11 رمضان 95 ہجری کو مشہور تابعی حضرت سعید بن جبیر کا انتقال ہوا۔ انھوں نے ابو سعید خدری، موسیٰ بن اشعری اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ سے علم حاصل کیا اور حضرت عبد اللہ بن عباس سے قرآن مجید اور اس کی تفسیر اور فقہ کا علم سیکھا۔ جب آپ کوفہ میں مقیم تھے تو فتویٰ کے معاملے میں آپ کوسب علما پر فوقیت حیثیت حاصل تھی۔
11 رمضان 624 ہجری کو منگول سردار تموجن المعروف چنگیز خان کا انتقال ہو گیا۔ اس کی سلطنت دنیا کی سب سے بڑی سلطنت تھی۔ ایک حادثے کے بعد اس کی یلغارکا رخ مسلم سلطنت کی طرف ہو گیا ۔ہوا یہ کہ تاتاریوں کا پانچ سوآدمیوں کا ایک تجارتی قافلہ علاﺅ الدین خوارزم شاہ(مسلمانوں کی ایک خوش حال ریاست کا بادشاہ۔ یہ ریاست بنیادی طو رپر ایران، بخارااور سمرقندکے علاقوں اور جزوی طور پر افغانستان اور بلوچستان پر مشتمل تھی) کے علاقے میں تجارت کی غرض سے داخل ہوا ،اس قافلے کو علاقے کے گورنر نے نہ صرف روکا بلکہ اس کے اکثر لوگوں کو قتل کرکے مال واسباب لوٹ لیا اور الزام لگایا کہ یہ قافلہ اصل میں علاقے کی جاسوسی کرنے کے لےے بھیجا گیا ہے ۔ چنگیز خاں نے اس حادثے پر ایک سفارتی وفد علاﺅ الدین خوازم شاہ کی طرف بھیجا اور مطالبہ کیا کہ قافلے کا نقصان پورا کیا جائے اور خون بہا بھی ادا کیا جائے ۔ خوارزم شاہ نے غصے میں آکر ان تین سفارت کا روں میں ایک کو قتل اور دو کے سر منڈوا کر واپس بھج دےے ۔ اس پر چنگیز خاں نے سلطنت ِ خوارزم شاہی پر پوری قوت سے حملہ کر دیا۔اس نے چین ، یورپ اوردوسری مملکتوں کی طرف فوج کشی روک کر خوازم شاہ کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا اور دولاکھ کی فوج کے ساتھ تین اطراف سے حملہ کر دیا ۔ یوں تاتاریوں کے ساتھ مسلم ریاستوں کی دشمنی کا سلسلہ چل نکلا اور آخر کار656 ہجری میں بغداد، اسلامی خلافت کا مرکز، چنگیز خاں کے پوتے ہلاکو خاں نے فتح کر کے تباہ و برباد کر دیا ۔ صرف بغداد کے سانحے میں ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان ہلاک ہو گئے اور شہر راکھ کا ڈھیر بن گیا۔
مسند احمد میں حضرت واثلہ بن الاسقع سے روایت ہے کہ12 رمضان المبارک کو زبور نازل ہوئی۔
12 رمضان المبارک ۱یک ہجری کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اصحاب کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم کیا۔اس کی وجہ یہ تھی ہجرت کر کے آنے والے مسلمان بے سروسامان تھے۔ ان کو سہارا دینے کے لےے حضور ﷺ نے یہ اقدام کیا۔انصار نے بھی پوری آمادگی کے ساتھ مہاجرین کی مدد کی۔ آپ نے اس اخوت یعنی بھائی چارے کے اس رشتے کے ذریعے سے اسلام میں اخوت و برابری کی بنیاد رکھی۔ دنیا میں رہنے والوں کو ایک خاندان اور ایک کنبے کے افراد قرار دیا۔ اس طرح نسل پرستی، مادی اور قبائلی امتیاز، رنگ ونسل کی بنیاد پر جھوٹی فضیلتوں کو اسلام کے باطل قرار دے ڈالا۔
12 رمضان المبارک597 ہجری کو مشہور مورخ اور محدث امام ابو الفرج بن الجوزی کی وفات ہوئی۔ آپ کا پورا نام عبد الرحمن بن علی بن محمد ابو الفرج جمال الدین الکرشی البکری الحنبلی ہے۔ آپ بغداد میں پیدا ہوئے اور ستر سے زیادہ اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ تحصیل علم کے بعد درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور اسی دوران میں قرآن مجید کی تفسیر لکھی۔ ان کی تصانیف کی تعداد ڈھائی سو سے اوپر ہے، جن میں’تاریخ الملک والامم‘ ، ’الیاقوتہ‘ اور ’المنطق المفہوم‘ مشہور ہیں۔
مسند احمد میں حضرت واثلہ بن الاسقع سے روایت ہے کہ انجیل 13 رمضان المبارک کو نازل ہوئی۔
2۔فلسطین کی فتح خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جب فلسطین کو فتح کر لیا گیا تو 13 رمضان المبارک15 ہجری کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ فلسطین پہنچے اور شہر قدس (یروشلم) کی چابیاں آپ کو دی گئیں۔ اسلامی فوج نے جب بیت المقدس کا محاصرہ کیا تو حکمران نے یہ شرط رکھی کہ کہ اگر خلیفہ المسلمین حضرت عمر خود تشریف لائیں تو شہر لڑے بغیر اسلامی فوج کے حوالے کر دیا جائے گا۔ یوں مشورے کے بعد اس شرط کومان لیا گیا اور یروشلم کسی جنگ کے بغیر فتح ہو گیا۔یہ شرط اس لےے رکھی گئی تھی کہ بائیبل میں حضرت عمر کے بارے میں یہ پیش گوئی موجود تھی کہ بیت المقدس ان کے ہاتھوں فتح ہو گا۔
14 رمضان المبارک1265 ہجری کو جدید مصر کے بانی اور حاکم محمد علی پاشا کا انتقال ہوا۔ محمد علی پاشا موجودہ یونان کے شہر کوالا میں ایک البانوی خاندان میں پیدا ہوئے۔محمد علی پاشا کی جدت پسندی سے جہاں مصر کو زراعت اور صنعت کے اعتبار سے ترقی ملی، وہیں ترقیاتی کاموں پر اندھا دھند رقم خرچ کرنے سے مصر قرضوں میں جکڑ اگیا۔وزارت خزانہ کے مطابق مصر پر 80 ملین فرانک (000،00 4،2 پاونڈ) قرضہ تھا۔
14 رمضان المبارک 670 ہجری کو امام نووی نے کتب احادیث سے انتخاب پر مبنی اپنی شہرئہ آفاق تصنیف ”ریاض الصالحین“ مکمل کی۔ ہر دور میں عام مسلمانوں کے لیے اس کتاب کی افادیت مسلمہ رہی ہے۔ اس کتاب کی ایک خوبی یہ ہے کہ احادیث مبارکہ کی تخریج بھی ساتھ ساتھ کی گئی ہے یعنی ضرورت پر حدیث کے ماخذ سے رجوع کرنا ممکن ہے۔
15 رمضان المبارک 3 ہجری کو نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم امام حسن کی ولادت ہوئی۔آپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی دختر گرامی حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا اور داماد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زیر سایہ زندگی گزاری اور 40 ہجری میں حضرت علی کی شہادت کے بعدخلافت کی ذمہ داری سنبھالی۔ امام حسن کا امت پر ایک عظیم احسان یہ ہے کہ انھوں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے صلح کی پیش کش منظور فرمائی اوراپنی مرضی کی شرائط پر خلافت کی ذمہ داری حضرت امیر معاویہ کے سپرد کر دی اور یوں امت مسلمہ دوبارہ متحدہو گئی ۔ امام حسن کے بارے میں حضور ﷺ کی ایک روایت بھی ہے کہ میرا یہ نواساامت کو متحد کرنے کا باعث ہو گا۔
رمضان 1213ہجری کو نپولین بونا پارٹ نے فرانس کی توسیع کے سلسلے میں مصر پر چڑھائی کر دی۔ مصر پر ان دنوں مملوک ترکوں کی حکومت تھی۔ مملوک نپولین کی طاقت کا ٹھیک اندازہ نہ کر سکے اور انھوں فوج ہونے کے باوجود نپولین کے مقابلے میںکم فوج سے جنگ کی۔ نپولین نے یہ جنگ آسانی سے جیت لی ۔ اس کی یہ مہم دراصل ہندستان جانے کے منصوبہ کا حصہ تھا۔نپولین سے رابطہ ٹیپو سلطان نے کیا تھا اور ان کے درمیان یہ طے ہوا تھا کہ وہ مل کر انگریزوں کوہندستان سے نکالیں گے۔ لیکن نپولین ہندستان تک رسائی حاصل نہ کر سکا اور نہ مصراورشام فتح کر نے با وجود یہاں اپنا قبضہ برقرار رکھ سکا جبکہ انگریز ٹیپو کو ختم کر کے پورے ہندسان پرقبضہ جمانے میں کامیاب ہو گئے۔
16 رمضان 762 ہجری کے دن مشہور تاریخ دان، قاضی القضاة (چیف جسٹس )علامہ بدر الدین ابو محمد محمود بن احمد عینی کی وفات ہوئی ۔ وہ صحیح بخاری کی شرح 'عمدة القاری 'کے مصنفین میں سے ہیں۔ ان کی شرح کو بہت شہرت اور قبولیت حاصل ہوئی ۔
17 رمضان 2 ہجری بروز جمعہ کو مکہ اور مدینہ کے درمیان مسلمانوں کی ایک مشہور جنگ ہوئی، جسے جنگ بدر کہا جاتا ہے۔ بدر مدینہ کے جنوب مغرب میں135کلومیٹر کی دوری پر واقع ایک کنویں کا نام ہے۔ یہاں مشرکین سے مسلمانوں کی پہلی باقاعدہ جنگ ہوئی۔کفار کی تعداد ایک ہزار اور صحابہ صرف313تھے۔ اس جنگ کو قرآن نے مشرکین مکہ پر عذاب اور سزا قرار دیا۔ سورئہ انفال میں ہے کہ اس معرکے میں جہنم رسید ہونے والے کا فر گویا اللہ کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچے ۔ اس میں ابوجہل سمیت 70کفار مارے گئے ۔ مرنے والوں میں اکثر مکہ کے سردار تھے جبکہ بچ جانے والے اکثر افراد نے بعد میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یا تو اسلام قبول کر لیا یا وہ لقمہ اجل بن گئے۔ اس غزوہ میںچودہ مسلمانوں نے شہادت پائی۔ 2- المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات
17 رمضان 57 یا 58 ہجری کو ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے وفات پائی ۔ آپ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق کی دختر تھیں۔ ایک ہجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا نکاح ہوا۔ آپ ازواج مطہرات میں سب سے کم عمر تھیں۔صحابہ کرام اور عام مسلمان مختلف دینی اور فقہی مسائل میں آپ سے رجوع کیا کرتے تھے۔
3- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ کی وفات 17 رمضان2 ہجری کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ نے وفات پائی۔ آپ حضرت خدیجہ کے بطن سے پیدا ہوئیں ۔ آپ کی پیدایش بعثت سے سات سال قبل مکہ مکرمہ میں ہوئی۔آپ کو ’ذات الہجرتین‘ (دو ہجرتوں والی) کا لقب دیا گیا۔ کیونکہ انھوں نے پہلی ہجرت حبشہ اور دوسری مدینہ کی طرف کی۔آپ کی شادی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ہوئی تھی۔
18 رمضان 21 ہجری کوحضرت خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ آپ کی شجاعت اور بہادری کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو سیف اللہ (اللہ کی تلوار) کا لقب عطا فرمایا۔ 8 ہجری میں آپ نے اسلام قبول کیا۔ عرب، ایران، عراق اور شام کے بیشتر محاذوں پر اسلامی فوجوں کی قیادت کی اور ہر معرکے میں فتح پائی۔ عمر کا بیشتر حصہ میدان جنگ میں بسر ہونے کے باوجود بستر پر وفات پائی۔
18 رمضان 50 ہجری کو محدث، فقیہ، اور مورخ امام زہری کی وفات ہوئی۔ آپ کا پورا نام محمد بن مسلم بن عبید اللہ بن عبد اللہ بن شہاب زہری تھا اور کنیت ابو بکر تھی۔ آپ کا قوت حافظہ غیر معمولی تھا۔صرف اسی (80) دن میں قرآن مجید حفظ کر لیا۔ آپ نے غزوات کے متعلق پہلی مستند تصنیف کی۔ ان پر بعض محققین نے تدلیس( راوی کو چھپانا) کا بھی الزام لگایا ہے۔ اور ان کی روایتوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
19 رمضان 40ہجری کو سحر کے وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد اور چچا زاد بھائی،بچوں میںسب سے پہلے مسلمان ہونے والے اور ہر موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے والے خلیفہ وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عبدالرحمٰن ابن ملجم نے کوفے کی مسجد میں نماز کے دوران میں زہر آلود تلوار سے زخمی کردیا۔ابن ملجم خارجی تھا۔خارجی وہ لوگ تھے جو پہلے حضرت علی کے ساتھ تھے لیکن جنگ صفین میں تحکیم کے واقعہ کے بعدوہ حضرت علی سے علیحدہ ہو گئے اور تمام صحابہ کے مخالف ہو کر ان کی جان کے دشمن بن گئے۔
20 رمضان 8 ہجری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کو فتح کر کے اس کو بتوں سے پاک کر دیا۔ یہ وہی فتح ہے جس کی خوشخبری صلح حدیبیہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دی گئی تھی۔ یوں محض آٹھ برسوں کے بعد حضورﷺ اس شہر میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہو ئے جہاں وہ دشمن کے گھیرے سے نکل کر رات کے اندھیرے میں ہجرت کر کے مدینہ روانہ ہوئے تھے۔ مکہ کا پرانا نام بکہ تھا، قرآن مجید میں یہی نام آیا ہے۔ اس کو ام القری بھی کہا جاتا ہے۔