ہمارے معاشرے میں رمضان المبارک کا ایک خاص کلچر پیدا ہوچکاہے۔ مگر جب ہم سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ہمارا مذہبی کلچر اِ س سے بہت مختلف ہے۔ نبوت سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں غارِ حرا میں خلوت میں عبادت اور غوروفکر میں وقت گزارتے تھے۔ نبوت کے بعد آپ رمضان کی آمد سے قبل یعنی شعبان ہی میں لوگوں کو رمضان کے حوالے سے وعظ و نصیحت کیا کرتے تھے مگر رمضان میں دنیا سے ذرا کٹ جاتے اور اللہ کی یاد میں گوشہ گیر ہو جاتے تھے۔ آخری عشرے میں تو اعتکاف میں بیٹھ کر آپ خلوت کی کیفیت کو عروج تک پہنچا دیتے تھے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں خصوصی خطبات کا کوئی سلسلہ شروع نہیں کیا کرتے تھے۔ ان دنوں آپ کی بیرونی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہوتی تھیں۔ اسی طرح آپ قسم قسم کے کھانوں سے سجے دستر خوانوں کے گرد کسی افطار کا انتظام نہیں کیا کرتے تھے۔

ماہِ صیام دراصل خاموشی کا مہینا ہے۔اعلیٰ حقائق کو گہرائی کے ساتھ سمجھنے کا مہینا ہے۔ خدائی سے کٹ کر خدا کے ساتھ معمول سے کچھ بڑھ کرمتعلق ہونے کا مہینا ہے۔ تنہائی میں بیٹھ کر حیات وکائنات اور قرآن مجید پر عام دنوں سے کچھ زیادہ غور و فکر کرنے کا مہینا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ماہِ صیام جلوت کی سرگرمیوں اور سپیکروں پر گونجتی ہوئی طویل تقریروں کا مہینا ہے۔

روشنیوں سے جگ مگ کرتی ہوئی مساجد میں بڑی عجلت میں قرآن ”سننے“ اور ”سنانے“ کی رسم ادا کرنے کا مہینا ہے۔ رنگا رنگ کھانوں، پھلوں اور مشروبات سے بھرے ہوئے دستر خوانوں کے گرد افطار پارٹیوں کا مہینا ہے۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ رحمت، مغفرت اور ایک انتہائی بابرکت رات اپنے دامن میں لیے ہوئے ایک اور مہینا ہماری زندگی میں آیا ہے۔ خدا نے ہمیں تہذیب نفس کرنے کا ایک اور موقع عنایت فرمایا ہے۔ ہمارے سامنے ایک مرتبہ پھر جنت کی راہ شاہراہ بن کرکھلی ہے۔ اگر رمضان سے بھرپور فیض حاصل کرنا ہے تو آئیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی پیروی اختیار کرلیں