بتوں کے ساتھ ایک خفیہ تدبیر کروں گا‘ سو ابراہیم نے ان کے بڑے بت کے سوا سب بتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے‘‘۔ پھر نمرود کی قوم نے کہا کہ ہمارے بتوں کا یہ حشر کس نے کیا‘ پھر انہوں نے خود ہی کہا کہ ایک جوان ہے‘ جس کا نام ابراہیم ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مجمع عام میں بلا کر ان سے جواب طلبی کی گئی تو انہوں نے کہا: یہ سوال اپنے بڑے بت سے کرو‘ اگر وہ بول سکتے ہیں۔ اس پر وہ شرمندہ ہوئے اور خفت مٹانے کے لیے ابراہیم علیہ السلام کو آگ کے ایک بڑے الاؤ میں ڈال دیا مگر اللہ کے حکم سے وہ آگ ابراہیم علیہ السلام پر ٹھنڈک اور سلامتی والی بن گئی۔ اس کے بعد حضرت لوط‘ اسحاق و یعقوب علیہم السلام کا ذکر ہے کہ انہیں امامِ ہدایت بنایا اور نبوت اور علم عطا کیا۔
آیت 78 سے حضرت داؤد و سلیمان علیہما السلام کے ایک مقدمے کا ذکر ہے‘ جس میں حضرت داؤد علیہ السلام نے ایک فیصلہ کیا اور سلیمان علیہ السلام نے اس فیصلے کو غلط قرار دیے بغیر دوسرا فیصلہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''ہم نے سلیمان کو (صحیح فیصلہ کرنے کی) سمجھ عطا کی اور ہم نے دونوں کو قوتِ فیصلہ اور علم عطا کیا تھا‘‘۔ اس کے بعد داؤد علیہ السلام کے معجزات کا ذکر ہے‘ یعنی پہاڑوں کا اُن کے تابع ہونا‘ پہاڑوں اور پرندوں کا ان کے ساتھ تسبیح کرنا اور جنگ میں حفاظت کیلئے زرہیں بنانا۔ اسی طرح ہوا کو سلیمان علیہ السلام کے تابع کر دیا جو ان کے حکم سے ان کے تخت کو اڑا کر لے جاتی تھی اور جنات کو ان کے تابع کر دیا‘ وہ ان کے حکم سے کام کرتے تھے۔ اس کے بعد ایوب علیہ السلام کا ذکر ہے کہ انہیں تکلیف سے دوچار ہونا پڑا‘ انہوں نے اللہ سے دعا کی اور اللہ نے ان کی تکلیف کو دور فرما دیا اور پہلے سے بھی زیادہ اہل وعیال اور نعمتوں سے نواز دیا‘ پھر اسماعیل‘ ادریس‘ ذوالکفل‘ ذوالنون (یونس) اور زکریا علیہم السلام کا ذکر ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام اپنی قوم سے ناراض ہو کر چلے گئے اور پھر اللہ کی تقدیر سے دریا میں ڈال دیے گئے‘ دریا میں ان کو مچھلی نے نگل لیا اور انہوں نے تہہ در تہہ ظلمتوں میں اللہ سے ان کلمات کے ساتھ توبہ کی: ''لَا إِلَہَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَکَ إِنِّیْ کُنتُ مِنَ الظَّالِمِیْن‘‘۔ اسی کو ''آیتِ کریمہ‘‘ کہتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تو ہم نے ان کی پکار سن لی اور انہیں غم سے نجات عطا کی اور ہم اسی طرح مومنوں کو نجات دیتے ہیں۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے اولاد کیلئے دعا کی تو اللہ نے ان کو بڑھاپے میں یحییٰ علیہ السلام عطا کیے۔ سورۃ الانبیا کے آخری رکوع میں آیت 107 میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبِ کریم سیدنا محمد رسول اللہﷺ کو ایک بے مثل وبے مثال اعزاز سے نوازا اور ارشاد فرمایا: ''وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اپنی ذات کو ''رب العالمین‘‘ فرمایا اور نبیِ کریمﷺ ''رحمۃ للعالمین‘‘ یعنی کائنات کے ہر ذرے کیلئے اللہ تعالیٰ کی ''ربوبیت‘‘ اور اس کے حبیبِ کریمﷺ کی ''رحمت‘‘ ثابت ہے۔
سورۃ الحج: اِس سورۃ میں اللہ ربّ العزت نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو لوگوں کیلئے حج کے اعلان کرنے کا حکم دیا۔ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کا حکم دیتے ہوئے قیامت کی ہولناکیوں کو بیان کیا کہ قیامت ایک زلزلے کے طور پر برپا ہوگی اور اُس کا منظر اِس قدر دہشت ناک ہوگا کہ دودھ پلانے والی مائیں اپنے دودھ پیتے بچوں کو فراموش کر دیں گی‘ ہرحاملہ کا حمل ساقط ہو جائے گا‘ لوگ مدہوش نظر آئیں گے جبکہ وہ مَدہوش نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کے عذاب کی شدّت کے باعث اُن کی یہ کیفیت ہو گی۔ آیت 5 سے اللہ تعالیٰ نے حشر ونَشر کی صحت اور امکان پر تخلیقِ انسانی اور انسانی عمر کے مراحل کے ذریعے استدلال فرمایا۔ آیت 9 میں (اَز راہِ تکبّر) اپنی گردن موڑنے والے شخص کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا کہ یہ اللہ کی راہ سے گمراہ کرنے والا ہے‘ اِسی باعث اِس کے لیے دنیا میں ذلت اور قیامت کے دن جلانے والا عذاب ہے اور یہ اُس کی اُن بداَعمالیوں کی سزا ہے‘جو اُس نے آگے بھیجیں اور بے شک اللہ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔ آیت 15سے فرمایا کہ جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں ا پنے رسول کی ہرگز مدد نہیں کرے گا تو اُس کو چاہیے کہ وہ اونچی جگہ پر رَسَّا باندھ کر (اپنے گلے میں ڈال لے) پھر اُس رَسّے کو کاٹ لے‘ پھریہ دیکھے کہ آیا اُس کی یہ تدبیر اُس کے غضب اور غصے کو دورکرتی ہے (یا نہیں)۔ اِسی طرح ہم نے قرآن کو واضح آیتوں کے ساتھ نازل کیا‘ بے شک اللہ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔ آیت 17 میں فرمایا کہ دنیا میں بظاہر اہلِ ایمان‘ یہود‘ صابی (ستارہ پرست)‘ عیسائی‘ آتش پرست اور شرک کرنے والے ملے جلے سے ہیں‘ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اِن سب کے درمیان فیصلہ فرمائے گا‘ بے شک اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے۔ آیت 18میں بتایا گیاکہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے‘ سورج‘ چاند‘ ستارے‘ پہاڑ‘ درخت‘ چوپائے اور بہت سے انسان اللہ ہی کے لیے سجدہ کرتے ہیں اور بہت سے وہ بھی ہیں جن پر عذاب مقدر ہو چکا ہے اور جس کو اللہ ذلیل کر دے‘ اُس کو کوئی عزت دینے والا نہیں۔ آیت25 سے فرمایا جن لوگوں نے کفرکیا اور اللہ کے راستے اور اُس مسجدِ حرام سے روکنے لگے‘ جس کو ہم نے لوگوں کیلئے مساوی بنایا ہے‘ خواہ وہ مسجد میں معتکف ہوں یا باہر سے آئیں جو اس مسجد (حرام) میں ظلم کے ساتھ زیادتی کا ارادہ کرے گا‘ ہم اُس کو درد ناک عذاب چکھائیں گے۔
آیت27 سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ لوگوں میں بلند آواز سے حج کا اعلان کیجئے وہ آپ کے پاس دور دراز راستوں سے پیدل اور ہر دبلے اونٹ پر سوار ہو کر آئیں گے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک پتھر پر کھڑے ہوکر ندا کی: اے لوگو! اللہ نے تمہارے اوپر حج فرض کر دیا‘ اللہ تعالیٰ نے یہ ندا اُن سب کو سنا دی جو مردوں کی پُشتوں میں اور عورتوں کے رحموں میں تھے‘ اُن سب نے اِس ندا کا جواب دیا ‘جو اللہ کے علم میں قیامت تک حج کرنے والے تھے۔ اُنہوں نے کہا: لبیک اللھم لبیک۔ آیات 28 تا 37 میں مقررہ ایام میں قربانی کرنے کا حکم‘ نذروں کو پورا کرنے اور اللہ کے گھر کے طواف کرنے کا حکم دیا گیا۔

سورۃ الانبیاء: سترہویں پارے کا آغاز سورۃ الانبیاء سے ہوتا ہے۔ سورۂ انبیاء میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ لوگوں کے حساب و کتاب کا وقت آن پہنچا ہے لیکن لوگ اس سے غفلت برت رہے ہیں۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے دین سمجھنے کا طریقہ بھی بتلایا کہ اگر کسی شے کا علم نہ ہو تو اہلِ علم سے اس بارے میں سوال کر لینا چاہیے۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے کہ اس نے زمین اور آسمان کو کھیل تماشے کے لیے نہیں بنایا، اگر اس نے کھیل ہی کھیلنا ہوتا تو وہ کسی اور طریقے سے بھی یہ کام کر سکتا تھا۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ اس نے ہر چیز کو پانی کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتلایا کہ اللہ انسانوں کو اچھے اور برے حالات سے آزماتا ہے۔ جب حالات اچھے ہوں تو انسان کو شکرادا کرنا چاہیے اور جب حالات برے ہوں تو انسان کو صبر کرنا چاہیے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انسانوں کے اعمال کو تولنے کے لیے میزانِ عدل قائم کریں گے اور اس میزان میں ظلم والی کوئی بات نہیں ہو گی اور جو کچھ اس میں ڈالا جائے گا وہ انسان کے اپنے ہاتھ کی کمائی ہو گی۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کی جوانی کے اس واقعے کا بھی ذکر کیا ہے کہ جب آپ علیہ السلام نے اپنے والد اور قوم سے کہا کہ یہ مورتیاں کیا ہیں‘ جن کی تم عبادت کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم نے اپنے باپ اور دادائوں کو ان کی عبادت کرتے ہوئے پایا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ تم اور تمہارے باپ کھلی گمراہی میں تھے۔ انہوں نے کہا: کیا تم واقعی ہمارے پاس حق لے کر آئے ہو یا یونہی مذاق کر رہے ہو؟ تو ابراہیم علیہ السلام نے ان کی اس بات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ تمہارا رب آسمان اور زمین کا رب ہے جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں اس بات کے حق ہونے کی گواہی دیتا ہوں، اللہ کی قسم جب تم لوگ پیٹھ پھیر کر چلے جائو گے تو میں تمہارے بتوں کے خلاف ضرور کارروائی کروں گا۔ پس ابراہیم علیہ السلام نے ان کی عدم موجودگی میں بت کدے میں داخل ہوکر بتوں کو توڑ ڈالا۔ جب قوم کے لوگ بت کدے میں داخل ہوئے تو انہوں نے بتوں کو ٹوٹا ہوا دیکھا۔ انہوں نے کہا: جس نے ہمارے بتوں کا یہ حال بنایا ہے وہ یقینا ظالم آدمی ہے۔ لوگوں نے کہا: ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) نامی ایک نوجوان کو ان بتوں کے بارے میں باتیں کرتے سنا تھا۔ انہوں نے کہا: تم اسے سب کے سامنے لائو تاکہ لوگ اسے دیکھیں۔ جب انہیں بلایا گیا تو لوگوں نے پوچھا: اے ابراہیم (علیہ السلام) کیا تم نے ہمارے بتوں کا یہ حال بنایا ہے؟ انہوں نے کہا: اس بڑے بت نے یہ کیا ہو گا‘ اگر یہ بت بول سکتے ہیں تو ان سے پوچھ لو۔ پھر انہوں نے اپنے دل میں اس بات پر غور کیا اور آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے‘ حقیقت میں تم لوگ ہی ظالم ہو۔ مگر پھر بھی وہ حقیقت کو قبول کرنے سے انکاری ہو گئے اور کہنے لگے کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ بت بولتے نہیں۔ جناب ابراہیم علیہ السلام نے کہا: تو کیا تم لوگ اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نہ کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی نقصان۔ تف ہے تم پر اور تمہارے ان معبودوں پر جن کی اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ اس واضح دعوتِ توحید پر بستی کے لوگ بھڑک اٹھے اور کہنے لگے کہ جناب ابراہیم (علیہ السلام) کو جلا دو اور اگر اپنے معبودوں کی مدد کر سکتے ہو‘ تو کرو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلانے کے لیے آگ کو بھڑکایا گیا۔ جب آگ خوب بھڑ ک اٹھی تو ابراہیم علیہ السلام نے دعا مانگی ''حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل‘‘ میرے لیے اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کارسازہے۔
جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا گیا تو اللہ نے فرمایا: اے آگ! تُو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: انہوں نے جناب ابراہیم علیہ السلام کے خلاف سازش کرنا چاہی تو ہم نے انہیں بڑا خسارہ پانے والا بنا دیا۔
اس سورت میں اللہ نے جناب دائود اور سلیمان علیہم السلام کی حکومت کا اور ایوب علیہ السلام کے صبر کا ذکر بھی کیا کہ سیدنا ایوب علیہ السلام شدید بیماری کے باوجود اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے ایوب علیہ ا لسلام کی دعا قبول کرکے آپ کی تمام مشکلات کو دور فرما دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورہ مبارکہ میں جناب یونس علیہ السلام کے واقعے کا بھی ذکر کیا ہے کہ آپ جب مچھلی کے پیٹ میں غم کی شدت سے دوچار تھے تو آپ علیہ السلام نے پروردگار عالم کو ندا دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘ اس کی ذات پاک ہے اس تکلیف سے جو مجھ کو پہنچی ہے اور بے شک یہ تکلیف مجھے اپنی وجہ سے آئی ہے، تو اللہ نے جناب یونس علیہ السلام کی فریاد کو سن کر ان کے دکھوں کو دور فرما دیا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی فرما دیا کہ جو کوئی بھی حالتِ غم میں جناب یونس علیہ السلام کی طرح اللہ کی تسبیح کرے گا تو اللہ جناب یونس علیہ السلام ہی کی طرح اس کے غم کو دور فرمائیں گے۔ سورۃ الانبیاء میں انبیاء کرام کا ذکر ہوا کہ جب بھی انہیں کوئی مشکل پڑی یا کوئی حاجت پیش آئی تو انہوں نے اللہ کو پکارا اور اللہ نے ان کی پکار کو نہ صرف شرفِ قبولیت بخشا بلکہ ان کی تکلیف و مصیبت کو ان پر سے دور بھی کیا اور ان کے مناصب اور عظمت میں اضافہ فرمایا۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کے منصب جلیلہ کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو دو جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
سورۃ الحج
سورۃ الانبیاء کے بعد سورۂ حج ہے۔ سورہ حج کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو قیامت کی ہولناکیوں سے ڈرایا اور ارشاد فرمایا کہ بے شک قیامت کا زلزلہ بہت بڑا ہے۔ اور اس زلزلے کی وجہ سے حاملہ اپنے حمل کو گرا دے گی اور دودھ پلانے والی ماں اپنے دودھ پیتے بچے کو پرے پھینک دے گی اور لوگ حالتِ نشہ میں نظر آئیں گے یعنی اپنے حواس کھو بیٹھیں گے حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب انتہائی شدید ہو گا۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے بدر کے معرکے کا بھی ذکر کیا ہے کہ جس میں ایک ہی قبیلے کے لوگ آپس میں ٹکرا گئے تھے اور یہ جنگ نسل، رنگ یا علاقے کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقیدۂ توحید کی بنیاد پر ہوئی تھی۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اس واقعے کا بھی ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کے لیے خانہ کعبہ کی جگہ کو مقرر فرما دیا اور ان سے کہا کہ آپ کسی بھی چیز میں میرا شریک نہ ٹھہرایے اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں، قیام کرنے والوں، رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے شرک اور بت پرستی سے پاک رکھیے اور آپ لوگوں میں حج کا اعلان کریں تاکہ وہ آپ کے پاس پیدل چل کر اور دبلی اونٹنیوں پر سوار ہوکر دور دراز علاقوں سے آئیں۔ وہ اپنے لیے دینی اور دنیوی فوائد کو حاصل کر سکیں اور گنتی کے مخصوص دنوں میں ان چوپایوں کو اللہ کے نام پر ذبح کریں جو اللہ نے بطور روزی انہیں دیے ہیں۔ پس تم لوگ اس کا گوشت خود بھی کھائو اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلائو۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے قربانی کی قبولیت کے لیے تقویٰ کو شرط قرار دیا کہ اللہ تعالیٰ کو جانوروں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ اللہ تعالیٰ کو انسان کے دل کا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ان مظلوم مسلمانوں کو جہاد کی اجازت بھی دی ہے کہ جن کو بغیر کسی جرم کے ان کے گھروں سے ایمان کی وجہ سے نکال دیا گیا تھا۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ایک مثال کے ذریعے شرک کی تردید کی ہے کہ جن معبودانِ باطل کو لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں ان کی کیفیت یہ ہے کہ وہ سارے جمع ہو کر ایک مکھی کو بھی نہیں بنا سکتے اور مکھی بنانا تو دور کی بات ہے اگر مکھی ان سے جبراً کوئی چیز چھین کر لے جائے تو اس کو واپس بھی نہیں پلٹا سکتے۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں قرآنِ مجید پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے، آمین!

پندرھویں پارے میں حضرت موسیٰ و حضرت خضر علیہما السلام کے درمیان ہونے والی گفتگو بیان کی جا رہی تھی کہ حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا: جن اَسرار کا آپ کو علم نہیں‘ اُن کے بارے میں آپ صبر نہیں کر پائیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ''ان شاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے‘‘۔ حضرت خضر علیہ السلام نے کہا: ''آپ میری پیروی کرتے ہوئے میرے کسی فعل کے بارے میں سوال نہیں کریں گے ‘ تاوقتیکہ میں خود آپ کو بتادوں ‘‘چلتے چلتے وہ دونوں ایک کشتی میں سوار ہوئے تو حضرت خضر علیہ السلام نے اُس کشتی میں شگاف ڈال دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ یہ تو آپ نے بہت بری بات کی‘ اس سے تو سواریوں کے ڈوبنے کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام نے کہا: میں نے آپ سے یہی تو کہا تھا کہ آپ صبر نہیں کر پائیں گے۔ سورۂ کہف کی اس واقعہ سے متعلق آیات میں بتایا کہ راہ چلتے اُن دونوں کی ملاقات ایک لڑکے سے ہوئی اور حضرت خضر علیہ السلام نے اُس لڑکے کو قتل کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ آپ نے ایک بے قصور شخص کو قتل کر دیا‘ یہ بہت براکام کیا۔ حضرت خضر علیہ السلام نے کہا ''میں نے تو آپ سے کہا تھاکہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے‘‘۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اس کے بعد میں اگر آپ سے کوئی سوال کروں تو مجھے ساتھ نہ رکھیے گا۔ پھر چلتے چلتے ایک بستی والوں کے پاس آئے اور اُن سے کھانا مانگا مگر اُنہوں نے میزبانی نہ کی‘ اس کے باوجود اُس گاؤں کی ایک دیوار گرا چاہتی تھی‘ حضرت خضر علیہ السلام نے اُسے ٹھیک کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ان بے لحاظ لوگوں سے آپ نے مزدوری ہی لے لی ہوتی۔ حضرت خضر علیہ السلام نے کہا: اب آپ کے اور میرے راستے جدا ہیں‘ میں اپنے تینوں کاموں کی حکمت آپ کو بتا دیتا ہوں۔ (1): کشتی سمندر میں کام کرنے والے مسکین لوگوں کی تھی اور آگے ایک ظالم بادشاہ تھا‘ جو ہر صحیح وسالم کشتی کو زبردستی ہتھیا لیتا تھا ‘ میں نے اُس کشتی کو عیب دار کر دیا تاکہ اُس کی دستبرد سے بچی رہے۔ (2) :لڑکے کے ماں باپ مومن تھے اور اندیشہ تھاکہ یہ بڑے ہوکر اُن کو سرکشی اورکفر میں مبتلا کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اُن کو ایک پاکیزہ اور زیادہ رحم دل بیٹا عطا فرمائے گا۔ (3): گاؤں میں دیوار دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اُس کے نیچے اُن کا خزانہ دفن تھا اور اُن دونوں کا باپ ایک صالح شخص تھا تو اللہ نے چاہا کہ وہ جوان ہو کر اپنے رب کی رحمت سے اپنا خزانہ نکالیں۔ یہ تینوں کام میں نے اپنی رائے سے نہیں کیے یعنی یہ اللہ کا حکم تھا‘ لیکن آپ صبر نہ کر سکے اور جلد بازی میں سوال کر بیٹھے۔ آیت 83 سے ذوالقرنین کا ذکر ہے‘ اللہ نے انہیں زمین میں بہت اقتدار عطا کیا‘ وہ ایک مہم پر نکلے اور طلوعِ آفتاب کی جگہ پہنچے تو ایک قوم کو پایا جن پر سورج پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہا تھا‘ پھر ایک اور مہم پہ نکلے اور سورج غروب ہونے کی جگہ جا پہنچے، پھر ایک مہم پر نکلے اور دو پہاڑوں کے درمیان پہنچے‘ ان پہاڑوں کے اس پار ایک قوم تھی جو کوئی بات نہیں سمجھتی تھی۔ انہوں نے کہا: اے ذوالقرنین! یاجوج ماجوج زمین میں فساد کر رہے ہیں‘ ہم آپ کو کچھ سامان مہیا کرتے ہیں آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنا دیں۔ ذوالقرنین نے کہا: اللہ نے مجھے طاقت دی ہے اور میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنا دیتا ہوں۔ اس دیوار میں لوہا اور تانبا پگھلا کر ڈالا گیا‘ تاکہ وہ دیوار ناقابلِ شکست ہو جائے۔ ذوالقرنین نے کہا کہ یہ میرے رب کی رحمت سے بنی ہے اور جب میرے رب کا مقررہ وقت آئے گا‘ تو وہ اس دیوار کو ریزہ ریزہ کر دے گا۔ آخری آیات میں اللہ نے فرمایا کہ اگر سارے سمندر‘ اور ان جیسے اور بھی آ جائیں ‘ مل کر روشنائی بن جائیں تو میرے رب کے کلمات ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہو جائیں گے۔
سورہ مریم
سورۂ مریم میں اس امر کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کو بیٹے (یحییٰ) کی بشارت دی۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بچپن ہی میں نبوت عطا کی‘ وہ پاکیزہ‘ متقی‘ ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے۔ اس کے بعد حضرت مریم کا ذکر ہے کہ وہ گھر والوں سے دور چلی گئیں اور باپردہ جگہ کو اختیار کر لیا۔ ان کے پاس فرشتہ بشری شکل میں آیا اور کہا کہ میں آپ کے رب کا فرستادہ ہوں اور اس نے انہیں پاکیزہ لڑکے کی بشارت دی۔ حضرت مریم نے کہا: میرے ہاں لڑکا کیسے ہو گا‘ حالانکہ مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں اور میں بدکار بھی نہیں ہوں۔ فرشتے نے کہا کہ اللہ کیلئے یہ بات آسان ہے اور اللہ اسے لوگوں کیلئے نشانی بنائے گا اور اللہ کا یہ فیصلہ طے ہو چکا ہے۔ انہیں حمل ہوا اور وہ ایک دور مقام پر کھجور کے درخت کے پاس چلی گئیں۔ فرشتے نے ندا دی کہ آپ غمگین نہ ہوں‘ اگر کوئی بشر آپ سے سوال کرے‘ توکہیے کہ میں نے (چپ کے) روزے کی نذر مانی ہے اور میں کسی انسان سے کلام نہیں کروں گی۔ پھر وہ بچے کو اٹھائے قوم کے پاس گئیں تو قوم نے ملامت کی کہ یہ کیا ہوا۔ مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا اور قوم نے کہا کہ ہم بچے سے کیسے کلام کریں؟ بچے نے کہا: میں اللہ کا بندہ ہوں‘ اس نے مجھے کتاب ونبوت عطا کی ہے اور بابرکت بنایا ہے۔ آیت 51 سے مختلف انبیائے کرام کا ذکر ہے۔ اسماعیل علیہ السلام کو وعدے کے سچے‘ رسول‘ نبی اور اللہ کا پسندیدہ قرار دیا گیا۔ ادریس علیہ السلام کو صدیق نبی قرار دیتے ہوئے فرمایا: ہم نے ان کو بلند جگہ پر اٹھا لیا۔ آیت 76سے بتایا کہ جو لوگ گمراہی میں مبتلا ہیں‘ ان کی ابتلا میں اضافے کیلئے مہلت کی مدت بڑھا دی جاتی ہے اور جو ہدایت یافتہ ہیں‘ ان کو مزید استقامت نصیب ہوتی ہے اور اللہ کے ہاں ثواب اور انجامِ خیر کے اعتبار سے باقی رہنے والی نیکیاں سب سے بہتر ہیں۔
سورہ طٰہٰ
ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ قرآن نصیحت کیلئے نازل ہوا اور اللہ ظاہر وباطن سب کو جانتا ہے ‘ وہ وحدہٗ لاشریک ہے اور اس کے سبھی نام اچھے ہیں۔ آیت 10سے مَدین سے واپسی کے سفرکے دوران موسیٰ علیہ السلام کے اس واقعے کا بیان ہے کہ وہ ایک جگہ اپنی اہلیہ کو ٹھہرا کر آگ لینے طور پر گئے۔ وہاں انہیں غیب سے ندا آئی کہ اے موسیٰ! میں آپ کا رب ہوں‘ آپ طویٰ کی مقدس وادی میں ہیں‘ ادباً اپنے جوتے اتار دیجئے‘ میں نے آپ کو چن لیا ہے اور میرے پیغامِ وحی کو توجہ سے سنئے‘ میں اللہ وحدہٗ لاشریک ہوں‘ میری بندگی کیجئے اور میری یاد کیلئے نماز قائم کیجئے۔ اسی موقع پر آپ کو معجزات عطا ہوئے اور آپ کو حکم ہوا کہ جا کرفرعون کو دعوتِ حق دیجئے۔ آیات 25 تا 28 میں موسیٰ علیہ السلام کی دعا کو بیان کیا: ''اے میرے رب میرے لئے میرا سینہ کھول دے‘ میرے لیے میرا کام آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ وہ لوگ میری بات سمجھیں‘‘۔ آیت 38 سے موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے وقت کے حالات کا ذکر ہے۔ فرعون نے حکم دے رکھا تھا کہ بنی اسرائیل کے ہر گھر میں پیدا ہونے والے بیٹے کو قتل کر دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی ماں کے ذہن میں یہ بات ڈالی کہ وہ اپنے نومولود بیٹے کو ایک صندوق میں بند کرکے دریا میں ڈال دیں‘ اللہ کے حکم سے یہ تابوت کنارے لگے گا اور اللہ کے دشمن (فرعون) کے ہاتھ لگ جائے گا۔ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے ایساہی کیا تاکہ رب کی نگرانی میں موسیٰ علیہ السلام کی پرورش ہو۔ آیت 43 سے موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو حکم ہوا کہ آپ دونوں فرعون کے پاس جائیں‘ وہ سرکش ہو چکا ہے‘ اسے نرمی کے ساتھ دعوتِ حق دیں‘ شاید وہ نصیحت حاصل کر لے۔ وہ دونوں فرعون کے پاس گئے اور کہا کہ ہم اللہ کے رسول ہیں‘ بنی اسرائیل کو اذیت نہ دو اور انہیں ہمارے ساتھ بھیج دو۔ فرعون نے اللہ کی ذات کے بارے میں موسیٰ وہارون علیہما السلام سے مجادلہ کیا ‘ ان پر جادوگر ہونے کا الزام لگایا اور پھر اپنے جادوگروں کو بلاکر مقررہ دن پر مقابلے کا چیلنج دیا‘ اس کی تفصیل پچھلی سورتوں میں گزر چکی ہے کہ جادوگر ناکام ہو گئے۔ آیت85 سے سامری کا ذکر ہے کہ اُس نے بنی اسرائیل کو گمراہ کیا۔ آیت 105 سے فرمایا: لوگ آپ سے پہاڑوں کے متعلق سوال کرتے ہیں‘ آپ کہہ دیجئے کہ میرا رب اُنہیں ریزہ ریزہ کردے گا اور پوری زمین ہموار میدان کی طرح ہو جائے گی۔ آیت 109میں فرمایا: آج اللہ کی بارگاہ میں کسی کو مجالِ شفاعت نہیں ہو گی‘ سوائے اُس کے جسے وہ اِذنِ شفاعت عطا کرے اور جس کے قول سے وہ راضی ہو۔ آیت 115 سے اس بات کا ذکرہے کہ آدم علیہ السلام جو جنت میں درخت کے قریب چلے گئے‘ تو یہ اُن کی بھول اور اجتہادی خطا تھی، انہوں نے قصداً اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی نہیں کی۔

سولہویں پارے کا آغاز بھی سورۃ الکہف سے ہوتا ہے۔ پندرھویں پارے کے آخر میں جناب ِموسیٰ علیہ السلام کی جنابِ خضر علیہ السلام سے ملاقات کا ذکر ہوا تھا‘ جنابِ موسیٰ علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام کی جانب سے کشتی میں سوراخ کرنے اور پھر ایک بچے کو قتل کر دینے کے عمل پر بالکل مطمئن نہ تھے۔ اس لیے انہوں نے اس پر اعتراض کیا۔ جنابِ خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کہا کہ کیا میں نے آپ کو نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے؟ جناب ِموسیٰ علیہ السلام نے فیصلہ کن انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اب اگر میں نے کوئی سوال کیا تو آپ مجھے اپنے سے علیحدہ کر دیجئے گا اس لیے کہ اب مزید سوال کرنے کا کوئی جواز نہیں رہا۔ جناب ِخضر اور موسیٰ علیہم السلام اکٹھے آگے بڑھتے ہیں‘ حتیٰ کہ ایک بستی میں جا پہنچتے ہیں‘ بستی کے لوگ بڑے بے مروت تھے‘ اُن سے دونوں حضرات نے کھانا مانگا مگر بستی والوں نے دو معزز مہمانوں کی کوئی خاطر تواضع نہ کی۔ اسی بستی میں ایک جگہ ایک دیوار گرنے والی تھی‘ جناب ِخضر اس دیوار کی مرمت شروع کر دیتے ہیں۔ جب دیوار کی مرمت مکمل ہو گئی اور جناب ِخضر علیہ السلام نے وہاں سے چلنے کا ارادہ کیا تو جنابِ موسی علیہ السلام نے ان سے کہا کہ اگر آپ چاہتے تو اس کام کا معاوضہ وصول کر سکتے تھے‘ اس سے ہم کھانا کھا لیتے۔ جنابِ خضر علیہ السلام نے کہا کہ اب میرے اور آپ کے درمیان جدائی کا وقت آ پہنچا ہے لیکن پہلے میں آپ کو ان تمام کاموں کی تعبیر سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں جن پر آپ صبر نہیں کر سکے۔ حضرت خضر نے جنابِ موسیٰ علیہ السلام کو بتلایا کہ کشتی میں میرے سوراخ کرنے کا سبب یہ تھا کہ جس ساحل پر جاکر کشتی رکنی تھی‘ وہاںپر ایک جابر بادشاہ کی حکومت تھی جو ہر بے عیب کشتی پر جبراً قبضہ کر لیتا ہے‘ میں نے اس کشتی میں سوراخ کر دیا تا کہ کشتی کے مسکین مالک بادشاہ کے ظلم سے بچ جائیں۔ جس بچے کو میں نے قتل کیا‘ وہ بڑا ہو کر خود تو گنہگار بنتا ہی‘ اپنے والدین کے ایمان کے لیے بھی خطرہ بننے والا تھا‘ اس بچے کی موت کے بعد اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کے والدین کو ایک نیک اور صالح بچہ عطا فرمائیں گے، جہاں تک تعلق ہے دیوار کی مرمت کا، تو وہ دیوار ایک ایسے گھر کی تھی جو بستی کے دو یتیم بچوں کی ملکیت ہے، اُن کا باپ ایک نیک آدمی تھا اور اس دیوار کے نیچے ان کا خزانہ دفن تھا اور خدائے کائنات چاہتا تھا کہ جب بچے جوان ہو جائیں تو پھر اپنے خزانے کو نکالیں‘ اگر دیوار گرنے سے خزانہ ظاہر ہو جاتا تو اسے بستی والے لوٹ لیتے۔ اور جو کچھ بھی میں نے کیا‘ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ کے حکم پر کیا۔ یہ واقعہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ مکمل علم اللہ کی ذات کے پاس ہے اور وہ جتنا کسی کو دینا چاہتا ہے‘ عطا کر دیتا ہے؛ اگرچہ جنابِ موسیٰ علیہ السلام اولوالعزم رسول تھے‘ لیکن اللہ نے بعض معاملات کا علم جناب ِخضر علیہ السلام کو عطا فرمایا جن سے جناب ِموسیٰ علیہ السلام واقف نہ تھے۔ اس کے بعد سورۃ الکہف میں جنابِ ذوالقرنین اور یاجوج ماجوج کا قصہ بیان ہوا ہے کہ ذوالقرنین نے یاجوج ماجوج سے بچائو کے لیے پگھلے ہوئے تانبے اور لوہے سے ایک مضبوط حفاظتی دیوار بنا دی‘ سورہ کہف میں اللہ تعالیٰ نے اپنی توانائیوں کو دنیا کی زیب و زینت کے لیے وقف اور صرف کرنے والے لوگوں کے اعمال کو بدترین اعمال قرار دیا اور فرمایا کہ وہ گمان کرتے ہیں کہ بہترین کاموں میں مشغول ہیں۔ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ ایسے لوگ میری ملاقات اور نشانیوں کا انکار کرنے والے ہیں اور ایسے لوگوں کے اعمال برباد ہو جائیں گے اور قیامت کے دن ان کا کوئی وزن نہیں ہو گا۔
سورہ مریم
سورۃالکہف کے بعد سورۂ مریم ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کی معجزاتی پیدائش کا ذکر کیا ہے۔ جناب زکریا علیہ السلام جناب مریمؑ کے کفیل اور خالو تھے۔ جب انہوں نے سیدہ مریم سلام اللہ علیہا کے پاس بے موسمی پھل دیکھے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگی: اے پروردگار! تو مجھے بھی صالح اولاد عطا فرمادے۔ اللہ تعالیٰ نے جناب زکریا علیہ السلام کی فریاد کو سن کر ان کو بڑھاپے میں جناب یحییٰ علیہ السلام سے نوازا۔ اسی طرح جناب مریم علیہا السلام کے پاس جناب جبریل علیہ السلام آتے ہیں اور ان کو ایک صالح بیٹے کی بشارت دیتے ہیں۔ آپ کہتی ہیں :کیا میرے ہاں بیٹا پیدا ہو گا جبکہ میں نے تو کسی مرد کی خلوت کو بھی اختیار نہیں کیا۔ جبریل امین کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا ارادہ فرما لیتے ہیں تو پھر وہ کام وسائل و اسباب کا محتاج نہیں رہتا۔ وہ کُن کہتا ہے تو چیزیں رونما ہو جاتی ہیں۔ سیدہ مریم علیہا السلام کے ہاں جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوتے ہیں تو سیدہ مریم لو گوں کے طعن و تشنیع کے خوف سے بے قرار ہو جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے دل کو مضبوط فرماتے ہیں اور ان کو حکم دیتے ہیں کہ جب آپ کی ملاقات کسی انسان سے ہو تو آپ نے کہنا ہے کہ میں نے رحمن کے لیے روزہ رکھا ہوا ہے‘ اس لیے میں کسی کے ساتھ کلام نہیں کروں گی۔ جب آپ بستی میں داخل ہوتی ہیں تو بستی کے لوگ آپ کی جھو لی میں بچے کو دیکھ کر کہتے ہیں: اے ہارون کی بہن! اے عمران کی بیٹی! نہ تو تمہارا باپ برا آدمی تھا اور نہ تمہاری ماں نے خیانت کی تھی‘ یہ تم نے کیا کر دیا؟ حضرت مریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جانب اشارہ کیا۔ جناب عیسیٰ علیہ السلام نے مریم علیہا السلام کی گود میں سے آواز دی: میں اللہ کا بندہ ہوں‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔ گود میں لیٹے بچے کی آواز سن کر لوگ خاموش ہو جاتے ہیں۔
سورہ طٰہٰ
سورہ مریم کے بعد سورہ طٰہٰ ہے۔ سور ہ طٰہٰ میں اللہ تعالیٰ نے جنابِ موسیٰ علیہ السلام کی کوہ طور پر اپنے ساتھ ہو نے والی ملاقات کا ذکر کیا اور یہ بتایا کہ جب موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر تشریف لائے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے پوچھا کہ موسیٰ علیہ السلام آ پ کے ہاتھ میں کیا ہے؟ جناب ِموسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ یہ میری لاٹھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جنابِ موسیٰ علیہ السلام کو اپنی چھڑی زمین پر پھینکنے کا حکم دیا۔ جب چھڑی زمین پر گری تو بہت بڑے اژدہے کی شکل اختیار کر گئی اور جنابِ موسیٰ علیہ السلام خوف زدہ ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے جناب ِموسیٰ علیہ السلام کو عصا پکڑنے کا حکم دیا اور کہاکہ اسے پکڑ لیں‘ یہ دوبارہ اپنی شکل میں واپس آ جائے گی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جنابِ موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے سامنے جا کر تبلیغ کرنے کا حکم دیا۔ جناب ِموسیٰ علیہ السلام نے اس موقع پر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ اے میرے پروردگار میرے سینے کو کھول دے، میرے معاملے کو آسان کر دے، میری زبان سے گرہ کو دور کر دے تاکہ لوگ میری بات کو صحیح طرح سمجھ سکیں اور میرے اہلِ خانہ میں سے جناب ِہارون کو میرا مددگار بنا دے۔ اللہ تعالیٰ نے جنابِ موسیٰ علیہ السلام کی دعا کو سن لیا اور جنابِ ہارون علیہ السلام کو آپ کا نائب بنا دیا۔ آپ دربارِ فرعون میں آئے تو فرعون نے اپنی قوم کی حمایت حاصل کرنے کے لیے آپ سے سوال کیا کہ میری قوم کے وہ لوگ جو ہم سے پہلے مر چکے ہیں‘ آپ ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ جناب ِموسیٰ علیہ السلام کا ذہن علم و حکمت سے پُر تھا، آپؑ نے بڑا خوبصورت جواب دیا کہ ان کا علم میرے پروردگار کے پاس ہے اور میرا پروردگار نہ کبھی بھولا ہے اور نہ کبھی گمراہ ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کو دریا میں غرق کر دیا اور بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات دی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جنابِ موسیٰ علیہ السلام کو اپنی ملاقات کے لیے بلایا۔ جب جنابِ موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہو رہے تھے تو قومِ موسیٰ نے ان کی عدم موجودگی میں سامری کے بنائے ہوئے بچھڑے کی پوجا شروع کر دی۔ موسیٰ علیہ السلام جب واپس پلٹے تو اپنی قوم کو شرک کی دلدل میں اترا دیکھ کر انتہائی غضبناک ہوئے اور جنابِ ہارون علیہ السلام سے پوچھا کہ آپ نے اپنی ذمہ داری کیوں ادا نہیں کی؟ جنابِ ہارون علیہ السلام نے کہا کہ میں نے ان پر سختی اس لیے نہیں کی کہ کہیں یہ لوگ منتشر نہ ہو جائیں۔ جنابِ موسیٰ علیہ السلام کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو انہوں نے سامری کے بنائے ہوئے بچھڑے کو آگ لگا کر اس کی راکھ کو سمندر میں بہا دیا اور اس جھوٹے معبود کی بے بسی اور بے وقعتی کو بنی اسرائیل پر ثابت کر دیا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآنِ مجید میں مذکور واقعات کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے، آمین!

سورہ بنی اسرائیل: سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں رسول کریمﷺ کے معجزۂ معراج کی پہلی منزل‘ مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا ذکر صراحت کے ساتھ ہے۔ یہ تاریخِ نبوت‘ تاریخِ ملائک اور تاریخِ انسانیت میں سب سے حیرت انگیز اور عقلوں کو دنگ کرنے والا واقعہ ہے۔ اس کی مزید تفصیلات سورۃ النجم اور احادیث میں مذکور ہیں۔ آیت 13 اور اس سے اگلی آیات میں بتایا کہ ہم نے ہر انسان کا اعمال نامہ اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے (یعنی اللہ کی قضا و قدر میں جو طے ہے‘ وہ ہو کر رہے گا) اور قیامت کے دن یہ اعمال نامہ ایک کھلی ہوئی کتاب کی صورت میں ہوگا (بندے سے کہا جائے گا) اپنا اعمال نامہ پڑھو‘ آج تم خود ہی احتساب کرنے کے لیے کافی ہو‘ جس نے ہدایت کو اختیار کیا تو اس کا فائدہ اسی کو پہنچے گا اور جس نے گمراہی کو اختیار کیا تو اس کا وبال بھی اسی پر آئے گا اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور ہم اس وقت تک عذاب دینے والے نہیں ہیں‘ جب تک کہ (اتمامِ حجت کیلئے) ہم رسول نہ بھیج دیں۔ آیت 23 میں والدین کے حقوق کی جانب متوجہ کرتے ہوئے فرمایا ''اور تمہارے رب نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو اور اگر تمہاری زندگی میں وہ دونوں یا ان میں سے کوئی بڑھاپے کو پہنچ جائے‘ تو ان کو اُف تک نہ کہو‘ ان کو جھڑکو بھی نہیں اور ان کے ساتھ ادب سے بات کرو اور ان کیلئے عاجزی اور رحم دلی کا بازو جھکائے رکھو اور یہ دعا کرو: اے میرے رب! ان پر رحم فرمانا جیسا کہ انہوں نے بچپن میں رحم کے ساتھ میری پرورش کی۔ آیت 26 میں قرابت داروں‘ مسکینوں اور مسافروں کے حقوق ادا کرنے اور فضول خرچی سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے۔ آیت 29 سے تسلسل کے ساتھ احکام کا بیان ہے: (1) خرچ کرنے میں بُخل‘ حرص اور فضول خرچی کے درمیان میانہ روی کو اختیار کرنے کا حکم (2) افلاس کے خوف سے اولاد کو قتل کی ممانعت (3) زنا کی ممانعت (4) قتلِ ناحق کی ممانعت اور قصاص لینے میں حدِ اعتدال میں رہنے کا حکم (5) یتیم کا مال کھانے کی ممانعت (6) ناپ تول میں خیانت کی ممانعت (7) لوگوں کے پوشیدہ احوال کی کھوج لگانے کی ممانعت (8) اِترا کر چلنے کی ممانعت (9) شرک کی ممانعت (10) روزی کی کشادگی یا تنگی کا مَدار کسی کی فضیلت یا بے قدری پر نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت و مشیت کا معاملہ ہے۔ آیت 44 میں بیان فرمایا ''سات آسمان اور زمین اور جو بھی ان میں ہیں‘ اس کی تسبیح کر رہے ہیں اور ہر چیز اللہ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر رہی ہے‘ لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے‘‘۔ آیت 45 میں فرمایا کہ منکرینِ آخرت قرآن کی تعلیمات سے استفادہ کرنے سے محروم رہتے ہیں اور ان کے دل و دماغ حق کو قبول کرنے کی سعادت سے محروم ہیں۔ وہ فصیح و بلیغ قرآن سن کر بھی نبی پر سحر زدہ ہونے کے طعن کرتے ہیں۔ آیت 78 سے اشارتاً پانچ نمازوں کا حکم ہے‘ فجر کی فضیلت کا بیان‘ نمازِ تہجد کی ترغیب اور رسول کریمﷺ کیلئے مقامِ محمود (جو مقامِ شفاعتِ کبریٰ ہے) عطا کیے جانے کا بیان ہے۔ آیت81 اور 82 میں حق کی آمد اور باطل کے نیست و نابود ہونے کا بیان ہے اور یہ کہ قرآن میں اہلِ ایمان کے لیے شفا اور رحمت ہے۔ آیت 85 یہود کے رسول کریمﷺ سے روح کے بارے میں سوال سے متعلق ہے‘ اللہ نے فرمایا ''(اے رسول!) کہہ دیجئے کہ روح میرے رب کے امر سے ہے اور تم کو محض تھوڑا سا علم عطا کیا گیا ہے‘‘۔ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جن چیزوں کی حقیقت جاننے پر ہدایت و نجات موقوف نہیں ہے‘ ان کے پیچھے پڑنے کی ضرورت نہیں۔ آیت 90 سے مشرکینِ مکہ کے بعض فاسد مطالبات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے کہا ہم اس وقت تک آپ پر ایمان نہیں لائیں گے حتیٰ کہ (1) آپ ہمارے لیے زمین سے پانی کا کوئی چشمہ جاری کر دیں۔ (2) یا آپ کھجوروں اور انگوروں کے باغات کے مالک بن جائیں‘ جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں (3) یا آپ ہمیں‘ جس عذاب سے ڈراتے ہیں‘ وہ لے آئیں یا آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہم پر گرا دیں (4) یا اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے بے حجاب لے آئیں (5) یا آپ کے لیے سونے کا گھر ہو (6) یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور پھر آسمان سے ہم پر کتاب نازل کریں‘ جس کو ہم پڑھیں۔ ان سب مطالبات کے جواب میں اللہ نے فرمایا: (اے رسول کہہ دو) میرا رب ہر عیب سے پاک ہے (میں کوئی شعبدے باز نہیں ہوں‘ بلکہ) میں ایک بشر ہوں‘ جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا۔ آیت 105 میں قرآن مجید کو بتدریج‘ یعنی تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کرنے کی حکمت یہ بتائی کہ رسول ان پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں‘ ان کے لیے قرآن کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ مشرکینِ مکہ اعتراض کرتے کہ کبھی آپ اللہ کہتے اور کبھی رحمن کہتے ہیں تو اللہ نے فرمایا ''کہہ دیجئے کہ (معبودِ برحق کو) تم اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر پکارو تم اسے جس نام سے بھی پکارو‘ سب اُسی کے نام ہیں‘‘۔
سورۃ الکہف: اس سورۂ مبارکہ کی آیت 9 سے اصحابِ کہف کا بیان ہے‘ یہ چند صالح نوجوان تھے‘ جنہیں اللہ تعالیٰ نے عقیدۂ توحید اور ایمان پر ثابت قدم رکھا‘ لیکن ان کی قوم مشرک تھی اور ایک ظالم بادشاہ مسلط تھا‘ وہ لوگ ان نوجوانوں کے دشمن ہو گئے تو انہوں نے ان کے شر سے بچنے کیلئے غار میں پناہ لی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر نیند مسلط کر دی اور اس کیفیت میں وہ 309 سال تک سوتے رہے۔ غار میں اللہ تعالیٰ نے ایسا غیبی انتظام کیا کہ وہ ایک کشادہ جگہ میں تھے جب سورج طلوع ہوتا تو دھوپ غار کے دائیں جانب رہتی اور غروب ہوتے وقت بائیں جانب پھر جاتی۔ اللہ تعالیٰ انہیں حسبِ ضرورت دائیں بائیں کروٹیں بدل دیتا تاکہ ان کو روشنی‘ حرارت اور ہوا ملتی رہے اور ایک ہی ہیئت میں سوتے ہوئے ان کے بدن پر زخم نہ ہو جائیں۔ اصحابِ کہف کا ایک کتا بھی تھا‘ جو غار کی چوکھٹ پر پائوں پھیلائے بیٹھا رہا۔ اصحابِ کہف کی تعداد کے بارے میں قرآنِ مجید میں لوگوں کے حوالے سے تین اقوال نقل کئے ہیں‘ پہلے دو اقوال کو قرآن نے لوگوں کی ''تکّہ بازی‘‘ قراردیا اور تیسرے قول کو قرآن نے رَد نہیں کیا‘ یعنی وہ سات تھے اور آٹھواں اُن کا کتا‘ لہٰذا مُفسرین نے اسی تعداد کو صحت کے قریب قرار دیا ہے‘ اللہ نے فرمایا ''اُن کی صحیح تعداد کو اللہ ہی سب سے زیادہ جاننے والا ہے‘ اُن کو صرف چند لوگ جاننے والے ہیں (یعنی جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس کا علم عطاکیا)‘‘ قرآن نے ان کی تعداد کے بارے میں زیادہ بحث سے منع فرمایا اور یہ بھی فرمایاکہ اللہ نے اُن کے منظر کو بارعب بنا دیاتھا تاکہ کوئی اُن کی طرف تاک جھانک نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دیکھنے والا سمجھتا کہ وہ جاگ رہے ہیں؛ حالانکہ وہ سوئے ہوئے تھے۔ آیت 28 میں رسول کریمﷺ سے فرمایا کہ فقراء صحابہ کو آپ اپنے پاس بٹھائے رکھیں‘ یہ صبح اور شام اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں‘ اس کی رضا کے طلبگار ہیں اور آپ اپنی آنکھیں ان سے نہ ہٹائیں۔ آیت 32 سے اللہ تعالیٰ نے دو لوگوں کا واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک شخص کے انگوروں کے عمدہ باغات تھے‘ اُس نے اپنے ساتھی پر تفاخر اور اپنے خالق کی ناشکری کی‘ تو اللہ تعالیٰ نے اُس کے مال کو برباد کر دیا۔ آیت 60 سے موسیٰ علیہ السلام کے واقعے کا بیان ہے۔ وہ اپنے ایک خادم یوشع بن نون کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکام کی حکمتوں اور اسرار ورموز کو جاننے کیلئے حضرت خضر علیہ السلام کی تلاش میں نکلے‘ دورانِ سفرحضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا کہ کھانا لاؤ‘ ہم سفر کرتے کرتے تھک چکے ہیں‘ خادم نے کہا کہ دورانِ سفر جب ہم چٹان کے پاس ٹھہرے تھے تو آپ سے مچھلی کا ذکر کرنا مجھے شیطان نے بھلا دیا اور وہ سمندر میں راستہ بناتے ہوئے نکل گئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ دو سمندروں کا یہی سنگم تو ہماری منزل ہے‘ وہ دونوں واپس لوٹے اور پھر ہمارے ایک بندۂ خاص کو وہاں پایا جس کو ہم نے اپنے پاس سے رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اُسے ''علمِ لَدُنِّی‘‘ عطا کیا تھا۔ مفسرین کے مطابق یہ حضرت خضر علیہ السلام تھے۔ موسیٰ علیہ السلام نے اُن سے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو رُشد وہدایت کا علمِ خاص عطا کیا ہے‘ اُس میں سے کچھ مجھے بھی تعلیم دیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر نبی اور رسول ہیں‘ کلیم ہیں‘ افضل ہیں‘ لیکن افضل کے مقابلے میں کسی دوسرے شخص کو کسی خاص شعبے میں کوئی فضیلت عطا کی جا سکتی ہے ‘یہی صورتِ حال یہاں بھی تھی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اپنے سے کم مرتبہ شخص سے بھی کسی خاص شعبے کا علم حاصل کیا جا سکتاہے اور اس بنا پر اُس کی تکریم کی جا سکتی ہے۔

پندرھویں پارے کا آغاز سورۂ بنی اسرائیل سے ہوتا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کے شروع میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی‘ جس کے گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں‘ بے شک وہ خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
رسول کریمﷺ جبرائیل امین علیہ السلام کی معیت میں بیت المقدس کی عمارت میں داخل ہوئے‘ جہاں آدم علیہ السلام سے لے کر عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء کرام صف باندھے ہوئے موجود تھے۔ رسول اللہﷺ نے مصلیٰ امامت پر کھڑے ہو کر نماز کی امامت فرمائی اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے آپﷺ کی امامت میں نماز ادا کی اور یوں کائنات کے لوگوں کو یہ بات سمجھائی گئی کہ رسول اللہﷺ صرف آنے والوں کے امام نہیں‘ بلکہ جانے والوں کے بھی امام ہیں۔
جب رسول اللہﷺ سفرِ معراج سے واپس آئے تو ابوجہل نے جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا کوئی انسان ایک رات میں بیت المقدس کا سفر کر کے واپس آ سکتا ہے؟ تو جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: ایسا ممکن نہیں۔ ابوجہل نے کہا: جس کو آپ نبی مانتے ہیں‘ انہوں نے اس سے بھی بڑی بات کی ہے کہ وہ بیت المقدس اور اس کے بعد آسمانوں کی سیر کر کے واپس آئے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر رسول اللہﷺ نے ایسا کہا ہے تو پھر یقینا درست کہا ہے‘ اس لیے کہ رسول اللہﷺ کی کوئی بات کسی بھی حالت میں غلط نہیں ہو سکتی۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ یہ قرآنِ مجید نیک اعمال کرنے والے مومنوں کے لیے بشارت ہے اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے‘ ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی ہونی چاہیے اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا چاہیے‘ اگر وہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کو اُف بھی نہیں کہنا چاہیے اور نہ ان کو جھڑکنا چاہیے اور ان کو اچھی بات کہنی چاہیے اور ان کے سامنے محبت کے ساتھ اپنے کاندھوں کو جھکانا چاہیے اور یہ دعا مانگنی چاہیے کہ پروردگار! ان پر رحم کر‘ جس طرح وہ بچپن میں مجھ پر رحم کرتے رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس سورت میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ قرابت داروں‘ مساکین اور مسافروں کے حق کو ادا کرنا چاہیے اور فضول خرچی نہیں کرنی چاہیے، بے شک فضول خرچ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا ناشکرا ہے۔
اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کا بھی ذکر کیا کہ جو خود تو بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے اور ان کی پیدائش کو اپنے لیے باعثِ عار سمجھتے ہیں مگر دوسری جانب یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے فرشتوں کو اپنی بیٹیاں بنایا ہوا ہے یعنی ایک تو وہ اللہ کی اولاد بناتے اور اس کے بعدا ولاد بھی وہ بناتے‘ جس کو خود قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کیا تمہارے رب نے تمہارے لیے بیٹے خاص کر دیے ہیں اور فرشتوں کو اپنی بیٹیاں بنا لیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ تم ایک بہت بڑی بات کہہ رہے ہو۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے امام کے نام سے بلائیں گے‘ یعنی جس کی پیروی انسان کرتا ہے‘ اسی کی نسبت سے انسان کو بلایا جائے گا۔ اس سورۂ مبارکہ میں فجر کے وقت قرآنِ مجید کی تلاوت کا ذکر کیا گیا ہے کہ اس وقت قرآنِ مجید کی تلاوت کرنا باعثِ برکت ہے اور اس وقت فرشتے قرآن سننے کو حاضر ہوتے ہیں۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو تہجد کی نماز ادا کرنے کا حکم دیا کہ یہ نماز نبی کریمﷺ پر امت کے مقابلے میں لازم تھی اور اس کا سبب یہ بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نبی کریمﷺ کو قیامت کے روز مقامِ محمود عطا فرمائیں گے۔ اس سورت کے آخر میں جا کر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو چاہے اللہ کہہ کر پکارو چاہے رحمن کہہ کے پکارو‘ اللہ تعالیٰ کے سب اچھے اچھے نام ہیں‘ اس کو جس نام سے چاہو پکارا جا سکتا ہے۔
سورۃ الکہف
سورۂ بنی اسرائیل کے بعد سورہ کہف ہے۔ سورۂ کہف میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ قرآنِ مجید بشارت دیتا ہے نیک عمل کرنے والے مسلمانوں کو کہ ان کے لیے بڑے اجر کو تیار کر دیا گیا ہے اور ڈراتا ہے ان لوگوںکوکہ جنہوں نے کہا کہ اللہ نے بیٹا بنایا ہوا ہے‘ اس میں عیسائیوں اور یہودیوں کو ڈرایا گیا ہے‘ جو کہ عیسیٰ علیہ السلام اور عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں نہ تو ان کے پاس علم ہے اور نہ ان کے آبائواجداد کے پاس علم تھا اور یہ بات گھڑی ہوئی ہے پس یہ جھوٹ بول رہے ہیں۔
سورہ کہف میں اللہ تعالیٰ نے بعض مومن نوجوانوں کا ذکر کیا ہے جو اپنے وقت کے بے دین بادشاہ کے شر اور فتنے سے بچنے کے لیے ایک غار میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ کے اظہار کے لیے انہیں تین سو نو برس کے لیے سلا دیا اور اس کے بعد جب وہ بیدار ہوئے تو آپس میں بات چیت کرنے لگے کہ ہم کتنا سوئے ہوں گے‘ ان کا خیال یہ تھا کہ ایک دن یا اس کا کچھ حصہ سوئے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ایسے واقعات بیان کر کے درحقیقت توجہ آخرت کی طرف مبذول کرائی ہے کہ جو اللہ تین سو نو برس تک لوگوں کو سلا کر بیدار کر سکتا ہے کیا وہ قبروں سے مردہ وجودوں کو برآمد نہیں کر سکتا۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کے واقعے کا بھی ذکر کیا۔ ہوا کچھ یوں کہ جناب موسیٰ علیہ السلام ایک مرتبہ بنی اسرائیل کے اجتماع میں موجود تھے کہ آپ علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ اس وقت روئے زمین پر سب سے بڑا عالم کون ہے تو جناب موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ اس وقت سب سے بڑا عالم میں ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو بہت بڑا مقام عطا کیا تھا‘ لیکن یہ جواب اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو کہا کہ دو دریائوں کے سنگم پر چلے جائیں وہاں پر آپ کی ملاقات ایک ایسے بندے سے ہو گی جس کو میں نے اپنی طرف سے علم اور رحمت عطا کر رکھی ہے۔ جناب موسیٰ علیہ السلام دو دریائوں کے سنگم پر پہنچتے ہیں تو آپ کی ملاقات جناب خضر علیہ السلام سے ہوتی ہے۔ جناب موسیٰ علیہ السلام نے جناب خضر علیہ السلام سے پوچھا کہ اگر میں آپ کے ہمراہ رہوں تو کیا آپ رشد وہدایت کی وہ باتیں‘ جو آپ کے علم میں ہیں‘ مجھے بھی سکھلائیں گے؟ جناب خضر علیہ السلام نے جواب میں کہا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے اور آپ ان باتوں کی بابت کیونکر صبر کریں گے جن کو آپ جانتے ہی نہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے جناب خضر علیہ السلام کو صبر کی یقین دہانی کرائی تو دونوں اکٹھے چل پڑے۔ کچھ چلنے کے بعد آپ ایک کشتی میں سوار ہو گئے۔ جنہوں نے ان دونوں سے کرایہ بھی وصول نہیں کیا مگر جب اترنے لگے تو خضر علیہ السلام نے کشتی میں سوراخ کر دیا۔ جناب موسیٰ علیہ السلام کو یہ بات پسند نہ آئی کہ جس کشتی میں سفر کیا‘ اس میں سوراخ کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا کہ آپ نے یہ کیا کام کر دیا؟ جناب خضر علیہ السلام نے کہا کہ کیا میں نے آپ کو نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے‘ جناب موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ آپ میرے بھول جانے پر مواخذہ نہ کریں اور نہ ہی میرے سوالات پر تنگی محسوس کریں۔ جناب خضر علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام پھر چل دیے‘ کچھ آگے جا کر ایک لڑکا نظر آیا تو جناب خضر نے بچے کو قتل کر ڈالا‘ جناب موسیٰ علیہ السلام سے نہ رہا گیا، انہوں نے پھر جناب خضر علیہ السلام کے عمل پر اعتراض کیا۔ اس کے بعد کیا ہوا یہ جاننے کے لیے اسی مضمون پر سولہویں پارے میں کچھ بحث کریں گے۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں قرآنِ پاک پڑھنے‘ سمجھنے اور اس میں مذکور مضامین سے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق بخشے، آمین!

چودھویں پارے کی پہلی آیت کا شانِ نزول حدیث میں آیا کہ اہلِ جہنم جب جہنم میں جمع ہوں گے تو جہنمی ان گناہگار مسلمانوں پر طعن کریں گے کہ تم تو مسلمان تھے‘ پھر بھی ہمارے ساتھ جہنم میں جل رہے ہو‘ پھر اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے گناہگار مسلمانوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں لے جائے گا تو کفار تمنا کریں گے کہ کاش! ہم بھی مسلمان ہوتے اور اس مرحلے پر نجات پا لیتے۔ 14 ویں پارے کی ابتدائی آیات میں کفار کے طعن و استہزا کا ذکر ہے کہ معاذ اللہ‘ وہ رسول کو مجنون کہیں گے اور کہیں گے کہ اگر آپ سچے ہیں تو فرشتوں کو سامنے لا کر دکھا دیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اگر ہم آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیں اور یہ منکرین خود اس سے چڑھ کر جائیں‘ تو پھر بھی کہیں گے کہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے‘‘۔ آیت 17میں بتایا کہ شیطان فرشتوں کی باتیں سننے کیلئے آسمانوں پر جاتے ہیں تو ان پر آگ کے کوڑے برسائے جاتے ہیں‘ یعنی ان کا داخلہ عالمِ بالا میں بند ہے۔ آیت 19 سے زمین کے پھیلائو اس میں پہاڑوں کے نصب کرنے‘ سبزہ اگانے اور دیگر وسائلِ معیشت کا ذکر ہے اور یہ کہ تمام نعمتوں کے خزانے اللہ کے پاس ہیں۔ آیت 22 میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اس قدرت کا ذکر فرمایا کہ پانی سے لدے ہوئے بادلوں کو ہمارے حکم سے ہوائیں چلا کر لے جاتی ہیں اور پھر بارش برستی ہے اور بلند فضاؤں میں کسی سہارے کے بغیر اللہ تعالیٰ ہی نے لاکھوں گیلن کے حساب سے پانی ذخیرہ کر رکھا ہے۔ آیت 26 سے انسانوں اور جنات کے جوہرِ تخلیق کا بیان ہے‘ پھر اللہ نے آدم علیہ السلام کا پیکر تخلیق فرمانے کے بعد فرشتوں کو تعظیم کے طور پر انہیں سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ سوائے‘ ابلیس کے تمام فرشتوں نے سجدہ کیا اور وجہِ انکار اپنے جوہرِ تخلیق کو بتایا‘ پھر اللہ نے اسے قرب سے نکال کر دھتکار دیا اور قیامت تک اُس پر لعنت ہوتی رہے گی۔ شیطان نے دھتکارے جانے کے بعد قیامت تک کیلئے مہلت طلب کی جو اسے مل گئی؛ چنانچہ اُس نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اے اللہ! میں تیرے چنے ہوئے بندوں کے علاوہ سب کو گمراہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے منتخب بندوں پر تیرا داؤ نہیں چلے گا۔ اس مقام پر جہنم کے سات دروازوں کا ذکر ہے‘ ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں: جَہَنَّمْ‘ سَعِیْر‘ لَظّٰی‘ سَقَر‘ جَحِیْم اور ھَاوِیَہ۔ اس مقام پر یہ بھی بتایا کہ اہلِ جنت کے دل کینہ سے پاک ہوں گے اور وہ اعزاز واکرام کے ساتھ ایک دوسرے کے مقابل مسندوں پر بیٹھے ہوئے ہوں گے۔ چند آیات میں حضرت ابراہیم و لوط علیہما السلام کا واقعہ بیان ہوا جس کی تفصیل اس سے پہلے گزر چکی ہے۔ آیت 78 سے ''اصحاب الاَیکہ‘‘ اور ''اصحاب الحِجر‘‘ کا ذکر ہے کہ ان قوموں نے انبیاء کرام کو جھٹلایا اور ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا۔ آیت نمبر 88 میں قرآن مجید کی نعمت اور سورۂ فاتحہ کا خاص طور پر ذکر ہے۔
سورۃ النحل: آیت 5 سے چوپایوں کی پیدائش کا ذکر ہے جن میں انسانوں کیلئے کئی طرح کے فوائد ہیں‘ یہ انسانوں کیلئے راحت کا سبب ہیں‘ ان میں بعض جانوروں کو کھایا جاتا ہے اور بعض میں دیگر فوائد ہیں‘ جیسے بھیڑوں کی اون سے گرم لباس حاصل ہوتا ہے‘ کچھ بار برداری کے کام آتے ہیں اورکچھ سواری کے کام آتے ہیں‘ جیسے گھوڑے‘ خچر اور گدھے وغیرہ۔ آیت 11 سے زمین سے پیدا ہونے والے پھلوں اور نعمتوں کا ذکر ہے اور یہ کہ شمس و قمر اور ستارے‘ اسی کے حکم کے تابع ہیں۔ انسان سمندر پر سواری کیلئے سفر بھی کرتا ہے اور مچھلیوں کاشکار کرکے تازہ گوشت کھاتا ہے‘ سمندروں ہی سے مختلف قسم کے زیورات میں استعمال ہونے والی چیزیں نکلتی ہیں۔ ان تمام نعمتوں کا تفصیل کے ساتھ ذکر کرنے کے بعد فرمایا ''اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنے لگو تو ان کا احاطہ نہیں کر سکو گے‘‘۔ آیت20 سے مشرکوں کے باطل معبودوں کی بے بسی اور بے کسی کا ذکر ہے کہ وہ خود مخلوق ہیں‘ وہ بے جان ہیں‘ نعمتِ حیات سے محروم ہیں‘ انہیں خود اپنے انجام کا کچھ پتا نہیں جبکہ مسلمانوں کا معبود اللہ وحدہٗ لاشریک ہے اور ظاہر و باطن کو جاننے والا ہے۔ آیت 25 میں بتایا کہ جو لوگ گمراہوں کے رہنما ہیں‘ وہ اپنے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھائیں گے اور جن کو انہوں نے گمراہ کیا ہے‘ ان کا وبال بھی ان پر ہو گا۔ اہلِ تقویٰ اور اہلِ ایمان کو عطا کی جانے والی نعمتوں کا ذکر کرکے فرمایاکہ ان کی وفات کے وقت فرشتے ان کی پاکیزہ روحوں کا استقبال کریں گے اور ان پر سلام بھیجیں گے۔ آیت 43 سے اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ سے فرمایا کہ آپ سے پہلے بھی ہم نے مردوں کو رسول بنایا تھا‘ جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے اور حقانیت کے واضح دلائل اور کتابیں بھی بھیجیں اور (اے رسولﷺ!) ہم نے آپ کی طرف قرآن نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کو ہمارے وہ احکام وضاحت کے ساتھ بتا دیں‘ جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں۔ قرآن نے یہ بھی فرمایا کہ جو کچھ تم نہیں جانتے وہ اہلِ علم سے پوچھ لو۔ آیت 48 سے اللہ تعالیٰ نے اس امر کو بیان فرمایا کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کی بارگاہ میں مصروفِ عبادت ہے ‘ یہاں تک کہ چیزوں کا سایہ جو دائیں اور بائیں جھکتا ہے وہ بھی اللہ کو سجدہ کر رہا ہوتا ہے۔ آیت 57 سے بتایا کہ مشرک اللہ کی طرف بیٹیوں کی نسبت کرتے ہیں‘ وہ ان تمام نسبتوں سے پاک ہے‘ (ان کا اپنا حال یہ ہے کہ) اگر ان کو بیٹی کی پیدائش کی خبر دی جائے تو ان کا چہر کالا پڑ جاتاہے اور وہ غصے سے بھر جاتے ہیں (بیٹی کی پیدائش کو) بری خبر جانتے ہوئے‘ اپنی قوم سے چھپتے پھرتے ہیں کہ بیٹی کو ذلت اٹھا کر زندہ رکھیں (یا رسوائی سے بچنے کیلئے) اسے زندہ درگور کر دیں۔ آیت 66 سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں بیان کی گئیں کہ دودھ دینے والے جانوروں کے پیٹ میں خوراک جاتی ہے اور ان کے معدے کے ایک ہی کارخانے میں رنگین‘ بدبودار اور ناپاک گوبر پیدا ہوتاہے اور خون بنتا ہے اور ان دونوں ناپاک رنگین چیزوں کے درمیان ہی میں (چاندنی کی طرح چمکتا ہوا) صاف‘ شفاف‘ سفید اور پاکیزہ دودھ بنتا ہے۔ آیت 68 سے شہد کی مکھی کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس چھوٹی سی مخلوق کو پہاڑوں‘ درختوں اور چھپروں میں اپنا مستحکم گھر بنانے کا شعور عطا کیا‘ پھر شہد کی مکھی پھولوں کا رَس چوس کر آتی ہے اور اس کے معدے کے کارخانے میں شہد بنتا ہے‘ جس میں انسانیت کیلئے شفا ہے۔ آیت 76 میں فرمایا کہ قیامت پلک جھپکنے یا اس سے بھی کم وقت میں قائم ہو جائے گی۔ اگلی آیت میں فرمایا کہ اللہ نے تمہیں سننے‘ دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں عطا کیں‘ تاکہ تم اللہ کے شکر گزار بندے بنو۔ آیت 79 میں فرمایا کہ جو پرندے فضاؤں میں اڑتے ہیں‘ اُنہیں اللہ ہی تو بغیر کسی سہارے کے فضا میں قرار عطا کرتا ہے۔ آیت 80 میں جانورں کی کھالوں‘ مویشیوں کی اون‘ پشم اور بالوں سے حاصل ہونے والے فوائد کا ذکر ہے‘ یعنی یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی قدرت کا شاہکار ہیں۔ آیت 89 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ہم ہر امت کے خلاف انہی میں سے ایک گواہ (یعنی اس عہد کے نبی اور رسول ) پیش کریں گے اور (اے رسولِ کریم!) ہم ان سب پر آپ کو گواہ بنا کر پیش کریں گے‘ یعنی ہر نبی اللہ کی عدالت میں گواہی دے گا کہ اُس نے دعوتِ حق کا فریضہ انجام دیا تھا اور سیدنا محمد عربی رسول اللہﷺ ان سب نبیوں کی گواہیوں کی تصدیق کریں گے۔ آیت 90 قرآن مجید کی آیات ''جامع الاحکام‘‘ میں سے ایک آیت ہے‘ جسے تقریباً ہر خطبے میں پڑھا جاتاہے کہ اللہ عدل‘ احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم فرماتا ہے‘ بے حیائی‘ برائی اور سرکشی سے روکتا ہے‘ تم اُس کی نصیحت کو قبول کرو۔ آیت 91 میں وعدے کی پاسداری کا حکم دیا اور قسمیں کھا کر توڑنے سے منع فرمایا۔ دنیاوی فائدے کیلئے یا دھوکہ دہی کیلئے قسمیں کھانے کو معیوب قرار دیا اور فرمایا کہ ان لوگوں کی مثال اس عورت جیسی ہے‘ جو سوت کاتتی ہے اور پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے‘ یعنی محنت کر کے اسے ضائع کر دیتی ہے۔ اگلی آیات میں فرمایا کہ دنیا کے حقیر اور ناپائیدار فائدے کیلئے اللہ کے عہد کو نہ توڑو‘ دائمی اور ابدی نعمتیں صرف اللہ کے پاس ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا کہ ہر مومن مرد اور عورت جو نیک کام کریں گے‘ ہم ان کو پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور ان کو بہترین جزا دیں گے۔ آیت 119 میں ایک بار پھر اس رعایت کا بیان ہوا کہ اگر بندہ نادانی میں گناہ کر بیٹھے اور احساس ہونے پر سچے دل سے توبہ کرکے نیکی پر کاربند ہو جائے تو اللہ تعالیٰ گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ آیت 123 میں رسول اللہﷺ کو ملتِ ابراہیمی کی پیروی کا حکم دیا۔ آیت 125میں دعوتِ دین کے اسلوب کو بیان کیا گیا ہے کہ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلاؤ (اور اگر بحث کی نوبت آئے) تو احسن طریقے سے حجت قائم کرو اور مشکلات میں صبر وتحمل کا مظاہرہ کرو کہ صبر کی توفیق اللہ تعالیٰ کی عطا سے ملتی ہے اور اس کا بدلہ بھی اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے۔

چودھویں پارے کا آغاز سورۃ الحجر سے ہوتا ہے۔ چودھویں پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا ذکر کیا ہے کہ کافر رسول اللہﷺ کی ذاتِ اقدس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے کہ اگر آپ سچے ہیں تو ہمارے لیے فرشتوں کو کیوں لے کر نہیں آتے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ فرشتوں کو تو ہم عذاب دینے کے لیے اتارتے ہیں اور جب فرشتوں کا نزول ہو جاتا ہے تو پھر اقوام کو مہلت نہیں دی جاتی۔ قرآنِ مجید کے نزول پر شک اور اعتراض کرنے والے کافروں کو مخاطب ہو کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بے شک ہم نے ہی ذکر (مراد فرقانِ حمید) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
اس پارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ستاروں کی تخلیق کے مقاصد بھی بیان فرمائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نے آسمانِ دنیا کو ستاروں سے مزین کیا اور ان کو شیطان کے شر سے محفوظ کیا مگر جو آسمان کی بات کو چُرا کر زمین پر لانا چاہے تو اس کو اللہ تبارک و تعالیٰ شہاب ثاقب سے نشانہ بناتے ہیں۔
اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کی طرف روانہ کیے جانے والے فرشتوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ یہ فرشتے جناب لوط علیہ السلام کی طرف جانے سے قبل جناب ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے۔ انہوں نے جناب ابراہیم علیہ السلام کو ایک عالم فاضل بیٹے کی بشارت دی اور انہیں بتلایا کہ ہم ایک مجرم قوم کو ہلاک کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ اس قوم میں سے لوط علیہ السلام کے گھرانے کے علاوہ ہر شخص کو ہلاک کر دیا جائے گا بشمول لوط علیہ السلام کی بیوی کے کہ جس کے بارے میں خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہو چکا ہے کہ وہ ضرور مجرموں کے ساتھ پیچھے رہ جائے گی۔ اللہ کے فرشتوں نے لوط علیہ السلام کی پوری بستی کو بلندی پر لے جا کر الٹ دیا اور ان پر پتھروں کی بارش برسائی اور پتھر ہر مجرم کو نشانہ بنا کر لگ رہے تھے۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا بھی اعلان فرمایا کہ جو رسول اللہﷺ کا استہزا کرتے ہیں تو ان سے نمٹنے کے لیے خود اللہ کی ذات کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کے ہر دشمن کو ذلت اور عبرت کا نشان بنا دیا۔ ابوجہل‘ عتبہ‘ شیبہ‘ ولید‘ امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط رسول اللہﷺکا استہزا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے میدانِ بدر میں ان کو حسرت ناک انجام سے دوچار کیا۔ ابولہب کے ایک بیٹے عتیبہ نے رسول اللہﷺ کا استہزا کیا تو نبی کریمﷺ نے دعا کی کہ اے اللہ! اپنے کتوں میں سے ایک کتا اس پر مسلط کر دے۔ نبی کریمﷺ کی دعا پوری ہوئی اور ایک کاروباری سفر میں جنگل میں پڑائو کے دوران ایک شیر آیا اور پورے قافلے میں سے چُن کر اس بدبخت کو کھا گیا۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ رسول اللہﷺ کو سات بار بار پڑھی جانے والی آیات اور قرآنِ عظیم یعنی سورہ فا تحہ عطا کی گئی ہے۔
سورۃ النحل
سورۃ الحجر کے بعد سورۃ النحل ہے۔ سورۃ النحل میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے جس بندے پر چاہتے ہیں‘ روح الامین کو فرشتوں کے ہمراہ نازل فرماتے ہیں تا کہ وہ لوگوں کو ڈرائے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ سورۃ النحل میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے انواع و اقسام کی سواریوں کو پیدا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے گھوڑوں‘ خچر وں اور گدھوں کو پیدا کیا اور وہ کچھ پیدا فرمایا جس کو انسان نہیں جانتا۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے دو خدائوں کے تصور کی بھی نفی کی اور کہا انسانوں کو دو الٰہ نہیں پکڑنے چاہئیں‘ بے شک وہ اکیلا اللہ ہے۔ ثنویت (دو خدائوں) کا عقیدہ درحقیقت آتش پرستوں میں موجود تھا اور وہ دو (اچھائی اور برائی کے الگ الگ) خدائوں کی بات کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے عقیدے کو رد کیا اور ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا کہ اگر زمین و آسمان میں دو الٰہ ہوتے تو ہر طرف فساد ہوتا‘ یعنی دونوں معبودوں کے احکامات آپس میں ٹکراتے اور کہیں اعتدال نہ ہوتا۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی توجہ مویشیوں کی طرف بھی مبذول کروائی اور کہا کہ چوپایوں میں انسانوں کے لیے عبرت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے پیٹوں سے خالص دودھ پلاتے ہیں جو خون اور گوبر کے درمیان سے نکلتا ہے لیکن اس میں نہ خون کی رنگت ہوتی ہے اور نہ فضلے کی گندگی‘ اور فلٹریشن کا یہ غیر معمولی پلانٹ خالقِ کائنات کی کاریگری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان کیا کہ پرندے کو فضائے بسیط میں اللہ تعالیٰ ہی سہارا دیتے ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے گھروں کو ہمار ے لیے جائے سکونت بنایا ہے جو سکون انسان کو اپنے گھر میں حاصل ہوتا ہے وہ کسی دوسرے مقام پر حاصل نہیں ہوتا۔ اس پارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ پر قرآنِ مجید کو اس لیے نازل فرمایا تاکہ وہ لوگوں کو بیان کریں جو ان پر نازل کیا گیا ہے‘ گویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین اور آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنتیں قرآنِ مجید کے بیان اور وحی الٰہی کی حیثیت ہی رکھتی ہیں۔
اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کی ہرزہ سرائی کا ذکر کیا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ رسول اللہﷺ پر قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں ہوا بلکہ محمدﷺ روم کے ایک نومسلم (مراد حضرت صہیب رومیؓ) سے باتیں سن کر اس کو آگے لوگوں کو سناتے ہیں۔ رسول اللہﷺ کی طرف سے اللہ تعالیٰ نے خود جواب دیا کہ جس آدمی کے بارے میں ان کا یہ گمان ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سکھلاتا ہے‘ وہ تو عجمی ہے جبکہ رسول اللہﷺ پر نازل ہونے والے قرآن کی زبان تو فصیح عربی مبین (صاف صاف) ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ اللہ نے قرآنِ مجید کو روح القدس کے ذریعے رسول اللہﷺکے قلب پر نازل کیا تاکہ مومنوں کو ثابت قدم رکھا جائے اور اس میں مسلمانوں کیلئے ہدایت اور بشارت ہے۔
اس سورت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سبا کی بستی کا بھی ذکر کیا ہے کہ جس کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے رزق اور امن کی جملہ نعمتوں سے نواز رکھا تھا لیکن وہ لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناشکری اور نافرمانی کے کاموں میں مشغول ہو گئے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان سے امن کو چھین کر خوف اور رزق کو چھین کر بھوک میں انہیں مبتلا کر دیا تھا۔ اس واقعے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قوموں کے امن اور معیشت کا تعلق اللہ تبارک وتعالیٰ کی فرمانبرداری کے ساتھ ہے اور جب کوئی قوم اللہ کی نافرمانی اور ناشکری کا ارتکاب کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو بدامنی اور بھوک میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ بے شک ابراہیم علیہ السلام اکیلے ہی امت تھے۔ وہ اللہ کے تابع فرمان اور یکسو مسلمان تھے انہوں نے کبھی بھی شرک نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو قبول کر لیا تھا اور ان کو سیدھے راستے پر چلا دیا تھا۔
اس پارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے دعوت و تبلیغ کا طریقہ بھی بتلایا کہ دعوت دین کا کام بڑی حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ ہونا چاہیے‘ بے شک اللہ کو پتا ہے کہ کون اس کے راستے سے بھٹکا ہوا اور کون ہدایت پر ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اعدائے دین کی تکلیفوں پر صبر کرنے کو اچھا عمل قرار دیا ہے اور یہ بھی بتلایا ہے کہ صبر اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پر یقین رکھ کر ہی ہو سکتا ہے۔
پارے کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ بے شک اللہ تقویٰ اختیار کرنے والوں اور نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تائید حاصل کرنے کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کا ڈر اور نیکی کے راستے پر استقامت درکار ہے‘ جس انسان کو یہ دو چیزیں حاصل ہو جائیں گی‘ یقینا اس کو اللہ کی تائید بھی حاصل ہو جائے گی۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآنِ مجید پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما دے، آمین!

گزشتہ پارے میں تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے خوابوں کی تعبیر کے حوالے سے شہرت کے سبب بادشاہ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو دربار میں طلب کیا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جب تک مجھ پر لگنے والے الزام کی صفائی نہ ہو جائے‘ میں جیل سے باہر نہیں آؤں گا؛ چنانچہ خود عزیزِ مصر کی بیوی کے خاندان سے ایک فرد نے گواہی دی کہ اگر یوسف کی قمیص سینے کی جانب سے پھٹی ہے تو یہ قصوروار ہیں اور اگر پُشت کی جانب سے پھٹی ہے‘ تو عورت قصوروار ہے‘ اور آپ کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہوئی تھی‘ اس طرح سے آپ کی برأت ثابت ہوئی اور خود عزیزِ مصر کی بیوی نے بھی اعتراف کر لیا کہ یوسف علیہ السلام پاکدامن ہیں اور میں نے ہی اُنہیں دعوتِ گناہ دی تھی۔ حضرت یوسف علیہ السلام اپنی پاکدامنی ثابت ہونے پر تفاخر کا اظہار کرنے کے بجائے اللہ کا شکر اداکرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں اپنے نفس کی برأت کا دعویٰ نہیں کرتا؛ نفس تو برائی کا بہت حکم دینے والا ہے ‘مگر جس پر میرا رب رحم فرمائے (اُسے اُس کے نفس کی برائی سے محفوظ فرماتا ہے) بے شک میرا پروردگار بہت بخشنے والا بہت مہربان ہے۔ پھر بادشاہ نے یوسف علیہ السلام سے کہا کہ آج کے بعد آپ ہمارے نزدیک مُقتدر اور امانت دار ہیں۔ یوسف علیہ السلام نے فرمایا: مجھے اِس ملک کے خزانوں کا انچارج مقرر کر دیں‘ بے شک میں حفاظت کرنے والا‘ علم والا ہوں یعنی اللہ نے مجھے یہ علم عطا کیا ہے کہ مال کس سے لیا جائے اور کس کو دیا جائے اور قومی خزانوں کی حفاظت کس طرح کی جائے؟ پھر جب سارے ملک میں قحط پڑا‘ تو کنعان سے یوسف علیہ السلام کے بھائی بھی غَلّہ لینے کیلئے آئے۔ جب دوسری مرتبہ برادرانِ یوسف حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچے تو اُن کے ساتھ حضرت یوسف علیہ السلام کے سگے بھائی بنیامین بھی تھے‘ اُنہوں نے اپنے بھائی کو روکنے کی ایک خفیہ تدبیر کی کہ بھائی کے سامان میں شاہی پیالہ رکھ دیا اور اس تدبیر سے اُن کو روک لیا‘ اُن کو روکنے کی یہی ایک صورت تھی۔ برادرانِ یوسف نے پیشکش کی کہ بنیامین کے بجائے ہم میں سے کسی کو روک لیا جائے‘ لیکن ظاہر ہے کہ کسی اور کو روکنا مقصود ہی نہیں تھا۔ برادرانِ یوسف نے واپسی پر یہ واقعہ والد کے سامنے بیان کیا تو اُنہیں ایک بار پھر شدید دکھ ہوا مگر پھر صبرِ جمیل کو اختیار کیا۔ شدّتِ غم سے روتے روتے یعقوب علیہ السلام کی آنکھوں کی بینائی بھی چلی گئی اور اُنہوں نے کہا: میں اپنی پریشانی اور غم کی شکایت صرف اللہ سے کرتا ہوں‘ پھر یعقوب علیہ السلام نے برادرانِ یوسف کو یوسف علیہ السلام اور بنیامین کی تلاش میں بھیجا اور اُن کے مصر پہنچنے پر بالآخر یوسف علیہ السلام نے حقیقتِ حال بھائیوں پر ظاہر کر دی‘ وہ شرمسار ہوئے‘ اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہم پر فضیلت دی ہے۔ یوسف علیہ السلام نے کہا: اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کیا ہے اور جو تقویٰ پر کاربند ہو اور صبر کرے‘ تو اللہ نیکو کاروں کے اجر کو ضائع نہیں فرماتا۔ اس موقع پر یوسف علیہ السلام نے انتہائی اخلاقی عظمت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے بھائیوں کو معاف کر دیا۔ اپنی قمیص اُنہیں عطا کی کہ اس کو میرے باپ کے چہرے پر ڈالو (اِن شاء اللہ) اُن کی بینائی لوٹ آئے گی اور اپنے سب گھروالوں کو میرے پاس لے آؤ۔ جونہی برادرانِ یوسف مصر سے چلے‘ حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا: مجھے یوسف کی خوشبو محسوس ہو رہی ہے۔ الغرض پھر قمیصِ یوسف‘ حضرت یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر ڈالتے ہی اُن کی بینائی لوٹ آئی اور اُنہوں نے برادرانِ یوسف کیلئے اللہ کی بارگاہ میں استغفار کی‘ پھر جب یہ قافلہ مصر میں داخل ہوا تو یوسف علیہ السلام نے نہایت اعزاز کے ساتھ اُن کا استقبال کیا اور جب یہ قافلہ شاہی دربار میں پہنچا تو خاندانِ یعقوب کے تمام لوگ حضرت یوسف علیہ السلام کی تعظیم کیلئے سجدے میں گر گئے۔ یوسف علیہ السلام نے کہا: اے میرے والد! یہ میرے اُس پہلے خواب کی تعبیر ہے‘ بے شک میرے رب نے اُس کو سچ کر دکھایا اور اُس نے مجھ پر احسان فرمایا۔
سورۃ الرعد: اس سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ کی قدرت و جلالت کو بیان کیا گیا ہے‘ اُس کا بغیر ستونوں کے آسمانوں کو بلندی پہ قائم رکھنا‘ سورج اور چاند کو ایک نظم کے تابع کرکے چلانا‘ زمین کا پھیلاؤ اور اُس میں پہاڑوں کو لنگر کی طرح قائم رکھنا‘ دریاؤں کی رَوانی‘ نظامِ لیل و نہار‘ طرح طرح کے پھل‘ انگوروں اور کھجوروں کے باغات اور اُمورِ کائنات کی تدبیر وغیرہ۔ پھرفرمایا: اہلِ عقل کیلئے اِس میں نشانیاں ہیں۔ آیت 8 میں فرمایا کہ اللہ ہر مادہ کے حمل اور رحم کے حالات کو جانتا ہے اور اُس کے نزدیک ہر چیز کا ایک اندازہ ہے۔ آگے چل کر فرمایا کہ اللہ تمہیں کبھی ڈرانے کیلئے اور کبھی اُمید دلانے کے لیے بجلی کی چمک دکھاتا ہے اور بھاری بادل پیدا کرتا ہے۔ آیت 13میں رعد کا ذکر ہے۔ اجرامِ فلکی یا بادلوں کی رگڑ سے جو آواز پیدا ہوتی ہے‘ اُس کو ''رعد‘‘ کہتے ہیں اور ایک حدیث کی رُو سے رعد اُس فرشتے کا نام ہے‘ جو بادلوں کو چلانے پر مامور ہے؛ چنانچہ فرمایا کہ یہ مُعین فرشتہ اُس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتا ہے اور باقی فرشتے (بھی) اُس کے خوف سے (حمد و تسبیح) کرتے ہیں۔ آیت 15میں فرمایا: آسمانوں اور زمین میں جو بھی چیزہے‘ وہ سب خوشی اور ناخوشی سے اللہ ہی کیلئے سجدہ کر رہی ہے‘ یعنی مظاہرِ کائنات میں سے ہر چیز کا قادرِ مُطلق کی جانب سے تفویض کی ہوئی اپنی ڈیوٹی کو انجام دینا‘ یہ اُس کی عبادت ہے۔ آیت 17 سے فرمایا کہ آسمان سے برسنے والی بارش کے نتیجے میں ندی‘ نالے جاری ہوتے ہیں‘ پھر سیلاب سے بلبلے والے جھاگ پیدا ہوتے ہیں۔ آگے چل کر فرمایا: پس رہا جھاگ تو وہ تو (بے فائدہ ہونے کی وجہ سے) زائل ہو جاتا ہے‘ لیکن جو چیز لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہے‘ وہ زمین میں باقی رہتی ہے۔ آیت 18 سے بیان فرمایا کہ وہ اہلِ عقل نصیحت حاصل کرتے ہیں جو اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور پکے عہد کو نہیں توڑتے اور قرابت کے جن رشتوں کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے‘ اُنہیں جوڑے رکھتے ہیں‘ اللہ کی رضاکی طلب میں صابر رہتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘ ظاہراً اور پوشیدہ طور پر اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں‘ برائی کو بھلائی سے ٹالتے ہیں‘ اُن کے لیے آخرت کا گھر کتنا پیارا ہے۔ پھر منکرین کیلئے فرمایا کہ عہد شکنی کرتے ہیں‘ قطع رحمی کرتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں‘ ان پر لعنت ہے اور ان کا برا ٹھکانہ ہے۔ آیت 28 میں فرمایا کہ سکونِ قلب کی دولت اللہ کے ذکر سے ہی ملتی ہے‘ مومن نیکوکاروں کیلئے خوشخبری ہے اور بہترین انجام۔ آیت 31 سے مشرکینِ مکہ کے ناروا مطالبات کا ذکر ہوا‘ وہ کہتے ہیں کہ کوئی ایسا قرآن ہوتا کہ جس سے پہاڑ چل پڑتے‘ زمین پھٹ جاتی‘ مردے کلام کرنے لگتے‘ تو اللہ نے فرمایا: یہ سب چیزیں اللہ کے اختیار میں ہیں‘ مسلمان کافروں کی ان بیہودہ باتوں سے نااُمید نہ ہوں‘ اگر اللہ کی مشیت اِس میں ہوتی کہ سب اطاعت گزار ہو جائیں‘ تو وہ سب لوگوں کو ہدایت دے دیتا۔
سورہ ابراہیم: سورۂ ابراہیم کے شروع میں ایک بار پھر قرآن کی حقانیت اور اللہ تعالیٰ کی قدرت و اختیار کا ذکر ہوا۔ آیت 4 میں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کے درمیان جو رسول بھیجا‘ وہ اُنہی کی زبان بولنے والا تھا تاکہ وہ وضاحت کے ساتھ اللہ کے اَحکام کو بیان کر سکے اور لوگوں پر اللہ کی حجت قائم ہو جائے۔ آیت 18 میں بتایا کہ کافروں کے اعمال کی مثال اُس راکھ کی سی ہے کہ سخت آندھی کے دن تیز ہوا کا جھونکا آئے اور سب اُڑا لے جائے۔ آیت21 سے بتایا کہ سب کفار آخرت میں اللہ کی عدالت میں پیش ہوں گے‘ اُن کے کمزور‘ اپنے بڑوں سے کہیں گے کہ دنیا میں ہم تمہاری پیروی کرتے تھے‘ کیا اب اللہ کے عذاب سے نجات کیلئے تم ہمارے کسی کام آؤگے‘ وہ کہیں گے کہ ہمیں خود کوئی چھڑانے والا نہیں‘ اسی طرح شیطان بھی اپنے پیروکاروں سے اپنا دامن جھاڑ لے گا اور کہے گا کہ تم نے اللہ کے سچے وعدے کو رَد کیا اور میرے جھوٹے وعدے کو مانا‘ سو تم مجھے ملامت نہ کرو‘ بلکہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ اب‘ ہم ایک دوسرے کے کام آنے والے نہیں۔ آیت 37 سے اُس واقعے کاذکر ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام اللہ کے حکم سے حضرت ہاجرہ اور اسماعیل علیہ السلام کو مکہ کی بے آب وگیاہ زمین میں چھوڑ کر آئے‘ تو رخصت ہوتے وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی: ''اے ہمارے ربّ! (میں نے) اپنی بعض اولاد کو تیری حرمت والے گھر کے نزدیک بے آب وگیاہ وادی میں ٹھہرا دیا ہے تاکہ وہ نماز کو قائم رکھیں اور لوگوں میں سے بعض کے دلوں کو ان کی طرف مائل فرما اور ان کو پھلوں سے روزی عطا فرما۔

تیرہویں پارے کا آغاز بھی سورۂ یوسف سے ہوتا ہے۔ جنابِ یوسف علیہ السلام جب جیل سے آزاد ہو گئے تو بادشاہ نے ان کو اپنے قریبی مصاحبین میں شامل کر لیا۔ آپ علیہ السلام ابتدائی طور پر وزیر خزانہ اور بعد میں عزیزِ مصر کے منصب پر فائز ہو گئے۔ جناب یوسف علیہ السلام نے زرعی نظام کو بڑی توجہ سے چلایا اور خوشحالی کے سات سالوں میں مستقبل کے لیے بہترین پلاننگ کی‘ یہاں تک کہ جب پوری دنیا میں قحط سالی عام ہو گئی تو مصر کی معیشت انتہائی مضبوط اور مستحکم تھی۔ قحط سالی اپنے عروج پر پہنچی تو غلے کے حصول کے لیے دنیا بھر سے قافلے مصر پہنچنا شروع ہو گئے۔ جناب یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے بھی مصر کا رُخ کیا۔ جب وہ عزیزِ مصر کے محل میں داخل ہوئے تو جناب یوسف علیہ السلام اپنے بھائیوں کو پہچان گئے جبکہ آپ کے بھائی آپ سے غافل تھے۔ آپ نے باتوں باتوں میں اپنے بھائیوں سے کہا کہ اگلی مرتبہ اپنے چھوٹے بھائی (بنیامین) کو بھی ساتھ لانا‘ اگر تم اپنے چھوٹے بھائی کو نہ لائے تو تمہیں غلہ نہیں ملے گا۔ اور ساتھ ہی جو پونجی ان کے بھائی غلہ خریدنے کے لیے لائے تھے‘ اس کو بھی اپنے بھائیوں کے سامان میں ڈال دیا۔
جناب یوسف علیہ السلام کے بھائی جب جناب یعقوب علیہ السلام کے پاس پہنچے تو انہوں نے عزیزِ مصر کی بہت زیادہ تعریف کی اور ساتھ ہی یہ بھی بتلایا کہ عزیزِ مصر کی خواہش تھی کہ ہم اپنے بھائی بنیامین کو بھی ساتھ لے کر جائیں۔ جنابِ یعقوب علیہ السلام نے جواب میں کہا کہ کیا میں تم پر اسی طرح اعتماد کروں جس طرح میں نے اس سے قبل یوسف (علیہ السلام) کے معاملے میں تم پر اعتماد کیا تھا۔ اس پر جناب یعقوب علیہ السلام کے بیٹے خاموش ہو گئے۔ جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو اس میں سے غلے کے ساتھ ساتھ ان کی رقم بھی برآمد ہو گئی۔ اس پر یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے کہا: دیکھیے بابا عزیزِ مصر نے تو ہماری نقدی بھی ہمیں دے دی ہے۔ اب جناب یعقوب علیہ السلام نے کہا کہ میں بنیامین کو تمہارے ساتھ اس صورت میں روانہ کروں گا کہ تم اس کی حفاظت کی قسم کھائو۔ تمام بیٹوں نے جنابِ یعقوب علیہ السلام کے سامنے حلف دیا تو جناب یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کی کہ جب مصر میں داخلے کا وقت آئے تو علیحدہ علیحدہ دروازوں سے داخل ہونا۔ جب دوبارہ یوسف علیہ السلام کے بھائی ان کے پاس پہنچے تو جنابِ یوسف علیہ السلام نے جناب بنیامین کو ایک طرف کر لیا اور ان کو کہا کہ میں آپ کا بھائی یوسف (علیہ السلام) ہوں۔ اس کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنا پیالہ جناب بنیامین کے سامان میں رکھوا دیا۔ جب قافلہ روانہ ہونے لگا تو اعلان کروایا گیا کہ قافلے والو! تم چور ہو۔ جناب یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے جواب میں کہا کہ اللہ کی قسم ہم زمین پر فساد پھیلانے نہیں آئے اور نہ ہی ہم چور ہیں۔ اس پر ا ن سے کہا گیا کہ اگر تم میں سے کسی کے سامان سے بادشاہ کا پیالہ برآمد ہوا تو اس کی کیا سزا ہو گی؟ جواب میں جناب یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے کہا کہ اس کی سزا یہ ہے کہ جو مجرم ہو گا وہ خود اپنے کیے کا ذمہ دار ہو گا؛ چنانچہ جب سامان کی تلاشی لی گئی تو جناب بنیامین کے سامان میں سے پیالہ برآمد ہو گیا۔ جناب یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اس موقع پر بڑے عجیب ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ اگر بنیامین نے چوری کی ہے تو اس سے قبل ان کے بھائی یوسف علیہ السلام نے بھی چوری کی تھی۔ اس پر جناب یوسف علیہ السلام نے دل میں کہا کہ جو تم الزام تراشی کرتے ہو اس کی حقیقت سے اللہ تعالیٰ بخوبی آگاہ ہیں۔ جناب یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے یہ بھی کہا کہ آپ ہم بھائیوں میں سے کسی ایک کو پکڑ لیں۔ جناب یوسف علیہ السلام نے کہا کہ معاذ اللہ! ہم کسی مجرم کی جگہ کسی دوسرے کو کس طرح پکڑ سکتے ہیں۔ جناب یوسف علیہ السلام کے ایک بھائی نے کہا کہ میں تو واپس نہیں جا ئوں گا یہاں تک کے بابا یعقوب علیہ السلام مجھے اجازت دیں یا اللہ تعالیٰ میرے حق میں کوئی فیصلہ فرما دے۔
جناب یوسف علیہ السلام کے بھائی جناب یعقوب علیہ السلام کے پاس پہنچے اور ان کو جناب بنیامین کی گرفتاری کی خبر دی تو جناب یعقوب علیہ السلام نے بلند آواز سے جناب یوسف علیہ السلام کا نام لیا اور آپ اتنی شدت سے روئے کہ آپ کی بینائی گل ہو گئی۔ جناب یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کی کہ آپ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید مت ہوں اور جناب یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائی کو تلاش کریں۔
اب جناب یوسف علیہ السلام کے بعض بھائی دوبارہ مصر آئے تو حالت بدلی ہوئی تھی۔ غربت اور مفلوک الحالی نے ان کو بری طرح متاثر کیا ہوا تھا، انہوں نے جناب یوسف علیہ السلام کے پاس آکر اپنی غربت کی شکایت کی اورصدقے کا تقاضاکیا تو جناب یوسف علیہ السلام نے پوچھا کیا آپ بھول گئے جو آپ لوگوں نے اپنے بھائی یوسف علیہ السلام کے ساتھ کیا۔ بھائیوں نے کہا کہ آپ یوسف کو کیسے جانتے ہیں، کہیں آپ ہی تو یوسف نہیں؟ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا: میں ہی یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ اللہ نے ہم پر احسان کیا‘ بے شک جو صبر اور تقویٰ کو اختیار کرتا ہے تو اللہ نیکوکاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ اس موقع پر جناب یوسف علیہ السلام کے بھائی انتہائی شرمسار ہوئے اور انہوں نے آپ سے معافی چاہی تو جناب یوسف علیہ السلام نے کہا کہ تم سے کوئی مواخذہ نہیں ہو گا اور اللہ تعالیٰ بھی تمہیں معاف کرے۔ جناب یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کو اپنی قمیص اتار کر دی اور کہا کہ جناب یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر ڈالنا‘ اس سے ان کی بینائی واپس آ جائے گی اور اب ان کو اور اہلِ خانہ کو بھی اپنے ہمراہ لانا۔
جناب یعقوب علیہ السلام کے بیٹے جب آپ کی قمیص لے کر روانہ ہوئے، تو جناب یعقوب علیہ السلام نے اپنے گھر میں موجود افراد کو مخاطب ہو کر کہا کہ مجھے اپنے بیٹے یوسف علیہ السلام کی خوشبو آ رہی ہے۔ اس پر بچوں نے کچھ بے ادبی والے الفاظ کہے، جناب یعقوب علیہ السلام خاموش ہو گئے مگر اتنی دیر میں قاصد خبر لے آیا۔ ساتھ ہی جب مصر سے آپ کے بیٹے آئے اور انہوں نے آپ کے چہرے پر یوسف علیہ السلام کی قمیص ڈالی تو جناب یعقوب علیہ السلام کی بینائی واپس آگئی۔ جناب یعقوب علیہ السلام کے گھر میں موجود بچوں نے جنابِ یعقوب علیہ السلام سے معافی مانگی۔ آپ علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو معاف کر دیا۔ سب اہلِ خانہ مصر کو روانہ ہوئے۔ جب سب لوگ جناب یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچے تو آپ نے جنابِ یعقوب علیہ السلام کو تخت پر بٹھا لیا۔ جناب یعقوب علیہ السلام اور ان کے گیارہ بیٹے جناب یوسف علیہ السلام کے سامنے جھک گئے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ تو اُس خواب کی تعبیر ہے جو میں نے بچپن میں دیکھا تھا۔ واضح رہے کہ اُس شریعت میں تعظیمی سجدہ جائز تھا جبکہ مسلمانوں کے لیے تعظیمی سجدہ منع ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اس موقع پر پروردگار عالم کا شکر ادا کیا اور دعا مانگی کہ ا ے میرے پروردگار! مجھے اسلام پر موت دینا اور صالحین کے ساتھ ملا دینا۔ جناب یوسف علیہ السلام کا واقعہ عروج و زوال کی ایک داستان اور صبر اور استقامت کی دستاویز ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صبر کا پھل ضرور دیتا ہے، چاہے اس میں کچھ دیر ہو۔
سورۃ الرعد:سورہ یوسف کے بعد سورۃ الرعد ہے اس کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتیں جتلاتے ہوئے بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے انواع و اقسام کے پھلوں کو پیدا کیا۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ نے ہر قوم میں ایک ہادی کو مبعوث فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ بجلی کی کڑک اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کو بیان کرتی ہے اور فرشتے اللہ تبارک و تعالیٰ کے خوف سے کانپتے ہیں۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ دلوں کا امن اور سکون اللہ کے ذکر اور اس کی یاد سے حاصل ہو تا ہے۔
سورہ ابراہیم: اس کے بعد سورہ ابراہیم ہے۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کیا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کی دنیاوی اوراخروی فلاح و بہبود کے لیے بہت سی دعائیں مانگیں اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کے جذبات سے معمور رہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت میں ہمارے لیے یہ درس اور سبق موجود ہے کہ ہمیں ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے رہنا چاہیے اور کسی بھی وقت اس کی حمد کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں قرآنِ مجید میں بیان کردہ مضامین سے سبق حاصل کرنے کی توفیق دے۔ آمین!

آغازِ پارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: زمین پر چلنے والے ہر جاندار کا رزق اللہ کے ذمۂ کرم پر ہے‘ وہ، اُس کے قیام کی جگہ (اس سے مراد باپ کی پُشت یا ماں کا رَحم یا زمین پر جائے سکونت ہے) اور سپردگی کی جگہ (اس سے مراد مکان یا قبر ہے)‘ سب کچھ روشن کتاب میں مذکور ہے‘ مزید فرمایا: تخلیقِ کائنات کا مقصد انسان کے خیر و شَر کی آزمائش ہے‘ پھر انسان کی خود غرضی کو بیان فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو کوئی نعمت عطا کرے‘ تو اُس پر شکر گزار نہیں ہوتا‘ لیکن نعمت چھن جانے پر نااُمید اور ناشکرا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر مصیبت کے بعد کوئی نعمت ملے تو انسان اتراتا ہے اور شیخی بگھارتا ہے؛ البتہ جو ہر حال میں صابر و شاکر رہیں اور عملِ صالح کریں تو اُن کیلئے بخشش اور بڑا اجر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کی تسلی کیلئے فرمایا کہ کفار طرح طرح کی فرمائشیں کرتے ہیں کہ آپ پر کوئی خزانہ کیوں نہیں نازل کیا گیا‘ آپ کی تائید کیلئے فرشتہ کیوں نہ اُترا‘ آپ اس پر تنگ دل نہ ہوں‘ آپ کا کام تو صرف لوگوں کو عذابِ الٰہی سے ڈرانا ہے۔ اس سورہ میں بھی قرآن کے کلامِ الٰہی ہونے کا انکار کرنے والوں کو چیلنج دیا گیاکہ اپنے تمام حامیوں کو ملا کر اس جیسی دس سورتیں بنا لاؤ۔ آیت 23 میں بتایا کہ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک کام کئے اور اپنے رب کے حضور عاجزی کی‘ تو یہ لوگ ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ آیت 25 سے پھر نوح علیہ السلام اور اُن کی قوم کے حالات بیان ہوئے ہیں۔ نوح علیہ السلام کو حکم ہوا کہ ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق کشتی بنائیے۔ وہ کشتی بنانے لگے‘جب اُن کی قوم کے سردار اُن کے پاس سے گزرتے تو اُن کا مذاق اُڑاتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب ہمارا حکمِ عذاب آ پہنچا اور تنور ابلنے لگا تو ہم نے نوح علیہ السلام سے کہا: آپ خود اپنے گھر والوں کے ساتھ اس کشتی میں سوار ہو جائیں اور اہلِ ایمان کو بھی سوار کر لیں اور ہر چیز کے جوڑے (یعنی نَر و مادہ) کو سوار کر لیں اور اُن کے ساتھ ایمان لانے والے بہت کم تھے۔ کشتی اُنہیں پہاڑ جیسی موجوں میں لئے جا رہی تھی کہ نوح علیہ السلام نے الگ کھڑے اپنے بیٹے سے کہا: اے بیٹے! ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہو جاؤ اور کافروں کے ساتھ نہ رہو۔ اُس (پسرِ نوح کنعان) نے کہا: میں کسی پہاڑ کی پناہ میں آ جاؤں گا‘ جو مجھے پانی سے بچا لے گا‘ نوح علیہ السلام نے کہا: آج اللہ کے حکم کے سوا کوئی بچانے والا نہیں۔ سوائے‘ اُس کے جس پر اللہ رحم فرمائے‘ پھر اُن دونوں کے درمیان موج حائل ہو گئی اور وہ ڈوب گیا۔ اللہ کی طرف سے حکم ہوا: اے زمین اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان تھم جا اور پانی خشک ہو گیا‘ اللہ کا فیصلہ نافذ ہو گیا اور کشتی کوہِ جودی پر جا ٹھہر ی‘ پھر طوفانِ نوح تھم جانے کے بعد وہ سلامتی کے ساتھ اُتر گئے۔ آیت 50 سے قومِ عاد کا ذکر ہے کہ اُن کی طرف دعوتِ توحید دینے کیلئے حضرت ہود علیہ السلام کو بھیجا۔ قومِ عاد نے دعوتِ حق کو رَد کر دیا۔ قوم عاد نے اللہ کی نشانیوں اور رسولوں کو جھٹلایا اور دنیا و آخرت میں لعنت کے حقدار قرار پائے۔ آیت 61 سے حضرت صالح علیہ السلام اور اُن کی قوم ثمود کے حالات کو بیان کیا گیا۔ صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لئے نشانی ہے اسے چرنے کیلئے آزاد چھوڑ دو‘ اسے تکلیف نہ پہنچاؤ‘ ورنہ تمہیں عذاب پہنچے گا‘ اُنہوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں‘ پھر ایک چنگھاڑ نے اُن کو آ دبوچا اور وہ اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل اوندھے پڑے رہ گئے۔ آیت 69 سے اس بات کا بیان ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتے بشری شکل میں آئے اور اُنہیں بیٹے کی بشارت دی۔ اللہ فرماتا ہے کہ بیٹے کی بشارت سن کر ابراہیم علیہ السلام کا خوف دُور ہو گیا اور وہ قومِ لوط کے بارے میں ہم سے بحث کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو فرمایا کہ اے ابراہیم! اس عرضداشت سے گریز اں رہیں کہ اس کا یقینی فیصلہ ہو چکا ہے اور ان پر نہ ٹلنے والا عذاب نازل ہو کر رہے گا۔ آیت 77 سے حضرت لوط علیہ السلام کی قوم (اہلِ سدوم) کی بد اَعمالیوں اور حضرت لوط علیہ السلام کے اپنی قوم کی بداَعمالیوں کے باعث فرشتوں کی آمد پر مضطرب ہونے کا ذکر ہے۔ جب اللہ کا عذاب آیا تو اُس نے بستی کے اوپر کے حصے کو نیچے کر دیا گیا اور قومِ لوط کے اوپر اللہ کی طرف سے لگاتار نشان زدہ پتھر برسائے گئے۔ آیت 84 سے حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کی قوم اہلِ مَدیَن اور اُن کے جرائم کو بیان کیا گیا‘ جب اہلِ مدین پر حضرت شعیب علیہ السلام کی نصیحتوں کا اثر نہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اُنہیں بھی عذاب سے ہلاک فرما دیا۔ حضرت شعیب اور اُن پر ایمان لانے والوں کو بچا لیا گیا اور ظالموں کو ایک زبردست چنگھاڑ نے پکڑ لیا۔ آیت 123 میں فرمایا: آسمانوں اور زمینوں کے سب غیب اللہ ہی کے ساتھ مختص ہیں‘ ہرکام اُسی کی طرف لوٹایا جاتا ہے‘ آپ اُسی کی عبادت کیجئے‘ اُسی پر توکل کیجئے اور آپ کا رب لوگوں کے اَعمال سے غافل نہیں۔
سورۂ یوسف
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے‘ اس سورہ میں حضرت یوسف علیہ السلام کا ذکر ہے اور قدرے تفصیل کے ساتھ ہے۔ قرآن نے حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعے کو ''حسین ترین قصہ‘‘ قرار دیا ہے۔ سب سے پہلے حضرت یوسف علیہ السلام کے خواب کا ذکر ہے‘ اُنہوں نے دیکھا ''سورج‘ چاند اور گیارہ ستارے اُن کو سجدہ کر رہے ہیں‘‘۔ اُنہوں نے اپنا یہ خواب اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کو بیان کیا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اُنہیں یہ خواب اپنے بھائیوں کے سامنے بیان کرنے سے منع فرمایا۔ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے باہمی مشورے سے ایک سازش کے ذریعے حضرت یوسف علیہ السلام کو اُن کے والد سے جدا کر دیا اور ایک گہرے کنویں میں ڈال دیا۔ بالآخر تکالیف اور مصائب کے بعد آپ غلام کی حیثیت سے عزیز ِ مصر کے دربار میں پہنچے۔ عزیزِ مصر نے اپنی بیوی سے کہا کہ اس کو عزت سے رکھو‘ اسے ہم اپنا بیٹا بنا لیتے ہیں۔ جب یوسف علیہ السلام پُختہ عمر کو پہنچے تو عزیز ِ مصر کی بیوی نے (جس کا نام زلیخا بتایا گیا ہے) اپنے گھر کے دروازے بندکر کے اُنہیں دعوتِ گناہ دی۔ یوسف علیہ السلام نے فرمایا: میں اپنے مربی کی احسان کُشی نہیں کر سکتا۔ یوسف علیہ السلام دروازے کی طرف دوڑے اور پیچھے سے عزیزِ مصر کی بیوی نے اُن کی قمیص پکڑی‘ جو پھٹ گئی۔ اسی اثنا میں اُس کا شوہر سامنے آیا اور عزیزِ مصر کی بیوی نے سارا الزام یوسف علیہ السلام پر لگا دیا ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اُس عورت نے اُن سے (گناہ کا) قصد کیا اور اُنہوں نے اُس سے بچنے کا قصد کیا؛ اگر وہ اپنے رب کی دلیل نہ دیکھتے (تومعاذ اللہ )گناہ میں مبتلا ہو جاتے۔ جب یہ چرچا ہوا کہ عزیزِ مصر کی بیوی ایک نوجوان غلام پر فریفتہ ہوگئی ہے تو شہر کی عورتوں نے اُس پر طعن کیا اور کہا: کہاں تیرا مَنصب اور کہاں ایک زَر خرید غلام؟ چنانچہ عزیزِ مصر کی بیوی نے ایک دعوت کا اہتمام کیا اور اُن عورتوں کو بلا کر اُن کے ہاتھوں میں پھل کاٹنے کیلئے چھریاں پکڑا دیں اور اچانک اُن کے سامنے یوسف علیہ السلام کو پردے سے باہر لے آئی‘ جب اُن عورتوں کی نظرحضرت یوسف علیہ السلام پر پڑی تو حسنِ یوسف نے اُن کے ہوش اُڑا دیے‘ اُنہوں نے پھلوں کے بجائے اپنے ہاتھ کاٹ لئے اور کہا: حاشاللہ یہ بشر نہیں‘ یہ تو کوئی مُعزز فرشتہ ہے‘ پھر عزیزِ مصر کی بیوی نے کہا کہ یہی تو وہ پیکرِ جمال ہے‘ جس کے بارے میں تم مجھے ملامت کرتی تھیں۔ یوسف علیہ السلام نے کہاکہ اے پروردگار! گناہ میں مبتلا ہونے سے قید کی مُشقت میرے لئے بہتر ہے اور تیرے ہی کرم سے مجھے عورتوں کی اس سازش سے نجات ملی‘ پھر جب حضرت یوسف علیہ السلام کو قید میں ڈال دیا گیا تو اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اُن کے دو قیدی ساتھیوں نے اُن کے سامنے اپنا اپنا خواب بیان کیا۔ آپ نے اُن کے خوابوں کی یہ تعبیر بتائی کہ ایک سے کہا کہ تم بادشاہ کے دربارمیں پہنچو گے اور اپنے آقا کو شراب پلاؤ گے اور دوسرے کو بتایا کہ تمہیں سولی دی جائے گی اور پرندے تمہارا گوشت نوچ کر کھائیں گے اور بالآخر ایسا ہی ہوا۔ آپ نے دونوں کو دعوتِ توحید دی۔ چند سال آپ قید میں ہی رہے، اسی دوران بادشاہ نے ایک خواب دیکھا کہ سات تندرست گائیں‘ سات دُبلی گائیوں کو کھا رہی ہیں اور فصل کے سات خوشے سرسبزہیں اور سات خشک۔ بادشاہ نے اپنے درباریوں سے خواب کی تعبیر پوچھی‘ لیکن وہ نہ بتا سکے‘ پھر یوسف علیہ السلام کے قیدی ساتھی کے ذریعے‘ جو اب بادشاہ کا خادم بن چکا تھا‘ یوسف علیہ السلام کے خوابوں کی تعبیر میں مہارت کا علم ہوا؛ چنانچہ آپ سے رجوع کیا گیا۔ آپ نے تعبیر یہ بتائی کہ سات سال تم پر سرسبزی اور شادابی کے آئیں گے اور پھر سات سال قحط سالی کے آئیں گے۔ تمہیں چاہیے کہ شادابی کے سات برسوں میں فاضل پیداوار کو خوشوں میں ہی محفوظ رکھنا‘ تاکہ خشک سالی میں تمہارے کام آئے۔

اس پارے کا آغاز سورۂ ہود سے ہوتا ہے۔ سورۃ ہود کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کا ذکر کیا ہے کہ زمین پر چلنے والا کوئی چوپایہ ایسا نہیں‘ جس کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمے نہ ہو اور اللہ تعالیٰ اس کے ٹھکانے کو اور اس کے پلٹنے کی جگہ کو نہ جانتے ہوں اور یہ ساری تفصیل لوحِ محفوظ میں محفوظ ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے ان اقوام کا ذکر کیا‘ جو اپنی نافرمانیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنیں۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم بتوں کی پوجا کرتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے نبی نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو شرک سے باز رہنے کی تلقین کی‘ مگر انہوں نے جناب نوح علیہ السلام کا شدید مذاق اڑایا۔ اللہ تعالیٰ نے جناب نوح علیہ السلام کی مدد فرمائی۔ آسمان اور زمین سے بارش اور سیلاب کی شکل میں پانی جاری کر دیا جس کی زد میں جناب نوح علیہ السلام کا بیٹا اور نافرمان بیوی سمیت تمام کافر آ گئے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کا ذکر کیا کہ قومِ عاد بھی قومِ نوح کی طرح شرک کی بیماری میں مبتلا تھی۔ جناب ہود علیہ السلام اُن کو اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دیتے رہے لیکن انہوں نے جناب ہود علیہ السلام کی ایک نہ سنی۔ قوم عاد کو اپنی طاقت پر گھمنڈ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک طاقتور طوفانی ہوا کو ان پر مسلّط کر دیا‘ جس نے قوم ہود کو اکھاڑ کر پھینک دیا اور اپنی طاقت پر ناز کرنے والے زمین پر یوں پڑے تھے‘ جس طرح کٹے ہوئے درخت کی شاخیں ہوتی ہیں۔
قومِ عاد کے بعد اللہ تعالیٰ نے قومِ ثمود کا ذکر کیا۔ قومِ ثمود کے لوگ بھی اللہ تعالیٰ کی توحید کو فراموش کر چکے تھے۔ قومِ ثمود کے لیے اللہ نے اپنی ایک نشانی کو ظاہر فرمایا۔ اللہ کے حکم سے بستی کی ایک بڑی پہاڑی پھٹی‘ جس سے ایک اونٹنی نکلی۔ اس اونٹنی نے باہر نکلتے ہی بچہ دیا مگر بستی کے لوگوں نے اتنے بڑے معجزے کو دیکھ کر ایمان لانے کے بجائے اونٹنی کے پیروں کو کاٹ دیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ غضبناک ہوئے اور ان پر ایک چنگھاڑ کو مسلط کر دیا۔ فرشتے نے چیخ ماری اور اس چیخ کی وجہ سے بستی کے لوگوں کے بھیجے اور دماغ پھٹ گئے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قومِ لوط کا ذکر کیا۔ قومِ لوط کے لوگ ہم جنس پرستی کی عادتِ بد کا شکار تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قومِ لوط کے پاس عذاب والے فرشتے بھیجے اور ان فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ بدکاروں کی اس بستی پر عذاب مسلّط کر دیں۔ فرشتوں نے بستی کو اپنے پروں پر اٹھاکر زمین پر پھینک دیا اور پوری بستی کو پتھروں سے کچل دیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قومِ مدین کا ذکر کیا جو شرک کی برائی کے ساتھ ساتھ ناجائز منافع خوری کا شکار تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر اسی طرح کی چیخ کو مسلّط کر دیا‘ جس چیخ کے ساتھ قوم ثمود تباہ ہوئی تھی۔
سورۂ یوسف
سورۂ ہود کے بعد سورۂ یوسف ہے۔ سورۂ یوسف میں اللہ تعالیٰ نے جناب یوسف علیہ السلام کے واقعے کو بیان کیا ہے۔ جناب یوسف علیہ السلام نے بچپن میں ایک خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے‘ سورج اور چاند انہیں سجدہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے والد گرامی پیغمبر ِ خدا حضرت یعقوب علیہ السلام سے اپنا یہ خواب بیان کیا‘ تو جناب یعقوب علیہ السلام نے فرمایا کہ اے بیٹے‘ آپ نے اپنا خواب اپنے بھائیوں کو بیان نہیں کرنا‘ اس لیے کہ وہ یہ خواب سننے کے بعد حسد کا شکار ہو جائیں گے۔
ادھر یہ معاملہ ہو رہا تھا‘ اُدھر جناب یوسف علیہ السلام کے سوتیلے بھائی آپس میں مشورہ کر رہے تھے کہ ہم جوان ہیں‘ لیکن بابا یعقوب‘ جناب یوسف ہی سے پیار کرتے ہیں‘ کیوں نہ کسی بہانے سے بھائی یوسف کو بابا سے علیحدہ کر دیا جائے تاکہ ہم ان کے منظورِ نظر بن سکیں۔ بھائی اکٹھے ہو کر جناب یعقوب علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا کہ آپ بھائی یوسف کو ہمارے ساتھ کیوں روانہ نہیں کرتے‘ وہ ہمارے ساتھ جنگل کی طرف جائیں اور ہم ان کے ساتھ کھیلیں۔ جناب یعقوب علیہ السلام نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم اپنے کاموں میں مصروف ہو جائواور کوئی بھیڑیا اس کو نہ کھا جائے۔ بھائیوں نے کہاکہ بابا ہم جوان ہیں اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمار ے ہوتے ہوئے کوئی بھیڑیا ہمارے بھائی کو کھا جائے۔ جناب یعقوب علیہ السلام نے ان یقین دہانیوں پر جناب یوسف علیہ السلام کو اپنے بیٹوں کے ساتھ روانہ کر دیا۔ جناب یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے جناب یوسف کو ایک کنویں میں پھینک دیا اور رات کے وقت روتے ہوئے جناب یعقوب علیہ السلام کے پاس آگئے کہ بھیڑیا یوسف علیہ السلام کو کھا گیا ہے۔ اس پر جناب یعقوب علیہ السلام نے کہا کہ میں صبر کروں گا‘ اللہ کو پتا ہے کہ حقیقت کیا ہے۔
جناب یوسف علیہ السلام جس کنویں میں موجود تھے‘ وہاں سے ایک قافلے والوں کا گزر ہوا‘ انہوں نے پانی نکالنے کے لیے کنویں میں ڈول ڈالا‘ جناب یوسف علیہ السلام ڈول سے لٹک کر کنویں سے باہر نکل آئے۔ اہل قافلہ مصر جا رہے تھے‘ انہوں نے جناب یوسف علیہ السلام کو مصر کے ایک بڑے گھرانے میں فروخت کر دیا۔ جناب یوسف علیہ السلام کی خوبصورتی اور وجاہت کو دیکھ کر اس گھر کے مالک‘ جو عزیز مصر تھا‘ نے اپنی اہلیہ کو کہا کہ جناب یوسف علیہ السلام کو اپنا بیٹا بنا لیں گے‘ امید ہے کہ یہ ہمیں فائدہ پہنچائیں گے۔
جناب یوسف علیہ السلام جب جوان ہوئے تو گھر کی مالکن ان پر بُری نظر رکھنے لگی اور ایک دن اس نے ان کو بُرائی کی دعوت دی‘ جس کو جناب یوسف علیہ السلام نے ٹھکرا دیا۔ اس عورت نے جناب یوسف علیہ السلام پر بُرائی کا الزام لگا دیا لیکن اللہ نے محل میں ایک بچے کو قوتِ گویائی عطا کر کے جناب یوسف علیہ السلام کو اس الزام سے بری کرا دیا۔
عزیز مصر کی بیوی فتنے کا شکار تھی‘ اس نے جناب یوسف علیہ السلام کو مصر کی دیگر عورتوں سے مل کر فتنے کا نشانہ بنانا چاہا تو جناب یوسف علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگی کہ اللہ! مجھے برائی سے بچا کر جیل میں پہنچا دے۔ اللہ نے جناب یوسف علیہ السلام کی دعا کو قبول فرما کر ان کو جیل میں پہنچا دیا۔ جیل میں آپ کی ملاقات دو قیدیوں سے ہوئی۔ ان دونوں قیدیوں نے اپنے خواب‘ حضرت یوسف علیہ السلام کو بتلائے۔ ایک قیدی نے خواب دیکھا کہ وہ انگوروں کو نچوڑ رہا ہے جبکہ دوسرے قیدی کو خواب آیا کہ اس کے سر پر روٹیاں ہیں‘ جن سے پرندے کھانا کھا رہے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے پہلے تو قیدیوں کوتوحید کی دعوت دی اور اس کے بعد فرمایا کہ ایک آدمی بادشاہ کا ساقی بنے گا‘ جبکہ دوسرے کو پھانسی ہو جائے گی‘ جس آدمی نے بادشاہ کا ساقی بننا تھا‘ اس کو جناب یوسف علیہ السلام نے کہا کہ بادشاہ کو بتلانا کہ جیل میں ایک بے گناہ قیدی پڑا ہے‘ لیکن آزاد ہونے والا قید ی یہ بات بھول گیا اور جناب یوسف علیہ السلام کئی برس تک جیل میں قید رہے۔
اسی اثنا میں بادشاہِ وقت نے ایک خواب دیکھا کہ سات پتلی گائیں سات موٹی گائیوں کو کھا رہی ہیں اور سات سرسبز بالیاں ہیں اور سات خشک بالیاں ہیں۔ اس پر بادشاہ کے ساقی کو جناب یوسف علیہ السلام کی یاد آئی۔ اس نے کہا کہ بادشاہ سلامت! جیل خانے میں ایک بہت بڑا عالم فاضل قیدی ہے‘ جو اس کی صحیح تعبیر بتلا سکتا ہے۔ جناب یوسف علیہ السلام سے جب تعبیر پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ آنے والے سات سال قحط سالی کے ہو ں گے اور اس کے بعد خوشحالی اور ہریا لی ہو گی۔ جناب یوسف علیہ السلام کی تعبیر سننے کے بعد بادشاہ نے کہا کہ انہیں جیل سے بلایا جائے۔ جناب یوسف علیہ السلام نے کہا کہ جب تک میری علانیہ بے گناہی ثابت نہیں ہو گی‘ میں جیل سے نہیں نکلوں گا۔ جناب یوسف علیہ السلام کے مطالبے پر عزیزِ مصر کی بیوی نے برملا جناب یوسف علیہ السلام کو پاک دامن قرار دیا۔ جس کے بعد جنابِ یوسف علیہ السلام جیل سے باہر آنے پر آمادہ ہو گئے۔ جنابِ یوسف علیہ السلام کا باقی واقعہ تیرہویں پارے میں بیان ہو گا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں قرآن مجید فرقانِ حمید پڑھنے‘ سمجھنے اور اس میں بیان کردہ واقعات سے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق دے، آمین!

اس پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو غیب کی خبر سے مطلع فرمایا کہ جب آپ سفرِ جہاد سے واپس مدینہ طیبہ پہنچیں گے تو بغیر کسی عذر کے جہاد سے پیچھے رہ جانے والے منافقین جھوٹی قسمیں کھا کر اپنے عذر پیش کریں گے‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ بہانے بنانے کی ضرورت نہیں ہے‘ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تمہارے حالات سے مطلع فرما دیا۔ یہ واقعہ غزوۂ تبوک سے پیچھے رہنے والوں کا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ ان سے صرفِ نظر کریں یہ ناپاک لوگ ہیں اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ آیت 98 سے عرب کے دیہاتی لوگوں کے دو طبقوں کا بیان ہوا‘ ایک وہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو تاوان سمجھتے ہیں اور مسلمانوں پر برے دن آنے کے منتظر رہتے ہیں اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو اِسے اللہ تعالیٰ کی رِضا اور نبیﷺ کی نیک دعاؤں کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ آیت 100 میں اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے میں پہل کرنے والے مہاجرین و انصار اور نیکی کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والوں کو اپنی رضا مندی کی قطعی سند عطا فرمائی اور ان کیلئے جنت کی دائمی نعمتوں کی بشارت سنائی۔ آیت 103 میں فرمایا: (اے رسول!) مسلمانوں کے مال داروں سے زکوٰۃ لیجئے تاکہ اس کے ذریعے آپ انہیں پاک کریں اور ان کا تزکیہ کریں‘ بے شک آپ کی دعا ان کے لیے سکون کا سبب ہے۔ آیت 107 میں ''مسجد ضرار‘‘ کا ذکر ہے‘ منافقین نے حضورﷺ کو اس میں نماز پڑھنے کی دعوت دی تا کہ یہ مستند ہو جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کو منع فرما دیا اور بتایا کہ یہ مسجد مسلمانوں کو ضرر پہنچانے‘ کفر پھیلانے‘ اہلِ ایمان کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے‘ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے والوں کیلئے سازشوں کا مرکز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کو واپسی کے سفر میں مسجدِ قبا میں قیام کا حکم دیا‘ جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے اور جس میں اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندے نماز پڑھتے ہیں‘ منفی مقاصد کے لیے بنائی ہوئی مسجد اس کے برابر نہیں ہو سکتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات بظاہر نیک کام اگر منفی مقاصد کیلئے کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اسے قبولیت نہیں مل سکتی۔ آیت 111 میں فرمایا کہ اہلِ ایمان نے اپنی جان و مال اللہ کو فروخت کر دی ہے‘ اللہ تعالیٰ انہیں جنت کی نعمت عطا فرمائے گا۔ آیت 112 میں اہلِ ایمان کی صفات بیان ہوئی ہیں۔ آیت 118 میں غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے تین صحابہ (کعب بن مالک‘ ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہم) کی توبہ کی قبولیت کا بیان ہے۔ آیت 122 میں بیان کیا کہ سارے مسلمان اپنے سارے مشاغل کو چھوڑ کر اپنے آپ کو دین کیلئے وقف نہیں کر سکتے‘ پس ضرور ی ہے کہ ہر علاقے اور طبقۂ زندگی میں سے کچھ لوگ دین کی راہ میں نکل کھڑے ہوں اور دین میں مہارت حاصل کریں تا کہ وہ اپنی قوم کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں‘ یعنی یہ پورے معاشرے پر فرضِ کفایہ ہے۔ آیت 124 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وحی نازل ہونے سے مخلص مومنوں کے ایمان کو تقویت ملتی ہے اور منافقین اور منکرین کے کفراور نفاق کی بیماری میں اضافہ ہوتا ہے۔
سورۂ یونس: اس سورت کی آیت 5 میں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے سورج کو روشنی دینے والا بنایا اور چاند کو روشن بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں‘ تاکہ برسوں کا حساب ہو سکے۔ آیت 11 میں بتایا کہ لوگ دنیا کے مفادات طلب کرنے میں جتنی جلدی کرتے ہیں‘ اگر اللہ تعالیٰ ان کی بداعمالیوں کی سزا میں اتنی ہی جلدی فرمائے‘ تو ان کی موت جلد آ جائے لیکن انہیں مہلت دی جاتی ہے۔ آیت 15 میں بتایا کہ منکرینِ آخرت کے سامنے جب آیاتِ قرآنی کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں آپ اس کے علاوہ کوئی اور قرآن لے آئیں یا اس کو تبدیل کر دیں تواللہ تعالیٰ نے فرمایا (اے رسول!) آپ ان سے کہہ دیں کہ مجھے اپنی جانب سے اس میں تبدیلی کا کوئی اختیار نہیں ہے‘ میں تو صرف وحیِ ربانی کی پیروی کرتا ہوں۔ آیت 18 میں فرمایا کہ مشرک اللہ کو چھوڑ کر ایسے باطل معبودوں کو پوجتے ہیں جو انہیں نفع و نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں۔ آیت 22 میں اللہ تعالیٰ نے اپنی مختلف نعمتوں کا ذکر فرمایا۔ آیت 26 میں بتایا کہ قیامت کے روز نیک اَعمال کرنے والوں کو بہترین جزا ملے گی اور برائی کا ارتکاب کرنے والوں کے چہرے سیاہ ہوں گے۔ آیت 57 میں قرآنِ مجید کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے ایک عظیم نصیحت آئی ہے‘ جو دلوں کی بیماریوں کے لیے شفا ہے اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔ آیت 63 میں اولیاء اللہ کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ انہیں نہ کسی آنے والی بات کا خوف ہو گا اور نہ ہی کسی گزری ہوئی بات کا رنج وملال‘ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور ہمیشہ تقویٰ پر کاربند رہے‘ ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بشارت ہے اور آخرت میں بھی‘ اللہ کے کلمات میں تبدیلی نہیں ہوتی اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ آیت 68 میں فرمایا کہ ان منکروں نے کہا کہ اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے‘ اللہ اس سے پاک ہے اور آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے وہ اس سے بے نیاز ہے‘ تو کیا اس باطل دعوے کی ان کے پاس کوئی دلیل ہے؟ آیت 71 سے حضرت نوح علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا جا رہاہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ میرا تمہارے درمیان رہنا اور تمہیں اللہ کی آیتوں کے ساتھ نصیحت کرنا کیوں ناگوار ہے جبکہ میں نے تواللہ پر توکل کیا ہے اور تم سے دعوتِ حق کے صلے میں کسی اجر کا طلبگار بھی نہیں ہوں۔ ''انہوں نے نوح علیہ السلام کو جھٹلایا‘ ہم نے نوح اور ان کے پیروکاروں کو نجات دے دی اور آیاتِ الٰہی کو جھٹلانے والوں کو طوفان میں غرق کر دیا۔ اس کے بعد ہم نے موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو فرعون اور اس کی قوم کیلئے بھیجا‘ انہوں نے قبولِ حق سے تکبر کیا اور وہ مجرم لوگ ہیں‘‘۔ قومِ فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کو جادو قرار دیا اور کہا کہ آپ ہمیں آبائو اجداد کے دین سے پھیرنا چاہتے ہیں اور زمین پر اپنی سرداری چاہتے ہیں‘ اس کے بعد جادوگروں سے موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے کا ذکر ہے‘ جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ہم نے موسیٰ وہارون علیہما السلام کوحکم دیا کہ مصر میں اپنی قوم کیلئے گھر بناؤ اور اپنے گھروں کو عبادت گاہ بناؤ اور نماز قائم کرو‘ یہ حکم اس لیے ہوا کہ بنی اسرائیل کیلئے فرعونیوں کے جبر کی وجہ سے کھلے عام عبادت کرنا مشکل تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے التجا کی فرعون اور درباریوں کو چونکہ مال و دولت اور دنیا کی زینت میسر ہے اور اس کے ذریعے وہ لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں‘ تو اے اللہ! توان کے مالوں کو تباہ کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے تاکہ وہ درد ناک عذاب سے دوچار ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ میں نے تمہاری دعا قبول کر لی ہے‘ آپ دونوں ثابت قدم رہیں اور جاہلوں کی پیروی نہ کریں۔ آیت 90 سے بیان کیا کہ ہم نے بنی اسرائیل کو سلامتی کے ساتھ سمندر پار کرا دیا اور فرعون اور اس کا لشکر عداوت اور سرکشی میں ان کے تعاقب میں آئے‘ یہاں تک کہ جب سمند ر میں غرق ہونے لگے تو فرعون نے کہا میں اُس ہستی پر ایمان لایا‘ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور جس کے سوا کوئی بھی مستحقِ عبادت نہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ حدیث پاک میں ہے کہ اللہ تعالیٰ سکراتِ موت‘ موت اور غرغرہ کی کیفت طاری ہونے سے پہلے تک اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے‘ لیکن اس مرحلے پر توبہ قبول نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کو فرمایا کہ آج ہم تیرے (بے جان) جسم کو بچا لیں گے تاکہ تم بعد میں آنے والوں کیلئے نشانِ عبرت بنے رہو۔ قرآن کا یہ معجزہ آج بھی سچا ہے کہ مصرکے فرعون کی حنوط شدہ مورتیاں آج بھی موجود ہیں۔
آیت 96 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن پر اللہ کے عذاب کا فیصلہ صادر ہو چکا ہو‘ وہ ایمان سے محروم رہتے ہیں‘ خواہ ان کے پاس ساری نشانیاں آ جائیں۔ آیت 104 میں اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ سے فرمایا کہ آپ کفارِ مکہ سے کہہ دیں کہ اگر تمہیں میرے دین میں کوئی شک ہے‘ تو میں کسی بھی صورتِ حال میں تمہارے باطل معبودوں کی عبادت نہیں کروں گا بلکہ میں اس اللہ کی عبادت کروں گا جو تمہاری روحیں قبض کرتا ہے‘ یعنی جس کے قبضۂ قدرت میں تمہاری جان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ کے سوا کسی ایسے باطل معبود کی عبادت نہ کرو جو تمہارے نفع و نقصان پر قادر نہ ہو‘ اگر (بالفرض) آپ نے ایسا کیا تو آپ ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔ آیت 107 سے فرمایا کہ ہر چیز اللہ کی قدرت و اختیار میں ہے‘ اگر وہ کسی کو تکلیف پہنچانا چاہے تو کوئی بچانے والا نہیں اور اگر وہ کسی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے‘ تو کوئی اس کے فضل کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتا‘ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے‘ اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ بہت بخشنے والا‘ مہربان ہے۔

گیارہویں پارے کا آغاز سورۂ توبہ سے ہوتا ہے۔ سورۃ التوبہ میں اللہ تعالیٰ نے مہاجر اور انصار صحابہ کرامؓ میں سے ایمان پر سبقت لے جانے والے صحابہ کرام کا ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو ااور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوئے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے لیے اپنی جنتوں کو تیار کر دیا ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور یہ بہت بڑا اجر ہے۔ اس پارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس حقیقت کا بھی ذکر کیا کہ مدینہ میں رہنے والے بہت سے لوگ منافق ہیں اور بہت سے لوگ منافقت کی موت مر رہے ہیں؛ اگر چہ رسول اللہﷺ ان کو نہیں جانتے مگر اللہ تعالیٰ ان سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں ایسے لوگوں کو عام لوگو ں کے مقابلے میں دُگنا عذاب دوں گا۔
گیارہویں پارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان منا فقین کا ذکر کیا ہے‘ جو بغیر کسی سبب کے جنگِ تبوک میں شریک نہ ہوئے۔ ان منافقوں کے ذہن میں یہ بدگمانی موجود تھی کہ مسلمان تبوک کے محاذ پر شکست سے دوچار ہوں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہلِ ایمان کی مدد فرمائی اور اپنے فضلِ خاص سے ان کو فتح یاب فرما دیا۔ اللہ تعالیٰ نے پیشگی اپنے نبیﷺ کو اس بات کی اطلاع دی تھی کہ آپﷺ ان کے پاس پہنچیں گے تو وہ آپ کے سامنے عذر پیش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیبﷺ پر اس وحی کو نازل کیا کہ آپ انہیں کہیں کہ بہانے نہ بنائو‘ ہم تم پر یقین نہیں کریں گے، اللہ نے تمہاری خبریں ہم تک پہنچادی ہیں اور آئندہ بھی اللہ اور اس کے رسولﷺ تمہاری حرکتوں پر نظر ر کھیں گے‘ پھر تم اس ذات کی طرف لوٹائے جائو گے‘ جو حاضر اورغائب‘ سب کا جاننے والا ہے تو وہ تمہیں تمہارے اعمال کی اصلیت سے آگاہ کر دے گا۔
اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکرکیا ہے کہ نیکی کرنے والوں نے اگر اللہ کی راہ میں کوئی چھوٹی بڑی رقم خرچ کی یا کسی وادی (سفر) کو طے کیا تو اس عمل کو ان کے نامہ اعمال میں لکھ دیا گیا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے کاموں کا ان کو اچھا بدلہ عطا فرمائے۔ رسول اللہﷺ نے غزوۂ تبوک کے موقع پر صحابہ کرامؓ سے مالی تعاون کا تقاضا کیا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سات سو اونٹ مع سامان‘ اللہ کے راستے میں خرچ کر دیے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے مال کا نصف حصہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے راستے میں وقف کر دیا جبکہ جنابِ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنا سارا مال رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ رسول اللہﷺ نے پوچھا: گھر میں کیا چھوڑ کر آئے ہو؟ تو جنابِ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: گھرمیں اللہ اور اس کے رسولﷺ (کی محبت) کو چھوڑ کر آیا ہوں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کے بدلے جنت کا سودا کر لیا ہے، وہ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں‘ اللہ کے دشمنوں کو مارتے ہیں اور خود بھی اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتل ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس تجارت کو انتہائی فائدہ مند تجارت قرار دیا ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ کے بعض امتیازی اوصاف کا بھی ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین توبہ کرنے والے‘ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے‘ اللہ کی حمد کرنے والے‘ زمین میں پھرنے والے‘ اللہ کے سامنے جھکنے والے‘ اس کی بارگاہ میں سجدہ کرنے والے‘ نیکی کا حکم دینے والے‘ برائی سے روکنے والے اور اللہ تعالیٰ کی حدود کی حفاظت کرنے والے تھے اور ایسے ہی مومنوں کے لیے خوش خبری ہے۔ اس پارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے دینی علم کو بھی فرضِ کفایہ قرار دیا اور ارشاد ہوا کہ تمام مومنوں کے لیے ضروری نہیں کہ اپنے آپ کو دینی تعلیم کے لیے وقف کریں بلکہ مسلمانوں کو چاہیے کہ ہر گروہ میں سے کچھ لوگ اپنے آپ کو دینی تعلیم کے لیے وقف کریں تاکہ جب اپنی قوم کی طرف واپس پلٹیں تو ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرا سکیں۔
اس سورہ مبارکہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کی صفات کا ذکرکیا کہ تم میں سے ایک رسول تمہارے پاس آیا جو کافروں پر زبردست ہے‘ مسلمانوں پر حریص ہے کہ وہ جنت میں چلے جائیں اور مومنوں پر رحم کرنے والا ہے۔ پس‘ اگر وہ رسول اللہﷺ کی ذات اور ان کے پیغام سے رو گردانی کریں تو رسول اللہﷺ اعلان فرما دیں کہ میرے لیے اللہ کافی ہے‘ جس کے سوا کوئی معبود نہیں اس پر میرا بھروسہ ہے اور وہ عرشِ عظیم کا پروردگار ہے۔
سورۂ یونس
سورۃ التوبہ کے بعد سورۂ یونس ہے اوراس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے فرعون کا ذکر کیا ہے کہ اس کے خوف کی وجہ سے بنی اسرائیل کے لوگ ایمان لانے سے کتراتے تھے۔ بنی اسرائیل کی مرعوبیت دیکھ کرحضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا مانگی ''اے ہمارے پروردگار! تو نے فرعون اور اس کے مصاحبوں کو دنیا کی زینت اور مال عطا کیا ہے‘ تاکہ وہ لوگوں کو تیرے راستے سے برگشتہ کریں۔ اے پروردگار! تو ان کے مال اور دولت کو نیست و نابود فرما اور ان کے دلوں کو سخت بنا‘ تاکہ اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک کہ دردناک عذاب کو نہ دیکھ لیں‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعاکو قبول فرما لیا اور ہر طرح کا عذاب دیکھنے کے باوجود بھی فرعون ہدایت کو قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوا یہاں تک کہ جب موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے لوگوں کو لے کر نکلے تو اس نے اپنے لشکر سمیت ان کا تعاقب کیا۔
جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام معجزانہ طور پر سمندرکو پار کر گئے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے سمندر کی لہروں کو آپس میں ملا دیا۔ فرعون سمندرکے وسط میں غوطے کھانے لگا۔ اس حالت میں فرعون نے پکار کر کہا ''میں ایمان لایا کہ کوئی معبود نہیں‘ اس کے سوا کہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اورمیں فرمان برداروں میں سے ہوں‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرعون کے ایمان کو قبول کرنے سے انکارکر دیا اور کہا کہ کیا اب ایمان لائے ہو؟ اس سے پہلے تک تو تُو نافرمانی اور فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا۔ پس آج ہم تیرے جسم کو سمندرسے نکال لیں گے تا کہ تو اپنے بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے اللہ کے عذاب کی نشانی بن جائے اور بہت سے لوگ ہماری آیات سے غافل ہیں۔ اس واقعے سے ہمیں نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ انسان کو دنیا اور اقتدار کے نشے میں اندھا ہوکر اپنے انجام اور آخرت کو فراموش نہیں کر دینا چاہیے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ بڑی شدید ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کیا انسانوں کے لیے یہ تعجب کی بات ہے کہ انہی میں سے ایک مرد پر وحی کو نازل کیا جائے‘ جو اللہ تعالیٰ کی وحی کے ذریعے ان کو ڈرائے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کو روشنی عطا کی اور چاند کی منازل کو بھی طے کیا تاکہ تم اس کے ذریعے سالوں اور مہینوں کا حساب لگائو۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ بے شک زمین اور آسمان کی تخلیق اور رات اور دن کے آنے جانے میں اللہ سے ڈر نے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو مخاطب ہو کر کہا کہ اے لوگو! تم تک تمہارے رب کی نصیحت آ پہنچی ہے‘جو شفا ہے‘ سینے کی بیماریوں کے لیے اور ہدایت اور رحمت ہے اہلِ ایمان کے لیے۔ اے حبیبﷺ! اعلان فرمائیں‘ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے اہلِ ایمان کو خوش ہو جانا چاہیے اور یہ قرآنِ مجید ہر اس چیز سے بہتر ہے‘ جسے تم اکٹھا کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ ''خبردار! اللہ کے دوستوں کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ کوئی غم‘‘ اور ان کی نشانی یہ ہے کہ وہ ایمان والے اور تقویٰ کو اختیار کرنے والے ہوں گے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے قوم یونس علیہ السلام کا بھی ذکر کیا ہے کہ جب یونس علیہ السلام اپنی قوم کی نافرمانیوں پر ناراض ہوکر ان کو خیرباد کہہ دیتے ہیں تو وہ اللہ کی بارگاہ میں آکر باجماعت اپنے گناہوں پر معافی مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اجتماعی توبہ اور استغفار کی وجہ سے ان کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ جب بھی اللہ تعالیٰ کسی قوم پر ناراض ہو جائیں اور وہ اللہ کی خوشنودی کے لیے اجتماعی توبہ کا راستہ اختیارکرے تو اللہ تعالیٰ اس کی خطاؤں کو معاف فرما دیتا ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں بھی اپنی بارگاہ میں اجتماعی توبہ کرنے کی توفیق دے‘ تا کہ ہماری اجتماعی مشکلات کا خاتمہ ہو سکے۔ اللہ ہمیں قرآنِ پاک میں مذکور مضامین سے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق دے، آمین!

دسویں پارے کے شروع میں کفار پر غلبے کی صورت میں حاصل شدہ مالِ غنیمت کا حکم بیان کیا گیا ہے کہ اس کے چار حصے مجاہدین کے درمیان تقسیم ہوں گے اور پانچواں حصہ اللہ اور رسولؐ اور (رسولؐ کے) قرابت داروں‘ یتیموں‘ مسکینوں اور مسافروں کیلئے ہے‘ یعنی یہ اللہ کے رسولﷺ کی صوابدید پر ہو گا۔ آیت 42 میں بتایا کہ میدانِ بدر میں مسلمان مجاہدین کی زمینی پوزیشن کفار کے مقابلے میں بظاہر کمزور تھی‘ جس کی وجہ سے مسلمانوں کے دلوں میں خدشات پیدا ہوتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: (یہ اس لیے ہوا) کہ اللہ تعالیٰ اپنے طے شدہ فیصلے کو نافذ کر دے‘ یعنی ظاہری کمزوری کے باوجود مسلمانوں کا غلبہ اور فتح مقدر کر دے اور اللہ تعالیٰ جو فیصلہ فرما دیتا ہے‘ وہ نافذ ہو کر رہتا ہے۔ آیت 54 میں بتایا کہ آلِ فرعون اور پچھلی امتیں آیاتِ الٰہی کو جھٹلانے کے جرم میں ہلاک کی گئیں۔ آیت 60 میں فرمایا کہ دشمن کے مقابلے میں اپنی پوری دستیاب قوت اور اسباب کے ساتھ تیار رہو‘ اس کے ذریعے تم اللہ اور اپنے دشمنوں کو ڈرا سکو گے۔ آیت 63 میں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور اگر تم زمین کے سارے خزانے بھی خرچ کرتے تو یہ باہمی الفت تمہارے اندر پیدا نہ ہوتی، اور فرمایا: اے نبی! آپ کو اللہ کافی ہے اور آپؐ کے تابع فرمان مومنوں کی جماعت کو کافی ہے۔ آیت 65 سے نبی کریمﷺ کو حکم ہوا کہ مومنوں کو جہاد پر ابھاریے‘ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے سے دس گنا تعداد پر مشتمل کافروں پر فتح عطا فرمائے گا‘ پھر بعد میں جب مسلمانوں میں کمزوری آئی تو فرمایاکہ اللہ تعالیٰ تمہیں دشمنوں کی دگنی تعداد پر فتح عطا فرمائے گا۔ آیت 72 میں بتایا کہ جان و مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومنین مہاجرین اور انصار صحابۂ کرام ایک دوسرے کے دوست ہیں۔
سورۃ التوبہ: سورۂ انفال اور سورۂ توبہ کے مضامین چونکہ باہم مربوط ہیں‘ اس لیے ان دونوں کے درمیان فـصل کیلئے بسم اللہ نہیں لکھی جاتی۔ اس سورت کی پہلی آیت میں مشرکینِ عرب سے برأت کا اعلان کرتے ہوئے انہیں مسلمانوں سے فیصلہ کن جنگ کرنے یا اسلام قبول کرنے کیلئے چار مہینے کا ٹائم دیا گیا اور جن کفار کے ساتھ مسلمانوں کا پہلے سے کوئی معاہدہ ہے‘ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف کسی دشمن کی مدد بھی نہیں کی‘ تو مقررہ مدت تک مسلمان یکطرفہ طور پر معاہدے کو نہ توڑیں، پھر فرمایا کہ چار مہینے کا نوٹس پیریڈ گزرنے کے بعد مسلمان مشرکینِ عرب کے خلاف کریک ڈائون کریں‘ ان کا مکمل محاصرہ کریں اور وہ جہاں بھی ملیں‘ انہیں کیفرِ کردار تک پہنچائیں۔ آیت 8 میں بتایا کہ کفار مسلمانوں کے ساتھ منافقانہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور اگراُن کی اَخلاقی حالت یہ ہے کہ وہ مسلمانوں پر خدا نخواستہ غالب آ جائیں تو قرابت داری کا بھی پاس نہ کریں۔ آیت 23 میں حکم ہوا کہ تمہارے باپ‘ دادا اور بھائیوں میں سے جو کفر کو ایمان پر ترجیح دیں‘ ان سے تعلق توڑ دو اورکافروں سے دوستی کرنے والا ظالم ہے۔ آیت 24 میں ان تمام چیزوں کا یکے بعد دیگرے ذکر فرمایا جن سے انسان کو فطری اور طبعی طور پر محبت ہوتی ہے‘ یعنی باپ دادا‘ اولاد‘ بھائی بہن‘ بیویاں یا شوہر‘ کنبہ اور قبیلہ‘ کمایا ہوا مال اور تجارت‘ جس کے خسارے کا کھٹکا لگا رہتا ہے اور پسندیدہ مکانات‘ ان سب چیزوں کی محبت اپنے اپنے درجے میں مسلَّم‘ لیکن اگر یہ سب چیزیں مل کر بھی تمہارے لیے اللہ‘ اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب ہو جائیں‘ (تو ایمان کا دعویٰ تو دور کی بات ہے) پھر تمہیں اللہ کے عذاب کا انتظار کرنا چاہیے۔ آیت 25 میں غزوۂ حنین کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ بعض اوقات کثرتِ تعداد پر اترانا اور نازاں ہونا بھی شکست کا باعث بن جاتا ہے‘ یہی مسلمانوں کے ساتھ غزوۂ حنین میں ہوا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مومنوں پر قلبی سکون نازل کیا اور غیبی لشکروں سے ان کی مدد فرمائی۔ آیت 30 میں بتایا کہ یہود نے عزیرؑ کو اللہ کا بیٹا کہا اور نصاریٰ نے مسیحؑ کو اللہ کا بیٹا کہا‘ مگر یہ سب ان کی خود ساختہ باتیں ہیں‘ ان پر اللہ کی مار ہے۔ مزید فرمایا کہ نصاریٰ نے اپنے علماء اور راہبوں کو خدا بنا لیا ہے اور مسیح ابن مریم کو بھی؛ حالانکہ انہیں وحدہٗ لاشریک اللہ کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا۔ آگے چل کر فرمایا کہ منکر اپنی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں‘ مگر اللہ ان کی خواہش کے برعکس اس نور کو مکمل فرمائے گا اور اللہ نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے‘ تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے۔ آیت 34 میں سونا اور چاندی (یعنی دنیاوی دولت) ذخیرہ کرنے والوں اور راہِ خدا میں خرچ نہ کرنے والوں کو درد ناک عذاب کی وعید سنائی ہے اور پھر بتایا کہ قیامت کے دن ان کے اپنے جمع کیے ہوئے مال کو نارِ جہنم میں تپا کر اُس سے اُن کی پیشانیوں‘ پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اپنے ہی جمع کیے ہوئے مال کا مزہ چکھو۔ آیت 36 میں بتایا کہ ابتدائے آفرینش سے اللہ کی کتابِ تقدیر میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے‘ اُن میں سے چار (ذوالقعدہ‘ ذوالحجہ‘ محرم اور رجب المرجب) حرمت والے ہیں‘ ان مہینوں میں جنگ کو ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ کفارِ مکہ جب ان مہینوں میں جنگ کرنا چاہتے تو ان کی ترتیب میں رَدّ و بدل کر دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مہینوں کو مؤخر کرنا کفر میں زیادتی ہے۔
آیت 40 میں سفرِ ہجرت کے موقع پر غارِ ثور میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رفاقتِ خاص کو ایک شانِ امتیازی کے ساتھ بتایا اور اس آیت میں چھ مرتبہ مختلف انداز میں سیدنا صدیق اکبرؓ کا ذکر ہوا، پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کلمۂ کفر کو پست رکھا اور اللہ کا دین ہی سربلند ہے۔ آگے فرمایا کہ جب جہاد کیلئے عام لام بندی کا حکم ہو جائے تو پھر جس حال میں بھی ہو‘ تمام وسائل کے ساتھ جہاد میں شریک ہو جائو۔ پھر فرمایا کہ منافقین قسمیں کھا کھا کر اور طرح طرح کے بہانے بنا کرجہاد سے پہلو تہی اختیار کریں گے‘ جبکہ سچے مومن دل و جان سے جہاد کیلئے نکل کھڑے ہوں گے۔ مزید فرمایا کہ جہاد سے پہلوتہی اختیار کرنے والے وہی لوگ ہیں‘ جن کا اللہ اور قیامت پر ایمان نہیں اور جن کے دلوں میں شک کی بیماری ہے‘ ایسے تشکیک کے مارے جنگ میں شامل بھی ہو جائیں تو فساد کا باعث بنتے ہیں اور مجاہدین کی صفوں میں فتنے اور سازشیں کرتے ہیں اور یہ لوگ پہلے بھی ایسا کرتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''اے رسولؐ! کہہ دیجئے کہ ہمیں ہرگز کوئی مصیبت نہیں پہنچتی‘ سوائے اس کے جو اللہ نے ہمارے لیے مقدر کر دی ہے‘‘۔ آیت 60 میں اللہ تعالیٰ نے صدقاتِ واجبہ اور زکوٰۃ کے مصارف (مستحقین) کو قطعیت کے ساتھ بیان کیا‘ جو یہ ہیں: فقراء‘ مساکین‘ عاملینِ زکوٰۃ‘ مؤلَّفَۃُ القلوب‘ غلامی سے گردن کو آزاد کرنا‘ جو قرض کے بار تلے دبے ہوئے ہوں‘ فی سبیل اللہ (یعنی جنہوں نے اپنے آپ کو کل وقتی طور پر اللہ کے دین کی کسی خدمت کیلئے وقف کر رکھا ہو) اور مسافر۔ آیت61 میں فرمایا کہ بعض منافق اللہ کے نبی کو ایذا پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ کانوں کے کچے ہیں‘ جبکہ نبی کریمﷺ کا تمام لوگوں کی بات سننا مومنین کیلئے باعثِ رحمت ہے اور جو لوگ رسول کریمﷺ کو ایذا پہنچاتے ہیں‘ ان کیلئے درد ناک عذاب ہے۔ فرمایا ''منافق جھوٹی قسمیں کھا کر مسلمانوں کو راضی کرنے کا یقین دلاتے ہیں، اگر وہ سچے مومن ہوتے تو اللہ اور اس کا رسول اس کے زیادہ حق دار ہیں کہ انہیں راضی کیا جائے‘‘۔ آیت 67 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ منافق مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے مشابہ ہیں‘ وہ برائی کا حکم دیتے ہیں اور نیکی سے روکتے ہیں اور خیر کے کاموں سے اپنا ہاتھ روکے رکھتے ہیں۔ آگے چل کر فرمایا کہ مومن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں‘ وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں‘ برائی سے روکتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘ زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں۔ آیت 73سے فرمایا کہ کفار اور منافقین سے جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے‘ یہ کلمۂ کفر کہتے ہیں اور پھر قسمیں کھا کر منکر ہو جاتے ہیں۔ آیت 75 میں فرمایا کہ بعض منافق وہ ہیں‘ جو اللہ تعالیٰ سے عہد کرتے ہیں کہ اگر اللہ نے اپنے فضل سے ہمیں عطا کیا ‘تو ہم ضرور صدقہ کریں گے‘ پس جب اللہ نے اپنے فضل سے انہیں مال عطا کیا تو انہوں نے بخل کیا اور رُوگردانی کی۔ آیت 78 میں اللہ تعالیٰ نے متنبہ فرمایا کہ اللہ دلوں کے رازوں اور سرگوشیوں کو بھی جانتا ہے اور وہ غیبی باتوں کو بہت زیادہ جاننے والا ہے۔ آیت 79 میں منافقوں کا ایک شِعار یہ بتایا کہ نادار مومنین جب اپنی محنت کی کمائی سے تھوڑا سا مال صدقہ کرتے ہیں تو یہ منافق ان پر طَعن کرتے ہیں اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں‘ (اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ) اللہ ان کو ان کے مذاق کی سزا دے گا۔

دسویں پارے کا آغاز سورۂ انفال سے ہوتا ہے۔ اس پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے مالِ غنیمت کی تقسیم کا ذکر کیا ہے کہ اس مالِ غنیمت میں اللہ اور اس کے رسول کا صوابدیدی اختیار پانچویں حصے کا ہے؛ یعنی رسول اللہﷺ کو یہ اختیار حاصل تھا کہ آپ مالِ غنیمت کے پانچویں حصے کو اپنی مرضی کے ساتھ تقسیم کر سکتے تھے۔
دسویں پارے میں اللہ تعالیٰ نے بدر کے معرکے کا ذکر کیا ہے کہ شیطان لعین اس معرکے میں انسانی شکل میں موجود تھا اور کافروں کو لڑائی کے لیے اُکسا رہا تھا۔ سراقہ بن مالک کے روپ میں موجود شیطان کافروں کو یقین دلا رہا تھا کہ مسلمان کافروں پر غلبہ نہیں پا سکتے۔ جب اللہ تعالیٰ نے جبریل امین علیہ السلام کی قیادت میں فرشتوں کی جماعتوں کو اتارا تو شیطان فرشتوں کو دیکھ کر میدانِ بدر سے فرار ہو گیا۔ کفارِ مکہ نے اس سے پوچھا کہ سراقہ! تم تو ہمیں فتح کی نوید سنا رہے تھے‘ اب کہاں بھاگے جا رہے ہو‘ اس پر شیطان نے جواب دیا: میں وہ دیکھتا ہوں‘ جو تم نہیں دیکھتے‘ مجھے اللہ کا خوف دامن گیر ہے اور اللہ کی پکڑ بڑی شدید ہے۔
اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی متواتر بدعہدیوں اور خیانت کے بعد اس آیت کا نزول فرمایا کہ اگر آپ کو کسی قوم کی جانب سے خیانت کا ڈر ہو تو اس کا معاہدہ لوٹا کر حساب برابر کر دیجئے، بے شک اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس بات کی تلقین کی ہے کہ کافروں سے مقابلے کے لیے ہر ممکن طاقت اور گھوڑوں (فوجی ساز و سامان) کو تیار رکھیں۔ اس تیاری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے دشمن اور مسلمانوں کے دشمن مرعوب ہوں گے اور وہ (پوشیدہ) دشمن بھی جن کو مسلمان نہیں جانتے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے راستے میں مسلمان جو خرچ کریں گے‘ ان کو اس کا پورا پورا اجر ملے گا۔اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا ہے کہ مسلمان افرادی اعتبار سے کمزور بھی ہوں تو کفار پر غالب رہتے ہیں۔ ایک دور میں ایک مسلمان دس پر غالب آتا تھا۔ گزرتے دور میں مسلمان کی طاقت میں کمی آ گئی ہے‘ لیکن پھر بھی ایک مسلمان ہمیشہ دو کافروں پر بھاری رہے گا۔
سورۃ التوبہ
سورۃ الانفال کے بعد سورۂ توبہ ہے۔ سورۃالتوبہ قرآنِ مجید کی واحد سورت ہے‘ جس سے پہلے بسم اللہ مو جود نہیں ہے۔ اس کی دو وجوہ بیان کی گئی ہیں؛ اول تو یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سورہ مبارکہ کو غضب میں نازل کیا اور دوسری یہ کہ یہ سورت گزشتہ سورت یعنی سورۃالانفال کا ہی حصہ ہے۔ سورۂ توبہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: جو شخص نماز باقاعدگی سے ادا کرتا ہے اور زکوٰۃ صحیح طریقے سے دیتا ہے‘ ایسا شخص مسلمانوں کی جماعت سے منسلک ہے اور دینی اعتبار سے ان کا بھائی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ بعض کافر اس بات پر اتراتے تھے کہ ہم حرم کی صفائی کرتے ہیں اور حاجیوں کو ستو پلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حرم کعبہ اور حاجیوں کی خدمت سے کہیں زیادہ بہتر اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان لانا اور اس کی خوشنودی کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر تمہارے باپ‘ تمہارے بیٹے‘ تمہارے بھائی‘ تمہاری بیویاں‘ تمہارے قبیلے‘ تمہارے مال جو تم اکٹھا کرتے ہو‘ تمہاری تجارت جس کے نقصان سے تم ڈرتے ہو اور وہ گھر جن میں رہنا تمہیں مرغوب ہے‘ تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کے راستے میں کیے جانے والے جہاد سے زیادہ پسند ہیں تو انتظار کرو جب تک کہ اللہ کا عذاب نہیں آ جاتا۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے حنین کے معرکے کا بھی ذکر کیا ہے۔ مسلمانوں کا ہمیشہ یہ طرزِ عمل رہا کہ وہ قلتِ وسائل اور افرادی قوت میں کمی کے باوجود اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حکم پر ثابت قدم اور اللہ کی غیبی نصرت و حمایت کے طلبگار رہے‘ لیکن حنین کا معرکہ ایسا تھا جس میں مسلمانوں کی تعداد اور افرادی قوت بہت زیادہ تھی۔ اس تعداد کی کثرت اور فراوانی نے مسلمانوں کے دلوں میں ایک فخر کی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ جب مسلمان کافروں کے آمنے سامنے ہوئے تو ہوازن کے تجربہ کار تیر اندازوں نے یک لخت مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے؛ تاہم نبی کریمﷺ پورے وقار اور شجاعت کے ساتھ میدانِ جنگ میں ڈٹے رہے۔ رسول کریمﷺ کی استقامت کی وجہ سے مسلمان بھی دوبارہ حوصلے میں آ گئے اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی۔ مالکِ کائنات نے مسلمانوں کو کفار پر غلبہ عطا فرما دیا اور مسلمانوں کے دلوں میں یہ بات راسخ ہو گئی کہ جنگوں میں فتح وسائل کی کثرت اور فراوانی کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم اور اس کی مدد و نصرت کی وجہ سے ہوتی ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں اور نصرانیوں کے برے عقیدے کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یہودی ہرزہ سرائی کرتے ہیں کہ عزیرعلیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں اور عیسائی ہرزہ سرائی کرتے کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: یہ باتیں انہوں نے اپنی طرف سے گھڑی ہیں اور اللہ کی ان پر مار ہو جو یہ جھوٹ بولتے ہیں۔
اس پارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان لوگوں کو وعید سنائی ہے جو سونا چاندی جمع کرتے ہیں‘ مگر اس کو راہِ خدا میں خرچ نہیں کرتے۔ قیامت کے دن سونے اور چاندی کو آگ میں پگھلانے کے بعد ان کی پیشانیوں کو‘ پہلوئوں کو اور پشتوں کو داغا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ اس چیز کے سبب ہے جو تم اکٹھا کرتے تھے۔ پس اکٹھا کرنے کا مزا چکھ لو۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے مصارفِ زکوٰۃ کا بھی ذکر کیا کہ زکوٰۃ کے آٹھ مصارف ہیں۔ اس پر فقیروں کا حق ہے‘ مساکین کا حق ہے‘ زکوٰۃ اکٹھا کرنے والوں کا حق ہے‘ اسلام کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والوں کا حق ہے‘ قیدیوں کا حق ہے‘ تاوان کے تلے دبے ہوئے لوگوں کا حق ہے‘ مسافر کا حق ہے اور اللہ کے راستے میں اس کو خرچ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ منافق مرد اور عورت ایک دوسرے میں سے ہیں اور یہ بھی بتلایا کہ مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں‘ یعنی غلط عقائد اور اعمال والے لوگ ایک دوسرے کے ساتھی اور صحیح عقائد اور اعمال والے لوگ ایک دوسرے کے ساتھی ہوتے ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پاکﷺ کو اس بات کی تلقین کی کہ انہیں کافروں اور منافقوں کے ساتھ جہاد کرنا چاہیے۔ کافروں کے ساتھ جہاد تلوار کے ذریعے اور منافقوں کے ساتھ دلائل کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے بعض منافقین کے اعمال کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے وعدہ کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں مال دے گا تو ہم اس کے راستے میں خرچ کریں گے‘ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو مال دے دیا تو وہ بخل کرنا شروع ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے ایسے لوگوں کے دلوں میں نفاق لکھ دیا‘ اس دن تک جب ان کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملاقات ہو گی۔
اس سورت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے غزوۂ تبوک کے موقع پر فتنے کا عذر پیش کر کے پیچھے رہ جانے والے اس منافق گروہ کا بھی ذکر کیا جس نے ایک عذر پیش کر کے جہاد میں شرکت کرنے سے معذرت کی تو رسول کریمﷺ نے اس کو رکنے کی اجازت دے دی، اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے واضح کر دیا کہ درحقیقت بہانہ بنا کر پیچھے رہنے والے لوگ فتنے کا شکار ہو چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جہنم کو منکروں کیلئے تیار کر رکھا ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ سے فرمایا: (یہ منافق آپ کے گستاخ ہیں)، اِن کے لیے آپ کا استغفار کرنا ان کے کسی کام نہ آئے گا کیونکہ اگر آپ ان کے لیے ستر بار بھی استغفار کریں (تو ان کی شقاوتِ قلبی کی وجہ سے) اللہ تبارک و تعالیٰ ان کو ہرگز نہیں بخشے گا کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں دسویں پارے میں بیان کردہ مضامین کو سمجھنے اور ان سے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق دے، آمین!

نویں پارے کے شروع میں قومِ شعیب علیہ السلام کے سرکش سرداروں کی اس دھمکی کا ذکر ہے کہ اے شعیب! ہمارے دین کی طرف پلٹ آؤ‘ ورنہ ہم تمہیں اور تمہارے پیرو کاروں کو جلاوطن کر دیں گے۔ شعیب علیہ السلام نے اللہ سے التجاکی کہ اے اللہ! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے‘ پھر اُن پر قومِ ثمود کی طرح عذاب نازل ہوا اور وہ ایسے نیست ونابود ہوئے کہ جیسے کچھ تھاہی نہیں۔ آیت 96 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ان بستیوں والے ایمان لائے ہوتے اور تقویٰ کو اختیار کیا ہوتا تو ہم انہیں زمین و آسمان کی نعمتیں فراوانی سے عطا کر دیتے‘ لیکن حق کو جھٹلانے کے سبب وہ انجامِ بد سے دوچار ہوئے۔ ان بستی والوں کو اس سے بے پروا نہیں ہونا چاہئے تھا کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو سوتے میں یا دن چڑھے آ سکتا ہے۔ گزشتہ امتوں کے احوال سنا کر رسول اللہﷺ کو کفارِ مکہ کی ایذا رسانیوں پر تسلی دینا اور مشرکینِ مکہ کو عبرت دلانا مقصود ہے۔ آیت 103سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت اور فرعون اور اس کے پیروکاروں کا ذکر ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان کو دعوتِ حق دی اور کہا کہ میں تمہارے پاس واضح نشانیاں لایا ہوں اور بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دو‘ فرعون نے معجزات پیش کرنے کیلئے کہا جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا زمین پر ڈالا تو وہ ایک واضح اژدہا بن گیا‘ انہوں نے اپنا ہاتھ (گریبان سے)نکالا تو وہ دیکھنے والوں کیلئے روشن ہو گیا۔ فرعون کے سرداروں نے حق کو قبول کرنے کے بجائے اسے جادو قرار دیا اور کہا کہ یہ تمہیں اپنے ملک سے نکالنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو ذرا ڈھیل دو اور جادوگروں کو جمع کرو‘ جادوگر آئے اور انہوں نے فرعون سے کہا کہ اگر ہم غالب آ گئے تو ہمارا انعام کیا ہو گا‘ اس نے کہا کہ تم ہمارے مقربین میں سے ہو جاؤ گے۔ جادوگروں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ آپ پہلے کریں گے یا ہم کریں؟ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ تم پہل کرو‘ جب جادوگروں نے اپنی (رسیاں) زمین پر ڈال دیں تو لوگوں کی نگاہوں کو سحرزدہ کر دیا اور انہیں ڈرا دیا اور (انہوں نے کہا یہ تو) بڑا جادو لے آئے۔ اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ اپنا عصا (زمین پر) ڈالیں‘ وہ عصا سانپ بنا اور جادوگروں کی چیزوں کو نگلنے لگا۔ اس طرح معجزے کی حقانیت اور جادو کا بُطلان ثابت ہوا اور فرعونی رسوا ہوئے۔ جادوگر سجدے میں گر پڑے‘ اللہ پر ایمان لے آئے‘ فرعون نے انہیں دھمکی دی کہ تم لوگ میری اجازت کے بغیر ایمان لے آئے ہو‘ میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمت سے کاٹ دوں گا اور تمہیں سولی چڑھاؤں گا‘ انہوں نے کہا کہ ایمان لانے کی پاداش میں تم ہمیں سزا دینا چاہتے ہو؟ پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے صبر واستقامت کی دعا کی۔ اس کے بعد فرعون نے بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل کرنے اور بیٹیوں کو زندہ چھوڑنے کا حکم دیا۔
آیت 130 میں بتایا کہ اللہ نے فرعونیوں پر قحط سالی کا عذاب نازل کیا‘ فرعونیوں کا طریقہ یہ تھا کہ اچھائی کو اپنا کمال گردانتے اور برائی کو بدشگونی کے طور پر موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے۔ پھر ان پر ٹڈیوں‘ جوؤں‘ مینڈکوں اور خون کاعذاب نازل کیا۔جب عذاب میں مبتلا ہوئے تو موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ آپ اللہ سے دعا کریں کہ ہم سے یہ عذاب ٹل جائے‘ اگر ایسا ہوا تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو بھی آزاد کر دیں گے‘ لیکن موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے نتیجے میں عذاب ٹل جانے کے بعد بنی اسرائیل اپنے وعدے سے پھر گئے‘ تو اﷲ تعالیٰ نے بھی اُنہیں سمندر میں غرق کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے کمزور لوگوں کو مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا اور بنی اسرائیل سے جو خیر کا وعدہ تھا‘ وہ پورا ہوا۔ بنی اسرائیل سمندر پار کرکے ایک ایسی قوم کے پاس پہنچے جو بتوں کو پرستش کرتی تھی‘ انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ ہمارے لیے بھی ایک خدا (بت) بنا دیجئے‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: بت پرستی کرنے والے جاہل ہیں اور اپنی جاہلیت کے باعث ہی ہلاک ہونے والے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنی نعمتوں کا ذکر فرمایا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم میں ہارون علیہ السلام کو اپنا جانشین بنایا اور کوہِ طور پر تشریف لے گئے اور یہ چالیس دن کا عرصہ تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اپنا جلوہ دکھانے کی دعا کی‘ لیکن جب اﷲتعالیٰ بالواسطہ جلوہ فرما ہوا تو موسیٰ علیہ السلام اس کی تاب نہ لا کر بیہوش ہو گئے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا۔ آیت 144 سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو رسالت عطا کرنے‘ کلیم اللہ کا منصب عطا کرنے اور تورات عطا کرنے کا ذکر ہے۔ آگے چل کر بتایا کہ متکبر آیاتِ الٰہی سے اعراض کریں گے اور جو لوگ اللہ کی آیات اور قیامت کو جھٹلاتے ہیں‘ ان کے اعمال باطل ہیں۔ پھر موسیٰ علیہ السلام کے کوہِ طور پر قیام کے عرصے میں بنی اسرائیل کے زیورات سے بچھڑا بناکر اسے معبود بنانے کا ذکر ہے؛ چنانچہ جب موسیٰ علیہ السلام واپس آئے تو قوم پر غصے اور افسوس کا اظہار کیا اور کہا: میرے پیچھے تم نے ایسا برا کام کیا‘ انہوں نے تورات کی تختیاں زمین پر ڈالیں اور اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کا سر پکڑ کر ان سے جواب طلبی کی۔ انہوں نے کہا: اے میرے بھائی قوم نے مجھے بے بس کر دیا اور قریب تھا کہ مجھے قتل کر دیں‘ اب آپ مجھ پر سختی کرکے دشمنوں کو ہنسی کا موقع نہ دیں‘ پھر آیت 151 میں موسیٰ علیہ السلام کی دعا اور کلماتِ استغفار کا ذکر ہے۔ آگے چل کر بتایا کہ غصہ ٹھنڈا ہونے پر موسیٰ علیہ السلام نے تورات کی تختیوں کو اٹھایا‘ جن کی تحریر میں اللہ سے ڈرنے والوں کیلئے ہدایت اور رحمت کی نوید تھی۔
آیات 155 تا 158 میں موسیٰ علیہ السلام کی دعا کا ذکر ہے‘ جس میں انہوں نے اپنی قوم کیلئے اللہ سے دنیا اور آخرت کی بھلائی مانگی۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ کامل نعمت میں اُن لوگوں کو عطا کروںگا جو ایمان کے ساتھ تقویٰ اختیار کریں گے‘ زکوٰۃ دیں گے اور اس عظیم رسول نبیِ اُمی کی پیروی کریں گے‘ جس کا ذکر وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں اور یہ نبی ان کو نیکی کا حکم دے گا اور برائی سے روکے گا اور پاکیزہ چیزوں کو ان کیلئے حلال کرے گا اور ناپاک چیزوں کو حرام کرے گا اور بداعمالیوں کا بوجھ اور ان کے گلوں میں پڑے ہوئے طوق اتار دے گا‘ سو جو لوگ ان پر ایمان لائے‘ ان کی تعظیم اور نصرت کی اور اس نورِ (ہدایت) کی پیروی کی جو اُن کے ساتھ نازل کیا گیا ہے‘ وہی فلاح پانے والے ہیں۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ کی رسالتِ عامّہ کا ذکر ہے۔ آیت 160 سے موسیٰ علیہ السلام کی پتھر پر ضرب سے ان کی قوم کے بارہ قبیلوں کیلئے بارہ چشمے جاری ہونے کے معجزے کا بیان ہے۔ اس کے بعد اس امر کا بیان ہے کہ بنی اسرائیل کو حکم ہوا کہ معافی مانگتے اور سجدہ کرتے ہوئے بیت المقدس میں داخل ہو جاؤ مگر انہوں نے اس مسئلے میں بھی تحریف کی‘ مزید بتایا کہ سمندر کے کنارے ایلا نامی بستی میں انہیں ہفتے کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا گیا‘ مگر انہوں نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی۔ بنی اسرائیل کی ان نافرمانیوں کے باعث اُن کی صورتوں کو مسخ کرکے بندر بنا دیا گیا۔ آیت 172 میں اس امر کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کی ارواح کو جمع کیا اور ان سے اپنی ربوبیت کا اقرار کروایا‘ اس اقرار کو ''عہدِ اَلَسْت‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ آیت 179 میں اللہ تعالیٰ کی نعمتِ عقل کو قبولِ ہدایت کے لیے استعمال نہ کرنے والوں کو چوپایوں سے بدتر قرار دیتے ہوئے فرمایا: ان کے دل ہیں مگر وہ (حق کے دلائل کو) سمجھتے نہیں‘ ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ (آیاتِ الٰہی کو) دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر وہ (دعوتِ حق کو) سنتے نہیں۔ رسول اللہﷺ کو بارگاہِ الوہیت میں عجز ونیاز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا: ''کہو! میں اپنی ذات کیلئے کسی ونفع ونقصان کا مالک نہیں‘ مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں (اپنی ذات سے) غیب کو جانتا تو میں (از خود) خیرِ کثیر جمع کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی‘‘ یعنی غیب کے علوم اور ساری نعمتیں رب ہی کی عطا سے ہیں اور کبھی کوئی تکلیف پہنچے تو اس کی قضا وقدر سے پہنچتی ہے۔ سورۂ اعراف کے آخر میںہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے اور اپنے رب کوصبح و شام خوف اور عاجزی کے ساتھ پست آواز میں دل میں یاد کرو اور غافلوں میں سے نہ ہو جاؤ۔
سورۃ الانفال: انفال مطلقاً مالِ غنیمت کو بھی کہتے ہیں اور کسی مجاہد کو غیر معمولی کارکردگی کی وجہ سے دوسرے مجاہدین کے مقابلے میں کچھ زائد دیا جائے تو اسے بھی نفل یا انفال کہتے ہیں۔ آیت 2 میں کامل مؤمنوں کی یہ صفات بیان کی گئی ہیں: وہ اللہ سے ڈرتے ہیں‘ آیاتِ الٰہی سن کر ان کے ایمان کو تقویت ملتی ہے‘ وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں‘ اقامتِ صلوٰۃ اور ادائے زکوٰۃ ان کا شِعار ہے اور یہ سچے اور پکے مومن ہیں۔ آیت 5 میں فرمایا کہ کچھ لوگ جہاد کیلئے دل و جان سے آمادہ نہ تھے اور مجاہدین کی خواہش تھی کہ مشرکینِ مکہ کے مسلح و منظم لشکر کے بجائے ابوسفیان کے تجارتی قافلے سے ٹکرائو ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکینِ مکہ سے تصادم کو مقدر فرمایا تاکہ حق کی حقانیت اور غلبہ ثابت ہو جائے ۔

نویں پارے کا آغاز بھی سورۃ الاعراف سے ہوتا ہے۔ آغاز میں حضرت شعیب علیہ السلام کا واقعہ ہے۔ اُن کی قوم کے لوگ مال کی محبت میں اندھے ہو کر حرام و حلال کی تمیز بھلا چکے تھے۔ اللہ کے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب اُنہیں پورا تولنے اور پورا ماپنے کا حکم دیا تو انہوں نے ایک دوسرے کو مخاطب ہو کر کہا کہ اگر تم نے شعیب (علیہ السلام) کی پیرو ی کی تو گھاٹے میں پڑ جائو گے۔ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ حقیقی خسارہ اور گھاٹا تو شعیب علیہ السلام کو جھٹلانے والوں کے لیے تھا۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتایا کہ اگر بستیوں کے رہنے والے ایمان اور تقویٰ کو اختیار کریں تو اللہ تعالیٰ ان کے لیے آسمان اور زمین سے برکات کے دروازے کھول دیں گے‘ لیکن چونکہ وہ اللہ کے احکامات کو جھٹلاتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ ان پر گرفت کرتے ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کی فرعون کے دربار میں آمد کا ذکر کیا اور بتایا کہ جب موسیٰ علیہ السلام فرعون کو توحید کی دعوت دینے آئے اور فرعون نے سر کشی کا مظاہرہ کیا تو موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اللہ کی عطا کردہ نشانیوں کو ظاہر فرمایا۔ آپ علیہ السلام نے اپنے عصا کو زمین پر گرایا تو وہ بہت بڑا اژدہا بن گیا‘ آپ نے اپنے ہاتھ کو اپنی بغل میں ڈال کر باہر نکالا تو وہ روشن ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ کی اتنی واضح نشانیوں کو دیکھ کر بھی فرعون اور اس کے مصاحب سرکشی پر تلے رہے اور جناب موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو جادوگر قرار دے دیا۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اللہ نے فرعون اور اس کے قبیلے پر مختلف قسم کے عذاب مسلط کیے۔ اللہ تعالیٰ نے کبھی پھلوں کے نقصانات کے ذریعے‘ کبھی خون کی بارش کے ذریعے‘ کبھی جوئوں‘ مینڈکوں اور ٹڈیوں کی بارش کے ذریعے ان پر اپنے عذاب نازل کیے۔ ہر دفعہ آتے ہوئے عذاب کو دیکھ کر آلِ فرعون اپنی اصلاح کا وعدہ کرتے‘ لیکن جب وہ عذاب ٹل جاتا تو دوبارہ نافرمانی پر آمادہ ہو جاتے، یہاں تلک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی نافرمانیوں کی پاداش میں ان کو سمندر میں غرق کر دیا۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو اپنے سے ہم کلام ہونے کا شرف عطا کیا اور چالیس روز تک آپ سے کلام کرتے رہے۔ اس کلام کے دوران جناب موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا: اے پر وردگار! کیا میں تجھے دیکھ نہیں سکتا؟ تو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ نہیں! ایک دفعہ سامنے پہاڑ پر نظر کریں‘ اگر یہ پہاڑ اپنی جگہ جما رہا تو آپ مجھے دیکھ سکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب اپنی تجلیات کو اس پہاڑ پر گرایا تو وہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا اور جناب موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو گئے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام ہوش میں آئے تو انہوں نے کہا: اے پروردگار! آپ کی ذات پاک ہے اس بات سے کہ ان آنکھوں سے آپ کو دیکھا جا سکے۔
موسیٰ علیہ السلام جب کوہِ طور پر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لیے گئے تو آپ اپنی عدم موجودگی میں جناب ہارون علیہ السلام کو اپنی قوم کے نگران کے طور پر مقرر کر کے گئے تھے۔ جناب موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سامری جادوگر نے سونے اور چاندی کا ایک بچھڑا بنا کر اس میں جبرائیل علیہ السلام کے قدموں سے چھونے والی راکھ کو ڈال کر جادو پھونکا تو اس میں سے حقیقی بچھڑے کی طرح آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ جناب موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے لوگوں نے اُسے پوجنا شروع کر دیا۔ حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنی قوم کے لوگوں کو بہت سمجھایا کہ یہ شرک ہے اور اس سے بچنا چاہیے‘ لیکن ان نادانوں نے جناب ہارون علیہ السلام کی نصیحت کو پسِ پشت ڈال دیا۔ جناب موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے بعد جب تورات کو لیے ہوئے پلٹے تو اپنی قوم کے لوگوں کو شرک کی دلدل میں دھنسے ہوئے پایا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اس منظر کو دیکھ کر اتنا غضبناک ہوئے کہ آپ نے تورات کی تختیاں زمین پر رکھیں اور جنابِ ہارون علیہ السلام کی داڑھی کے بالوں کو پکڑ لیا۔ جنابِ ہارون علیہ السلام نے جناب ِموسیٰ علیہ السلا م سے کہا کہ اے برادرِ عزیز! میں نے ان کو بہتیرا سمجھایا‘ لیکن انہوں نے میری کسی نصیحت کو قبول نہ کیا۔ میں نے اس لیے زیادہ اصرار نہیں کیا کہ کہیں آپ یہ نہ کہیں کہ میں نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا ہے۔ جناب موسیٰ علیہ السلام کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو آپ نے اپنے اور حضرت ہارون کے لیے اللہ کی بارگاہ میں دعا مانگی کہ پروردگار! ان کے اور فاسقوں کے درمیان تفریق پیدا فرما دے۔
اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ہفتے کے دن والی آزمائش کا بھی ذکر کیا ہے کہ سمندر کے کنارے ایک بستی کے رہنے والے یہودیوں کو اللہ تعالیٰ نے ہفتے کو مچھلیوں کے شکار سے منع فرما دیا تھا۔ وہ ہفتے کے دن جال لگا لیتے اور اتوار کو مچھلیاں پکڑ لیتے۔ ان نافرمانوں کو اس بستی کے ایک گروہ نے نیکی کی نصیحت کی جبکہ ایک گروہ غیر جانبدار تھا۔ غیر جانبدار گروہ نے نصیحت کرنے والے گروہ کو کہا: تم ان لوگوں کو سمجھا کر کیا کر لو گے جو ہلاکت یا اللہ کے عذاب کا نشانہ بننے والے ہیں؟ اس پر نصیحت کرنے والی جماعت نے کہا: اس کارِ خیر سے ہمارا عذر ثابت ہو جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ بھی راہِ راست پر آ جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی نافرمانی کرنے والوں کو عذا ب کا نشانہ بنا دیا اور ان کے چہرے اور جسم مسخ کر کے انہیں بندروں کی مانند کر دیا۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو عظیم خصوصیات کا ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کا ذکر تورات اور انجیل میں بھی مذکور تھا۔ اللہ تعالیٰ یہ بھی ارشاد فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کی طرف مبعوث فرمایا ہے اور آپﷺ کی رسالت زمانوں اور علاقوں کی حدود سے بالاتر ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ کے خوبصورت نام ہیں اور ہمیں اللہ تبارک و تعالیٰ کو ان ناموں کے ساتھ پکارنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ لوگ رسول اللہﷺ کے پاس آکر ان سے پوچھتے ہیں کہ قیامت کب آئے گی؟ اللہ نے کہا کہ آپﷺ ان کو فرما د یجیے کے اللہ کے سوا اس کے وقت کو کوئی نہیں جانتا۔ اس سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جب قرآنِ مجید کی تلاوت ہو رہی ہو تو اس کو توجہ سے سننا چاہیے اور خاموشی کو اختیار کرناچاہیے۔ اللہ تعالیٰ توجہ سے قرآن پاک سننے کی وجہ سے انسانوں پر رحم فرمائے گا۔
سورۃ الانفال
سورۃ الاعراف کے بعد سورۃالانفال ہے۔ سورہ انفال میں اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں کہ اللہ نے بدر کے معرکے میں مسلمانوں کی قلیل تعداد کے باوجود ان کو کافروں پر غالب کیا اور ان کی مدد کے لیے ایک ہزار فرشتے اتارے۔ سورۃ آل عمران میں اللہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ نے تین ہزار اور اس کے بعد صبر و استقامت کے مظاہرے کی صورت میں پانچ ہزار فرشتوں کے نزول کا وعدہ فرمایا۔ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ فرشتوں کی مدد تو درحقیقت مومنوں کے لیے ایک بشارت ہے‘ اصل مدد تو اللہ تعالیٰ کی نصرت ہے۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اہلِ ایمان کو جب اللہ اور اس کے رسول بلائیں تو ان کو فوراً ان کی پکارکا جواب دینا چاہیے‘ اس لیے کہ ایمان والوں کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی پکار پر عمل پیرا ہو کر ہی زندگی ملتی ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکرکیا کہ جس جگہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مو جود ہوں یا جس قوم کے لوگ استغفار کرنے والے ہوں ان پر اللہ کا عذاب نہیں آ سکتا‘ یعنی رسول نبی کریمﷺکے وصال کے بعد امت مسلمہ کے پاس عذاب سے بچنے کے لیے آج بھی استغفار کا ہتھیار موجود ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآنِ مجید پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!

رسول کریمﷺ سے کفار طرح طرح کے مطالبے کرتے تھے کہ ہم اس وقت ایمان لائیں گے‘ جب فرشتے ہمارے پاس اتر کر آئیں یا برزخ و آخرت کے بارے میں آپ جو باتیں ہمیں بتاتے ہیں‘ ہمارے جو لوگ مرچکے ہیں‘ وہ زندہ ہو کر آئیں اور آپ کے دعووں کی تصدیق کریں‘ قرآنِ مجید نے بتایاکہ اُن کی یہ ساری باتیں جہل پر مبنی اور انکارِ حق کیلئے محض بہانے بازی ہے۔ سورۃ الانعام کی آیات 117 تا 118میں فرمایا: جس (حلال جانور) پر ذِبح کے وقت اللہ کا نام لیاگیا ہو‘ اُسے کھاؤ‘ جو حرام چیزیں ہیں‘ انہیں تمہارے لیے تفصیل سے بیان کر دیا گیا‘ صرف حالتِ اضطرار میں اور وہ بھی بقدرِ بقائے حیات کھانے کی اجازت ہے۔ مزید فرمایا: جس ذبیحے پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو‘ اُسے نہ کھاؤ۔ آیت 123 میں فرمایا: اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اُس کے مجرموں کو سردار بنایا تاکہ وہ وہاں فریب کاری کریں اور اُن کے دَجل و فریب کا وبال اُنہی پر آئے گا۔ آیات 130 تا 131 میں اتمامِ حجت کیلئے فرمایا: ''اے جنّات اور انسانوں کے گروہ! کیا تمہارے پاس رسول نہیں آئے تھے‘ جو تم پر میری آیات بیان کرتے تھے اور تمہیں اس (قیامت کے) دن کی ملاقات سے ڈراتے تھے؟ وہ کہیں گے: ہم خود اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں اور اُنہیں دنیاکی زندگی نے فریب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ (یہ گواہی اس وجہ سے دی گئی کہ) آپ کا رب بستیوں کو ظلماً ہلاک کرنے والا نہیں ہے‘‘۔ آیات 142 تا 146 میں اللہ تعالیٰ نے پھلوں‘ کھیتوں اور جانوروں کے ذریعے عطا کی جانے والی نعمتوںکا ذکر فرمایا کہ ''اللہ کی ان نعمتوں کو کھاؤ‘ اسراف نہ کرو اور شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو‘ پھلوں اور کھیتوں کی پیداوار میں اللہ تعالیٰ کے حق (عُشر یا نصف عُشر) کو ادا کرو‘‘ پھر فرمایا کہ ''یہود کی سرکشی کی وجہ سے ناخن والے جانوروں اور گائے اور بکری کی چربی کو ان پر حرام کر دیا گیا تھا‘ انہوں نے اسے پگھلایا اور فروخت کر دیا‘‘۔ آیت 148 میں ہر دور کے منکرین کے ایک نفسیاتی حربے کو بیان کیا کہ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں‘ یہ اللہ کی مشیت ہے‘ اگر وہ نہ چاہتا تو ہم یہ سب کچھ نہ کرپاتے۔ درحقیقت بات یہ ہے کہ اللہ کی مشیت اور ہے اور اس کی رِضا اور ہے‘ مثلاً: مجرم کو سزا دینا اس کی مشیت ہے‘ لیکن اس کی رِضا اس میں ہے کہ کوئی اس کی نافرمانی نہ کرے۔ اگر سب کو جبری طور پر اطاعت کے راستے پر ڈالنا اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوتی‘ تو کسی کی مجال نہ تھی کہ اس کی حکم عدولی کرے۔
آیات 152 تا 154 میں فرمایا کہ (1) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو (2) والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو (3) تنگ دستی کے خوف سے اولاد کو قتل نہ کرو (4) ظاہر و مستور فحاشی سے اجتناب کرو (5) قتلِ ناحق نہ کرو (6) یتیم کا مال ناجائز طریقے سے نہ کھائو (7) لین دین میں ناپ تول پورا کرو (8) بلا تمیز سب کے ساتھ انصاف کرو (9) اور اللہ سے کیے گئے عہد کی پاسداری کرو؛ چونکہ یہ نو اَحکامِ شرعیہ ہی دینِ اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ اور لُبِّ لُباب ہیں اور باقی تمام شرعی اَحکام انہی پر منحصر ہیں‘ اسی لیے فرمایا: ''یہی سیدھا راستہ ہے‘ فرقہ بندی چھوڑ کر اسی کی پیروی کرو اور کتابِ الٰہی کے اَحکام کو ملحوظ رکھو‘‘۔ آیات 163 تا 164میں حقیقتِ ایمان اور روحِ ایمان اور مسلمان کے مقصدِ حیات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ''(اے رسول!) کہہ دیجئے کہ میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی اور میری موت (سب کچھ) اللہ رب العالمین کیلئے ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے یہی حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں‘‘۔
سورۃ الاعراف: اعراف کے معنی بلندی کے ہیں اور اس کا معنی جاننا اور پہچاننا بھی ہے۔ ''اصحابِ اعراف‘‘ کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ ان کی نیکیاں اور گناہ برابر ہوں گے اور ان کا مقام جنت اور دوزخ کے درمیان ہو گا یا یہ وہ لوگ ہیں جو اہلِ جنت اور اہلِ جہنم کو پہچاننے والے ہوں گے اور ایک قول کے مطابق یہ انبیاء ہیں یا ملائکہ ہیں۔ آیت 8 میں بتایا کہ قیامت کے دن اعمال کا وزن کیا جانا حق ہے اور جن کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو گا‘ وہی فلاح پانے والے اور کامیاب ہیں اور جن کی نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہو گا وہ نقصان اٹھانے والے ہیں۔ آیات 11 تا 27 میں حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس کا واقعہ بیان ہوا کہ جب ابلیس نے اللہ کے حکم پر آدم کو سجدہ نہ کیا تو ربِ ذوالجلال نے اس سے پوچھا کہ تو نے میرے حکم کے باوجود سجدہ کیوں نہ کیا؟ اس نے اپنی سرکشی کا جواز عقلی دلیل سے پیش کیا کہ میں آدم سے بہتر ہوں‘ انہیں مٹی سے پیدا کیا گیا ہے‘ میرا جوہرِ تخلیق آگ ہے اور آگ لطیف ہونے کی بنا پر مٹی سے افضل ہے۔ تکبر کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو رسوا کرکے مقامِ عزت سے نکال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم وحوا علیہما السلام کو جنت میں داخل کیا اور انہیں ایک خاص درخت کے قریب جانے سے منع فرمایا۔ شیطان نے ان کو وسوسہ ڈالا اور مخلص اور خیر خواہ کا روپ اختیار کرکے کہا کہ آپ لوگوں کو اس درخت کے قریب جانے سے محض اس لیے منع کیا گیا ہے کہ اس کے قریب جاکر آپ لوگ فرشتے بن جائیں گے اور آپ لوگوں کو ابدی زندگی مل جائے گی‘ اس نے قسمیں کھا کر اپنی خیرخواہی کا یقین دلایا‘ پھر ان سے اجتہادی خطا ہوئی اور اس درخت کو چکھنے سے ان کی شرمگاہیں ظاہر ہو گئیں اور وہ درختوں کے پتوں سے اپنے ستر کو ڈھانپنے لگے‘ یہاں قرآنِ مجید نے یہ بھی بتایا کہ شیطان کا مقصد ان کے ستر کو بے حجاب کرنا تھا۔ اپنی اجتہادی خطا کا احساس ہونے پر حضرت آدم علیہ السلام نے توبہ کی اور ان کی توبہ کے کلمات آیت 23 میں بیان ہوئے ہیں۔ آیت 26 تا 27 میں اللہ تعالیٰ نے مقصدِ لباس بیان فرمایا کہ ہم نے بنی آدم پر لباس اس لیے اتارا کہ ان کی ستر پوشی ہو اور سامانِ زینت ہو اور سب سے بہتر لباس تو تقویٰ ہے‘ پھر بنی آدم کو متنبہ کیا گیا کہ شیطان کے مکرو فریب میں نہ آنا‘ اس کو یہ مَلکہ دیا گیا ہے کہ وہ تمہیں ہر جہت سے دیکھ سکتا ہے۔ آیت 57 میں اللہ تعالیٰ نے بارانِ رحمت کے نظام کے بارے میں بتایا کہ اس کے حکم سے ہوائیں پانی سے بھرے بادلوں کو اُٹھا کر لے جاتی ہیں اور بنجر زمین پر برسا کر اس میں اللہ کی نعمتیں پیدا کر دیتی ہیں‘ پھر فرمایا کہ اچھی زمین اللہ تعالیٰ کے حکم سے سبزہ اگاتی ہے اور خراب زمین باغ و بہار نہیں لاتی۔ آیت 59 سے حضرت نوحؑ اور ان کی قوم کے حالات بیان کیے گئے ہیں کہ ان کی قوم کے سرداروں نے کہا: ''(معاذ اﷲ) آپ کھلی گمراہی میں ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تو اللہ کا رسول ہوں اور میرا کام تمہاری خیر خواہی اور تم تک دعوتِ حق کو پہچانا ہے‘‘۔ آیت 65 سے اگلی آیات میں حضرت ہودؑ اور ان کی قوم عاد کا ذکر ہے کہ قومِ عاد نے بھی اللہ کے نبی پر طعن کیا کہ (معاذاللہ) آپ حماقت میں مبتلا ہیں‘ پھر ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو وہی جواب دیا‘ جو حضرت نوحؑ نے اپنی قوم کو دیا تھا۔ حضرت ہودؑ نے قومِ عاد کو انعاماتِ الٰہیہ کا شکر اداکرنے کی تلقین کی‘ اُن کے انکار کے سبب اُن پر اللہ کا عذاب اور غضب نازل ہوا‘ اللہ نے حضرتِ ہودؑ اور ان کے ساتھیوں کو نجات دی۔ آیت 73 سے حضرت صالحؑ اور ان کی قوم ثمود کا ذکر ہے۔ قومِ ثمود کے لوگ بڑے طاقتور تھے اور یہ پہاڑوں کو تراش کر ان میں گھر بناتے تھے‘ گویا ان کو اپنی طاقت پر ناز تھا‘ پھر قومِ ثمود نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی اور حضرت صالحؑ کو معجزے کے طور پر دی گئی اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی سرکشی کی سزا اس طرح دی کہ ان پر رات کو زلزلے کا عذاب آیا اور صبح کو وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ پڑے رہ گئے۔ آیت 80 سے 84 تک حضرت لوطؑ اور ان کی قوم کا ذکر ہے کہ وہ بے حیائی میں اپنے زمانے کے سب لوگوں پر سبقت لے گئے‘ وہ اپنی جنسی خواہش کو غیر فطری طریقے سے پورا کرتے تھے اور جب اللہ کے نبی عذاب کا ڈر سناتے تو وہ اسے مذاق سمجھتے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کیا‘ آسمان سے پتھر برسائے اور اس طرح ان کا نام ونشان مٹا دیا گیا‘ یہاں تک کہ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی‘ جو قومِ لوط کی ہم خیال تھی‘ بھی عذاب سے نہ بچ سکی۔ صرف حضرت لوط علیہ السلام اور ان کے ساتھ قبیلے کے چند نیکوکار لوگ ہی محفوظ رہے۔
آیت 85 میں قومِ مَدین کا ذکر ہے کہ وہ ناپ تول میں ڈنڈی مارتے اور دوسروں کو چیزیں کم تول کر دیتے تھے اور راستے میں بیٹھ کر اہلِ ایمان کو ڈراتے اور انہیں راہِ راست سے روکتے۔ انہیں بھی کہا گیا کہ فساد فی الارض سے باز آ جاؤ اور اپنے سے پہلی سرکش امتوں کا انجام دیکھ لو۔

آٹھویں پارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اگر ہم ان پر فرشتے اتار دیتے اور ان سے مردے بات کرنے لگتے اور ہر چیز کو ان کے سامنے لا کھڑا کر دیتے تو بھی وہ ایمان لانے والے نہیں تھے‘ سوائے اس کے کہ اللہ چاہے۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی‘ جب مشرکینِ مکہ اور کفارِ عرب نے رسول کریمﷺ سے مختلف طرح کی نشانیوں کو طلب کرنا شروع کیا۔ کبھی وہ کہتے کہ ہمارے اوپر فرشتے اترنے چاہئیں‘ کبھی وہ کہتے کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو ہم اپنے پروردگار کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں اور کبھی وہ کہتے کہ ہمارے آبائو اجداد جو اس دنیا سے چلے گئے ہیں‘ ان کو دوبارہ زندہ کریں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول کریمﷺ کو کافروں کی سرشت سے آگاہ کیا کہ ان کافروں کی نشانیاں طلب کرنے والی بات کوئی حق پرستی پر مبنی نہیں‘ بلکہ یہ تو صرف اور صرف حق سے فرار حاصل کرنے کے لیے اس قسم کے مطالبات کر رہے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بغیر کسی نشانی کے اسلام کو قبول کر لیا جبکہ مکہ کے بہت سے کافر متعدد نشانیوں کو دیکھ کر بھی مسلمان نہ ہوئے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ زمین پر رہنے والوں کی اکثریت کی پیروی کرنے سے انسان گمراہ ہو جاتا ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں جس چیز پر غیر اللہ کا نام لیا جائے‘ اُسے کھانا جائز نہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا ہے کہ اللہ نے یہودیوں پر ان کی بغاوت اور سرکشی کی وجہ سے ہر ناخن والا جانور حرام کر دیا تھا اور گائے اور بکری کی پیٹھ پر لگی چربی کے علاوہ باقی چربی کو بھی ان پر حرام کر دیا تھا‘ لیکن یہودیوں کی سرکشی کا عالم یہ تھا کہ وہ چربی بیچ کر کھانا شروع ہو گئے۔ بخاری و مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس روایت کو نقل کیا ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: ''اللہ کی مار ہو یہود پر‘ جب چربی ان کے لیے حرام کر دی گئی تو اسے پگھلا کر (تیل بنا کر) بیچ دیا اور اس کی قیمت کھا گئے‘‘۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اولاد کے قتل کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ وہ لوگ گھاٹے میں ہیں‘جنہوں نے اپنی اولادوں کو بے وقوفی کے ساتھ قتل کر دیا اور اپنی مرضی سے اللہ تعالیٰ کے جائز کیے ہو ئے رزق کو حرام قرار دیا۔ اس پارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ یہ بھی ارشاد فرماتے ہیں کہ جب فصلوں کی کٹائی کا دن آئے‘ اس دن اللہ تعالیٰ کے حق کو ادا کیا کرو۔ جب اللہ تعالیٰ ہر چیز عطا فرماتے ہیں تو اس کا حق بھی بروقت ادا ہونا چاہیے۔ اس پارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے رزق کی ان چار بڑی اقسام کا بھی ذکر کیا‘ جو انسانوں پر حرام ہیں۔ پہلا رزق‘ جو انسانوں پر حرام ہے‘ وہ مردار ہے‘ اسی طرح بہتا ہوا خون انسانوں پر حرام ہے‘ خنزیر کا گوشت بھی انسانوں پر حرام ہے اور اسی طرح غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ بھی انسانوں پر حرام ہے۔
اس پارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مشرکین کے اس غلط عذر کو بھی رد کیا کہ وہ اپنے اور اپنے آبائو اجداد کے بارے میں کہیں گے‘ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم اور ہمارے آبائو اجداد ہرگز شرک نہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: یہ اور ان سے پہلے لوگ بھی اسی طرح جھوٹ تراشتے رہے۔ اللہ تعالیٰ مزید کہتے ہیں کہ اے نبی! آپ ان کو کہہ دیجئے کہ (جو اللہ نے تحریر کیا ہے) کیا تم اس کو جانتے ہو؟ اگر جانتے ہو تو اس کو ہمارے سامنے پیش کرو۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ لوگ غلطی تو خود کرتے ہیں‘ لیکن خو اہ مخواہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے بعض کبیرہ گناہوں کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ شرک نہیں کرنا چاہیے‘ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا چاہیے‘ اپنی اولاد کو بھوک کے خوف سے قتل نہیں کرنا چاہیے‘ فحاشی چاہے چھپی ہوئی ہو‘ چاہے علانیہ ہو‘ اس کے قریب بھی نہیں جانا چاہیے‘ کسی کو ناحق قتل نہیں کرنا چاہیے‘ یتیم کے مال کو نا جائز طریقے سے استعمال نہیں کرنا چاہیے‘ ترازو کو صحیح طریقے سے پکڑنا چاہیے‘ جب بھی بات کی جائے عدل سے کرنی چاہیے‘ چاہے قریبی عزیز ہی اس کی زد میں آئیں، اللہ تعالیٰ سے کیے گئے یا اس کے نام پر کیے گئے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے اور ان تمام نصیحتوں کا بنیا دی مقصد انسانوں میں عقل اور تقویٰ کو پیدا کرنا ہے۔اس پارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان لوگوں کی بھی بڑی شدت سے مذمت کی ہے‘ جو اپنے دین میں تفرقہ پیدا کرتے اور گروہوں میں بٹ جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ ان کو ان کے کیے سے آگاہ کرے گا۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں رحمت کا بھی ذکر کیا ہے کہ جو ایک بُرائی کرے گا‘ اس کو ایک ہی کا بدلہ ملے گا‘ لیکن جو ایک نیکی کرے گا‘ اُسے اس جیسی دس نیکیاں ملیں گی اور انسانوں پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حکم دیا ہے کہ وہ اعلان فرمائیں کہ بے شک میری نمازیں‘ میری قربانیاں‘ میرا جینا اور میرا مرنا‘ سبھی کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا اور میں سب سے پہلے اپنے آپ کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے سپرد کرنے والا ہوں۔
سورۃ الاعراف
سورۂ انعام کے بعد سورۂ اعراف ہے۔ اس سورت کے آغاز میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ پیارے حبیب علیہ الصلوٰۃ والسلام جو قرآنِ مجید آپ پر نازل کیا گیا ہے‘ یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ آپ اس کے ذریعے لوگوں کو (اللہ کے عذاب)سے ڈرائیں اور اس میں مومنوں کے لیے نصیحت ہے۔ یہ وحی اس لیے نازل کی گئی ہے کہ آپ اس کی پیروی کریں۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اگلی قوموں کا ذکر فرمایا کہ جب ان پر عذاب آیا تو وہ ایسی گھڑی میں نازل ہوا جب وہ قومیں سو رہی تھیں، یا رات کو اللہ کا عذاب نازل ہوا یا دن کے وقت جب وہ قیلولہ کر رہی ہوتی تھیں‘ یعنی اللہ کے عذاب نے انہیں غفلت میں آن پکڑا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کے وزن کا ذکر کیا ہے کہ کل قیامت کو وزن حق اور انصاف کے ساتھ ہو گا تو جس کا پلڑا بھاری ہو گا وہ کامیاب ہو گا اور جس کا پلڑا ہلکا ہو گا‘ تو یہ وہ لوگ ہیں‘ جنہوں نے ہماری آیات کو رد کر کے اپنی ہی جانوں کا نقصان کیا۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے ایک بہت بڑے انعام کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو زمین پر ٹھہرایا اور ان کے لیے مختلف طرح کے پیشے بنائے اور پھر بھی کم ہی انسان ہیں جو شکر گزار ہیں۔اس پارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسجدوں میں آنے کے آداب کا بھی ذکر کیا کہ مسجد میں آتے ہوئے انسانوں کو اپنی زینت کو اختیار کرنا چاہیے اور اچھا لباس پہن کر مسجد میں آنا چاہیے۔
اسی سورت میں اللہ تعالیٰ نے جہنم کے مناظر کا بھی ذکر کیا ہے کہ اہلِ جنت جہنمیوں سے مخاطب ہو کر کہیں گے: ہم پا چکے ہیں‘ جس کا وعدہ ہمارے رب نے کیا تھا، کیا تم کو بھی وہ کچھ مل گیا‘ جس کا تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا؟ تو وہ جواب میں کہیں گے: ہاں! اس پر ایک پکارنے والا پکار کر کہے گا: اللہ کی لعنت ہو ظالموں پر‘ اسی طرح اہلِ نار جنتیوں سے تقاضا کریں گے کہ اللہ نے ان کو جو پانی اور رزق عطا کیا ہے‘ اس میں سے ان کو بھی دیا جائے تو اہلِ جنت کہیں گے: اللہ نے اس کھانے اور پینے کو اہلِ نار پر حرام کر دیا ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس پارے میں اصحابِ اعراف کا بھی ذکر کیا ہے۔ اصحابِ اعراف ایسے لوگ ہوں گے‘ جو جہنم کے عذاب سے محفوظ ہوں گے‘ لیکن اعمال میں کمزوری کی وجہ سے جنت حاصل کرنے میں ناکام ہو جائیں گے۔ ایک مخصوص مدت گزارنے کے بعد اللہ تعالیٰ ان کو جنت میں داخل فرما دے گا۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ خوف اور طمع کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کو پکارتے رہنا چاہیے۔ بے شک اللہ کی رحمت نیکوکاروں کے قریب ہے۔ اس پارے کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ نے ان قوموں کا ذکر کیا ہے‘جو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے تباہ و برباد ہوئیں‘ ان کا تفصیلی ذکر سورۂ ہود میں ہو گا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآنِ پاک پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے، آمین!

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جب نبی کریمﷺ کے اصحاب نجاشی کے پاس پہنچے اور انہوں نے قرآنِ کریم پڑھا اور ان کے علماء اور راہبوں نے قرآنِ مجید سنا‘ تو حق کو پہچاننے کی وجہ سے ان کے آنسو بہنے لگے‘ اس کیفیت کو ساتویں پارے کی ابتدائی آیات میں بیان کیا گیا کہ ''اور جب وہ اس( قرآن کو سنتے ہیں)‘ جو رسول کی طرف نازل کیا گیا‘ تو حق کو پہچاننے کی وجہ سے آپ ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کو بہتا ہوا دیکھتے ہیں‘ وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے‘ تو ہمیں (حق کی) گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ لے‘‘۔ اس کے بعد ان کیلئے اجرِ آخرت اور دخولِ جنت کی نعمتوں کا ذکر ہے۔ آیت 89 میں قسم کا حکم بیان کیا گیا ہے‘ یعنی کوئی شخص مستقبل میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھائے‘ اگر وہ اس قسم پر قائم رہتا ہے‘ تو فقہی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ وہ قسم میں بری ہے اور اگر وہ قسم کو توڑ دیتا ہے‘ یعنی جو کہا ہے‘ اس کے برعکس کرتا ہے‘ تو فقہی اعتبار سے اسے ''حانث‘‘ ہونا کہتے ہیں۔ اس آیت میں قسم کا کفارہ بیان ہوا ہے‘ جو دس مسکینوں کو اپنے اوسط معیار کے مطابق دو وقت کا کھانا کھلانا یا ان کو لباس دینا یا غلام آزاد کرنا ہے (آج کل غلامی کا رواج نہیں) اگر کوئی ان چیزوں پر قادر نہ ہو تو کفارہ تین دن کے روزے رکھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ اپنی قسموں کی حفاظت کرو تاکہ کفارے کی نوبت نہ آئے۔ آیت 90 اور 91 میں فرمایا: ''اے مومنو! شراب‘ جوا‘ بتوں کے پاس (قربانی کیلئے) نصب شدہ پتھر اور فال کے تیر محض ناپاک شیطانی کاموں سے ہیں۔ سو‘ تم ان سے اجتناب کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ شیطان تو بس یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان بغض اور عداوت پیدا کرے اور تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے‘ تو کیا تم باز آنے والے ہو؟‘‘۔ آیت 100 میں رسول کریمﷺ سے غیر ضروری سوالات کرنے سے منع فرمایا گیا کہ اگر بہت سی باتیں تم پر ظاہر ہو جائیں تو تمہیں ناگوار گزریں۔ زمانۂ جاہلیت میں مشرکوں نے بعض حلال جانوروں کو بتوں کے نام پر وقف کرکے ان کا دودھ دوہنا‘ ان پر سامان لادنا اور ان کا گوشت کھانا ممنوع قرار دے رکھا تھا۔ آیت 104میں بتایا گیا کہ جب اہلِ کتاب اور دین سے انحراف کرنے والوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ اللہ کے نازل کردہ دین اور رسول کی طرف اتباع کیلئے چلے آؤ‘ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے آبائو اجداد کو اسی روش پر پایا ہے اور ہم اپنے آبائو اجداد کے شِعار کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں‘ خواہ ان کے آبائو اجداد جاہل اور راہِ ہدایت سے بھٹکے ہوئے ہوں۔ ظاہر ہے کہ رسولﷺ کو اس رویے سے تکلیف پہنچتی تھی‘ تو اللہ نے اہلِ ایمان کی تسلی کیلئے فرمایاکہ جب تک تم خود ہدایت پر ہو کسی کی گمراہی تمہارے لیے نقصان دہ نہیں۔ آیت 106 میں وصیت کیلئے دو عادل گواہ مقرر کرنے کا حکم دیا تاکہ بعد میں تنازع پیدا نہ ہو اور یہ بھی حکم دیا کہ حق کی گواہی کو چھپانا نہیں چاہیے۔ ابتدائے اسلام میں وصیت کو فرض قرار دیا گیا تھا لیکن احکامِ وراثت نازل ہونے کے بعد صرف اس کی اِباحت اور خیر کے کاموں کیلئے استحباب باقی ہے۔ آیت 110 اور 111 میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اپنی نعمتیں بیان کیں: (1) روح القدس سے مدد کرنا (2) گہوارے میں لوگوں سے کلام کرنا (3) کتاب و حکمت‘ تورات اور انجیل کی تعلیم (4) عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات‘ مثلاً: اذنِ الٰہی سے مٹی سے پرندہ بنا کرجان ڈالنا‘ مادر زاد اندھے اور برص کے مریض کو شفایاب کرنا‘ مردے کو زندہ کرنا‘ بنی اسرائیل کی ایذا رسانی سے بچانا‘ وغیرہ۔ آیت 112 عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کا اُن سے استدعا کرنا کہ اللہ آسمان سے ہمارے لیے تیار خوانِ نعمت نازل کرے‘ اس سے ہم کھائیں اور قلبی اطمینان پائیں۔ اس پر اللہ نے فرمایا ''میں یہ نعمت نازل تو کر دوں گا‘ مگر پھر جو شخص (مطلوبہ نشانی دیکھنے کے بعد) کفر کرے گا تو اسے ایسا عذاب دوں گا‘ جو جہان والوں میں سے کسی کو بھی نہ دوں گا‘‘۔ اس کے بعد کی آیات میں نصاریٰ پر حجت قائم کرنے کیلئے فرمایا کہ ''اے عیسیٰ! کیا آپ نے لوگوں کو یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا خدا بنا لو‘‘۔ ظاہر ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے اس سے برأت کا اظہار کیا۔
سورۃ الانعام: اس سورت کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کا بیان ہے کہ اس نے آسمانوں‘ زمین‘ ظلمت اور نور کو پیدا کیا‘ اسی نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا‘ پھر اس کیلئے ایک مدتِ حیات اور قیامت کا وقت مقرر فرمایا‘ لیکن کافر پھر بھی اپنے رب کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں اور اس کی قدرت کے بارے میں شک میں مبتلا ہوتے ہیں؛ حالانکہ وہ ظاہر و باطن اور انسان کے ہر عمل کو جانتا ہے۔ منکروں کا ایک شعار یہ ہے کہ اللہ کی قدرت کی نشانیاں آنے کے باوجود ان میں غور نہیں کرتے۔ آیت 7 میں فرمایا کہ کافروں کا حال تو یہ ہے کہ اگر لکھی ہوئی کتاب ان کے پاس اتار دی جائے‘ جسے وہ اپنے ہاتھوں سے چھو کر دیکھ لیں‘ تو پھر بھی ایمان نہ لائیں‘ بلکہ اسے جادو قرار دیں‘ اسی طرح اگر ان کے پاس فرشتہ اتر کر آ جائے‘ ملکوتی شکل میں‘ تو وہ دیکھ نہ پائیں اور اگر بشری لباس میں آئے‘ تو پھر وہ کہیں گے کہ یہ تو ہم جیسا بشر ہے۔ آیت 14 میں رسولﷺ کو حکم ہوا کہ آپ کافروں اور مشرکوں کو بتائیں کہ کیا میں زمین و آسمان کے خالق اور سب کے روزی رساں کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا کارساز مان لوں؟ آپ کہہ دیں کہ میں سب سے پہلے اسلام لانے والا ہوں۔ اللہ جس کوضرر پہنچائے‘ اس کے سوا کوئی نجات دینے والا نہیں‘ وہ ہر خیر کا مالک ہے۔ مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ میں ہر مخاطَب کو اللہ کے عذاب سے ڈراؤں اور اس کی توحیدکی دعوت دوں۔ آیت 22 میں فرمایا کہ قیامت کے دن ہم سب مشرکوں کو جمع کریں گے اور پوچھیں گے کہ تمہارے باطل معبود اب کہاں ہیں‘ تو وہ اپنے ماضی کو جھٹلائیں گے۔ آیت 25 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ منکرین آپ کی بات کو توجہ سے سنتے ہیں‘ لیکن ان کی بداعمالیوں کے سبب ان کے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور ان کے کانوں میں بندش ہے۔ آخرت میں وہ تمنا کریں گے کہ کاش ہمیں واپس دنیا میں بھیج دیا جائے اور ہم ایمان لانے والوں میں سے ہو جائیں۔ آیت 31 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے اللہ کے حضور پیش ہونے کی حقیقت کو جھٹلایا‘ وہ اپنی بداعمالیوں کا بوجھ اپنی پشت پر اٹھائے ہوئے ہیں اور جب اچانک قیامت آ پہنچے گی تو وہ اپنی کوتاہی پر افسوس کریں گے۔ رسول اللہﷺ کو تسلی دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آپ غمگین نہ ہوں‘ یہ آپ کو نہیں جھٹلا رہے بلکہ درحقیقت آیاتِ الٰہی کا انکار کر رہے ہیں اور آپ سے پہلے بھی رسولوں کو جھٹلایا گیا اور انہوں نے صبر کیا۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب کو جبراً ہدایت پر جمع فرما دیتا‘ لیکن بندے کو اختیار دے کر آزمانا اور جزا و سزا کا نظام قائم کرنا‘ اس کی حکمت کا تقاضا تھا۔ آیت 46 میں فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری سننے اور دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو سَلب فرما لے‘ تو کون ہے جو تمہیں نعمتیں عطا کر سکتا ہے۔ مشرک آپﷺ سے طرح طرح کے فرمائشی مطالبات کرتے تھے‘ تو اللہ نے فرمایا: آپ کہہ دیں میں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں از خود غیب جانتا ہوں اور نہ میں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں فرشتہ ہوں‘ میں تو فقط اسی چیز کی پیروی کرتا ہوں‘ جس کی مجھے وحی کی جاتی ہے۔ آیت 59 میں فرمایا: ''اور غیب کی کنجیاں اُسی کے پاس ہیں‘ اِس کے سوا (از خود) ان کو کوئی نہیں جانتا‘ وہ ہر اُس چیز کو جانتا ہے‘ جو خشکی اور سمندر میں ہے‘ وہ درخت سے گرنے والے ہر پتے کو جانتا ہے اور زمین کی تاریکیوں میں ہر دانہ کو جانتا ہے اور تر اور خشک ہر چیز لوحِ محفوظ میں لکھی ہوئی ہے‘‘۔ آیت 61 میں فرمایا ''اللہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور وہ اُن پر نگرانی کرنے والے فرشتے بھیجتا ہے اور جب کسی کی موت کا وقت آ جائے‘ تو وہ فرشتے کسی کوتاہی کے بغیر اُس کی رُوح کو قبض کر لیتے ہیں‘‘۔ آیت 63 میں فرمایا کہ بَر و بحر کی ظلمتوں میں کون تمہیں نجات دیتا ہے‘ جس کو تم عاجزی سے اور چپکے چپکے پکارتے ہو کہ اگر وہ ہمیں اِس مصیبت سے بچا لے تو ہم ضرور شکر گزاروں میں ہو جائیں گے‘ اے رسول! کہہ دیجئے اللہ ہی تم کو اس مصیبت اور ہر تکلیف سے نجات دیتا ہے‘ پھر بھی تم اُس کے ساتھ شرک کرتے ہو۔ آیت 64 میں فرمایا: اللہ اِس پر قادر ہے کہ تمہارے اوپر سے اور تمہارے پاؤں کے نیچے سے تم پر عذاب بھیجے اور تمہیں ایک دوسرے سے بھڑا دے اور تمہیں ایک دوسرے سے لڑائی کا مزہ چکھا دے۔ آیت 73 میں فرمایا: اللہ وہ ہے‘ جس نے آسمانوں اور زمینوں کو برحق پیدا کیا اور وہ‘ جس دن کسی فنا شدہ چیز کو فرمائے گا کہ ہو جا‘ تو وہ ہو جائے گی۔ آیت 74 تا 81 حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ہے۔

قرآنِ مجید فرقانِ حمید کے ساتویں پارے کے شروع میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے نرم دل اور ایمان شناس عیسائیوں کی جماعت کا ذکر کیا ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کے کلام کی تلاوت کی جاتی ہے تو حقیقت کو پہچاننے کی وجہ سے ایسے لوگوں کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑیاں لگ جاتی ہیں اور وہ لوگ حق کو پہچاننے کے بعد اس کو قبول کر لیتے ہیں‘ وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے‘ ہمارا نام بھی (اسلام کی)گواہی دینے والوں میں لکھ دے۔ قرآنِ مجید کی یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب کفار کے شر سے بچنے کے لیے مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کرجاتے ہیں اور کافر مسلمانوں کے بارے میں حبشہ کے بادشاہ کو اُکسانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حبشہ کا نرم دل عیسائی بادشاہ نجاشی جنابِ جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی زبان سے قرآنِ پاک کی تلاوت سنتا ہے تو اس کی آنکھوں سے آنسوبہنا شروع ہوگئے اور اُس نے اپنا شمار اسلام کی گواہی دینے والوں میں کروالیا۔
ساتویں پارے میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو مخاطب ہو کر کہا کہ اُنہیں پاک چیزوں کو اپنے اوپر حرام نہیں کرنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے پاک رزق کو کھانا چاہیے اور اس سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ انسان کی بلا ارادہ کھائی گئی قسموں پر مواخذہ نہیں کرتے‘ لیکن جب کسی قسم کو پوری پختگی سے کھایا جائے‘ تو ایسی صورت میں انسان کو اس قسم کو پورا کرنا چاہیے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے ان آیات کا نزول فرمایا ہے‘ جن میں صراحت سے شراب کو حرام قرار دیا گیاہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''اے ایمان والو! بے شک شراب‘ جوا‘ بت گری اور پانسہ ناپاک اور شیطانی کام ہیں؛ پس تم ان سے بچو‘ تاکہ کامیاب ہوجائو‘ بے شک شیطان جوئے اور شراب کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور عداوت پیدا کرنا چاہتا ہے اور تمہیں اللہ کی یاد اورنماز سے روکنا چاہتا ہے تو کیا تم لوگ باز آجائو گے‘‘۔ جب ان آیات کا نزول ہوا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرامؓ نے کہا :یا اللہ! ہم رک گئے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے سمندری شکار کو حلال قرار دیا ہے اور حالتِ احرام میں خشکی کے شکار کو منع کیا ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے بکثرت سوال کرنے سے بھی روکا ہے۔ کئی مرتبہ کثرتِ سوال کی وجہ سے جائز اشیاء بھی حرام ہو جاتی ہیں۔ اللہ نے اس سورت میں یہ بھی بتلایا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے عیسیٰ علیہ السلام سے کہا ''کیا آپ کا رب ہمارے لیے آسمان سے دستر خوان کو اتار سکتا ہے؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے حواریوں کے اس بلا جواز مطالبے پر انہیں تنبیہ کرتے ہوئے کہا ''اللہ سے ڈر جائو، اگر تم مومن ہو‘‘ حواریوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس نصیحت کے جواب میں کہا کہ ''ہم چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور اپنے دلوں کو مطمئن کریں اور ہم جان لیں کہ ہمیں سچ بتایا گیا ہے اور اس پر گواہ رہیں‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے حواریوں کے اصرار پر دعا مانگی: ''اے اللہ، اے ہمارے پروردگار! ہمارے اوپر آسمان سے دستر خوان نازل فرماجو ہمارے اول اور آخر کے لیے عید اور تیری جانب سے ایک نشانی بن جائے اور ہمیں رزق عطافرما اور تو بہت ہی بہتر رزق دینے والا ہے‘‘۔ اس دعا پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''میں وہ (دستر خوان) تمہارے لیے اتاروں گا پھر جوکوئی تم میں سے اس کے بعد کفر کرے گا تو میں اس کو ایسا عذاب دوں گا جو جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیا ہوگا‘‘۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے نبی کی باتوں کو بلا چون وچراماننا چاہیے۔ جب بھی کبھی اللہ تبارک و تعالیٰ سے نشانی مانگ کر اس کے راستے کو چھوڑا گیا تو اللہ تعالیٰ نے چھوڑنے (اور جھٹلانے) والوں کو بہت برا عذاب دیا۔
سورۃ المائدہ میں اللہ نے اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جنابِ عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھیں گے کہ کیاانہوں نے لوگوں کو کہا تھا کہ ان کی اوران کی والدہ سیدہ مریم کی عبادت کی جائے اور انہیں خدا کا بیٹا کہا جائے؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جواب میں کہیں گے: یا اللہ! میں ایسی بات کیسے کہہ سکتا ہوں جسے کہنے کا مجھے حق نہیں۔ میں تو ان کو ہمیشہ یہی کہتا رہا کہ میرے اور اپنے رب اللہ کی عبادت کرو۔ انبیاء کرام نے ہمیشہ اپنی اُمتوں کو توحید کا درس دیا‘ لیکن یہ ان اقوام کی بد نصیبی تھی کہ انبیاء کرام کے راستے کو چھوڑ کر شرک کی دلدل میں اتر گئے۔
سورۃ الانعام
قرآنِ مجید کی مصحفی ترتیب میں سورۃ المائدہ کے بعد سورہ انعام ہے۔ سورۂ انعام کے شروع میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہر قسم کی تعریف اس اللہ کے لیے ہے جو زمین اور آسمان کا خالق ہے اور جس نے اندھیروں اور اُجالوں کو پیدا کیا لیکن کافر پھر بھی اس کا شریک بناتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ اس نے انسا ن کو مٹی سے پیدا کیا‘ پھر اس کو رہنے کا ایک وقت دیا پھر ایک مخصوص مدت کے بعد اس کو زندہ کیا جائے گا‘ لیکن انسان ہے کہ دوبارہ جی اٹھنے کے بارے میں شک کا شکار ہے۔ اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا کہ اللہ ہی ہے آسمان اور زمین میں اور جو انسان کے ظاہر اور باطن کو جانتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے‘ جو وہ کماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں اپنی ملکیت کی وسعت کا بھی ذکر کیا اور ارشاد فرمایا کہ دن اور رات میں جو کچھ بھی موجود ہے‘ اسی کا ہے اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ اگر اللہ تبارک و تعالیٰ انسان کو کوئی گزند، کوئی ضرر یا کوئی نقصان پہنچانا چاہیں تو اس کو کوئی نہیں ٹال سکتا اور اگر وہ اس کو خیریت، عافیت اور امان سے رکھیں تو بھی وہ ہر چیز پر قادر ہیں‘ یعنی انسان کی حالت کو بدلنا اللہ تعالیٰ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ انعام میں یہ بھی بتلایا کہ اہلِ کتاب کے صاحبِ علم لوگ رسول اللہﷺ کو اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح کوئی اپنے سگے بیٹے کو پہچانتا ہے‘ اس کے باوجود یہ لوگ ایمان نہ لا کر اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ کافروں کے طعن و تشنیع رسول اللہﷺ کو دکھ پہنچاتے تھے۔ اللہ نے اپنے نبی کی ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا کہ یہ ظالم لوگ در حقیقت آپ کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کی وسعت کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس غیب کے خزانوں کی چابیاں ہیں اور ان کو ا س کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ خشکی اور سمندر میں جو کچھ بھی موجود ہے‘ اللہ تعالیٰ اس کو جانتے ہیں اور کوئی پتا جو زمین پر گرتا ہو‘ اللہ تعالیٰ اس کو بھی جانتے ہیں اور کوئی ذرہ جو زمین کے کسی اندھیرے مقام پر پڑا ہے‘ وہ اس کو بھی جانتے ہیں اور ہر خشک و تر سے پوری طرح واقف ہیں۔
اس پارے میں اللہ نے اس امر کا ذکرکیا ہے کہ جناب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ آزر اور اپنی قوم کی بت پرستی کی بھر پور طریقے سے مذمت کی۔ بت پرستی کی مذمت کے ساتھ ساتھ آپ نے اجرامِ سماویہ کی حقیقت کو بھی لوگوں پر کھول دیا۔ جگمگ کرتے ستارے‘ چانداور سورج کو ڈوبتے ہوئے دیکھ کر اعلان کیا کہ میں قوم کے شرک سے بری ہوں اور اپنے چہرے کا رخ اس ذات کی طرف کرتاہوں‘ جس نے زمین و آسمان کو بنایا ہے اور میں شرک کرنے والوں میں شامل نہیں۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ انہیں غیراللہ کے پجاریوں کو گالی نہیں دینی چاہیے کہ یہ لوگ معاذ اللہ جواب میں اللہ تبارک و تعالیٰ کو گالی دیں گے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اللہ آنکھوں کو پاتا ہے‘ مگر آنکھیں اس کو دنیا میں نہیں دیکھ سکتیں؛ تاہم سورۃ القیامہ میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا کہ جنتی جنت میں جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کے دیدار کی نعمت سے بھی بہرہ ور ہوں گے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو قرآنِ مجید پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے، آمین!

اسلام برائی کی تشہیر کو پسند نہیں فرماتا ‘مگر مظلوم کی داد رسی کیلئے ظالم کے خلاف آوازبلند کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ آیت 150 میں بتایا کہ جو لوگ ایمان لانے میں اللہ اور اُس کے رسولوں کے درمیان فرق کریں یا بعض رسولوں پر ایمان لائیں اور بعض کا انکار کریں یا ایمان اور کفر کے مابین کوئی درمیانی راستہ تلاش کریں‘ یہ سب لوگ پکے کافر ہیں۔ مومن صرف وہی ہیں جو اللہ پر ایمان لائیں اور بلا تفریق اُس کے سارے رسولوں پر بھی ایمان لائیں۔ آیات 153 تا 161 میں یہود کی بہت سی جہالتوں‘ سرکشیوں‘ ہٹ دھرمیوں اور فرمائشی مطالبات کا ذکر ہے۔ اُنہوں نے رسولﷺ سے مطالبہ کیا کہ ہم پر آسمان سے کتاب نازل کریں‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام سے اس سے بھی بڑے مطالبات کر چکے ہیں‘ پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کی عہد شکنی اور کفر کی وجوہ کو بیان کیا کہ (1) اُنہوں نے آیاتِ الٰہی اورمعجزاتِ انبیاء سے انکار کیا (2) انبیاء کرام کو ناحق قتل کیا (3) حضرت مریم پر بہتان باندھا (4) سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کا دعویٰ کیا (5) ہٹ دھرمی سے یہ کہاکہ ہمارے دلوں پر غلاف ہیں۔ آیت 163 میں بتایا کہ وحیٔ ربّانی اور نبوّت کا سارا سلسلہ آپس میں مربوط ہے۔ حضرت نوح اور اُن کے بعد کے انبیاء کرام علیہم السلام اور حضرت ابراہیم تا حضرت عیسیٰ متعدد انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر فرمایا۔ مزید فرمایا کہ کچھ رسولوں کے نام اور حالات ہم نے آپ پر بیان کیے اور ایسے بھی رسول ہیں‘ جن کے واقعات قرآنِ مجید میں بیان نہیں ہوئے‘ جن کے نام قرآنِ و حدیث میں بیان ہوئے‘ اُن پر نام بہ نام ایمان لانا فرض ہے اور جن کے نام اور حالات بیان نہیں ہوئے‘ اُن پر اجمالی طور پر ایمان لانا فرض ہے۔ آیت 174 میں فرمایا: اے لوگو! تمہارے پاس اللہ کی طرف سے قوی دلیل آ گئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف واضح نور نازل کیا ہے‘ برہان (قوی دلیل) سے مراد ''سیّدنا محمد رسول اللہﷺ‘‘ کی ذاتِ گرامی ہے۔ سیدنا محمدﷺ اور قرآنِ مجید سے مکمل وابستگی اختیار کرنے پر ہی صراطِ مستقیم پر ثابت قدم رہنے کا انحصارہے۔
سورۃ المائدہ: سورۃ المائدہ میں فرمایا کہ مستثنیات کے سِوا (جن کا بیان آگے آ رہا ہے) چار پاؤں والے جانور حلال کیے گئے ہیں‘ لیکن احرام کی حالت میں شِکار حلال نہیں ہے۔ مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں اور حُرمت والے (چار) مہینوں کی بے حرمتی نہ کرو‘ اِسی طرح کعبہ میں بھیجی ہوئی قربانیوں اور جن جانوروں کے گلوں میں (قربانی کی علامت کے) پَٹّے پڑے ہوں‘ اُن کی بھی بے حرمتی نہ کرو۔ اِس کے بعد مسلمانوں کو نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے اور گناہ اور ظلم کے کاموں میں مدد نہ کرنے کا حکم ہوا ہے۔ یہ آیتِ مبارکہ ''جوامع الکلم‘‘ میں سے ہے۔ ہر خیر و شَر‘ بھلائی اور برائی کا اس آیتِ مبارکہ میں بڑے اختصار کے ساتھ تذکرہ کرکے قرآنِ مجید نے تمام کاموں کیلئے ایک اصل اور ضابطہ قراردے دیا ہے۔ آیت 3 میں مُحرماتِ قطعیہ کا بیان ہے‘ جو یہ ہیں: (1) وہ حلال جانور جو طبعی موت مرگیا ہو اور ذبح نہ کیا جا سکا ہو‘ یعنی مُردار (2) ذِبح کے وقت بہنے والا خون (3) خنزیر کا گوشت (4) جس جانور پر ذِبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو (5 تا 10) وہ حلال جانور جو گلا گھونٹنے یا چوٹ لگنے سے مر جائے یا جو بلندی سے گر کر مر گیا ہو یا دوسرے جانور نے سینگوں کی چوٹ سے مار دیا ہو یا درندوں نے کھایا ہو یا بتوں کے تھان پر ذِبح کیا گیا ہو (11) اور فال کے تیروں سے قسمت کا حال معلوم کرنا۔ اِسی آیتِ مبارکہ میں مسلمانوں کیلئے ایک اعزازی اعلان ہوا کہ ''آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور دین) پسند کر لیا ہے‘‘۔ اسی آیت میں بتایا کہ حالتِ اضطرار میں بقائے جان کیلئے بقدرِ ضرورت حرام چیز کا کھانا جائز ہے۔
آیت 5 میں بتایا کہ مسلمانوں کا کھانا اہلِ کتاب کے لیے حلال ہے اور اہلِ کتاب کا کھانا مسلمانوں کے لیے حلال ہے‘ بشرطیکہ وہ کھانا اپنے اصل کے اعتبار سے حلال ہو اور اُس میں کسی حرام کی آمیزش نہ ہو۔ اسی آیت میں یہ حکم بھی بیان ہوا کہ اہلِ کتاب کی آزاد‘ پاک دامن عورتوں سے مسلمان کا نکاح جائز ہے۔ آیت 6 میں وضو کے چار فرائض بیان ہوئے‘ یعنی (1) پورے چہرے کو دھونا (2) کہنیوں سمیت ہاتھوں کا دھونا (3) سر کا مسح (4) ٹخنوں سمیت پاؤں کا دھونا۔ اس کے بعد مریض‘ مسافر‘ بے وضو اور جُنبی (جس پر غسل واجب ہو) کے لیے ضرورت کے وقت تیمم کی اجازت کا بیان ہے۔
آیت 17 میں اللہ تعالیٰ نے مسیح ابن مریم کو ''اِلٰہ‘‘ قرار دینے والوں کو کافرکہا ہے اور فرمایا کہ (بفرضِ محال) اللہ مسیح ابن مریم اور اُن کی ماں کو ہلاک کرنا چاہے‘ تو ساری زمین والے مل کر بھی اُن کو بچا نہیں سکتے۔ پھر یہود و نصاریٰ کی اس خوش فہمی اور زَعمِ باطل کا رَد فرمایا کہ وہ اللہ کے بیٹے اور اُس کے محبوب ہیں۔ فرمایا کہ تم بھی منجملہ انسانوں میں سے ہو۔ اہلِ کتاب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ انبیاء کی بعثت کے بعد اِنقطاعِ نبوّت کا دور آیا اور پھر ہم نے اپنے رسولِ عظیم کو مبعوث فرمایا تا کہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس کوئی بشیر و نذیر نہیں آیا‘ سو اب تمہارے پاس اللہ کی رحمت کی بشارت دینے والے اور اُس کے عذاب سے ڈرانے والے آخری رسول (محمد رسول اللہﷺ) آ چکے۔ آیت 27 تا 31 میں آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا واقعہ بیان ہوا کہ دونوں نے اللہ کی بارگاہ میں قربانی پیش کی‘ ایک کی قربانی قبول ہو گئی اور دوسرے کی رَد ہو گئی۔ اُس زمانے کی شریعتوں میں قربانی کی قبولیت کی علامت یہ تھی کہ آسمان سے آگ آتی اور اُسے جلا ڈالتی۔ قابیل‘ جس کی قربانی رَد ہو گئی‘ اُس نے غصے میں اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا‘ پھر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ''اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیاکہ جس شخص نے جان کے بدلے (یعنی حقِ قصاص) کے بغیر یا زمین میں فساد کے (جرم کے) بغیر کسی انسانی جان کو قتل کیا‘ تو گویا اُس نے تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے (کسی بے قصور) شخص کی جان کو بچا دیا توگویا اُس نے تمام انسانوں کو بچا لیا‘‘۔ آیت 35 میں اہلِ ایمان کو تقویٰ اختیار کرنے اور اللہ کی بارگاہ میں (نجات کا) وسیلہ تلاش کرنے کا حکم دیا۔ آیت 36 میں فرمایا کہ کوئی شخص ساری روئے زمین کا مالک ہو جائے اور اتنی ہی دولت اُسے اور مل جائے‘ اور وہ یہ سب کچھ اپنی جان کے فدیے کے طور پر دے دے‘ تو پھر بھی قیامت کے دن کافر کی نجات ممکن نہیں۔ آیت 38 میں چوری کرنے والے مرد اور عورت کیلئے ہاتھ کاٹنے کی سزا کا حکم ہے‘ یہ اُن کے کیے کی سزا ہے اور اللہ کی طرف سے دوسرے لوگوں کے لیے درسِ عبرت ہے۔ اس کے بعد اگر وہ توبہ کر لیں اور اپنی اصلاح کے لیے آمادہ ہو جائیں تو اللہ اُنہیں معاف فرمانے والا ہے۔ آیت 40 میں زمینوں اور آسمانوں کی بادشاہی اور عذاب دینے اور معاف کرنے کی قدرت رب العالمین کا خاصہ بیان فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو فرمایا کہ اگر وہ آپ کے پاس کوئی مقدمہ لے کر آئیں تو آپ کو اختیار ہے کہ آپ فیصلہ کریں یا نہ کریں‘ لیکن اگر آپ کو فیصلہ کرنا ہو تو وہی فیصلہ کریں‘ جو انصاف پر مبنی ہو۔ اس کے بعد آیت 44 تا 47 میں بالترتیب فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے اَحکام کے موافق فیصلہ نہ کریں‘ وہ کافر ہیں‘ ظالم ہیں اور فاسق ہیں۔
آیت45 میں قانونِ قصاص کو بیان کیاکہ جان کا بدلہ جان‘ آنکھ کا بدلہ آنکھ‘ ناک کا بدلہ ناک‘ کان کا بدلہ کان‘ دانت کا بدلہ دانت اور اِسی طرح زخموں کا بھی قصاص ہے اور جو خوشدلی سے قصاص دے دے (اور اپنے جرم پر صدقِ دل سے توبہ بھی کرے) تو یہ اُس کے گناہ کا کفارہ ہے۔ آیت 49 تا 50 میں بتایا کہ اللہ نے ہر اُمّت کے لیے ایک شریعت اور واضح راہِ عمل مقرر کی ہے‘ اگر اللہ کی مشیّت ہوتی تو سب کو ایک اُمتِ اِجابت بنا دیتا‘ لیکن اُس نے اپنے بندوں کو اختیار دیا ہے کہ وہ حق یا باطل جس راہِ عمل کو چاہیں اختیار کریں اور اِسی میں نیک و بد کی آزمائش ہے۔ آیت 51 میں بتایاکہ یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ‘ مسلمانوں کے مقابلے میں وہ ایک دوسرے کے حامی اور دوست ہیں‘ لہٰذا جو اُن کی دوستی اختیار کرے گا ‘وہ اُنہی میں سے ہو گا۔
آیت 57 میں بتایا کہ اہلِ کتاب میں سے دین کو مذاق بنانے والوں اور کافروں کو دوست نہ بنانا۔ آیت 60 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بدترین سزا اُن لوگوں کی ہے‘ جن پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی‘ اُن پر غَضب فرمایا‘ اُنہوں نے شیطان کی عبادت کی اور اُن میں سے بعض کی صورتوں کو مَسخ کرکے بندر اور خنزیر بنا دیا۔ آیت73 تا 80 تک نصاریٰ کے عقیدے کی خرابیوں کو بیان کیا کہ وہ تثلیث کے قائل ہیں؛ حالا نکہ اللہ تعالیٰ کی ذات وحدہٗ لاشریک ہے۔ مسیح ابن مریم‘ اسی طرح ایک رسول ہیں‘ جس طرح ان سے پہلے رسول گزر چکے اور ان کی ماں صدیقہ ہیں۔

قرآن پاک کے چھٹے پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ سورۃ النساء میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ غلط بات کو پسند نہیں کرتا‘ مگر یہ کہ اگر کوئی مظلوم شخص اپنے اوپر کیے جانے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائے تو اسے ایسا کرنے کی اجازت ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کے اس طرزِ عمل کا ذکر کیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے درمیان تفریق کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بات کو تو مانتے ہیں‘ لیکن رسولﷺ کی بات کو نہیں مانتے۔ یا دوسرے ترجمے کے مطابق‘ اللہ کے بعض رسولوں کو مانتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں، یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تو مانتے ہیں لیکن حضرت محمد رسول اللہﷺ کا انکار کرتے ہیں۔ ایسے لوگ حق سے انکاری ہیں جبکہ مومنوں کا طرزِ عمل یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے فرامین کو بیک وقت مانتے ہیں اور اللہ کے تمام رسولوں کو مانتے ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ یہودی سیدہ مریم علیہا السلام کی کردار کشی کیا کرتے تھے حالانکہ وہ پارسا اور پاک دامن خاتون تھیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا بھی ذکر کیا کہ یہودی اپنی دانست میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو شہید کر چکے تھے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کو یقینا شہید نہیں کیا گیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو آسمانوں کی سمت اٹھا لیا۔ اسی طرح ان کو اللہ تعالیٰ نے سودکھانے سے روکا تھا لیکن وہ اس غلط کام میں مسلسل ملوث رہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کے لیے درد ناک عذاب کو تیار کر دیا تھا لیکن اہلِ کتاب کے پختہ علم والے لوگ‘ جو قرآنِ مجید اور سابقہ الہامی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں اور نمازوں کو قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا شروع کر دیتے ہیں اور آخرت پر ایمان لے آتے ہیں‘ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے اجرِ عظیم تیار کر دیا ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کو اپنی دلیل اور واضح روشنی قرار دیا ہے اور ارشاد فرمایا کہ جو بھی قرآنِ مجید کو مضبوطی کے ساتھ تھامے گا‘ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو اپنے فضل اور رحمت میں داخل فرمائے گا اور اس کو صراطِ مستقیم پر چلائے گا۔
سورۃ المائدہ
سورۃ النساء کے بعد سورۃ المائدہ ہے۔ اس کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو اپنے وعدے پورے کرنے کا حکم دیا ہے اور ان کو اس بات کی تلقین کی ہے کہ انہیں کامیابی اور بھلائی کے کاموں میں تو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے مگر گناہ اور ظلم کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہیں کرنا چاہیے۔ اس پارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ''آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی ہے اور اسلام کو بحیثیتِ دین تمہارے لیے پسند کر لیا ہے‘‘۔ امام بخاریؒ، امام مسلمؒ اور امام احمدؒ نے حضرت طارق بن شہابؓ سے روایت کی ہے کہ ایک یہودی حضرت عمرؓ بن خطاب کے پاس آیا اور کہا: اے امیر المومنین! آپ لوگ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں اگر وہ ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو یومِ عید بنا لیتے۔ انہوں نے پوچھا کہ وہ کون سی آیت ہے؟ اس پر یہودی نے مذکورہ بالا آیت کا ذکر کیا۔
اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو مومنہ عورتوں کے ساتھ ساتھ اہلِ کتاب کی پاک دامن عورتوں سے بھی نکاح کی اجازت دی ہے‘ لیکن یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ سورۃ البقرہ اور سورۃ الممتحنہ کے مطابق‘ مسلمان عورتوں کو صرف مسلمان مردوں ہی سے شادی کرنی چاہیے۔ سورۃ المائدہ میں اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کے اس قول کو رد کیا کہ وہ معاذ اللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ یعنی رب یا رب کا بیٹا کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام‘ ان کی والدہ مریم علیہا السلام اور زمین پر جو کوئی بھی موجود ہے‘ ان کو فنا کے گھاٹ اتار دے تو اللہ تعالیٰ کو کون پوچھ سکتا ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بیان فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ''اللہ تبارک وتعالیٰ نے تم پر جو انعامات کیے ہیں ان کو یاد کرو۔ تم میں انبیاء کرام مبعوث کیے گئے اور تم کو بادشاہت عطا کی گئی اور تم کو وہ کچھ عطا کیا جو کائنات میں کسی دوسرے کو نہیں ملا‘‘۔ اللہ کے احسانات کا احساس دلانے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو کہا کہ اے میری قوم! تم لوگ ارضِ مقدس میں داخل ہو جاؤ۔ انہوں نے کہا: اگر تم لوگ ارضِ مقدس میں داخل ہو جاؤ گے تو یقینا تم غالب آؤ گے۔ اگر تم مومن ہو تو صرف اللہ پر بھروسہ رکھو۔ اس حوصلہ افزا بات کو سن کر بھی وہ بزدل بنے رہے اور کہنے لگے: ''اے موسیٰ علیہ السلام جب تک وہ لوگ وہاں رہیں گے ہم لوگ کبھی وہاں نہیں جائیں گے تم اور تمہارا رب جائو اور جنگ کرو‘ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں‘‘۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اس سارے منظر کو دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئے اور اللہ کی بارگاہ میں کہنے لگے: ''اے میرے رب! مجھے اپنے اور اپنے بھائی کے علاوہ کسی پر کوئی اختیار حاصل نہیں؛ پس تو ہمارے اور نافرمانوں کے درمیان فیصلہ کر دے‘‘۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نافرمانی کی وجہ سے بنی اسرائیل کے لوگ منزل سے بھٹک گئے اور چالیس برس تک در بدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے۔ آج ہمیں بھی اپنے حالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہیں ہماری محرومیوں اور زوال کی وجہ اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسولﷺکے راستے سے ہٹنا تو نہیں۔
اس سورہ مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کے اختلاف کا بھی ذکر کیا ہے کہ اللہ نے ایک بیٹے کی قربانی کو قبول کر لیا جبکہ دوسرے کی قربانی قبول نہ ہوئی۔ جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی تھی اس نے حسد کا شکار ہو کر اپنے بھائی کو بلاوجہ شہید کر دیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے بیٹوں کے واقعے کو بیان فرما کر انسان کے قتل کی شدید مذمت کی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو ایک انسان کا ناحق قتل کرتا ہے‘ وہ ایک انسان کا قتل نہیں کرتا پوری انسانیت کا قتل کرتا ہے اور جو ایک کو زندہ کرتا (اس کی جان بچاتا ہے) ہے‘ وہ ایک کو زندہ نہیں کرتا بلکہ پوری انسانیت کو زندہ کرتا ہے۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے زمین پر فساد پھیلانے والوں کے لیے سخت سزا کو تجویز کیا ہے کہ ان کو پھانسی دے دینی چاہیے یا ان کو قتل کر دینا چاہیے یا ان کے ہاتھوں اور پیروں کو (مخالف اطراف سے) کاٹ دینا چاہیے یا ان کو جلا وطن کر دینا چاہیے۔ یہ دنیا میں ان کے کیے کی سزا ہے اور آخرت کا عذاب تو انتہائی دردناک ہے۔ اس آیت کی شانِ نزول کی بابت آتا ہے کہ عکل اور عرینہ قبیلے کے کچھ لوگ مسلمان ہو کر مدینہ آئے‘ انہیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی تو نبی کریمﷺ نے انہیں مدینہ سے باہر‘ جہاں صدقے کے اونٹ تھے‘ بھیج دیا؛ چنانچہ چند روز میں وہ ٹھیک ہو گئے لیکن اس کے بعد انہوں نے اونٹوں کے رکھوالے اور چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹ ہنکا کر لے گئے۔ جب نبی اکرمﷺ کو اس امر کی اطلاع ملی تو آپﷺ نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے جو انہیں اونٹوں سمیت پکڑ لائے۔ نبی کریمﷺنے ان کے ہاتھ پیر مخالف جانب سے کٹوا کر ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروا دیں‘ (کیونکہ انہوں نے بھی چرواہے کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا) پھر انہیں دھوپ میں پھینک دیا گیا حتیٰ کہ وہیں مر گئے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ سے دوستی کی مذمت کی ہے اور کہا کہ جو ان سے دلی دوستی رکھتا ہے وہ انہی میں سے ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو اس امر کی تلقین کی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے نازل کردہ پیغامات کو پھیلائیں‘ آپ کے دشمن آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے ذاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں منفی اقوال کو بھی پیش کیا کہ معاذ اللہ وہ کہتے ہیں کے اللہ کے ہاتھ تنگ ہیں۔ اللہ نے کہا کہ ان کے اپنے ہاتھ تنگ ہیں اور ان پر لعنت ہو اپنے اس قول کی وجہ سے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کہا کہ اس کے ہاتھ کھلے ہیں اور وہ جیسے چاہتا ہے‘ خرچ کرتا ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ جناب دائود اور عیسیٰ علیہما السلام نے بنی اسرائیل کے کافروں پر لعنت کی اس لیے کہ وہ بُرائی کے کاموں سے روکنے کے بجائے خود اس میں ملوث ہو چکے تھے اور ان کا یہ کام انتہائی برا تھا۔ ہم مسلمانوں کو بھی برائی کے کام سے روکنے کا عمل جاری رکھنا چاہیے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں قرآنِ مجید فرقانِ حمید کوپڑھنے‘ سمجھنے اور اس پرعمل کرنے کی توفیق دے، آمین!

پانچویں پارے کے شروع میں محرماتِ قطعیہ کے تسلسل میں یہ بھی بتایا کہ جب تک کوئی عورت کسی دوسرے شخص کے نکاح میں ہے‘ اس سے نکاح حرام ہے، یہاں تک کہ اگر شوہر نے طلاق دے دی ہو تو عدت کے اندر نکاح اور واضح الفاظ میں نکاح کا پیغام دینا بھی حرام ہے۔ البتہ عدت کے بعد عورت اپنی رضامندی سے دوسرے شخص کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے۔ آیت 29 میں بتایا کہ باطل طریقوں سے ایک دوسرے کا مال کھانا حرام ہے اور باہمی رضامندی سے تجارت جائز ہے اور اس سے حاصل ہونے والا نفع بھی جائز ہے۔ اسی طرح ہبہ اور وراثت کے ذریعے جو مال ملے وہ بھی جائز ہے‘ مگر جوا‘ سٹہ‘ غصب‘ چوری‘ ڈاکا‘ خیانت‘ رشوت‘ جھوٹی قسم کھا کر اور جھوٹی گواہی کے ذریعے دوسروں کا مال حاصل کرنا حرام ہے۔ جو شخص ظلماً دوسروں کا مال کھائے گا وہ جہنم کا ایندھن بنے گا۔ آیت 32 میں حسد کی ممانعت کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے کسی کو مال‘ عزت یا مرتبے میں فضیلت دے رکھی ہے تو اس کے زائل ہونے کی تمنا نہ کرو‘ کیونکہ یہی حسد ہے جو حرام ہے‘ کسی کے ساتھ حسد کرنے سے بہتر ہے کہ اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرو‘ اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''مرد عورتوں کے منتظم اور کفیل ہیں‘ کیونکہ اللہ نے ان میں سے ہر ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس لیے (بھی) کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے ہیں (یعنی شوہر مہر بھی ادا کرتا ہے اور بیوی بچوں کی کفالت بھی اس کے ذمے ہے)‘‘ آیت 37 میں اللہ تعالیٰ نے توحید کا حکم فرمایا اور شرک (کی تمام صورتوں) کی ممانعت فرمائی ہے۔ اس کے بعد حقوق العباد کا بیان ہوا اور فرمایا کہ ماں باپ‘ قرابت داروں‘ یتیموں‘ مسکینوں‘ پڑوسیوں‘ مسافروں اور اپنے ما تحتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو‘ پھر پڑوسیوں کی درجہ بندی کی۔ آیت 37 تا 40 میں بُخل اور رِیا کاری کی ممانعت کا حکم ہے اور فرمایا کہ جس کو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان نہ ہو وہی رِیاکاری کر سکتا ہے۔ یہ بھی فرمایا کہ اللہ کسی پر ذرہ برابر ظلم نہیں فرماتا اور نیکی کا اجر دُگنا فرما دیتا ہے۔ آیت 45 میں نماز کے چند مسائل بیان فرمائے۔ آیت 46 میں یہودیوں کی ایک قبیح خصلت کا ذکر ہے کہ وہ کلامِ الٰہی میں تحریف کرتے ہیں۔ آیت 48 میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ شرک کے گناہ کو کسی صورت میں معاف نہیں فرماتا‘ اس کے علاوہ وہ جس کیلئے چاہے‘ اس سے کم تر گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ آیت 58 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ امانتیں ان کے حق داروں کو دو اور جب فیصلہ کرنے لگو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔ آیت 59 میں فرمایا: ''اے مومنو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور جو تم میں سے صاحبانِ اختیار ہیں‘ ان کی اطاعت کرو‘‘۔ اس میں اللہ عزّوجل اور رسولِ مکرمﷺ کی غیر مشروط اطاعت کا حکم ہے اور اہلِ اقتدار کی اطاعت مشروط ہے۔ اگر اہلِ اقتدار کے ساتھ کسی معاملے کے جائز یا ناجائز ہونے کی بارے میں اختلاف ہو جائے تو فیصلہ قرآن وسنت کی روشنی میں ہوگا۔
آیات 60 تا 63 میں منافقین کی مکروہ چالوں اور دو رُخے پن کا ذکر ہے۔ اس کے بعد اہلِ ایمان کیلئے ایک ایمان افروز نوید ہے۔ آیت 65 میں فرمایا کہ جو لوگ اللہ کے رسول کو آپس کے جھگڑوں میں حاکم نہ بنائیں اور پھر آپ جو فیصلہ صادر فرما دیں اسے دل و جان سے قبول نہ کریں (یعنی رسول اللہﷺ کے فیصلے پر دل میں بھی کوئی تنگی اور ملال نہیں آنا چاہیے) تو وہ بظاہر ایمان کے دعوے کے باوجود حقیقت میں مومن نہیں ہو سکتے۔ آیت 69 میں فرمایا: جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے تو وہ (آخرت میں) ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے‘ جو انبیاء‘ صدیقین‘ شہدا اور عباد الصالحین ہیں۔ اس کے بعد جہاد کے بارے میں احکام‘ ہدایات اور کامیابی کی بشارتیں ہیں۔ آیت 76 اور اس کے بعد والی آیات میں بتایا کہ منافق اور بزدل لوگوں کو جب جہاد کی دعوت دی جاتی ہے تو جان جانے کے خوف سے ان کے دل لرز جاتے ہیں اور وہ زندگی کی مہلت چاہتے ہیں۔ آیت 86 میں معاشرتی آداب بتائے گئے کہ جب تمہیں کسی لفظ سے سلام کیا جائے تو تم اس سے بہتر الفاظ میں جواب دو (جیسے السلام علیکم کے جواب میں کہا جائے: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ) یا کم ازکم انہی الفاظ میں جواب دو (جیسے السلام علیکم کے جواب میں کہا جائے: وعلیکم السلام)۔ زمانۂ جنگ میں مسلمانوں کو کئی طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا تھا: (الف) وہ منافقین جو دل سے مسلمانوں کی تباہی اور ناکامی چاہتے تھے‘ ان کیلئے فرمایا کہ نہ تو انہیں اپنا دوست بنایا جائے اور نہ ان کے ساتھ کوئی رعایت برتی جائے‘ بلکہ ان کا قلع قمع کر دیا جائے۔ (ب) کچھ لوگ وہ تھے جو جنگ سے گریز چاہتے تھے‘ نہ مسلمانوں سے لڑنا چاہتے تھے اور نہ اپنی قوم کی حمایت میں لڑنا چاہتے تھے یا وہ ایسی قوم کے پاس چلے جاتے‘ جن کے ساتھ مسلمانوں کا جنگ نہ کرنے کا معاہد ہ ہے‘ تو قرآن نے بتایا: اگر وہ جنگ سے کنارہ کش ہو جائیں اور مسلمانوں سے نہ لڑیں اور مسلمانوں کو صلح کا پیغام دیں تو مسلمانوں کو بھی ان سے تعرُّض نہیں کرنا چاہیے۔ (ج) منافقین کا ایک گروہ وہ تھا جو مسلمانوں اور اپنی قوم دونوں کے ساتھ امن سے رہنا چاہتا تھا لیکن ان کی باطنی کیفیت یہ تھی کہ اگر ان کی قوم کی طرف سے مسلمانوں پر جنگ مسلط کر دی جائے‘ تو وہ اس میں کود پڑیں، تو قرآن نے بتایا: اگر وہ مسلمانوں سے الگ نہ ہوں اور مسلمانوں کو صلح کا پیغام نہ دیں اور موقع ملنے پر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے سے اپنا ہاتھ نہ روکیں تو مسلمانوں کو بھی حق ہے کہ موقع ملنے پر ان کا قلع قمع کر دیں۔ آیت 92 میں قتلِ خطا کا حکم بیان ہوا ہے کہ اگر کسی مسلمان کے ہاتھوں غیر ارادی طور پر غلطی سے کسی مسلمان کا قتل ہو جائے تو اس کی تلافی کیلئے کفارہ بھی دینا ہوگا اور مقتول کے ورثا کو دیت بھی دینی ہو گی‘ سوائے اس کے کہ مقتول کے ورثا دیت معاف کر دیں۔ آیت 93 میں قتلِ عمد یعنی ارادی طور پر کسی بے قصور انسان کی جان کو تلف کرنے کا حکم بیان کیا گیا۔ آیت 95 میں یہ بتایا کہ جو لوگ جہاد سے کنارہ کش ہیں‘ ان کا درجہ ان کے برابر نہیں ہو سکتا جو اپنی جان ومال سے اللہ کی راہ میں جہاد کر رہے ہیں۔ آیت 101 اور بعد کی آیات میں مسافر کیلئے نماز میں قصر کا حکم بیان ہوا ہے‘ فقہ حنفی میں مسافتِ سفر کی مقدار 98 کلومیٹر ہے۔ نماز اور جماعت اتنا لازمی فریضہ ہے کہ حالتِ جنگ میں بھی ساقط نہیں ہوتا‘ پھر فرمایا کہ جب تم نماز ادا کر چکو تو حالتِ قیام‘ حالتِ قعود اور کروٹوں کے بل لیٹے ہوئے‘ یعنی ہر حال میں اللہ کو یاد کرو‘ اللہ کا ذکر کرو اور جب حالتِ جنگ ختم ہو جائے اور امن کی حالت ہو تو معمول کے مطابق نماز ادا کرو‘ بے شک نماز مومنوں پر وقتِ مقرر میں فرض کی گئی ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ جو کوئی گناہ کاکام کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے‘ پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے‘ تو وہ اللہ کو غفور و رحیم پائے گا اور ہر شخص کی بداعمالیوں کا وبال اُسی پر آئے گا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''اور جو شخص ہدایت کے ظاہر ہونے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور تمام مسلمانوں کے راستے کے خلاف چلے‘ تو ہم اُسے اُسی طرف پھیر دیں گے‘جسے اُس نے خود اختیار کیا اور اُسے جہنم میں داخل کر دیں گے اور وہ برا ٹھکانہ ہے‘‘۔ اس میں واضح طور پر وعید ہے کہ کسی شخص کا مسلمانوں کے اجماعی راہ سے ہٹ کر اپنے لئے الگ راہِ عمل متعین کرنا جہنم کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کے پیروکاروں کیلئے جہنم کی وعید سنائی ہے اور مومنینِ کاملین کیلئے جنت کی بشارت دی ہے اور فرمایا کہ ہرصاحبِ ایمان مرد اور عورت جنہوں نے حالتِ ایمان میں نیک کام کیے‘ وہ جنت میں داخل ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اُس سے اچھا دین کس کا ہو گا‘جو اپنے آپ کو اللہ کی بندگی کے سپردکر دے‘ اور وہ نیکوکار ہو اور ملّتِ ابراہیم کا پیروکار ہو۔ آیت 135 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''اے مومنو! انصاف پر مضبوطی سے قائم رہنے والے اور اللہ کیلئے گواہی دینے والے بن جاؤ‘ خواہ (یہ گواہی) تمہاری ذات کے خلاف ہو یا تمہارے ماں باپ اور قرابت داروں کے خلاف ہو (فریقِ معاملہ) خواہ امیر ہو یا غریب‘ اللہ اُن کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے۔ پس(گواہی دیتے وقت) تم خواہش کی پیروی کر کے عدل سے رُوگردانی نہ کرو اور اگر تم نے گواہی میں ہیر پھیر کیا یا اعراض کیا تو اللہ تمہارے سب کاموں سے خوب باخبر ہے‘‘۔ منافقین کی ایک علامت یہ بتائی کہ نماز میں سستی کرتے ہیں‘ نماز کو ایک بوجھ سمجھتے ہیں اور صرف دکھاوے کیلئے نماز پڑھتے ہیں۔ یہ لوگ ہمیشہ کفر و ایمان کے درمیان متزلزل رہتے ہیں‘ اسی لیے فرمایا کہ منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے۔

چوتھے پارے کے آخر میں ان رشتوں کا ذکر کیا گیا ہے‘ جن سے نکاح کرنا حرام ہے۔ پانچویں پارے کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کے لیے چُنی جانے والی عورتوں کے اوصاف کا ذکر کیا کہ نہ ان میں بُرائی کی علت ہونی چاہیے اور نہ غیر مردوں سے خفیہ مراسم پیدا کرنے کی بری عادت۔ اسی طرح انسان جب کسی عورت سے نکاح کا ارادہ کرے تو اُسے عورت کے اہلِ خانہ کی اجازت سے یہ کام کرنا چاہیے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو نصیحت کی ہے کہ ان کو باطل طریقے سے ایک دوسرے کا مال ہڑپ کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ باہمی رضا مندی سے ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کیا کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس پارے میں اپنے بندوں کو خوشخبری بھی دی ہے کہ اگر وہ بڑے گناہوں سے بچ جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے چھوٹے گناہوں کو معاف فرما دے گا اور ان کو جنت میں داخل فرما دے گا۔ اس پارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے گھریلو سطح پر اختیارات کا تعین بھی فرما دیا کہ مرد‘ عورتوں پر نگران کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قرآنِ مجید نے ہمیشہ مرد و زن کے باہمی حقوق کا ذکر کیا ہے لیکن حتمی فیصلے کرنے کے حوالے سے مردوں کو عورتوں پر یک گونہ فوقیت دی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو مردوں کی وہبی فضیلت ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ عام طور پر گھروں کے اخراجات مردوں کے ذمے ہوتے ہیں۔ اس پارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے والدین‘ قریبی اعزہ و اقارب‘ یتیموں‘ مسکینوں‘ قریبی ہمسایوں اور دور کے ہمسایوں سے حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔
اس پارے میں اس آیت کا بھی نزول ہوا کہ اے ایمان والو! نماز کے قریب نہ جائو جبکہ تم نشے کی حالت میں ہو‘ یہاں تک کہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ کیا کہہ رہے ہو۔ اس آیت کے شانِ نزول کے حوالے سے ابوداؤد‘ نسائی اور ترمذی نے الفاظ کے کچھ اختلاف کے ساتھ روایت کی ہے کہ ''حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے شراب حرام ہونے سے پہلے چند مہاجرین اور انصار صحابہ کو دعوت پر مدعو کیا۔ انہوں نے کھانا کھایا اور شراب پی لی‘ جب نماز کا وقت آیا تو ایک شخص نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ نشے میں ہونے کی وجہ سے وہ کوئی لفظ پڑھنا بھول گیا‘ جس سے آیت کے معنی بالکل بدل گئے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس پر مذکورہ بالا آیت کا نزول فرمایا۔ اس کے کچھ دنوں کے بعد سورۃ المائدہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان آیات کا نزول فرما دیا کہ ''اے ایمان والو! بے شک شراب‘ جوا‘ بت گری اور پانسہ ناپاک اور شیطانی کام ہیں۔ پس‘ تم ان سے بچو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ‘‘۔ اور شراب ہمیشہ کیلئے حرام ہو گئی۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے شرک کو سب سے بڑا گناہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ شرک کے علاوہ ہر گناہ کو معاف کر سکتا ہے‘ لیکن وہ شرک کو کسی بھی طور پر معاف نہیں کرے گا۔ اس پارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حسدکی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حسدکرنے والے لوگ درحقیقت اللہ کے فضل اور عطا سے حسد کرتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آل پر کیے جانے والے انعامات کا ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی آل کو نبوت اور حکومت سے نوازا تھا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس پارے میں یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ''اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل (افراد) کے پاس پہنچا دو۔ امانتوں میں ہر قسم کی امانتیں‘ چاہے اللہ کی ہوں یا بندوں کی‘ شامل ہیں۔ رسول کریمﷺ کو اہلِ مکہ دشمنی کے باوجود امین کہتے تھے اور جس دن آپﷺ ہجرت فرما رہے تھے‘ اس دن بھی کفار کی امانتیں آپﷺ کے پاس موجود تھیں‘ جن کو لوٹانے کی ذمہ داری آپﷺ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سپرد کر کے مدینہ روانہ ہوئے تھے۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسولﷺ کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے اختیار (یا علم) والوں کی بھی‘ پھر اگر کسی معاملے میں اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو‘‘۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت لازمی ہے اور صاحبِ اختیار کی اطاعت بھی ہونی چاہیے‘ لیکن اگر تنازع کی صورت پیدا ہو جائے تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی بات کو حرفِ آخر سمجھنا چاہیے۔ امام احمدؒ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول کریمﷺ نے ایک انصاری صحابی کی قیادت میں ایک فوجی دستے کو بھیجا‘ دستے کے امیر کسی بات پر لوگوں سے ناراض ہو گئے تو انہوں نے آگ جلائی اور لوگوں کو اس میں کودنے کے لیے کہا۔ دستے کے ایک نوجوان نے لوگوں کو کہا کہ ہم لوگ رسول کریمﷺ پر آگ سے بچنے کے لیے ایمان لائے ہیں‘ اس لیے ہم جلدی نہ کریں‘ یہاں تک کہ رسولﷺ سے پوچھ لیں۔ جب انہوں نے واپس آکر رسول کریمﷺ سے اس بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے کہا کہ اگر تم لوگ اس میں کود جاتے تو اس سے کبھی نہ نکلتے۔ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر لیڈر یا حاکم قرآن وسنت کے خلاف یا عوام کے مفادات اور مصالح کے خلاف کوئی اقدامات کر رہا ہو تو اس کے ان ناجائز اقدامات کو قبول کرنا خلافِ دین ہے۔
اس پارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے رسول اللہﷺ کی اطاعت کی اہمیت کا بھی ذکر کیا کہ جو رسول کریمﷺ کی اطاعت کرتا ہے‘ وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے۔ اسی طرح اس پارے میں یہ بھی ارشاد ہوا کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرتے ہیں‘ وہ قیامت کے دن نبیوں‘ صدیقوں‘ شہیدوں اور صلحاء کے ہمراہ ہوں گے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے تحفے اور سلام کے جواب دینے کے آداب بھی بتلائے ہیں کہ جب کوئی کسی کو سلام کہے یا تحفہ دے تو ایسی صورت میں بہتر جواب اور بہتر تحفہ پلٹانا چاہیے اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو کم از کم اتنا جواب اور اتنا تحفہ ضرور دینا چاہیے‘ جتنا وصول کیا گیا ہو۔ اس پارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے دارالکفر میں رہنے والے مسلمانوں کا بھی ذکر کیا ہے کہ ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے فرائض اور واجبات کو احسن انداز میں ادا کریں‘ اگر وہ ایسا نہ کر سکیں تو ان کو اس ملک سے ہجرت کر جانی چاہیے۔ اگر وہ ہمت اور استطاعت رکھنے کے باوجود ہجرت نہیں کرتے تو ان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں جواب دہ ہونا پڑے گا؛ تاہم ایسے لوگ اور عورتیں‘ جو معذوری اور بڑھاپے کی وجہ سے ہجرت سے قاصر ہوں گے‘ اللہ تعالیٰ ان سے مواخذہ نہیں کریں گے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے نماز کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ نماز حالتِ جہاد میں بھی معاف نہیں؛ تاہم جہاد اور سفر کے دوران نمازکو قصر کیا جا سکتا ہے۔ خوف اور جنگ کی حالت میں فوج کے ایک حصہ کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہیے جبکہ ایک حصے کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نماز ادا کرنا چاہیے اور جونہی امن حاصل ہو جائے‘ نماز کو بروقت اور احسن انداز سے ادا کرنا چاہیے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریمﷺ کی مخالفت کرنے والوں کی بھی مذمت کی ہے اور ارشاد فرمایا کہ جو کوئی ہدایت واضح ہو جانے کے بعد رسول اللہﷺ کی مخالفت کرے گا‘ اللہ تعالیٰ اس کا رخ اس کی مرضی کے راستے کی طرف موڑ دیں گے اور اس کا ٹھکانہ جہنم کی آگ ہے‘ جو بہت بُرا ٹھکانہ ہے۔ اس پارے کے آخر میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے بارے میں اپنے بندوں کو بتلاتے ہیں کہ اگر لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر ایمان لے آئیں اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کریں تو اللہ تعالیٰ کو انہیں عذاب دینے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایمان اور شکر گزاری کے راستے کو اختیار کرنا ہو گا۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآنِ مجید کو پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!

چوتھے پارے کی پہلی آیت میں بیان ہوا کہ نیکی کا مرتبۂ کمال یہ ہے کہ اپنے پسندیدہ اور محبوب مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ رسول اللہﷺ اونٹ کا گوشت کھاتے تھے اور اونٹنی کا دودھ نوش فرماتے تھے‘ اِس پر یہود نے اعتراض کیا کہ اونٹنی کا گوشت اور اُس کا دودھ شریعتِ ابراہیمی سے حرام چلا آ رہا ہے، رسول اللہﷺ نے یہود کو چیلنج کیا کہ اگر تمہارا دعویٰ سچا ہے تو تورات لے آؤ اور اُس میں یہ حکم دکھا دو‘ ورنہ یہ اللہ پر تمہارا افترا ہے کیونکہ شرعی طور پر کسی چیز کو حرام قرار دینا اللہ عزّوجل کا حق یا اُس کے اختیار سے اس کے رسول کا حق ہے۔ آیت 95 تا 97 میں صاحبِ استطاعت پر حج کی فرضیت کا حکم بیان ہوا اور یہ کہ زمین پر اللہ کی عبادت کیلئے سب سے پہلاگھر مکۂ مکرمہ میں بیت اللہ بنایا گیا جس میں واضح نشانیاں ہیں‘ مقامِ ابراہیم ہے اور یہ جائے امن ہے۔ آیت 103 تا 110 میں اتحادِ اُمّت اور فرقہ بندی سے بچنے کا حکم بیان ہوا اور فرمایا کہ اسلام سے پہلے تم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے اور اپنی بد اعمالیوں کے سبب آگ کے گڑھے کے کنارے پر پہنچ چکے تھے مگر نعمتِ بعثتِ مصطفی اور نعمت ِ اسلام کی برکت سے اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اورتم بھائی بھائی بن گئے۔ آیت 111 میں امتِ مسلمہ کو بہترین امت قرار دے کر اس کی وجۂ فضیلت بیان کی کہ تمہیں اس مقصد کیلئے پیدا کیا گیا ہے کہ عالمِ انسانیت میں نیکیوں کو پھیلاؤ اور برائیوں کو روکو‘ یعنی اُمّت مسلمہ کی ذمہ داری عالَمِ انسانیت کو دعوتِ حق دینا اور نبوی مشن کو سر انجام دینا ہے۔ آیت 112 میں بتایا گیا ہے کہ یہود پر اُن کے ناروا اعمال کے سبب ذلت مسلط کر دی گئی کیونکہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے‘ اس کے انبیاء کو ناحق قتل کرتے تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے۔ آیت 118 میں حکم ہوا کہ اہلِ ایمان کو چاہیے کہ وہ اپنے دین کے دشمنوں کو اپنا راز دار نہ بنائیں‘ وہ مسلمانوں کی بربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے اور مسلمانوں کا مصیبت میں مبتلاہونا ان کی خواہش ہے‘ ان کی مسلمانوں سے نفرت کسی حد تک ان کی باتوں سے عیاں ہے اور جو بغض و عناد وہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں‘ وہ اس سے سوا ہے۔ ان کا شِعار منافقت ہے۔ مسلمانوں کی راحت سے انہیں تکلیف پہنچتی ہے اور دکھ سے انہیں راحت پہنچتی ہے۔ غزوۂ بدر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آیت 122میں فرمایا کہ منافقین کا ساتھ چھوڑنے کے بعد مسلمانوں کی دو جماعتوں (بنوحارثہ اور بنو سلمہ) کی ہمتیں پست ہو رہی تھیں کہ اللہ نے انہیں بچا لیا۔ آیت 123 تا 128میں غزوۂ بدر کا ذکر ہے‘ اللہ نے ایسے حالات میں کہ مسلمان ظاہری اعتبار سے کمزور تھے‘ تین ہزار فرشتے ان کی مدد کیلئے اتارے اور مزید نصرتِ غیبی کا وعدہ فرمایا۔ یہ بھی بتایا کہ مجاہدین کی مدد کیلئے فرشتوں کا نزول مومنوں کے اطمینانِ قلب کیلئے تھا۔ آیت 130 میں ایک بار پھر سود کی ممانعت کا حکم نازل ہوا کہ حرام طریقے سے مال کو دگنا‘ چوگنا نہ کرو۔ آیت 133 اور 134 میں بیان ہوا کہ جنت کے حقدار اہلِ تقویٰ کا شِعار یہ ہے کہ خوشحالی ہو یا تنگدستی‘ ہر حال میں اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں‘ غصے پر قابو پاتے ہیں اور لوگوں کی خطاؤں کو معاف کر دیتے ہیں۔ اگلی آیات میں امت کے گناہگاروں کو نویدِ مغفرت دی گئی کہ اگر تم نے اللہ کی نافرمانی اور بے حیائی کے کام کیے ہیں تو ایک بار پھر تمہیں دعوت ہے کہ پلٹ آؤ‘ اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو؛ بشرطیکہ وہ گناہوں پر اصرار نہ کریں بلکہ انہیں ترک کر دیں۔ آیت 139 تا 143میں غزوۂ احد میں اَفرادی قوت اور اسباب میں کمی کے سبب دل چھوڑنے والے مجاہدین کو تسلی دی کہ ثابت قدم رہو‘ آخرکار تم ہی سرفراز ہو گے۔ اگر وقتی طور پر تمہیں کوئی تکلیف پہنچی ہے تو اہلِ حق کے ساتھ ایسا ماضی میں بھی ہوتا رہا مگر برے دن ہمیشہ نہیں رہتے اور یہ ابتلائیں مسلمانوں کیلئے درجات کی بلندی کا سبب بنتی ہیں اور جنت کے حصول کیلئے مسلمانوں کو مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ موت سے ڈرنا مسلمانوں کا شِعار نہیں۔ آیت 164میں اللہ تعالیٰ نے بعثتِ مصطفیﷺ کو اہلِ ایمان کیلئے اپنی نعمت اور احسان قرار دیا اور آپ کے فرائضِ نبوت کو ایک بار پھر بیان فرمایا۔ منافق غزوۂ احد کے مجاہدین کو بار بار ذہنی اذیت پہنچاتے ہوئے کہتے کہ اگر تم نے ہماری بات مانی ہوتی تو ان نتائج سے بچ جاتے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے شہداء کی عظمتِ شان کو مسلمانوں کی طمانیت کیلئے ان الفاظ میں بیان فرمایا: ''اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کر دیے جائیں (مردہ کہنا تو درکنار) انہیں مردہ گمان بھی نہ کرو‘ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں‘ انہیں رزق دیا جاتا ہے‘ اللہ نے اپنے فضل سے جو انہیں عطا فرمایا ہے‘وہ اس پر خوش ہیں‘‘۔ کافروں کو بتایا گیا کہ انہیں جو دنیا میں ڈھیل دی جا رہی ہے‘ یہ ان کیلئے مزید تباہ کن ہو گی کیونکہ جتنی سرکشی وہ کرتے چلے جائیں گے انجامِ کار اس کا وبال اُن پر ہی آئے گا۔ آیت 180 میں ان بخیل مالداروں کو‘ جو اللہ کا دیا ہوا مال اس کی راہ میں خرچ نہیں کرتے‘ وعید سنائی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جو (مال) انہیں عطا کر رکھا ہے‘ وہ یہ گمان نہ کریں یہ ان کے حق میں بہتر ہے‘ بلکہ یہ ان کے حق میں برا ہے اور قیامت کے دن اُن کے اِسی جمع کیے ہوئے مال کا طوق بنا کر ان کے گلے میں ڈالا جائے گا۔ آیت 183 میں یہود کے اس مطالبے کا ذکر ہے کہ ان کے نزدیک نبی کی صداقت کی نشانی یہ ہے کہ وہ اللہ کیلئے قربانی پیش کرے اور آسمان سے آگ آئے اور اسے کھا جائے (یعنی جلا کر راکھ کر دے)۔ بتایا گیا کہ یہ محض ان کی ضد اور ہٹ دھرمی ہے‘ جن رسولوں نے یہ معجزہ پیش کیا‘ کیا ان پر سب لوگ ایمان لائے؟ آیت 190 اور اس کے بعد والی آیات میں یہ بتایا کہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور نظامِ گردشِ لیل ونہار میں عقلمندوں کیلئے نشانیاں ہیں‘ یہ وہ لوگ ہیں جو حالتِ قیام میں‘ بیٹھے ہوئے اور کروٹوں کے بل لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اللہ کی حکمتوں پر غور وفکر کرتے ہیں۔
سورۃ النساء: اس کے بعد سورۃ النساء کی ابتدائی 23 آیات ہیں۔ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے: اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو‘ جس نے تمہیں ایک شخص سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی (حوا) کو پیدا کیا اور پھر ان دونوں کے ذریعے کثیر تعداد میں مرد اور عورتیں زمین میں پھیلا دیے‘ یعنی تمام انسانیت کی اصل ایک ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ اپنے زیرِ کفالت یتیموں کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھاؤ‘ یہ بہت بڑا گناہ ہے‘ اسی طرح اپنے خراب مال کو یتیم کے اچھے مال سے تبدیل نہ کرو۔ اگلی آیت میں یہ بتایا کہ اگرچہ بوقتِ ضرورت ایک سے زیادہ چار تک شادیوں کی اجازت ہے‘ لیکن ازواج کے درمیان عدل کی کڑی شرط کے ساتھ۔ زیرِ کفالت یتیموں کے حوالے سے فرمایا کہ اگر وہ اپنے مال کی حفا ظت کا شعور نہیں رکھتے تو ان کے سرپرست کو چاہیے کہ ان کے مال کی حفاظت کرے‘ ان کی ضروریات کی کفالت کرے اور ان سے حسنِ سلوک کرے۔ یتیم کا مال اس وقت اس کے سپرد کرو جب وہ بالغ اور عقلمند ہو جائے۔ اس اندیشے سے یتیم کا مال جلدی جلدی ہڑپ نہ کرو کہ وہ بالغ ہوکر اپنے مال کا مطالبہ کرے گا اور جب یتیم کا مال اس کے حوالے کرو‘ احتیاطاً گواہ مقرر کر لو۔ قرآن نے یہ بھی بتایا کہ یتیم کا سرپرست اگر غنی ہے تو اپنی ذات اور ضروریات پر یتیم کے مال کو خرچ نہ کرے اور اگر وہ فقیر ہے تو صرف بقدرِ ضرورت اپنے اوپر خرچ کر لے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ مرد ہو یا عورت‘ شریعت میں اپنے مقررہ حصے کی وراثت پانے کا حقدار ہے‘ یعنی اسلام میں عورت کو وراثت سے محروم نہیں رکھا گیا۔ سورۃ النساء کی آیت 11 اور 12 میں وراثت کے مسائل بیان فرمائے گئے ہیں۔ آیت 16 اور 17 میں اللہ تعالیٰ نے قبولیتِ توبہ کا اصول بیان فرمایا ہے کہ جن لوگوں سے گناہ سرزد ہو جائے اور وہ غلطی کا احساس ہونے پر جلدی توبہ کر لیں تو ان کی توبہ کی قبولیت اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے‘ لیکن جو لوگ زندگی بھر گناہ کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ فرشتۂ اجل سر پر آ کھڑا ہو اور پھر کہیں کہ میں نے توبہ کی تو ان کی توبہ کی قبولیت کی کوئی ضمانت نہیں اور جن کی موت کفر پر واقع ہو جائے‘ ان کی آخرت میں نجات کی کوئی ضمانت نہیں۔ یہ بھی ارشاد ہوا کہ بیوی کا مقررہ مہر خواہ کم ہو یا زیادہ‘ ادا کرنا چاہیے۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ جن عورتوں سے نسب کے رشتے سے نکاح حرام ہے‘ اُن سے رضاعت کے رشتے سے بھی حرام ہے اور آیت 23 میں بھی یہ مسئلہ بیان کر دیا گیا ہے۔

چوتھے پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ''تم اس وقت تک بھلائی کو نہیں پہنچ سکتے‘ جب تک اس چیز کوخرچ نہیں کرتے‘ جو تمہیں محبوب ہے اور جوکچھ تم خرچ کرتے ہو‘ اللہ اس کو خوب جانتا ہے‘‘۔ اس آیت کے نزول کے بعد صحابہ کرامؓ نے اپنے محبوب ترین مال کو بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا شروع کر دیا تھا۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت انسؓ بن مالک سے مروی ہے کہ جناب ابوطلحہؓ بہت مالدار صحابی تھے۔ ان کا سب سے محبوب مال بیرحاء کا باغ تھا‘ جو مسجد نبوی کے بالمقابل تھا۔ رسول کریمﷺ کبھی کبھار اس باغ میں تشریف لاتے اور اس کا میٹھا پانی پیتے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے رسول کریمﷺ سے عرض کی کہ میرا سب سے محبوب مال بیرحاء کا باغ ہے‘ میں اسے اللہ تبارک و تعالیٰ کے راستے میں صدقہ کرتا ہوں۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکرکیا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے پہلا گھر مکہ مکرمہ میں تعمیر کیا گیا تھا اور ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ جو بھی اس گھر میں داخل ہوتا ہے‘ اس کو امان حاصل ہو جاتی ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کا بھی ذکر کیا کہ اگر اہلِ ایمان‘ اہلِ کتاب کے کسی گروہ کی اطاعت اختیار کریں گے تو وہ ان کو ایمان کی سرحدوں سے نکال کر کفر کی حدود میں داخل کر دے گا۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے تمام مومنوں کو اس بات کی نصیحت کی کہ ان کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لینا چاہیے اور تفرقے میں نہیں پڑنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی رسی سے مراد قرآنِ مجید ہے۔ اگر تمام مسلمان مضبوطی کے ساتھ قرآنِ پاک کو تھام لیں تو ان کے باہمی اختلافات بہ آسانی دور ہو سکتے ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ قیامت کے دن اہلِ ایمان کے چہرے سفید اور ایمان کو ٹھکرانے والوں کے چہرے سیاہ ہو ں گے۔ سفید چہروں والے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے مستحق ٹھہریں گے‘ جبکہ سیاہ چہرے والے اپنے کفر کی وجہ سے شدید عذاب سے دوچار ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ نے اس پارے میں اس بات کا بھی ذکر کیا کہ مسلمان بہترین اُمت ہیں‘ جن کی ذمہ داری نیکی کا حکم دینا اور بُرائی سے روکنا ہے؛ اگر ہم صحیح معنوں میں بہترین اُمت بننا چاہتے ہیں‘ تو ہمیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے راستے پر چلنا چاہیے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ جب مسلمانوں کو کوئی تکلیف پہنچے تو کافر خوش ہوتے ہیں اور جب ان کو کوئی خوشی حاصل ہو تو کافر‘ غیظ و غضب میں مبتلا ہو جاتے ہیں‘ اگر مسلمان صبر اور تقویٰ کا راستہ اختیار کریں تو کافروں کی کوئی خوشی اور ناراضی مسلمانوں کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتی۔
اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے غزوۂ بدر کا ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ سے وعدہ کیا تھا کہ مسلمانوں کی نصرت کے لیے تین ہزار فرشتوں کو اتارے گا اور اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اگر کافر مسلمانوں تک رسائی حاصل کر لیں گے اور مسلمان صبر و استقامت سے ان کا مقابلہ کریں‘ تو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ پانچ ہزار فرشتوں کو مسلمانوں کی مدد کے لیے اتارے گا۔ سورۂ انفال میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں کی مدد ایک ہزار فرشتوں سے کی جائے گی‘ جن کے بعد مزید فرشتے آئیں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ فرشتوں کی مدد تو ایک خوش خبری اور بشارت ہے‘ وگرنہ اصل میں تو مدد فرمانے والی اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات بالا صفات ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ایمان والو! سود در سود کھانے سے اجتناب کرو۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنت کی طرف تیزی سے بڑھنے کی تلقین کی ہے اور کہا ہے کہ جنت کا عرض زمین اور آسمان کے برابر ہے۔ اس سورت میںاللہ تعالیٰ نے جنتی مومنوں کی یہ صفت بیان کی ہے کہ جب ان سے صغیرہ یا کبیرہ گناہوں کا ارتکاب ہو جاتا ہے تو انہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کا خوف دامن گیر ہو جاتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے سوا کون گناہوں کو معاف کر سکتا ہے۔
غزوۂ احد میں مسلمانوں کو کفار کے ہاتھوں کافی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ اس نقصان کی وجہ سے مسلمان بہت دکھی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر تمہیں زخم لگا ہے تو تمہاری طرح تمہارے دشمنوں کو بھی زخم لگا ہے اور ان ایام کو ہم لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں اور اس ذریعے سے اللہ تبارک و تعالیٰ مومنوں کو بھی جانچ لیتا ہے اور کئی لوگوں کو شہادت کا منصب بھی عطا فرما دیتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس فرمان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خوشی اور غم‘ تکلیف اور راحت سب اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ہے اور دِنوں کے پھرنے میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم لوگ اہلِ کتاب اور مشرکین سے بہت سی ایذا رسانی کی باتیں سنو گے لیکن تم نے دل گرفتہ نہیں ہونا اور صبر اور تقویٰ کو اختیار کرنا ہے، بے شک یہ بہت بڑا کام ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے نبیﷺ کے بارے میں مشرکین‘ عیسائی اور یہودی طرح طرح کی باتیں کرتے رہے اور ان کے ساتھ ساتھ منافقین کا سردار عبداللہ ابن ابی بھی اپنے ساتھیوں کی ہمراہی میں اللہ تعالیٰ کے آخری رسولﷺ کو ایذا دینے میں مصروف رہا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی مدد فرمائی اور آپﷺ کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو ناکام اور نامراد بنا دیا۔
سورۃ النساء
سورہ آلِ عمران کے بعد سورۃ النساء ہے۔ سورۃ النساء کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اس بات کی تلقین کی ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے جو اُن کا پروردگار ہے اور اس نے ان کو ایک جان‘ یعنی آدم علیہ السلام سے پیدا کیا اور ان سے ان کی زوجہ کو پیدا کیا اور پھر کثیر تعداد میں مردوں اور عورتوں کو پیدا کیا۔ اس آیت میں اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ذات پات اور برادری وجۂ عزت نہیں‘ اس لیے کہ تمام انسانوں کی اصل ایک ہی ہے۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے صنفی بدامنی کو روکنے والی ایک تدبیر بھی بتلائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''تم اپنی من پسند دو‘ تین اور چار عورتوں سے نکاح کر سکتے ہو؛ تاہم اگر تم محسوس کرو کہ تم انصاف نہیں کر سکتے تو ایسی صورت میں ایک ہی کافی ہے‘‘۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے وراثت کے مسائل کو بھی بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے والد کی جائیداد میں سے بیٹوں کا بیٹیوں کے مقابلے میں دُگنا حصہ رکھا ہے۔ اگر کسی انسان کی صرف بیٹیاں ہوں تو اس صورت میں وہ انسان کی دو تہائی جائیداد کی مالک ہوں گی اور اگر صرف ایک بیٹی ہو تو وہ نصف جائیداد کی مالک ہو گی۔
شوہر اپنی بیوی کی جائیداد میں ایک چوتھائی حصے کا مالک ہو گا‘ جبکہ بیوی اپنے شوہر کی جائیداد میں آٹھویں حصے کی مالک ہو گی۔ والد اور والدہ کا اپنے بیٹے کی جائیداد میں چھٹا حصہ ہو گا‘ اسی طرح بے اولاد شخص کی جائیداد اس کے بہن بھائیوں میں تقسیم ہو گی۔ جائیداد کی تقسیم سے قبل انسان کے ذمہ واجب الادا قرض کو ادا کرنا چاہیے اور اگر اس نے کسی کے حق میں کوئی وصیت کی ہو‘ جو ایک تہائی سے زیادہ نہیں ہو سکتی‘ تو اس کو ادا کرنا چاہیے۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے حق مہر کے حوالے سے ارشاد فرمایا کہ ''انسان اپنی بیوی کو حق مہر کے طور پر خزانہ بھی دے سکتا ہے اور انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ حق مہر دینے کے بعد اس کو واپس لینے کی کوشش کرے‘‘۔ حکم ہوا کہ حق مہر کم ہو یا زیادہ‘ ادا کرنا چاہیے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دُعا ہے کہ ہمیں قرآن مجید پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!

تیسرے پارے کے شروع میں اس امر کا بیان ہے کہ اس حقیقت کے باوجودکہ اللہ تعالیٰ کے تمام نبی اور رسول علیہم السلام معزز و مکرم ہیں اور ان کی شان بڑی ہے‘ اللہ تعالیٰ نے رسولوں میں ایک کیلئے دوسرے کے مقابلے میں فضیلت اور درجے کی بلندی رکھی ہے۔ آیت 254 میں فرمایا کہ قیامت کے دن (نیکیوں کا) لین دین‘ دوستی اور سفارش نہیں چلے گی اور کفار ہی حقیقت میں ظالم ہیں۔ قرآن کی عظیم آیت جو ''آیۃ الکرسی‘‘ کے نام سے معروف ہے‘ یہ آیاتِ قرآن کی سردار ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی توحید‘ شانِ جلالت اور وسعتِ قدرت بیان کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا گیاہے کہ اُس کے اِذن سے ہی اُس کی بارگاہ میں شفاعت ہو گی۔ آیت 258 میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نمرود کے ساتھ اس مناظرے کا ذکر ہے‘ جس کے نتیجے میں وہ لاجواب ہوا‘ یعنی جب ابراہیم علیہ السلام نے یہ کہا '' اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے (تجھے اگر خدائی کا دعویٰ ہے) تو اسے مغرب سے نکال لے‘‘۔ آیت 273 میں فرمایا کہ صدقات وخیرات کے حقدار وہ لوگ ہیں جو جہاد فی سبیل اللہ یا دین کے کسی کام (مثلاً دین کی تعلیم و تعلُّم) میں مشغول ہوں اور انہیں طلبِ معاش کی فرصت نہ ہو اور وہ اتنے خوددار ہوں کہ وہ لوگوں سے مانگتے نہ پھریں اور ان کی حقیقتِ حال سے ناواقف آدمی انہیں مالدار سمجھے۔ آیت 274 میں فرمایا ''سود خور کی مثال ایسی ہے‘ جیسے کسی شخص کو شیطان نے چھو کر مخبوط الحواس کر دیا ہو‘‘۔ پھر فرمایا کہ سود کی حرمت کا حکم آنے کے بعد سود کا لین دین چھوڑ دو‘ ماضی کی خطا معاف ہے؛ البتہ اگر کسی شخص کے دوسرے کے ذمے سابق مالی واجبات ہوں تو اصل زَر لے لے اور سود چھوڑ دے۔ آیت 282 میں مالی معاملات اور تجارت و لین دین کے چند بنیادی و اساسی اصول بیان کیے ہیں: (1) دستاویزی شکل دو۔ (2) ادائیگی کا وقت مقرر کرو۔ (3) مالی معاملات کی دستاویز لکھنے پر قدرت رکھنے والے کو اپنے مسلمان بھائی کی لکھنے میں مدد کرنی چاہیے۔ (4) تحریر لکھوانا قرض خواہ کی ذمہ داری ہے۔ (5) تحریر لکھنے میں دیانتداری سے کام فرض ہے۔ (6) مقروض نادان‘ کمزور یا تحریر نہ لکھوا سکتا ہو تو اس کا ولی تحریر لکھوائے۔ (7) تجارتی و مالی معاملات میں دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنانا چاہیے۔ (8) گواہوں کو گواہی دینے سے انکار نہیں کرنا چاہیے بلکہ خوش دلی سے گواہی دینا چاہیے۔ (9) گواہوں اور دستاویز لکھنے والوں کو تحفظ فراہم کرنا معاہدہ کرنے والوں کی ذمہ داری ہے۔ (10) گواہوں اور دستاویز لکھنے والے کو ایذا پہنچانا گناہ ہے۔ (11) گواہی کو چھپانا گناہ ہے۔ (12) حالتِ سفر میں کوئی لین دین کا معاملہ ہو تو کوئی فریق ضمانت کے طور پر چیز اپنے پاس رہن رکھ سکتا ہے۔ (13) اگر دستاویز ی ثبوت لکھنے یا گواہوں کے بغیر کسی نے اعتماد کرکے کسی کے ساتھ لین دین کیا ہو تو وہ دوسرے کی امانت واپس کرے اور آخر میں فرمایا: ''اس معاملہ میں اللہ سے ڈرتا رہے‘‘۔
آلِ عمران: سورۂ آلِ عمران کی آیت 7 میں بتایا کہ آیاتِ قرآنی کی دو قسمیں ہیں: (1)محکم‘ یہ وہ آیات ہیں جن کی دلالت اپنے معنی‘ مفہوم اور منطوق پر بالکل قطعی اور واضح ہے‘ ان میں تمام شرعی احکام‘ حلال و حرام‘ فرائض و واجبات‘ حدود و فرائض اور اَوامر و نواہی کا بیان ہے۔ (2) متشابہ‘ ان آیات پر ہر مومن کا ایمان لانا فرض قطعی ہے اور جن کے معنی ہم پر واضح نہیں ہیں‘ ان کی مراد ہم اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''جن کے دلوں میں کجی ہے‘ وہ فتنہ جوئی اور متشابہات کا محمل (توجیہ اور مراد) نکالنے کیلئے کنایات کے درپے رہتے ہیں؛ حالانکہ متشابہ آیات کا قطعی اور آخری معنی اللہ ہی جانتا ہے‘‘۔ آیت 14میں بتایا کہ ''(انسان کی آزمائش کیلئے) عورتوں اور بیٹوں کی جانب میلان‘ سونا اور چاندی کے جمع شدہ خزانوں‘ نشان زدہ گھوڑوں‘ چوپایوں اور کھیتی باڑی (یعنی مال و متاعِ دنیا‘ مختلف زمانوں میں اس کی ظاہری صورت جو بھی ہو) کی رغبت کو آراستہ اور پُرکشش بنا دیا گیا ہے‘ یہ سب دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور عمدہ ٹھکانہ صرف اللہ کے پاس ہے‘‘۔ اگلی آیت میں مومنینِ مخلصین کا یہ شِعار بتایا کہ ''جو یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! بیشک ہم ایمان لائے‘ سو ہمارے گناہوں کو بخش دے اور دوزخ کے عذاب سے بچا‘ (یہ لوگ) صبر کرنے والے‘ سچ بولنے والے‘ (اللہ کی) اطاعت کرنے والے‘ (اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے والے اور بخشش کی دعائیں مانگنے والے ہیں‘‘۔ آیت 26 اور 27 میں اللہ تعالیٰ کی جلالتِ شان کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : ''(اے نبی!) کہو: اے اللہ! مُلک کے مالک‘ تو جسے چاہتا ہے‘ مُلک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے مُلک چھین لیتا ہے اور تو جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلت میں مبتلا کر دیتا ہے‘ سب بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے‘ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے‘ تو رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں‘ تو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے اور تو جس کو چاہے بے حساب رزق دیتا ہے‘‘۔ آیت 31 میں اللہ تعالیٰ کے رسول مکرمﷺ کی عظمتِ شان کا ان الفاظ میں ذکر ہے۔ اس آیت میں واضح طور پر بتا دیا گیا کہ اگر بندہ اللہ تعالیٰ کے قُرب اور رِضا کا طلب گار ہو‘ تو اُس کا فقط ایک ہی راستہ ہے‘ یعنی اتباعِ مصطفیﷺ۔ آیت 35 سے حضرت مریم کا واقعہ بیان ہوا۔ عمران بن یاشہم حضرت مریم کے والد ہیں اور ان کی والدہ کا نام حَنَّہ بنت فاقوذ مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''جب عمران کی بیوی نے عرض کیا: اے میرے رب! جو (حمل) میرے پیٹ میں ہے‘ اُس کو میں نے تیرے (بیت المقدس کی خدمت کیلئے دوسری ذمہ داریوں سے) آزاد رکھنے کی نذر مانی ہے‘ سو تو میری طرف سے (اِس نذر کو) قبول فرما‘‘۔ پھر جب اس کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی‘ تو اس نے (عرض کیا) اے میرے رب! میرے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے اور اللہ خوب جانتا ہے کہ اس کے ہاں کیا پیدا ہوا۔ اس کے بعد اگلی آیات میں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مریم کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمایا اور اسے عمدہ طریقے سے پروان چڑھایا اور حضرت زکریا علیہ السلام تربیت کیلئے ان کے کفیل بنے اور حضرت مریم کو بیت المقدس کے ایک حجرے میں ٹھہرایا گیا۔ پھر جب حضرت زکر یا علیہ السلام نے مریم کے پاس بے موسم کے پھل دیکھے تو حیران ہو کر کہا: ''اے مریم! یہ (بے موسم کے) پھل کہاں سے؟ حضرت مریم نے کہا: یہ اللہ کی جانب سے‘‘۔ اس موقع پر حضرت زکریا علیہ السلام کے دل میں اولاد کی خواہش ابھری کہ جو رب مریم کو بے موسم کے پھل دے سکتا ہے‘ وہ مجھے بڑھاپے میں اولاد بھی دے سکتا ہے۔ تب زکریا علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی (اور) کہا: ''اے میرے رب! مجھے اپنی طرف سے پاکیزہ اولاد عطا فرما‘ بے شک تو ہی دعا کا بہت سننے والا ہے‘‘۔ پھر جب زکریا علیہ السلام حجرے میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے‘ فرشتے نے انہیں بشارت دی ''بے شک اللہ آپ کو یحییٰ کی بشارت دیتا ہے‘ جو کلمۃ اللہ (یعنی عیسیٰ علیہ السلام ) کی تصدیق کرنے والے ہوں گے‘ سردار اور عورتوں سے رغبت نہ رکھنے والے ہوں گے اور نبی ہوں گے‘‘۔ پھر حضرتِ زکریا علیہ السلام اور ان کی بیوی کو بڑھاپے اور بظاہر ناامیدی کی عمر میں بیٹے کی پیدائش کی نشانی بتاتے ہوئے یہ فرمایا '' تمہاری علامت یہ ہے کہ تم تین دن تک اشاروں کے سوا لوگوں سے کوئی بات نہ کر سکو گے اور اپنے رب کا صبح وشام کے وقت کثرت سے ذکر کرو‘‘۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتے کے ذریعے حضرت مریم کو بیٹے کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا کہ ان کا نام مسیح عیسیٰ ہے۔
آیت 77 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے عوض تھوڑی قیمت لیتے ہیں‘ اُن لوگوں کیلئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے اور نہ آخرت میں اللہ اُن سے کلام فرمائے گا اور نہ ہی اُن کو پاکیزہ کرے گا‘‘۔ آیت 84 میں عالمِ اَروَاح کے اُس عظیم واقعے کو بیان کیا گیا جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور (اے رسول!) یاد کیجئے جب اللہ نے تمام نبیوں سے پختہ عہد لیا کہ میں تم کو جو کتاب اور حکمت دوں‘ پھر (بالفرض) تمہارے پاس وہ عظیم رسول آئیں‘جو اُس چیز کی تصدیق کرنے والے ہوں‘ جو تمہارے پاس ہے‘ توتم اُن پر ضرور بالضرور ایمان لانا اور ضرور بالضرور اُن کی مدد کرنا‘ (اللہ نے) فرمایا: کیا تم نے اقرار کر لیا اور میرے اِس بھاری عہد کو قبول کر لیا؟ اُنہوں نے کہا: ہم نے اقرار کیا (تواللہ نے) فرمایا: پس گواہ رہنا اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں‘‘۔ اس میثاق سے معلوم ہوا کہ ختم الرسلﷺ پر ایمان اور آپﷺ کی نصرت و حمایت کا ہر نبی پابند تھا۔ اس پارے کی آخری آیات میں یہ بیان فرمایا کہ دینِ اسلام ایک تسلسل کا نام ہے‘ جو حضرت آدم علیہ السلام سے ختم المرسلینﷺ تک چلا آ رہا ہے اور اُسی دین کی طرف بلایا جا رہا ہے۔ آیات 86 تا 88 میں اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے کے بعد کفر کرنے والوں کی سزا‘ اُن پر عذاب اور عذاب میں تخفیف نہ ہونے اور کسی طرح کی کوئی مہلت نہ دیے جانے کا بیان کیا ہے۔ بعد کی آیات میں توبہ کرنے والوں کی بخشش کا بیان ہے۔

تیسرے پارے کا آغاز بھی سورہ بقرہ سے ہوتا ہے۔ تیسرے پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا کہ اللہ کے بعض رسولوں کو دوسرے رسولوں پر فضیلت حاصل ہے‘ ان میں سے بعض نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کلام کیا اور بعض کے درجات کو اللہ رب العزت نے بلند فرما دیا اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ تمام رسولوں میں سے سب سے زیادہ بلند مقام ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیﷺ کا ہے۔ اس پارے میں آیت الکرسی ہے‘ جو قرآنِ مجید کی سب سے افضل آیت ہے۔ آیت الکرسی کی تلاوت کرنے والے کو اللہ تعالیٰ شیاطین کے حملوں سے محفوظ فرما لیتے ہیں۔ تیسرے پارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سے اہم واقعات بھی بیان کیے ہیں۔ پہلا واقعہ جناب ابراہیم علیہ السلام کا دربارِ نمرود میں اُس کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کے بارے میں مناظرانہ مکالمے کا ہے۔ جس وقت ابراہیم علیہ السلام دربارِ نمرود میں جا کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی تبلیغ کرتے ہیں‘ تو ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں کہتے ہیں: میرا پروردگار زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے۔ جواب میں نمرود کہتا ہے کہ میں بھی مارتا ہوں اور زندہ کرتا ہوں۔ اپنے اس مفروضے کو ثابت کرنے کے لیے اس ظالم نے ایک مجرم کو آزاد کر دیا اور ایک بے گناہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اس کے مکر کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق سے لے کر آتا ہے‘ پس تُو اس کو مغرب سے لے کر آ۔ یہ بات سن کر نمرود کے لبوں پر چپ کی مہر لگ گئی‘ اس لیے کہ وہ جانتا تھا کہ اس مطالبے کو پورا کرنا ناممکن ہے۔ آگے چل کر بیان ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے سوال کیا: اے اللہ ! میں اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہوں کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ کیا اس حقیقت پر تمہارا ایمان نہیں ہے؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ اے رب ! میرا ایمان ہے کہ تو مردوں کو زندہ کرے گا اور انہیں نیکی و بدی کا بدلہ دے گا، لیکن اس حقیقت کے بارے میں عین الیقین کا درجہ حاصل کرنا چاہتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کرلی، اور کہا کہ چار پرندوں کو ذبح کر کے ایک ساتھ ملا دو اور انہیں مختلف پہاڑوں پر ڈال دو، پھر انہیں بلاؤ، وہ تمہارے پاس اڑتے چلے آئیں گے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایسا ہی کیا اور وہ سب پرندے اڑتے ہوئے ان کے پاس آگئے۔ اسی پارے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر علیہ السلام کے اس واقعے کا بھی ذکر کیا ہے کہ وہ ایک اجڑی ہوئی بستی کے پاس سے گزرے اور کہا کہ یہ بستی کیونکر دوبارہ زندہ (آباد) ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر علیہ السلام کو سو برس کے لیے سلا دیا اور پھر ان کو دوبارہ زندہ کر دیا۔ حضرت عزیر علیہ السلام اور جناب ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ یہ بات سمجھاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے قیامت کے دن مردوں کو زندہ کرنا چنداں مشکل نہیں ہے اور جب اللہ تبارک و تعالیٰ انسانوں کو زندہ ہونے کا حکم دیں گے‘ تو سبھی مردہ انسان بالکل صحیح حالت میں اٹھ کر کھڑے ہوں گے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے انفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت کا بھی ذکر کیا ہے اور بتلایا کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کیے گئے مال کو اللہ تعالیٰ سات سو گنا کر کے پلٹائیں گے اور کئی لوگوں کو اس سے بھی زیادہ بدلہ ملے گا۔ اس پارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سود کی بھی مذمت کی اور کہا کہ جو لوگ سود کھانے سے باز نہیں آتے‘ ان کا اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔
سورۂ آلِ عمران: سورہ بقرہ کے بعد سو رہ آلِ عمران ہے۔ سورہ آلِ عمران کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کو حق کے ساتھ نازل فرمایا جو سابقہ کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور اس سے قبل اس نے تورات اور انجیل کو نازل فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میں اس امر کا بھی ذکر کیا کہ وہ رحمِ مادر میں انسانوں کو جس طرح چاہتا ہے‘صورت عطا فرما دیتا ہے‘ وہ بغیر رنگ‘ روشنی اورکینوس کے‘ دھڑکتے ہوئے دل والا انسان بنا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں یہ بھی بتلایا کہ قرآنِ مجید میں دو طرح کی آیات ہیں‘ ایک محکم اور دوسری متشابہ۔ فرمایا کہ محکم آیات کتاب کی اصل ہیں اور متشابہات کی تاویل کا حقیقی علم صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کے پاس ہے۔ جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہوتا ہے وہ متشابہات کی تاویل کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں اور اہلِ ایمان کہتے ہیں‘ جو کچھ بھی ہمارے رب نے اتارا‘ ہمارا اس پر کامل ایمان ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے اس لیے جو آخرت کی فلاح و بہبود کا خواہش مند ہے‘ اس کو اسلام کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ اللہ نے حضرت آدم‘ حضرت نوح‘ آلِ ابراہیم اور آلِ عمران کو دنیا پر فضیلت عطا فرمائی تھی۔ سورہ آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ نے جنابِ عمران کی اہلیہ کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے منت مانی کہ وہ اپنے نوزائیدہ بچے کو اللہ تبارک وتعالیٰ ٰ کے لیے وقف کر دیں گی۔ آپ کے یہاں پر بچے کے بجائے بچی کی ولادت ہوئی۔ جناب عمران کی اہلیہ نے اپنی منت کو بچی ہونے کے باوجود پورا کیا اور اس بچی کا نام مریم رکھ کر اس کو جناب زکریا علیہ السلام کی کفالت میں دے دیا۔ اللہ تعالیٰ نے جناب مریم کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما لیا اور آپ کے بچپن سے لے کر جوانی تک کے تمام ایام اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی میں صرف ہوتے رہے‘ یہاں تک کہ بارگاہِ الٰہی سے آپ کے لیے یہ کرامت بھی ظاہر ہوئی کہ آپ کے پاس بے موسم کے پھل آنے لگے۔ حضرت زکریا علیہ السلام‘ جو حضرت مریم کے خالو بھی تھے‘ ایک دن اس محراب میں داخل ہوئے‘ جہاں سیدہ مریم عبادت میں مشغول رہتی تھیں۔ انہوں نے سیدہ مریم سے پوچھا کہ آپ کے پاس یہ بے موسم کے پھل کہاں سے آتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں‘ وہ جس کو چاہتا ہے‘ بلاحساب رزق دیتا ہے۔ حضرت زکریا علیہ السلام بے اولاد تھے اور آپ کی بیوی بانجھ تھیں۔ سیدہ مریم کے پاس بے موسم کے پھل دیکھ کر جناب زکریا علیہ السلام بھی رحمتِ الٰہی سے پُرامید ہو گئے اور آپ علیہ السلام نے دعا مانگی: اے میرے پروردگار! مجھے بھی اپنی طرف سے پاک اولاد عطا فرما۔ حضرت زکریا علیہ السلام محراب میں نماز ادا فرما رہے تھے کہ فرشتے نے آپ کو پکارکر کہا: ''اے زکریا! آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یحییٰ نامی پارسا اور سردار بیٹے کی بشارت ہو‘‘۔ حضرت زکریا علیہ السلام اس کے بعد تین دن تک خلوت نشین ہوکر اللہ تبارک وتعالیٰ کے ذکر اور تسبیح میں مشغول رہے۔
اس کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے جناب مریم کے ہاں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی معجزاتی ولادت کا ذکر کیا ہے۔ سیدہ مریم کا دل اس بات کو قبول نہیں کر رہا تھا‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو بنا شوہر کے ایک بیٹا عطا کیا‘ جو اللہ کے حکم سے کوڑھ اور برص کے مریضوں پر ہاتھ پھیرتا تو وہ شفایاب ہو جاتے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے لوگوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے گھر میں کھائے جانے اور باقی رہ جانے والے کھانے کی بھی خبر دیتے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی معجزاتی پیدائش کی وجہ سے عیسائی ان کو اللہ کا بیٹا قرار دینے لگے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم جیسی ہے‘ جن کو اللہ نے بن باپ اور بن ماں کے مٹی سے پیدا کیا اور کہا 'ہو جا‘ تو وہ ہو گئے۔ اس سورہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ کفار حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جان کے درپے تھے۔ اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بشارت دی کہ میں آپ کو زندہ اٹھا لوں گا اور کفار آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکیں گے۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں رسول کریمﷺ کے مقام کا بھی ذکرکیا ہے کہ عالم ارواح میں اللہ نے انبیاء کرام علیہم السلام کی روحوں سے اس بات کا عہد لیا تھا کہ اگر ان کی زندگی میں محمد رسول اللہﷺ آ جائیں تو پھر ان پر ایمان لانا اور ان کی حمایت کرنا گروہِ انبیاء پر لازم ہو گا۔ اس پارے کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ کفر پر مرنے والے اگر زمین کی مقدار کے برابر سونا بھی لے کر آئیں تو اللہ تعالیٰ اس سونے کے بدلے میں بھی انہیں معاف نہیں کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔

دوسرے پارے کا آغاز بھی اس بیان سے ہے کہ اب مسلمانوں کا قبلہ تبدیل کیا جارہا ہے اور ہٹ دھرم لوگ اور منافقین اس پر اعتراض کریں گے کہ یہ کیوں ہوا؟ دراصل رسول اللہﷺ کے مدنی دور کی ابتدا میں سولہ‘ سترہ ماہ تک بیت المقدس کی جانب رخ کرکے نمازیں پڑھی گئیں ‘ پھر ایک دن ظہر کی نمازکے دوران رسول کریمﷺ کی خواہش پر اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کے بجائے بیت اللہ کو قبلۂ نماز بنانے کا حکم نازل فرمایا اور اس تحویلِ قبلہ کی حکمت بھی اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرما دی ''اور (اے رسول!) جس قبلہ پر آپ پہلے تھے‘ ہم نے اس کو قبلہ اس لیے بنایا تھاتاکہ ہم ظاہر کردیں کہ کون (غیر مشروط طور پر) رسول کی پیروی کرتا ہے اور اس کو اُس سے ممتاز کردیں‘ جو اپنی ایڑیوں پر (کفر کی جانب) پلٹ جاتا ہے‘‘۔یہ بھی فرمایا ''بے شک ہم نے بارہا(وحی کے انتظار میں) آپ کو آسمان کی طرف رخ پلٹتے ہوئے دیکھا ہے ‘ سو ہم آپ کو ضرور بالضرور اسی قبلہ کی جانب پھیر دیں گے ‘ جو آپ کو پسند ہے۔ پس‘ آپ اپنا رخ مسجدِ حرام کی جانب پھیر لیں‘‘۔ آگے چل کر پھر فرمایا کہ مسلمان جہاں کہیں بھی ہو‘ اُسے نماز کے وقت اپنا رخ مسجد حرام کی جانب پھیر دینا چاہیے اور اس پر اہلِ کتاب سے کوئی سودے بازی یا مفاہمت نہیں ہوسکتی۔یہ بھی بتا یا کہ تورات وانجیل میں رسول اللہﷺ کی جو روشن نشانیاں بتائی گئی ہیں ‘ ان کی روشنی میں اہلِ کتاب رسول اللہﷺ کو اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں ‘ لیکن ان کے انکار کا سبب صرف کتمانِ حق ہے۔اسی سورت میں رسول کریمﷺ کی بعثت اور منصبِ نبوت کے فرائض کو ایک بار پھر بیان کیا گیا‘یعنی تلاوتِ آیاتِ الٰہی تزکیۂ باطن اور تعلیمِ کتاب وحکمت۔
آیات 153 تا 156 میں ہر مصیبت کے وقت صبر اور نماز کو اللہ تعالیٰ کی نصرت کا وسیلہ بنانے کی تعلیم دی گئی ہے اور راہِ حق میں پیش آنے والی آزمائشوں کا ذکر ہے ‘ جو (دشمن کے) خوف‘ بھوک ‘ جان ومال اور اولاد کے تلف ہونے کی صورت میں بھی ہوسکتی ہیں۔ ان مشکلات میں اہلِ صبر کو بشارتیں دی گئی ہیں اور اللہ کی راہ میں درجۂ شہادت پانے والوں کیلئے ابدی زندگی کی بشارت دی گئی ہے۔آیات 159 تا 163 میں بتایا گیا کہ جو لوگ دین کی حقانیت کے روشن دلائل اور پیغامِ ہدایت کو چھپاتے ہیں‘ اُن پر اللہ تعالیٰ‘ اس کے فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت اور دائمی عذاب کی وعید ہے‘ مگر جو توبہ کرلے اوراپنی اصلاح کرلے ‘ اُن کیلئے توبہ کی قبولیت کا دروازہ کھلا ہے۔آیات 164 تا 167 میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی قدرت کی نشانیوں کا ذکر ہے‘ یعنی زمین وآسمان کی پیدائش ‘گردشِ لیل ونہار کا نظام ‘ سمندروں میں انسانی فائدے کیلئے کشتیوں اور جہازوں کا رواں دواں رہنا ‘ بارش کے قدرتی نظام کے ذریعے خشک اور بنجر زمین کا دوبارہ زرخیز اور آباد ہونا‘ ہواؤں کا چلنااور آسمان اور زمین کے درمیان بادلوں کا معلق رہنا وغیرہ۔ یہ بھی بتایا کہ مشرکوں کوجتنی اپنے باطل معبودوں سے محبت ہے ‘ اہلِ ایمان کو اُس سے بہت زیادہ اللہ سے محبت ہے۔یہ بھی بیان ہوا کہ اس دنیا میں لوگ اپنے جن قائدین کی پیروی میں گمراہی کو اختیار کیے ہوئے ہیں ‘ قیامت کے دن یہ لیڈر اللہ کے عذاب کو دیکھ کر اپنے پیروکاروں سے برأت کریں گے۔ آیات 172 تا 173 میں حکم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ پاک نعمتوں کو کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو‘ پھر چار قطعی حرام چیزوں کا بیان ہوا‘ جو یہ ہیں: مردار (اس سے وہ حلال جانور مراد ہے‘جو طبعی موت مر گیا ہو) ذبح کے وقت بہنے والا خون ‘ خنزیز کا گوشت اوروہ حلال جانورجس پر ذبح کرتے وقت غیراللہ کا نام لیا گیا ہو‘صرف حالتِ اضطرار میں محض بقائے حیات کیلئے بقدرِ ضرورت ان کے استعمال کو مباح قرار دیا گیا۔ آیت نمبر177 میں بتایا کہ اصل نیکی صرف عبادت کے وقت مشرق ومغرب کی جانب رُخ کرنے کا نام نہیں‘ بلکہ کامل نیکی ایک جامع پیکیج کا نام ہے ‘ یعنی اللہ تعالیٰ ‘ یومِ قیامت ‘ ملائک ‘ تمام الہامی کتب اور سارے انبیاء کرام پر ایمان ‘ اس کے ساتھ انفاق فی سبیل اللہ‘نظامِ صلوٰۃ و زکوٰۃ کا قیام‘ ایفائے عہد اور ہرمصیبت کے وقت صبرواستقامت‘ پھر فرمایا کہ درحقیقت جو لوگ ان تمام صفات کے حامل ہیں‘ وہی دعویِٰ ایمان میں سچے ہیں۔ آیات 178 اور 179 میں اسلام کے قانونِ قصاص کا بیان ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ''قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے‘‘ چنانچہ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ جس معاشرے میں قانونِ قصاص عملاً نافذ نہیں ‘ وہاں آئے دن بے قصور انسانوں کی جان ‘ مال اور آبرو کی حُرمت پامال ہو رہی ہے۔ آیت نمبر 194میں چار مہینوں کی حرمت کا بیان ہے۔ آیات 195 سے 203 تک حج اور عمرے اور حج کے بعض مسائل کا بیان ہے۔ آیت 207اور 208 میں بتایا کہ حقیقت ِ ایمان‘ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنی جان کا سودا ہے اور اسلام بعض چیزوں کو قبول کرنے اور بعض کو رد کرنے کا نام نہیں‘ بلکہ اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کریمﷺ کے تمام احکام (اَوامر و نواہی) کو من و عن قبول کیاجائے ‘یہ نہیں ہوسکتا کہ بعض باتیں آپ کو پسند ہوں‘ تواُنہیں قبول کرلیں اورجو باتیں آپ کو پسند نہ ہوں‘ تو اُنہیں رَد کردیں۔ آیت نمبر213 میں بتایا گیا کہ تمام لوگ اصل کے اعتبار سے ایک تھے‘ پھر اللہ تعالیٰ نے نظامِ رسالت قائم فرمایا ‘ ہر دور کے لوگوں کیلئے کتابِ ہدایت نازل کی‘ اُس کے بعد انسانیت دو گروہوں میں بٹ گئی ایک اہلِ حق ‘ یعنی انبیاء کرام کے پیرو کار اور دوسرے اہلِ باطل‘ یعنی خواہشاتِ نفس اور شیطان کے پیروکار۔ آیت نمبر 214 میں یہ بتایا گیا کہ جنت کا حقدار بننے کیلئے محض دعویِٰ ایمان کافی نہیں‘ بلکہ اُس کیلئے راہِ حق میں مشکلات کا استقامت کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے۔ جیسا کہ انبیائے کرام اور ان کے سچے پیرو کاروں کی روشن مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ آیت نمبر 215 میں انفاق فی سبیل اللہ کے مصارف کا بیان ہے اور اگر آیت نمبر 219 کو اس سے ملا کر سمجھا جائے تو اس امر کا بیان ہے کہ جو مال تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو ‘ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ اسی آیت میں شراب اور جوئے کی حُرمت کا ابتدائی بیان ہے کہ ان کے نفع کے مقابلے میں ان کا گناہ بہت بڑا ہے۔ آیت نمبر 216 میں جہاد کی فرضیت کا بیان ہے۔ آیت نمبر 221 میں مشرک عورتوں سے نکاح کی ممانعت کا بیان ہے اور آیت نمبر 222 میں اس امر کا بیان ہے کہ ایامِ مخصوص (یعنی حالتِ حیض ونفاس)میں عورت سے مباشرت منع ہے۔ آیت نمبر 224 اور 225 میں اس امر کا بیان ہے کہ اگر کسی نے ایسی قسم کھا لی ہے‘ جس پر قائم رہنا ‘ شریعت کی رو سے ناپسندیدہ ہے تو چاہیے کہ اسے توڑ دے اور کفارہ ادا کرے؛ چنانچہ فرمایا ''اور تم نیکی ‘ تقویٰ اور لوگوں کی خیر خواہی سے بچنے کیلئے اللہ کے نام کی قسمیں کھانے کو بہانہ نہ بناؤ‘‘۔
آیت نمبر 226 اور 227 میں ''ایلا‘‘ کا بیان ہے۔ ''ایلا‘‘ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو یہ کہے کہ ''اللہ کی قسم میں چار ماہ تک یا ہمیشہ کیلئے تمہارے ساتھ ازدواجی تعلق قائم نہیں کروں گا‘‘۔ اگر چار ماہ کے اندر قسم کا کفارہ ادا کرکے قسم توڑ دے تو نکاح قائم رہے گا ‘ورنہ ایک طلاقِ بائن واقع ہو جائے گی۔ آیت نمبر 228میں یہ بتایا کہ مطلّقہ عورت کی عدت ایامِ مخصوص کے تین دورانیوں کی تکمیل ہے۔آیت نمبر 229 میں یہ حکم بیان ہوا کہ دو صریح طلاقیں (خواہ الگ الگ دی جائیں یا ایک ساتھ) دینے کے بعد بھی شوہر کو یک طرفہ طور پر رجوع کا حق حاصل ہے اور اگر تیسری طلاق دے دی ‘ تو بیوی اس پر حرام ہو جائے گی (یعنی اب براہِ راست یا عقدِ ثانی کے ذریعے رجوع کی گنجائش نہیں ہے) سوائے ‘اس کے کہ وہ عورت عدت گزرنے کے بعد اپنی مرضی سے کسی اور شخص سے نکاح کرے اور وہ شخص اپنی مرضی سے اسے طلاق دے ‘ تو صرف اس صورت میں وہ سابق شوہر سے نکاح کر سکتی ہے۔ اس میں خلع کا بھی بیان ہے۔ آیت نمبر231 اور 232 میں یہ بیان ہوا کہ عورت کو طلاقِ رجعی دینے کے بعد اگر خوش دلی سے اور حسنِ سلوک کے ساتھ اپنے نکاح میں رکھنے کا ارادہ ہو تو عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلو اور اگر اسے حسنِ سلوک کے ساتھ نکاح میں رکھنے کا ارادہ نہ ہو تو محض ضرر پہنچانے اور اذیت دینے کیلئے اس سے رجوع نہ کرو۔آیت نمبر 233 میں اس امرکا بیان ہے کہ ''رِضاعت‘‘ کی کامل مدت دو سال ہے؛ اگر دو سال سے کم مدت میں ماں کا دودھ چھڑانے سے بچے کی زندگی کو کوئی خطرہ نہ ہو یا دوسری غذاؤں سے اس کی ضرورت پوری ہوسکتی ہو ‘ تو اس مدت کی تکمیل اس صورت میں مستحب ہے ؛ اگر خدانخواستہ شیر خوار بچے کی ماں کو طلاق ہوجائے ‘ تو دودھ پلانا پھر بھی ماں کی ذمہ داری ہے اور دستور کے مطابق؛ اس کے ضروری اخراجات بچے کے باپ کے ذمے ہوں گے۔

دوسرے پارے کا آغاز سورۃ البقرہ سے ہو تا ہے۔ اس پارے کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے قبلے کی تبدیلی کا ذکر کیا ہے۔ مسلمانوں پر جب اللہ تعالیٰ نے نماز کو فرض کیا تو ابتدائی طور پر مسلمان بیت المقدس کے طرف رخ کر کے نماز کو ادا کیا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ کی یہ دلی تمنا تھی کہ اللہ تعالیٰ قبلے کو تبدیل کر کے بیت الحرام کو قبلہ بنا دے۔ نبیﷺ اس تمنا کے اظہار کے لیے کئی مرتبہ اپنے چہرہ مبارک کو آسمان کی طرف اُٹھایا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی اس دلی تمنا کو پورا فرما کر بیت اللہ الحرام کو قبلہ بنا دیا۔ اس پر بعض کم عقل لوگوں نے تنقید بھی کی کہ جس طرح قبلہ تبدیل ہوا‘ مذہب بھی تبدیل ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا قبلے کی تبدیلی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دیکھ لینا چاہتا ہے کہ کون رسول اللہﷺ کا سچا پیرو کار ہے اور کون ہے جو اپنے قدموں پرپھر جانے والا ہو۔ وگرنہ جہتیں توساری اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہیں۔مشرق ومغرب اللہ کے لیے ہیں اوروہ جس کو چاہتاہے صراطِ مستقیم پرچلادیتاہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اہلِ کتاب کے پختہ علم والے لوگ رسول اللہﷺ کو اس طرح پہچانتے تھے جس طرح باپ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں ‘ لیکن اس کے باوجود ان کا ایک گروہ جانتے بوجھتے ہوئے حق چھپاتا ہے۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اس کے بندوں کو اس کا ذکر کرنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں '' تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا ــ‘‘ یہ بات با لکل واضح ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمارا ذکر کرنا شروع کر دے تو ہماری کوئی مصیبت اور کوئی دکھ باقی نہیں رہ سکتا۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو مخاطب ہو کر کہا ''اے ایمان والو!صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی انسان مشکل میں ہو اس کو مصیبت سے نجات حاصل کرنے کے لیے نماز اور صبر کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی تائید، نصرت اور محبت صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتی ہے۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں؛ پس جو کوئی بھی حج اور عمر ہ کرے اس کو صفا اور مروہ کا طواف کرنا چاہیے۔اس کے بعد ان لوگوں کا ذکر کیا گیا جو اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اس کی آیات کو چھپاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ایسے لوگوں پر اللہ اور لعنت کرنے والوں کی لعنت ہو یعنی ایسے لوگ اللہ کی رحمت سے محروم رہیں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے کہا کہ حقیقی نیکی یہ ہے کہ انسان کا اللہ تعالیٰ کی ذات،یومِ حساب، تمام انبیاء اور ملائکہ پر پختہ ایمان ہو اور وہ اللہ کی رضا کے لیے اپنے مال کو خرچ کرنے والا ہو ‘نماز کو قائم کرنے والا ہو‘ زکوٰۃ کو صحیح طریقے سے ادا کرنے والا ہو‘ وعدوں کو پورا کرنے والا ہو اور تنگی اور کشادگی میں صبر کرنے والا ہو اورجس میں یہ تمام اوصاف ہوں گے وہی حقیقی متقی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قانونِ قصاص اور دیت کا ذکر کیا۔اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام، عورت کے بدلے عورت کو قتل کیا جائے گا؛ تاہم اگر کوئی اپنے بھائی کو دیت لے کر معاف کر دیتا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رخصت ہے لیکن زندگی بہر حال قصاص لینے میں ہی ہے۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کا ذکر کیا اور اللہ تعالیٰ نے مسافروں اور مریضوں کو اس بات کی رخصت دی ہے کہ اگر وہ رمضان کے روزے نہ رکھ سکیں تو وہ بعد میں کسی اور وقت اپنے روزوں کو پورا کر سکتے ہیں۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے چاند کے گھٹنے‘ بڑھنے کی غرض و غایت بتلائی کہ اس کے ذریعے اوقات اور حج کے ایام کا تعین ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے کیلنڈر کو دیکھنے کے لیے صرف آنکھوں کی ضرورت ہے۔ انسان کے پاس اگر بینائی ہو تو انسان صرف چاند کو دیکھ کر ہی وقت کا تعین کر سکتا ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حج کے آداب کا ذکر کیا کہ حج میں بے حیائی،لڑائی اور جھگڑے والی کوئی بات نہیں ہونی چاہیے اوریہ بھی کہا کہ حاجی کوزادِ راہ کی ضرورت ہے اور سب سے بہترین زاد ِراہ تقویٰ ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ بعض لوگ دعا مانگتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا میں بہترین دے جبکہ بعض لوگ‘ جو اِن کے مقابلے میں بہتر دعامانگتے ہیں‘ وہ کہتے ہیں کہ ''اے پرور دگار! ہمیں دنیا میں بھی بہترین دے اور آخرت میں بھی بہترین دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا ‘‘۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے سابقہ اُمتوں کے ان لوگوں کا بھی ذکرکیا ہے جن کو ایمان لانے کے بعد تکالیف، مصائب اور زلزلوں کو برداشت کرناپڑا۔اللہ تعالیٰ نے اہل ِایما ن کو سابقہ اُمتوں کی تکالیف سے اس لیے آگاہ فرمایا تاکہ ان کے دلوں میں یہ بات راسخ ہوجائے کہ جنت میں جاناآسان نہیں بلکہ ا س کے لیے تکالیف اورآزمائشوں کوبرداشت کرناپڑے گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا بڑا گہرا اثر لیا اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں بے مثال قربانیاں دیں۔حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حرہ کی تپتی ہوئی سرزمین پرلٹایاگیا‘تپتی ریت پر ان کی کمر کو جھلسادیاگیا۔ ان کے سینے پرسنگِ گراں رکھا گیا‘آپؓ کے سینے میں سانس تنگ ہوگیا لیکن پھر بھی آپؓ اَحد‘ اَحد کا نعرہ لگاتے رہے۔ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کوظلم کا نشانہ بنایاگیا۔ ابوجہل نے ان کے جسم کے نازک حصوں پرنیزوں کی اَنی کومارااور ستم بالائے ستم کہ آپ کی ایک ٹانگ کوایک اونٹ کے ساتھ اوردوسری ٹانگ کو دوسرے اونٹ کے ساتھ باندھاگیا۔ ایک اونٹ کوایک طرف ہانکاگیا اور دوسرے اونٹ کودوسری سمت ہانکاگیا۔حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کا وجود چرچرایااور دوٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا نے جامِ شہادت کونوش فرمالیا لیکن اللہ کی توحید سے ہٹناگوارا نہیں کیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرح ہماری بھی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لیے ہرطرح کی قربانی دینے پرآمادہ اورتیار رہیں۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے دین سے پھر جانے کے وبال کابھی ذکر کیا کہ جو شخص اپنے دین سے منحرف ہو جائے گا اور کفر کی حالت میں مرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے اعمال کو ضائع کر دیں گے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے شراب اور جوئے کے بارے میں بتلایا کہ گو اِن میں بعض فائدے والی باتیں بھی ہیں لیکن ان کے نقصانات ان کے فوائد سے زیادہ ہیں اس لیے بنی نو ع انسان کو ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ناپاکی کے ایام میں عورتوں سے اجتناب کا حکم دیا اور طلاق کے مسائل کو بھی بیان فرمایا کہ طلاق کا اختیار مرد کے پاس دو دفعہ ہوتا ہے‘ اگر وہ مختلف اوقات میں دو دفعہ طلاق دے دے تو وہ اپنی بیوی سے رجوع کر سکتا ہے لیکن اگر وہ تیسری طلاق بھی دے دے تو پھر رجوع کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
اس کے بعد اللہ نے رضاعت کی مدت کا ذکر کیا کہ عورت اپنے بچے کو دو برس تک دودھ پلاسکتی ہے۔ اس کی بعد اللہ نے بیوہ کی عدت کا ذکر کیا کہ بیوہ عورت کو چاہیے کہ چار مہینے اور دس دن تک عدت پوری کرے۔اس کے بعد اگر وہ کہیں اور نکاح کرنا چاہے تو اس کو اس کی مکمل اجازت ہے۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نمازوں کی حفاظت کا ذکر کیا کہ تمام نمازوں خصوصاًدرمیانی یعنی عصر کی نماز کی حفاظت کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ دوسرے پارے میں بیان کردہ مضامین کوسمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اوران سے حاصل ہونے والے اسباق پرعمل پیراہونے کی بھی صلاحیت عطا فرمائے۔ آمین!

سورۃ الفاتحہ: یہ ترتیب کے اعتبار سے قرآن کی سب سے پہلی سورت ہے‘ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی قرأت کو ہر نماز کی ہر رکعت میں واجب قرار دیا گیا ہے۔ یہ سورت سات آیات پر مشتمل ہے اور ایک حدیثِ قُدسی میں اسے ''صلوٰۃ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر دیا ہے‘ یعنی جب بندہ ''اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘‘ پڑھتاہے ‘تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آتی ہے کہ میرے بندے نے میری حمد بیان کی اور جب بندہ ''اَلرَّحْمَنِ الرَّحِیْم‘‘ پڑھتاہے ‘تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آتی ہے کہ میرے بندے نے میری ثنا کی اور جب بندہ ''مَالِکِ یَومِ الدِّیْن‘ ‘پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آتی ہے کہ میرے بندے نے میری عظمت وجلالت بیان کی اور جب بندہ ''اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن‘‘ پڑھتاہے‘ تو ندا آتی ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے‘ یعنی عبادت صرف میری کی جائے گی اور ہر مشکل میں مدد کے طلبگار بندے کی مدد کی جائے گی اور جب بندہ ''اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمِ‘‘ سے ''وَلَا الضَّآلِّیْن‘‘ تک پڑھتا ہے تو چونکہ یہ کلماتِ دعا ہیں اور بندہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صراطِ مستقیم پر قائم ودائم رہنے کی دعا مانگتا ہے‘ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آتی ہے کہ یہ میرے بندے کیلئے ہے اور میرے بندے نے یہ سوال کیا ہے‘ وہ اُسے عطا ہو گا‘‘۔ (صحیح مسلم: 877) سورۃ الفاتحہ کو سورۃ الدعا‘ سورۃ الشفاء‘ سورۃ الکنز‘ سورۃ الواقیہ‘ سورۃ الکافیہ‘ سورۃ الرُّقیہ اور سورۃ الحمد کے ناموں سے بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اور اس کی عظمت کا بیان ہے‘ اس امر کا بیان ہے کہ عبادت کی حق دار صرف‘ اسی کی ذات پاک ہے اور بالذات صرف اسی سے مدد طلب کی جائے‘ اس میں اللہ کی بارگاہ سے دعا والتجاکے آداب بیان کیے گئے ہیں۔
سورۃ البقرہ: سورۃ البقرہ کی دوسری آیت میں یہ بتایا گیا کہ اگر قرآن کی حقانیت کے دلائل پر کوئی ٹھنڈے دل سے غور کرے‘ تو اس پر عیاں ہو گا کہ اس کتاب میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کفار ومشرکینِ مکہ قرآن کے کلام اللہ ہونے کا انکار کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ یہ نبی کریمﷺ کا اپنا بنایا ہوا کلام ہے؛ چنانچہ سورۂ بقرہ کی آیات 22 اور 23 میں ایسے تمام معاندین اور منکرین کو چیلنج کیا گیا کہ اگر تمہیں قرآن کے کلام اللہ ہونے میں شک ہے‘ تو تم سب مل کر اس جیسا کلام بنا کر لے آؤ اور تاریخ میں ایسا کوئی حوالہ نہیں ہے کہ قرآن کے اس چیلنج کو قبول کیا گیا ہو۔آیت3 تا 5 میں مومنین کی صفات‘ ایمان بالغیب‘ اقامتِ صلوٰۃ‘ انفاق فی سبیل اللہ‘ کتبِ الٰہیہ پر ایمان اور آخرت پر ایمان کا ذکر ہے۔ آیت 5 اور 6 میں ان لوگوں کا ذکر ہے جن کا کفر ظاہر و عیاں ہے اور وہ اپنی سرکشی میں اس حد تک آگے جا چکے ہیں کہ اب ان کا ہدایت پانا عملاً ناممکن ہے اور اُن پر ابدی شقاوت اور بدبختی کی مہر لگ چکی ہے۔ آیت 8 تا 20 میں منافقین کا ذکر ہے‘ یہ انسانیت کا وہ طبقہ ہے جن کے ظاہر وباطن میں تضاد ہے‘ دنیوی مفاد کیلئے ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن دل ایمان سے خالی ہیں۔ آیت 21 اور 22 میں توحید کی دعوت اور شرک سے باز رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مختلف نعمتوں کا ذکر کر کے بتایا گیا کہ نعمتیں عطا کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے‘ وہی حیات دینے والا ہے اور وہی موت دینے والا ہے اور آخر کار سب کو اسی کی عدالت میں جانا ہے۔ آیت 30 تا 39 میں ہے کہ فرشتوں کے سامنے اﷲ تعالیٰ نے اعلان فرمایا کہ میں آدم کو زمین میں اپنا خلیفہ بنا رہا ہوں‘ فرشتوں نے اپنی فہم کے مطابق‘ بارگاہِ الٰہی میں یہ عرض کیا کہ بنی آدم زمین میں فساد و خون ریزی کریں گے اور اے اﷲ! ہم ہمہ وقت تیری تسبیح و تقدیس میں مشغول رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں جن اَسرار اور حکمتوں کو جانتا ہوں‘ تم نہیں جانتے اور پھر نعمتِ علم کے ذریعے آدم علیہ السلام کی فضیلت اور برتری کو فرشتوں پر ثابت کیا‘ پھر فرشتوں کو حکم ہوا کہ آدم کو سجدہ کرو اور ابلیس لعین کے سوا تمام ملائک نے حکمِ ربّانی کی بلا چون و چِرا تعمیل کی۔ یہ سجدہ عبادت کا نہیں تھا بلکہ ''سجدۂ تعظیمی‘‘ تھا، پھر آدم و حوا علیہما السلام کے جنت میں داخل کرنے اور وہاں اُن کیلئے اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتوں سے استفادے کی اجازت کے ساتھ ساتھ ایک درخت کے قریب نہ جانے کی پابندی کا ذکر ہے۔ اسی کے ساتھ ابلیسِ لعین کے آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے‘ حضرت آدم وحوا علیہما السلام کو بہکانے اور جنت سے نکالے جانے کا ذکر ہے اور پھر آدم علیہ السلام کو توبہ کے کلمات اِلقا کیے جانے‘ ان کلمات سے ان کی توبہ اور توبہ کی قبولیت کا ذکر ہے۔ یہ کلماتِ توبہ سورۂ اعراف‘ آیت 23 میں مذکور ہیں‘ جن کا ترجمہ یہ ہے ''اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی‘ پس اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ فرمائے‘ تو ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے‘‘۔
اس کے بعد بنی اسرائیل اور اُن کی طرح طرح کی عہد شکنیوں‘ اُن پر مختلف انعامات اور اُن کی سرکشی کے مختلف انداز بیان کیے ہیں۔ پہلے تواللہ تعالیٰ نے ان پر نازل کی گئی اپنی کئی نعمتوں کا ذکر فرمایا جو یہ ہیں: فرعون اور فرعونیوں کے تسلُّط اور نسل کشی سے نجات دلانا‘ ان کیلئے سمندر کو پاٹ کر وادیٔ سینا میں پہنچانا‘ وادیٔ سینا میں اُن پر طویل عرصے تک بادلوں کا سایہ فِگن ہونا‘ مَنّ وسَلویٰ کی صورت میں تیار خوانِ نعمت کا نازل کرنا‘ چٹان پر عصائے موسیٰ کی ضرب سے بارہ قبیلوں کیلئے بارہ چشموں کا جاری ہونا‘ گائے ذبح کرکے اس کے مقتول پر لَمس سے قاتل کا پتا چلانا‘ ان کو اپنے عہد کے لوگوں پر فضیلت دینا‘ بنی اسرائیل میں بکثرت انبیائے کرام کی بعثت وغیرہ‘ پھراس کے بعد اُن کی سرکشی کا تفصیلی بیان ہوا جس کی تفصیل یہ ہے: اﷲ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد وپیمان کو توڑنا‘ ان کے علماء کے قول و فعل کا تضاد‘ دنیاوی مال کی لالچ میں بااثر لوگوں کیلئے اَحکامِ الٰہی میں ردّ وبدل کرنا یا اَحکامِ الٰہی کو جان بوجھ کر چھپانا‘ موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر گئے توان کی عدم موجودگی میں بچھڑے کی پوجا کرنا‘ من وسلویٰ کی گراں قدر اور تیار سَماوی نعمت کو ٹھکرا کر زمینی اجناس طلب کرنا‘ انبیاء کو ناحق قتل کرنا‘ سَبت (ہفتہ) کے دن کی حرمت کو پامال کرنا‘ گائے ذبح کرنے کے سیدھے سادے حکم کو ماننے کے بجائے اس کے بارے میں کئی سوالات اٹھانا‘ تورات وانجیل میں سیدنا محمد رسول کریمﷺ کے بارے میں بیان کی گئی بشارتوں کو چھپانا‘ شوہر اور بیوی میں تفریق کیلئے جادو سیکھنا اور اس کا استعمال‘ اِشارات و کنایا ت اور لفظی رد وبدل کے ذریعے رسول اللہﷺ کی شان میں اہانت کرنا وغیرہ؛ چنانچہ آیت 104 میں واضح ارشاد ہوا کہ ''اے اہلِ ایمان! (جب تمہیں نبی کی کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو دوبارہ بیان کیلئے) ''رَاعِنَا‘‘ (یعنی ہماری رعایت کیجئے) نہ کہو (کیونکہ اسے یہود اور منافقین اہانت کے معنی میں بھی استعمال کرتے ہیں‘ لہٰذا یوں کہو کہ) یا رسول اللہ! ہم پر توجہ فرمائیے اور ( اس سے بھی زیادہ ادب کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے ہی نبی کی بات کو) خوب توجہ سے سنو‘‘۔ یعنی مومنوں کو رسول کریمﷺ کی شان میں ایسا کلمہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے جس کو کوئی بدفطرت شخص اشارۃً‘ کنایۃً یا صراحۃً اہانت کے معنی میں استعمال کر سکتا ہو۔ پھر بتایا گیا کہ بچھڑے کی پرستش کے جرم کی توبہ اِس طرح قبول ہوئی کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ایک دوسرے کو قتل کیا‘ ان کی صورتوں کو مسخ کرکے انہیں ذلیل بندر کی شکل دے دی گئی اور پھر وہ موت سے ہمکنار ہوئے۔
بنی اسرائیل جبرئیل ؑ سے اس لیے عداوت رکھتے تھے کہ ان کے ذریعے بنی اسرائیل پر اللہ کا عذاب نازل ہوا‘ تو اللہ نے فرمایا کہ جبرئیل و میکائیل اللہ تعالیٰ ہی کے احکام کو نازل کرتے ہیں‘ پس جو ان کا دشمن ہے‘ وہ اللہ کا دشمن ہے۔ بنی اسرائیل کی اس خوش فہمی کو بھی رَد کیا گیا کہ وہ کسی استحقاق کے بغیر اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں۔ اہلِ ایمان کو یہ بتایا گیاکہ جب تک تم یہود ونصاریٰ کی خواہشات کی پیروی نہ کرلو ‘وہ تم سے راضی نہیں ہو سکتے۔ آیت 123 اور اس کے بعد کی آیات میں حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کے منصبِ امامت پر فائز کیے جانے کا تذکرہ ہے۔ حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کے بیت اللہ کو تعمیر کرنے کاذکر ہے اوراس امر کا بیان ہے کہ تعمیر ِ بیت اللہ کے بعد انہوں نے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعا کی: اے ہمارے رب اِن (اہلِ مکہ) میں‘ انہی میں ایک عظیم رسول کو مبعوث فرما‘ جو ان لوگوں پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور ان کو کتاب وحکمت کی تعلیم دے۔ اسی لئے رسولﷺ فرماتے تھے کہ میں حضرت عیسیٰؑ کی بشارت اور حضرت ابراہیمؑ کی دعا کا ثمر ہوں۔ اس کے بعد اس سورت میں اولادِ ابراہیم حضرت اسماعیل‘ حضرتِ اسحاق ‘ حضرت یعقوب اور ان کی اولاد حضرت موسیٰ وعیسیٰ اور اجمالی طور پر دیگر انبیائِ کرام علیہم السلام کا ذکر ہے اور یہ بھی کہ اہلِ ایمان سب انبیاء پر ایمان لاتے ہیں اور ایمان کے لانے میں رسولوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے اور یہ بھی کہ سب کے سب پیغمبر ایک ہی دینِ اسلام کے علمبردار اور داعی تھے۔

پہلے پارے کا آغاز سورۂ فاتحہ سے ہوتا ہے۔ اس سورہ کو اُمّ الکتاببھی کہا جاتا ہے۔ حدیث پاک کے مطابق‘ سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے تمام امراض کی شفا رکھی ہے۔ سورۂ فاتحہ کا آغاز بسم اللہ سے ہوتا ہے۔ بسم اللہ کی تلاوت کے ذریعے اس بات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ ہم ہر کام کا آغاز اللہ تعالیٰ کے بابرکت نام کے ساتھ کرتے ہیں‘ جو نہایت مہربان اور بہت رحم فرمانے والا ہے۔ بسم اللہ کے بعد سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد اور ثناء کا بیان ہے کہ تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں جو مہربان اور بہت زیادہ رحم فرمانے والا ہے۔ اس کے بعد اس بات کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ یومِ جزا کا مالک ہے۔ یومِ جزا ایک ایسا دن ہے‘ جس میں جزا اور سزا کا صحیح اور حقیقی فیصلہ ہوگا۔ ہر ظالم‘ کافر اور غاصب کو اپنے کیے کا جواب دینا پڑے گا۔ اس کے بعد سورۂ فاتحہ میں اس عقیدے کا اظہار کیا گیا ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرنے والے اور تجھ ہی سے مدد مانگنے والے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے سیدھے راستے کی طلب کی گئی ہے جو کہ ان لوگوں کا راستہ ہے‘ جن پر اللہ کا انعام ہوا اور ان لوگوں کا راستہ نہیں‘ جو اللہ کے غضب کا نشانہ بنے یا گمراہ ہوئے۔
سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ بقرہ ہے۔ سورۃالبقرہ کے آغاز میں تین گروہوں کا ذکر کیا گیا؛ ایک ایمان والوں کا گروہ‘ جن کا اللہ‘ یومِ حساب‘ قرآن مجید اور سابقہ کتب پر ایمان ہے اور جو نمازوں کو قائم کرنے والے اور زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں۔ دوسرا کافروں کا گروہ ہے‘ جو کسی بھی طور پر ایمان اور اسلام کے راستے کو اختیار کرنے پر تیار نہیں۔ تیسرا گروہ منافقین کا ہے‘ جو بظاہر تو ایمان کا دعویدار ہے‘ لیکن ان کے دِلوں میں کفر چھپا ہوا ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں ان کو چاہیے کہ قرآن کی کسی سورت جیسی کوئی سورت بنا کر لے آئیں؛ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو انہیں چاہیے کہ اس آگ سے ڈر جائیں جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالی نے انسانوں کے جدِ امجد جناب آدم علیہ السلام کی پیدائش کا ذکر کیا ہے۔ آدم علیہ السلام کی پیدائش کاواقعہ ان تمام سوالوں کا جواب پیش کرتا ہے کہ انسان کی پیدائش کب‘ کیوں اور کیسے ہوئی۔ انسانوں کی تخلیق سے قبل زمین پر جنات آباد تھے‘ جنہوں نے زمین پر سرکشی اور بغاوت کی‘ جسے کچلنے کے لیے اللہ تعالی نے فرشتوں کی ایک جماعت کو کہ جس میں ابلیس (عزازیل) بھی شامل تھا‘ روانہ کیا۔ ابلیس؛ اگرچہ گروہِ جنات سے تھا‘ لیکن مسلسل بندگی کی وجہ سے وہ فرشتوں کی جماعت میں شامل ہوگیا تھا۔ اس بغاوت کوکچلنے کے بعد ابلیس کے دل میں ایک خفیہ تکبرکی کیفیت پیدا ہو گئی جس سے اللہ علیم و قدیر پوری طرح آگاہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر انسانوں کی تخلیق کا فیصلہ فرمایا اور فرشتوں سے مخاطب ہو کرکہا: میں زمین پر ایک خلیفہ پیدا کرنے والا ہوں۔ فرشتے اس سے قبل زمین پر جنات کی یورش دیکھ چکے تھے؛ چنانچہ انہوں نے کہا: اے اللہ! تُو زمین پر اُسے پیدا کرے گا‘ جو خون بہائے گا اور فساد پھیلائے گا‘ جبکہ ہم تیری تعریف اور تقدیس میں مشغول رہتے ہیں۔ اللہ نے کہا: جو میں جانتا ہوں‘ تم نہیں جانتے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنانے کے بعد ان کو علم کی دولت سے بہرہ ور فرمایا اور ان کو اشیا کے ناموں سے آگاہ کر دیا۔ اس کے بعد فرشتوں اور آدم علیہ السلام کو جمع کر کے بعض اشیا کے ناموں کے بارے میں ان سے سوالات کیے‘ چونکہ فرشتے ان اشیا سے بے خبر تھے‘ اس لیے انہوں نے اللہ عزوجل کی پاکیزگی کا اعتراف اور اپنی عاجزی کا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو ان اشیا کا نام بتلانے کا حکم دیا تو انہوں نے ان اشیا کے نام فوراً بتلا دیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرشتوں کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ میں زمین و آسمان کی پوشیدہ باتوں کو جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور چھپاتے ہو‘ اس کو بھی جانتا ہوں۔ جب آدم علیہ السلام کی فضیلت ظاہر ہو گئی‘ تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم علیہ السلام کے سامنے جھک جائیں۔ فرشتوں میں چونکہ سرکشی نہیں ہوتی‘ اس لیے تمام فرشتے آدم علیہ السلام کے سامنے جھک گئے؛ تاہم ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس تکبر پر اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو ذلیل و خوار کر کے اپنی رحمت سے دُور فرما دیا اور آدم علیہ السلام کو ان کی اہلیہ کے ساتھ جنت میں آباد فرمایا۔ ابلیس نے اس موقع پر اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ رہتی دنیا تک آدم علیہ السلام اور ان کی ذُریت کو راہِ ہدایت سے بھٹکانے کے لیے سرگرم رہے گا۔
جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو جنت میں آباد فرمایا تو ان کو ہر چیز کھانے پینے کی اجازت دی ‘مگر ایک مخصوص درخت کے قریب جانے اور اس کا پھل کھانے سے روک دیا۔ ابلیس جو کہ آتشِ انتقام میں جل رہا تھا‘ اس نے آدم علیہ السلام اور جناب حوا علیہا السلام کے دل میں وسوسہ ڈالا کہ آپ کو شجرِ ممنوعہ سے اس لیے روکا گیا ہے کہ کہیں آپ کو ہمیشہ کی زندگی حاصل نہ ہو جائے۔ آدم اور ان کی اہلیہ حوا علیہما السلام اس وسوسے میں مبتلا ہو کر شجرِ ممنوعہ کے پھل کو کھا لیتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ اس پر خفگی کا اظہار فرماتے ہیں اور ان سے لباسِ جنت اور جنت کی نعمتوں کو چھین لیتے ہیں اور ان کو جنت سے زمین پر اُتار دیتے ہیں۔ آدم علیہ السلام اور حوا علیہا السلام جب معاملے پر غور کرتے ہیں تو انتہائی نادم ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آ کر دُعا مانگتے ہیں۔ ''اے ہمارے پروردِگار! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم یقینا خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے‘‘۔ آدم علیہ السلام اور حوا علیہا السلام جب اللہ کی بارگاہ میں فریاد کرتے ہیں تو اللہ ان کی خطا کو معاف فرما دیتے ہیں اور ساتھ ہی اس امر کا بھی اعلان کر دیتے ہیں کہ زمین پر رہو‘ میں تمہارے پاس اپنی طرف سے ہدایت بھیجوں گا۔ پس‘ جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا‘ نہ اس کو غم ہو گا‘ نہ خوف۔
اس پارہ میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر اپنے احسانات اور انعامات کا ذکر بھی کیا ہے اور ان کی نافرمانیوں اور ناشکریوں کا بھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انہوں نے بنی اسرائیل پر من و سلویٰ کو نازل فرمایا، ان کو رزق کی تگ ودو کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان پر بادلوں کو سایہ فگن فرما دیا اور ان کو دھوپ سے محفوظ فرما دیا۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے بارہ چشموں کو جاری فرمایا لیکن ان تمام نعمتوں کو حاصل کرنے کے بعد بھی وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور نا شکری کرتے رہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کے واقعے کا بھی ذکرکیا کہ انہوں نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ہمراہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لیے اللہ تعالیٰ کے گھر (خانہ کعبہ) کو تعمیر فرمایا۔ تعمیر فرمانے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعامانگی: اے باری تعالیٰ! ہمارے عمل کو قبول فرما‘ بے شک تو سننے اور جاننے والا ہے۔ آ پ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعا بھی مانگی: ''اے اللہ! اہلِ حرم کی رہنمائی کے لیے ایک ایسا رسول بھی مبعوث فرمایا جو ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم د ے اور ان کو پاک کرے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو قبول فرما کرجناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ دُعا ہے کہ اللہ ہمیں پہلے پارے کے مضامین کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے، آمین!