”حضرت سلمہ بن محبق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کے پاس سواری ہو جو اسے رات تک کسی ایسی جگہ پہنچا سکتی ہو جہاں وہ اطمینان سے پیٹ بھر کر کھانا کھا سکتا ہو تو اسے چاہیے کہ جہاں بھی اس پر رمضان آ جائے، وہ روزہ رکھے۔“ (مشکوٰة، کتاب الصوم) یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مذکورہ صورت حال میں روزہ رکھنا لازم نہیں ہو جاتا۔ اس ضمن میں ایک اور حدیث ہے ۔ حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ، میں اپنے اندر اتنی قوت پاتا ہوں کہ سفر کی حالت میں بھی روزہ رکھوں۔ اگر میں ایسا کروں تو کیا میں گناہ گار ہوں گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو اللہ کی طرف سے ایک رعایت ہے،اگر کوئی شخص اس رعایت سے فائدہ اٹھائے تو اچھی بات ہے، لیکن اگر کوئی شخص روزہ رکھنا پسند کرے تو اس کے لیے کوئی گناہ نہیں۔ یعنی اگر ایک آدمی سفر کی مشکلات سے اچھی طرح آگاہ ہو، اس کے باوجود اپنے اندر ان مشکلات کو برداشت کرنے کی قوت پاتا ہو، اس کے سفر کے اسباب اچھے اور حالات بھی سازگار ہوں تو اسے روزہ رکھنا چاہیے، لیکن اگر وہ یہ سمجھتا ہو کہ اس کے اندر سفر کی حالت میں روزہ رکھنے کی طاقت نہیں ہے یا اس کو غیر معمولی سختی پیش آنے کا خدشہ ہے تو اس حالت میں وہ روزہ چھوڑ کر اللہ کی دی ہوئی رخصت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی معاملے میں رعایت دیں تو آدمی کے لیے بہتر یہ ہے کہ خود کو خواہ مخواہ تکلیف میں مبتلا نہ کرے اور اس رعایت سے پورا فائدہ اٹھائے