مولا نا عبدالمالک


اسلام اور کفر کے درمیان پہلا معرکہ بدر کے مقام پر2ھ 17رمضان المبارک کو ہواجس میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کو شاندار فتح سے نوازااورکفر کی کمر توڑ کر رکھ دی ۔اس لئے17رمضان کو اللہ تعالیٰ نے’’ یوم الفرقان‘‘ کانام دیاہے۔یہ روئے زمین کی پہلی جنگ تھی جو اسلحہ اور ظاہری مال و اسباب کے بجائے اللہ پرکامل ایمان اور ایقان کی بنیاد پر لڑی گئی۔ بدر مکہ اور مدینہ سے شام جانے والے تجارتی قافلوں کی گزر گاہ پر ایک چھوٹا سا گائوں تھا جس کے اردگرد چھوٹے پہاڑی ٹیلے تھے ۔تجارتی راستہ ہونے کی وجہ سے اس کی خاص اہمیت تھی ۔ میدان بدر مدینہ منورہ سے قریباً 80اورمکہ سے 220 میل کے فاصلے پر تھا۔ مسلمانوں کے مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ چلے جانے کے بعد اسلام دشمن خصوصاًسرداران قریش سوچتے تھے کہ مسلمان اپنی جانیں بچا کر ان کے ہاتھ سے نکل گئے علاوہ ازیں اسلام دشمن سرداروں کو یہ خوف بھی لاحق تھا کہ مسلمان قوت پکڑ کر اس تجارتی راستے کو بند کردیں گے اور مکہ کی تجارت اور کاروبار ختم ہوجائے گا کفار مکہ دن رات اسی سوچ بچار میں تھے کہ کسی طرح مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے کچل دیا جائے ،وہ غصے اور انتقام کی آگ میں جھلس رہے تھے اورمدینہ پر چڑھ دوڑنے کا بہانہ ڈھونڈ رہے تھے۔انہی دنوں مکہ کا ایک تجارتی قافلہ ابو سفیان کی قیادت میں شام سے مال تجارت لیکر واپس آرہا تھا ۔اس قافلے کی حفاظت کی آڑ میں سرداران قریش نے ایک ہزار جنگجوئوںکا بہت بڑا لشکر تیارکیا جو ہر طرح کے اسلحے سے لیس تھا۔ نبی کریم حضرت محمد ﷺ کو مدینہ پر حملہ کی غرض سے قریشی لشکر کی آمد کی اطلاع ملی تو آپﷺ نے خطرے سے نپٹنے کیلئے تجاویز طلب فرمائیں، مہاجرین نے جانثاری کا یقین دلایا۔ آپﷺ نے دوبارہ مشورہ طلب کیا تو انصار میں سے سعد بن عبادہؓ نے عرض کیا کہ غالباً آپ ﷺکا روئے سخن ہماری طرف ہے۔ آپ ؐنے فرمایا’’ ہاں‘‘۔ حضرت سعد بن عبادہؓ نے عرض کیا ’’یا رسولؐ اللہ ! ہم آپؐ پر ایمان لائے ہیں۔ ہم نے آپ ؐکی تصدیق کی اور گواہی دی ہے کہ جو کتاب آپﷺ لائے ہیں وہ حق ہے اور ہم نے آپ ﷺ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا عہد کیا ہے۔ آپؐ جس طرف جانے کا حکم دیں گے ہم میں کوئی ایک بھی اس سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ قسم ہے اُس ذات کی جس نے حق کے ساتھ آپﷺ کو معبوث کیا اگر آپؐ ہمیں سمندر میںکود جانے کا حکم دیں گے تو ہم سمندر میںکود جائیں گے۔‘‘حضرت مقداد ؓنے عرض کیا’’ہم موسیٰؑ کی امت کی طرح نہیں ہیں جس نے موسیٰؑ سے کہا کہ تم اور تمہارا رب جاکر دشمن سے لڑو۔ ہم تو یہاں بیٹھ کر دیکھیںگے ، بلکہ ہم آپ ﷺکے دائیں بائیں اور آگے پیچھے آپﷺ کے ساتھ لڑیں گے۔‘‘ غزوۂ بدر میں مسلمانوں کی فتح کا سب سے بڑا اور اصل سبب نصرت الہٰی تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے حضور نبی اکرمﷺ نے نہایت گریہ وزاری سے دعا فرمائی ’’اے خدا! یہ قریش ہیں اپنے سامان غرور کیساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں۔ اے اللہ! اب تیری وہ مدد آجائے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا۔ اے اللہ ! اگر آج یہ مٹھی بھر نہتے لوگ مارے گئے تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں بچے گا۔‘‘دعا کے دوران آپ ﷺ کی داڑھی مبارک آنسوئو ں سے بھیگی ہوئی اور ہچکی بندھی تھی ۔ آپؐ کے کندھو ں پر پڑی چادر بار بار نیچے گر جاتی ، حضرت ابو بکر صدیق ڈھارس بندھاتے کہ اللہ آپؐ کو تنہا نہیں چھوڑے گا ضرور مدد کرے گا۔ جواب میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو فتح کی بشارت دی اور ایک ہزار فرشتوں سے امداد فرمائی جس کا ذکر سورۃ الانفال میں ہے۔جنگ سے ایک روز قبل آپ ﷺ نے میدان بدر کا معائنہ فرمایا ،آپ ﷺکے ہاتھ میں چھڑی تھی جس سے آپ ؐ نے میدان میں مختلف جگہ پر دائرے لگائے اور فرمایا، ابوجہل یہاں قتل ہوگا،ولید ، عتبہ اور شیبہ یہاں قتل ہوگا۔جنگ کے بعد صحابہ ؓ نے دیکھا کہ ان مشرک سردار وں کی لاشیں اُسی جگہ پڑی تھیں جہاں آپ ﷺ نے دائرے لگائے تھے ۔ جنگ بدر میںمسلمانوں کی کل تعداد محض 313نفوس قدسیہ پر مشتمل تھی ،ان میں17 سالہ نوجوان سے لیکر 60 سالہ بوڑھے تک سب شامل تھے ۔ جنگی مال و اسباب اور اسلحے کی شدید قلت تھی محض 2گھوڑے اور 70اونٹ تھے ۔لڑنے والوں کے پاس ڈھنگ کی تلواریں بھی نہیں تھیں مگر اللہ کے ان سپاہیوں کو جنگی اسلحہ اور اپنی قوت بازو سے زیادہ اللہ کی مدد اور نصرت کا یقین تھا۔ کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی جنگ بدر کا عجیب منظر تھا کہ بھائی بھائی کیخلاف ،باپ بیٹے اور بیٹا باپ کیخلاف،بھانجا ماموں اور چچا بھتیجے کیخلاف نبردآزما تھا ۔ حضرت ابوعبیدہ ؓنے اپنے والد جراح کو، حضرت عمر فاروق ؓنے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو،حضرت مصعب ؓنے اپنے بھائی عبید کو اور اسی طرح بہت سے صحابہؓ نے اپنے قریبی رشتے داروں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرکے غیرت اسلامی اور محبت نبویؐ کا بے مثال مظاہرہ کیا۔غزوہ بدر کے بعد ایک بار حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے بیٹے جو جنگ میں کفار کی طرف سے لڑے تھے نے اپنے والد سے کہا کہ جنگ بدر میں آپؓ دو بار میری تلوار کے نیچے آئے مگر میں نے وار نہیں کیا۔حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے کہا، بیٹا اگر تو ایک بار بھی میری تلوار کے نیچے آجاتا بخدا میں اپنا ہاتھ نہ روکتا۔ غزوۂ بد ر میں ابوجہل ،عتبہ اور شیبہ سمیت کفار کے نامور سردار مارے گئے ۔کفار کے لشکر کے 70لوگ تہ تیغ ہوئے اور 70کو قیدی بنا لیا گیا ۔کفر کے غرور اور تکبر کو اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کیلئے خاک میں ملادیا، اسلامی لشکر کے 14سپاہی شہید ہوئے ۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ساتھ فتح و نصرت کا جو وعدہ فرمایا تھاوہ پورا ہو گیا۔ ابوجہل اور دیگر قریشی سرداروں نے مکہ سے روانہ ہونے سے پہلے خانہ کعبہ کاغلاف پکڑ کر دعا کی تھی کہ ’’خدایا دونوں گروہوں میں سے جو بہتر ہے اس کو فتح عطا کراور جو ظلم کے راستے پر ہو اسے تباہ کر‘‘ چنانچہ غزوۂ بدر میں اللہ تعالیٰ نے اپنا فیصلہ فرما دیا کہ کون حق ہے اور کون باطل پر۔! اسلامی اخوت کا دلوں پر اس قدر غلبہ تھا کہ انصار اور مہاجر ایک دوسرے کو اپنا بھائی اور اپنے غیر مسلم رشتہ داروں کو اپنا دشمن سمجھتے تھے ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓنے مشورہ دیا کہ تعلیم یافتہ قیدیوں سے دس دس ان پڑھ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کا معاہدہ کیا جائے اور دیگر قیدیوں سے ایک ہزار سے لے کر چار ہزار درہم تک یا حسب استطاعت فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔حضور ﷺ نے تجویز کو پسند فرمایا ، حضور ﷺ چاہتے تھے کہ قیدی صحابہ کرام ؓ کے ساتھ وقت گزاریں گے تو انہیں اسلام کے متعلق جاننے کا موقع ملے گا،اسلام کی حقانیت اور صحابہ ؓ کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر ان قیدیوں میں سے اکثر نے اسلام قبول کرلیا۔ حق و باطل کے اس پہلے معرکے میں اسلام کی شاندارفتح نے مسلمانوں کو عرب کی عظیم قوت بنا دیا۔ عرب اور عرب سے باہر دور و نزدیک اس جنگ کے چرچے ہونے لگے۔ چھوٹے قبائل جو پہلے اسلام قبول کرنے سے ڈرتے اور کفار مکہ سے خوفزدہ تھے انہوں نے کھل کر مسلمانوں کی حمایت شروع کردی اور لوگ جو ق درجوق اسلام میں داخل ہونے لگے ۔ آج دنیا بھر میں جگہ جگہ مسلمان مظلوم ہیں مقبوضہ کشمیر ، فلسطین ہر جگہ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا اور ان کاناحق خون بہایا جارہا ہے ۔ اسلام دشمن طاقتیں مظلوم مسلمانوں کی بجائے جارحیت اور ظلم و جبر کرنے والوں کا ساتھ دے رہی ہیں ۔ یوم بدر کا پیغام یہ ہے کہ میدان جنگ میں کامیابی کا انحصار مادی وسائل سے زیادہ نظریاتی اور اخلاقی حیثیت پر ہے ۔ بدر میں یہ ثابت ہوگیا کہ امت جب ایمان اور یقین کے ساتھ آگے بڑھتی ہے تو اللہ کی نصرت اس کے ساتھ ہوتی ہے جنگ بدر رنگ و نسل کے بجائے خالص عقیدے کی بنیاد پر تھی ایک طرف تکبر و غرور اور گھمنڈ تھا اور دوسری طرف عاجزی و انکساری اور اللہ کی نصرت پر کامل یقین تھا ۔ اسلام اور کفر کے درمیان اس جنگ میں مہاجرین اور انصار نے ایک دوسرے سے بڑھ کر قربانیاں دیں۔آج بھی نسل ،زبان اور علاقائی تعصب پر تقسیم ہونے کی بجائے عقیدے اور نظرئیے کی بنیاد پر امت کو متحد اور منظم ہونا ہوگا ۔امت کے اتحاد کی بنیاد آج بھی کلمۂ توحید اور حضور اکرم ﷺ کی محبت ہی ہے ۔ فضائے بدر پیدا کرفرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

مولانا مجیب الرحمان انقلابی


ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ وہ خوش قسمت ترین عورت ہیں کہ جن کو ازواج مطہرات میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔قرآن و حدیث اور تاریخ کے اوراق آپ ؓکے فضائل و مناقب سے بھرے پڑے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے شادی سے قبل حضور اکرمؐ نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں کوئی چیز لپیٹ کر آپﷺ کو پیش کر رہا ہے۔ (از صحیح بخاری مناقب عائشہؓ) نبی اکرم ﷺ کو حضرت عائشہ صدیقہؓ سے بہت محبت تھی، ایک مرتبہ حضرت عمرو ابن عاصؓ نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا کہ آپ ﷺ دنیا میں سب سے زیادہ کس کو محبوب رکھتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا ’’ عائشہؓ کو۔‘‘عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! مردوں کی نسبت سوال ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا ’’عائشہ کے والد (حضرت ابوبکر صدیقؓ) کو۔‘‘ (صحیح بخاری) آپؓ کا نام عائشہ، لقب صدیقہ اور حمیرا، خطاب ام المومنین اور کنیت ام عبد اللہ ہے۔ چونکہ آپؓ صاحبِ اولاد نہ تھیں اس لئے آپؓ نے اپنی بہن حضرت اسماءؓ کے صاحبزادے اور اپنے بھانجے حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کے نام پر حضور اکرم ﷺ کے ارشاد کے مطابق اپنی کنیت ام عبد اللہ اختیار فرمائی۔ (ابودائود کتاب الادب) حضرت عائشہ صدیقہؓ کے والد کا نام عبد اللہ، ابوبکر کنیت اور صدیق لقب تھا، ماں کا نام اُم رومان تھا۔ آپؓ کی پیدائش سے 4 سال قبل ہی حضرت ابوبکر صدیقؓ دولت اسلام سے مالا مال ہو چکے تھے اور آپؓ کا گھر نورِ اسلام سے منور ہو چکا تھا، اس لیے آپؓ نے آنکھ کھولتے ہی اسلام کی روشنی دیکھی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص انعام ہے کہ کبھی کفروشرک کی آواز تک نہیں سنی، چنانچہ خود ہی ارشاد فرماتی ہیں کہ’’ جب سے میں نے اپنے والد کو پہچانا ان کو مسلمان پایا۔‘‘ (بخاری حصہ اول) حضرت عائشہ صدیقہؓ کا ’’کاشانۂ نبوت‘‘ میں حرم نبویؐ کی حیثیت سے داخل ہونے کے بعد قرآن مجید کا ایک بڑا حصہ نازل ہوا، آپؓ کو کم و پیش 10 سال حضور اکرمﷺ کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہوا، خود صاحبِ قرآن سے قرآن سنتیں، جس آیت کا مطلب سمجھ میں نہ آتا حضور اکرم ﷺ سے اس کا مفہوم سمجھ لیتیں، اسی ’’نورخانہ‘‘ میں آپؓ نے کلامِ الٰہی کی معرفت، ارشاداتِ رسالت کا علم، رموز و اسرار دین کی عظیم الشان واقفیت حاصل کی، آپ ؓکو علم دینیہ کے علاوہ تاریخ، ادب اور طب کے علوم میں بھی کافی مہارت تھی، غرضیکہ اللہ رب العزت نے آپؓ کی ذاتِ اقدس میں علم انساب، شعرو شاعری، علوم دینیہ، ادب و تاریخ اور طب جیسے علوم جمع فرما دیئے تھے۔ کمسنی میں حضرت عائشہؓ کا حضور اکرمﷺ کے گھر آنا گہری حکمتوں اور اعلیٰ دینی فوائد سے خالی نہیں بقول حضرت علامہ سید سلمان ندویؒ ’’کم سنی کی اس شادی کا ایک منشا نبوت اور خلافت کے درمیان تعلقات کی مضبوطی بھی تھی۔‘‘ حضرت عائشہ صدیقہؓ بچپن ہی سے نہایت ہی ذہین و فطین تھیں، علامہ سید سلمان ندویؒ رقمطراز ہیں کہ ’’عمو ما ً ہر زمانے کے بچوں کا وہی حال ہوتا ہے جو آج کل کے بچوں کا ہے کہ سات آٹھ برس تک تو انہیں کسی بات کا مطلق ہوش نہیں ہوتا، اور نہ ہی وہ کسی کی بات کی تہہ تک پہنچ سکتے ہیں، لیکن حضرت عائشہؓ لڑکپن کی ایک ایک بات یاد رکھتی تھیں، انکی روایت کرتی تھیں، لڑکپن کے کھیل کود میں کوئی آیت کانوں میں پڑ جاتی تو اسے بھی یاد رکھتی تھیں، ہجرت کے وقت ان کا سن عمر8 برس لیکن اس کم سنی اور کم عمری میں ہوش مندی اور قوت حافظہ کا یہ حال تھا کہ ہجرتِ نبوی کے تمام واقعات بلکہ تمام جزوی باتیں ان کو یاد تھیں ان سے بڑھ کر کسی صحابیؓ نے ہجرت کے واقعات کو ایسی تفصیل کے ساتھ نقل نہیں کیا ۔‘‘(از سیدہ عائشہؓ صفحہ33) ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ جس گھر میں دلہن بن کر آئی تھیںوہ کوئی عالیشان اور بلند و بالا عمارت پر مشتمل نہ تھا، مسجد نبوی کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے متعدد حجرے تھے ان ہی میں ایک حجرہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کا مسکن تھا، یہ حجرہ مسجد کی شرقی جانب تھا، اس کا دروازہ مسجد کے اندر کھلتا تھا، گھر یا حجرہ کا صحن ہی مسجد نبوی کا صحن تھا، حضور اکرمﷺ اسی دروازے سے ہو کر مسجد میں تشریف لے جاتے۔ (صحیح بخاری بحوالہ سیدہ عائشہ صفحہ 41)حجرہ کی وسعت چھ سات ہاتھ سے زیادہ نہ تھی، دیواریں مٹی کی تھیں، چھت کو کھجوروں کی ٹہنیوں سے ڈھانک کر اوپر کمبل ڈال دیا گیا تھا کہ بارش سے محفوظ رہے، بلندی اتنی تھی کہ آدمی کھڑا ہوتا تو ہاتھ چھت کو لگ جاتا، گھر کی کل کائنات ایک چارپائی، ایک چٹائی، ایک بستر، ایک تکیہ (جس میں کھجوروں کی چھال بھری ہوئی تھی) آٹا اور کھجوریں رکھنے کیلئے دو برتن تھے، پانی کیلئے ایک بڑا برتن اور پانی پینے کیلئے ایک پیالہ تھا، کبھی کبھی راتوں کو چراغ جلانا بھی استطاعت سے باہر تھا، چالیس چالیس راتیں گزر جاتیں اور گھر میں چراغ نہیں جلتا تھا۔ (از مسند طیالسی صفحہ207) ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ حضور اکرم ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کے حصول میں شب و روز کوشاں رہتیں اگر ذرا بھی آپ ﷺ کے چہرے پر خزن و ملال اور کبیدہ خاطری کا اثر نظر آتا تو بے قرار ہو جاتیں۔حضور اکرمﷺ کے قرابت داروں کا اتنا خیال تھا کہ ان کی کوئی بات ٹالتی نہ تھیں۔ آپؓ نے بچپن سے جوانی تک کا زمانہ اس ذاتِ اقدسؐ کی صحبت میں بسر کیا جو دنیا میں مکارم اخلاق کی تکمیل کیلئے آئی تھی چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کا اخلاق نہایت ہی بلند تھا آپؓ نہایت سنجیدہ، فیاض، عبادت گزار اور رحم دل تھیں۔آپؓ کو خدا نے اولاد سے محروم کیا تھاــ تو آپؓ عام مسلمانوں کے بچوں کو زیادہ تر یتیموں کو لیکر پرورش کیا کرتی تھیں، ان کی تعلیم و تربیت کرتی تھیں اور ان کی شادی بیاہ کے فرائض انجام دیتی تھیں۔ آپؓ اکثر رات کو اٹھ کر نماز تہجد ادا فرمایا کرتی تھیںنبی کریم ؐ کے وصال کے بعد بھی نماز کی پابندی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ حضور اکرم ﷺنے ایک سوال کے جواب میں فرمایا ’’ عورتوں کیلئے حج ہی جہاد ہے‘‘ اس لیے آپؓ حج کی بہت زیادہ پابندی فرمایا کرتی تھیں اور تقریباً ہر سال حج کیلئے تشریف لے جاتیں ۔(بخاری شریف) حج کے بعد عمرہ بھی ادا کرتیں، آخر رمضان میں جب حضور اکرم ﷺ اعتکاف فرماتے تو آپؓ بھی اتنے ہی دن صحن میں خیمہ نصب کروا کر اعتکاف میں گزارتیں،آپؓ کی تقریباً ساری زندگی ہی عسرت و تنگی اور فقرو فاقہ میں گزر گئی۔ آپ ؓکے اخلاق کا سب سے ممتاز جوہر کشادہ دستی تھی خیرات میں تھوڑے بہت کا لحاظ نہ کرتیں جو موجود ہوتا سائل کی نذر کر دیتیں، حضرت غزوہؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ آپؓنے ان کے سامنے پوری 70 ہزار کی رقم خدا کی راہ میں دیدی اور دوپٹہ کا گوشہ چھاڑ دیا۔ بہت زیادہ رقیق القلب تھیںجلد رونے لگتیں دل میں خوف اور خشیت الٰہی تھا۔ایک دفعہ کسی بات پر قسم کھا لی تھی، پھر لوگوں کے اصرار پر ان کو اپنی قسم توڑنی پڑی اور گو کہ اس کے کفارے میں 40 غلام آزاد کئے، تاہم دل پر اتنا گہرا اثر تھا کہ جب یاد کرتیں توروتے روتے آنچل تر ہو جاتا ۔(بخاری باب الہجرت)آپ ؓکا امت مسلمہ پر بہت بڑا احسان ہے کہ آپؓ کے مبارک واسطہ سے امت کو دین کا بڑا حصہ نصیب ہوا، صحابہ کرامؓ کے وہ قابل فخر و ناز افراد جنہوں نے حضور اکرم ﷺ کے ارشادات و فرمودات اور آپ ﷺ کے قدوسی حرکات و سکنات کثرت سے نقل کیے ان میں آپؓ کا چھٹا نمبر ہے، آپ ؓسے حضور ﷺ کی 2210دو ہزار دو سو دس حدیثیں مروی ہیں۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں کوئی ایسی مشکل کبھی پیش نہیں آتی جس کو ہم حضرت عائشہؓ سے پوچھا ہو اور ان کے پاس اس کے بارے میں کوئی معلومات ہم کو نہ ملی ہوں۔ امام زہریؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عالم تھیں، بڑے بڑے صحابہ کرامؓ ان سے پوچھا کرتے تھے… 58؁ھ میں آپؓ کی عمر 67سال کی ہو چکی تھی، اسی سال ہی رمضان المبارک میں آپؓ بیمار ہوئیں، چند روز علالت کا سلسلہ جاری رہا، زمانۂ علالت میں جب کوئی مزاج پرسی کرتا تو فرماتیں’’ اچھی ہوں‘‘ (ابن سعد) 17 رمضان المبارک 58؁ ہجری کی رات آپ ؓ اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور وصیت کے مطابق آپؓ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔