اعتکاف کے مسائل

’’معتکف گناہوں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے‘‘(ابن ماجہ: 2178)

’’اور ہم نے ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کیلئے پاک کر دو‘‘ (البقرہ: 125)

سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے’’نبی کریمﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ آپﷺ کا وصال ہو گیا(صحیح مسلم:1172)

مرد مسجد میں اور خواتین اپنے گھر میں اعتکاف کریں

مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان


اسلام نے رہبانیت اختیارکرنے یا تارک الدنیا ہونے کو پسند نہیں کیا بلکہ دنیاوی امورکے ساتھ ساتھ دینی امورکو سرانجام دینے کاحکم دیا ہے۔ البتہ اس کا نعم البدل اعتکاف کی صورت میں عطا فرمایا ہے جوکہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں کیا جاتا ہے۔ اعتکاف مسنون و افضل عبادت ہے، اسی لیے حضور نبی کریمﷺ ہر سال اعتکاف کرتے تھے۔ ایک سال نہ کر سکے تو اگلے سال بیس دن کا اعتکاف کیا۔ اعتکاف کے بہت سارے دینی و روحانی فوائد و ثمرات ہیں، جو معتکف کو پورا سال نصیب ہوتے ہیں۔ اعتکاف کی لغوی و شرعی تعریف، شرائط، فوائد، اقسام اور مقصد اعتکاف کی وضاحت حسب ذیل ہے۔

اعتکاف کالغوی معنیٰ:

اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے جس کا لغوی معنی ’’خود کو روک لینا، بند کر لینا، کسی کی طرف اس قدر توجہ کرنا کہ چہرہ بھی اْس سے نہ ہٹے‘‘ وغیرہ کے ہیں (ابن منظور، لسان العرب، 9 : 255)۔ اعتکاف کاشرعی معنی یہ ہے کہ (رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں عبادت کی غرض سے) مسجد میں اعتکاف کی نیت سے رکنا اور ٹھہرنا۔ اس بات پرتمام امت متفق ہے کہ اعتکاف افضل عبادات میں سے ہے۔

اعتکاف قرآن مجید کی روشنی میں:

اعتکاف کا ذکر قرآن مجید میں ان الفاظ سے ملتا ہے ’’اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیھما السلام) کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک (صاف) کر دو‘‘(البقرہ: 125)۔ اعتکاف والوں کو قرآن مجید میں ان الفاظ سے ارشاد فرمایا: ’’عورتوں سے مباشرت نہ کرو، جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف کیے ہوئے ہو‘‘ (البقرہ:187)۔

اعتکاف احادیث مبارکہ کی روشنی میں:

اعتکاف کا ذکر احادیث مبارکہ میں بھی ملتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اعتکاف نبی کریمﷺ کی سنت ہے اور اعتکاف بیٹھنے کی فضیلت پر کئی احادیث مبارکہ وارد ہوئی ہیں۔ اِن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے، ’’نبی کریمﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ آپﷺ کا وصال ہو گیا۔ پھر آپﷺ کے بعد آپﷺ کی ازواج مطہرات (بیویاں) بھی اعتکاف کرتی رہیں۔ (صحیح مسلم، کتاب الاعتکاف، حدیث 1172)

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے معتکف کے بارے میں ارشاد فرمایا : ’’وہ (یعنی معتکف) گناہوں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور اْسے عملاً نیک اعمال کرنیوالے کی مثل پوری پوری نیکیاں عطا کی جاتی ہیں‘‘(سنن ابن ماجہ، کتاب الصیام،حدیث : 2178)

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے ہی ایک اور حدیث مروی ہے کہ حضورنبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا :جو شخص اللہ کی رضا کیلئے ایک دن اعتکاف کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کر دیتا ہے۔ ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ لمبی ہے۔ (طبرانی، حدیث : 7326، بیہقی، شعب الایمان، حدیث : 3965)

حضرت علی (زین العابدین) بن حسینؓ اپنے والد امام حسینؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کیا، اس کا ثواب دو حج اور دو عمرہ کے برابر ہے۔ (بیہقی، شعب الایمان، باب الاعتکاف، حدیث نمبر : 3966)

اعتکاف کی شرائط:

اعتکاف کیلئے درج ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے جن کے بغیر اعتکاف صحیح نہیں ہو گا۔ علامہ علاؤالدین کاسانیؒ لکھتے ہیں کہ: (1)مسلمان ہونا، (2)عقلمند ہونا(دیوانہ شخص احکامِ اسلام کامکلف نہیں ہوتا)، (3)جنابت، حیض و نفاس سے پاک ہونا، (4) اعتکاف کی نیت کرے اس کیلئے کہ بغیر نیت کے عبادت صحیح نہیں ہوتی، (5)سنت اعتکاف کیلئے معتکف کا روزہ دار ہونا شرط ہے، (6)مرد معتکف کیلئے اعتکاف کیلئے مسجد ہونا شرط ہے اور خواتین اپنے گھر میں اعتکاف کریں گی، مسجد میں اعتکاف نہیں کریں گی۔ اپنے گھرکی مسجدمیں عورت کااعتکاف محلہ کی مسجدمیں اعتکاف کرنے سے افضل ہے۔ اور اپنے محلہ کی مسجد میں اعتکاف بڑی مسجد میں اعتکاف کرنے سے افضل ہے۔ (بدائع الصنائع،کتاب الاعتکاف،ج2، ص108۔103)

اعتکاف کیلئے دوسری شرط یہ ہے کہ معتکف 20 رمضان کی شام غروب آفتاب سے پہلے پہلے مسجد کے اندر پہنچ جائے۔ علامہ ابو الحسن سندھی لکھتے ہیں: ’’نبی کریمﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے‘‘ سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اوّل وقت جس میں معتکف اعتکاف گاہ میں داخل ہوتا ہے وہ سورج غروب ہونے سے تھوڑی دیر قبل ہے اور اسی بات پر آئمہ اربعہ اور اہل علم کے ایک طبقہ کا اتفاق ہے، کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کی ترغیب دیا کرتے تھے اور دس کا شمار راتوں کی گنتی کے اعتبار سے کیا ہے۔ پس اس میں (عشرہ اخیرہ کی) پہلی رات بھی شامل ہے ورنہ یہ عدد بالکل پورا ہی نہیں ہوتا۔ (حاشیہ علی السنن النسائی، ج2، ص44)

اعتکاف کے فوائد:

اعتکاف کے بہت سے فائدے ہیں مثلاً (1) اعتکاف کرنے والا گویا اپنے تمام بدن اور تمام وقت کو خدا کی عبادت کیلئے وقف کردیتا ہے، (2) دنیا کے جھگڑوں سے محفوظ رہتا ہے، (3) اعتکاف کی حالت میں اسے ہر وقت نماز کا ثواب ملتا ہے کیونکہ اعتکاف معتکف ہر وقت نماز اور جماعت کے انتظار اور اشتیاق میں بیٹھا رہتا ہے، (4) اعتکاف کی حالت میں معتکف فرشتوں کی مشابہت پیدا کرتا ہے کہ ان کی طرح ہر وقت عبادت اور تسبیح و تقدیس میں رہتا ہے، (5) مسجد چونکہ خدا تعالیٰ کا گھر ہے اس لئے حالت اعتکاف میں معتکف خدا تعالیٰ کا پڑوسی بلکہ اس کے گھرکا مہمان ہوتا ہے۔

اعتکاف کی اقسام:

فقہی اعتبار سے اعتکاف کی تین اقسام کی جاتی ہیں۔

واجب ’’منت کااعتکاف‘‘:

اعتکاف کی نذر مانی یعنی زبان سے کہا میرا فلاں کام ہو گا تو میں اللہ کیلئے فلاں دن یا اتنے دنوں کا اعتکاف کروں گا، تو ایسی صورت میں کام ہو جانے پر مقررہ دنوں کا اعتکاف واجب ہو گا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اپنی نذروں کو پورا کیا کرو (الحج:29)۔ حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں عرض کیاکہ میں نے نذر مانی تھی کہ ایک رات میں مسجد حرام میں اعتکاف کروں گا تو آپﷺ نے فرمایا:’’اپنی نذرپوری کرو‘‘(بخاری،کتاب الاعتکاف)۔

منت کے اعتکاف میں روزہ شرط ہے، یہاں تک کہ اگر ایک مہینے کے اعتکاف کی منت مانی اور یہ کہا کہ روزہ نہ رکھے گا جب بھی روزہ رکھنا واجب ہے۔ اور اگر رات کے اعتکاف کی منت مانی تویہ منت صحیح نہیں کہ رات میں روزہ نہیں ہوسکتا اوراگریوں کہاکہ ایک دن رات کامجھ پراعتکاف ہے تومنت صحیح ہے۔(الدرالمختار،کتاب الصوم،ج3،ص496)

سنت اعتکاف:

رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف سنت ہے۔ حضورﷺ ہمیشہ مدینہ منورہ میں ہر سال رمضان المبارک میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ اسے فقہی اعتبار سے سنت مؤکدہ علی الکفایہ کہا جاتا ہے۔ یعنی پورے شہر میں کسی ایک نے کر لیا تو سب کی طرف سے ادا ہو جائے گا اور اگر کسی ایک نے بھی نہ کیا تو سبھی گناہ گار ہوں گے۔ ان دنوں کا روزہ رکھنا بھی معتکف کیلئے شرط ہے۔ اگر کسی وجہ سے روزہ ٹوٹ گیا تو روزے کے علاوہ اعتکاف کی بھی قضاء لازم ہوگی۔(الدرالمختار،کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج3، ص494)

مستحب/نفلی اعتکاف:

نذر واجب اور سنت مؤکدہ کی شرائط سے ہٹ کر جو اعتکاف کیا جائے وہ نفلی اعتکاف کہلاتا ہے۔ اس کیلئے روزہ کی شرط اور وقت کی کوئی قید نہیں ہے۔ جب بھی مسجد میں داخل ہوں اعتکاف کی نیت کر لیجئے، اعتکاف کا ثواب ملتا رہے گا۔ جب مسجد سے باہر نکلیں گے تو اعتکاف ختم ہو جائے گا۔(فتاوی ہندیہ،کتاب الصوم، ج1، ص211)

اعتکاف کوتوڑنے والے امور:

اعتکاف کو توڑنے والے امور درج ذیل ہیں:(1) معتکف کا شرعی و طبعی عذر کے بغیر مسجد سے باہر نکلنا (شرعی عذر سے مراد غسلِ واجب یا وضو کیلئے مسجد سے نکلنا اور طبعی عذر سے مراد قضائے حاجت کیلئے مسجد سے نکلنا)۔(2) حالتِ اعتکاف میں مباشرت کرنا۔ (3) عورت اعتکاف میں ہو تو حیض و نفاس کا جاری ہو جانا۔ (4) اگر مسجد میں جمعہ نہیں ہوتا تو جمعہ پڑھنے کیلئے دوسری مسجد میں جانا عذرِ شرعی ہے، اس کیلئے اذان جمعہ کے بعد نکلے۔ (5) کسی وقت کوئی حادثہ ہو جائے تو جان و مال بچانے کیلئے مسجد سے نکلنا جائز ہے۔ (6) مریض کی عیادت اور نمازِ جنازہ میں شرکت کیلئے اگر مسجد سے باہر گیا تو اعتکاف فاسد ہو جائے گا۔ (7) معتکف کوبے ہوشی یا جنون طاری ہوا اور اتنا طول پکڑ گیا کہ روزہ نہ ہو سکے تو اعتکاف فاسد ہو جاتا ہے اور قضا واجب ہے۔ (8) مرض کے علاج کیلئے مسجد سے نکلے تو اعتکاف فاسد ہو گیا۔ (9) اعتکاف کیلئے روزہ شرط ہے، اس لئے روزہ توڑنے سے اعتکاف بھی ٹوٹ جاتا ہے خواہ یہ روزہ کسی عذر سے توڑا ہو یا بلا عُذر، جان بوجھ کر توڑا ہو یا غلطی سے ٹوٹا ہو، ہر صورت میں اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ (10)اعتکاف واجب میں معتکف کو مسجد سے بغیر عذر کے نکلنا حرام ہے اگر نکلا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ اگرچہ بھول کرہی نکلاہو۔ (فتاوی ہندیہ، کتاب الصوم، ج1، ص211)، (11)معتکف نے حرام مال یا نشہ کی چیز رات میں کھائی تو اعتکاف فاسد نہیں ہو گا۔ (فتاوی ہندیہ، کتاب الصوم، ج1، ص213) مگر اس حرام کام کاگناہ ہوا توبہ کرے۔ (12) معتکف نے دن میں بھول کر کھا لیا تو اعتکاف فاسد نہ ہوا، گالی گلوچ یا جھگڑا کرنے سے اعتکاف فاسد نہیں ہوتا مگر بے نور و بے برکت ہوتا ہے۔ (فتاوی ہندیہ، کتاب الصوم، ج1، ص213)،(13)معتکف کے سوا کسی اور کو مسجد میں کھانے، پینے اور سونے کی اجازت نہیں اگریہ کام کرنا چاہے تو اعتکاف کی نیت کر کے مسجد میں جائے اور نماز پڑھے یا ذکر الٰہی کرے پھر یہ کام کر سکتا ہے۔ (ردالمحتار، کتاب الصوم، ج3، ص506)،(14) اعتکاف بیٹھنے کیلئے خواتین شرعی عذر (حیض) روکنے کیلئے ٹیبلٹ یا انجکشن استعمال کرنا چاہیں تو غروبِ آفتاب سے لے کر اذانِ فجر سے قبل تک ٹیبلٹ لے سکتی یا انجکشن لگوا سکتی ہیں۔ لیکن اگر انجکشن لگوانے یا گولیاں کھانے کے باوجود کسی وقت عذرِ شرعی لاحق ہوجائے ، چاہے وہ تھوڑی دیر کے لیے ہی ہو، تو مسنون اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔(15) رمضان المبارک میں معتکف یا معتکفہ (مرد یا عورت) کا کسی عذر کی وجہ سے مسنون اعتکاف ٹوٹ جائے، مثلًا ضرورت سے زائد اعتکاف گاہ سے باہر رہے یا معتکفہ (عورت) کو حیض آجائے یا نفاس (بچے کی پیدائش) ہو جائے یا کوئی اور بیماری یا تکلیف لاحق ہو جائے تو جتنے دن کا اعتکاف رہ جائے، اور رمضان المبارک کے روزے بھی اتنے ہی ہوں تو عید کے بعد جب رمضان کے روزوں کی قضا کرے تو اعتکاف کی بھی قضا کر لے۔

ضروری وضاحت:

: مسنون اعتکاف کہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کیلئے بیٹھا تھا اسے توڑا تو جس دن توڑا صرف اس ایک دن کی قضاکرے، پورے دس دنوں کی قضا واجب نہیں۔ نفل اعتکاف اگر توڑ دے تو اس کی قضا نہیں۔ (ردالمحتار، کتاب الصوم، ج3، ص399-503)

اعتکاف کے مکروہات:

(1) بالکل خاموشی اختیار کرنا کہ ذکر و نعت اور دعوت و تبلیغ کی بجائے خاموش رہنے کو عبادت سمجھا تو یہ مکروہ تحریمی ہے۔ اگر بری باتوں سے خاموش رہا تو وہ اعلیٰ درجے کی چیز ہے۔ (2) مال و اسباب مسجد میں لا کر بغرضِ تجارت بیچنا یا خریدنا۔ (3) لڑائی جھگڑا یا بیہودہ باتیں کرنا۔

اعتکاف کامقصد:

اعتکاف کرنے والے کواس بات سے آگاہ رہناضروری ہے کہ اعتکاف کا مقصد اور اس کی روح کیا ہے تاکہ وہ ہر لمحہ اسے پیش نظر رکھے۔شیخ ابن رجب لکھتے ہیں: ’’معتکف اپنے آپ کواللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے ذکر و یاد کیلئے پابند کر لیتا ہے اپنی ذات کو ہر اس عمل سے الگ کر لیتا ہے جو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کرنے سے مشغول کر دے، وہ دل اور جسم دونوں کواپنے رب تعالیٰ کے قرب کے ذرائع کے لیے اس طرح پابندکرلیتاہے کہ اب اس کا مقصود و منزل اللہ اور اس کی رضا کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہتا‘‘۔

الغرض اعتکاف کا مقصد یہ ٹھہرا کہ معتکف ہر وقت اپنے آپ کو بارگاہ الٰہی میں حاضرسمجھے، مخلوق سے ہر رشتہ منقطع کر کے اپنے رب کریم سے تعلق و رشتہ قائم کرنے کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ نبی کریمﷺ کی رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی عبادت میں محنت اور جدوجہد کے متعلق امام بخاری لکھتے ہیں: ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ جب رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو آپﷺ اپنی کمرکس کر باندھ لیتے، تمام رات خود بھی بیدار رہ کر عبادت الٰہی میں مشغول رہتے اور اپنے گھر والوں کو بھی بیدار رکھتے۔(صحیح بخاری)

امام مسلم ؒروایت کرتے ہیں: رسول اللہﷺرمضان کے آخری دنوں میں عبادت الٰہی میں جو محنت فرماتے اس کے علاوہ باقی دنوں میں اتنی محنت نہیں فرماتے تھے۔ (صحیح مسلم)

امام احمد بن حنبل روایت نقل کرتے ہیں: رسول اللہﷺ رمضان المبارک کے پہلے بیس دنوں میں عبادت بھی کرتے مگر کچھ آرام بھی لیکن جب آخری عشرہ شروع ہو جاتا تو پہلے سے بھی بڑھ کر عبادت کرتے اور کمر باندھ لیتے۔ (مسند احمد)، یعنی ان دس دنوں میں اللہ تعالیٰ کے حبیب مکرمﷺ عبادت الٰہی میں خوب محنت فرماتے اور یہ وہ ہستی ہے جس کا دل ہر حال میں اپنے رب تعالیٰ سے جڑا رہتا ہے۔ جب ہمارے پیارے نبی مکرمﷺ کی محنت اورجدوجہدکا یہ عالم ہے تو پھر ہمیں کتنی محنت کی ضرورت ہے۔ اگرہم نے یہ دس دن بھی خوش گپیوں، میل ملاقاتوں، دعوتوں، موبئل فون، سوشل میڈیا اور سیاسی بکھیڑوں میں گزار دیئے تو پھر ایسا وقت ہمیں کب میسر آ سکتا ہے۔ بزرگان دین تواپنی تمام ترنیک مصروفیات کوبھی محض اس وجہ سے ترک کردیتے تھے تاکہ توجہ خالق سے ہٹ کر مخلوق کی طرف نہ چلی جائے۔ دل و دماغ صرف اورصرف اپنے خالق و مالک کی طرف لگا رہے۔

حضرت ذوالنون مصریؒ فرماتے ہیں:’’مومن کی خوشی اورلذت تنہائی میں اپنے مولی کی بارگاہ میں عرض ونیازکرنے میں ہے‘‘۔(احیاء علوم الدین،ج2،ص249)

آپ لوگوں کوبھی ساراسال اپنے رب کریم سے عرض ونیازکے لیے ایسی تنہائی نہیں ملے گی جو بصورت اعتکاف میسر ہے۔ اپنے لمحات کو قیمتی سمجھ کر ان میں ان میں اپنے خالق ومالک سے تعلق جوڑنے اوراسے منانے کی کوشش کریں۔