مولا نا رضوان اللہ پشاوری


17 رمضان 2 ہجری بمطابق 13 مارچ 624ء کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قیادت میں مسلمانوں اور ابو جہل کی قیادت میں مکہ کے قبیلہ قریش اور دیگر عربوں کے درمیاں یہ معرکہ مدینہ میں جنوب مغرب میں بدر نامی مقام پر ہوا اسے غزوہ بدر کبریٰ بھی کہتے ہیں بدروہ میدان ہے جہاں پر رسول اللہ ﷺ کی قیادت میں مسلمانوں نے کفار کو شکست دی۔ قریش کی اسلام دشمنی:اسلام نے مکہ کی سرزمین میں اعلان حق کیا تو معاشرے کے مخلص ترین افراد ایک ایک کرکے اسلام قبول کرنے لگے ۔ وہ لوگ جن کے مفادات پرانے نظام سے وابستہ تھے تشدد پر اتر آئے نتیجہ ہجرت تھا لیکن تصادم اس کے باوجود بھی ختم نہ ہوا۔ اسلام مدینہ میں تیزی سے ترقی کر رہا تھا اور یہ بات قریش مکہ کیلئے بہت تکلیف دہ تھی وہ مسلمانوں کو ختم کرنے کے منصوبے بناتے رہتے تھے اور مسلمان ہر وقت مدینہ پر حملے کا خدشہ رکھتے تھے ۔ صورتحال کی نزاکت کا یہ عالم تھا کہ صحابہؓ ہتھیار لگا کر سوتے اور خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی اسی طرح کی حفاظتی تدابیر اختیار کرتے ۔ تجارتی شاہراہ کا مسلمانوں کی زد میں ہونا:قریش مکہ نے مدینہ کی اس اسلامی ریاست پر حملہ کرنے کا اس لیے بھی فیصلہ کیا کہ وہ شاہراہ جو مکہ سے شام کی طرف جاتی تھی مسلمانوں کی زد میں تھی۔ اس شاہراہ کی تجارت سے اہل مکہ لاکھوں اشرفیاں سالانہ حاصل کرتے تھے ۔ اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ بنو اوس کے مشہور سردار حضرت سعد بن معاذؓ جب طواف کعبہ کیلئے گئے تو ابوجہل نے خانہ کعبہ کے دروازے پر انہیں روکا اور کہا تم ہمارے دین کے مرتدوں کو پناہ دو اور ہم تمہیں اطمینان کے ساتھ مکے میں طواف کرنے دیں؟ اگر تم امیہ بن خلف کے مہمان نہ ہوتے تو یہاں سے زندہ نہیں جاسکتے تھے ۔ یہ سن کر حضرت سعد بن معاذؓ نے جواب دیا۔’’خدا کی قسم اگر تم نے مجھے اس سے روکا تو میں تمہیں اس چیز سے روک دوں گا جو تمہارے لیے اس سے اہم تر ہے یعنی مدینہ کے پاس سے تمہارا راستہ۔‘‘ اشاعت دین میں رکاوٹ: مدینہ میں تبلیغ کرنے کی پوری آزادی تھی اور اسلام کے اثرات دور دراز علاقوں میں پہنچ رہے تھے۔ جنوب کے یمنی قبائل میں سے بھی بعض سلیم الفطرت لوگ مشرف بہ اسلام ہوگئے تھے۔ عمر بن الحضرمی کا قتل:رجب 2 ھ میںنبی کریمؐ نے حضرت عبداللہ بن حجشؓ کی قیادت میں12 آدمیوں پر مشتمل ایک دستہ اس غرض سے بھیجا کہ قریش کے تجارتی قافلوں کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھے اتفاق سے ایک قریشی قافلہ مل گیا اور دونوں گروہوں کے درمیان میں جھڑپ ہو گئی جس میں قریش مکہ کا ایک شخص عمر بن الحضرمی مقتول ہوا اور 2 گرفتار ہوئے ۔ آنحضرت ﷺنے واقعہ پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا،جنگی قیدی رہا کر دئیے گئے اور مقتول کیلئے خون بہا ادا کیا۔ اس واقعہ کی حیثیت سرحدی جھڑپ سے زیادہ نہ تھی چونکہ یہ جھڑپ ایک ایسے مہینے میں ہوئی جس میں جنگ و جدال حرام تھا۔ اس لیے قریش مکہ نے اس کیخلاف خوب پروپیگنڈہ کیا اور قبائل عرب کو بھی مسلمانوں کیخلاف اکسانے کی کوشش کی۔ عمرو کے ورثا ء نے بھی انتقام لینے کیلئے اہل مکہ کو مدینہ پر حملہ کرنے پر اکسایا۔ مدینہ کی چراگاہ پر حملہ:مکہ اور مدینہ کے درمیان میں کشیدگی بڑھتی جارہی تھی اس سلسلے میں یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ ایک مکی سردار کرز بن جابر فہری نے مدینہ کے باہر مسلمانوں کی ایک چراگاہ پر حملہ کرکے رسول اللہﷺ کے مویشی لوٹ لیے ۔ یہ ڈاکہ مسلمانوں کیلئے کھلا چیلنج تھا۔ چند مسلمانوں نے کرز کا تعاقب کیا لیکن وہ بچ نکلا۔ اسلامی ریاست کے خاتمہ کا منصوبہ:قریش مکہ نے اسلامی ریاست کو ختم کرنے کا فیصلہ کرکے جنگ کی بھرپور تیاریاں شروع کر دیں۔ افرادی قوت مضبوط بنانے کیلئے انہوں نے مکہ کے گردونواح کے قبائل سے معاہدات کیے اور معاشی وسائل کو مضبوط تر کرنے کیلئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس مرتبہ جو تجارتی قافلہ شام بھیجا جائے اس کا تمام منافع اسی غرض کے لیے وقف ہو۔ چنانچہ ابوسفیان کو اس قافلے کا قائد مقرر کیا گیا اور مکہ کی عورتوں نے اپنے زیور تک کاروبار میں لگائے ۔ اسلامی ریاست کے خاتمے کے اس منصوبے نے مکہ اور مدینہ کے درمیان میں کشیدگی میں بہت اضافہ کر دیا۔ ابو سفیان کا قافلہ:جب ابوسفیان کا مذکورہ بالا قافلہ واپس آرہا تھا تو ابوسفیان کو خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں یہ قافلہ راستے ہی میں نہ لوٹ لیا جائے چنانچہ اس نے ایک ایلچی کو بھیج کر مکہ سے امداد منگوائی قاصد نے عرب دستور کے مطابق اپنے اونٹ کی ناک چیر دی اور رنگ دار رومال ہلا کر واویلا کیا اور اعلان کیا کہ ابوسفیان کے قافلے پرحملہ ہونیوالاہے فوراً امداد کیلئے پہنچو۔ اہل مکہ سمجھے کہ قریش کا قافلہ لوٹ لیا گیا ہے ۔ سب لوگ انتقام کیلئے نکل کھڑے ہوئے ۔ راستے میں معلوم ہوا کہ یہ قافلہ صحیح سلامت واپس آ رہا ہے لیکن قریش کے مکار سرداروں نے فیصلہ کیا کہ اب مسلمانوں کا ہمیشہ کیلئے کام ختم کرکے ہی واپس جائیں گے ۔ نیز حضرمی کے ورثاء نے حضرمی کا انتقام لینے پر اصرار کیا۔ چنانچہ قریشی لشکر مدینہ کی طرف بڑھتا چلا گیا اور بدر میں خیمہ زن ہوگیا۔ بدر کی مہم کا نقشہ:مدینہ میں قریشی لشکر کی آمد کی اطلاع ملی تو آپؐ نے مجلس مشاورت بلوائی اور خطرے سے نپٹنے کیلئے تجاویز طلب فرمائیں۔ سب نے جانثاری کا یقین دلایا۔ مشاورت کے بعد مجاہدین کو تیاری کا حکم ہوا۔ مسلمانوں کے ذوق شہادت کا یہ عالم تھا کہ ایک نوعمر صحابی حضرت عمیر بی ابی وقاص اس خیال سے چھپتے پھرتے تھے کہ کہیں کم عمر ہونے کی وجہ سے واپس نہ بھیج دیئے جائیں۔ اس کے باوجود مجاہدین کی کل تعداد 313 سے زیادہ نہ ہو سکی۔ القصہ مسلمانوں کے تقویٰ اور اطاعت رسولؐ کی وجہ سے ان کی برتری روز روشن کی طرح ثابت ہو گئی اور کفار کے حوصلے پست ہوئے ۔

مولانا محمد طارق نعمان


نام ونسب:عائشہ نام،صدیقہ اور حمیرا لقب ام عبداللہ کنیت ،خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓوالدگرامی ہیں ، والدہ کانام زینب کنیت ام رومان تھی اور قبیلہ غنم بن مالک سے تھیں۔ کنیت :عرب میں کنیت شرافت کا نشان ہے چونکہ آپؓکے ہاں کوئی اولاد نہ تھی اس لیے کوئی کنیت بھی نہ تھی۔ ایک دفعہ آنحضرتﷺ سے حسرت کے ساتھ عرض کیا کہ اور عورتوں نے تو اپنی سابق اولادوں کے نام پر کنیت رکھ لی ہے ، میں اپنی کنیت کس کے نام پر رکھوں؟ تو نبی کریمؐ نے فرمایا :’’ اپنے بھانجے عبداللہ کے نام پر رکھ لو۔ ‘‘ چنانچہ اسی دن سے ام عبداللہ کنیت قرار پائی۔ ولادت: آپؓ بعثت کے 4 برس بعد شوال کے مہینے میں پیداہوئیں اس بنا ء پر آپؓ فرماتی تھیں کہ جب سے میں نے اپنے والدین کو پہچانامسلمان پایا۔ (بخاری ۔ج 1ص252) حضرت ابوبکرصدیق ؓنے حضرت خولہ بنت حکیم کے ذریعے اپنی لاڈلی بیٹی کاعقد حضور اکرم ؐسے طے کرایا، مہر500درہم قرار پایا یہ نبوت کے 10 ویں سال کا واقعہ ہے،یہ نکا ح ا سلام کی سادگی کی حقیقی تصویرتھا۔ فضائل وکمالات:حضرت عمرو بن عاص ؓنے ایک دفعہ رسول اقدسﷺسے پوچھا :آپؐ کو دنیا میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا : ’’عائشہ‘‘ حضرت عمرو بن عاص ؓ نے پھرعرض کی، مردوں میں کون ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا :’’ اس کا باپ ۔‘‘ رسول اکرمﷺ نے فرمایا :’’مردوں میں بہت کامل گزرے لیکن عورتوں میں سے مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون کے سوا کوئی کامل نہ ہوئی اور عائشہ کو عورتوں پر اسی طرح فضیلت ہے جس طرح ثرید کو تمام کھانوں پر۔‘‘ حضرت عروہ بن زبیرؓ کا قول ہے’’میں نے حرام وحلال ، علم وشاعری اور طب میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓسے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘ام المومنینؓ فرماتیں کہ’’ میں فخر نہیں کرتی بلکہ بطور واقعہ کے کہتی ہوں کہ اللہ نے دنیا میں9 باتیں ایسی صرف مجھ کو عطا کی ہیں جو میرے سوا کسی کو نہیں ملیں ۔‘‘ جہاد میں شرکت:غزوات میں غزوہ احداور غزوہ مصطلق میں حضرت عائشہؓ کی شرکت کاپتہ چلتاہے صحیح بخاری میں حضرت انس ؓ سے منقول ہے کہ میں نے حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلیمؓکودیکھاکہ مشک بھر بھر کرلاتی تھیں اورزخمیوں کو پانی پلاتی تھیں۔ (بخاری ج2ص581) آپؓ کو علمی صداقت اور احادیث روایت کرنے کے حوالے سے دیانت وامانت میں امتیاز حاصل تھا حافظہ بہت قوی تھا جس کی وجہ سے حدیث نبوی کے حوالے سے صحابہ کرام ؓکیلئے بڑا اہم مرجع بن چکی تھیں ۔ آپ ؓحدیث حفظ کرنے اور فتویٰ دینے کے اعتبار سے صحابہ کرام ؓسے بڑھ کر تھیں۔ آپؓنے دو ہزار دو سو دس (2210) احادیث روایت کرنے کی سعادت حاصل کی ۔دور ِنبویؐ کی کوئی خاتون ایسی نہیں جس نے آپؓسے زیادہ احادیث روایت کرنے کی سعادت حاصل کی ہو ۔ آپؓسے174 احادیث ایسی مروی ہیں جو بخاری ومسلم میں ہیں ۔ عِلم وزہد:رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدینؓ کی وفات کے بعد ایک دن آپؓکی خدمت میں آپؓکے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے1 لاکھ 80 ہزار درہم بطور ہدیہ بھیجے ، آپؓاس دن روزے سے تھیں چنانچہ اس رقم کو لوگوں میں تقسیم کرنا شروع کردیا ، شام ہونے تک ایک درہم بھی باقی نہ رہا ، افطار کے وقت باندی سے فرمایا: ’’میرے افطار کا انتظام کرو۔‘‘ وہ ایک روٹی اور تھوڑا تیل لے کر حاضرہوئی اور کہنے لگی آپؓ نے آج جو کچھ تقسیم کیا ہے اس میں سے ایک درہم کا گوشت خرید لیتیں تو اس سے افطار کر لیتیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہؓنے فرمایا’’ ناراض نہ ہو ، اگرتو مجھے یاد دلاتی تو شاید میں ایسا کر لیتی ۔‘‘ حضرت عروہ بن زبیرؓ جو حضرت عائشہ صدیقہؓکے بھانجے ہیں ، فرماتے ہیں ، میں نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓکو 70ہزاردرہم تقسیم کرتے دیکھا ہے جبکہ خود پیوند لگا کپڑا استعمال کرتی تھیں اور نیا نہیں پہنتی تھیں ۔ اسی طرح حضرت قاسم بن محمدؓ جو حضرت عائشہ صدیقہؓکے بھتیجے ہیں ،بیان کرتے ہیں کہ میں روزانہ ام المومنین کی خدمت میں سلام کرنے جاتا تھا ، ایک دن جب پہنچا تو دیکھا کہ وہ نماز میں اس آیت کو باربار پڑھ کر رو رہی ہیں ۔ فمن اللہ علینا ووقانا عذاب السمومِ (سور الطور: 27) ترجمہ : ’’سو اللہ نے ہم پر بڑا حسان کیا اور ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچالیا ۔‘‘میں وہاں کھڑے کھڑے تھک گیا اور اپنے کام سے بازار چلا گیا جب دوبارہ واپس آیا تو دیکھا کہ ام المومنین اسی طرح نماز پڑھ رہی ہیں اور اس میں زار و قطار رو رہی ہیں ۔ آپؓ کا یہ علم وزہد اور خوف و خشیت اور جودوکرم ہمارے لیے اعلیٰ نمونے ہیں توآئیے ہم بھی ام المومنین کے نقش ِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی حقیقی خالق و مالک کو راضی کریں ۔ وفات وتدفین: رمضان 55 یا 56 یا57 یا58ھ میں آپ ؓنے اس دنیا سے رحلت فرمائی اس وقت ان کی عمر64سال یا65یا67یا68سال میں تھی مہینے میں بھی اختلاف ہے کہ رمضان ہے یا شوال لیکن محقق قول 58ھ 17 رمضان المبارک ہے۔ نماز جنازہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے پڑھائی جو کہ اس وقت مروان بن حکم کی طرف سے مدینے کے گورنرتھے۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ نے وصیت فرمائی تھی کہ میراجناز ہ ر ات کے وقت میں اٹھایا جائے اورمجھے جنت البقیع میں دفن کیا جائے چنانچہ ایساہی کیاگیا ۔