ہمارے ہاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر تکرار ،جھگڑا، لڑائی ، حتیٰ کہ قتل و غارت گری ایک معمول کی بات ہے۔ ایسے رویوں پر مبنی کئی واقعات ہیں جو روزانہ اخبارات کے صفحات سیاہ کرتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہمارے اندر خود انضباطی یعنیSelf control کا فقدان ہے۔ ہم اپنے اندر اٹھنے والے شدید جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اپنی زبان اور اعضا کو حدود کے اندر نہیں رکھ پاتے۔ رمضان میں ہمیںایک سخت قسم کے ڈسپلن کی تربیت دی جاتی ہے۔ ہم بھوک ،پیاس اور جنس کے معاملات میں اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہیں

رمضان المبارک میں عمرے کی سعادت حاصل کرنے والوں کی تعداد بھی چونکا دینے والی ہے ۔یہ حقائق ایک طرف تو اطمینان کا باعث ہیں لیکن دوسری طرف یہ بہت ہی خوف ناک سوالات اور انتہائی تلخ حقائق کی طرف اشارہ کرتے نظر آتے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب معاشرے کے ہرطبقے میں نمازیوں ،روزہ داروں ،معتکفین ،سخاوت اور عمرہ کرنے والوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے تو اس کا اثر اجتماعی رویوں میں کیوں نظر نہیں آتا؟ اگر نمازبے حیائی اور برے کاموںسے روکتی ،روزہ خدا خوفی پیدا کرتا، محروموں اور غریبوںکے لئے دل میں جگہ بناتا، اعتکاف وعمرہ اللہ سے محبت ،دین سے لگاﺅ اور مذہب سے متعلق حمیت و حمایت پیدا کرتے ہیں تو ،کم از کم رمضان المبارک ہی میں سہی، جرائم میں کمی کیوں نہیں ہوتی؟ حکمرانوں میں عوام کےلئے حقیقی دوستی اور معاشرے میں استحکام کے جذبات کو مہمیز کیوں نہیں ملتی؟ نا جائز منافع خوری کے نتیجے میں مہنگائی کا عفریت جگہ جگہ ڈیرے ڈالے کیوں نظر آتاہے ؟سرکاری دفاتر میں احساس ذمہ داری ،ایمان داری اور تن دہی کے بجائے وہی روایتی انداز کی غیر ذمہ داری،رشوت ستانی ،کاہلی اور غفلت کی بیماریوںمیں کوئی افاقہ کیوں نظرنہیں آتا؟

کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں ہے کہ وہ مہینہ جس میں انسان اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی مانگتا ،اپنا محاسبہ کرتا ، خدا خوفی کا مزاج پیدا کرتا ہے ، اس میں ہمارا رویہ ، عوام ہوں یا خواص ، مجموعی لحاظ سے بالکل الٹ ہوجاتا ہے۔ حکمرانوں ہی کو لے لیجئے ۔ وہ عوام کے ساتھ کی گئی زیادتیوں اور اپنے حلف سے کی گئی غداریوں پر نادم ہونے کے بجائے اس پر پوری منافقت اور ڈھٹائی سے پردے ڈالتے نظر آتے ہیں ۔ بڑی بڑی اشتہاری مہموں کے زریعے سے عوام کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ ہم تمھاری خو ش حالی کی خاطر اپنا دن رات ایک کےے ہوئے ،ہر وقت ایسی سکیموں اور منصوبوں کی تلاش میں رہتے ہیں جس سے غریب عوام کے مسائل میں کمی اور اس کے وسائل میں اضافہ ہو۔

اب ذرا تصور کیجئے کہ ہمارے حکمران جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہوں گے تو کیا کہتے ہوں گے ؟اگر تواشتہاری مہموں، اخباری بیانات ،ٹی وی مذاکرے سب اچھا ہے کی رپورٹ کر رہے ہیں تو وہ پروردگار کائنات کو یہ کہہ رہے ہوں گے کہ جس طرح عوام ہمارے دعووں پرایمان لے آتے ہیں اسی طرح اے اللہ تو بھی مان لے کہ ہم نے مہنگائی کم کر دی ہے، اپنی جیب سے روپیہ ڈال کر اشیائے صرف کی قیمتوں میں اعتدال پیدا کر دیا ہے،اپنے آرام و سکون کوتج کر کے امن و امان کو برقرار رکھا ہواہے، ناجائز منافع خوروں کو لگام دے کر اپنی ذمہ داریوں کا کماحقہ احساس کیا ہے، جن سیاستدانوں کے کرتوتوں پر پردہ ڈال کر ان کو اپنے ساتھ ملایا تھا ، انھیں ان کے کئے کی سزا دینے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔

ہم نے ذاتی دشمنی اور مخالفت سے بالاتر ہو کر سیاست میں غیر جانب داری اور اصول پسندی کو بنیاد بنا کر جمہوریت کی گاڑی کو دوبارہ سے پٹری پر لانے کا اہم ترین فیصلہ کر لیا ہے۔اس لئے اے اللہ! ہماری حکومت کو استحکام بخش ! ہم تیری خلقت کے لئے رحمت کا سایہ ہیں، اس لئے اس سایہ عاطفت کو قائم رکھ! ہم امت مسلمہ کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دینے کا عزم اور جذبہ رکھتے ہیں اس لئے زمانے میں ہماری ساکھ قائم رکھ ! وطن عزیز جس کڑے امتحان سے گزررہا ہے ،اس میں ہمیں سرخرو کر! ذرا انصاف سے بتائےے کہ اگر پروردگار ِ کائنات غافل نہیں ،حی وقیوم ہے ،بے خبر نہیں علیم وخبیر ہے ،ظالم و سفاک نہیں عادلِ مطلق اور رحیم و رحمان ہے تو وہ یہ دعائیں کیسے قبول کرے گا ؟ حکمرانوں کو ان کی نمازوں، روزوں، افطار یوں، سخاوتوں، عمروں، اعتکافوں کے باوجود کیا ملے گا؟ ان کے لئے اس رمضان کی برکت کیا ہوئی؟

یہ تو حکمرانوں کا حال ہے ،اب ذرا عوام الناس کی عبادتوں اورریا ضتوں کا جائزہ لیجئے ۔ زیادہ تفصیل میںجائے بغیر ایک اہم پہلو ہی پر غور کر لیتے ہیں ۔ا س مہینے کروڑوںمسلمان نمازِتراویح میں اور انفرادی طور پر قرآن مجید کی تلاوت کا شرف حاصل کرتے ہیں ۔اگر قرآن کا طوطے کی طرح بغیر سوچے سمجھے پڑھنا اور سنناباعث ثواب بھی مان لیں توکتنے فیصد لوگوں کو قرآن کی حکمت، ہدایت اور تذکیر حاصل ہوتی ہے یعنی وہ نعمت جو اس کے نزول کا اصل باعث ہے ۔ایسے سلیم الفطرت اور کامن سنس رکھنے والے افراد کیا آٹے میں نمک کے برابر نہیں ہیں جنھوں نے قرآن کی چاہے ایک سورۃ ہی پڑھی، لیکن اس کا مطلب جانا ،اس سے نصیحت حاصل کی، قرآن کی حکمت و دانش کو اپنے قلب و روح کا حصہ بنایا ! اس پہلو سے اگر مساجد میں تلاوت کرنے والوں، تراویح سننے والے نمازیوں ،حسن قرات کے مقابلوں کی وجد آفرین محفلوں اور شبینوں کی پر شکوہ تقاریب کا جائزہ لیں تو قرآن زبانِ حال سے یہ دہائی دیتا نظر آتاہے۔ کس بزم میںمجھ کو بار نہیں ،کس عرس میں میری دھوم نہیں میں پھر بھی اکیلا رہتا ہوں ،مجھ سا کوئی مظلوم نہیں!! رمضان قرآن کے نزول کا مہینہ ہے اور اس مہینے مسلمانوں کی نظر کرم قرآن ہی پر رہتی ہے لیکن اس نظر کرم کی حقیقت کیا اس سے مختلف ہے جس کی ایک ادنیٰٰ سی جھلک ہم نے پیش کی ہے؟ سوال یہ ہے، کیا پھر بھی یہ توقع مبنی بر حقیقت ہے کہ قرآن ہماری زندگیوں میں کوئی مثبت تبدیلی لانے کا باعث ہو گا؟

رمضان احتساب نفس کا مہینہ ہے۔ اللہ کے حضور میں اپنے گناہوںکا اعترف کر کے سچے دل سے معافی مانگنے کا مہینہ ہے اور سچے دل سے کیا مرادہے؟یہ کہ جس گناہ کی معافی مانگی جارہی ہو اس کو نہ کرنے کا ذہن میں پختہ عہد ہو۔اب اگرکوئی زبان سے تو یہ کہہ رہا ہو کہ اے اللہ معاف کر دے اور ہاتھ کم تول رہا ہو، دل کسی کے کینے سے بھرا ہو، ذاتی کام پر سرکاری وسائل خرچ ہو رہے ہوں،حق دار کا حق مارا جا رہا ہو، ناجائز منافع خوری ہو رہی ہو تو ایسی تو بہ بھلا وہ پروردگار کیسے قبول کرے گا جو صرف زبانوں کے الفاظ ہی نہیں دلوں کے حال اور دماغوں کے فتور بھی جانتا ہے؟ معافی مانگنے والے کتنے ایسے ہیں جنھوں نے انتہائی سچائی سے ان لوگو ں کی فہرست بنائی، جن کا حق مارا گیا ،جن کو نقصان پہنچایا گیااور پھر یہ ارادہ اورعزم کیا کہ اس کا جہاں تک ممکن ہو ازالہ کیا جائے گا ۔ کتنے ایسے ہیں جنھوں نے اپنی شخصیت کا بے لاگ جائزہ لیتے ہوئے اپنی اخلاقی اور وصفی کمزوریوں کی فہرست بنائی اور پھر اپنے آپ سے عہد کیا کہ آج کے بعد وعدہ خلافی نہیں کریں گے، جھوٹ نہیںبولیں گے ،غیبت سے باز رہیں گے،بے ہودگی اورفحش کاموں سے اجتناب کریں گے ۔بد تمیزی، دل دکھانے، اشتعال میں آکر حد سے تجاوز کرنے کی عادت کو سچے دل اور مضبوط ارادے سے ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔ کیا ہم نے ایسی کسی فہرست میں درج کسی خامی اور کسی کوتاہی کو نشان زدہ کر کے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس خرابی سے تو نجات حاصل ہوئی؟اور اگر ایسا نہیں تو بتائےے دلوں کے راز جاننے والا، ارادوں کو بھانپ لینے والا علیم الصدورخدا ،رحمان و رحیم ہوتے ہوئے بھی ہمارا یہ کہنا کیسے مان لے گا کہ اے اللہ مجھے معاف کر دے ،میں توبہ کرتا ہوں !واضح رہے کہ کسی کا حق اگرمارا گیا، کسی کا دل اگر دکھایا گیا تو یہ گناہ اس وقت تک معاف نہیں ہو گیا جب تک مظلو م کی داد رسی نہ ہو گئی ہو۔ ا س ضمن میں بہائے گئے ہزاروں آنسو، پڑھے گئے لا کھوں نفل، رکھے گئے تمام روزے بے کار ہیں !

ہر رمضان میں اللہ کے وعدے کے مطابق شب قدر بھی آتی ہے۔ شب قدر کی فضیلت کا ذہن میں تصور کیجئے اور پھر ہمارے ہاں کی مسجدوں میں لاوڈ سپیکرکلچر کو بھی سامنے رکھئے۔ہزار مہینے کی عبادت سے بھی افضل اس رات کو جب قدسیوں کے سردار حضرت جبرائل رحمت بن کر ہمارے شہروں میں نزول فرماتے ہوں گے تو مولوی صاحبان جس انداز سے لاﺅڈ سپیکروں پر شوروغوغا مچا رہے ہوتے ہیں، کم از کم اس صورت حال میںیہ باور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ واقعی ہماری دعاﺅں پرآمین کہتے ہوں گے۔ بلکہ خدشہ ہے کہ وہ ہماری بد نصیبی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوں گے کہ عبادت تو اپنے پروردگار کو چپکے چپکے یاد کرنے کا نام ہے۔ اس رات کے شایانِ شان تویہ ہے کہ تنہائی میں اللہ کے حضور میں آنسو بہائے جائیں ،معافی مانگی جائے، گڑ گڑا کر اپنی کوتاہیوں سے پیچھا چھڑانے کی درخواست کی جائے لیکن یہ فرشتے ایک بہت بڑی اکثریت کو تقریبات کی نوعیت کے جلسے جلوسوں میںمست پاتے ہوں گے ۔ یقیناً ایسے خوش نصیب بھی ہوں گے جو اس رات کی برکتوں سے حصہ پاتی ہوں گے لیکن ذرا انصاف سے کا م لے کر بتائیے کہ یہ خوش بخت کتنے ہوں گے؟ ہمارے ملک میں اس وقت لاﺅڈ سپیکر کے استعمال پر پابندی ہے۔ قانون کے مطابق سوائے اذان اور ناگزیر ضرورت کے سپیکر استعمال نہیں کیاجا سکتا، لیکن اس پر کتنا ایک عمل ہو تا ہے، یہ ہم سب پر واضح ہے۔ یوں قانون شکنی کے گناہ میں ملوث ہونے والے، گھر بیٹھے ہزاروں، لاکھوں افراد کی انفرادی عبادات میں مخل ہو کر، لاتعداد مریضوں، طالب علموں، بچوں کے آرام و سکون اور ذاتی کاموں میں مصروف لوگوں کی مصروفیت میں خلل اندازی کرنے والے کیا فرشتوں کی دعاﺅں کے حق دار بنتے ہوں گے یا ان کی بے زاری کا باعث؟ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں کے روزہ داروں کی عظیم اکثریت عملی طور محض بھوکا پیاسا رہنے کو روزہ جانتی ہے

روزہ رکھ کر عملِ صالح کرنا ،اور گناہوں سے بھی محفوظ رہنا ضروری خیال نہیں کرتے ۔ان کے فہم ِدین کا کمال یہ ہے کہ نہیں جانتے تلاوت قرآن سے ثواب محض ایک اضافی نعمت ہے ۔یعنی اسے سمجھ کر اس پر عمل کرنے کے بعد مزید ایک عنایت ہے جو ہمیں ملتی ہے۔ لیکن اگر قرآن کو سمجھا جائے نہ عمل کیا جائے بلکہ اس کی تعلیم سے برعکس کام کیے جائیں توکیا پھر بھی ہم ثواب کے حق دار ہوں گے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ رمضان آتا ہے ،روزے رکھے جاتے ہیں ،عبادات کی جاتی ہیں لیکن وہ ہمارے معاشرے کے اجتماعی وجود کا حصہ نہیں بنتیں بلکہ خدشہ ہے کہ یہ ریاضتیں ،یہ عبادتیں ،یہ اعتکاف ،یہ عمرے اور یہ خیراتیں ہمیں اس احساس تفاخر میں مبتلا کر دیتی ہیں کہ ہم نے بہت اعمالِ صالح کئے اور یوں یہ احساس ہمارے نفس میں موجودانا کی چربی کو اور بڑھا دیتا ہے، نیکیاں کردار کی طاقت اور شخصیت کی حرارت بننے کے بجائے ہمارے احساس تفاخر کے موٹاپے کا باعث بن جاتی ہیں۔ اس سے ہم مزیدسست ہو جاتے ہیں ۔مزید اخلاقی بیمارےوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اپنی پستی اور زوال کو اور گہراکر دےتے ہیں