ماہ صیام

صبروبرداشت کا مہینہ

اس ماہ میں انسان جائز، حلال اور طیّب چیزوں سے بھی صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک رکتا ہے، یہ رکنا دراصل صبر ہے

قرآن مجید میں کئی مقامات پر صبر کو جنّت کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے

مفتی قمرالزمان رضوی


امام بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت سلمان فارسیؓ سے راویت کرتے ہیں، کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے شعبان کے آخر دن میں وعظ فرمایا! اے لوگو تمھارے پاس عظمت والا، برکت والا مہینہ آیا، وہ مہینہ جس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے اور اس کی رات میں قیام تطوع (یعنی سنت) جو اس میں نیکی کا کوئی کام کرے تو ایسا ہے جیسے اور کسی مہینے میں فرض ادا کیا اور اس میں جس نے فرض ادا کیا تو ایسا ہے جیسے اور دنوں میں 70 فرض ادا کیے۔ یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے اور یہ مہینہ مواسات کا ہے اور اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھایا جاتا ہے، جو اس میں روزہ دار کو افطار کرائے، اْس کے گناہوں کی مغفرت ہے اور اس کی گردن آگ سے آزاد کر دی جائے گی اور اس افطار کرانے والے کو ویسا ہی ثواب ملے گا جیسا روزہ رکھنے والے کو ملے گا‘‘، ہم نے عرض کی، یا رسول اللہ ﷺ! ہم میں کیا ہر شخص وہ چیز نہیں پاتا، جس سے روزہ افطار کرائے؟ حضورﷺ نے فرمایا: اللہ یہ ثواب اس شخص کو دے گا، جو ایک گھونٹ دودھ یا ایک خُرما یا ایک گھونٹ پانی سے روزہ افطار کرائے اور جس نے روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلایا، اْس کو اللہ ایسے حوض سے پلائے گا کہ کبھی پیاسا نہ ہوگا یہاں تک کہ جنت میں داخل ہو جائے۔ یہ وہ مہینہ ہے کہ جس کا اوّل رحمت ہے اور اس کا وسط مغفرت ہے اور اس کا آخر جہنم سے آزادی ہے جو اپنے غلام پر اس مہینے میں تخفیف کرے یعنی کام میں کمی کرے، اللہ تعالیٰ اْسے بخش دے گا اور جہنم سے آزاد فرما دے گا‘‘(شعب الایمان، حدیث:3608، ج3، ص305)

یہ مہینہ واقعی صبر کا ہے اس لیے کہ اس میں جائز، حلال اور طیّب چیزوں سے بھی انسان صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک رکتا ہے۔ یہ رکنا دراصل صبر اور تقویٰ کی تربیت ہے۔ انسان کی نفسانی خواہشات میں حدود کو پھلانگنے کا رجحان پایا جاتا ہے، جبکہ تقویٰ یہ ہے کہ انسان سارا سال اپنے آپ کو حرام سے روکے رکھے‘ گناہ سے باز آ جائے اور منکرات سے اجتناب کرے، اسی کا نام صبر ہے۔

آج جمعتہ الوداع ہے اور آج کے یوم سعید کو پوری دنیا کے مسلمان قبلہ ائول مسجد اقصی کی آزادی کے لئے یوم القدس کے طور پر بھی مناتے ہیں اور تجدید عہد کرتے ہیں کہ وہ قبلہ اوّل بیت المقدس یعنی مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لئے ہر ممکن جدو جہد کریں گے۔ بیت المقدس اس عظیم عمارت کا نام ہے جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام آسمانی مذاہب کے لئے بھی مقدس اور محترم مقام ہے۔ مسجد اقصی کو مسلمانوں کا پہلا قبلہ اوّل ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ مسجد اقصی کا ذکر قرآن کریم کے پندرھویں پارہ میں آیا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ کسی تکلیف یا مصیبت کو خندہ پیشانی سے برداشت کر لینا ہی صبر ہے، جب کہ حقیقت میں صبر کا مفہوم بہت جامع اور ہمہ گیر ہے۔ چناں چہ امام راغب اصفہانیؒ نے صبر کے تین درجے مقرر کیے ہیں۔

(1) گناہوں سے اپنے آپ کو روکنا۔

(2) اطاعت، بندگی اور دینی فرائض کی ادائی پر کاربند ہونا۔

(3) مشکلات اور سختیوں میں صبر کرنا۔

خاص طور پر اقامت دین کی جدوجہد کے مراحل میں آنے والی سختیوں کو جھیلنا، برداشت کرنا اور پھر استقامت کا مظاہرہ کرنا۔ اس اعتبار سے گویا پورا دین صبر کی تشریح میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر صبر کو جنّت کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔

’’اور جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف و کمی کر دے گا‘ اللہ اس کی مغفرت فرمائے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دے گا‘‘ یہ بھی گویا ہمدردی اور غم گساری کا ایک مظہر ہے کہ اپنے ماتحت لوگوں کی ذمے داریوں میں تخفیف کر دی جائے۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں کہ انہیں روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘ ایک حدیث میں اس کی وجہ بھی بیان کی گئی ہے: جو شخص (روزہ رکھ کر) جھوٹی بات بنانا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو اس بات کی ضرورت نہیں کہ وہ محض اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ اصل میں روزہ وہی ہے جو مکمل آداب اور شرائط کے ساتھ رکھا جائے۔ رمضان واقعی نیکیوں کی برسات کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں اگر ہم صحیح معنوں میں محنت کر کے اپنے نفس کی تربیت کر لیں تو اس کا اور کوئی بدل نہیں ہو سکتا اور اگر ہم اس ماہ میں بھی اللہ کی رحمت سمیٹنے اور اپنی بخشش کرانے سے محروم رہ جائیں تو پھر ہم سے بڑا بدنصیب اور کوئی نہیں ہو سکتا۔

عبد اللہ بن عکیم جہنیؓ سے روایت ہے کہ جب رمضان المبارک کی آمد ہوتی تو امیر المومنین حضرت عمر فاروقِ اعظمؓ یکم رمضان المبارک کی شب نماز مغرب کے بعد لوگوں کو نصیحت آموز خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرماتے: ’’اے لوگو! بے شک اس مہینے کے روزے تم پر فرض کیے گئے ہیں، البتہ اس میں نوافل کی ادائیگی فرض نہیں ہے، لہٰذا جو بھی نوافل ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ نوافل ادا کرے۔ تم میں سے ہر بندہ یہ کہتے ہوئے ڈرے کہ میں تو اس لیے روزے رکھ رہا ہوں کہ فلاں بھی روزے رکھ رہا ہے، میں تو اس لیے نوافل ادا کررہا ہوں کہ فلاں بھی نوافل ادا کررہا ہے۔ جو بھی روزے رکھے یا نوافل ادا کرے وہ اللہ کی رضا کیلئے رکھے۔ تم میں سے ہر بندہ یہ جان لے کہ وہ نماز میں ہے نماز اس کے انتظار میں نہیں ہے۔ اللہ کے گھر میں فضول باتیں کم کیا کرو‘‘ پھر آپ ﷺ نے تین بار یہ ارشاد فرمایا: ’’خبردار! تم میں سے کوئی بھی اس مبارک مہینے کو فضول نہ گزارے، جب تک چاند نہ دیکھ لو اس وقت تک روزہ نہ رکھو اگر چاند مشکوک ہوجائے تو تیس دن پورے کرو اور جب تک اندھیرا (یعنی سورج کے غروب ہوجانے کا یقین) نہ ہو اس وقت تک افطار نہ کرو‘‘۔

امام بیہقی شعب الایمان میں عبداللہ بن عمروؓ سے راوی، کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: روزہ و قرآن بندہ کیلئے شفاعت کریں گے، روزہ کہے گا، اے رب ! میں نے کھانے اور خواہشوں سے دن میں اسے روک دیا، میری شفاعت اْس کے حق میں قبول فرما۔ قرآن کہے گا، اے رب ! میں نے اسے رات میں سونے سے باز رکھا، میری شفاعت اْس کے بارے میں قبول کر۔ دونوں کی شفاعتیں قبول ہوں گی۔

عام طور پر رمضان المبارک میں مالی حقوق جیسے زکوٰۃ، عشر، صدقہ الفطر، نذر وغیرہ کی ادائیگی کی جاتی ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ ان سے متعلق تفصیلی احکامات پہلے سے معلوم کر لیے جائیں، اسی طرح جو مالی حقوق ذمہ میں ہوں ادا کرنے کی صلاحیت بھی ہو تو رمضان سے پہلے ادا کر لیں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مالدار آدمی کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ (بخاری)

امام بیہقی جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: ’’میری اْمّت کوماہِ رمضان میں پانچ باتیں دی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملیں۔ اوّل یہ کہ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ ان کی طرف نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف نظر فرمائے گا، اْسے کبھی عذاب نہ کریگا۔

دوسری یہ کہ شام کے وقت اْن کے منہ کی بُو اللہ کے نزدیک مُشک سے زیادہ اچھی ہے۔

تیسری یہ ہے کہ ہر دن اور ہر رات میں فرشتے ان کیلئے استغفار کرتے ہیں۔

چوتھی یہ کہ اللہ جنت کو حکم فرماتا ہے کہ مستعد ہو جا اور میرے بندوں کے لیے مزّین ہو جا قریب ہے کہ یہاں آ کر آرام کریں۔

پانچویں یہ کہ جب آخر رات ہوتی ہے تو ان سب کی مغفرت فرما دیتا ہے۔ کسی نے عرض کی، کیا وہ شبِ قدر ہے؟ فرمایا: نہیں کیا تو نہیں دیکھتا کہ کام کرنے والے کام کرتے ہیں، جب کام سے فارغ ہوتے ہیں اْس وقت مزدوری پاتے ہیں۔