آمد رمضان

’’اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا۔ (البقرہ: 183)

رمضان المبارک تمام مہینوں کا سردار اور اہل ایمان کیلئے بخشش، رحمت اور جہنم سے آزادی کا مہینہ ہے

آمد رمضان سے قبل سابقہ لغزشوں پر سچی توبہ کریں ، گناہوں سے پاک ہو کر رمضان المبارک کا استقبال کریں

مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان


رمضان المبارک تمام مہینوں کا سردار اور اہل ایمان کیلئے بخشش، رحمت اور جہنم سے آزادی کا مہینہ ہے۔ نبی کریمﷺ رمضان المبارک کی تیاری شعبان المعظم میں ہی شروع فرما دیتے، اسی لیے امت محمدیہؐ کے اکابرین کا بھی یہی معمول رہا کہ رمضان المبارک کیلئے خصوصی تیاری و اہتمام کرتے۔ اس مضمون میں انہیں احوال کو اختصارکے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! تم پر روزہ رکھنا فرض کیا گیا ہے، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر روزہ رکھنا فرض کیا گیا تھا۔ (البقرہ: 183)

روزہ کا لغوی معنی ہے کسی چیز سے رکنا اور اس کو ترک کرنا۔ روزہ کا شرعی معنی ہے مکلف اور بالغ شخص کا ثواب کی نیت سے طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور جماع کو ترک کرنا اور اپنے نفس کو تقویٰ کے حصول کیلئے تیار کرنا۔

مشروعیت کی حکمت:

سب سے پہلے نماز فرض کی گئی، پھر زکوٰۃ فرض کی گئی، اس کے بعد روزہ فرض کیا گیا، کیونکہ ان احکام میں سب سے سہل اور آسان نماز ہے اس لیے اس کو پہلے فرض کیا گیا،پھر اس سے زیادہ مشکل اور دشوار زکوٰۃ ہے کیونکہ مال کو اپنی ملکیت سے نکالنا انسان پر بہت شاق ہوتا ہے، پھر اس کے بعد اس سے زیادہ مشکل عبادت روزہ کو فرض کیا گیا، کیونکہ روزہ میں نفس کو کھانے پینے اور عمل تزویج سے روکا جاتا ہے اور یہ انسان کے نفس پر بہت شاق اور دشوار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے بہ تدریج احکام شرعیہ نازل فرمائے اور اسی حکمت سے رسول اللہ ﷺ نے ارکان اسلام میں نماز اور زکوٰۃ کے بعد روزہ کا ذکر فرمایا، قرآن مجید میں بھی اس ترتیب کی طرف اشارہ ہے: اور نماز میں خشوع کرنے والے مرد اور نماز میں خشوع کرنے والی عورتیں اور صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں۔ (الاحزاب : 35)

حضور نبی اکرمﷺ رمضان المبارک سے اتنی زیادہ محبت فرماتے کہ اکثر اس کے پانے کی دُعا فرماتے تھے اور رمضان المبارک کا اہتمام ماہ شعبان میں ہی روزوں کی کثرت کے ساتھ ہو جاتا تھا۔ آپ ﷺ بڑے شوق و محبت سے ماہ رمضان کا استقبال فرماتے۔ اور صحابہ کرام سے سوالیہ انداز میں تین بار دریافت کرتے ’’کون تمہارا استقبال کر رہا ہے اور تم کس کا استقبال کر رہے ہو؟‘‘،حضرت عمر بن خطاب ؓنے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! کیا کوئی وحی اترنے والی ہے؟ فرمایا: نہیں، عرض کیا: کسی دشمن سے جنگ ہونے والی ہے؟، فرمایا : نہیں۔ عرض کیا : پھر کیا بات ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ’’بے شک اللہ تعالیٰ ماہ رمضان کی پہلی رات ہی تمام اہلِ قبلہ کو بخش دیتا ہے۔ (الترغیب والترھیب، 2 : 64، حدیث نمبر: 1502)

استقبالِ رمضان کیلئے ہدایات و تجاویز:

علماء کرام نے رمضان المبارک کے استقبال اور تیاری کیلئے بہت سی اہم ہدایات اور تجاویز بیان فرمائی ہیں جن کا خلاصہ درج ذیل نکات کی صورت میں دیا جا رہا ہے۔

فراض و واجبات کی ادائیگی اور توبہ و استغفار:

آمد رمضان سے قبل فرائض و واجبات کی ادائیگی کا اہتمام کریں، اگر ذمے میں قضا نمازیں یا روزے ہوں تو ادائیگی کی ترتیب بنائیں، سابقہ زندگی کی تمام لغزشوں پر سچی توبہ کریں دل کو گناہوں اور برے خیالات سے پاک کریں تاکہ آپ گناہوں سے پاک ہو کر رمضان المبارک کا استقبال کریں۔

رمضان المبارک کے مسائل سیکھیں اور سکھائیں:

روزہ، تراویح، صدقہ فطر، زکوٰۃ، اعتکاف اور دیگر احکامات ابھی سے سیکھیں اور سکھائیں۔

اپنے نفس کو تقویٰ کا پابند بنائیں:

اپنے نفس کو ابھی سے تقویٰ کا پابند بنائیں، کیونکہ رمضان المبارک تقویٰ کی عملی تربیت گاہ اور اللہ رب العزت نے رمضان المبارک میں روزوں کی فرضیت کا اہم مقصد تقویٰ و پرہیز گاری کا حصول بتایا ہے۔

صلہ رحمی میں جلدی کریں:

قطع رحمی یعنی رشتے ناطے توڑنا بہت بڑا گناہ ہے، قطع رحمی کی وجہ سے دعائیں قبول نہیں ہوتیں، لہٰذا رمضان آنے سے قبل اس سنگین گناہ سے توبہ اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی کریں، رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے: اصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کے ساتھ قطع رحمی یعنی رشتے ناطے توڑنے کا معاملہ کیا جائے تب بھی وہ صلہ رحمی کرے۔

دل صاف کریں:

ہمارادل نفرت، جذبہ، انتقام اور حسد کی آگ میں جلتا رہتا ہے۔ دل میں نفرت اور کینہ رکھنے والے کی اللہ تعالیٰ مغفرت نہیں فرماتے، لہٰذا رمضان آنے سے قبل اپنے دل کو ان فضول مصروفیات سے فارغ کر کے خالص عبادات کی طرف اسے متوجہ کریں، سب کو دل سے معاف کردیں کسی کا کینہ اپنے دل میں نہ رکھیں۔ (سنن ابن ماجہ)

گزشتہ روزوں کی قضائ:

گزشتہ سالوں کے روزے اگر کسی شرعی عذر سے رہ گئے ہوں تو رمضان آنے سے پہلے پہلے ان کی قضا کر لیں تاکہ رمضان شروع ہونے سے قبل گزشتہ رمضان کے روزوں کا حساب بے باق ہوجائے۔

دُعاؤں کا معمول:

رمضان المبارک دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے، لہٰذا ابھی سے اپنے آپ کو لمبی دعاؤں کا عادی بنائیں، نیز یہ بھی ضروری ہے کہ رمضان سے قبل نبی اکرمﷺ سے منقول دعاؤں کے الفاظ زبانی یاد کیے جائیں، مسنون الفاظ پر مشتمل دعاؤں میں تاثیر بھی زیادہ ہوتی اور قبولیت کا امکان بھی۔

صدقہ کرنے کی عادت:

شعبان کے مہینے میں روزانہ کچھ نہ کچھ صدقہ کرنے کی عادت ڈالیں تاکہ رمضان المبارک میں سخاوت کرنا آسان ہوجائے، حضرت ابن عباس ؓکے ارشاد کا مفہوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ سب لوگوں میں زیادہ سخی تھے اور رمضان المبارک میں تو آپ ﷺ کی جودوسخا تیز چلتی خوشگوار ہوا سے بھی زیادہ ہوجاتی۔( صحیح بخاری)

کثرت تلاوت کا معمول:

رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ قرآن حکیم وہ واحد کتاب ہے جس کے ایک حرف کی تلاوت پر دس نیکیاں ملتی ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓروایت کرتے ہیں: جس نے کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھا اس کیلئے اس کے عوض ایک نیکی ہے اور ایک نیکی کا ثواب دس گنا ہوتا ہے۔ میں نہیں کہتا الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف، لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے۔ (جامع ترمذی: 2910)، تلاوتِ قرآن افضل ترین عبادات میں سے ہے۔ حضرت نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’میری امت کی سب سے افضل عبادت تلاوتِ قرآن ہے‘‘ (بیہقی، شعب الایمان، حدیث نمبر: 2022) اور یہ عظیم کتاب جس کی تلاوت کی بے پناہ فضیلت ہے رمضان المبارک کے با برکت مہینہ میں نازل ہوئی۔ اس لحاظ سے قرآن حکیم اور رمضان المبارک کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ رمضان المبارک میں قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا گویا اس تعلق کو مضبوط و مستحکم کرتا ہے۔

نبی کریم ﷺ کی متعدد احادیث مبارکہ اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ ﷺ رمضان المبارک میں قرآن حکیم کی تلاوت فرماتے اور جبرئیل امین علیہ السلام کو سناتے۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے: ’’حضرت جبرائیل امین رمضان کی ہر رات میں آپ ﷺ سے ملاقات کرتے اور آپ ﷺ کے ساتھ قرآن کا دور کرتے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 6) مزید برآں روزِ قیامت تلاوتِ قرآن کا اہتمام کرنے والوں اور اس کے معانی سمجھنے والوں کی شفاعت خود قرآن حکیم فرمائے گا۔ حضرت عبد اللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن روزہ اور قرآن دونوں بندے کیلئے شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس شخص کو دن کے وقت کھانے (پینے) اور (دوسری) نفسانی خواہشات سے روکے رکھا پس تو اس شخص کے متعلق میری شفاعت قبول فرما۔ قرآن کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس شخص کو رات کے وقت جگائے رکھا پس اس کے متعلق میری شفاعت قبول فرما۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ان دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔‘‘ خوش قسمت لوگ اس ماہ میں تلاوت کی کثرت کا معمول بناتے ہیں۔

شب بیداری کی عادت:

رمضان میں راتوں کی عبادات (تراویح، تہجدوغیرہ) کا دورانیہ بڑھ جاتا، ان عبادات کو احسن انداز میں اور بلا تھکاوٹ سر انجام دینے کیلئے ضروری ہے کہ ابھی سے شب بیداری اور نفلی عبادات کا اہتمام کریں اور اپنے بدن کو عبادات کی کثرت کا عادی بنائیں تاکہ رمضان کی راتوں میں دقت پیش نہ آئے۔

انٹرنیٹ وسوشل میڈیا سے احتراز:

رمضان میں اوقات کی قدردانی بڑی اہم ہے، آج کل انٹرنیٹ وسوشل میڈیا وقت کے ضیاع کا بڑا سبب بن رہے ہیں، لہٰذا رمضان سے قبل ان کے استعمال کو ختم یا محدود کرنے کی کوشش کریں، امام مالکؒ و دیگر اسلاف کا تو یہ معمول تھا کہ رمضان آتے ہی علمی مجالس بھی موقوف فرما دیتے اور تلاوت قرآن میں مشغول ہو جاتے۔

ٹی وی سے احتراز:

ٹی وی خرافات کا مجموعہ ہے لہٰذا رمضان کی آمد سے قبل اس سے جان چھڑانے کی کوشش کریں۔ ٹی وی پر رمضان نشریات کے نام پر اکثر پروگرام غیر شرعی اور مخلوط ہیں۔ اگر کوئی دینی پروگرام درست بھی ہو تو اسے بنیاد بناکر ٹی وی کے سامنے وقت ضائع کرنا عقلمندی نہیں کیونکہ دینی پروگرامز کے دوران اشتہارات میں موسیقی اور نامحرم عورتیں رمضان کی روحانیت ختم کرنے کیلئے کافی ہیں۔

رمضان سے پہلے پہلے خریداری کر لیں:

رمضان عبادت کا مہینہ ہے شاپنگ وخریداری کا نہیں، نیز رمضان میں رش اور مہنگائی کی وجہ سے وقت اور پیسے کا ضیاع ہوتا ہے لہٰذا رمضان کی آمد سے قبل شعبان میں ہی عید کی شاپنگ مکمل کر لیں اور اہل خانہ کو بھی یہ بات سمجھائیں۔

نظام الاوقات ترتیب دیں:

رمضان المبارک سے قبل اپنا نظام الاوقات مرتب کریں، جس میں صبح اٹھ کر تہجد، ذکر، دعائیں، سحری، نماز فجر اور تلاوت سے لے کر افطاری، تراویح ودیگر معمولات تک کیلئے مناسب وقت متعین ہو اور نیند و آرام کی بھی بھر پور رعایت رکھی جائے۔

چالیس دن تک تکبیر اولیٰ کے ساتھ نمازیں پڑھیں:

اس کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے، نیز ماہ شعبان کے آخری عشرے اور رمضان المبارک کے تیس دنوں میں اس کا اہتمام نسبتا زیادہ آسان ہے، لہٰذا تکبیر اولیٰ کے ساتھ پنج وقتی نمازیں باجماعت پڑھنے کی ابھی سے ترتیب بنائیں

ملاقاتوں کا سلسلہ محدود کریں:

رمضان میں تقاریب، ملاقاتوں اور دعوتوں کا سلسلہ محدود کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت عبادت میں صرف ہو سکے، البتہ بیمار کی عیادت اور تیمارداری اسی طرح میت کی تجہیز و تکفین اور نماز جنازہ میں شرکت کے مواقع جتنے مل سکیں، غنیمت سمجھیں۔

چھوٹی چھوٹی سورتیں زبانی یاد کریں:

قرآن کریم کی چھوٹی چھوٹی سورتیں ابھی سے یاد کرنا شروع کریں تاکہ نوافل اور تہجد میں انہیں پڑھا جا سکے۔ عام طور پر صرف ایک یا دوسورتیں یاد ہوتی ہیں۔ ان ہی کو بار بار دہرایا جاتا ہے، جو مثالی طرز عمل نہیں۔

بچوں کو روزے کی عادت ڈالیں:

سات سال یا اس سے بڑے بچوں کو روزے کے حوالے سے خصوصی ترغیب دیں اور ان کی ذہن سازی کریں تاکہ رمضان میں انہیں روزے رکھنے کی عادت پڑجائے اور بچوں کے زندگی بھر کے روزے آپ کےلئے صدقہ جاریہ ہوں

کم کھانے کی عادت ڈالیں:

شعبان میں کھانے کی مقدار خاص تناسب سے کم کریں۔ غذا میں سبزی، پھل اور کھجور کا استعمال زیادہ رکھیں تاکہ صحت و توانائی برقرار رہے۔ زیادہ کھانے کا بوجھ، بد ہضمی اور سستی عبادات میں رکاوٹ نہ بنے۔ اس رمضان کو ممتاز کریں: کسی ایسی عبادت کی ترتیب بنائیں جو آپ کے نامہ اعمال میں اس رمضان کو گزشتہ رمضانوں سے ممتاز کر دے مثلا: تیسواں پارہ زبانی یاد کرلیں، یا سورة رحمٰن، سورة یسین، سورة الملک، سورة الم سجدہ زبانی یاد کر لیں۔ کسی یتیم کو ڈھونڈ کر اس کی کفالت کا بندوبست کرلیں۔ مستحق طلبہ کے لیے فیسوں اور یونیفارم وغیرہ کا بندوبست کرلیں، یا کسی غریب لڑکی کی رخصتی کے اخراجات کا بندوبست کردیں وغیرہ وغیرہ۔

رات جلدی سونے کی عادت ڈالیں:

دوستوں کی فضول مجالس، گپ شپ کی محافل اور رات گئے تک سر انجام دی جانے والی سرگرمیوں سے آہستہ آہستہ کنارہ کشی اختیار کریں تاکہ آپ رمضان میں تراویح کے فوراً بعد بلا تاخیر سو سکیں، یاد رکھیں تہجد اور سحری میں ہشاش بشاش اٹھنے کا دارو مدار بروقت سونے پر ہے۔