ہجرت حبشہ


ہجرت کے لفظی معنی چھوڑنا ہے۔ جو لوگ دینی یا دینوی مقصد کے لیے اپنا شہر چھوڑ کر کسی دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں ان کومہاجر کہا جاتا ہے۔ نبوت کے چوتھے سال کے درمیان جب مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ شروع ہوا تو مسلمان محفوظ علاقوں کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ ابتدا میں یہ عمل معمولی تھا ، لیکن یہ روز بروز بڑھتا گیا اور نبوت کے پانچویں سال کے درمیان میں ظلم و ستم کا یہ سلسلہ اس حد تک پہنچ گیا کہ مسلمانوں کے لیے مکہ میں رہنا مشکل ہو گیا۔

اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے دین کی حفاظت کے لیے حبشہ (موجودہ ایتھوپیا) ہجرت کر جائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ حبشہ کا بادشاہ اصحمہ ایک عادل بادشاہ ہے اور کسی پر ظلم نہیں کرتا، اسی لیے آپ نے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کا مشورہ دیا۔رجب، ۵ نبوی کو صحابہ کرام کے پہلے گروہ نے حبشہ کی جانب ہجرت کی۔ اس گروہ میں بارہ مرد اور چار عورتیں تھیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان کے لیڈر تھے اور ان کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحب زادی حضرت رقیہ تھیں

حبشہ کی طرف دوسری ہجرت جس سال پہلی ہجرت حبشہ ہوئی، اسی سال یہ واقعہ پیش آیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ میں قریش کے ایک بہت بڑے مجمع کے سامنے سورئہ نجم کی تلاوت شروع کر دی۔ اور ان کے کانوں میں ایک انتہائی خوب صورت اور عظمت لیے ہوئے کلام الہٰی کی آواز پڑی تو انھیںہوش نہ رہا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’فاسجدوا للہ واعبدوا‘ (اللہ کے لیے سجدہ کرو اور اس کی عبادت کرو) والی آیت تلاوت کی اور اس کے ساتھ سجدہ فرمایا تو ان کفار میں سے کسی کو اپنے آپ پر قابو نہ رہا اور سب کے سب سجدے میں گر پڑے۔ اس واقعہ کی خبر حبشہ کے مہاجرین کو ہوئی، لیکن اس کی اصل صورت حال سے وہ بے خبر رہے اور یہ سمجھے کہ شاید قریش مسلمان ہو گئے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے شوال کے مہینے میں مکہ واپسی کی راہ لی۔ لیکن جب مکہ سے ایک دن سے بھی کم فاصلے پر پہنچے تو انھیں حقیقت کا پتا چلا۔ چنانچہ کچھ لوگ تو حبشہ واپس چلے گئے اور کچھ چھپ چھپا کر مکہ میں داخل ہو گئے۔ اس کے بعد مہاجرین پر خصوصاً اور مسلمانوں پر عموماً قریش کا ظلم و ستم اور بڑھ گیا۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو پھر حبشہ ہجرت کر جانے کا حکم دیا۔ اس دفعہ کل82 یا 83 مرد وں اور18 یا 20 عورتوں نے ہجرت کی۔