دوسرے جس شے کو حقیر سمجھ کر ٹھکرا دیںگے قرآن کا طالبعلم اس کو حرزجاں بنا کر گرہ کرے گا۔یہ اس لیے کہ دوسروں کے پاس کوئی تجربہ نہیں ہے لیکن اس کے پاس بے شمار تجربات کی رہنمائی ہے ۔ وہ اس سمندر کے عجائب سے واقف ہے ، دوسرے اس منزل کی رسم وراہ سے واقف نہیں ہیں۔ عرب جاہلیت کی تاریخ:قرآن مجید کے تدبر میں عہدِ نزولِ قرآن اور قدیم عرب اور ان سے متعلق اقوام کی تاریخ سے واقفیت بھی ایک ضروری عنصر ہے۔قرآن کی بے شمار آیتیں عرب کی قدیم تاریخ اور اس سے متعلق اقوام اور جماعتوں کے احوال وایام کی طرف اشارے کرتی ہیں اور یہ اشارات بالعموم اس قدر مجمل ومبہم ہیں کہ ان کا صحیح تصور ذہن میں قائم ہونا اس وقت تک مشکل ہو جاتا ہے جب تک ان قوموں کی تاریخ سے واقفیت نہ ہو بلاشبہ جہاں تک قرآن مجید کی تعلیمات کے سمجھ لینے کا تعلق ہے یہ ابہام و اجمال مانع نہیں ہوتا ہے،لیکن ان اشارات کے صحیح تصور سے کلام کی تاثیر میں ایسا اہم اضافہ ہو جاتا ہے کہ اس سے اغماض نہیں برتا جا سکتا ،بلکہ ہو سکتا ہے کہ قرآن کی جن سورتوں کو سن کر عہدِ نزولِ قرآن میں ایک عرب بے خود ہو جاتا ہو ہمارے لیے وہ محض اس وجہ سے بالکل بے اثر ہو کر رہ جائیں کہ ان کے اندر جو اشارات ہیں ہم ان کے صحیح تصور سے محروم ہیں۔ پھر قرآن مجید کے نزول پرپوری چودہ صدیاں گزر چکی ہیں اور ہم کو اسے موجودہ دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے ۔قرآن کے عہدِ نزول میں جو واقعات واحوال ہر شخص کے جانے بوجھے ہوئے تھے موجودہ دنیا کیلئے لا معلوم ہیں اور علم وتحقیق کی ترقیوں نے آج کسی امر کے ردو قبول کا معیار اس قدر بلند کر دیا ہے کہ جب تک اس عہد کی پوری دنیا اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ لوگوں کے سامنے نہ رکھ دی جائے لوگ اس کو کوئی وزن ہی نہیں دیں گے۔ علاوہ ازیں اس عہد کی تاریخ کی بے شمار چیزیں ہم کو اس لیے بھی معلوم ہونی چاہئیں کہ ان کے جانے بغیر قرآن مجید کی تعلیمات کا اصلی وزن نہیں معلوم ہو سکتا ،مثلاً اُس عہد کی تمدنی حالت ،اُس عہد کے سیاسی رجحانات ، اُس زمانے کے مذہبی عقائد و تصورات اور اخلاقی معیارات وغیرہ ،نیز زمانۂ نزول ِقرآن میں مختلف قوموں کے باہمی تعلقات کی نوعیت اُن کے دستورو مراسم کی کیفیات ،ان کے اصنام کی خصوصیات اور تمدن وسیاست پر ان کے اثرات وغیرہ۔ قرآن مجید پر غور کرنے والوں کو ،اگر ان کا فکر و نظر صحیح نہج پر ہے،ان امور کے متعلق طرح طرح کے شبہے پیدا ہوتے ہیں اور نہایت بدقسمتی کی بات ہے کہ ایک تفسیر بھی ایسی نہیں ہے جو ان چیزوں کے متعلق ہماری کوئی رہنمائی کرسکے ۔عرب کی تاریخ سے متعلق ہمارے پاس جو معلومات ہیں وہ نہایت مسخ شدہ ہیں۔قرآن کے تدبر میں ان سے کوئی مدد ملنا تو درکنار الٹے ان سے طرح طرح کی غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔اس وجہ سے اس معاملے میں بھی صحیح مسلک یہی ہے کہ اصلی معتمد قرآن مجید ہی کو بنایا جائے اور تاریخوں کی پیش کردہ معلومات پر قرآن کی روشنی میں غور کر کے ان کے صرف اتنے ہی حصہ کو اختیار کیا جائے جتنا قرآن مجید سے موافق پڑتا ہے ۔ اس معاملے میں استاذامام مولانا حمید الدین فراہی ؒ کے طریقِ فکر و نظر کا اندازہ کرنے کیلئے سورۂ فیل کی تفسیر پڑھنی چاہیے ، اس سے معلوم ہوگا کہ ان کا اصلی اعتماد قرآن مجید کے اشارات اور کلامِ عرب پر ہوتا ہے اور تاریخ کی روایات کو وہ ہمیشہ انہی دونوں کسوٹیوں پر رکھ کر قبول کرتے ہیں اورحق یہ ہے کہ اس باب میں ان دو چیزوں کے سوا کسی تیسری چیز سے مشکل ہی سے مدد ملتی ہے۔ کلام عرب ،نحو اور بلاغت :قرآن مجید کی زبان اور اس کے اسالیب کی مشکلات حل کرنے میں3 طرح کی چیزیں مدد دے سکتی ہیں 1۔کتب لغت اور کلام عرب 2۔کتب نحو،اور 3۔کتبِ بلاغت لغت کی کتابوں میں لسان العرب سب سے زیادہ مدد دے سکتا ہے یہ سب سے زیادہ جامع لغت ہے۔اہل لغت کا تمام قیل وقال اس میں یکجا مل جاتا ہے،لیکن قرآن مجید کے الفاظ کے بارے میں عموماًاس کا طریقہ یہ ہے کہ ارباب تاویل کے اقوال نقل کر دیتا ہے ۔ یہ چیز نہایت غلط ہے۔اس سے بچنے کی ضرورت ہے ورنہ لغت دیکھنے کا اصلی فائدہ ہی فوت ہو جاتا ہے۔ بعض لوگ مفردات اما م راغب کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں۔اس اعتبار سے تویہ قابل قدر ہے کہ خالص قرآن کا لغت ہے،لیکن حلِ مشکلات کے پہلو سے اس کا کوئی وزن نہیں ہے۔اس کا طریقہ اگرچہ صحیح ہے ، لیکن نہ تو اس میں سارے الفاظ ہی ملتے ہیں نہ کلامِ عرب سے اس میں شہادتیں ہی پیش کی گئی ہیں اس وجہ سے یہ کچھ زیادہ مفید چیز نہیں ہے ۔ اصلی چیزیں جن کی ایک طالبِ قرآن کو ضرورت پڑتی ہے یہ ہیں کہ ایک لفظ کے صحیح حدود واطراف کیا ہیں یہ خاص عربی ہے یامولد، پھر اس کے اصلی معنی کیا ہیں اور اس کے معنی میں سے کن پر اس کا اطلاق حقیقتاً ہے اور کن پر بطریقِ مجاز لیکن یہ باتیں لغتوں سے مشکل ہی سے معلوم ہوسکتی ہیں اس پہلو سے کوئی لغت بھی کار آمد نہیں ہے کہیں کہیں صحاح ِجوہری میں بعض چیزوں کی جھلک نظر آجاتی ہے مگر بہت کم ۔قابل اعتماد چیز اس باب میں دراصل کلامِ عرب ہی ہے ۔لفظ کے اصلی حقائق اسی سے کھلتے ہیں ۔ پھر اسالیب کلام کا معاملہ تو سر تاسراسی سے متعلق ہے لغت سے اسالیب کلام کے بارے میں کوئی رہبری نہیں ہوتی لیکن کلام عرب میں بھی اصلی اور نقلی دونوں ہیں ۔آدمی کو ایک عرصے کی مشق کے بعد اگر ذوق اچھا ہو اصلی ونقلی کے مابین امتیاز ہوتا ہے اور یہ امتیاز نہایت ضروری ہے ، ورنہ بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ آدمی بالکل شاذ اورغیر معروف معنی کو اختیار کرلیتا ہے او رمعروف معنی کو چھوڑدیتا ہے ،مثلاً بعض لوگوں نے صرف اصلی اور نقلی میں امتیاز نہ کر سکنے ہی کی وجہ سے ’’تمنّی‘‘ کے معنی تلاوت کرنے کے یا ’’نحر‘‘ کے معنی سینہ پر ہاتھ باندھے کے لے لیے ۔اس کی مثال تفسیروں میں بہت ملتی ہے ۔ استاذ امام مولانا حمید الدین فراہی ؒ کاتمام تر اعتماد کلام ِ عرب پر تھا ۔وہ جس لفظ یاجس اسلوب کے بارہ میں متردّد ہوتے اس کو صرف قرآن مجید اور کلام ِعرب میں ڈھونڈتے بعض الفاظ واسالیب کی تلاش میں انہوں نے مدتیں صرف کردیں ۔ان کی کتب ،اسالیب القرآن اور مفردات القرآن میں اس سلسلے کے تمام معرکے ملیں گے ۔’’غثاء احوٰی‘‘ میں لفظ ’’غثاء ‘‘ کے بارے میںمولانا خود فرماتے تھے کہ میں نے اس کے صحیح مفہوم کی تحقیق میں برسوں صرف کردیئے ۔اس لفظ کے بارے میں ان کو تمام اہل لغت ادرارب تفسیر سے اختلاف تھا چنانچہ ایک مدت تک وہ اس کی تحقیق میں کلامِ عرب کاذخیرہ چھانتے رہے اور فرماتے تھے کہ جس روز میری تحقیق مکمل ہوئی مجھے وہ خوشی حاصل ہوئی جو بادشاہوں کو ملکوں کی تسخیر میں بھی نہیں ہوتی ہوگی ۔ کتب نحو کامعاملہ کتب لغت سے بھی زیادہ مایوس کن ہے ۔یہ لوگ قرآن کی نحوی مشکلات کو بالعموم عامہ ضابطہ سے الگ شواذ کے سلسلے میں ذکر کرتے ہیں ،حالانکہ قرآن عرب کے سب سے زیادہ معروف اسلوب پر اترا ہے ۔ ارباب تفسیر میں سے زمخشری ؒکے سوا کسی نے قرآن کی نحوی مشکلات سے زیادہ بحث نہیں کی اور یہ کام تنہا ایک شخص کے بس کا نہیں تھا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ تفسیرکی کتابوں میں قرآن مجید کی نحوی مشکلات حل کرنے کیلئے ہم کوئی قیمتی رہنمائی نہیں رکھتے اور چونکہ اپنے اندر مزید کشف وتحقیق کی ہمت نہیں پاتے اس لیے مجبور ہیں کہ ارباب نحو نے جو اصول بیان کر دیئے ہیں انہی پر اعتماد کریں اور کسی نہ کسی طرح قرآن مجید کو انہی کے مطابق ثابت کردکھائیں ۔حالانکہ اس کی وجہ سے تاویل کی بے شمار لاینحل مشکلات پید اہوگئی ہیں ۔ قرآن کے طلبہ کو چاہیے کہ نحوی مشکلات میں کلامِ عرب پر اعتماد کریں تاکہ ایک طرف صحیح تاویل کی راہ کھلے اور دوسری طرف دنیا پر یہ حقیقت روشن ہوجائے کہ درحقیقت قرآن ہی کا اسلوب اعلیٰ اور معروف اسلوب ہے ۔ استاذ امام مولانا حمید الدین فراہی ؒ کے مطبوعہ رسائل میں ان کے طریق تحقیق کی بہت سی مثالیں موجود ہیں اور آئندہ ان کی دوسری تصنیفات میں بھی جو شائع ہوں گی ،ان کی کاوشیں ملیں گی ۔ان کی رہنمائی سے اس سلسلے میں بہت کچھ خدمت انجام دی جاسکتی ہے۔ فن ِ بلاغت کی نارسائیوں کاحال سب سے زیادہ یاس انگیز ہے ۔ ہمارے اربابِ بلاغت کاتمام تر ماخذ شعراء کاکلام ہے اور شعر کی تنگ دامانیوں کاحال معلوم ہے کہ وہ بلاغتِ کلام کی نہایت ابتدائی او رسطحی باتوں ہی کیلئے اخذ کاکام دے سکتا ہے ۔ اس لیے ان کی تمام جولانیاں دروبست کی نزاکتوں ، الفاظ کے حسن وقبح اور بدیع کی گل کاریوں تک محدود ہیں ۔ رہیں یہ باتیں کہ حسن اِستدلال کے کیا کیا پہلو ہیں ،ربطِ معنی کی کیا کیا ادائیں ہیں ، مثال وقصص سے عبرت پذیری کے کیا کیا ڈھنگ ہیں ،کلام کس کس طرح چلتا ہے ،کس کس طرح اپنے مرکز اور عمود کی طرف مڑتا ہے تہدیدو زجر کے کیا کیا اسلوب ہیں ،متکلم اپنی شدت یقین کو کس طرح ظاہر کرتا ہے ،شریفانہ اعراض کے کیا کیا ڈھب اختیار کرتا ہے ،ایک شفیق معلم کن کن شکلوں میں حسرت کرتا ہے ، عتاب میں محبت کی جاں نوازیاں کس طرح ہوتی ہیں، خطاب کے عجائب تصرفات کاکیا عالم ہے ، ان تمام مباحث سے ہمارا تمام دفتر ِبلاغت بالکل خالی ہے ۔ یہ چیزیں یاتو خطبائے عرب کے کلام میں مل سکتی تھیں یا قرآن مجید میں مل سکتی ہیں ،خطباء کا کلام لوگوں کو ملا نہیں اور قرآن کو لوگوں نے ماخذ نہیں بنایا اس سلسلے میں باقلانی ؒ کی کوشش قابل قدر ہے لیکن وہ بھی مجبور ہوئے کہ اصولوں کے استنباط کیلئے شعروں ہی کو ماخذ قرار دیں ۔خطباء کے کلام کی طرف اوّل تو وہ پوری طرح متوجہ نہیں ہوئے اور ہوئے بھی تو محض اس قدر کہ انکے کچھ سرسری نمونے پیش کرکے گزر گئے ۔ ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ کی تصنیفات میں بہت سے جواہر ریزے ملتے ہیں لیکن کاوش اور تلاش کی ضرورت ہے ۔ استاذامام کی جمہرۃالبلاغۃ اس سلسلے کی آخری اور سب سے زیادہ اہم چیز ہے انہوں نے اس فن کی ترتیب ہی بدل دی ہے اور نئے اصول دریافت کیے ہیں جو بلاغتِ قرآن کے جانچنے کیلئے صحیح معیار قرار پاسکتے ہیں ۔ کتاب ’’مبادیٔ تدبر قرآن‘‘ سے مقتبس
ترجمہ ’’اے ایمان والو تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلی امتوں پر کئے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘(سورۃ البقرہ آیت 183) ماہ رمضان اللہ تبارک و تعالیٰ کاوہ عظیم ترین تحفہ ہے جو اس نے امت محمدی ؐ کو عنایت فرمایا ہے تاکہ اسکے ذریعے اپنے روح و بدن کو پلیدی اور ہر قسم کی نجاست و کثافت سے منزا کریں اور اپنے آپ کو زیور تقویٰ سے آراستہ و پیراستہ کریں بھوک و پیاس کے مزے کو چکھیں جس سے غریبوں مسکینوں کی بھوک و پیاس کا پورا احساس کرکے ان کی حاجت روائی اور فقر و فاقہ سے نجات دلانے کی جدوجہد کریں۔ روزہ ان عبادتوں میں سے ہے جس کا حکم تمام مذاہب و اقوام اور ملل و ادیان میں ملتا ہے البتہ ماہ رمضان میں روزہ رکھنا اسلام سے مختص ہے اس لیے اسے شھر الاسلام ماہ اسلام گردانا گیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے ’’اگر بندگان خدا کو ماہ رمضان کے روزوں کی فضیلت کا علم ہوتا توآرزو کرتے کہ رمضان پورے سال کا ہو۔ ‘‘ امت مسلمہ کی عظیم ہستیاں روزے کی شدت کو کس قدر محبوب جانتی تھیں اس کا اندازہ امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب ؓکے اس فرمان ذیشان سے لگا یا جاسکتا ہے ’’میں 3 چیزوں کو محبوب رکھتا ہوں تلوار کے ساتھ جہاد ، مہمان کی عزت اور گرمیوں کے روزے ۔‘‘ رسول خداﷺ کی محبوب دخترخاتونِ جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھاارشاد فرماتی ہیں ’’اللہ تعالیٰ نے روزے کو فرض کیا ہے تاکہ لوگوں میں اخلاص قائم رہ سکے۔ ‘‘امام زین العابدین ؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’ہر شب ماہ رمضان میں اللہ تعالیٰ ستر ستر ہزار گنہگاروں کو آتش جہنم سے آزاد فرماتا ہے ۔‘‘ امام جعفر صادق ؒسے سوال کیا گیا کہ روزے کیوں فرض کئے گئے ؟ تو آپ ؒنے فرمایا ’’تاکہ غنی اور فقیر مساوی ہو جائیں غنی بھوک کا احساس کرکے فقیر پر رحم کرے ‘‘ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا ’’ہر شے کی زکوٰۃ ہے اور روزہ بدن کی زکوٰۃ ہے ۔‘‘ اس مہینے کو ماہ رمضان کے نام سے موسوم کرنے کے سلسلے میں مختلف روایات ہیں ۔ رمضان رمض سے ماخوذ ہے رمض کے معنی دھوپ کی شدت سے پتھر ریت وغیرہ کے گرم ہونے کے ہیں اسی لیے جلتی ہوئی زمین کو رمضا کہا جاتا ہے جب پہلی مرتبہ روزے واجب قرارپائے تو ماہ رمضان سخت گرمی میں آیا تھا اور روزوں کی وجہ سے تپش کا احساس بڑھا تو مہینے کا نام ماہ رمضان یعنی ماہ آتش فشاں پڑ گیا اس لیے کہ یہ ماہ مبارک گناہوں کو اس طرح جلادیتااور فناوبرباد کردیتا ہے جس طرح سورج کی گرمی زمین کی رطوبتوں کو جلاتی اور فنا کردیتی ہے چنانچہ رسالت مآبﷺکاارشاد ہے ’’ ماہ رمضان کو رمضان اس لیے بولا جاتا ہے کہ وہ گناہوں کو جلادیتا ہے۔‘‘ ایک روایت یہ ہے کہ یہ رمضی سے ماخوذ ہے اور رمضی اس ابرباراں کو کہتے ہیں جو موسم گرما کے آخر میں آئے اس سے گرمی کی شدت دور ہوجاتی ہے اسی طرح یہ مہینہ گناہوں کو کم اور بدی اور برائیوں کو دھو ڈالتا ہے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ عربوں کے قول ’’رمضت النصل ‘‘سے ماخوذ ہے جس کے معنی دو پتھروں کے درمیان چاقو تلوار اور نیزہ کے پھل کو رکھ کر تیز کرنے کے ہیں کیونکہ عرب اس ماہ مبارک میں ہتھیاروں کو تیز کیا کرتے تھے۔ یہ روایت بھی ملتی ہے کہ یہ ارتماض سے ماخوذ ہے جس کے معنی اضطراب و پریشانی کے ہیں چونکہ اس مہینے میں بھوک و پیاس کی وجہ سے بے چینی اور اضطراب کو محسوس کیا جاتا ہے اس لیے اسے رمضان سے موسوم کیا جاتا ہے رمضان اللہ کا نام ہے کیونکہ اس مہینے کو اللہ سے خاص نسبت ہے اسی وجہ سے اللہ سے منسوب ہو کر ماہ رمضان کہا جاتا ہے ۔امام محمد باقر ؒکا ارشاد گرامی ہے ’’یہ نہ کہا کرو یہ رمضان ہے رمضان چلا گیا یا آگیا۔ اس لیے کہ رمضان اللہ کے اسماء میں سے ایک اسم ہے لہٰذا ماہ رمضان کہا کرو۔‘‘ ماہ رمضان اپنے فیوض و برکات کی بناء پر تمام مہینوں پر فوقیت رکھتا ہے چنانچہ پیغمبر اکرمﷺ کا ارشاد ہے’’ تمہاری طرف اللہ کا مہینہ برکت و رحمت و مغفرت کا پیغام لے کر آرہا ہے یہ وہ ماہ مبارک ہے جو اللہ کے نزدیک تمام مہینوں سے افضل ترین ہے اسکے تمام ایام تمام دنوں سے ، راتیں تمام راتوں سے اورلمحات تمام لمحات سے بہتر و برتر ہیں۔‘‘اس مہینے کی راتوں میں شبِ قدر ہے جسے ہزار مہینوں سے بہتر قراردیا گیا ہے چنانچہ امام جعفر صادقؒ کا فرمان ہے’’ اس رات میں اعمال ان ہزار مہینوں کے اعمال سے بہترہیں جن میں شبِ قدر نہ ہو۔‘‘اسی مہینے میں تمام آسمانی و الہامی کتب کا نزول ہوا اسی مہینے میں قرآن مجید نازل ہواجو لوگوں کیلئے ہادی رہنما، رشد و ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی روشن ترین نشانیاں رکھتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہے ، ترجمہ ’’ (روزوں کا مہینہ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن (اول اول) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور اس میں ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور یہ حق وباطل کو الگ الگ کرنے والا ہے تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو چاہئے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں روزے رکھ کر ان کا شمار پورا کرلے۔ خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا۔ اور (یہ آسانی کا حکم) اس لیے (دیا گیا ہے) کہ تم روزوں کا شمار پورا کر لو اور اس احسان کے بدلے کہ خدا نے تم کو ہدایت بخشی ہے تم اس کو بزرگی سے یاد کرو اور اس کا شکر کرو۔‘‘ (سورۃالبقرہ آیت 185) خداوند عالم امت محمدیؐ کو اس ماہ مقدس کے ثمرات سے بہرہ مند ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
ترجمہ ’’رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے۔‘‘ (البقرہ: 185) ماہِ رمضان المبارک کی آمدقریب ہے۔یہ مہینہ ماہِ غفران، ماہِ رحمت اور ماہِ نجات کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔اس بھاگتی دوڑتی زندگی میں اس مہینے کی آمد ایسے ہی ہے جیسے کوئی مسافرصحرا کے سفر پر نکلا ہو اور رستہ بھول جائے،ایسے میں کڑکتی دھوپ ہو، تپتی ریت ہو، سورج سر پر کھڑا ہو کوئی سایہ اور سائبان نہ ہوبس سفر ہے اور چلتے چلے جانا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اسے ریت کے طوفان کا بھی سامنا کرنا پڑے۔سفر کی سختیوں کا اندازہ کریں کہ صحرا کے اس مسافر پر کیا بیت رہی ہوگی!ان مصیبتوں کی وجہ سے اسکی ہمت جواب دینے لگے ،اعضاء مضمحل ہوجائیں ، وہ مسافر تھکن سے دوچار ہے، ناامیدی اور مایوسی اسے گھیرے ہوئے ہے ایسے میں اچانک اسے ایک نخلستان دکھائی دے، درختوں کے سائے، پانی ،آرام و سکون کاسوچ کر ہی اس کے قدم تیز اور تیز تر ہوجاتے ہیں۔ اس مسافر کی خوشی کا اندازہ کیجیے روح تک اتر جانے والی خوشی محسوس ہوگی جیسے پورا جہاں مل گیا ہو۔اس کی رفتار تیز ہوگی اور جذبات تروتازہ ہوجائیں گے۔ایسے ہی ایک مسلمان کی تیز رفتار زندگی کہ جس میں وہ گناہ، رب سے دوری، عبادتوں کی کمی کی وجہ سے مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہو جاتا ہے ماہِ رمضان کی آمد ہوتی ہے۔ پورا سال ہم نشیب و فراز سے گزرتے ہیں ، پریشانیوں اور دکھوں سے بھی دوچار ہوتے ہیں جسمانی تکالیف اور روح کی آزمائشیں بھی آتی ہیں ، اور ایسے میں ہم پر ایک عظیم، بابرکت مہینہ سایۂ فگن ہورہا ہے۔جی ہاں وہ مہینہ آیا نہیں بلکہ سایۂ فگن ہورہا ہے۔ حضرت سلمان فارسی ؓروایت کرتے ہیں کہ شعبان کے آخری دنوں میں نبی کریمﷺ نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا’’ لوگوں تم پر ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔جو بابرکت مہینہ ہے جس میں ایک رات ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔‘‘(صحیح ابن خزیمہ، 1887) یہ مہینہ ہمیں اپنے سائے میں لے گا،رب کی رحمتیں ہونگی،اس کی عنایتیں ہونگی،برکتیں ہوں گی۔ موجودہ حالات میںہمارے ظرف کا اصل امتحان یہ ہے کہ ہم اپنے دامن کو کتنا پھیلاتے ہیں،کتنی التجائیں،آرزوئیں اور تمنائیں رب کے حضور پیش کرتے ہیں۔ اسی حدیث میں آگے چل کر نبی اکرمﷺ نے اس مہینے کو ہمدردی اور غم گساری کا مہینہ قرار دیا اور اس کے پہلے عشرے کو رحمت کا عشرہ، دوسرے کو مغفرت کا عشرہ اور تیسرے کو جہنم سے آزادی کاعشرہ قرار دیا۔رب کی رحمت و عنایت ہوگی تو گناہوں کی مغفرت بھی ہوگی اور گناہوں کی مغفرت انسان کیلئے جہنم سے آزادی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ یقینا پورا سال ربِ رحمان اپنے بندوں سے رحم و کرم کا معاملہ کرتے ہیں ،ان کی مغفرت کے اسباب انہیں مہیا کرتے ہیں لیکن رمضان المبارک میں رب کریم کی طرف سے ایک خصوصی پیکج عنایت ہوتا ہے۔ جو جتنا چاہے اپنے ظرف کے مطابق اس پیکج سے فائدہ اٹھا لے۔ سوال یہ ہے کہ ہم کس طرح رحمت، مغفرت اور نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ حصولِ رحمت،مغفرت اور نجات کے قرآن و حدیث میں طریقے بتائے گئے ہیں،جن پر عمل کرکے ہم اپنے آپ کو رحمت الہٰی کا مستحق بنا سکتے ہیں۔ ان میں سے چند طریقے یہ ہیں: 1:اللہ پر ایمان لانے اور اس کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے سے رحمت الہٰی ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:ترجمہ ’’پس جو لوگ اللہ کی بات مان لیں گے اور اسکی پناہ ڈھونڈیں گے ان کو اللہ اپنی رحمت اور اپنے فضل و کرم کے دامن میں لے لے گا اور اپنی طرف آنے کا سیدھا راستہ ان کو دکھا دے گا۔ (النساء : 175) 2:اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت اور اعمالِ صالح سے رحمت الٰہی کا مستحق ہونا۔ مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں ،بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں،نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی،یقینا اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔ (التوبۃ :71) 3:استغفار کے ذریعے رحمت کے مستحق بن سکتے ہیں۔ تم اللہ سے مغفرت طلب کیوں نہیں کرتے ؟ شاید کہ تم پر رحم فرمایا جائے۔ (النمل:46) 4:خاموشی کے ساتھ قرآن پاک سننے سے رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ ’’جب قرآن مجید تمہارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو،شاید کہ تم پر بھی رحمت ہوجائے۔‘‘ (الاعراف:204) اسی طرح ہم مغفرت حاصل کرسکتے ہیں 1: ماہ رمضان کے روزوں کے ذریعے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’جس شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہوں کو معاف کردے گا جو پہلے ہو چکے ہیں۔‘‘(مسلم، 760) 2: تلاوت قرآن مجید کے ذریعے مغفرت کا حصول ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’بلاشبہ قرآن ِ مجید کی ایک سورت ہے جس کی 30 آیات ہیں،(قیامت کے دن) وہ آدمی کی سفارش کرے گی یہاں تک کہ اس کی مغفرت ہوجائے اور وہ سورت ہے۔تبارک الذی بیدہ الملک ۔‘‘ ( سنن ابو دائود،1400) 3: راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے سے مغفرت حاصل کی جاسکتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’اس دوران کہ ایک شخص راستے سے گزر رہا تھا کہ اس نے ایک کانٹا دیکھا اور اسے راستے سے ہٹا دیا پس اس فعل پر اللہ نے اس کی قدر دانی کی اور اسے بخش دیا۔‘‘(بخاری ،24,72) اگر ہم آتش جہنم سے اپنے آپ کو بچانا چاہتے ہیں اور اس سے آزادی کا پروانہ چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ان طریقوں کو اختیار کرنا پڑے گا جو قرآن و حدیث میں مذکور ہیں۔ پس پہلے عشرے میں متقین کیلئے رحمت اور رضوانِ الہٰی کا سیلاب بہتا ہے جس میں سے ہر کوئی اپنے حصے کے مطابق فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس عشرے میں نیکو کاروں کے ساتھ فضل و احسان کا معاملہ کیا جاتا ہے۔جہاں تک دوسرے عشرے کا تعلق ہے وہ مغفرت کا عشرہ ہے جس میں روزے داروں کی مغفرت کی جاتی ہے۔ صغیرہ گناہ مغفرت کے سیلِ رواں میں بہہ جاتے ہیں۔ جیسا کہ رب رحمان نے فرمایا: ترجمہ ’’حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب لوگوں کی زیادتیوں کے باوجود ان کے ساتھ چشم پوشی سے کام لیتا ہے۔‘‘ (الرعد :6) اور رہا آخری عشرہ تو یہ جہنم سے آزادی کا عشرہ ہے۔ یہ عشرہ نجات ہے۔ بس اس رمضان المبارک میں یہ ہم پر منحصر ہے کہ کس طرح ہم اپنی مغفرت کروا کر نارِ جہنم سے نجات کا پروانہ حاصل کرتے ہیں اور رحمت الہٰی کے اپنے آپ کو مستحق قرار پاتے ہیں۔یہ گنتی کے چند دن ہیں جو گزر جائیں گے۔ کامیاب ہوا وہ جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا اور اپنی مغفرت کروالی۔ اور ناکام ہوا وہ جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا اور اپنی بخشش نہ کروائی۔ جو شخص اس مہینے میں بھی خیر سے محروم رہا وہ ہر قسم کی خیر سے محروم ہوگیااور اس کے خیر سے محروم وہی رہتا ہے جو ہے ہی بد نصیب۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو باعمل مسلمان بنائے اور اخلاص کے ساتھ عبادت کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ اے ہمارے رب ہمارے دلوں کو ہدایت کے بعد گمراہی کا شکار نہ کرنا۔ آمین