ام المومنین حضرت خدیجہ الکبری ؓ

آغا سید حامد علی


قرآن کریم میں ارشاد رب العزت ہے ، ترجمہ ’’اے رسول ؐ ہم نے تمہیں مفلس پایا اور غنی کردیا۔‘‘(سورہ والضحٰی ۔آیت 8)امام فخر الدین رازیؒ تفسیر کبیر میں رقم طراز ہیں کہ ’’اللہ نے رسول خداؐ کو حضرت خدیجہ ؓکے مال کے ذریعے غنی کیا ۔ حضرت خدیجہؓ کے مال کو اللہ اپنا مال کہہ رہا ہے ۔ جن کا انتخاب اللہ نے اسلامی انقلاب کی مالی پشت پناہی کیلئے کیا۔عرب کی مالدار ترین ہستی حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ نے اپنی دولت کائنات کی افضل ترین ہستی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں نچھاورکرکے ایثار و قربانی کی ایسی مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک بے مثل رہے گی۔کتنی عظیم تھیں حضرت خدیجہؓ جنہیں 25سال تنہا رسول ؐ کی رفاقت کا اعزاز حاصل ہوا اور رحلت کے بعد بھی رسول اکرمؐ کی یادوں اور زبان پر رہیں ۔ آنحضور ؐ نے اپنے عم بزرگوارحضرت ابو طالب ؓاور شریکۂ حیات حضرت خدیجہؓ کی وفات کے سال کو عام الحزن قراردیا۔جب تک حضرت خدیجہؓ زندہ رہیں رسول کریم ؐ نے دوسری شادی نہ کی۔ بقول ام المومنین حضرت عائشہ ؓ رسول خدا ؐحضرت خدیجہؓ کی تعریف اور احسانات کا ذکر کئے بغیرگھر سے نکلتے ہی نہ تھے ۔ (اصابہ ،استیعاب)۔اسی لئے تو شاعربے اختیار کہہ اٹھتا ہے لکھی گئی ایثار ومحبت کی کہانی تاریخ ِصداقت میں بعنوان خدیجہ ؓ حضرت خدیجہؓ مرسل اعظم ؐ کی شریکۂ حیات بننے سے پہلے دور جاہلیت میں بھی طاہرہ اور سیدہ قریش کے لقب سے جانی جاتی تھیں۔ اس پر مؤرخ انگشت بہ دنداں ہیںکہ وہ معاشرہ جو عورت کو ننگ و عار سمجھتا ہو اور اسے مہد سے لحد یعنی گود سے گور تک پہنچادیتا ہو وہی معاشرہ جس عورت کو’’طاہرہ‘‘ سمجھے وہ کس عروج اور کمال کی حامل ہونگی۔یہ 2 خطاب اس بات کی دلیل ہیںکہ حضرت خدیجہ ؓہر طرح سے پاک و پاکیزہ اور طاہرہ و مطہرہ تھیں۔یہی وجہ ہے کہ آپؓ نے تمام عرب کے امراء کے دعوت نامے ٹھکرا کر مکہ کی ایسی شخصیت سے نکاح کرنا پسند فرمایاجومادیت کے بجائے اخلاق وکردار میں عظیم درجے پر فائز تھے ۔ آپؓ کے اس تاریخی اقدام سے دنیائے قریش میں زلزلہ برپا ہوگیا۔ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ عرب کے عالی نسب اور دانشور خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ۔جس زمانے میں یمن کے بادشاہ ’’تبع‘ ‘نے حجر اسود کو اکھاڑ کر اپنے ساتھ یمن لے جانا چاہا توحضرت خدیجہؓ کے والد خویلد حجر اسود کے تحفظ کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے اور بادشاہ یمن اپنے ارادے پر عمل نہ کر سکا۔حضرت خدیجہ ؓکے جد اسد بن عبد العزی پیمان ’’حلف الفضول ‘‘ کے نمایاں اراکین میں سے تھے یہ پیمان عرب کی اعلیٰ کردار ہستیوں نے باندھا تھا کہ ہم مظلومین کی حمایت کریں گے اوربے آسرا لوگوں سے معاونت کریں گے ۔ آپؓ کا کاروبار ِتجارت شام مصر حبشہ تک پھیلا ہوا تھا ہزاروں اونٹ کارواں میں شامل تھے ۔تاریخ کی کتب میں مذکور ہے کہ شام جانے والے قافلۂ تجارت میں جتنا مال تجارت تمام رؤسائے عرب کا ہوتا تھا اتنا مال اکیلا حضرت خدیجہؓ کا ہوا کرتا تھا۔ (طبقات ابن سعد۔سیرت ابن ہشام )۔آنحضورﷺ اپنی عظمت کردار کی وجہ سے پورے عرب میں صادق و امین کے لقب سے جانے جاتے تھے جب حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ تک آنحضور ﷺکی صداقت و امانت اور اخلاق و کردار کی خبریں پہنچیں تو آپؓ نے یہ درخواست کی کہ میرا مال تجارت شام لے کر جائیے۔رسول خدا ﷺنے اس پیشکش کو قبول کیا اور انکے غلام میسرہ کیساتھ شام چلے گئے۔رسول اکرمﷺ کے اس اولین تجارتی سفر میں بے پناہ فائدہ ہوا،ازاں بعد مختلف سفر تجارت پیش آتے رہے۔جب بھی حضرت خدیجہؓ کا غلام میسرہ واپس آتا آپ ؐکی اخلاقیات اور فضائل و مناقب بیان کرتا۔وہ حضرت خدیجہ ؓجن سے شادی کیلئے عرب کے رؤسا و سردار متمنی تھے انہوں نے اپنی شادی کیلئے دنیاوی نمود و نمائش سے دور مگر خلق عظیم کے حامل محمد مصطفی ﷺ کا انتخاب کرلیا۔ جس دورمیں تو صاحبہ دولت و زرتھی تیرے زرو دینار پہ دنیا کی نظر تھی حیرت ہے کہ اس وقت بھی تو ابر گہر تھی تجھ کو کسی اجڑے ہوئے گھر کی بھی خبر تھی یہ کام تو مشکل تھا مگر کر کے دکھایا اِک در یتیمی کو سر تاج سجایا حضرت خدیجہ ؓنے حضورﷺ کو نکاح کاپیغام بھجوایا،آپ ؐنے یہ بات اپنے چچائوں سے نقل کی چنانچہ ایک وفد لے کر حضرت ابو طالب ؓکی سرکردگی میں حضرت خدیجہؓ کے چچا عمر ابن اسد اور بعض روایات میں آپ ؓکے والد خویلد کے گھر تشریف لے گئے ۔ حضرت ابو طالبؓ نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا کہ ’’میرا بھتیجا عز و شرف میں پورے عرب سے بہتر ہے اور وہ خدیجہؓ کا خواستگار ہے اور خدیجہؓ بھی انکی جانب راغب ہیں جو حق مہر ہوگا وہ میں ادا کرونگا ۔اس کا مستقبل نہایت تابناک اور خدا کے نزدیک اسکی بہت عزت ہے۔‘‘ حضرت ابوطالبؓ کا وہ عظیم خطبہ جو رسول ؐ کے مبعوث بہ رسالت ہونے سے 15سال پہلے آپ ؓنے پڑھا وہ خانوادہ رسولؐ کی عظمت و جلالت پر گواہ اور شان محمدی ؐ کی روشن دلیل ہے ۔یہ خطبہ تمام کتب تواریخ میں موجود ہے۔ ’’تمام تعریف اس اللہ کیلئے جو اس خانہ کعبہ کامالک ہے او ر جس نے ہمیں حضرت ابراہیم ؑ و حضرت اسماعیل ؑکی نسل سے قراردیااور ہمیں ایک امن کی جگہ پر بسایااور ہمیں لوگوں کے اوپر حاکم بنایااور اس شہر پر بہت سی برکتیں نازل فرمائیں ۔یہ (حضرت ) محمد ﷺ میرا بھتیجا ہے اور اگر قریش کے کسی فرد سے بھی اس کا مقابلہ کیا جائے تو یہ ان سے بلند تر ہے ایسے شخص کی بنی نوع انسان میں کوئی مثال نہیں وہ ہر لحاظ سے باقی تمام انسانوں سے بزرگ و بالا ہے اگرچہ میرا بھتیجا دنیاوی مال و دولت نہیں رکھتا لیکن دولت ڈھلتی ہوئی چھاؤں ہے اور پلٹ جانے والی چیز ہے میرا بھتیجا جناب خدیجہ ؓسے شادی چاہتا ہے اور بی بی خدیجہؓ بھی میرے بھتیجے سے شادی چاہتی ہیں ہم اسی واسطے تمہارے پاس آئے ہیں تاکہ بی بی خدیجہ ؓکی مکمل رضامندی اور تمہاری وساطت سے یہ رشتہ طے کریں ۔حق مہر کی ادائیگی میں اپنے مال سے ادا کروں گا ، رب کعبہ کی قسم میرا بھتیجا محمد ﷺبہت بڑے رتبے کا کا مالک ہے وہ عظیم سوچ بچار کا مالک اور دین الہٰی کا پھیلانے والا ہے محمد ؐ کیلئے عظیم الشان خو شخبری کا ظہور جلد ہونے والا ہے۔ ‘‘ (روضۃ الاحباب،سیرت حلبیہ ، روضۃ الصفا) اس خطبے کے جواب میں حضرت خدیجہ ؓکے چچا زاد اور عرب کے بزرگ عالم ورقہ بن نوفل اٹھے اور فرمایا ’’اے شیخ البطحا سید القر یش آپؓ نے جن فضائل و کمالات کا ذکر کیا ہے عرب کا کوئی قبیلہ ان سے انکار نہیں کرسکتا۔یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آپ ؓکے خاندان کے ساتھ ہمارا انتساب ہو گیا۔۔۔‘‘خواستگاری کی رسمیں ادا ہوگئیں۔20اونٹ حق مہر کے طور پر دیئے گئے۔اور حضرت ابوطالبؓ نے خطبۂ نکاح پڑھا اورحضرت خدیجہؓ رسول ؐ خدا کے نکاح میں آگئیں۔ حضرت خدیجہؓ رسول اکرم ﷺ کی پہلی زوجہ اور خاتون اول قرارپائیں۔ آپؓ کا مال دین محمدی ؐ کی ترویج اور غلاموں کی آزادی کیلئے استعمال ہونے لگا۔یہ خدیجۃ الکبری ٰؓ کی عظمت وعز ت یہ تھی کہ ان کے جیتے جی رسولؐ اللہ نے دوسرا نکاح نہ کیا اور آپ ؓکے بطن مبارک سے حضرت قاسم اورحضرت عبداللہ پیدا ہوئے۔وہ فاطمہ زہراؓدنیا میں تشریف لائیں جن کی وساطت سے نبی کریم ؐکی نسل چلی جنہیں اللہ نے’’ انا اعطینک الکوثر‘‘ کی مصداق بنایااور خاتون جنت کا اعزاز بخشا۔ رسالت کی تصدیق کا اولین شرف بھی حضرت خدیجہ ؓکو ہی حاصل ہوا ۔ام المومنین حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کے خواب صبح صادق کے نور کی مانند روشنی بخش ہوتے تھے انہی خوابوں کی بناء پر آپؐ گوشہ نشینی کی طرف مائل ہوئے اور عبادت کیلئے غار حرا کا انتخاب فرمایا۔مدتوں غا ر حرا کی تنہائی میں اللہ کی عبادت فرماتے رہے اور ایک عظیم ترین کا م اور بے مثل و بے نظیر پیغام کے ابلاغ کیلئے اپنے آپ کو تیار کیا ۔غار حرا کی تنہائی میں صرف اور صرف اللہ ہی ہمدم تھا اور گھر میں اللہ کے علاوہ ایک ہمراز (حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا )جن سے قلبی راز و امور بیان فرماتے آخرکار وہ تاریخ ساز اور نازک لمحہ آہی گیا جب فرشتہ وحی لے کر نازل ہوا۔ اقرا باسم ربک الذی خلق خلق الانسان من علق اقرا و رب الاکرم الذی علم بالقلم علم الانسان ما لم یعلم ترجمہ ’’پڑھئے اپنے رب کے نام سے جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیاپڑھئے کہ آپ کا پروردگار ہی بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایاانسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘(سورہ علق ) آنحضور ﷺگھر تشریف لائے حضرت خدیجہ ؓسے اس پہلی وحی کا ذکر کیا ،آپؓ نے تصدیق رسالت فرمائی اور ساتھ کہا اللہ آپ ؐکو ہرگز رسوا نہیں کرے گاآپؐ صلہ رحمی کرتے ہیں بے نواؤں غریبوں کی حمایت کرتے ہیں مہمانوں کا اکرام اور ہمیشہ حق کی پشت پناہی کرتے ہیں ۔حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓسے پہلی وحی کا سب سے پہلے تذکرہ کرنے سے اسلام میں خواتین کو دی گئی عظمت کا بھی اندازہ لگا یا جا سکتا ہے ۔ اعلان ِرسالت کا حکم سن کر آپ ؓنے بلا توقف حضور کی نبوت کی تصدیق کی اور مصدقہ اول قرارپائیں۔ حضرت خدیجہؓ محض مصدقہ رسالت ہی نہیں اسلام کے عملی اظہار میں بھی نبی کریم ؐ کیساتھ ساتھ رہیں ۔صاحب اعلام الوری فی اعلام الھدیٰؒ رقم کرتے ہیں کہ عباس ابن عبدالمطلب بیت اللہ کے پاس تشریف رکھتے تھے ان کے پاس ایک اور شخص بھی تھا دونوں نے دیکھا ایک شخصیت آئی اور کعبہ کے برابر کھڑی ہوگئیں پھر ایک خاتون آئیں وہ بھی ان کے برابر کھڑی ہوگئیں۔پھر ایک بچہ برابر آکر کھڑا ہوگیا عباس کے برابر بیٹھے شخص کو یہ منظر عجیب لگا یہ کونسا دین ہے میں نہیں جانتا۔عباس نے جواب دیا کہ محمد بن عبداللہ کا نظریہ یہ ہے کہ وہ اللہ کے رسول ؐ ہیں اور ایک دن قیصر وکسریٰ کے تمام خزانوں پر ان کا تسلط ہوگا۔وہ خاتون خدیجہ بنت خویلد ہیں جو ان پر ایمان لائیں۔وہ بچہ جس کا نام علی ابن ابی طالب ہے محمد کے چچا کا بیٹا ہے ۔ یہ بھی اس دین کو قبول کرچکا ہے خدا کی قسم اس روئے زمین پر ان تینوں کے سوا کوئی اس دین پر نہیں۔(طبقات واقدی جلد 10 صفحہ 105) ایک مرتبہ حضرت ابو طالبؓ اپنے عظیم فرزند مبلغ اسلام فاتح حبشہ حضرت جعفر طیارؓ کے ساتھ گزر رہے تھے کہ رسولؐ خدا اور حضرت خدیجہؓ وحضرت علیؓ کو نماز ادا کرتے دیکھا۔حضرت ابوطالب ؓنے یہدیکھ کرحضرت جعفر طیار ؓکو فرمایا صل جناح ابن عمک ترجمہ ’’تم بھی اٹھو اور اپنے ابن عم کے ساتھ نماز پڑھو۔‘‘ رسو ل اکرم ؐ حضرت خدیجہ ؓکا بے حد احترام کرتے اور بعد از وفات بھی ان کو یاد کرتے۔ایک روایت کے مطابق ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ جب بھی رسو ل ؐخدا گھر سے جاتے تو حضرت خدیجہؓ کو یاد کرتے اور فرماتے‘‘ خدا کی قسم مجھے خدیجہ سے بہتر کوئی خاتون نہیں ملی۔وہ اس وقت ایمان لائیں جب پورا زمانہ کافر تھا۔انہوں نے اس وقت میری تصدیق کی جب سب مجھے جھٹلا رہے تھے۔انہوں نے اس وقت اپنی تمام دولت مجھ پر نچھاور کی جب دوسروں نے مجھے محروم کر دیا ۔ ‘‘ عظیم کردارکی وجہ سے رسول خدا ؐ نے انہیں امت کی افضل ترین خاتون قرار دیا۔حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا ’’تمام جہان کی عورتوں میں سے 4 عورتوں کے مناقب و فضائل کا جان لینا تمہارے لئے کافی ہے اور وہ مریم بنت عمران یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد ﷺ، فرعون کی بیوی آسیہ۔ ‘‘ (ترمذی ۔۔ مشکوٰۃ شریف:جلد پنجم:حدیث نمبر 838) دستورات اسلامی کی نشرواشاعت میں حضرت خدیجہؓ رسول کریمؐ کا قوت بازو تھیں۔جب قریش نے بنو ہاشم کا مقاطعہ یعنی بائیکاٹ کیا تو عرب کی شہزادی حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ نے حضرت ابوطالبؓ کے ہمراہ نبی ؐکی نصرت کیلئے شعب ابی طالب میں جانا قبول کرلیا۔ بقول مولانا نعیم صدیقی اسلامی تحریک کے داعی ہونے کے سبب پورا خاندان بنو ہاشم قید خانہ و نظر بندی میں ڈال دیا گیا (محسن انسانیت ) ایک ایسا وقت بھی آیا جب حضرت خدیجہؓ وحضرت ابو طالبؓ سمیت پورے خاندان کو کو کئی کئی دن فاقے کرنا پڑے اور درختوں کے پتوں پر بھی گزارا کرنا پڑا۔ (سیرۃ النبی شبلی نعمانی ؒ) قریش کے بائیکاٹ والے معاہدے کو تو دیمک چاٹ گئی اور مقاطعہ ختم ہوگیا لیکن اس3 سال کی اسیری نے حضرت خدیجہؓ کی صحت پر بہت برا اثر ڈالا اور بالآخر بعثت نبوی ؐ کے 10ویں سال 10رمضان کو آپؓ رحلت فرما گئیں۔ وقت تدفین رسول اکرم ﷺ خود قبر میں اترے، آپؓ کواپنے دست مبار ک سے قبر میں اتارا ۔حضرت خدیجہ ؓکی رحلت کے بعد رسول اکرم ﷺپر بہت سے مصائب آن پڑے ۔ حضرت خدیجہ ؓسے رسول اکرمﷺ کی محبت اور ان کی جدائی پر ملال کاانداہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ آنحضورﷺ نے اپنے عم بزرگوارحضرت ابو طالبؓ اور حضرت خدیجہؓ کی وفات کے سال کو’’ عام الحزن‘‘ قرار دیا۔ دونوں کی وفات کے بعد آ پ ؐپر بے پناہ مصائب آئے لیکن صبر و برداشت سے ان مصائب کو برداشت کیا ۔پیغام الہٰی کو عام کرنے کیلئے اپنا وطن چھوڑا ہجرت کرنا پڑی اور پھر10 برسوں میں وہ کردکھا یا جو تمام انبیاء نہ کرسکے تھے اور اللہ سے تکمیل دین کی سند حاصل کی ۔اس کامل دین کی بنیادیں حضرت خدیجہؓ کی قربانیوں سے ہی استوار ہوئیں ۔ ام المومنین حضرت خدیجہؓ سے پہلے کسی نے سبقت نہیں کی اور تادم آخر وہ اپنے ایمان و ایقان پر باقی رہیں۔جب تک زندہ رہیں نصرت و حمایت کا حق ادا کرتی رہیں اور رسالت مآبؐ کی ہر طرح معین و مددگار رہیں۔مؤرخین اسلام کا اجماع ہے کہ اول من اسلم من النساء خدیجۃ جس خاتون نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا وہ ملکۂ کونین حضرت خدیجہ ؓہیں جنہیں رسولؐ خدا نے کانت خدیجۃ ملکۃ عظیمۃ عظیم ملکہ کے لقب سے یاد کیا۔جب بھی سابقون الاولون کی تاریخ رقم ہوگی تو سر فہرست ملیکۃا لعرب شہزادی اسلام حضرت خدیجہؓ کا نام ہی رقم ہوگا۔ جب تک یہ زمانہ یونہی پرواز کرے گا اسلام تیرے نام پہ سو ناز کرے گا

حضرت خدیجہ الکبریٰؓ کی فضیلت

ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی


ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کی فضیلت کے بارے میں تذکرہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ سیّدہ نے 10 رمضان میں وفات پائی۔ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓمکہ کی ایک نہایت معزز اور دولت مند خاتون تھیں۔ آپؓ کا لقب طاہرہ اور کنیت اُمّ ہند تھی، رسول اکرم ﷺ کی پہلی زوجہ محترمہ جو قریش کے ممتاز خاندان اسد بن عبدالعزیٰ سے تھیں۔ (بحوالہ: سیرۃ خیرالانام ﷺ، اُردو دائرہ معارف اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی، صفحہ 579)۔ حضرت خدیجہؓ نے آپﷺ کے صدق و دیانت کا تذکرہ سن کر آپ ﷺ کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ ’’میرا مال تجارت لے کر شام جائیں، میرا غلام میسرہ آپﷺ کے ہمراہ ہوگا۔‘‘ اور یہ بھی فرمایا: ’’جو معاوضہ میں آپﷺ کے ہم قوموں کو دیتی ہوں، آپ ﷺ کو اس کا دگنا دوں گی۔‘‘ آپ ﷺ نے حامی بھرلی اور بصریٰ (شام) کی جانب روانہ ہوگئے۔ وہاں پہنچ کر جو سامان ساتھ لے گئے تھے اسے فروخت کیا اور دوسرا سامان خرید لیا۔ نیا سامان جو مکہ آیا تھا اس میں بھی بڑا نفع ہوا۔ حضرت خدیجہؓ نے آمدنی سے خوش ہوکر جو معاوضہ ٹھہرایا تھا اس کا دگنا ادا کیا۔ نبی کریم ﷺ کی نیک نامی، حسن اخلاق اور امانت و صداقت کی شہرت کے چرچے ہونے لگے جو ہوتے ہوتے حضرت خدیجہؓ تک بھی پہنچے۔ چنانچہ واپس آنے کے تقریباً 3 ماہ بعد حضرت خدیجہ ؓ نے آپ ﷺ کے پاس شادی کا پیغام بھیجا اس وقت آپؓ کے والد کا انتقال ہوچکا تھا لیکن آپؓ کے چچا عمرو بن اسد زندہ تھے۔ تاریخ معین پر آنحضرت ﷺ ، حضرت ابوطالبؓ اور تمام رئوسائے خاندان جن میں حضرت حمزہؓ بھی تھے، حضرت خدیجہؓ کے مکان پر آئے، حضرت ابوطالبؓ نے آنحضرت ﷺ کا خطبۂ نکاح پڑھا اور 500 درہم طلائی مہر قرار پایا۔ شادی کی تقریب بعثت سے 15 سال پیشتر انجام پذیر ہوئی۔ یہ 25 عام الفیل تھا۔ حضرت خدیجہؓ سے نکاح کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ حضرت خدیجہؓ 24 سال آپ ﷺ کے ساتھ رہیں۔ (بحوالہ: سیرۃ خیرالانام ﷺ ، ص 583)۔ آغازِ وحی کے وقت سے ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ نے نبی اکرم ﷺ کی حمایت و معاونت کا فیصلہ کرلیا تھا اور آپؓ نبوت ملنے کی ابتدائی گھڑیوں میں ہی آنحضور ﷺپر ایمان لے آئی تھیں مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ سب سے پہلے حضرت خدیجہؓ آنحضرت ﷺ پر ایمان لائیں۔ قبول اسلام کے وقت حضرت خدیجہؓ کی عمر 55 سال تھی۔ یہ مسلّم ہے کہ حضرت خدیجہؓ کے قبول اسلام سے اسلام کی اشاعت پر بڑا خوشگوار اثر پڑا۔ ان کے خاندان اور عزیزو اقارب میں سے بہت سے لوگ اسلام لے آئے۔ شعب ابی طالب سے نکلنے کے چند روز بعد نماز فرض ہونے یعنی واقعۂ معراج سے قبل 10 رمضان، 10 نبوت کو اُمّ المومنین حضرت خدیجہؓ نے بعمر 65 برس وفات پائی یہ ہجرت سے3 سال پہلے کا واقعہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جحون میں حضرت خدیجہؓ کو دفن کیا، خود قبر میں اترے۔ اسی سال آپﷺ کے چچا حضرت ابوطالبؓ نے وفات پائی۔ ان دونوں عزیزوں کی وفات سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بے حد صدمہ ہوا۔ اسی نسبت سے اس سال کو ’’عام الحزن‘‘ کہا جاتا ہے۔ کتب سیرت میں ام المومنین حضرت خدیجہؓ کا مفصل حلیہ مذکور نہیں۔ نکاح کا پیغام لے جانے کے سلسلے میں نفیسہ بنت منیہ (حضرت یعلیؓ کی ہمشیرہ) نے آنحضرت ﷺ سے کہا تھا: ’’اگر آپ ﷺ کو مال، جمال اور اخراجات کی کفالت کی طرف دعوت دی جائے تو آپ ﷺ منظور کریں گے؟‘‘ یہ جملے حضرت خدیجہؓ کے متعلق تھے۔ (بحوالہ: سیرۃ خیرالانام ﷺ ، صفحات 588-589)۔ قبول اسلام کے بعد حضرت خدیجہؓکی دولت و ثروت تبلیغ دین و اشاعت اسلام کے لیے وقف ہوگئی۔ آنحضرت ﷺ تجارتی کاروبار چھوڑ کر عبادتِ الٰہی اور تبلیغِ اسلام کے کاموں میں مصروف ہوگئے تھے۔ حضرت خدیجہؓ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ حضرت ابراہیمؓ کے علاوہ آنحضرت ﷺ کی تمام اولاد انہی سے پیدا ہوئی۔ حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد آپ ﷺ انہیں اکثر یاد کیا کرتے اور ان کی خدمات کا اعتراف کرکے فرمایا کرتے کہ: ’’خدیجہؓ نے اس وقت میری تصدیق کی اور مجھ پر ایمان لائیں جب لوگوں نے میری تکذیب کی۔ خدیجہؓ نے مجھے اپنے مال میں شریک کرلیا۔‘‘ ام المومنین حضرت خدیجہؓ میں اتنی خوبیاں تھیں کہ آپ ﷺزندگی بھر انہیں یاد کرتے رہے۔ حضرت جبریل علیہ السلام بھی ان کے لیے اللہ تعالیٰ کا سلام لے کر آتے تھے۔ مولانا صفی الدین مبارک پوریؒ اپنی کتاب ’’الرحیق المختوم‘‘ کے صفحہ 634 پر ام المومنین حضرت خدیجہؓ کے بارے میں رقمطراز ہیں کہ ’’ہجرت سے قبل مکہ میں نبی ﷺ کا گھرانہ آپﷺ اور آپؐ کی زوجۂ مبارکہ حضرت خدیجہؓ پر مشتمل تھا۔ آپ ﷺ کی اولاد میں حضرت ابراہیمؓ کے ماسوا تمام اولاد حضرت خدیجہؓ کے بطن سے تھی ۔ خاتونِ جنت حضرت فاطمہ زہراؓ کی شادی جنگ بدر اور جنگ اُحد کے درمیانی عرصے میں حضرت علی ابن ابی طالبؓ سے ہوئی۔ رسول اکرم ؐ نے عظیم کردارکی وجہ سے امت کی افضل ترین خاتون قرار دیا،جب تک زندہ رہیں نصرت و حمایت کا حق ادا کرتی رہیں اور رسالت مآبؐ کی ہر طرح معین و مددگار رہیں وقت ِ تدفین رسول اکرم ﷺ خود قبر میں اترے، آپؓ کواپنے دست مبار ک سے قبر میں اتارا ۔حضرت ابو طالبؓ اور حضرت خدیجہؓ کی وفات کے سال کو’’ عام الحزن‘‘ قرار دیا محمد بن قاسم نے سندھ کو امن دیا، خوشحالی دی، لوگوں کی جان و مال کو محفوظ بنایا، تمام مذاہب کے لوگوں کو اپنے مذاہب کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی دی