انسان اللہ تعالیٰ کی بہترین تخلیقات میں سے ایک ہے۔ خطہ زمین پر پائی جانے والی یہ واحد مادی مخلوق ہے جس کوسب سے زیادہ اختیارات دیے گئے۔ حتیٰ کہ اللہ سے محبت اور اس کی اطاعت کرنے کا اختیار بھی انسان پر چھوڑ دیا گیا۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان بہت سے اختیارات رکھنے کے باوجود بڑا بے اختیاراور کمزور ہے۔ اللہ اورانسان کے رشتے کے علاوہ اور بھی رشتے تخلیق کر دیے گئے جیسا کہ ماںباپ کااولادسے رشتہ، بہن کا بھائی سے رشتہ۔ اور پھر دنیا میں رشتے بڑھتے چلے گئے اور رشتوں کے ساتھ ساتھ ان سے وابستہ امیدیں بھی بڑھتی گئیں۔مگر جب امیدیں دم توڑنے لگیں تو اس کے ساتھ ہی رشتے بھی دم توڑنے لگے ۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر رشتوں کے ساتھ امیدیں لگانا چھوڑ دیں تو رشتے ٹوٹنے سے بچ سکتے ہیں، لیکن انسان امیدیں لگانا کیسے چھوڑے؟ اللہ چاہتا ہے کہ صرف اسی سے امید لگائی جائے ۔کیونکہ انسان اتنا مکمل اور طاقت ور نہیں کہ اپنے ساتھ وابستہ تمام امیدوں کو پورا کر سکے۔ دنیوی رشتے بنتے ٹوٹنے رہتے ہیں لیکن ایک رشتہ کبھی نہیں ٹوٹتا اور وہ اللہ اور انسان کا رشتہ ہے ۔کتنی ہی نافرمانی کے بعد جب انسان اللہ کی طرف ایک قدم بھی آگے بڑھاتا ہے تو اللہ اس کی طرف دو قدم آگے بڑھاتا ہے۔ دنیوی رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔انسان کا اللہ سے رشتہ نہیں ٹوٹتا۔ اس کی وجہ وہ یقین ہے جو انسان اللہ پر کرتا ہے۔ انسان جانتا ہے کہ اگر اللہ چاہے تو میری ہر امید اور دعا پوری کر سکتا ہے جیسا کہ حضرت علی نے فرمایا کہ ” اللہ سے جو چاہو مانگو کیونکہ ممکن یا نا ممکن تو ہمارے نزدیک ہے اللہ کے نزدیک تو کچھ بھی ناممکن نہیں۔ “

اس لئے اگر اس دنیا میں سچی خوشی چاہیے تو اللہ سے امیدیںلگانی چاہئیں اور انسانوں سے امیدیں کم کر دینی چاہئیںاور جوامیدیں انسانوں سے وابستہ کریں،وہ بھی اللہ سے دعا کی صورت میں مانگنی چاہئیں اور اگر ہمارے جیسے نامکمل انسان ہماری امیدوں کو پورا نہ کر پائیں تو اسے قدرت کی حکمت سمجھ کر قبول کر لینا چاہیے اور دوسروں سے کیے گئے اچھے سلوک کا ریوارڈاللہ تعالیٰ سے مانگنا چاہیے کیونکہ ایک نا مکمل ، کمزور اور محدود اختیارات کا حامل انسان دوسرے انسان کی ساری امیدوں کو پورا نہیں کر سکتا ۔اس لیے آس اسی سے لگانی چاہیے جس کے پاس دینے کا پوراپورا اختیار ہے۔ رمضان المبارک کا رحمتوں بھرا مہینا جلوہ افروزہوچکاہے۔قرآن مجید کے نزدیک اللہ کی رحمت سے مایوسی کفر ہے ۔ آئیے اس مہینے کی رحمتوں کو صحیح معنوں میں اپنے دامن میں مستقل طو رپر سمیٹ لیں اور اس بات کا پختہ عہد کریں او راپنی عادت ہی بنا لیں کہ آئندہ اصل امید اللہ ہی سے لگائیںگے۔