مسجد اقصی


مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلہ اول اور خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجایش ہے جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ 2000ءمیں الاقصیٰ انتفاضہ (ایک تحریک کا نام جس میں غیر مسلوں کے مسجد اقصیٰ میں داخلے کو ممنوع کیا گیا) کے آغاز کے بعد سے یہاں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سفر معراج کے دوران میں مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاءکی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق (وہ جانور جس پر سوار ہو کر نبی معراج کی رات آسمان پر گئے) کے ذریعے سے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے

سورئہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: ”پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کورات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے۔ اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقینا اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے والا اوردیکھنے والا ہے ۔“ ( آیت نمبر 1) نبی کریم کے فرمان کے مطابق عبادت کی غرض سے دنیا میں صرف تین مسجدوں کی جانب سفر کرنا جائز ہے جن میں مسجد حرام، مسجد اقصٰی اور مسجد نبوی شامل ہیں۔ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور معراج میں نماز کی فرضیت کے بعد مسلمان16 سے 17 ماہ تک مسجد اقصٰی کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ قرار پایا۔

مسجد اقصیٰ کے نزدیک مسلمانوں کی تعمیرات

جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شہر سے روانگی کے وقت صخرہ (ہیکل سلیمانی کی چٹان) اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا، جہاں انہوں نے اپنے ہمراہیوں سمیت نماز ادا کی تھی۔ یہی مسجد بعد میں مسجد اقصٰی کہلائی کیونکہ قرآن مجید کی سورئہ بنی اسرائیل کے آغاز میں اس مقام کو مسجد اقصٰی کہا گیا ہے۔ اس دور میں بہت سے صحابہ نے تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔ اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجد اقصٰی کی تعمیر شروع کرائی اور خلیفہ ولید بن عبد الملک نے یہ تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔

عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہو گیا تو انہوں نے مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا۔ انہوں نے مسجد میں رہنے کے لیے کئی کمرے بنا لیے اور اس کا نام معبد سلیمان (حضرت سلیمان کی عبادت کی جگہ) رکھا، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں۔ انہوں نے مسجد کے اندر اور مسجد کے ساتھ ساتھ گرجا بھی بنا لیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1187ءمیں فتح بیت المقدس کے بعد مسجد اقصٰی کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیا اور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا۔

قبة الصخرة ہیکل سلیمانی کی چٹان یعنی قربانی کے پتھر کے اوپر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس پتھر کو یہود کے قبلہ کی حیثیت حاصل ہے لیکن اسلامی روایات میں اس کے لیے کوئی تقدس اور فضیلت ثابت نہیں۔ مستند تاریخی روایات کے مطابق سیدنا عمرؓ جب مسجد اقصیٰ میں تشریف لائے تو انہوں نے نومسلم یہودی عالم کعب احبار سے پوچھا کہ ہمیں نماز کے لیے کون سی جگہ منتخب کرنی چاہیے؟ کعب نے کہا کہ اگر آپ صخرہ کے پیچھے نماز پڑھیں تو سارا بیت المقدس آپ کے سامنے ہوگا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اس طرح یہود کے قبلے کی تعظیم بھی ہو جائے گی۔ اس پر سیدنا عمرؓ نے یہ کہہ کر ان کی تجویز مسترد کر دی کہ تمہارے ذہن پر ابھی تک یہودی اثرات موجود ہیں۔ اس پتھر کی تعظیم کا تصور بعد کے زمانے میں سیاسی مقاصد کے تحت باقاعدہ پیدا کیا گیا اور اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس پر ایک نہایت شاندار گنبد تعمیر کرنے کا حکم دیا

ولید کے اس اقدام کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے ابن خلکان لکھتے ہیں: ”جب عبد الملک خلیفہ بنا تو اس نے ابن زبیر کی وجہ سے اہل شام کو حج کرنے سے روک دیا کیونکہ ابن زبیر حج کی غرض سے مکہ مکرمہ آنے والے لوگوں سے اپنے لیے بیعت لیتے تھے۔ جب لوگوں کو حج سے روکا گیا تو انہوں نے بہت شور کیا چنانچہ عبد الملک نے بیت المقدس میں صخرہ کے اوپر عمارت بنا دی اور لوگ عرفہ کے دن یہاں حاضر ہو کر وقوف کی رسم ادا کرنے لگے۔“ (وفیات الاعیان ۳/۲۷)