روضہ رسول ﷺ


روضہ رسول کے اندر جانے پر پابندی کے باعث یہ اندازہ لگانا کہ اس کے اندر کیا کچھ ہے ، بے حد دشوار ہے۔ اس کے بارے میں جو تفصیلات معلوم ہوئی ہیں وہ کچھ ا س طرح سے ہیں: یہ وہ حجرہ ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعدزندگی بسر کی اور وہیں وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور وہیں دفن ہوئے۔ یہ حجرہ مسجد نبوی کی توسیع کے بعد کم وبیش درمیان میں آگیا ہے، ابتدا میں جب مسجد تعمیر کی گئی تو یہ اس کی مشرقی سمت میں تھا اور اس کا دروازہ مغربی سمت میں کھلتا تھا ، جس سے حضور ﷺمسجد میں داخل ہوتے تھے۔ اسی جگہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر اور میرے منبرکے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک اس کمرے کی جنوبی سمت میں واقع ہے ۔حضور ﷺکے ساتھ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قبریں ہیں۔ اس حجرے کے ۶ دروازے ہیں۔

حضرت عمر بن عبد العزیز نے اس کے اردگرد پانچ اضلاع کی دیوار بنا دی تھی تاکہ نماز پڑھتے ہوئے لوگوں کا رخ حجرے کی طر ف نہ ہو۔ صدیوں سے اس حجرے کی دیواروں پر غلاف چڑھایا جاتا ہے،یہ غلاف خالص ریشم سے تیار کیا جاتا ہے۔ اس کے اوپر سرخ ریشم کی ایک پٹی ہے ۔ اس کے اوپر سورئہ فتح کی آیات سونے کی تاروں سے لکھی گئی ہیں۔ عباسی دور میں عباسی خلفا اس غلاف کو مصر سے بنواتے تھے ۔ کئی اسلامی ممالک کو روضہ رسول کے لیے غلاف تیار کرنے کی سعادت نصیب ہوئی، مثلاً ترکی ، مصر، ہندوستان وغیرہ۔ سعودی سلطنت کے قائم ہونے کے بعد عبدالعزیز بن آل سعود نے اس مقصد کے لیے ایک فیکٹری قائم کی، اس فیکٹری میں خانہ کعبہ کے لیے ہر سال ایک غلاف تیار ہوتا ہے۔ یہیں روضہ رسول کے لیے بھی غلاف تیار کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ سرخ ریشم کے کچھ اور ٹکڑے بھی ہیں جن پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابو بکر اور حضرت عمرکی قبروں کے حوالے سے اشارات لکھے ہوئے ہیں۔روضہ رسول کا غلاف ، غلاف کعبہ کی طرح ہر سال تبدیل نہیں کیا جاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ موسم کی سختیوں اور انسانی ہاتھ کے ساتھ لگنے سے محفوظ رہتا ہے۔ یہ اسی وقت تبدیل کیا جاتا ہے جب اس کی ضرورت محسوس ہو۔ روضہ رسول کے حجرے کے اندر پرانے چراغ موجود ہیں جو قدیم زمانے سے وہاں تحفہ کے طور پر بھیجے جاتے رہے ہیں

آب زمزم

مسجد حرام میں کعبہ کے جنوب مشرق میں تقریباً 21 میٹر کے فاصلے پر تہ خانے میں آب زمزم کا کنواں ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ علیہ السلام کے شیر خوار بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیاس بجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک معجزے کی صورت میں مکہ مکرمہ کے ایسے علاقے میں جہاں اس وقت نہ پانی تھا اور نہ سبزہ ، جاری کیا جو وقت کے ساتھ سوکھ گیا تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب نے اشارہ خداوندی سے اسے دوبارہ کھدوایا جوآج تک جاری و ساری ہے۔ آب زمزم کا سب سے بڑا دہانہ حجر اسود کے پاس ہے جبکہ اذان کی جگہ کے علاوہ صفا و مروہ کے مختلف مقامات سے بھی نکلتا ہے۔ 1953ءتک تمام کنوﺅں سے پانی ڈول کے ذریعے سے نکالاجاتا تھا مگر اب مسجد حرام کے اندر اور باہر مختلف مقامات پر آب زمزم کی سبیلیں لگادی گئی ہیں۔ آب زمزم کا پانی مسجد نبوی میں بھی عام ملتا ہے اور حجاج کرام یہ پانی دنیا بھر میں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔

حجر اسود

کعبہ کے جنوب مشرقی رکن (مشرق کی طرف والے کونے) پر نصب تقریباً اڑھائی فٹ قطر کے چاندی کے فریم میں لگے ہوئے مختلف شکلوں کے8 چھوٹے چھوٹے سیاہ پتھر ہیں ، جنھیں موم کے ساتھ جوڑا گیا ہے ۔ ان کے بار ے میں عقیدہ ہے کہ حضرت ابراہیم جب کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے تو اس وقت اسے حضرت جبرائیل علیہ السلام جنت سے لائے تھے اور بعد ازاں تعمیر قریش کے دوران میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس جگہ نصب کیا تھا اور ایک بہت بڑے فساد سے اپنی قبیلہ قریش کو بچایا تھا۔ یہ مقدس پتھر حجاج بن یوسف کے کعبہ پر حملے میں ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا تھا جسے بعد میں چاندی کے فریم میں لگا دیا گیا۔ کعبہ شریف کا طواف بھی حجر اسود سے شروع ہوتا ہے ۔اگر ممکن ہو تو ہر چکر پر حجر اسود کو بوسہ دینا چاہئے ورنہ دور ہی سے ہاتھ کے اشارے سے بوسہ دیا جاسکتا ہے۔

مقام ابراہیم

خانہ کعبہ سے تقریباً سوا تیرہ میٹر مشرق کی جانب مقام ابراہیم قائم ہے۔ یہ وہ پتھر ہے جو بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے قد سے اونچی دیوار قائم کرنے کے لئے استعمال کیا تھا تاکہ وہ اس پر کھڑے ہوکر دیوار تعمیر کریں۔ 1967ءسے پہلے اس مقام پر ایک کمرہ تھا مگر اب یہ پتھر سونے کی ایک جالی میں بند ہے۔ اس مقام کو مصلیٰ کا درجہ حاصل ہے اور امام کعبہ اسی کی طرف سے کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھاتے ہیں۔ طواف کے بعد یہاں دو رکعت نفل پڑھنے کا حکم ہے

حطیم

کعبہ کی موجودہ عمارت کی آخری بار تعمیر1996ءمیں ہوئی اور اس کی بنیادوں کو نئے سرے سے اٹھایا گیا ۔ کعبہ کی سطح طواف کرنے کی جگہ(مطاف) سے تقریباً دو میٹر بلند ہے اور یہ عمارت 14 میٹر اونچی ہے۔ کعبہ کی دیواریں ایک میٹر سے زیادہ چوڑی ہیں جبکہ اس کے شمال کی طرف نصف دائرے میں جوجگہ ہے اسے حطیم کہتے ہیں۔ اس میں تعمیرِ ابراہیمی کی تین میٹر جگہ کے علاوہ اس مکان کی جگہ بھی شامل ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت ہاجرہ علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے رہنے کے لئے بنایا تھا اسے باب اسماعیل کہا جاتا ہے۔

خانہ کعبہ کااندرونی منظر

خانہ کعبہ کے اندر تین ستون اور دو چھتیں ہیں۔ باب کعبہ کے متوازی ایک اور دروازہ تھاجس کی دیوار میں نشان نظر آتا ہے یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا کیا کرتے تھے۔ کعبہ کے اندر رکن عراقی ( شمال کی طرف کونے )کے پاس باب توبہ (توبہ کا دروازہ) ہے، اس کے ساتھ المونیم کی 50 سیڑھیاں ہیں جو کعبہ کی چھت تک جاتی ہیں۔ چھت پر سوا میٹر کا شیشے کا ایک حصہ ہے جو قدرتی روشنی اندر پہنچاتا ہے۔ کعبہ کے اندرونی حصہ کی سنگ مرمر کے پتھروں سے تعمیر ہوئی ہے اور قیمتی پردے لٹکے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں ایک صندوق بھی ہے جس میں قدیم تحائف ہیں۔

خانہ کعبہ کی قدیم تعمیر

امام حمیدالدین فراہی کی تحقیق کے مطابق خانہ کعبہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر بننے والا پہلا عبادت خانہ ہے ۔ اور حضرت ابراہیمؑ بابل سے اللہ کے حکم سے اسی تلاش میں نکلے تھے۔ تقریباً چھ ہزار سال پہلے جب اللہ کے حکم سے وہ یہاں آئے تو خانہ کعبہ وقت کے ساتھ ساتھ اور سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے گر چکا تھا اوراِس کا نام ونشان بھی باقی نہ رہا تھا۔ پروردگار سے وحی پاکر حضرت ابراہیمؑ نے اِس کی پرانی بنیادیں دریافت کیں اور اپنے فرزنداسمٰعیل کی مدد سے بغیر چھت کے ایک عمارت کھڑی کردی۔ اُن کے مقدس ہاتھوں کی یہ تعمیر بھی گردش ایام سے محفوظ نہ رہی اوربالآخر منہدم ہوگئی۔ اِس کے بعدپہلے عمالقہ ( ایک عرب قبیلہ جس نے مصر پر بھی حکومت کی) نے اور پھرقبیلۂ جرہم (یہ یمن کا خانہ بدوش قبیلہ تھا جو سب سے پہلے مکہ آ کر آباد ہوا) نے اِسے تعمیر کیا۔ بعض حادتاث کی وجہ سے بنو جرہم کی بنائی ہوئی عمارت بھی گر گئی تو قریش نے اِس کی تعمیر نو کا بندوبست کیا، لیکن سرمایہ کم پڑجانے کی وجہ سے یہ عمارت اصل ابراہیمی بنیادوں پر قائم نہ ہو سکی۔ یہ واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پانچ سال پہلے پیش آیا۔ چنانچہ آپ بھی تعمیر کے اِس کام میں شریک رہے ، بلکہ مورخین کا بیان ہے کہ حجراسود کے دوبارہ نصب کرنے کا جھگڑا آپ ہی کی حسن تدبیر سے طے ہوا۔ روایتوںمیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر سیدہ عائشہ کے سامنے اپنی اِس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ قریش کی دل جوئی مطلوب نہ ہوتی تو اِس کا جو حصہ عمارت سے باہر رہ گیا ہے، جسے حطیم کہا جاتا ہے، آپ اُسے عمارت میں شامل کر کے خانہ کعبہ کو اُس کی اصل ابراہیمی بنیادوں پر قائم کردیتے۔حضرت عبداللہ بن زبیر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اِسی خواہش کے پیش نظر قریش کی بنائی ہوئی عمارت کو گرا کر اپنے زمانۂ خلافت میں اِسے نئے سرے سے تعمیر کیا تھا ، لیکن حجاج بن یوسف نے جب اُن کے خلاف جنگ میں پتھراؤ کیا تو یہ عمارت بھی ٹوٹ گئی۔ اُن کی شہادت کے بعد اُس نے عبدالملک بن مروان کے حکم سے اِس کو گرا کر ایک مرتبہ پھر قریش کی قائم کی ہوئی بنیادوں پرتعمیر کردیا۔ اِس کے بعد سے یہ اِسی طرح قائم ہے۔

خانہ کعبہ

خانہ کعبہ وہی عبادت گاہ ہے جسے قرآن میں ’ البیت‘ ، ’البیت العتیق‘اور ’المسجد الحرام‘ کے نام سے بیان کیا گیا ہے۔ اِس کی عمارت چونکہ مکعب (چوکور)بنائی گئی ہے، اِس لیے اِسے خانہ کعبہ بھی کہتے ہیں۔ یہ سرزمین عرب کے شہر مکہ میں واقع ہے۔ قرآن میں اِس شہر کا نام ’بکة‘بھی آیا ہے۔ یہ مسلمانوں کا قبلہ ہے ۔ تمام مسلمان اس کی طرف رخ کرکے عبادت کرتے ہیں۔ صاحب حیثیت مسلمانوں پر زندگی میں ایک مرتبہ بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے