خلفائے راشدین


نام اور کنیت حضرت ابو بکر عام الفیل (وہ سال جس میں ابرہہ نے مکہ پر حملہ کیا) کے اڑھائی برس بعد 572 ءمیں پیدا ہوئے۔ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اڑھائی برس چھوٹے تھے۔ آپ کا نام عبد اللہ تھا اور کنیت ابو بکرؓ، والد کی کنیت ابو قحافہ اور نام عثمان بن عامر تھا۔ بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ اسلام لانے سے قبل آپ کا نام عبد الکعبہ تھا، لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام عبد اللہ رکھ دیا۔

قبیلہ

حضرت ابو بکرؓ قبیلہ تیم بن مرہ بن کعب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا نسب آٹھویں پشت میں مرہ پر جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔ آپ کا پیشہ تجارت تھا۔ آپ بہترین اخلاق کے مالک، رحم دل اور نرم خو تھے۔ عقل مندی ، دور اندیشی اور بلند فکری کے لحاظ سے مکہ کے بہت کم لوگ آپ کے ہم پلہ تھے۔ خلیفہ اول اور مردوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے آپ تھے۔آپؓ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کے والد تھے۔آپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ ہجرت کی۔ انہوں نے اپنی تمام دولت راہ خدا میں خرچ کر دی۔ اسلام لانے کے بعد آپ کی زیادہ تر زندگی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت میں گزری۔ جب نبی اکرم کی بیماری نے شدت اختیار کی تو آپ نے حکم دیا کہ ابو بکرؓ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ ایک دن ابو بکرؓ مدینہ سے باہر تشریف لے گئے تھے کہ نماز کا وقت ہو گیا۔ حضرت بلال نے حضرت ابوبکر کو نہ پا کر حضرت عمرؓ سے نماز پڑھانے کو کہا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ابوبکر کہاں ہیں؟ اللہ اور مسلمان یہ بات پسند کرتے ہیں کہ ابو بکر نماز پڑھائیں۔

زمانہ خلافت صدیقی

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا صدمہ اس قدرگہراتھا کہ اسے خود برداشت کر لینااورآپ کے بعد آپ کی غمگین امت کو درست سمت میں لے کر چلنا ایسا کارنامہ تھا جو حضرت ابو بکر ہی انجام دے سکتے تھے۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر ؓ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ مقرر ہوئے۔ خلافت کا منصب سنبھالتے ہی آپ کو مرتدوں کے فتنے اور اسامہ کے لشکر کی مشکل پیش آئی۔(مرتد اصطلاح میں اس شخص کو کہتے ہیں جو حضور ﷺ کے دور میں ایمان لا کر دوبارہ کافر ہو جائے ۔ اکثرعلما اس کو بھی مرتدکہتے ہیں جو اسلام چھوڑ کر غیر مسلم ہو جائے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عربوں کی بدوی فطرت بیدار ہو گئی۔ وہ مرکز مدینہ سے آزاد ہوکر دوبارہ کفر کی طرف لوٹنے کی تیاریاں کرنے لگے۔ بعض قبائل نے زکوٰة دینے سے انکار کر دیا۔ دوسری طرف اسامہ کے لشکر کا مسئلہ بن آیا۔ اس لشکر کو خود نبی اکرم نے شام کی سرحد پر رومیوں سے جنگ کے لیے تیار کیا تھا۔ لیکن اب بعض صحابہ اس لشکر کی روانگی کے خلاف تھے، جبکہ حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا کہ مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر مجھے یہ یقین ہو کہ جنگل کے درندے مجھے اٹھا کر لے جائیں گے تو بھی میں اسامہ کے اس لشکر کو روانہ ہونے سے نہیں روک سکتا۔اس کے علاوہ آپ کے زمانہ ¿ خلافت میں بہت سے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے بھی پیدا ہو گئے۔ آپ نے اپنی دور اندیشی اور فہم و فراست سے ان معاملات کو بڑے اچھے طریقے سے حل کیا۔ سیدنا ابو بکر نے اپنی خلافت کی ذمہ داریاں انتہائی تقویٰ و امانت کے ساتھ ادا کیں۔ احتیاط کا یہ عالم تھا کہ ان کی اہلیہ نے حلوہ کھانے کی فرمایش کی تو مسلمانوں کے بیت المال پر بوجھ ڈالنا منظور نہ کیا، بلکہ روزانہ ملنے والے وظیفے میں سے کچھ رقم پس انداز کی تب حلوہ بنایا ۔ آپ کا دور خلافت تقریباً ستائیس ماہ رہا۔آپ کے دور خلافت میں مسلمانوں کومتعدد فتوحات ہوئیں۔

وفات اور مدفن

آپؓ (22جمادی الثانی 13ھ)23اگست 634 میں مدینہ میں فوت ہوئے ۔ اپنی وفات سے پہلے آپ نے مسلمانوں کو ترغیب دی کی وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ تسلیم کر لیں۔ لوگوں نے آپ کی ہدایت پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ تسلیم کر لیا۔ وفات کے وقت آپ کی عمر مبارک 61 سال تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی ٰعنہ کو وفات کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روضہ مبارک میں آپ کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا جو کہ ایک بہت بڑی سعادت تھی۔

حضرت عمر بن خطاب کی تاریخ پیدائش معلوم نہیں، البتہ ہجرت کے وقت آپ کی عمر چالیس سال سے کچھ کم تھی۔ اس حساب سے وہ عام الفیل کے 13 سال بعد اور حرب فجار (عربوں کے کچھ مہینے ایسے تھے جن میں وہ جنگ کرنا حرام سمجھتے تھے، یہ جنگ انھی حرام مہینوں میں ہوئی ۔ اس لیے اسے حرب فجار (برائی کی جنگ) کہا جاتا ہے۔ یہ جنگ دو عرب قبیلوں قریش اور قیس کے درمیان ہوئی تھی) کے 4 سال بعد پیدا ہوئے ہوں گے۔ عیسوی حساب سے ان کا سن پیدائش قریباً 571ءبنتا ہے۔ آپ کا نام مبارک عمر ہے اور لقب فاروق، کنیت ابو حفص، لقب وکنیت دونوں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے عطا کردہ ہیں۔ آپ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جا ملتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔ایک مشہور روایت کے مطابق آپ نے بعثت نبوی کے چھٹے سال ہجرت سے ۴ سال قبل ذو الحجہ کے مہنیے میں اسلام قبول کیا۔

ابتدائی زندگی

آپ مکہ میں پید ا ہوئے اور ان چند لوگوں میں سے تھے جو لکھ پڑھ سکتے تھے۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو ابتدا میںحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی سخت مخالفت کی۔ آپ کی دعا سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام قبول کر لیا۔ اس لےے آپ کو مراد رسول بھی کہا جاتا ہے. ہجرت کے موقع پر کفار مکہ کے شر سے بچنے کے لیے سب نے خاموشی سے ہجرت کی مگر آپ کی غیرت ایمانی نے چھپ کر ہجرت کرنا گوارہ نہیں کیا۔آپ نے تلوار ہاتھ میں لی، کعبہ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کر کے کہا :تم میں سے اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی بیوی بیوہ ہوجائے، اس کے بچے یتیم ہوجائیں تو وہ مکہ سے باہر آکر میرا راستہ روک کر دیکھ لے مگر کسی کافر کی ہمت نہ پڑی کہ آپ کا راستہ روک سکتا۔ رسول کریم نے آپ کے حوالے سے فرمایا:”اگر میرے بعد کوئی اور نبی مبعوث ہونا ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔“ ایک اور موقع پر فرمایا: ”جس راستے پر عمر ہو وہاں سے شیطان راستہ بدل لیتا ہے۔“ مزید ایک موقع پر فرمایا : ”اللہ نے عمر کی زبان پر حق کو جاری کردیا ہے۔“

دور خلافت

مرض الموت میں حضرت ابوبکر صدیق نے خلیفہ کا انتخاب کرنا ضروری سمجھا۔ آپؓ نے حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت عثمان، حضرت سعید بن زید اور دوسرے اصحاب رسول کے مشورے سے حضرت عمر بن خطاب کو اپنا جان نشین مقرر کیا۔ آپ کی بیعت کا سلسلہ تین دن تک چلتا رہا۔ حضرت عمر اہل ایمان کے ساتھ اولاد کا سا برتاوکرتے تھے۔ انھیں ہر دم خوش دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے دکھوں کا اسی طرح مداوا کرتے جس طرح ایک باپ کرتا ہے۔ آپؓ کے دور خلافت میں ایک دفعہ قحط پڑ گیا۔ جس کی وجہ سے کئی امراض پھیل گئے کئی لوگ چل بسے اور کئی بیمار پڑ گئے۔ آپ مریضوں کا علاج معالجہ اورمردوں کی تجہیز و تکفین خود کراتے۔ آپ ؓ رات کو گلی کوچوں میں چکر لگاتے اور اپنی رعایا کی خبری گیری رکھتے اور اگر کسی کو مصیبت میں مبتلا پاتے تو خود اس کی مدد کرتے۔ عدل فاروقی ضرب المثل مانا جاتا ہے۔ اس لیے کہ حضرت عمر میں حد درجہ اللہ تعالیٰ کا خوف پایا جاتا تھا۔ آپ کے عہد خلافت میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ فتوحات ہوئیں۔ عہد فاروقی میں قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں اور مصر و شام کے علاقے بھی اسلامی ریاست کے ماتحت ہو گئے۔ بیت المقدس کی فتح بھی آپ ؓ کی بہادری اور فہم و فراست کا نتیجہ تھی۔ ان کے دور میں اسلامی مملکت 28 لاکھ مربع میل کے رقبے پر پھیل گئی۔

وفات

آپ کی عمر کے بارے میں 53 سے لے کر 63 سال تک کے اقوال پائے جاتے ہیں۔ آپ کا دور خلافت 10سال سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ بدھ 26 ذو الحجہ 23 ھ کی فجر ہوئی۔ سیدنا عمر ؓ نماز پڑھانے مسجد نبوی میں آئے۔ ابھی صفیں سیدھی نہ ہوئی تھیں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ کے عیسائی غلام ابو لولو فیروز نے آپ پر اچانک حملہ کر دیا۔ اس نے چھ وار کیے، ایک زیر ناف لگا جو مہلک ثابت ہوا۔جمعرات 27 ذی الحجہ کی صبح آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلومیں دفن کر دیا گیا۔

ضرت عثمان رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے چھ سال چھوٹے تھے۔ عام الفیل کے چھ برس بعد 576 ءمیں مکہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نام عثمان، کنیت ابو عبد اللہ اور ابو عمرو تھی۔ والد کا نام عفان تھا۔ قریش کی شاخ بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ پانچویں پشت عبد مناف پر ان کا نسب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شجرے سے جا ملتا ہے۔ آپ نے زمانہ جاہلیت ہی میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ بڑے نیک فطرت تھے۔ جاہلیت کی کسی برائی سے دامن آلودہ نہ ہوا۔ آپ کا پیشہ تجارت تھا۔ آپ پہلے اسلام قبول کرنے والے لوگوں میں شامل ہیں۔ آپ ایک خدا ترس اور غنی انسان تھے۔ آپ فراخ دلی سے اللہ کی راہ میںدولت خرچ کرتے، اسی بنا پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ کو غنی کا خطاب دیا۔مسلمانوں نے جب پہلی ہجرت حبشہ کی تو اس میں آپؓ بھی شامل تھے۔ آپ کو ذوالنورین (دو نوروں والا) اس لیے کہا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحب زادیاں حضرت رقیہؓ اور حضرت ام کلثوم آپ کے عقد نکاح میں آئیں۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ انھیں ملاءاعلیٰ میں بھی ذو النورین پکارا جاتا ہے۔یہ وہ واحد اعزاز ہے جو کسی اور حاصل نہ ہوسکا۔

خلافت

خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ تندرست تھے کہ کچھ اہل ایمان نے انھیں اپنا جانشین مقرر کرنے کا مشورہ دیا۔ وہ سوچ میں پڑ گئے کچھ غور و فکر کے بعد انھیں اندیشہ ہوا کہ اگر اہل ایمان کی رہنمائی نہ کی گئی تو وہ اختلاف میں مبتلا جائیں گے۔ چنانچہ انھوں نے کسی فرد کو نامزد کرنے کے بجائے عشرہ مبشرہ (وہ صحابی جن کو دنیاہی میں جنت کی بشارت دے دی گئی تھی) میں سے چھ صحابہ حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت زبیر بن العوام،حضرت طلحہ بن عبید، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبد الرحمان بن عوف کی مجلس بنانا پسند کی اور فرمایا کہ تم باہمی رضا مندی اور آپس میں سے کسی کو خلیفہ منتخب کر لو۔ چنانچہ اس موقع پر حضرت عثمان کا بطور خلیفہ کے انتخاب عمل میں آیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اسلام کے تیسرے خلیفہ راشد تھے۔ آپ نے بارہ سال خلافت کی ذمہ داریاںانجام دیں۔ آپ کے دور خلافت میں ایران اور شمالی افریقہ کا بہت سا علاقہ اسلامی سلطنت میں شامل ہوا۔ آپ نے خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے لوگوں کے وظائف بڑھانے کا فیصلہ کیا۔

شہادت

اسلام کے دشمنوں خاص کر مسلمان نما منافقوں کو خلافت راشدہ ایک نظر نہ بھاتی تھی۔ یہ منافق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی دنیوی بادشاہوں کی طرح یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ بھی اپنا کوئی ولی عہد مقرر کر یں گے۔ان منافقوں کی ناپاک خواہش پر اس وقت کاری ضرب لگی جب امت نے حضرت ابوبکر کو اسلام کا پہلا متفقہ خلیفہ بنا لیا۔حضرت ابو بکر کی خلافت راشدہ کے بعد امت نے کامل اتفاق سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ اسلام چن لیا۔حضرت عمر کے بعد آپ کا خلافت کا منصب سنبھالنا بھی ان منافقوں کے لئے جان لیوا صدمے سے کم نہ تھا۔ انھوں نے آپ کی نرم دلی کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور آپ کو شہید کرنے کی ناپاک سازش کی اور ایسے وقت میں کاشانہ خلافت کا محاصرہ کیا جب اکثر صحابہ کرام حج کے لیے مکہ گئے ہوئے تھے۔ آپ نے اپنی جان کی خاطر کسی مسلمان کو مزاحمت کرنے کی اجازت نہ دی۔اور چالیس روز تک بند رہے۔18 ذوالحج کو باغی آپ کے گھر میں داخل ہو گئے اور آپ کو اس وقت شہید کردیا جب آپ قرآن پاک کی تلاوت فرما رہے تھے۔اس دلخراش سانحہ میں آپ کی زوجہ محترمہ حضرت نائلہ رضی اللہ عنہا کی انگلیاںمبارک بھی شہید ہو گئیں۔

آپ کا نام علی بن ابی طالب اور کنیت ابو الحسن اور ابو تراب ہے ۔ اسد اللہ، حیدر اور المرتضیٰ آپ کے القاب ہیں۔ حضرت علی -599) (661 رجب کی تیرہ تاریخ کو شہر مکہ میں خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے ۔(آپ کی ولادت کی تاریخ کے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں ملتی، بعض مورخین کے نزدیک آپ کی ولادت عام الفیل کے سات سال بعد ہوئی۔ بعض کے نزدیک آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے تیس سال بعد پیدا ہوئے اور بعض کے نزدیک آپ کی ولادت بعثت نبوی سے دس برس قبل ہوئی۔ ) آپ کے والد کا نام ابوطالب اور والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد ہے۔ حضرت علی ؓ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا زاد بھائی ہیں بچپن میں پیغمبر کے گھر آئے اور وہیں پرورش پائی ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر نگرانی آپ کی تربیت ہوئی ۔قبول اسلام کے وقت آپ کی عمر تقریباً گیارہ بارہ برس تھی۔

خلافت علی اور اس کے خصائص

پچیس برس تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے گوشہ نشینی میں بسر کی۔ 35ھ میں حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد اس وقت مدینہ میں موجود لوگوں نے آپ کو خلیفہ بنا لیا۔ آپ کی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ بھی جنگیں ہوئیں۔ وجہ یہ تھی کہ ان دونوں کا خیال تھا کہ حضرت علیؓ کو پہلے حضرت عثمان ؓ کے قاتلوں کو پکڑنا چاہےے اور پھر خلیفہ کا فیصلہ ہونا چاہےے جبکہ حضرت علیؓ فرماتے تھے کہ پہلے میری بیعت کرو پھر قاتلوں کے خلاف کارروائی ہوگی ۔ یہ اختلاف شدت اختیار کر گیا اور حکومت دو بڑے گروہوں میں بٹ گئی۔ ایک کے لیڈر حضرت علیؓ اور دوسرے کے حضرت امیر معاویہ ؓ تھے۔ اسی وجہ سے آپ کے دور خلافت میں مسلمانوں ہی کے خلاف جو دو مشہور جنگیں ، جنگ جمل (یہ جنگ حضرت علی اور حضرت عائشہ کے درمیان ہوئی) اور جنگ صفین (یہ جنگ حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ کے درمیان صفین کے مقام پر ہوئی) ہوئی۔اس خانہ جنگی کی وجہ سے آپ کو موقع نہ مل سکا کہ آپ سکون اور اطمینان سے حکومت کرتے ۔ فتوحات کا سلسلہ تو تقریباًبالکل رک گیا۔ پھر بھی آپ نے اس مختصر مدت میں اسلام کی سادہ زندگی ،مساوات اور نیک کمائی کے لیے محنت ومزدوری کی تعلیم کے نقش تازہ کردیے۔

آپ خلیفہ اسلام ہونے کے باوجودکھجوروں کی دکان پر بیٹھنا اور اپنے ہاتھ سے کھجوریں بیچنا برا نہیں سمجھتے تھے۔پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتے تھے ،غریبوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھاناکھالیتے تھے ، جو روپیہ بیت المال میں آتا تھا اسے تمام مستحقین پر برابر تقسیم کرتے تھے ، یہاں تک کہ آپ کے سگے بھائی عقیل نے یہ چاہا کہ انہیں دوسرے مسلمانوں سے زیادہ مل جائے مگر آپ نے انکار کردیا اور کہا کہ اگر میرا ذاتی مال ہوتا تو یہ ہو سکتا تھا مگر یہ تمام مسلمانوں کا مال ہے۔مجھے حق نہیں ہے کہ میں اس میں سے کسی اپنے عزیز کو دوسروں سے زیادہ دوں ۔ اگر کبھی بیت المال میں شب کے وقت حساب وکتاب میں مصروف ہوئے اور کوئی ملاقات کے لیے آ کر غیر متعلق باتیں کرنے لگا تو آپ نے چراغ بھجادیا کہ بیت المال کے چراغ کو میرے ذاتی کام میں صرف نہیں ہونا چاہیے ، آپ کی کوشش یہ رہتی تھی کہ جو کچھ بیت المال میں آئے وہ جلد حق داروں تک پہنچ جائے۔آپ اسلامی خزانے میںمال کاجمع رکھنا پسند نہیں فرماتے تھے

شہادت

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو 19 رمضان 40ھ کو صبح کے وقت مسجد میں عین حالتِ نماز میں ایک زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے زخمی کیا گیا۔ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لایا گیا اور آپ نے دیکھا کہ اس کا چہرہ زرد ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں تو آپ کو اس پر بھی رحم آ گیا اور اپنے دونوں فرزندوں حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو ہدایت فرمائی کہ یہ تمہارا قیدی ہے۔ اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا۔ اگر میں اچھا ہو گیا تو مجھے اختیار ہے میں چاہوں گا تو سزا دوں گا اور چاہوں گا تو معاف کردوں گا اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور تم نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضرب لگانا، کیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضرب لگائی ہے اور ہر گز اس کے ہاتھ پائوں وغیرہ نہ کاٹے جائیں، اس لیے کہ یہ تعلیم اسلام کے خلاف ہے، دو روز تک حضرت علی رضی اللہ عنہ بستر بیماری پر انتہائی کرب اور تکلیف کے ساتھ رہے آخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور21 رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی وفات ہوئی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ ا ور حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے تجہیزو تکفین کی اور کوفہ میں نجف کی سرزمین میں دفن کیے گئے۔