• Iftar Time Ramazan 8
  • Lahore 06:15 PM
  • Karachi 06:44 PM
  • Islamabad 06:21 PM
  • Peshawer 06:27 PM
  • Quetta 06:45 PM

نویں پارے کے شروع میں قومِ شعیب علیہ السلام کے سرکش سرداروں کی اس دھمکی کا ذکر ہے کہ اے شعیب! ہمارے دین کی طرف پلٹ آؤ‘ ورنہ ہم تمہیں اور تمہارے پیرو کاروں کو جلاوطن کر دیں گے۔ شعیب علیہ السلام نے اللہ سے التجاکی کہ اے اللہ! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے‘ پھر اُن پر قومِ ثمود کی طرح عذاب نازل ہوا اور وہ ایسے نیست ونابود ہوئے کہ جیسے کچھ تھاہی نہیں۔ آیت 96 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ان بستیوں والے ایمان لائے ہوتے اور تقویٰ کو اختیار کیا ہوتا تو ہم انہیں زمین و آسمان کی نعمتیں فراوانی سے عطا کر دیتے‘ لیکن حق کو جھٹلانے کے سبب وہ انجامِ بد سے دوچار ہوئے۔ ان بستی والوں کو اس سے بے پروا نہیں ہونا چاہئے تھا کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو سوتے میں یا دن چڑھے آ سکتا ہے۔ گزشتہ امتوں کے احوال سنا کر رسول اللہﷺ کو کفارِ مکہ کی ایذا رسانیوں پر تسلی دینا اور مشرکینِ مکہ کو عبرت دلانا مقصود ہے۔ آیت 103سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت اور فرعون اور اس کے پیروکاروں کا ذکر ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان کو دعوتِ حق دی اور کہا کہ میں تمہارے پاس واضح نشانیاں لایا ہوں اور بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دو‘ فرعون نے معجزات پیش کرنے کیلئے کہا جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا زمین پر ڈالا تو وہ ایک واضح اژدہا بن گیا‘ انہوں نے اپنا ہاتھ (گریبان سے)نکالا تو وہ دیکھنے والوں کیلئے روشن ہو گیا۔ فرعون کے سرداروں نے حق کو قبول کرنے کے بجائے اسے جادو قرار دیا اور کہا کہ یہ تمہیں اپنے ملک سے نکالنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو ذرا ڈھیل دو اور جادوگروں کو جمع کرو‘ جادوگر آئے اور انہوں نے فرعون سے کہا کہ اگر ہم غالب آ گئے تو ہمارا انعام کیا ہو گا‘ اس نے کہا کہ تم ہمارے مقربین میں سے ہو جاؤ گے۔ جادوگروں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ آپ پہلے کریں گے یا ہم کریں؟ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ تم پہل کرو‘ جب جادوگروں نے اپنی (رسیاں) زمین پر ڈال دیں تو لوگوں کی نگاہوں کو سحرزدہ کر دیا اور انہیں ڈرا دیا اور (انہوں نے کہا یہ تو) بڑا جادو لے آئے۔ اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ اپنا عصا (زمین پر) ڈالیں‘ وہ عصا سانپ بنا اور جادوگروں کی چیزوں کو نگلنے لگا۔ اس طرح معجزے کی حقانیت اور جادو کا بُطلان ثابت ہوا اور فرعونی رسوا ہوئے۔ جادوگر سجدے میں گر پڑے‘ اللہ پر ایمان لے آئے‘ فرعون نے انہیں دھمکی دی کہ تم لوگ میری اجازت کے بغیر ایمان لے آئے ہو‘ میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمت سے کاٹ دوں گا اور تمہیں سولی چڑھاؤں گا‘ انہوں نے کہا کہ ایمان لانے کی پاداش میں تم ہمیں سزا دینا چاہتے ہو؟ پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے صبر واستقامت کی دعا کی۔ اس کے بعد فرعون نے بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل کرنے اور بیٹیوں کو زندہ چھوڑنے کا حکم دیا۔
آیت 130 میں بتایا کہ اللہ نے فرعونیوں پر قحط سالی کا عذاب نازل کیا‘ فرعونیوں کا طریقہ یہ تھا کہ اچھائی کو اپنا کمال گردانتے اور برائی کو بدشگونی کے طور پر موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے۔ پھر ان پر ٹڈیوں‘ جوؤں‘ مینڈکوں اور خون کاعذاب نازل کیا۔جب عذاب میں مبتلا ہوئے تو موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ آپ اللہ سے دعا کریں کہ ہم سے یہ عذاب ٹل جائے‘ اگر ایسا ہوا تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو بھی آزاد کر دیں گے‘ لیکن موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے نتیجے میں عذاب ٹل جانے کے بعد بنی اسرائیل اپنے وعدے سے پھر گئے‘ تو اﷲ تعالیٰ نے بھی اُنہیں سمندر میں غرق کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے کمزور لوگوں کو مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا اور بنی اسرائیل سے جو خیر کا وعدہ تھا‘ وہ پورا ہوا۔ بنی اسرائیل سمندر پار کرکے ایک ایسی قوم کے پاس پہنچے جو بتوں کو پرستش کرتی تھی‘ انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ ہمارے لیے بھی ایک خدا (بت) بنا دیجئے‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: بت پرستی کرنے والے جاہل ہیں اور اپنی جاہلیت کے باعث ہی ہلاک ہونے والے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنی نعمتوں کا ذکر فرمایا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم میں ہارون علیہ السلام کو اپنا جانشین بنایا اور کوہِ طور پر تشریف لے گئے اور یہ چالیس دن کا عرصہ تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اپنا جلوہ دکھانے کی دعا کی‘ لیکن جب اﷲتعالیٰ بالواسطہ جلوہ فرما ہوا تو موسیٰ علیہ السلام اس کی تاب نہ لا کر بیہوش ہو گئے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا۔ آیت 144 سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو رسالت عطا کرنے‘ کلیم اللہ کا منصب عطا کرنے اور تورات عطا کرنے کا ذکر ہے۔ آگے چل کر بتایا کہ متکبر آیاتِ الٰہی سے اعراض کریں گے اور جو لوگ اللہ کی آیات اور قیامت کو جھٹلاتے ہیں‘ ان کے اعمال باطل ہیں۔ پھر موسیٰ علیہ السلام کے کوہِ طور پر قیام کے عرصے میں بنی اسرائیل کے زیورات سے بچھڑا بناکر اسے معبود بنانے کا ذکر ہے؛ چنانچہ جب موسیٰ علیہ السلام واپس آئے تو قوم پر غصے اور افسوس کا اظہار کیا اور کہا: میرے پیچھے تم نے ایسا برا کام کیا‘ انہوں نے تورات کی تختیاں زمین پر ڈالیں اور اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کا سر پکڑ کر ان سے جواب طلبی کی۔ انہوں نے کہا: اے میرے بھائی قوم نے مجھے بے بس کر دیا اور قریب تھا کہ مجھے قتل کر دیں‘ اب آپ مجھ پر سختی کرکے دشمنوں کو ہنسی کا موقع نہ دیں‘ پھر آیت 151 میں موسیٰ علیہ السلام کی دعا اور کلماتِ استغفار کا ذکر ہے۔ آگے چل کر بتایا کہ غصہ ٹھنڈا ہونے پر موسیٰ علیہ السلام نے تورات کی تختیوں کو اٹھایا‘ جن کی تحریر میں اللہ سے ڈرنے والوں کیلئے ہدایت اور رحمت کی نوید تھی۔
آیات 155 تا 158 میں موسیٰ علیہ السلام کی دعا کا ذکر ہے‘ جس میں انہوں نے اپنی قوم کیلئے اللہ سے دنیا اور آخرت کی بھلائی مانگی۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ کامل نعمت میں اُن لوگوں کو عطا کروںگا جو ایمان کے ساتھ تقویٰ اختیار کریں گے‘ زکوٰۃ دیں گے اور اس عظیم رسول نبیِ اُمی کی پیروی کریں گے‘ جس کا ذکر وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں اور یہ نبی ان کو نیکی کا حکم دے گا اور برائی سے روکے گا اور پاکیزہ چیزوں کو ان کیلئے حلال کرے گا اور ناپاک چیزوں کو حرام کرے گا اور بداعمالیوں کا بوجھ اور ان کے گلوں میں پڑے ہوئے طوق اتار دے گا‘ سو جو لوگ ان پر ایمان لائے‘ ان کی تعظیم اور نصرت کی اور اس نورِ (ہدایت) کی پیروی کی جو اُن کے ساتھ نازل کیا گیا ہے‘ وہی فلاح پانے والے ہیں۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ کی رسالتِ عامّہ کا ذکر ہے۔ آیت 160 سے موسیٰ علیہ السلام کی پتھر پر ضرب سے ان کی قوم کے بارہ قبیلوں کیلئے بارہ چشمے جاری ہونے کے معجزے کا بیان ہے۔ اس کے بعد اس امر کا بیان ہے کہ بنی اسرائیل کو حکم ہوا کہ معافی مانگتے اور سجدہ کرتے ہوئے بیت المقدس میں داخل ہو جاؤ مگر انہوں نے اس مسئلے میں بھی تحریف کی‘ مزید بتایا کہ سمندر کے کنارے ایلا نامی بستی میں انہیں ہفتے کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا گیا‘ مگر انہوں نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی۔ بنی اسرائیل کی ان نافرمانیوں کے باعث اُن کی صورتوں کو مسخ کرکے بندر بنا دیا گیا۔ آیت 172 میں اس امر کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کی ارواح کو جمع کیا اور ان سے اپنی ربوبیت کا اقرار کروایا‘ اس اقرار کو ''عہدِ اَلَسْت‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ آیت 179 میں اللہ تعالیٰ کی نعمتِ عقل کو قبولِ ہدایت کے لیے استعمال نہ کرنے والوں کو چوپایوں سے بدتر قرار دیتے ہوئے فرمایا: ان کے دل ہیں مگر وہ (حق کے دلائل کو) سمجھتے نہیں‘ ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ (آیاتِ الٰہی کو) دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر وہ (دعوتِ حق کو) سنتے نہیں۔ رسول اللہﷺ کو بارگاہِ الوہیت میں عجز ونیاز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا: ''کہو! میں اپنی ذات کیلئے کسی ونفع ونقصان کا مالک نہیں‘ مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں (اپنی ذات سے) غیب کو جانتا تو میں (از خود) خیرِ کثیر جمع کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی‘‘ یعنی غیب کے علوم اور ساری نعمتیں رب ہی کی عطا سے ہیں اور کبھی کوئی تکلیف پہنچے تو اس کی قضا وقدر سے پہنچتی ہے۔ سورۂ اعراف کے آخر میںہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے اور اپنے رب کوصبح و شام خوف اور عاجزی کے ساتھ پست آواز میں دل میں یاد کرو اور غافلوں میں سے نہ ہو جاؤ۔
سورۃ الانفال: انفال مطلقاً مالِ غنیمت کو بھی کہتے ہیں اور کسی مجاہد کو غیر معمولی کارکردگی کی وجہ سے دوسرے مجاہدین کے مقابلے میں کچھ زائد دیا جائے تو اسے بھی نفل یا انفال کہتے ہیں۔ آیت 2 میں کامل مؤمنوں کی یہ صفات بیان کی گئی ہیں: وہ اللہ سے ڈرتے ہیں‘ آیاتِ الٰہی سن کر ان کے ایمان کو تقویت ملتی ہے‘ وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں‘ اقامتِ صلوٰۃ اور ادائے زکوٰۃ ان کا شِعار ہے اور یہ سچے اور پکے مومن ہیں۔ آیت 5 میں فرمایا کہ کچھ لوگ جہاد کیلئے دل و جان سے آمادہ نہ تھے اور مجاہدین کی خواہش تھی کہ مشرکینِ مکہ کے مسلح و منظم لشکر کے بجائے ابوسفیان کے تجارتی قافلے سے ٹکرائو ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکینِ مکہ سے تصادم کو مقدر فرمایا تاکہ حق کی حقانیت اور غلبہ ثابت ہو جائے ۔

نویں پارے کا آغاز بھی سورۃ الاعراف سے ہوتا ہے۔ آغاز میں حضرت شعیب علیہ السلام کا واقعہ ہے۔ اُن کی قوم کے لوگ مال کی محبت میں اندھے ہو کر حرام و حلال کی تمیز بھلا چکے تھے۔ اللہ کے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب اُنہیں پورا تولنے اور پورا ماپنے کا حکم دیا تو انہوں نے ایک دوسرے کو مخاطب ہو کر کہا کہ اگر تم نے شعیب (علیہ السلام) کی پیرو ی کی تو گھاٹے میں پڑ جائو گے۔ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ حقیقی خسارہ اور گھاٹا تو شعیب علیہ السلام کو جھٹلانے والوں کے لیے تھا۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتایا کہ اگر بستیوں کے رہنے والے ایمان اور تقویٰ کو اختیار کریں تو اللہ تعالیٰ ان کے لیے آسمان اور زمین سے برکات کے دروازے کھول دیں گے‘ لیکن چونکہ وہ اللہ کے احکامات کو جھٹلاتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ ان پر گرفت کرتے ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کی فرعون کے دربار میں آمد کا ذکر کیا اور بتایا کہ جب موسیٰ علیہ السلام فرعون کو توحید کی دعوت دینے آئے اور فرعون نے سر کشی کا مظاہرہ کیا تو موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اللہ کی عطا کردہ نشانیوں کو ظاہر فرمایا۔ آپ علیہ السلام نے اپنے عصا کو زمین پر گرایا تو وہ بہت بڑا اژدہا بن گیا‘ آپ نے اپنے ہاتھ کو اپنی بغل میں ڈال کر باہر نکالا تو وہ روشن ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ کی اتنی واضح نشانیوں کو دیکھ کر بھی فرعون اور اس کے مصاحب سرکشی پر تلے رہے اور جناب موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو جادوگر قرار دے دیا۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اللہ نے فرعون اور اس کے قبیلے پر مختلف قسم کے عذاب مسلط کیے۔ اللہ تعالیٰ نے کبھی پھلوں کے نقصانات کے ذریعے‘ کبھی خون کی بارش کے ذریعے‘ کبھی جوئوں‘ مینڈکوں اور ٹڈیوں کی بارش کے ذریعے ان پر اپنے عذاب نازل کیے۔ ہر دفعہ آتے ہوئے عذاب کو دیکھ کر آلِ فرعون اپنی اصلاح کا وعدہ کرتے‘ لیکن جب وہ عذاب ٹل جاتا تو دوبارہ نافرمانی پر آمادہ ہو جاتے، یہاں تلک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی نافرمانیوں کی پاداش میں ان کو سمندر میں غرق کر دیا۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو اپنے سے ہم کلام ہونے کا شرف عطا کیا اور چالیس روز تک آپ سے کلام کرتے رہے۔ اس کلام کے دوران جناب موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا: اے پر وردگار! کیا میں تجھے دیکھ نہیں سکتا؟ تو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ نہیں! ایک دفعہ سامنے پہاڑ پر نظر کریں‘ اگر یہ پہاڑ اپنی جگہ جما رہا تو آپ مجھے دیکھ سکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب اپنی تجلیات کو اس پہاڑ پر گرایا تو وہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا اور جناب موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو گئے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام ہوش میں آئے تو انہوں نے کہا: اے پروردگار! آپ کی ذات پاک ہے اس بات سے کہ ان آنکھوں سے آپ کو دیکھا جا سکے۔
موسیٰ علیہ السلام جب کوہِ طور پر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لیے گئے تو آپ اپنی عدم موجودگی میں جناب ہارون علیہ السلام کو اپنی قوم کے نگران کے طور پر مقرر کر کے گئے تھے۔ جناب موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سامری جادوگر نے سونے اور چاندی کا ایک بچھڑا بنا کر اس میں جبرائیل علیہ السلام کے قدموں سے چھونے والی راکھ کو ڈال کر جادو پھونکا تو اس میں سے حقیقی بچھڑے کی طرح آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ جناب موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے لوگوں نے اُسے پوجنا شروع کر دیا۔ حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنی قوم کے لوگوں کو بہت سمجھایا کہ یہ شرک ہے اور اس سے بچنا چاہیے‘ لیکن ان نادانوں نے جناب ہارون علیہ السلام کی نصیحت کو پسِ پشت ڈال دیا۔ جناب موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے بعد جب تورات کو لیے ہوئے پلٹے تو اپنی قوم کے لوگوں کو شرک کی دلدل میں دھنسے ہوئے پایا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اس منظر کو دیکھ کر اتنا غضبناک ہوئے کہ آپ نے تورات کی تختیاں زمین پر رکھیں اور جنابِ ہارون علیہ السلام کی داڑھی کے بالوں کو پکڑ لیا۔ جنابِ ہارون علیہ السلام نے جناب ِموسیٰ علیہ السلا م سے کہا کہ اے برادرِ عزیز! میں نے ان کو بہتیرا سمجھایا‘ لیکن انہوں نے میری کسی نصیحت کو قبول نہ کیا۔ میں نے اس لیے زیادہ اصرار نہیں کیا کہ کہیں آپ یہ نہ کہیں کہ میں نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا ہے۔ جناب موسیٰ علیہ السلام کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو آپ نے اپنے اور حضرت ہارون کے لیے اللہ کی بارگاہ میں دعا مانگی کہ پروردگار! ان کے اور فاسقوں کے درمیان تفریق پیدا فرما دے۔
اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ہفتے کے دن والی آزمائش کا بھی ذکر کیا ہے کہ سمندر کے کنارے ایک بستی کے رہنے والے یہودیوں کو اللہ تعالیٰ نے ہفتے کو مچھلیوں کے شکار سے منع فرما دیا تھا۔ وہ ہفتے کے دن جال لگا لیتے اور اتوار کو مچھلیاں پکڑ لیتے۔ ان نافرمانوں کو اس بستی کے ایک گروہ نے نیکی کی نصیحت کی جبکہ ایک گروہ غیر جانبدار تھا۔ غیر جانبدار گروہ نے نصیحت کرنے والے گروہ کو کہا: تم ان لوگوں کو سمجھا کر کیا کر لو گے جو ہلاکت یا اللہ کے عذاب کا نشانہ بننے والے ہیں؟ اس پر نصیحت کرنے والی جماعت نے کہا: اس کارِ خیر سے ہمارا عذر ثابت ہو جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ بھی راہِ راست پر آ جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی نافرمانی کرنے والوں کو عذا ب کا نشانہ بنا دیا اور ان کے چہرے اور جسم مسخ کر کے انہیں بندروں کی مانند کر دیا۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو عظیم خصوصیات کا ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کا ذکر تورات اور انجیل میں بھی مذکور تھا۔ اللہ تعالیٰ یہ بھی ارشاد فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کی طرف مبعوث فرمایا ہے اور آپﷺ کی رسالت زمانوں اور علاقوں کی حدود سے بالاتر ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ کے خوبصورت نام ہیں اور ہمیں اللہ تبارک و تعالیٰ کو ان ناموں کے ساتھ پکارنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ لوگ رسول اللہﷺ کے پاس آکر ان سے پوچھتے ہیں کہ قیامت کب آئے گی؟ اللہ نے کہا کہ آپﷺ ان کو فرما د یجیے کے اللہ کے سوا اس کے وقت کو کوئی نہیں جانتا۔ اس سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جب قرآنِ مجید کی تلاوت ہو رہی ہو تو اس کو توجہ سے سننا چاہیے اور خاموشی کو اختیار کرناچاہیے۔ اللہ تعالیٰ توجہ سے قرآن پاک سننے کی وجہ سے انسانوں پر رحم فرمائے گا۔
سورۃ الانفال
سورۃ الاعراف کے بعد سورۃالانفال ہے۔ سورہ انفال میں اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں کہ اللہ نے بدر کے معرکے میں مسلمانوں کی قلیل تعداد کے باوجود ان کو کافروں پر غالب کیا اور ان کی مدد کے لیے ایک ہزار فرشتے اتارے۔ سورۃ آل عمران میں اللہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ نے تین ہزار اور اس کے بعد صبر و استقامت کے مظاہرے کی صورت میں پانچ ہزار فرشتوں کے نزول کا وعدہ فرمایا۔ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ فرشتوں کی مدد تو درحقیقت مومنوں کے لیے ایک بشارت ہے‘ اصل مدد تو اللہ تعالیٰ کی نصرت ہے۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اہلِ ایمان کو جب اللہ اور اس کے رسول بلائیں تو ان کو فوراً ان کی پکارکا جواب دینا چاہیے‘ اس لیے کہ ایمان والوں کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی پکار پر عمل پیرا ہو کر ہی زندگی ملتی ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکرکیا کہ جس جگہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مو جود ہوں یا جس قوم کے لوگ استغفار کرنے والے ہوں ان پر اللہ کا عذاب نہیں آ سکتا‘ یعنی رسول نبی کریمﷺکے وصال کے بعد امت مسلمہ کے پاس عذاب سے بچنے کے لیے آج بھی استغفار کا ہتھیار موجود ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآنِ مجید پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!

رسول کریمﷺ سے کفار طرح طرح کے مطالبے کرتے تھے کہ ہم اس وقت ایمان لائیں گے‘ جب فرشتے ہمارے پاس اتر کر آئیں یا برزخ و آخرت کے بارے میں آپ جو باتیں ہمیں بتاتے ہیں‘ ہمارے جو لوگ مرچکے ہیں‘ وہ زندہ ہو کر آئیں اور آپ کے دعووں کی تصدیق کریں‘ قرآنِ مجید نے بتایاکہ اُن کی یہ ساری باتیں جہل پر مبنی اور انکارِ حق کیلئے محض بہانے بازی ہے۔ سورۃ الانعام کی آیات 117 تا 118میں فرمایا: جس (حلال جانور) پر ذِبح کے وقت اللہ کا نام لیاگیا ہو‘ اُسے کھاؤ‘ جو حرام چیزیں ہیں‘ انہیں تمہارے لیے تفصیل سے بیان کر دیا گیا‘ صرف حالتِ اضطرار میں اور وہ بھی بقدرِ بقائے حیات کھانے کی اجازت ہے۔ مزید فرمایا: جس ذبیحے پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو‘ اُسے نہ کھاؤ۔ آیت 123 میں فرمایا: اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اُس کے مجرموں کو سردار بنایا تاکہ وہ وہاں فریب کاری کریں اور اُن کے دَجل و فریب کا وبال اُنہی پر آئے گا۔ آیات 130 تا 131 میں اتمامِ حجت کیلئے فرمایا: ''اے جنّات اور انسانوں کے گروہ! کیا تمہارے پاس رسول نہیں آئے تھے‘ جو تم پر میری آیات بیان کرتے تھے اور تمہیں اس (قیامت کے) دن کی ملاقات سے ڈراتے تھے؟ وہ کہیں گے: ہم خود اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں اور اُنہیں دنیاکی زندگی نے فریب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ (یہ گواہی اس وجہ سے دی گئی کہ) آپ کا رب بستیوں کو ظلماً ہلاک کرنے والا نہیں ہے‘‘۔ آیات 142 تا 146 میں اللہ تعالیٰ نے پھلوں‘ کھیتوں اور جانوروں کے ذریعے عطا کی جانے والی نعمتوںکا ذکر فرمایا کہ ''اللہ کی ان نعمتوں کو کھاؤ‘ اسراف نہ کرو اور شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو‘ پھلوں اور کھیتوں کی پیداوار میں اللہ تعالیٰ کے حق (عُشر یا نصف عُشر) کو ادا کرو‘‘ پھر فرمایا کہ ''یہود کی سرکشی کی وجہ سے ناخن والے جانوروں اور گائے اور بکری کی چربی کو ان پر حرام کر دیا گیا تھا‘ انہوں نے اسے پگھلایا اور فروخت کر دیا‘‘۔ آیت 148 میں ہر دور کے منکرین کے ایک نفسیاتی حربے کو بیان کیا کہ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں‘ یہ اللہ کی مشیت ہے‘ اگر وہ نہ چاہتا تو ہم یہ سب کچھ نہ کرپاتے۔ درحقیقت بات یہ ہے کہ اللہ کی مشیت اور ہے اور اس کی رِضا اور ہے‘ مثلاً: مجرم کو سزا دینا اس کی مشیت ہے‘ لیکن اس کی رِضا اس میں ہے کہ کوئی اس کی نافرمانی نہ کرے۔ اگر سب کو جبری طور پر اطاعت کے راستے پر ڈالنا اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوتی‘ تو کسی کی مجال نہ تھی کہ اس کی حکم عدولی کرے۔
آیات 152 تا 154 میں فرمایا کہ (1) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو (2) والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو (3) تنگ دستی کے خوف سے اولاد کو قتل نہ کرو (4) ظاہر و مستور فحاشی سے اجتناب کرو (5) قتلِ ناحق نہ کرو (6) یتیم کا مال ناجائز طریقے سے نہ کھائو (7) لین دین میں ناپ تول پورا کرو (8) بلا تمیز سب کے ساتھ انصاف کرو (9) اور اللہ سے کیے گئے عہد کی پاسداری کرو؛ چونکہ یہ نو اَحکامِ شرعیہ ہی دینِ اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ اور لُبِّ لُباب ہیں اور باقی تمام شرعی اَحکام انہی پر منحصر ہیں‘ اسی لیے فرمایا: ''یہی سیدھا راستہ ہے‘ فرقہ بندی چھوڑ کر اسی کی پیروی کرو اور کتابِ الٰہی کے اَحکام کو ملحوظ رکھو‘‘۔ آیات 163 تا 164میں حقیقتِ ایمان اور روحِ ایمان اور مسلمان کے مقصدِ حیات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ''(اے رسول!) کہہ دیجئے کہ میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی اور میری موت (سب کچھ) اللہ رب العالمین کیلئے ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے یہی حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں‘‘۔
سورۃ الاعراف: اعراف کے معنی بلندی کے ہیں اور اس کا معنی جاننا اور پہچاننا بھی ہے۔ ''اصحابِ اعراف‘‘ کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ ان کی نیکیاں اور گناہ برابر ہوں گے اور ان کا مقام جنت اور دوزخ کے درمیان ہو گا یا یہ وہ لوگ ہیں جو اہلِ جنت اور اہلِ جہنم کو پہچاننے والے ہوں گے اور ایک قول کے مطابق یہ انبیاء ہیں یا ملائکہ ہیں۔ آیت 8 میں بتایا کہ قیامت کے دن اعمال کا وزن کیا جانا حق ہے اور جن کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو گا‘ وہی فلاح پانے والے اور کامیاب ہیں اور جن کی نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہو گا وہ نقصان اٹھانے والے ہیں۔ آیات 11 تا 27 میں حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس کا واقعہ بیان ہوا کہ جب ابلیس نے اللہ کے حکم پر آدم کو سجدہ نہ کیا تو ربِ ذوالجلال نے اس سے پوچھا کہ تو نے میرے حکم کے باوجود سجدہ کیوں نہ کیا؟ اس نے اپنی سرکشی کا جواز عقلی دلیل سے پیش کیا کہ میں آدم سے بہتر ہوں‘ انہیں مٹی سے پیدا کیا گیا ہے‘ میرا جوہرِ تخلیق آگ ہے اور آگ لطیف ہونے کی بنا پر مٹی سے افضل ہے۔ تکبر کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو رسوا کرکے مقامِ عزت سے نکال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم وحوا علیہما السلام کو جنت میں داخل کیا اور انہیں ایک خاص درخت کے قریب جانے سے منع فرمایا۔ شیطان نے ان کو وسوسہ ڈالا اور مخلص اور خیر خواہ کا روپ اختیار کرکے کہا کہ آپ لوگوں کو اس درخت کے قریب جانے سے محض اس لیے منع کیا گیا ہے کہ اس کے قریب جاکر آپ لوگ فرشتے بن جائیں گے اور آپ لوگوں کو ابدی زندگی مل جائے گی‘ اس نے قسمیں کھا کر اپنی خیرخواہی کا یقین دلایا‘ پھر ان سے اجتہادی خطا ہوئی اور اس درخت کو چکھنے سے ان کی شرمگاہیں ظاہر ہو گئیں اور وہ درختوں کے پتوں سے اپنے ستر کو ڈھانپنے لگے‘ یہاں قرآنِ مجید نے یہ بھی بتایا کہ شیطان کا مقصد ان کے ستر کو بے حجاب کرنا تھا۔ اپنی اجتہادی خطا کا احساس ہونے پر حضرت آدم علیہ السلام نے توبہ کی اور ان کی توبہ کے کلمات آیت 23 میں بیان ہوئے ہیں۔ آیت 26 تا 27 میں اللہ تعالیٰ نے مقصدِ لباس بیان فرمایا کہ ہم نے بنی آدم پر لباس اس لیے اتارا کہ ان کی ستر پوشی ہو اور سامانِ زینت ہو اور سب سے بہتر لباس تو تقویٰ ہے‘ پھر بنی آدم کو متنبہ کیا گیا کہ شیطان کے مکرو فریب میں نہ آنا‘ اس کو یہ مَلکہ دیا گیا ہے کہ وہ تمہیں ہر جہت سے دیکھ سکتا ہے۔ آیت 57 میں اللہ تعالیٰ نے بارانِ رحمت کے نظام کے بارے میں بتایا کہ اس کے حکم سے ہوائیں پانی سے بھرے بادلوں کو اُٹھا کر لے جاتی ہیں اور بنجر زمین پر برسا کر اس میں اللہ کی نعمتیں پیدا کر دیتی ہیں‘ پھر فرمایا کہ اچھی زمین اللہ تعالیٰ کے حکم سے سبزہ اگاتی ہے اور خراب زمین باغ و بہار نہیں لاتی۔ آیت 59 سے حضرت نوحؑ اور ان کی قوم کے حالات بیان کیے گئے ہیں کہ ان کی قوم کے سرداروں نے کہا: ''(معاذ اﷲ) آپ کھلی گمراہی میں ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تو اللہ کا رسول ہوں اور میرا کام تمہاری خیر خواہی اور تم تک دعوتِ حق کو پہچانا ہے‘‘۔ آیت 65 سے اگلی آیات میں حضرت ہودؑ اور ان کی قوم عاد کا ذکر ہے کہ قومِ عاد نے بھی اللہ کے نبی پر طعن کیا کہ (معاذاللہ) آپ حماقت میں مبتلا ہیں‘ پھر ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو وہی جواب دیا‘ جو حضرت نوحؑ نے اپنی قوم کو دیا تھا۔ حضرت ہودؑ نے قومِ عاد کو انعاماتِ الٰہیہ کا شکر اداکرنے کی تلقین کی‘ اُن کے انکار کے سبب اُن پر اللہ کا عذاب اور غضب نازل ہوا‘ اللہ نے حضرتِ ہودؑ اور ان کے ساتھیوں کو نجات دی۔ آیت 73 سے حضرت صالحؑ اور ان کی قوم ثمود کا ذکر ہے۔ قومِ ثمود کے لوگ بڑے طاقتور تھے اور یہ پہاڑوں کو تراش کر ان میں گھر بناتے تھے‘ گویا ان کو اپنی طاقت پر ناز تھا‘ پھر قومِ ثمود نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی اور حضرت صالحؑ کو معجزے کے طور پر دی گئی اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی سرکشی کی سزا اس طرح دی کہ ان پر رات کو زلزلے کا عذاب آیا اور صبح کو وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ پڑے رہ گئے۔ آیت 80 سے 84 تک حضرت لوطؑ اور ان کی قوم کا ذکر ہے کہ وہ بے حیائی میں اپنے زمانے کے سب لوگوں پر سبقت لے گئے‘ وہ اپنی جنسی خواہش کو غیر فطری طریقے سے پورا کرتے تھے اور جب اللہ کے نبی عذاب کا ڈر سناتے تو وہ اسے مذاق سمجھتے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کیا‘ آسمان سے پتھر برسائے اور اس طرح ان کا نام ونشان مٹا دیا گیا‘ یہاں تک کہ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی‘ جو قومِ لوط کی ہم خیال تھی‘ بھی عذاب سے نہ بچ سکی۔ صرف حضرت لوط علیہ السلام اور ان کے ساتھ قبیلے کے چند نیکوکار لوگ ہی محفوظ رہے۔
آیت 85 میں قومِ مَدین کا ذکر ہے کہ وہ ناپ تول میں ڈنڈی مارتے اور دوسروں کو چیزیں کم تول کر دیتے تھے اور راستے میں بیٹھ کر اہلِ ایمان کو ڈراتے اور انہیں راہِ راست سے روکتے۔ انہیں بھی کہا گیا کہ فساد فی الارض سے باز آ جاؤ اور اپنے سے پہلی سرکش امتوں کا انجام دیکھ لو۔

آٹھویں پارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اگر ہم ان پر فرشتے اتار دیتے اور ان سے مردے بات کرنے لگتے اور ہر چیز کو ان کے سامنے لا کھڑا کر دیتے تو بھی وہ ایمان لانے والے نہیں تھے‘ سوائے اس کے کہ اللہ چاہے۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی‘ جب مشرکینِ مکہ اور کفارِ عرب نے رسول کریمﷺ سے مختلف طرح کی نشانیوں کو طلب کرنا شروع کیا۔ کبھی وہ کہتے کہ ہمارے اوپر فرشتے اترنے چاہئیں‘ کبھی وہ کہتے کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو ہم اپنے پروردگار کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں اور کبھی وہ کہتے کہ ہمارے آبائو اجداد جو اس دنیا سے چلے گئے ہیں‘ ان کو دوبارہ زندہ کریں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول کریمﷺ کو کافروں کی سرشت سے آگاہ کیا کہ ان کافروں کی نشانیاں طلب کرنے والی بات کوئی حق پرستی پر مبنی نہیں‘ بلکہ یہ تو صرف اور صرف حق سے فرار حاصل کرنے کے لیے اس قسم کے مطالبات کر رہے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بغیر کسی نشانی کے اسلام کو قبول کر لیا جبکہ مکہ کے بہت سے کافر متعدد نشانیوں کو دیکھ کر بھی مسلمان نہ ہوئے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ زمین پر رہنے والوں کی اکثریت کی پیروی کرنے سے انسان گمراہ ہو جاتا ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں جس چیز پر غیر اللہ کا نام لیا جائے‘ اُسے کھانا جائز نہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا ہے کہ اللہ نے یہودیوں پر ان کی بغاوت اور سرکشی کی وجہ سے ہر ناخن والا جانور حرام کر دیا تھا اور گائے اور بکری کی پیٹھ پر لگی چربی کے علاوہ باقی چربی کو بھی ان پر حرام کر دیا تھا‘ لیکن یہودیوں کی سرکشی کا عالم یہ تھا کہ وہ چربی بیچ کر کھانا شروع ہو گئے۔ بخاری و مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس روایت کو نقل کیا ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: ''اللہ کی مار ہو یہود پر‘ جب چربی ان کے لیے حرام کر دی گئی تو اسے پگھلا کر (تیل بنا کر) بیچ دیا اور اس کی قیمت کھا گئے‘‘۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اولاد کے قتل کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ وہ لوگ گھاٹے میں ہیں‘جنہوں نے اپنی اولادوں کو بے وقوفی کے ساتھ قتل کر دیا اور اپنی مرضی سے اللہ تعالیٰ کے جائز کیے ہو ئے رزق کو حرام قرار دیا۔ اس پارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ یہ بھی ارشاد فرماتے ہیں کہ جب فصلوں کی کٹائی کا دن آئے‘ اس دن اللہ تعالیٰ کے حق کو ادا کیا کرو۔ جب اللہ تعالیٰ ہر چیز عطا فرماتے ہیں تو اس کا حق بھی بروقت ادا ہونا چاہیے۔ اس پارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے رزق کی ان چار بڑی اقسام کا بھی ذکر کیا‘ جو انسانوں پر حرام ہیں۔ پہلا رزق‘ جو انسانوں پر حرام ہے‘ وہ مردار ہے‘ اسی طرح بہتا ہوا خون انسانوں پر حرام ہے‘ خنزیر کا گوشت بھی انسانوں پر حرام ہے اور اسی طرح غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ بھی انسانوں پر حرام ہے۔
اس پارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مشرکین کے اس غلط عذر کو بھی رد کیا کہ وہ اپنے اور اپنے آبائو اجداد کے بارے میں کہیں گے‘ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم اور ہمارے آبائو اجداد ہرگز شرک نہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: یہ اور ان سے پہلے لوگ بھی اسی طرح جھوٹ تراشتے رہے۔ اللہ تعالیٰ مزید کہتے ہیں کہ اے نبی! آپ ان کو کہہ دیجئے کہ (جو اللہ نے تحریر کیا ہے) کیا تم اس کو جانتے ہو؟ اگر جانتے ہو تو اس کو ہمارے سامنے پیش کرو۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ لوگ غلطی تو خود کرتے ہیں‘ لیکن خو اہ مخواہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے بعض کبیرہ گناہوں کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ شرک نہیں کرنا چاہیے‘ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا چاہیے‘ اپنی اولاد کو بھوک کے خوف سے قتل نہیں کرنا چاہیے‘ فحاشی چاہے چھپی ہوئی ہو‘ چاہے علانیہ ہو‘ اس کے قریب بھی نہیں جانا چاہیے‘ کسی کو ناحق قتل نہیں کرنا چاہیے‘ یتیم کے مال کو نا جائز طریقے سے استعمال نہیں کرنا چاہیے‘ ترازو کو صحیح طریقے سے پکڑنا چاہیے‘ جب بھی بات کی جائے عدل سے کرنی چاہیے‘ چاہے قریبی عزیز ہی اس کی زد میں آئیں، اللہ تعالیٰ سے کیے گئے یا اس کے نام پر کیے گئے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے اور ان تمام نصیحتوں کا بنیا دی مقصد انسانوں میں عقل اور تقویٰ کو پیدا کرنا ہے۔اس پارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان لوگوں کی بھی بڑی شدت سے مذمت کی ہے‘ جو اپنے دین میں تفرقہ پیدا کرتے اور گروہوں میں بٹ جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ ان کو ان کے کیے سے آگاہ کرے گا۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں رحمت کا بھی ذکر کیا ہے کہ جو ایک بُرائی کرے گا‘ اس کو ایک ہی کا بدلہ ملے گا‘ لیکن جو ایک نیکی کرے گا‘ اُسے اس جیسی دس نیکیاں ملیں گی اور انسانوں پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حکم دیا ہے کہ وہ اعلان فرمائیں کہ بے شک میری نمازیں‘ میری قربانیاں‘ میرا جینا اور میرا مرنا‘ سبھی کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا اور میں سب سے پہلے اپنے آپ کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے سپرد کرنے والا ہوں۔
سورۃ الاعراف
سورۂ انعام کے بعد سورۂ اعراف ہے۔ اس سورت کے آغاز میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ پیارے حبیب علیہ الصلوٰۃ والسلام جو قرآنِ مجید آپ پر نازل کیا گیا ہے‘ یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ آپ اس کے ذریعے لوگوں کو (اللہ کے عذاب)سے ڈرائیں اور اس میں مومنوں کے لیے نصیحت ہے۔ یہ وحی اس لیے نازل کی گئی ہے کہ آپ اس کی پیروی کریں۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اگلی قوموں کا ذکر فرمایا کہ جب ان پر عذاب آیا تو وہ ایسی گھڑی میں نازل ہوا جب وہ قومیں سو رہی تھیں، یا رات کو اللہ کا عذاب نازل ہوا یا دن کے وقت جب وہ قیلولہ کر رہی ہوتی تھیں‘ یعنی اللہ کے عذاب نے انہیں غفلت میں آن پکڑا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کے وزن کا ذکر کیا ہے کہ کل قیامت کو وزن حق اور انصاف کے ساتھ ہو گا تو جس کا پلڑا بھاری ہو گا وہ کامیاب ہو گا اور جس کا پلڑا ہلکا ہو گا‘ تو یہ وہ لوگ ہیں‘ جنہوں نے ہماری آیات کو رد کر کے اپنی ہی جانوں کا نقصان کیا۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے ایک بہت بڑے انعام کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو زمین پر ٹھہرایا اور ان کے لیے مختلف طرح کے پیشے بنائے اور پھر بھی کم ہی انسان ہیں جو شکر گزار ہیں۔اس پارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسجدوں میں آنے کے آداب کا بھی ذکر کیا کہ مسجد میں آتے ہوئے انسانوں کو اپنی زینت کو اختیار کرنا چاہیے اور اچھا لباس پہن کر مسجد میں آنا چاہیے۔
اسی سورت میں اللہ تعالیٰ نے جہنم کے مناظر کا بھی ذکر کیا ہے کہ اہلِ جنت جہنمیوں سے مخاطب ہو کر کہیں گے: ہم پا چکے ہیں‘ جس کا وعدہ ہمارے رب نے کیا تھا، کیا تم کو بھی وہ کچھ مل گیا‘ جس کا تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا؟ تو وہ جواب میں کہیں گے: ہاں! اس پر ایک پکارنے والا پکار کر کہے گا: اللہ کی لعنت ہو ظالموں پر‘ اسی طرح اہلِ نار جنتیوں سے تقاضا کریں گے کہ اللہ نے ان کو جو پانی اور رزق عطا کیا ہے‘ اس میں سے ان کو بھی دیا جائے تو اہلِ جنت کہیں گے: اللہ نے اس کھانے اور پینے کو اہلِ نار پر حرام کر دیا ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس پارے میں اصحابِ اعراف کا بھی ذکر کیا ہے۔ اصحابِ اعراف ایسے لوگ ہوں گے‘ جو جہنم کے عذاب سے محفوظ ہوں گے‘ لیکن اعمال میں کمزوری کی وجہ سے جنت حاصل کرنے میں ناکام ہو جائیں گے۔ ایک مخصوص مدت گزارنے کے بعد اللہ تعالیٰ ان کو جنت میں داخل فرما دے گا۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ خوف اور طمع کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کو پکارتے رہنا چاہیے۔ بے شک اللہ کی رحمت نیکوکاروں کے قریب ہے۔ اس پارے کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ نے ان قوموں کا ذکر کیا ہے‘جو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے تباہ و برباد ہوئیں‘ ان کا تفصیلی ذکر سورۂ ہود میں ہو گا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآنِ پاک پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے، آمین!

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جب نبی کریمﷺ کے اصحاب نجاشی کے پاس پہنچے اور انہوں نے قرآنِ کریم پڑھا اور ان کے علماء اور راہبوں نے قرآنِ مجید سنا‘ تو حق کو پہچاننے کی وجہ سے ان کے آنسو بہنے لگے‘ اس کیفیت کو ساتویں پارے کی ابتدائی آیات میں بیان کیا گیا کہ ''اور جب وہ اس( قرآن کو سنتے ہیں)‘ جو رسول کی طرف نازل کیا گیا‘ تو حق کو پہچاننے کی وجہ سے آپ ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کو بہتا ہوا دیکھتے ہیں‘ وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے‘ تو ہمیں (حق کی) گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ لے‘‘۔ اس کے بعد ان کیلئے اجرِ آخرت اور دخولِ جنت کی نعمتوں کا ذکر ہے۔ آیت 89 میں قسم کا حکم بیان کیا گیا ہے‘ یعنی کوئی شخص مستقبل میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھائے‘ اگر وہ اس قسم پر قائم رہتا ہے‘ تو فقہی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ وہ قسم میں بری ہے اور اگر وہ قسم کو توڑ دیتا ہے‘ یعنی جو کہا ہے‘ اس کے برعکس کرتا ہے‘ تو فقہی اعتبار سے اسے ''حانث‘‘ ہونا کہتے ہیں۔ اس آیت میں قسم کا کفارہ بیان ہوا ہے‘ جو دس مسکینوں کو اپنے اوسط معیار کے مطابق دو وقت کا کھانا کھلانا یا ان کو لباس دینا یا غلام آزاد کرنا ہے (آج کل غلامی کا رواج نہیں) اگر کوئی ان چیزوں پر قادر نہ ہو تو کفارہ تین دن کے روزے رکھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ اپنی قسموں کی حفاظت کرو تاکہ کفارے کی نوبت نہ آئے۔ آیت 90 اور 91 میں فرمایا: ''اے مومنو! شراب‘ جوا‘ بتوں کے پاس (قربانی کیلئے) نصب شدہ پتھر اور فال کے تیر محض ناپاک شیطانی کاموں سے ہیں۔ سو‘ تم ان سے اجتناب کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ شیطان تو بس یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان بغض اور عداوت پیدا کرے اور تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے‘ تو کیا تم باز آنے والے ہو؟‘‘۔ آیت 100 میں رسول کریمﷺ سے غیر ضروری سوالات کرنے سے منع فرمایا گیا کہ اگر بہت سی باتیں تم پر ظاہر ہو جائیں تو تمہیں ناگوار گزریں۔ زمانۂ جاہلیت میں مشرکوں نے بعض حلال جانوروں کو بتوں کے نام پر وقف کرکے ان کا دودھ دوہنا‘ ان پر سامان لادنا اور ان کا گوشت کھانا ممنوع قرار دے رکھا تھا۔ آیت 104میں بتایا گیا کہ جب اہلِ کتاب اور دین سے انحراف کرنے والوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ اللہ کے نازل کردہ دین اور رسول کی طرف اتباع کیلئے چلے آؤ‘ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے آبائو اجداد کو اسی روش پر پایا ہے اور ہم اپنے آبائو اجداد کے شِعار کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں‘ خواہ ان کے آبائو اجداد جاہل اور راہِ ہدایت سے بھٹکے ہوئے ہوں۔ ظاہر ہے کہ رسولﷺ کو اس رویے سے تکلیف پہنچتی تھی‘ تو اللہ نے اہلِ ایمان کی تسلی کیلئے فرمایاکہ جب تک تم خود ہدایت پر ہو کسی کی گمراہی تمہارے لیے نقصان دہ نہیں۔ آیت 106 میں وصیت کیلئے دو عادل گواہ مقرر کرنے کا حکم دیا تاکہ بعد میں تنازع پیدا نہ ہو اور یہ بھی حکم دیا کہ حق کی گواہی کو چھپانا نہیں چاہیے۔ ابتدائے اسلام میں وصیت کو فرض قرار دیا گیا تھا لیکن احکامِ وراثت نازل ہونے کے بعد صرف اس کی اِباحت اور خیر کے کاموں کیلئے استحباب باقی ہے۔ آیت 110 اور 111 میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اپنی نعمتیں بیان کیں: (1) روح القدس سے مدد کرنا (2) گہوارے میں لوگوں سے کلام کرنا (3) کتاب و حکمت‘ تورات اور انجیل کی تعلیم (4) عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات‘ مثلاً: اذنِ الٰہی سے مٹی سے پرندہ بنا کرجان ڈالنا‘ مادر زاد اندھے اور برص کے مریض کو شفایاب کرنا‘ مردے کو زندہ کرنا‘ بنی اسرائیل کی ایذا رسانی سے بچانا‘ وغیرہ۔ آیت 112 عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کا اُن سے استدعا کرنا کہ اللہ آسمان سے ہمارے لیے تیار خوانِ نعمت نازل کرے‘ اس سے ہم کھائیں اور قلبی اطمینان پائیں۔ اس پر اللہ نے فرمایا ''میں یہ نعمت نازل تو کر دوں گا‘ مگر پھر جو شخص (مطلوبہ نشانی دیکھنے کے بعد) کفر کرے گا تو اسے ایسا عذاب دوں گا‘ جو جہان والوں میں سے کسی کو بھی نہ دوں گا‘‘۔ اس کے بعد کی آیات میں نصاریٰ پر حجت قائم کرنے کیلئے فرمایا کہ ''اے عیسیٰ! کیا آپ نے لوگوں کو یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا خدا بنا لو‘‘۔ ظاہر ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے اس سے برأت کا اظہار کیا۔
سورۃ الانعام: اس سورت کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کا بیان ہے کہ اس نے آسمانوں‘ زمین‘ ظلمت اور نور کو پیدا کیا‘ اسی نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا‘ پھر اس کیلئے ایک مدتِ حیات اور قیامت کا وقت مقرر فرمایا‘ لیکن کافر پھر بھی اپنے رب کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں اور اس کی قدرت کے بارے میں شک میں مبتلا ہوتے ہیں؛ حالانکہ وہ ظاہر و باطن اور انسان کے ہر عمل کو جانتا ہے۔ منکروں کا ایک شعار یہ ہے کہ اللہ کی قدرت کی نشانیاں آنے کے باوجود ان میں غور نہیں کرتے۔ آیت 7 میں فرمایا کہ کافروں کا حال تو یہ ہے کہ اگر لکھی ہوئی کتاب ان کے پاس اتار دی جائے‘ جسے وہ اپنے ہاتھوں سے چھو کر دیکھ لیں‘ تو پھر بھی ایمان نہ لائیں‘ بلکہ اسے جادو قرار دیں‘ اسی طرح اگر ان کے پاس فرشتہ اتر کر آ جائے‘ ملکوتی شکل میں‘ تو وہ دیکھ نہ پائیں اور اگر بشری لباس میں آئے‘ تو پھر وہ کہیں گے کہ یہ تو ہم جیسا بشر ہے۔ آیت 14 میں رسولﷺ کو حکم ہوا کہ آپ کافروں اور مشرکوں کو بتائیں کہ کیا میں زمین و آسمان کے خالق اور سب کے روزی رساں کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا کارساز مان لوں؟ آپ کہہ دیں کہ میں سب سے پہلے اسلام لانے والا ہوں۔ اللہ جس کوضرر پہنچائے‘ اس کے سوا کوئی نجات دینے والا نہیں‘ وہ ہر خیر کا مالک ہے۔ مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ میں ہر مخاطَب کو اللہ کے عذاب سے ڈراؤں اور اس کی توحیدکی دعوت دوں۔ آیت 22 میں فرمایا کہ قیامت کے دن ہم سب مشرکوں کو جمع کریں گے اور پوچھیں گے کہ تمہارے باطل معبود اب کہاں ہیں‘ تو وہ اپنے ماضی کو جھٹلائیں گے۔ آیت 25 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ منکرین آپ کی بات کو توجہ سے سنتے ہیں‘ لیکن ان کی بداعمالیوں کے سبب ان کے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور ان کے کانوں میں بندش ہے۔ آخرت میں وہ تمنا کریں گے کہ کاش ہمیں واپس دنیا میں بھیج دیا جائے اور ہم ایمان لانے والوں میں سے ہو جائیں۔ آیت 31 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے اللہ کے حضور پیش ہونے کی حقیقت کو جھٹلایا‘ وہ اپنی بداعمالیوں کا بوجھ اپنی پشت پر اٹھائے ہوئے ہیں اور جب اچانک قیامت آ پہنچے گی تو وہ اپنی کوتاہی پر افسوس کریں گے۔ رسول اللہﷺ کو تسلی دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آپ غمگین نہ ہوں‘ یہ آپ کو نہیں جھٹلا رہے بلکہ درحقیقت آیاتِ الٰہی کا انکار کر رہے ہیں اور آپ سے پہلے بھی رسولوں کو جھٹلایا گیا اور انہوں نے صبر کیا۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب کو جبراً ہدایت پر جمع فرما دیتا‘ لیکن بندے کو اختیار دے کر آزمانا اور جزا و سزا کا نظام قائم کرنا‘ اس کی حکمت کا تقاضا تھا۔ آیت 46 میں فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری سننے اور دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو سَلب فرما لے‘ تو کون ہے جو تمہیں نعمتیں عطا کر سکتا ہے۔ مشرک آپﷺ سے طرح طرح کے فرمائشی مطالبات کرتے تھے‘ تو اللہ نے فرمایا: آپ کہہ دیں میں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں از خود غیب جانتا ہوں اور نہ میں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں فرشتہ ہوں‘ میں تو فقط اسی چیز کی پیروی کرتا ہوں‘ جس کی مجھے وحی کی جاتی ہے۔ آیت 59 میں فرمایا: ''اور غیب کی کنجیاں اُسی کے پاس ہیں‘ اِس کے سوا (از خود) ان کو کوئی نہیں جانتا‘ وہ ہر اُس چیز کو جانتا ہے‘ جو خشکی اور سمندر میں ہے‘ وہ درخت سے گرنے والے ہر پتے کو جانتا ہے اور زمین کی تاریکیوں میں ہر دانہ کو جانتا ہے اور تر اور خشک ہر چیز لوحِ محفوظ میں لکھی ہوئی ہے‘‘۔ آیت 61 میں فرمایا ''اللہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور وہ اُن پر نگرانی کرنے والے فرشتے بھیجتا ہے اور جب کسی کی موت کا وقت آ جائے‘ تو وہ فرشتے کسی کوتاہی کے بغیر اُس کی رُوح کو قبض کر لیتے ہیں‘‘۔ آیت 63 میں فرمایا کہ بَر و بحر کی ظلمتوں میں کون تمہیں نجات دیتا ہے‘ جس کو تم عاجزی سے اور چپکے چپکے پکارتے ہو کہ اگر وہ ہمیں اِس مصیبت سے بچا لے تو ہم ضرور شکر گزاروں میں ہو جائیں گے‘ اے رسول! کہہ دیجئے اللہ ہی تم کو اس مصیبت اور ہر تکلیف سے نجات دیتا ہے‘ پھر بھی تم اُس کے ساتھ شرک کرتے ہو۔ آیت 64 میں فرمایا: اللہ اِس پر قادر ہے کہ تمہارے اوپر سے اور تمہارے پاؤں کے نیچے سے تم پر عذاب بھیجے اور تمہیں ایک دوسرے سے بھڑا دے اور تمہیں ایک دوسرے سے لڑائی کا مزہ چکھا دے۔ آیت 73 میں فرمایا: اللہ وہ ہے‘ جس نے آسمانوں اور زمینوں کو برحق پیدا کیا اور وہ‘ جس دن کسی فنا شدہ چیز کو فرمائے گا کہ ہو جا‘ تو وہ ہو جائے گی۔ آیت 74 تا 81 حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ہے۔

قرآنِ مجید فرقانِ حمید کے ساتویں پارے کے شروع میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے نرم دل اور ایمان شناس عیسائیوں کی جماعت کا ذکر کیا ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کے کلام کی تلاوت کی جاتی ہے تو حقیقت کو پہچاننے کی وجہ سے ایسے لوگوں کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑیاں لگ جاتی ہیں اور وہ لوگ حق کو پہچاننے کے بعد اس کو قبول کر لیتے ہیں‘ وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے‘ ہمارا نام بھی (اسلام کی)گواہی دینے والوں میں لکھ دے۔ قرآنِ مجید کی یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب کفار کے شر سے بچنے کے لیے مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کرجاتے ہیں اور کافر مسلمانوں کے بارے میں حبشہ کے بادشاہ کو اُکسانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حبشہ کا نرم دل عیسائی بادشاہ نجاشی جنابِ جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی زبان سے قرآنِ پاک کی تلاوت سنتا ہے تو اس کی آنکھوں سے آنسوبہنا شروع ہوگئے اور اُس نے اپنا شمار اسلام کی گواہی دینے والوں میں کروالیا۔
ساتویں پارے میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو مخاطب ہو کر کہا کہ اُنہیں پاک چیزوں کو اپنے اوپر حرام نہیں کرنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے پاک رزق کو کھانا چاہیے اور اس سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ انسان کی بلا ارادہ کھائی گئی قسموں پر مواخذہ نہیں کرتے‘ لیکن جب کسی قسم کو پوری پختگی سے کھایا جائے‘ تو ایسی صورت میں انسان کو اس قسم کو پورا کرنا چاہیے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے ان آیات کا نزول فرمایا ہے‘ جن میں صراحت سے شراب کو حرام قرار دیا گیاہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''اے ایمان والو! بے شک شراب‘ جوا‘ بت گری اور پانسہ ناپاک اور شیطانی کام ہیں؛ پس تم ان سے بچو‘ تاکہ کامیاب ہوجائو‘ بے شک شیطان جوئے اور شراب کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور عداوت پیدا کرنا چاہتا ہے اور تمہیں اللہ کی یاد اورنماز سے روکنا چاہتا ہے تو کیا تم لوگ باز آجائو گے‘‘۔ جب ان آیات کا نزول ہوا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرامؓ نے کہا :یا اللہ! ہم رک گئے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے سمندری شکار کو حلال قرار دیا ہے اور حالتِ احرام میں خشکی کے شکار کو منع کیا ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے بکثرت سوال کرنے سے بھی روکا ہے۔ کئی مرتبہ کثرتِ سوال کی وجہ سے جائز اشیاء بھی حرام ہو جاتی ہیں۔ اللہ نے اس سورت میں یہ بھی بتلایا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے عیسیٰ علیہ السلام سے کہا ''کیا آپ کا رب ہمارے لیے آسمان سے دستر خوان کو اتار سکتا ہے؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے حواریوں کے اس بلا جواز مطالبے پر انہیں تنبیہ کرتے ہوئے کہا ''اللہ سے ڈر جائو، اگر تم مومن ہو‘‘ حواریوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس نصیحت کے جواب میں کہا کہ ''ہم چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور اپنے دلوں کو مطمئن کریں اور ہم جان لیں کہ ہمیں سچ بتایا گیا ہے اور اس پر گواہ رہیں‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے حواریوں کے اصرار پر دعا مانگی: ''اے اللہ، اے ہمارے پروردگار! ہمارے اوپر آسمان سے دستر خوان نازل فرماجو ہمارے اول اور آخر کے لیے عید اور تیری جانب سے ایک نشانی بن جائے اور ہمیں رزق عطافرما اور تو بہت ہی بہتر رزق دینے والا ہے‘‘۔ اس دعا پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''میں وہ (دستر خوان) تمہارے لیے اتاروں گا پھر جوکوئی تم میں سے اس کے بعد کفر کرے گا تو میں اس کو ایسا عذاب دوں گا جو جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیا ہوگا‘‘۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے نبی کی باتوں کو بلا چون وچراماننا چاہیے۔ جب بھی کبھی اللہ تبارک و تعالیٰ سے نشانی مانگ کر اس کے راستے کو چھوڑا گیا تو اللہ تعالیٰ نے چھوڑنے (اور جھٹلانے) والوں کو بہت برا عذاب دیا۔
سورۃ المائدہ میں اللہ نے اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جنابِ عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھیں گے کہ کیاانہوں نے لوگوں کو کہا تھا کہ ان کی اوران کی والدہ سیدہ مریم کی عبادت کی جائے اور انہیں خدا کا بیٹا کہا جائے؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جواب میں کہیں گے: یا اللہ! میں ایسی بات کیسے کہہ سکتا ہوں جسے کہنے کا مجھے حق نہیں۔ میں تو ان کو ہمیشہ یہی کہتا رہا کہ میرے اور اپنے رب اللہ کی عبادت کرو۔ انبیاء کرام نے ہمیشہ اپنی اُمتوں کو توحید کا درس دیا‘ لیکن یہ ان اقوام کی بد نصیبی تھی کہ انبیاء کرام کے راستے کو چھوڑ کر شرک کی دلدل میں اتر گئے۔
سورۃ الانعام
قرآنِ مجید کی مصحفی ترتیب میں سورۃ المائدہ کے بعد سورہ انعام ہے۔ سورۂ انعام کے شروع میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہر قسم کی تعریف اس اللہ کے لیے ہے جو زمین اور آسمان کا خالق ہے اور جس نے اندھیروں اور اُجالوں کو پیدا کیا لیکن کافر پھر بھی اس کا شریک بناتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ اس نے انسا ن کو مٹی سے پیدا کیا‘ پھر اس کو رہنے کا ایک وقت دیا پھر ایک مخصوص مدت کے بعد اس کو زندہ کیا جائے گا‘ لیکن انسان ہے کہ دوبارہ جی اٹھنے کے بارے میں شک کا شکار ہے۔ اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا کہ اللہ ہی ہے آسمان اور زمین میں اور جو انسان کے ظاہر اور باطن کو جانتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے‘ جو وہ کماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں اپنی ملکیت کی وسعت کا بھی ذکر کیا اور ارشاد فرمایا کہ دن اور رات میں جو کچھ بھی موجود ہے‘ اسی کا ہے اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ اگر اللہ تبارک و تعالیٰ انسان کو کوئی گزند، کوئی ضرر یا کوئی نقصان پہنچانا چاہیں تو اس کو کوئی نہیں ٹال سکتا اور اگر وہ اس کو خیریت، عافیت اور امان سے رکھیں تو بھی وہ ہر چیز پر قادر ہیں‘ یعنی انسان کی حالت کو بدلنا اللہ تعالیٰ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ انعام میں یہ بھی بتلایا کہ اہلِ کتاب کے صاحبِ علم لوگ رسول اللہﷺ کو اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح کوئی اپنے سگے بیٹے کو پہچانتا ہے‘ اس کے باوجود یہ لوگ ایمان نہ لا کر اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ کافروں کے طعن و تشنیع رسول اللہﷺ کو دکھ پہنچاتے تھے۔ اللہ نے اپنے نبی کی ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا کہ یہ ظالم لوگ در حقیقت آپ کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کی وسعت کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس غیب کے خزانوں کی چابیاں ہیں اور ان کو ا س کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ خشکی اور سمندر میں جو کچھ بھی موجود ہے‘ اللہ تعالیٰ اس کو جانتے ہیں اور کوئی پتا جو زمین پر گرتا ہو‘ اللہ تعالیٰ اس کو بھی جانتے ہیں اور کوئی ذرہ جو زمین کے کسی اندھیرے مقام پر پڑا ہے‘ وہ اس کو بھی جانتے ہیں اور ہر خشک و تر سے پوری طرح واقف ہیں۔
اس پارے میں اللہ نے اس امر کا ذکرکیا ہے کہ جناب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ آزر اور اپنی قوم کی بت پرستی کی بھر پور طریقے سے مذمت کی۔ بت پرستی کی مذمت کے ساتھ ساتھ آپ نے اجرامِ سماویہ کی حقیقت کو بھی لوگوں پر کھول دیا۔ جگمگ کرتے ستارے‘ چانداور سورج کو ڈوبتے ہوئے دیکھ کر اعلان کیا کہ میں قوم کے شرک سے بری ہوں اور اپنے چہرے کا رخ اس ذات کی طرف کرتاہوں‘ جس نے زمین و آسمان کو بنایا ہے اور میں شرک کرنے والوں میں شامل نہیں۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ انہیں غیراللہ کے پجاریوں کو گالی نہیں دینی چاہیے کہ یہ لوگ معاذ اللہ جواب میں اللہ تبارک و تعالیٰ کو گالی دیں گے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اللہ آنکھوں کو پاتا ہے‘ مگر آنکھیں اس کو دنیا میں نہیں دیکھ سکتیں؛ تاہم سورۃ القیامہ میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا کہ جنتی جنت میں جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کے دیدار کی نعمت سے بھی بہرہ ور ہوں گے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو قرآنِ مجید پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے، آمین!

اسلام برائی کی تشہیر کو پسند نہیں فرماتا ‘مگر مظلوم کی داد رسی کیلئے ظالم کے خلاف آوازبلند کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ آیت 150 میں بتایا کہ جو لوگ ایمان لانے میں اللہ اور اُس کے رسولوں کے درمیان فرق کریں یا بعض رسولوں پر ایمان لائیں اور بعض کا انکار کریں یا ایمان اور کفر کے مابین کوئی درمیانی راستہ تلاش کریں‘ یہ سب لوگ پکے کافر ہیں۔ مومن صرف وہی ہیں جو اللہ پر ایمان لائیں اور بلا تفریق اُس کے سارے رسولوں پر بھی ایمان لائیں۔ آیات 153 تا 161 میں یہود کی بہت سی جہالتوں‘ سرکشیوں‘ ہٹ دھرمیوں اور فرمائشی مطالبات کا ذکر ہے۔ اُنہوں نے رسولﷺ سے مطالبہ کیا کہ ہم پر آسمان سے کتاب نازل کریں‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام سے اس سے بھی بڑے مطالبات کر چکے ہیں‘ پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کی عہد شکنی اور کفر کی وجوہ کو بیان کیا کہ (1) اُنہوں نے آیاتِ الٰہی اورمعجزاتِ انبیاء سے انکار کیا (2) انبیاء کرام کو ناحق قتل کیا (3) حضرت مریم پر بہتان باندھا (4) سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کا دعویٰ کیا (5) ہٹ دھرمی سے یہ کہاکہ ہمارے دلوں پر غلاف ہیں۔ آیت 163 میں بتایا کہ وحیٔ ربّانی اور نبوّت کا سارا سلسلہ آپس میں مربوط ہے۔ حضرت نوح اور اُن کے بعد کے انبیاء کرام علیہم السلام اور حضرت ابراہیم تا حضرت عیسیٰ متعدد انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر فرمایا۔ مزید فرمایا کہ کچھ رسولوں کے نام اور حالات ہم نے آپ پر بیان کیے اور ایسے بھی رسول ہیں‘ جن کے واقعات قرآنِ مجید میں بیان نہیں ہوئے‘ جن کے نام قرآنِ و حدیث میں بیان ہوئے‘ اُن پر نام بہ نام ایمان لانا فرض ہے اور جن کے نام اور حالات بیان نہیں ہوئے‘ اُن پر اجمالی طور پر ایمان لانا فرض ہے۔ آیت 174 میں فرمایا: اے لوگو! تمہارے پاس اللہ کی طرف سے قوی دلیل آ گئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف واضح نور نازل کیا ہے‘ برہان (قوی دلیل) سے مراد ''سیّدنا محمد رسول اللہﷺ‘‘ کی ذاتِ گرامی ہے۔ سیدنا محمدﷺ اور قرآنِ مجید سے مکمل وابستگی اختیار کرنے پر ہی صراطِ مستقیم پر ثابت قدم رہنے کا انحصارہے۔
سورۃ المائدہ: سورۃ المائدہ میں فرمایا کہ مستثنیات کے سِوا (جن کا بیان آگے آ رہا ہے) چار پاؤں والے جانور حلال کیے گئے ہیں‘ لیکن احرام کی حالت میں شِکار حلال نہیں ہے۔ مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں اور حُرمت والے (چار) مہینوں کی بے حرمتی نہ کرو‘ اِسی طرح کعبہ میں بھیجی ہوئی قربانیوں اور جن جانوروں کے گلوں میں (قربانی کی علامت کے) پَٹّے پڑے ہوں‘ اُن کی بھی بے حرمتی نہ کرو۔ اِس کے بعد مسلمانوں کو نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے اور گناہ اور ظلم کے کاموں میں مدد نہ کرنے کا حکم ہوا ہے۔ یہ آیتِ مبارکہ ''جوامع الکلم‘‘ میں سے ہے۔ ہر خیر و شَر‘ بھلائی اور برائی کا اس آیتِ مبارکہ میں بڑے اختصار کے ساتھ تذکرہ کرکے قرآنِ مجید نے تمام کاموں کیلئے ایک اصل اور ضابطہ قراردے دیا ہے۔ آیت 3 میں مُحرماتِ قطعیہ کا بیان ہے‘ جو یہ ہیں: (1) وہ حلال جانور جو طبعی موت مرگیا ہو اور ذبح نہ کیا جا سکا ہو‘ یعنی مُردار (2) ذِبح کے وقت بہنے والا خون (3) خنزیر کا گوشت (4) جس جانور پر ذِبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو (5 تا 10) وہ حلال جانور جو گلا گھونٹنے یا چوٹ لگنے سے مر جائے یا جو بلندی سے گر کر مر گیا ہو یا دوسرے جانور نے سینگوں کی چوٹ سے مار دیا ہو یا درندوں نے کھایا ہو یا بتوں کے تھان پر ذِبح کیا گیا ہو (11) اور فال کے تیروں سے قسمت کا حال معلوم کرنا۔ اِسی آیتِ مبارکہ میں مسلمانوں کیلئے ایک اعزازی اعلان ہوا کہ ''آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور دین) پسند کر لیا ہے‘‘۔ اسی آیت میں بتایا کہ حالتِ اضطرار میں بقائے جان کیلئے بقدرِ ضرورت حرام چیز کا کھانا جائز ہے۔
آیت 5 میں بتایا کہ مسلمانوں کا کھانا اہلِ کتاب کے لیے حلال ہے اور اہلِ کتاب کا کھانا مسلمانوں کے لیے حلال ہے‘ بشرطیکہ وہ کھانا اپنے اصل کے اعتبار سے حلال ہو اور اُس میں کسی حرام کی آمیزش نہ ہو۔ اسی آیت میں یہ حکم بھی بیان ہوا کہ اہلِ کتاب کی آزاد‘ پاک دامن عورتوں سے مسلمان کا نکاح جائز ہے۔ آیت 6 میں وضو کے چار فرائض بیان ہوئے‘ یعنی (1) پورے چہرے کو دھونا (2) کہنیوں سمیت ہاتھوں کا دھونا (3) سر کا مسح (4) ٹخنوں سمیت پاؤں کا دھونا۔ اس کے بعد مریض‘ مسافر‘ بے وضو اور جُنبی (جس پر غسل واجب ہو) کے لیے ضرورت کے وقت تیمم کی اجازت کا بیان ہے۔
آیت 17 میں اللہ تعالیٰ نے مسیح ابن مریم کو ''اِلٰہ‘‘ قرار دینے والوں کو کافرکہا ہے اور فرمایا کہ (بفرضِ محال) اللہ مسیح ابن مریم اور اُن کی ماں کو ہلاک کرنا چاہے‘ تو ساری زمین والے مل کر بھی اُن کو بچا نہیں سکتے۔ پھر یہود و نصاریٰ کی اس خوش فہمی اور زَعمِ باطل کا رَد فرمایا کہ وہ اللہ کے بیٹے اور اُس کے محبوب ہیں۔ فرمایا کہ تم بھی منجملہ انسانوں میں سے ہو۔ اہلِ کتاب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ انبیاء کی بعثت کے بعد اِنقطاعِ نبوّت کا دور آیا اور پھر ہم نے اپنے رسولِ عظیم کو مبعوث فرمایا تا کہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس کوئی بشیر و نذیر نہیں آیا‘ سو اب تمہارے پاس اللہ کی رحمت کی بشارت دینے والے اور اُس کے عذاب سے ڈرانے والے آخری رسول (محمد رسول اللہﷺ) آ چکے۔ آیت 27 تا 31 میں آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا واقعہ بیان ہوا کہ دونوں نے اللہ کی بارگاہ میں قربانی پیش کی‘ ایک کی قربانی قبول ہو گئی اور دوسرے کی رَد ہو گئی۔ اُس زمانے کی شریعتوں میں قربانی کی قبولیت کی علامت یہ تھی کہ آسمان سے آگ آتی اور اُسے جلا ڈالتی۔ قابیل‘ جس کی قربانی رَد ہو گئی‘ اُس نے غصے میں اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا‘ پھر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ''اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیاکہ جس شخص نے جان کے بدلے (یعنی حقِ قصاص) کے بغیر یا زمین میں فساد کے (جرم کے) بغیر کسی انسانی جان کو قتل کیا‘ تو گویا اُس نے تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے (کسی بے قصور) شخص کی جان کو بچا دیا توگویا اُس نے تمام انسانوں کو بچا لیا‘‘۔ آیت 35 میں اہلِ ایمان کو تقویٰ اختیار کرنے اور اللہ کی بارگاہ میں (نجات کا) وسیلہ تلاش کرنے کا حکم دیا۔ آیت 36 میں فرمایا کہ کوئی شخص ساری روئے زمین کا مالک ہو جائے اور اتنی ہی دولت اُسے اور مل جائے‘ اور وہ یہ سب کچھ اپنی جان کے فدیے کے طور پر دے دے‘ تو پھر بھی قیامت کے دن کافر کی نجات ممکن نہیں۔ آیت 38 میں چوری کرنے والے مرد اور عورت کیلئے ہاتھ کاٹنے کی سزا کا حکم ہے‘ یہ اُن کے کیے کی سزا ہے اور اللہ کی طرف سے دوسرے لوگوں کے لیے درسِ عبرت ہے۔ اس کے بعد اگر وہ توبہ کر لیں اور اپنی اصلاح کے لیے آمادہ ہو جائیں تو اللہ اُنہیں معاف فرمانے والا ہے۔ آیت 40 میں زمینوں اور آسمانوں کی بادشاہی اور عذاب دینے اور معاف کرنے کی قدرت رب العالمین کا خاصہ بیان فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو فرمایا کہ اگر وہ آپ کے پاس کوئی مقدمہ لے کر آئیں تو آپ کو اختیار ہے کہ آپ فیصلہ کریں یا نہ کریں‘ لیکن اگر آپ کو فیصلہ کرنا ہو تو وہی فیصلہ کریں‘ جو انصاف پر مبنی ہو۔ اس کے بعد آیت 44 تا 47 میں بالترتیب فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے اَحکام کے موافق فیصلہ نہ کریں‘ وہ کافر ہیں‘ ظالم ہیں اور فاسق ہیں۔
آیت45 میں قانونِ قصاص کو بیان کیاکہ جان کا بدلہ جان‘ آنکھ کا بدلہ آنکھ‘ ناک کا بدلہ ناک‘ کان کا بدلہ کان‘ دانت کا بدلہ دانت اور اِسی طرح زخموں کا بھی قصاص ہے اور جو خوشدلی سے قصاص دے دے (اور اپنے جرم پر صدقِ دل سے توبہ بھی کرے) تو یہ اُس کے گناہ کا کفارہ ہے۔ آیت 49 تا 50 میں بتایا کہ اللہ نے ہر اُمّت کے لیے ایک شریعت اور واضح راہِ عمل مقرر کی ہے‘ اگر اللہ کی مشیّت ہوتی تو سب کو ایک اُمتِ اِجابت بنا دیتا‘ لیکن اُس نے اپنے بندوں کو اختیار دیا ہے کہ وہ حق یا باطل جس راہِ عمل کو چاہیں اختیار کریں اور اِسی میں نیک و بد کی آزمائش ہے۔ آیت 51 میں بتایاکہ یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ‘ مسلمانوں کے مقابلے میں وہ ایک دوسرے کے حامی اور دوست ہیں‘ لہٰذا جو اُن کی دوستی اختیار کرے گا ‘وہ اُنہی میں سے ہو گا۔
آیت 57 میں بتایا کہ اہلِ کتاب میں سے دین کو مذاق بنانے والوں اور کافروں کو دوست نہ بنانا۔ آیت 60 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بدترین سزا اُن لوگوں کی ہے‘ جن پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی‘ اُن پر غَضب فرمایا‘ اُنہوں نے شیطان کی عبادت کی اور اُن میں سے بعض کی صورتوں کو مَسخ کرکے بندر اور خنزیر بنا دیا۔ آیت73 تا 80 تک نصاریٰ کے عقیدے کی خرابیوں کو بیان کیا کہ وہ تثلیث کے قائل ہیں؛ حالا نکہ اللہ تعالیٰ کی ذات وحدہٗ لاشریک ہے۔ مسیح ابن مریم‘ اسی طرح ایک رسول ہیں‘ جس طرح ان سے پہلے رسول گزر چکے اور ان کی ماں صدیقہ ہیں۔

قرآن پاک کے چھٹے پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ سورۃ النساء میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ غلط بات کو پسند نہیں کرتا‘ مگر یہ کہ اگر کوئی مظلوم شخص اپنے اوپر کیے جانے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائے تو اسے ایسا کرنے کی اجازت ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کے اس طرزِ عمل کا ذکر کیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے درمیان تفریق کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بات کو تو مانتے ہیں‘ لیکن رسولﷺ کی بات کو نہیں مانتے۔ یا دوسرے ترجمے کے مطابق‘ اللہ کے بعض رسولوں کو مانتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں، یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تو مانتے ہیں لیکن حضرت محمد رسول اللہﷺ کا انکار کرتے ہیں۔ ایسے لوگ حق سے انکاری ہیں جبکہ مومنوں کا طرزِ عمل یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے فرامین کو بیک وقت مانتے ہیں اور اللہ کے تمام رسولوں کو مانتے ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ یہودی سیدہ مریم علیہا السلام کی کردار کشی کیا کرتے تھے حالانکہ وہ پارسا اور پاک دامن خاتون تھیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا بھی ذکر کیا کہ یہودی اپنی دانست میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو شہید کر چکے تھے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کو یقینا شہید نہیں کیا گیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو آسمانوں کی سمت اٹھا لیا۔ اسی طرح ان کو اللہ تعالیٰ نے سودکھانے سے روکا تھا لیکن وہ اس غلط کام میں مسلسل ملوث رہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کے لیے درد ناک عذاب کو تیار کر دیا تھا لیکن اہلِ کتاب کے پختہ علم والے لوگ‘ جو قرآنِ مجید اور سابقہ الہامی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں اور نمازوں کو قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا شروع کر دیتے ہیں اور آخرت پر ایمان لے آتے ہیں‘ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے اجرِ عظیم تیار کر دیا ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کو اپنی دلیل اور واضح روشنی قرار دیا ہے اور ارشاد فرمایا کہ جو بھی قرآنِ مجید کو مضبوطی کے ساتھ تھامے گا‘ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو اپنے فضل اور رحمت میں داخل فرمائے گا اور اس کو صراطِ مستقیم پر چلائے گا۔
سورۃ المائدہ
سورۃ النساء کے بعد سورۃ المائدہ ہے۔ اس کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو اپنے وعدے پورے کرنے کا حکم دیا ہے اور ان کو اس بات کی تلقین کی ہے کہ انہیں کامیابی اور بھلائی کے کاموں میں تو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے مگر گناہ اور ظلم کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہیں کرنا چاہیے۔ اس پارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ''آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی ہے اور اسلام کو بحیثیتِ دین تمہارے لیے پسند کر لیا ہے‘‘۔ امام بخاریؒ، امام مسلمؒ اور امام احمدؒ نے حضرت طارق بن شہابؓ سے روایت کی ہے کہ ایک یہودی حضرت عمرؓ بن خطاب کے پاس آیا اور کہا: اے امیر المومنین! آپ لوگ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں اگر وہ ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو یومِ عید بنا لیتے۔ انہوں نے پوچھا کہ وہ کون سی آیت ہے؟ اس پر یہودی نے مذکورہ بالا آیت کا ذکر کیا۔
اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو مومنہ عورتوں کے ساتھ ساتھ اہلِ کتاب کی پاک دامن عورتوں سے بھی نکاح کی اجازت دی ہے‘ لیکن یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ سورۃ البقرہ اور سورۃ الممتحنہ کے مطابق‘ مسلمان عورتوں کو صرف مسلمان مردوں ہی سے شادی کرنی چاہیے۔ سورۃ المائدہ میں اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کے اس قول کو رد کیا کہ وہ معاذ اللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ یعنی رب یا رب کا بیٹا کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام‘ ان کی والدہ مریم علیہا السلام اور زمین پر جو کوئی بھی موجود ہے‘ ان کو فنا کے گھاٹ اتار دے تو اللہ تعالیٰ کو کون پوچھ سکتا ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بیان فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ''اللہ تبارک وتعالیٰ نے تم پر جو انعامات کیے ہیں ان کو یاد کرو۔ تم میں انبیاء کرام مبعوث کیے گئے اور تم کو بادشاہت عطا کی گئی اور تم کو وہ کچھ عطا کیا جو کائنات میں کسی دوسرے کو نہیں ملا‘‘۔ اللہ کے احسانات کا احساس دلانے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو کہا کہ اے میری قوم! تم لوگ ارضِ مقدس میں داخل ہو جاؤ۔ انہوں نے کہا: اگر تم لوگ ارضِ مقدس میں داخل ہو جاؤ گے تو یقینا تم غالب آؤ گے۔ اگر تم مومن ہو تو صرف اللہ پر بھروسہ رکھو۔ اس حوصلہ افزا بات کو سن کر بھی وہ بزدل بنے رہے اور کہنے لگے: ''اے موسیٰ علیہ السلام جب تک وہ لوگ وہاں رہیں گے ہم لوگ کبھی وہاں نہیں جائیں گے تم اور تمہارا رب جائو اور جنگ کرو‘ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں‘‘۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اس سارے منظر کو دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئے اور اللہ کی بارگاہ میں کہنے لگے: ''اے میرے رب! مجھے اپنے اور اپنے بھائی کے علاوہ کسی پر کوئی اختیار حاصل نہیں؛ پس تو ہمارے اور نافرمانوں کے درمیان فیصلہ کر دے‘‘۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نافرمانی کی وجہ سے بنی اسرائیل کے لوگ منزل سے بھٹک گئے اور چالیس برس تک در بدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے۔ آج ہمیں بھی اپنے حالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہیں ہماری محرومیوں اور زوال کی وجہ اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسولﷺکے راستے سے ہٹنا تو نہیں۔
اس سورہ مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کے اختلاف کا بھی ذکر کیا ہے کہ اللہ نے ایک بیٹے کی قربانی کو قبول کر لیا جبکہ دوسرے کی قربانی قبول نہ ہوئی۔ جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی تھی اس نے حسد کا شکار ہو کر اپنے بھائی کو بلاوجہ شہید کر دیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے بیٹوں کے واقعے کو بیان فرما کر انسان کے قتل کی شدید مذمت کی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو ایک انسان کا ناحق قتل کرتا ہے‘ وہ ایک انسان کا قتل نہیں کرتا پوری انسانیت کا قتل کرتا ہے اور جو ایک کو زندہ کرتا (اس کی جان بچاتا ہے) ہے‘ وہ ایک کو زندہ نہیں کرتا بلکہ پوری انسانیت کو زندہ کرتا ہے۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے زمین پر فساد پھیلانے والوں کے لیے سخت سزا کو تجویز کیا ہے کہ ان کو پھانسی دے دینی چاہیے یا ان کو قتل کر دینا چاہیے یا ان کے ہاتھوں اور پیروں کو (مخالف اطراف سے) کاٹ دینا چاہیے یا ان کو جلا وطن کر دینا چاہیے۔ یہ دنیا میں ان کے کیے کی سزا ہے اور آخرت کا عذاب تو انتہائی دردناک ہے۔ اس آیت کی شانِ نزول کی بابت آتا ہے کہ عکل اور عرینہ قبیلے کے کچھ لوگ مسلمان ہو کر مدینہ آئے‘ انہیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی تو نبی کریمﷺ نے انہیں مدینہ سے باہر‘ جہاں صدقے کے اونٹ تھے‘ بھیج دیا؛ چنانچہ چند روز میں وہ ٹھیک ہو گئے لیکن اس کے بعد انہوں نے اونٹوں کے رکھوالے اور چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹ ہنکا کر لے گئے۔ جب نبی اکرمﷺ کو اس امر کی اطلاع ملی تو آپﷺ نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے جو انہیں اونٹوں سمیت پکڑ لائے۔ نبی کریمﷺنے ان کے ہاتھ پیر مخالف جانب سے کٹوا کر ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروا دیں‘ (کیونکہ انہوں نے بھی چرواہے کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا) پھر انہیں دھوپ میں پھینک دیا گیا حتیٰ کہ وہیں مر گئے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ سے دوستی کی مذمت کی ہے اور کہا کہ جو ان سے دلی دوستی رکھتا ہے وہ انہی میں سے ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو اس امر کی تلقین کی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے نازل کردہ پیغامات کو پھیلائیں‘ آپ کے دشمن آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے ذاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں منفی اقوال کو بھی پیش کیا کہ معاذ اللہ وہ کہتے ہیں کے اللہ کے ہاتھ تنگ ہیں۔ اللہ نے کہا کہ ان کے اپنے ہاتھ تنگ ہیں اور ان پر لعنت ہو اپنے اس قول کی وجہ سے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کہا کہ اس کے ہاتھ کھلے ہیں اور وہ جیسے چاہتا ہے‘ خرچ کرتا ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ جناب دائود اور عیسیٰ علیہما السلام نے بنی اسرائیل کے کافروں پر لعنت کی اس لیے کہ وہ بُرائی کے کاموں سے روکنے کے بجائے خود اس میں ملوث ہو چکے تھے اور ان کا یہ کام انتہائی برا تھا۔ ہم مسلمانوں کو بھی برائی کے کام سے روکنے کا عمل جاری رکھنا چاہیے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں قرآنِ مجید فرقانِ حمید کوپڑھنے‘ سمجھنے اور اس پرعمل کرنے کی توفیق دے، آمین!

پانچویں پارے کے شروع میں محرماتِ قطعیہ کے تسلسل میں یہ بھی بتایا کہ جب تک کوئی عورت کسی دوسرے شخص کے نکاح میں ہے‘ اس سے نکاح حرام ہے، یہاں تک کہ اگر شوہر نے طلاق دے دی ہو تو عدت کے اندر نکاح اور واضح الفاظ میں نکاح کا پیغام دینا بھی حرام ہے۔ البتہ عدت کے بعد عورت اپنی رضامندی سے دوسرے شخص کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے۔ آیت 29 میں بتایا کہ باطل طریقوں سے ایک دوسرے کا مال کھانا حرام ہے اور باہمی رضامندی سے تجارت جائز ہے اور اس سے حاصل ہونے والا نفع بھی جائز ہے۔ اسی طرح ہبہ اور وراثت کے ذریعے جو مال ملے وہ بھی جائز ہے‘ مگر جوا‘ سٹہ‘ غصب‘ چوری‘ ڈاکا‘ خیانت‘ رشوت‘ جھوٹی قسم کھا کر اور جھوٹی گواہی کے ذریعے دوسروں کا مال حاصل کرنا حرام ہے۔ جو شخص ظلماً دوسروں کا مال کھائے گا وہ جہنم کا ایندھن بنے گا۔ آیت 32 میں حسد کی ممانعت کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے کسی کو مال‘ عزت یا مرتبے میں فضیلت دے رکھی ہے تو اس کے زائل ہونے کی تمنا نہ کرو‘ کیونکہ یہی حسد ہے جو حرام ہے‘ کسی کے ساتھ حسد کرنے سے بہتر ہے کہ اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرو‘ اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''مرد عورتوں کے منتظم اور کفیل ہیں‘ کیونکہ اللہ نے ان میں سے ہر ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس لیے (بھی) کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے ہیں (یعنی شوہر مہر بھی ادا کرتا ہے اور بیوی بچوں کی کفالت بھی اس کے ذمے ہے)‘‘ آیت 37 میں اللہ تعالیٰ نے توحید کا حکم فرمایا اور شرک (کی تمام صورتوں) کی ممانعت فرمائی ہے۔ اس کے بعد حقوق العباد کا بیان ہوا اور فرمایا کہ ماں باپ‘ قرابت داروں‘ یتیموں‘ مسکینوں‘ پڑوسیوں‘ مسافروں اور اپنے ما تحتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو‘ پھر پڑوسیوں کی درجہ بندی کی۔ آیت 37 تا 40 میں بُخل اور رِیا کاری کی ممانعت کا حکم ہے اور فرمایا کہ جس کو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان نہ ہو وہی رِیاکاری کر سکتا ہے۔ یہ بھی فرمایا کہ اللہ کسی پر ذرہ برابر ظلم نہیں فرماتا اور نیکی کا اجر دُگنا فرما دیتا ہے۔ آیت 45 میں نماز کے چند مسائل بیان فرمائے۔ آیت 46 میں یہودیوں کی ایک قبیح خصلت کا ذکر ہے کہ وہ کلامِ الٰہی میں تحریف کرتے ہیں۔ آیت 48 میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ شرک کے گناہ کو کسی صورت میں معاف نہیں فرماتا‘ اس کے علاوہ وہ جس کیلئے چاہے‘ اس سے کم تر گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ آیت 58 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ امانتیں ان کے حق داروں کو دو اور جب فیصلہ کرنے لگو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔ آیت 59 میں فرمایا: ''اے مومنو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور جو تم میں سے صاحبانِ اختیار ہیں‘ ان کی اطاعت کرو‘‘۔ اس میں اللہ عزّوجل اور رسولِ مکرمﷺ کی غیر مشروط اطاعت کا حکم ہے اور اہلِ اقتدار کی اطاعت مشروط ہے۔ اگر اہلِ اقتدار کے ساتھ کسی معاملے کے جائز یا ناجائز ہونے کی بارے میں اختلاف ہو جائے تو فیصلہ قرآن وسنت کی روشنی میں ہوگا۔
آیات 60 تا 63 میں منافقین کی مکروہ چالوں اور دو رُخے پن کا ذکر ہے۔ اس کے بعد اہلِ ایمان کیلئے ایک ایمان افروز نوید ہے۔ آیت 65 میں فرمایا کہ جو لوگ اللہ کے رسول کو آپس کے جھگڑوں میں حاکم نہ بنائیں اور پھر آپ جو فیصلہ صادر فرما دیں اسے دل و جان سے قبول نہ کریں (یعنی رسول اللہﷺ کے فیصلے پر دل میں بھی کوئی تنگی اور ملال نہیں آنا چاہیے) تو وہ بظاہر ایمان کے دعوے کے باوجود حقیقت میں مومن نہیں ہو سکتے۔ آیت 69 میں فرمایا: جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے تو وہ (آخرت میں) ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے‘ جو انبیاء‘ صدیقین‘ شہدا اور عباد الصالحین ہیں۔ اس کے بعد جہاد کے بارے میں احکام‘ ہدایات اور کامیابی کی بشارتیں ہیں۔ آیت 76 اور اس کے بعد والی آیات میں بتایا کہ منافق اور بزدل لوگوں کو جب جہاد کی دعوت دی جاتی ہے تو جان جانے کے خوف سے ان کے دل لرز جاتے ہیں اور وہ زندگی کی مہلت چاہتے ہیں۔ آیت 86 میں معاشرتی آداب بتائے گئے کہ جب تمہیں کسی لفظ سے سلام کیا جائے تو تم اس سے بہتر الفاظ میں جواب دو (جیسے السلام علیکم کے جواب میں کہا جائے: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ) یا کم ازکم انہی الفاظ میں جواب دو (جیسے السلام علیکم کے جواب میں کہا جائے: وعلیکم السلام)۔ زمانۂ جنگ میں مسلمانوں کو کئی طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا تھا: (الف) وہ منافقین جو دل سے مسلمانوں کی تباہی اور ناکامی چاہتے تھے‘ ان کیلئے فرمایا کہ نہ تو انہیں اپنا دوست بنایا جائے اور نہ ان کے ساتھ کوئی رعایت برتی جائے‘ بلکہ ان کا قلع قمع کر دیا جائے۔ (ب) کچھ لوگ وہ تھے جو جنگ سے گریز چاہتے تھے‘ نہ مسلمانوں سے لڑنا چاہتے تھے اور نہ اپنی قوم کی حمایت میں لڑنا چاہتے تھے یا وہ ایسی قوم کے پاس چلے جاتے‘ جن کے ساتھ مسلمانوں کا جنگ نہ کرنے کا معاہد ہ ہے‘ تو قرآن نے بتایا: اگر وہ جنگ سے کنارہ کش ہو جائیں اور مسلمانوں سے نہ لڑیں اور مسلمانوں کو صلح کا پیغام دیں تو مسلمانوں کو بھی ان سے تعرُّض نہیں کرنا چاہیے۔ (ج) منافقین کا ایک گروہ وہ تھا جو مسلمانوں اور اپنی قوم دونوں کے ساتھ امن سے رہنا چاہتا تھا لیکن ان کی باطنی کیفیت یہ تھی کہ اگر ان کی قوم کی طرف سے مسلمانوں پر جنگ مسلط کر دی جائے‘ تو وہ اس میں کود پڑیں، تو قرآن نے بتایا: اگر وہ مسلمانوں سے الگ نہ ہوں اور مسلمانوں کو صلح کا پیغام نہ دیں اور موقع ملنے پر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے سے اپنا ہاتھ نہ روکیں تو مسلمانوں کو بھی حق ہے کہ موقع ملنے پر ان کا قلع قمع کر دیں۔ آیت 92 میں قتلِ خطا کا حکم بیان ہوا ہے کہ اگر کسی مسلمان کے ہاتھوں غیر ارادی طور پر غلطی سے کسی مسلمان کا قتل ہو جائے تو اس کی تلافی کیلئے کفارہ بھی دینا ہوگا اور مقتول کے ورثا کو دیت بھی دینی ہو گی‘ سوائے اس کے کہ مقتول کے ورثا دیت معاف کر دیں۔ آیت 93 میں قتلِ عمد یعنی ارادی طور پر کسی بے قصور انسان کی جان کو تلف کرنے کا حکم بیان کیا گیا۔ آیت 95 میں یہ بتایا کہ جو لوگ جہاد سے کنارہ کش ہیں‘ ان کا درجہ ان کے برابر نہیں ہو سکتا جو اپنی جان ومال سے اللہ کی راہ میں جہاد کر رہے ہیں۔ آیت 101 اور بعد کی آیات میں مسافر کیلئے نماز میں قصر کا حکم بیان ہوا ہے‘ فقہ حنفی میں مسافتِ سفر کی مقدار 98 کلومیٹر ہے۔ نماز اور جماعت اتنا لازمی فریضہ ہے کہ حالتِ جنگ میں بھی ساقط نہیں ہوتا‘ پھر فرمایا کہ جب تم نماز ادا کر چکو تو حالتِ قیام‘ حالتِ قعود اور کروٹوں کے بل لیٹے ہوئے‘ یعنی ہر حال میں اللہ کو یاد کرو‘ اللہ کا ذکر کرو اور جب حالتِ جنگ ختم ہو جائے اور امن کی حالت ہو تو معمول کے مطابق نماز ادا کرو‘ بے شک نماز مومنوں پر وقتِ مقرر میں فرض کی گئی ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ جو کوئی گناہ کاکام کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے‘ پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے‘ تو وہ اللہ کو غفور و رحیم پائے گا اور ہر شخص کی بداعمالیوں کا وبال اُسی پر آئے گا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''اور جو شخص ہدایت کے ظاہر ہونے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور تمام مسلمانوں کے راستے کے خلاف چلے‘ تو ہم اُسے اُسی طرف پھیر دیں گے‘جسے اُس نے خود اختیار کیا اور اُسے جہنم میں داخل کر دیں گے اور وہ برا ٹھکانہ ہے‘‘۔ اس میں واضح طور پر وعید ہے کہ کسی شخص کا مسلمانوں کے اجماعی راہ سے ہٹ کر اپنے لئے الگ راہِ عمل متعین کرنا جہنم کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کے پیروکاروں کیلئے جہنم کی وعید سنائی ہے اور مومنینِ کاملین کیلئے جنت کی بشارت دی ہے اور فرمایا کہ ہرصاحبِ ایمان مرد اور عورت جنہوں نے حالتِ ایمان میں نیک کام کیے‘ وہ جنت میں داخل ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اُس سے اچھا دین کس کا ہو گا‘جو اپنے آپ کو اللہ کی بندگی کے سپردکر دے‘ اور وہ نیکوکار ہو اور ملّتِ ابراہیم کا پیروکار ہو۔ آیت 135 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''اے مومنو! انصاف پر مضبوطی سے قائم رہنے والے اور اللہ کیلئے گواہی دینے والے بن جاؤ‘ خواہ (یہ گواہی) تمہاری ذات کے خلاف ہو یا تمہارے ماں باپ اور قرابت داروں کے خلاف ہو (فریقِ معاملہ) خواہ امیر ہو یا غریب‘ اللہ اُن کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے۔ پس(گواہی دیتے وقت) تم خواہش کی پیروی کر کے عدل سے رُوگردانی نہ کرو اور اگر تم نے گواہی میں ہیر پھیر کیا یا اعراض کیا تو اللہ تمہارے سب کاموں سے خوب باخبر ہے‘‘۔ منافقین کی ایک علامت یہ بتائی کہ نماز میں سستی کرتے ہیں‘ نماز کو ایک بوجھ سمجھتے ہیں اور صرف دکھاوے کیلئے نماز پڑھتے ہیں۔ یہ لوگ ہمیشہ کفر و ایمان کے درمیان متزلزل رہتے ہیں‘ اسی لیے فرمایا کہ منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے۔

چوتھے پارے کے آخر میں ان رشتوں کا ذکر کیا گیا ہے‘ جن سے نکاح کرنا حرام ہے۔ پانچویں پارے کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کے لیے چُنی جانے والی عورتوں کے اوصاف کا ذکر کیا کہ نہ ان میں بُرائی کی علت ہونی چاہیے اور نہ غیر مردوں سے خفیہ مراسم پیدا کرنے کی بری عادت۔ اسی طرح انسان جب کسی عورت سے نکاح کا ارادہ کرے تو اُسے عورت کے اہلِ خانہ کی اجازت سے یہ کام کرنا چاہیے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو نصیحت کی ہے کہ ان کو باطل طریقے سے ایک دوسرے کا مال ہڑپ کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ باہمی رضا مندی سے ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کیا کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس پارے میں اپنے بندوں کو خوشخبری بھی دی ہے کہ اگر وہ بڑے گناہوں سے بچ جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے چھوٹے گناہوں کو معاف فرما دے گا اور ان کو جنت میں داخل فرما دے گا۔ اس پارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے گھریلو سطح پر اختیارات کا تعین بھی فرما دیا کہ مرد‘ عورتوں پر نگران کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قرآنِ مجید نے ہمیشہ مرد و زن کے باہمی حقوق کا ذکر کیا ہے لیکن حتمی فیصلے کرنے کے حوالے سے مردوں کو عورتوں پر یک گونہ فوقیت دی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو مردوں کی وہبی فضیلت ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ عام طور پر گھروں کے اخراجات مردوں کے ذمے ہوتے ہیں۔ اس پارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے والدین‘ قریبی اعزہ و اقارب‘ یتیموں‘ مسکینوں‘ قریبی ہمسایوں اور دور کے ہمسایوں سے حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔
اس پارے میں اس آیت کا بھی نزول ہوا کہ اے ایمان والو! نماز کے قریب نہ جائو جبکہ تم نشے کی حالت میں ہو‘ یہاں تک کہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ کیا کہہ رہے ہو۔ اس آیت کے شانِ نزول کے حوالے سے ابوداؤد‘ نسائی اور ترمذی نے الفاظ کے کچھ اختلاف کے ساتھ روایت کی ہے کہ ''حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے شراب حرام ہونے سے پہلے چند مہاجرین اور انصار صحابہ کو دعوت پر مدعو کیا۔ انہوں نے کھانا کھایا اور شراب پی لی‘ جب نماز کا وقت آیا تو ایک شخص نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ نشے میں ہونے کی وجہ سے وہ کوئی لفظ پڑھنا بھول گیا‘ جس سے آیت کے معنی بالکل بدل گئے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس پر مذکورہ بالا آیت کا نزول فرمایا۔ اس کے کچھ دنوں کے بعد سورۃ المائدہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان آیات کا نزول فرما دیا کہ ''اے ایمان والو! بے شک شراب‘ جوا‘ بت گری اور پانسہ ناپاک اور شیطانی کام ہیں۔ پس‘ تم ان سے بچو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ‘‘۔ اور شراب ہمیشہ کیلئے حرام ہو گئی۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے شرک کو سب سے بڑا گناہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ شرک کے علاوہ ہر گناہ کو معاف کر سکتا ہے‘ لیکن وہ شرک کو کسی بھی طور پر معاف نہیں کرے گا۔ اس پارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حسدکی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حسدکرنے والے لوگ درحقیقت اللہ کے فضل اور عطا سے حسد کرتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آل پر کیے جانے والے انعامات کا ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی آل کو نبوت اور حکومت سے نوازا تھا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس پارے میں یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ''اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل (افراد) کے پاس پہنچا دو۔ امانتوں میں ہر قسم کی امانتیں‘ چاہے اللہ کی ہوں یا بندوں کی‘ شامل ہیں۔ رسول کریمﷺ کو اہلِ مکہ دشمنی کے باوجود امین کہتے تھے اور جس دن آپﷺ ہجرت فرما رہے تھے‘ اس دن بھی کفار کی امانتیں آپﷺ کے پاس موجود تھیں‘ جن کو لوٹانے کی ذمہ داری آپﷺ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سپرد کر کے مدینہ روانہ ہوئے تھے۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسولﷺ کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے اختیار (یا علم) والوں کی بھی‘ پھر اگر کسی معاملے میں اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو‘‘۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت لازمی ہے اور صاحبِ اختیار کی اطاعت بھی ہونی چاہیے‘ لیکن اگر تنازع کی صورت پیدا ہو جائے تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی بات کو حرفِ آخر سمجھنا چاہیے۔ امام احمدؒ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول کریمﷺ نے ایک انصاری صحابی کی قیادت میں ایک فوجی دستے کو بھیجا‘ دستے کے امیر کسی بات پر لوگوں سے ناراض ہو گئے تو انہوں نے آگ جلائی اور لوگوں کو اس میں کودنے کے لیے کہا۔ دستے کے ایک نوجوان نے لوگوں کو کہا کہ ہم لوگ رسول کریمﷺ پر آگ سے بچنے کے لیے ایمان لائے ہیں‘ اس لیے ہم جلدی نہ کریں‘ یہاں تک کہ رسولﷺ سے پوچھ لیں۔ جب انہوں نے واپس آکر رسول کریمﷺ سے اس بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے کہا کہ اگر تم لوگ اس میں کود جاتے تو اس سے کبھی نہ نکلتے۔ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر لیڈر یا حاکم قرآن وسنت کے خلاف یا عوام کے مفادات اور مصالح کے خلاف کوئی اقدامات کر رہا ہو تو اس کے ان ناجائز اقدامات کو قبول کرنا خلافِ دین ہے۔
اس پارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے رسول اللہﷺ کی اطاعت کی اہمیت کا بھی ذکر کیا کہ جو رسول کریمﷺ کی اطاعت کرتا ہے‘ وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے۔ اسی طرح اس پارے میں یہ بھی ارشاد ہوا کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرتے ہیں‘ وہ قیامت کے دن نبیوں‘ صدیقوں‘ شہیدوں اور صلحاء کے ہمراہ ہوں گے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے تحفے اور سلام کے جواب دینے کے آداب بھی بتلائے ہیں کہ جب کوئی کسی کو سلام کہے یا تحفہ دے تو ایسی صورت میں بہتر جواب اور بہتر تحفہ پلٹانا چاہیے اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو کم از کم اتنا جواب اور اتنا تحفہ ضرور دینا چاہیے‘ جتنا وصول کیا گیا ہو۔ اس پارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے دارالکفر میں رہنے والے مسلمانوں کا بھی ذکر کیا ہے کہ ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے فرائض اور واجبات کو احسن انداز میں ادا کریں‘ اگر وہ ایسا نہ کر سکیں تو ان کو اس ملک سے ہجرت کر جانی چاہیے۔ اگر وہ ہمت اور استطاعت رکھنے کے باوجود ہجرت نہیں کرتے تو ان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں جواب دہ ہونا پڑے گا؛ تاہم ایسے لوگ اور عورتیں‘ جو معذوری اور بڑھاپے کی وجہ سے ہجرت سے قاصر ہوں گے‘ اللہ تعالیٰ ان سے مواخذہ نہیں کریں گے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے نماز کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ نماز حالتِ جہاد میں بھی معاف نہیں؛ تاہم جہاد اور سفر کے دوران نمازکو قصر کیا جا سکتا ہے۔ خوف اور جنگ کی حالت میں فوج کے ایک حصہ کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہیے جبکہ ایک حصے کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نماز ادا کرنا چاہیے اور جونہی امن حاصل ہو جائے‘ نماز کو بروقت اور احسن انداز سے ادا کرنا چاہیے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریمﷺ کی مخالفت کرنے والوں کی بھی مذمت کی ہے اور ارشاد فرمایا کہ جو کوئی ہدایت واضح ہو جانے کے بعد رسول اللہﷺ کی مخالفت کرے گا‘ اللہ تعالیٰ اس کا رخ اس کی مرضی کے راستے کی طرف موڑ دیں گے اور اس کا ٹھکانہ جہنم کی آگ ہے‘ جو بہت بُرا ٹھکانہ ہے۔ اس پارے کے آخر میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے بارے میں اپنے بندوں کو بتلاتے ہیں کہ اگر لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر ایمان لے آئیں اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کریں تو اللہ تعالیٰ کو انہیں عذاب دینے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایمان اور شکر گزاری کے راستے کو اختیار کرنا ہو گا۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآنِ مجید کو پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!

چوتھے پارے کی پہلی آیت میں بیان ہوا کہ نیکی کا مرتبۂ کمال یہ ہے کہ اپنے پسندیدہ اور محبوب مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ رسول اللہﷺ اونٹ کا گوشت کھاتے تھے اور اونٹنی کا دودھ نوش فرماتے تھے‘ اِس پر یہود نے اعتراض کیا کہ اونٹنی کا گوشت اور اُس کا دودھ شریعتِ ابراہیمی سے حرام چلا آ رہا ہے، رسول اللہﷺ نے یہود کو چیلنج کیا کہ اگر تمہارا دعویٰ سچا ہے تو تورات لے آؤ اور اُس میں یہ حکم دکھا دو‘ ورنہ یہ اللہ پر تمہارا افترا ہے کیونکہ شرعی طور پر کسی چیز کو حرام قرار دینا اللہ عزّوجل کا حق یا اُس کے اختیار سے اس کے رسول کا حق ہے۔ آیت 95 تا 97 میں صاحبِ استطاعت پر حج کی فرضیت کا حکم بیان ہوا اور یہ کہ زمین پر اللہ کی عبادت کیلئے سب سے پہلاگھر مکۂ مکرمہ میں بیت اللہ بنایا گیا جس میں واضح نشانیاں ہیں‘ مقامِ ابراہیم ہے اور یہ جائے امن ہے۔ آیت 103 تا 110 میں اتحادِ اُمّت اور فرقہ بندی سے بچنے کا حکم بیان ہوا اور فرمایا کہ اسلام سے پہلے تم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے اور اپنی بد اعمالیوں کے سبب آگ کے گڑھے کے کنارے پر پہنچ چکے تھے مگر نعمتِ بعثتِ مصطفی اور نعمت ِ اسلام کی برکت سے اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اورتم بھائی بھائی بن گئے۔ آیت 111 میں امتِ مسلمہ کو بہترین امت قرار دے کر اس کی وجۂ فضیلت بیان کی کہ تمہیں اس مقصد کیلئے پیدا کیا گیا ہے کہ عالمِ انسانیت میں نیکیوں کو پھیلاؤ اور برائیوں کو روکو‘ یعنی اُمّت مسلمہ کی ذمہ داری عالَمِ انسانیت کو دعوتِ حق دینا اور نبوی مشن کو سر انجام دینا ہے۔ آیت 112 میں بتایا گیا ہے کہ یہود پر اُن کے ناروا اعمال کے سبب ذلت مسلط کر دی گئی کیونکہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے‘ اس کے انبیاء کو ناحق قتل کرتے تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے۔ آیت 118 میں حکم ہوا کہ اہلِ ایمان کو چاہیے کہ وہ اپنے دین کے دشمنوں کو اپنا راز دار نہ بنائیں‘ وہ مسلمانوں کی بربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے اور مسلمانوں کا مصیبت میں مبتلاہونا ان کی خواہش ہے‘ ان کی مسلمانوں سے نفرت کسی حد تک ان کی باتوں سے عیاں ہے اور جو بغض و عناد وہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں‘ وہ اس سے سوا ہے۔ ان کا شِعار منافقت ہے۔ مسلمانوں کی راحت سے انہیں تکلیف پہنچتی ہے اور دکھ سے انہیں راحت پہنچتی ہے۔ غزوۂ بدر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آیت 122میں فرمایا کہ منافقین کا ساتھ چھوڑنے کے بعد مسلمانوں کی دو جماعتوں (بنوحارثہ اور بنو سلمہ) کی ہمتیں پست ہو رہی تھیں کہ اللہ نے انہیں بچا لیا۔ آیت 123 تا 128میں غزوۂ بدر کا ذکر ہے‘ اللہ نے ایسے حالات میں کہ مسلمان ظاہری اعتبار سے کمزور تھے‘ تین ہزار فرشتے ان کی مدد کیلئے اتارے اور مزید نصرتِ غیبی کا وعدہ فرمایا۔ یہ بھی بتایا کہ مجاہدین کی مدد کیلئے فرشتوں کا نزول مومنوں کے اطمینانِ قلب کیلئے تھا۔ آیت 130 میں ایک بار پھر سود کی ممانعت کا حکم نازل ہوا کہ حرام طریقے سے مال کو دگنا‘ چوگنا نہ کرو۔ آیت 133 اور 134 میں بیان ہوا کہ جنت کے حقدار اہلِ تقویٰ کا شِعار یہ ہے کہ خوشحالی ہو یا تنگدستی‘ ہر حال میں اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں‘ غصے پر قابو پاتے ہیں اور لوگوں کی خطاؤں کو معاف کر دیتے ہیں۔ اگلی آیات میں امت کے گناہگاروں کو نویدِ مغفرت دی گئی کہ اگر تم نے اللہ کی نافرمانی اور بے حیائی کے کام کیے ہیں تو ایک بار پھر تمہیں دعوت ہے کہ پلٹ آؤ‘ اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو؛ بشرطیکہ وہ گناہوں پر اصرار نہ کریں بلکہ انہیں ترک کر دیں۔ آیت 139 تا 143میں غزوۂ احد میں اَفرادی قوت اور اسباب میں کمی کے سبب دل چھوڑنے والے مجاہدین کو تسلی دی کہ ثابت قدم رہو‘ آخرکار تم ہی سرفراز ہو گے۔ اگر وقتی طور پر تمہیں کوئی تکلیف پہنچی ہے تو اہلِ حق کے ساتھ ایسا ماضی میں بھی ہوتا رہا مگر برے دن ہمیشہ نہیں رہتے اور یہ ابتلائیں مسلمانوں کیلئے درجات کی بلندی کا سبب بنتی ہیں اور جنت کے حصول کیلئے مسلمانوں کو مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ موت سے ڈرنا مسلمانوں کا شِعار نہیں۔ آیت 164میں اللہ تعالیٰ نے بعثتِ مصطفیﷺ کو اہلِ ایمان کیلئے اپنی نعمت اور احسان قرار دیا اور آپ کے فرائضِ نبوت کو ایک بار پھر بیان فرمایا۔ منافق غزوۂ احد کے مجاہدین کو بار بار ذہنی اذیت پہنچاتے ہوئے کہتے کہ اگر تم نے ہماری بات مانی ہوتی تو ان نتائج سے بچ جاتے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے شہداء کی عظمتِ شان کو مسلمانوں کی طمانیت کیلئے ان الفاظ میں بیان فرمایا: ''اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کر دیے جائیں (مردہ کہنا تو درکنار) انہیں مردہ گمان بھی نہ کرو‘ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں‘ انہیں رزق دیا جاتا ہے‘ اللہ نے اپنے فضل سے جو انہیں عطا فرمایا ہے‘وہ اس پر خوش ہیں‘‘۔ کافروں کو بتایا گیا کہ انہیں جو دنیا میں ڈھیل دی جا رہی ہے‘ یہ ان کیلئے مزید تباہ کن ہو گی کیونکہ جتنی سرکشی وہ کرتے چلے جائیں گے انجامِ کار اس کا وبال اُن پر ہی آئے گا۔ آیت 180 میں ان بخیل مالداروں کو‘ جو اللہ کا دیا ہوا مال اس کی راہ میں خرچ نہیں کرتے‘ وعید سنائی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جو (مال) انہیں عطا کر رکھا ہے‘ وہ یہ گمان نہ کریں یہ ان کے حق میں بہتر ہے‘ بلکہ یہ ان کے حق میں برا ہے اور قیامت کے دن اُن کے اِسی جمع کیے ہوئے مال کا طوق بنا کر ان کے گلے میں ڈالا جائے گا۔ آیت 183 میں یہود کے اس مطالبے کا ذکر ہے کہ ان کے نزدیک نبی کی صداقت کی نشانی یہ ہے کہ وہ اللہ کیلئے قربانی پیش کرے اور آسمان سے آگ آئے اور اسے کھا جائے (یعنی جلا کر راکھ کر دے)۔ بتایا گیا کہ یہ محض ان کی ضد اور ہٹ دھرمی ہے‘ جن رسولوں نے یہ معجزہ پیش کیا‘ کیا ان پر سب لوگ ایمان لائے؟ آیت 190 اور اس کے بعد والی آیات میں یہ بتایا کہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور نظامِ گردشِ لیل ونہار میں عقلمندوں کیلئے نشانیاں ہیں‘ یہ وہ لوگ ہیں جو حالتِ قیام میں‘ بیٹھے ہوئے اور کروٹوں کے بل لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اللہ کی حکمتوں پر غور وفکر کرتے ہیں۔
سورۃ النساء: اس کے بعد سورۃ النساء کی ابتدائی 23 آیات ہیں۔ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے: اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو‘ جس نے تمہیں ایک شخص سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی (حوا) کو پیدا کیا اور پھر ان دونوں کے ذریعے کثیر تعداد میں مرد اور عورتیں زمین میں پھیلا دیے‘ یعنی تمام انسانیت کی اصل ایک ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ اپنے زیرِ کفالت یتیموں کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھاؤ‘ یہ بہت بڑا گناہ ہے‘ اسی طرح اپنے خراب مال کو یتیم کے اچھے مال سے تبدیل نہ کرو۔ اگلی آیت میں یہ بتایا کہ اگرچہ بوقتِ ضرورت ایک سے زیادہ چار تک شادیوں کی اجازت ہے‘ لیکن ازواج کے درمیان عدل کی کڑی شرط کے ساتھ۔ زیرِ کفالت یتیموں کے حوالے سے فرمایا کہ اگر وہ اپنے مال کی حفا ظت کا شعور نہیں رکھتے تو ان کے سرپرست کو چاہیے کہ ان کے مال کی حفاظت کرے‘ ان کی ضروریات کی کفالت کرے اور ان سے حسنِ سلوک کرے۔ یتیم کا مال اس وقت اس کے سپرد کرو جب وہ بالغ اور عقلمند ہو جائے۔ اس اندیشے سے یتیم کا مال جلدی جلدی ہڑپ نہ کرو کہ وہ بالغ ہوکر اپنے مال کا مطالبہ کرے گا اور جب یتیم کا مال اس کے حوالے کرو‘ احتیاطاً گواہ مقرر کر لو۔ قرآن نے یہ بھی بتایا کہ یتیم کا سرپرست اگر غنی ہے تو اپنی ذات اور ضروریات پر یتیم کے مال کو خرچ نہ کرے اور اگر وہ فقیر ہے تو صرف بقدرِ ضرورت اپنے اوپر خرچ کر لے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ مرد ہو یا عورت‘ شریعت میں اپنے مقررہ حصے کی وراثت پانے کا حقدار ہے‘ یعنی اسلام میں عورت کو وراثت سے محروم نہیں رکھا گیا۔ سورۃ النساء کی آیت 11 اور 12 میں وراثت کے مسائل بیان فرمائے گئے ہیں۔ آیت 16 اور 17 میں اللہ تعالیٰ نے قبولیتِ توبہ کا اصول بیان فرمایا ہے کہ جن لوگوں سے گناہ سرزد ہو جائے اور وہ غلطی کا احساس ہونے پر جلدی توبہ کر لیں تو ان کی توبہ کی قبولیت اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے‘ لیکن جو لوگ زندگی بھر گناہ کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ فرشتۂ اجل سر پر آ کھڑا ہو اور پھر کہیں کہ میں نے توبہ کی تو ان کی توبہ کی قبولیت کی کوئی ضمانت نہیں اور جن کی موت کفر پر واقع ہو جائے‘ ان کی آخرت میں نجات کی کوئی ضمانت نہیں۔ یہ بھی ارشاد ہوا کہ بیوی کا مقررہ مہر خواہ کم ہو یا زیادہ‘ ادا کرنا چاہیے۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ جن عورتوں سے نسب کے رشتے سے نکاح حرام ہے‘ اُن سے رضاعت کے رشتے سے بھی حرام ہے اور آیت 23 میں بھی یہ مسئلہ بیان کر دیا گیا ہے۔

چوتھے پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ''تم اس وقت تک بھلائی کو نہیں پہنچ سکتے‘ جب تک اس چیز کوخرچ نہیں کرتے‘ جو تمہیں محبوب ہے اور جوکچھ تم خرچ کرتے ہو‘ اللہ اس کو خوب جانتا ہے‘‘۔ اس آیت کے نزول کے بعد صحابہ کرامؓ نے اپنے محبوب ترین مال کو بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا شروع کر دیا تھا۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت انسؓ بن مالک سے مروی ہے کہ جناب ابوطلحہؓ بہت مالدار صحابی تھے۔ ان کا سب سے محبوب مال بیرحاء کا باغ تھا‘ جو مسجد نبوی کے بالمقابل تھا۔ رسول کریمﷺ کبھی کبھار اس باغ میں تشریف لاتے اور اس کا میٹھا پانی پیتے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے رسول کریمﷺ سے عرض کی کہ میرا سب سے محبوب مال بیرحاء کا باغ ہے‘ میں اسے اللہ تبارک و تعالیٰ کے راستے میں صدقہ کرتا ہوں۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکرکیا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے پہلا گھر مکہ مکرمہ میں تعمیر کیا گیا تھا اور ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ جو بھی اس گھر میں داخل ہوتا ہے‘ اس کو امان حاصل ہو جاتی ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کا بھی ذکر کیا کہ اگر اہلِ ایمان‘ اہلِ کتاب کے کسی گروہ کی اطاعت اختیار کریں گے تو وہ ان کو ایمان کی سرحدوں سے نکال کر کفر کی حدود میں داخل کر دے گا۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے تمام مومنوں کو اس بات کی نصیحت کی کہ ان کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لینا چاہیے اور تفرقے میں نہیں پڑنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی رسی سے مراد قرآنِ مجید ہے۔ اگر تمام مسلمان مضبوطی کے ساتھ قرآنِ پاک کو تھام لیں تو ان کے باہمی اختلافات بہ آسانی دور ہو سکتے ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ قیامت کے دن اہلِ ایمان کے چہرے سفید اور ایمان کو ٹھکرانے والوں کے چہرے سیاہ ہو ں گے۔ سفید چہروں والے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے مستحق ٹھہریں گے‘ جبکہ سیاہ چہرے والے اپنے کفر کی وجہ سے شدید عذاب سے دوچار ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ نے اس پارے میں اس بات کا بھی ذکر کیا کہ مسلمان بہترین اُمت ہیں‘ جن کی ذمہ داری نیکی کا حکم دینا اور بُرائی سے روکنا ہے؛ اگر ہم صحیح معنوں میں بہترین اُمت بننا چاہتے ہیں‘ تو ہمیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے راستے پر چلنا چاہیے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ جب مسلمانوں کو کوئی تکلیف پہنچے تو کافر خوش ہوتے ہیں اور جب ان کو کوئی خوشی حاصل ہو تو کافر‘ غیظ و غضب میں مبتلا ہو جاتے ہیں‘ اگر مسلمان صبر اور تقویٰ کا راستہ اختیار کریں تو کافروں کی کوئی خوشی اور ناراضی مسلمانوں کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتی۔
اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے غزوۂ بدر کا ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ سے وعدہ کیا تھا کہ مسلمانوں کی نصرت کے لیے تین ہزار فرشتوں کو اتارے گا اور اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اگر کافر مسلمانوں تک رسائی حاصل کر لیں گے اور مسلمان صبر و استقامت سے ان کا مقابلہ کریں‘ تو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ پانچ ہزار فرشتوں کو مسلمانوں کی مدد کے لیے اتارے گا۔ سورۂ انفال میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں کی مدد ایک ہزار فرشتوں سے کی جائے گی‘ جن کے بعد مزید فرشتے آئیں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ فرشتوں کی مدد تو ایک خوش خبری اور بشارت ہے‘ وگرنہ اصل میں تو مدد فرمانے والی اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات بالا صفات ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ایمان والو! سود در سود کھانے سے اجتناب کرو۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنت کی طرف تیزی سے بڑھنے کی تلقین کی ہے اور کہا ہے کہ جنت کا عرض زمین اور آسمان کے برابر ہے۔ اس سورت میںاللہ تعالیٰ نے جنتی مومنوں کی یہ صفت بیان کی ہے کہ جب ان سے صغیرہ یا کبیرہ گناہوں کا ارتکاب ہو جاتا ہے تو انہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کا خوف دامن گیر ہو جاتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے سوا کون گناہوں کو معاف کر سکتا ہے۔
غزوۂ احد میں مسلمانوں کو کفار کے ہاتھوں کافی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ اس نقصان کی وجہ سے مسلمان بہت دکھی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر تمہیں زخم لگا ہے تو تمہاری طرح تمہارے دشمنوں کو بھی زخم لگا ہے اور ان ایام کو ہم لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں اور اس ذریعے سے اللہ تبارک و تعالیٰ مومنوں کو بھی جانچ لیتا ہے اور کئی لوگوں کو شہادت کا منصب بھی عطا فرما دیتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس فرمان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خوشی اور غم‘ تکلیف اور راحت سب اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ہے اور دِنوں کے پھرنے میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم لوگ اہلِ کتاب اور مشرکین سے بہت سی ایذا رسانی کی باتیں سنو گے لیکن تم نے دل گرفتہ نہیں ہونا اور صبر اور تقویٰ کو اختیار کرنا ہے، بے شک یہ بہت بڑا کام ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے نبیﷺ کے بارے میں مشرکین‘ عیسائی اور یہودی طرح طرح کی باتیں کرتے رہے اور ان کے ساتھ ساتھ منافقین کا سردار عبداللہ ابن ابی بھی اپنے ساتھیوں کی ہمراہی میں اللہ تعالیٰ کے آخری رسولﷺ کو ایذا دینے میں مصروف رہا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی مدد فرمائی اور آپﷺ کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو ناکام اور نامراد بنا دیا۔
سورۃ النساء
سورہ آلِ عمران کے بعد سورۃ النساء ہے۔ سورۃ النساء کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اس بات کی تلقین کی ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے جو اُن کا پروردگار ہے اور اس نے ان کو ایک جان‘ یعنی آدم علیہ السلام سے پیدا کیا اور ان سے ان کی زوجہ کو پیدا کیا اور پھر کثیر تعداد میں مردوں اور عورتوں کو پیدا کیا۔ اس آیت میں اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ذات پات اور برادری وجۂ عزت نہیں‘ اس لیے کہ تمام انسانوں کی اصل ایک ہی ہے۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے صنفی بدامنی کو روکنے والی ایک تدبیر بھی بتلائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''تم اپنی من پسند دو‘ تین اور چار عورتوں سے نکاح کر سکتے ہو؛ تاہم اگر تم محسوس کرو کہ تم انصاف نہیں کر سکتے تو ایسی صورت میں ایک ہی کافی ہے‘‘۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے وراثت کے مسائل کو بھی بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے والد کی جائیداد میں سے بیٹوں کا بیٹیوں کے مقابلے میں دُگنا حصہ رکھا ہے۔ اگر کسی انسان کی صرف بیٹیاں ہوں تو اس صورت میں وہ انسان کی دو تہائی جائیداد کی مالک ہوں گی اور اگر صرف ایک بیٹی ہو تو وہ نصف جائیداد کی مالک ہو گی۔
شوہر اپنی بیوی کی جائیداد میں ایک چوتھائی حصے کا مالک ہو گا‘ جبکہ بیوی اپنے شوہر کی جائیداد میں آٹھویں حصے کی مالک ہو گی۔ والد اور والدہ کا اپنے بیٹے کی جائیداد میں چھٹا حصہ ہو گا‘ اسی طرح بے اولاد شخص کی جائیداد اس کے بہن بھائیوں میں تقسیم ہو گی۔ جائیداد کی تقسیم سے قبل انسان کے ذمہ واجب الادا قرض کو ادا کرنا چاہیے اور اگر اس نے کسی کے حق میں کوئی وصیت کی ہو‘ جو ایک تہائی سے زیادہ نہیں ہو سکتی‘ تو اس کو ادا کرنا چاہیے۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے حق مہر کے حوالے سے ارشاد فرمایا کہ ''انسان اپنی بیوی کو حق مہر کے طور پر خزانہ بھی دے سکتا ہے اور انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ حق مہر دینے کے بعد اس کو واپس لینے کی کوشش کرے‘‘۔ حکم ہوا کہ حق مہر کم ہو یا زیادہ‘ ادا کرنا چاہیے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دُعا ہے کہ ہمیں قرآن مجید پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!

تیسرے پارے کے شروع میں اس امر کا بیان ہے کہ اس حقیقت کے باوجودکہ اللہ تعالیٰ کے تمام نبی اور رسول علیہم السلام معزز و مکرم ہیں اور ان کی شان بڑی ہے‘ اللہ تعالیٰ نے رسولوں میں ایک کیلئے دوسرے کے مقابلے میں فضیلت اور درجے کی بلندی رکھی ہے۔ آیت 254 میں فرمایا کہ قیامت کے دن (نیکیوں کا) لین دین‘ دوستی اور سفارش نہیں چلے گی اور کفار ہی حقیقت میں ظالم ہیں۔ قرآن کی عظیم آیت جو ''آیۃ الکرسی‘‘ کے نام سے معروف ہے‘ یہ آیاتِ قرآن کی سردار ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی توحید‘ شانِ جلالت اور وسعتِ قدرت بیان کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا گیاہے کہ اُس کے اِذن سے ہی اُس کی بارگاہ میں شفاعت ہو گی۔ آیت 258 میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نمرود کے ساتھ اس مناظرے کا ذکر ہے‘ جس کے نتیجے میں وہ لاجواب ہوا‘ یعنی جب ابراہیم علیہ السلام نے یہ کہا '' اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے (تجھے اگر خدائی کا دعویٰ ہے) تو اسے مغرب سے نکال لے‘‘۔ آیت 273 میں فرمایا کہ صدقات وخیرات کے حقدار وہ لوگ ہیں جو جہاد فی سبیل اللہ یا دین کے کسی کام (مثلاً دین کی تعلیم و تعلُّم) میں مشغول ہوں اور انہیں طلبِ معاش کی فرصت نہ ہو اور وہ اتنے خوددار ہوں کہ وہ لوگوں سے مانگتے نہ پھریں اور ان کی حقیقتِ حال سے ناواقف آدمی انہیں مالدار سمجھے۔ آیت 274 میں فرمایا ''سود خور کی مثال ایسی ہے‘ جیسے کسی شخص کو شیطان نے چھو کر مخبوط الحواس کر دیا ہو‘‘۔ پھر فرمایا کہ سود کی حرمت کا حکم آنے کے بعد سود کا لین دین چھوڑ دو‘ ماضی کی خطا معاف ہے؛ البتہ اگر کسی شخص کے دوسرے کے ذمے سابق مالی واجبات ہوں تو اصل زَر لے لے اور سود چھوڑ دے۔ آیت 282 میں مالی معاملات اور تجارت و لین دین کے چند بنیادی و اساسی اصول بیان کیے ہیں: (1) دستاویزی شکل دو۔ (2) ادائیگی کا وقت مقرر کرو۔ (3) مالی معاملات کی دستاویز لکھنے پر قدرت رکھنے والے کو اپنے مسلمان بھائی کی لکھنے میں مدد کرنی چاہیے۔ (4) تحریر لکھوانا قرض خواہ کی ذمہ داری ہے۔ (5) تحریر لکھنے میں دیانتداری سے کام فرض ہے۔ (6) مقروض نادان‘ کمزور یا تحریر نہ لکھوا سکتا ہو تو اس کا ولی تحریر لکھوائے۔ (7) تجارتی و مالی معاملات میں دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنانا چاہیے۔ (8) گواہوں کو گواہی دینے سے انکار نہیں کرنا چاہیے بلکہ خوش دلی سے گواہی دینا چاہیے۔ (9) گواہوں اور دستاویز لکھنے والوں کو تحفظ فراہم کرنا معاہدہ کرنے والوں کی ذمہ داری ہے۔ (10) گواہوں اور دستاویز لکھنے والے کو ایذا پہنچانا گناہ ہے۔ (11) گواہی کو چھپانا گناہ ہے۔ (12) حالتِ سفر میں کوئی لین دین کا معاملہ ہو تو کوئی فریق ضمانت کے طور پر چیز اپنے پاس رہن رکھ سکتا ہے۔ (13) اگر دستاویز ی ثبوت لکھنے یا گواہوں کے بغیر کسی نے اعتماد کرکے کسی کے ساتھ لین دین کیا ہو تو وہ دوسرے کی امانت واپس کرے اور آخر میں فرمایا: ''اس معاملہ میں اللہ سے ڈرتا رہے‘‘۔
آلِ عمران: سورۂ آلِ عمران کی آیت 7 میں بتایا کہ آیاتِ قرآنی کی دو قسمیں ہیں: (1)محکم‘ یہ وہ آیات ہیں جن کی دلالت اپنے معنی‘ مفہوم اور منطوق پر بالکل قطعی اور واضح ہے‘ ان میں تمام شرعی احکام‘ حلال و حرام‘ فرائض و واجبات‘ حدود و فرائض اور اَوامر و نواہی کا بیان ہے۔ (2) متشابہ‘ ان آیات پر ہر مومن کا ایمان لانا فرض قطعی ہے اور جن کے معنی ہم پر واضح نہیں ہیں‘ ان کی مراد ہم اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''جن کے دلوں میں کجی ہے‘ وہ فتنہ جوئی اور متشابہات کا محمل (توجیہ اور مراد) نکالنے کیلئے کنایات کے درپے رہتے ہیں؛ حالانکہ متشابہ آیات کا قطعی اور آخری معنی اللہ ہی جانتا ہے‘‘۔ آیت 14میں بتایا کہ ''(انسان کی آزمائش کیلئے) عورتوں اور بیٹوں کی جانب میلان‘ سونا اور چاندی کے جمع شدہ خزانوں‘ نشان زدہ گھوڑوں‘ چوپایوں اور کھیتی باڑی (یعنی مال و متاعِ دنیا‘ مختلف زمانوں میں اس کی ظاہری صورت جو بھی ہو) کی رغبت کو آراستہ اور پُرکشش بنا دیا گیا ہے‘ یہ سب دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور عمدہ ٹھکانہ صرف اللہ کے پاس ہے‘‘۔ اگلی آیت میں مومنینِ مخلصین کا یہ شِعار بتایا کہ ''جو یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! بیشک ہم ایمان لائے‘ سو ہمارے گناہوں کو بخش دے اور دوزخ کے عذاب سے بچا‘ (یہ لوگ) صبر کرنے والے‘ سچ بولنے والے‘ (اللہ کی) اطاعت کرنے والے‘ (اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے والے اور بخشش کی دعائیں مانگنے والے ہیں‘‘۔ آیت 26 اور 27 میں اللہ تعالیٰ کی جلالتِ شان کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : ''(اے نبی!) کہو: اے اللہ! مُلک کے مالک‘ تو جسے چاہتا ہے‘ مُلک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے مُلک چھین لیتا ہے اور تو جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلت میں مبتلا کر دیتا ہے‘ سب بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے‘ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے‘ تو رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں‘ تو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے اور تو جس کو چاہے بے حساب رزق دیتا ہے‘‘۔ آیت 31 میں اللہ تعالیٰ کے رسول مکرمﷺ کی عظمتِ شان کا ان الفاظ میں ذکر ہے۔ اس آیت میں واضح طور پر بتا دیا گیا کہ اگر بندہ اللہ تعالیٰ کے قُرب اور رِضا کا طلب گار ہو‘ تو اُس کا فقط ایک ہی راستہ ہے‘ یعنی اتباعِ مصطفیﷺ۔ آیت 35 سے حضرت مریم کا واقعہ بیان ہوا۔ عمران بن یاشہم حضرت مریم کے والد ہیں اور ان کی والدہ کا نام حَنَّہ بنت فاقوذ مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''جب عمران کی بیوی نے عرض کیا: اے میرے رب! جو (حمل) میرے پیٹ میں ہے‘ اُس کو میں نے تیرے (بیت المقدس کی خدمت کیلئے دوسری ذمہ داریوں سے) آزاد رکھنے کی نذر مانی ہے‘ سو تو میری طرف سے (اِس نذر کو) قبول فرما‘‘۔ پھر جب اس کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی‘ تو اس نے (عرض کیا) اے میرے رب! میرے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے اور اللہ خوب جانتا ہے کہ اس کے ہاں کیا پیدا ہوا۔ اس کے بعد اگلی آیات میں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مریم کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمایا اور اسے عمدہ طریقے سے پروان چڑھایا اور حضرت زکریا علیہ السلام تربیت کیلئے ان کے کفیل بنے اور حضرت مریم کو بیت المقدس کے ایک حجرے میں ٹھہرایا گیا۔ پھر جب حضرت زکر یا علیہ السلام نے مریم کے پاس بے موسم کے پھل دیکھے تو حیران ہو کر کہا: ''اے مریم! یہ (بے موسم کے) پھل کہاں سے؟ حضرت مریم نے کہا: یہ اللہ کی جانب سے‘‘۔ اس موقع پر حضرت زکریا علیہ السلام کے دل میں اولاد کی خواہش ابھری کہ جو رب مریم کو بے موسم کے پھل دے سکتا ہے‘ وہ مجھے بڑھاپے میں اولاد بھی دے سکتا ہے۔ تب زکریا علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی (اور) کہا: ''اے میرے رب! مجھے اپنی طرف سے پاکیزہ اولاد عطا فرما‘ بے شک تو ہی دعا کا بہت سننے والا ہے‘‘۔ پھر جب زکریا علیہ السلام حجرے میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے‘ فرشتے نے انہیں بشارت دی ''بے شک اللہ آپ کو یحییٰ کی بشارت دیتا ہے‘ جو کلمۃ اللہ (یعنی عیسیٰ علیہ السلام ) کی تصدیق کرنے والے ہوں گے‘ سردار اور عورتوں سے رغبت نہ رکھنے والے ہوں گے اور نبی ہوں گے‘‘۔ پھر حضرتِ زکریا علیہ السلام اور ان کی بیوی کو بڑھاپے اور بظاہر ناامیدی کی عمر میں بیٹے کی پیدائش کی نشانی بتاتے ہوئے یہ فرمایا '' تمہاری علامت یہ ہے کہ تم تین دن تک اشاروں کے سوا لوگوں سے کوئی بات نہ کر سکو گے اور اپنے رب کا صبح وشام کے وقت کثرت سے ذکر کرو‘‘۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتے کے ذریعے حضرت مریم کو بیٹے کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا کہ ان کا نام مسیح عیسیٰ ہے۔
آیت 77 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے عوض تھوڑی قیمت لیتے ہیں‘ اُن لوگوں کیلئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے اور نہ آخرت میں اللہ اُن سے کلام فرمائے گا اور نہ ہی اُن کو پاکیزہ کرے گا‘‘۔ آیت 84 میں عالمِ اَروَاح کے اُس عظیم واقعے کو بیان کیا گیا جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور (اے رسول!) یاد کیجئے جب اللہ نے تمام نبیوں سے پختہ عہد لیا کہ میں تم کو جو کتاب اور حکمت دوں‘ پھر (بالفرض) تمہارے پاس وہ عظیم رسول آئیں‘جو اُس چیز کی تصدیق کرنے والے ہوں‘ جو تمہارے پاس ہے‘ توتم اُن پر ضرور بالضرور ایمان لانا اور ضرور بالضرور اُن کی مدد کرنا‘ (اللہ نے) فرمایا: کیا تم نے اقرار کر لیا اور میرے اِس بھاری عہد کو قبول کر لیا؟ اُنہوں نے کہا: ہم نے اقرار کیا (تواللہ نے) فرمایا: پس گواہ رہنا اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں‘‘۔ اس میثاق سے معلوم ہوا کہ ختم الرسلﷺ پر ایمان اور آپﷺ کی نصرت و حمایت کا ہر نبی پابند تھا۔ اس پارے کی آخری آیات میں یہ بیان فرمایا کہ دینِ اسلام ایک تسلسل کا نام ہے‘ جو حضرت آدم علیہ السلام سے ختم المرسلینﷺ تک چلا آ رہا ہے اور اُسی دین کی طرف بلایا جا رہا ہے۔ آیات 86 تا 88 میں اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے کے بعد کفر کرنے والوں کی سزا‘ اُن پر عذاب اور عذاب میں تخفیف نہ ہونے اور کسی طرح کی کوئی مہلت نہ دیے جانے کا بیان کیا ہے۔ بعد کی آیات میں توبہ کرنے والوں کی بخشش کا بیان ہے۔

تیسرے پارے کا آغاز بھی سورہ بقرہ سے ہوتا ہے۔ تیسرے پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا کہ اللہ کے بعض رسولوں کو دوسرے رسولوں پر فضیلت حاصل ہے‘ ان میں سے بعض نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کلام کیا اور بعض کے درجات کو اللہ رب العزت نے بلند فرما دیا اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ تمام رسولوں میں سے سب سے زیادہ بلند مقام ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیﷺ کا ہے۔ اس پارے میں آیت الکرسی ہے‘ جو قرآنِ مجید کی سب سے افضل آیت ہے۔ آیت الکرسی کی تلاوت کرنے والے کو اللہ تعالیٰ شیاطین کے حملوں سے محفوظ فرما لیتے ہیں۔ تیسرے پارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سے اہم واقعات بھی بیان کیے ہیں۔ پہلا واقعہ جناب ابراہیم علیہ السلام کا دربارِ نمرود میں اُس کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کے بارے میں مناظرانہ مکالمے کا ہے۔ جس وقت ابراہیم علیہ السلام دربارِ نمرود میں جا کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی تبلیغ کرتے ہیں‘ تو ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں کہتے ہیں: میرا پروردگار زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے۔ جواب میں نمرود کہتا ہے کہ میں بھی مارتا ہوں اور زندہ کرتا ہوں۔ اپنے اس مفروضے کو ثابت کرنے کے لیے اس ظالم نے ایک مجرم کو آزاد کر دیا اور ایک بے گناہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اس کے مکر کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق سے لے کر آتا ہے‘ پس تُو اس کو مغرب سے لے کر آ۔ یہ بات سن کر نمرود کے لبوں پر چپ کی مہر لگ گئی‘ اس لیے کہ وہ جانتا تھا کہ اس مطالبے کو پورا کرنا ناممکن ہے۔ آگے چل کر بیان ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے سوال کیا: اے اللہ ! میں اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہوں کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ کیا اس حقیقت پر تمہارا ایمان نہیں ہے؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ اے رب ! میرا ایمان ہے کہ تو مردوں کو زندہ کرے گا اور انہیں نیکی و بدی کا بدلہ دے گا، لیکن اس حقیقت کے بارے میں عین الیقین کا درجہ حاصل کرنا چاہتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کرلی، اور کہا کہ چار پرندوں کو ذبح کر کے ایک ساتھ ملا دو اور انہیں مختلف پہاڑوں پر ڈال دو، پھر انہیں بلاؤ، وہ تمہارے پاس اڑتے چلے آئیں گے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایسا ہی کیا اور وہ سب پرندے اڑتے ہوئے ان کے پاس آگئے۔ اسی پارے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر علیہ السلام کے اس واقعے کا بھی ذکر کیا ہے کہ وہ ایک اجڑی ہوئی بستی کے پاس سے گزرے اور کہا کہ یہ بستی کیونکر دوبارہ زندہ (آباد) ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر علیہ السلام کو سو برس کے لیے سلا دیا اور پھر ان کو دوبارہ زندہ کر دیا۔ حضرت عزیر علیہ السلام اور جناب ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ یہ بات سمجھاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے قیامت کے دن مردوں کو زندہ کرنا چنداں مشکل نہیں ہے اور جب اللہ تبارک و تعالیٰ انسانوں کو زندہ ہونے کا حکم دیں گے‘ تو سبھی مردہ انسان بالکل صحیح حالت میں اٹھ کر کھڑے ہوں گے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے انفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت کا بھی ذکر کیا ہے اور بتلایا کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کیے گئے مال کو اللہ تعالیٰ سات سو گنا کر کے پلٹائیں گے اور کئی لوگوں کو اس سے بھی زیادہ بدلہ ملے گا۔ اس پارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سود کی بھی مذمت کی اور کہا کہ جو لوگ سود کھانے سے باز نہیں آتے‘ ان کا اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔
سورۂ آلِ عمران: سورہ بقرہ کے بعد سو رہ آلِ عمران ہے۔ سورہ آلِ عمران کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کو حق کے ساتھ نازل فرمایا جو سابقہ کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور اس سے قبل اس نے تورات اور انجیل کو نازل فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میں اس امر کا بھی ذکر کیا کہ وہ رحمِ مادر میں انسانوں کو جس طرح چاہتا ہے‘صورت عطا فرما دیتا ہے‘ وہ بغیر رنگ‘ روشنی اورکینوس کے‘ دھڑکتے ہوئے دل والا انسان بنا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں یہ بھی بتلایا کہ قرآنِ مجید میں دو طرح کی آیات ہیں‘ ایک محکم اور دوسری متشابہ۔ فرمایا کہ محکم آیات کتاب کی اصل ہیں اور متشابہات کی تاویل کا حقیقی علم صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کے پاس ہے۔ جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہوتا ہے وہ متشابہات کی تاویل کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں اور اہلِ ایمان کہتے ہیں‘ جو کچھ بھی ہمارے رب نے اتارا‘ ہمارا اس پر کامل ایمان ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے اس لیے جو آخرت کی فلاح و بہبود کا خواہش مند ہے‘ اس کو اسلام کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ اللہ نے حضرت آدم‘ حضرت نوح‘ آلِ ابراہیم اور آلِ عمران کو دنیا پر فضیلت عطا فرمائی تھی۔ سورہ آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ نے جنابِ عمران کی اہلیہ کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے منت مانی کہ وہ اپنے نوزائیدہ بچے کو اللہ تبارک وتعالیٰ ٰ کے لیے وقف کر دیں گی۔ آپ کے یہاں پر بچے کے بجائے بچی کی ولادت ہوئی۔ جناب عمران کی اہلیہ نے اپنی منت کو بچی ہونے کے باوجود پورا کیا اور اس بچی کا نام مریم رکھ کر اس کو جناب زکریا علیہ السلام کی کفالت میں دے دیا۔ اللہ تعالیٰ نے جناب مریم کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما لیا اور آپ کے بچپن سے لے کر جوانی تک کے تمام ایام اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی میں صرف ہوتے رہے‘ یہاں تک کہ بارگاہِ الٰہی سے آپ کے لیے یہ کرامت بھی ظاہر ہوئی کہ آپ کے پاس بے موسم کے پھل آنے لگے۔ حضرت زکریا علیہ السلام‘ جو حضرت مریم کے خالو بھی تھے‘ ایک دن اس محراب میں داخل ہوئے‘ جہاں سیدہ مریم عبادت میں مشغول رہتی تھیں۔ انہوں نے سیدہ مریم سے پوچھا کہ آپ کے پاس یہ بے موسم کے پھل کہاں سے آتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں‘ وہ جس کو چاہتا ہے‘ بلاحساب رزق دیتا ہے۔ حضرت زکریا علیہ السلام بے اولاد تھے اور آپ کی بیوی بانجھ تھیں۔ سیدہ مریم کے پاس بے موسم کے پھل دیکھ کر جناب زکریا علیہ السلام بھی رحمتِ الٰہی سے پُرامید ہو گئے اور آپ علیہ السلام نے دعا مانگی: اے میرے پروردگار! مجھے بھی اپنی طرف سے پاک اولاد عطا فرما۔ حضرت زکریا علیہ السلام محراب میں نماز ادا فرما رہے تھے کہ فرشتے نے آپ کو پکارکر کہا: ''اے زکریا! آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یحییٰ نامی پارسا اور سردار بیٹے کی بشارت ہو‘‘۔ حضرت زکریا علیہ السلام اس کے بعد تین دن تک خلوت نشین ہوکر اللہ تبارک وتعالیٰ کے ذکر اور تسبیح میں مشغول رہے۔
اس کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے جناب مریم کے ہاں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی معجزاتی ولادت کا ذکر کیا ہے۔ سیدہ مریم کا دل اس بات کو قبول نہیں کر رہا تھا‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو بنا شوہر کے ایک بیٹا عطا کیا‘ جو اللہ کے حکم سے کوڑھ اور برص کے مریضوں پر ہاتھ پھیرتا تو وہ شفایاب ہو جاتے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے لوگوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے گھر میں کھائے جانے اور باقی رہ جانے والے کھانے کی بھی خبر دیتے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی معجزاتی پیدائش کی وجہ سے عیسائی ان کو اللہ کا بیٹا قرار دینے لگے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم جیسی ہے‘ جن کو اللہ نے بن باپ اور بن ماں کے مٹی سے پیدا کیا اور کہا 'ہو جا‘ تو وہ ہو گئے۔ اس سورہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ کفار حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جان کے درپے تھے۔ اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بشارت دی کہ میں آپ کو زندہ اٹھا لوں گا اور کفار آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکیں گے۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں رسول کریمﷺ کے مقام کا بھی ذکرکیا ہے کہ عالم ارواح میں اللہ نے انبیاء کرام علیہم السلام کی روحوں سے اس بات کا عہد لیا تھا کہ اگر ان کی زندگی میں محمد رسول اللہﷺ آ جائیں تو پھر ان پر ایمان لانا اور ان کی حمایت کرنا گروہِ انبیاء پر لازم ہو گا۔ اس پارے کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ کفر پر مرنے والے اگر زمین کی مقدار کے برابر سونا بھی لے کر آئیں تو اللہ تعالیٰ اس سونے کے بدلے میں بھی انہیں معاف نہیں کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔

دوسرے پارے کا آغاز بھی اس بیان سے ہے کہ اب مسلمانوں کا قبلہ تبدیل کیا جارہا ہے اور ہٹ دھرم لوگ اور منافقین اس پر اعتراض کریں گے کہ یہ کیوں ہوا؟ دراصل رسول اللہﷺ کے مدنی دور کی ابتدا میں سولہ‘ سترہ ماہ تک بیت المقدس کی جانب رخ کرکے نمازیں پڑھی گئیں ‘ پھر ایک دن ظہر کی نمازکے دوران رسول کریمﷺ کی خواہش پر اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کے بجائے بیت اللہ کو قبلۂ نماز بنانے کا حکم نازل فرمایا اور اس تحویلِ قبلہ کی حکمت بھی اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرما دی ''اور (اے رسول!) جس قبلہ پر آپ پہلے تھے‘ ہم نے اس کو قبلہ اس لیے بنایا تھاتاکہ ہم ظاہر کردیں کہ کون (غیر مشروط طور پر) رسول کی پیروی کرتا ہے اور اس کو اُس سے ممتاز کردیں‘ جو اپنی ایڑیوں پر (کفر کی جانب) پلٹ جاتا ہے‘‘۔یہ بھی فرمایا ''بے شک ہم نے بارہا(وحی کے انتظار میں) آپ کو آسمان کی طرف رخ پلٹتے ہوئے دیکھا ہے ‘ سو ہم آپ کو ضرور بالضرور اسی قبلہ کی جانب پھیر دیں گے ‘ جو آپ کو پسند ہے۔ پس‘ آپ اپنا رخ مسجدِ حرام کی جانب پھیر لیں‘‘۔ آگے چل کر پھر فرمایا کہ مسلمان جہاں کہیں بھی ہو‘ اُسے نماز کے وقت اپنا رخ مسجد حرام کی جانب پھیر دینا چاہیے اور اس پر اہلِ کتاب سے کوئی سودے بازی یا مفاہمت نہیں ہوسکتی۔یہ بھی بتا یا کہ تورات وانجیل میں رسول اللہﷺ کی جو روشن نشانیاں بتائی گئی ہیں ‘ ان کی روشنی میں اہلِ کتاب رسول اللہﷺ کو اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں ‘ لیکن ان کے انکار کا سبب صرف کتمانِ حق ہے۔اسی سورت میں رسول کریمﷺ کی بعثت اور منصبِ نبوت کے فرائض کو ایک بار پھر بیان کیا گیا‘یعنی تلاوتِ آیاتِ الٰہی تزکیۂ باطن اور تعلیمِ کتاب وحکمت۔
آیات 153 تا 156 میں ہر مصیبت کے وقت صبر اور نماز کو اللہ تعالیٰ کی نصرت کا وسیلہ بنانے کی تعلیم دی گئی ہے اور راہِ حق میں پیش آنے والی آزمائشوں کا ذکر ہے ‘ جو (دشمن کے) خوف‘ بھوک ‘ جان ومال اور اولاد کے تلف ہونے کی صورت میں بھی ہوسکتی ہیں۔ ان مشکلات میں اہلِ صبر کو بشارتیں دی گئی ہیں اور اللہ کی راہ میں درجۂ شہادت پانے والوں کیلئے ابدی زندگی کی بشارت دی گئی ہے۔آیات 159 تا 163 میں بتایا گیا کہ جو لوگ دین کی حقانیت کے روشن دلائل اور پیغامِ ہدایت کو چھپاتے ہیں‘ اُن پر اللہ تعالیٰ‘ اس کے فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت اور دائمی عذاب کی وعید ہے‘ مگر جو توبہ کرلے اوراپنی اصلاح کرلے ‘ اُن کیلئے توبہ کی قبولیت کا دروازہ کھلا ہے۔آیات 164 تا 167 میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی قدرت کی نشانیوں کا ذکر ہے‘ یعنی زمین وآسمان کی پیدائش ‘گردشِ لیل ونہار کا نظام ‘ سمندروں میں انسانی فائدے کیلئے کشتیوں اور جہازوں کا رواں دواں رہنا ‘ بارش کے قدرتی نظام کے ذریعے خشک اور بنجر زمین کا دوبارہ زرخیز اور آباد ہونا‘ ہواؤں کا چلنااور آسمان اور زمین کے درمیان بادلوں کا معلق رہنا وغیرہ۔ یہ بھی بتایا کہ مشرکوں کوجتنی اپنے باطل معبودوں سے محبت ہے ‘ اہلِ ایمان کو اُس سے بہت زیادہ اللہ سے محبت ہے۔یہ بھی بیان ہوا کہ اس دنیا میں لوگ اپنے جن قائدین کی پیروی میں گمراہی کو اختیار کیے ہوئے ہیں ‘ قیامت کے دن یہ لیڈر اللہ کے عذاب کو دیکھ کر اپنے پیروکاروں سے برأت کریں گے۔ آیات 172 تا 173 میں حکم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ پاک نعمتوں کو کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو‘ پھر چار قطعی حرام چیزوں کا بیان ہوا‘ جو یہ ہیں: مردار (اس سے وہ حلال جانور مراد ہے‘جو طبعی موت مر گیا ہو) ذبح کے وقت بہنے والا خون ‘ خنزیز کا گوشت اوروہ حلال جانورجس پر ذبح کرتے وقت غیراللہ کا نام لیا گیا ہو‘صرف حالتِ اضطرار میں محض بقائے حیات کیلئے بقدرِ ضرورت ان کے استعمال کو مباح قرار دیا گیا۔ آیت نمبر177 میں بتایا کہ اصل نیکی صرف عبادت کے وقت مشرق ومغرب کی جانب رُخ کرنے کا نام نہیں‘ بلکہ کامل نیکی ایک جامع پیکیج کا نام ہے ‘ یعنی اللہ تعالیٰ ‘ یومِ قیامت ‘ ملائک ‘ تمام الہامی کتب اور سارے انبیاء کرام پر ایمان ‘ اس کے ساتھ انفاق فی سبیل اللہ‘نظامِ صلوٰۃ و زکوٰۃ کا قیام‘ ایفائے عہد اور ہرمصیبت کے وقت صبرواستقامت‘ پھر فرمایا کہ درحقیقت جو لوگ ان تمام صفات کے حامل ہیں‘ وہی دعویِٰ ایمان میں سچے ہیں۔ آیات 178 اور 179 میں اسلام کے قانونِ قصاص کا بیان ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ''قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے‘‘ چنانچہ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ جس معاشرے میں قانونِ قصاص عملاً نافذ نہیں ‘ وہاں آئے دن بے قصور انسانوں کی جان ‘ مال اور آبرو کی حُرمت پامال ہو رہی ہے۔ آیت نمبر 194میں چار مہینوں کی حرمت کا بیان ہے۔ آیات 195 سے 203 تک حج اور عمرے اور حج کے بعض مسائل کا بیان ہے۔ آیت 207اور 208 میں بتایا کہ حقیقت ِ ایمان‘ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنی جان کا سودا ہے اور اسلام بعض چیزوں کو قبول کرنے اور بعض کو رد کرنے کا نام نہیں‘ بلکہ اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کریمﷺ کے تمام احکام (اَوامر و نواہی) کو من و عن قبول کیاجائے ‘یہ نہیں ہوسکتا کہ بعض باتیں آپ کو پسند ہوں‘ تواُنہیں قبول کرلیں اورجو باتیں آپ کو پسند نہ ہوں‘ تو اُنہیں رَد کردیں۔ آیت نمبر213 میں بتایا گیا کہ تمام لوگ اصل کے اعتبار سے ایک تھے‘ پھر اللہ تعالیٰ نے نظامِ رسالت قائم فرمایا ‘ ہر دور کے لوگوں کیلئے کتابِ ہدایت نازل کی‘ اُس کے بعد انسانیت دو گروہوں میں بٹ گئی ایک اہلِ حق ‘ یعنی انبیاء کرام کے پیرو کار اور دوسرے اہلِ باطل‘ یعنی خواہشاتِ نفس اور شیطان کے پیروکار۔ آیت نمبر 214 میں یہ بتایا گیا کہ جنت کا حقدار بننے کیلئے محض دعویِٰ ایمان کافی نہیں‘ بلکہ اُس کیلئے راہِ حق میں مشکلات کا استقامت کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے۔ جیسا کہ انبیائے کرام اور ان کے سچے پیرو کاروں کی روشن مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ آیت نمبر 215 میں انفاق فی سبیل اللہ کے مصارف کا بیان ہے اور اگر آیت نمبر 219 کو اس سے ملا کر سمجھا جائے تو اس امر کا بیان ہے کہ جو مال تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو ‘ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ اسی آیت میں شراب اور جوئے کی حُرمت کا ابتدائی بیان ہے کہ ان کے نفع کے مقابلے میں ان کا گناہ بہت بڑا ہے۔ آیت نمبر 216 میں جہاد کی فرضیت کا بیان ہے۔ آیت نمبر 221 میں مشرک عورتوں سے نکاح کی ممانعت کا بیان ہے اور آیت نمبر 222 میں اس امر کا بیان ہے کہ ایامِ مخصوص (یعنی حالتِ حیض ونفاس)میں عورت سے مباشرت منع ہے۔ آیت نمبر 224 اور 225 میں اس امر کا بیان ہے کہ اگر کسی نے ایسی قسم کھا لی ہے‘ جس پر قائم رہنا ‘ شریعت کی رو سے ناپسندیدہ ہے تو چاہیے کہ اسے توڑ دے اور کفارہ ادا کرے؛ چنانچہ فرمایا ''اور تم نیکی ‘ تقویٰ اور لوگوں کی خیر خواہی سے بچنے کیلئے اللہ کے نام کی قسمیں کھانے کو بہانہ نہ بناؤ‘‘۔
آیت نمبر 226 اور 227 میں ''ایلا‘‘ کا بیان ہے۔ ''ایلا‘‘ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو یہ کہے کہ ''اللہ کی قسم میں چار ماہ تک یا ہمیشہ کیلئے تمہارے ساتھ ازدواجی تعلق قائم نہیں کروں گا‘‘۔ اگر چار ماہ کے اندر قسم کا کفارہ ادا کرکے قسم توڑ دے تو نکاح قائم رہے گا ‘ورنہ ایک طلاقِ بائن واقع ہو جائے گی۔ آیت نمبر 228میں یہ بتایا کہ مطلّقہ عورت کی عدت ایامِ مخصوص کے تین دورانیوں کی تکمیل ہے۔آیت نمبر 229 میں یہ حکم بیان ہوا کہ دو صریح طلاقیں (خواہ الگ الگ دی جائیں یا ایک ساتھ) دینے کے بعد بھی شوہر کو یک طرفہ طور پر رجوع کا حق حاصل ہے اور اگر تیسری طلاق دے دی ‘ تو بیوی اس پر حرام ہو جائے گی (یعنی اب براہِ راست یا عقدِ ثانی کے ذریعے رجوع کی گنجائش نہیں ہے) سوائے ‘اس کے کہ وہ عورت عدت گزرنے کے بعد اپنی مرضی سے کسی اور شخص سے نکاح کرے اور وہ شخص اپنی مرضی سے اسے طلاق دے ‘ تو صرف اس صورت میں وہ سابق شوہر سے نکاح کر سکتی ہے۔ اس میں خلع کا بھی بیان ہے۔ آیت نمبر231 اور 232 میں یہ بیان ہوا کہ عورت کو طلاقِ رجعی دینے کے بعد اگر خوش دلی سے اور حسنِ سلوک کے ساتھ اپنے نکاح میں رکھنے کا ارادہ ہو تو عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلو اور اگر اسے حسنِ سلوک کے ساتھ نکاح میں رکھنے کا ارادہ نہ ہو تو محض ضرر پہنچانے اور اذیت دینے کیلئے اس سے رجوع نہ کرو۔آیت نمبر 233 میں اس امرکا بیان ہے کہ ''رِضاعت‘‘ کی کامل مدت دو سال ہے؛ اگر دو سال سے کم مدت میں ماں کا دودھ چھڑانے سے بچے کی زندگی کو کوئی خطرہ نہ ہو یا دوسری غذاؤں سے اس کی ضرورت پوری ہوسکتی ہو ‘ تو اس مدت کی تکمیل اس صورت میں مستحب ہے ؛ اگر خدانخواستہ شیر خوار بچے کی ماں کو طلاق ہوجائے ‘ تو دودھ پلانا پھر بھی ماں کی ذمہ داری ہے اور دستور کے مطابق؛ اس کے ضروری اخراجات بچے کے باپ کے ذمے ہوں گے۔

دوسرے پارے کا آغاز سورۃ البقرہ سے ہو تا ہے۔ اس پارے کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے قبلے کی تبدیلی کا ذکر کیا ہے۔ مسلمانوں پر جب اللہ تعالیٰ نے نماز کو فرض کیا تو ابتدائی طور پر مسلمان بیت المقدس کے طرف رخ کر کے نماز کو ادا کیا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ کی یہ دلی تمنا تھی کہ اللہ تعالیٰ قبلے کو تبدیل کر کے بیت الحرام کو قبلہ بنا دے۔ نبیﷺ اس تمنا کے اظہار کے لیے کئی مرتبہ اپنے چہرہ مبارک کو آسمان کی طرف اُٹھایا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی اس دلی تمنا کو پورا فرما کر بیت اللہ الحرام کو قبلہ بنا دیا۔ اس پر بعض کم عقل لوگوں نے تنقید بھی کی کہ جس طرح قبلہ تبدیل ہوا‘ مذہب بھی تبدیل ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا قبلے کی تبدیلی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دیکھ لینا چاہتا ہے کہ کون رسول اللہﷺ کا سچا پیرو کار ہے اور کون ہے جو اپنے قدموں پرپھر جانے والا ہو۔ وگرنہ جہتیں توساری اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہیں۔مشرق ومغرب اللہ کے لیے ہیں اوروہ جس کو چاہتاہے صراطِ مستقیم پرچلادیتاہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اہلِ کتاب کے پختہ علم والے لوگ رسول اللہﷺ کو اس طرح پہچانتے تھے جس طرح باپ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں ‘ لیکن اس کے باوجود ان کا ایک گروہ جانتے بوجھتے ہوئے حق چھپاتا ہے۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اس کے بندوں کو اس کا ذکر کرنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں '' تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا ــ‘‘ یہ بات با لکل واضح ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمارا ذکر کرنا شروع کر دے تو ہماری کوئی مصیبت اور کوئی دکھ باقی نہیں رہ سکتا۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو مخاطب ہو کر کہا ''اے ایمان والو!صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی انسان مشکل میں ہو اس کو مصیبت سے نجات حاصل کرنے کے لیے نماز اور صبر کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی تائید، نصرت اور محبت صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتی ہے۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں؛ پس جو کوئی بھی حج اور عمر ہ کرے اس کو صفا اور مروہ کا طواف کرنا چاہیے۔اس کے بعد ان لوگوں کا ذکر کیا گیا جو اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اس کی آیات کو چھپاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ایسے لوگوں پر اللہ اور لعنت کرنے والوں کی لعنت ہو یعنی ایسے لوگ اللہ کی رحمت سے محروم رہیں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے کہا کہ حقیقی نیکی یہ ہے کہ انسان کا اللہ تعالیٰ کی ذات،یومِ حساب، تمام انبیاء اور ملائکہ پر پختہ ایمان ہو اور وہ اللہ کی رضا کے لیے اپنے مال کو خرچ کرنے والا ہو ‘نماز کو قائم کرنے والا ہو‘ زکوٰۃ کو صحیح طریقے سے ادا کرنے والا ہو‘ وعدوں کو پورا کرنے والا ہو اور تنگی اور کشادگی میں صبر کرنے والا ہو اورجس میں یہ تمام اوصاف ہوں گے وہی حقیقی متقی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قانونِ قصاص اور دیت کا ذکر کیا۔اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام، عورت کے بدلے عورت کو قتل کیا جائے گا؛ تاہم اگر کوئی اپنے بھائی کو دیت لے کر معاف کر دیتا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رخصت ہے لیکن زندگی بہر حال قصاص لینے میں ہی ہے۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کا ذکر کیا اور اللہ تعالیٰ نے مسافروں اور مریضوں کو اس بات کی رخصت دی ہے کہ اگر وہ رمضان کے روزے نہ رکھ سکیں تو وہ بعد میں کسی اور وقت اپنے روزوں کو پورا کر سکتے ہیں۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے چاند کے گھٹنے‘ بڑھنے کی غرض و غایت بتلائی کہ اس کے ذریعے اوقات اور حج کے ایام کا تعین ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے کیلنڈر کو دیکھنے کے لیے صرف آنکھوں کی ضرورت ہے۔ انسان کے پاس اگر بینائی ہو تو انسان صرف چاند کو دیکھ کر ہی وقت کا تعین کر سکتا ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حج کے آداب کا ذکر کیا کہ حج میں بے حیائی،لڑائی اور جھگڑے والی کوئی بات نہیں ہونی چاہیے اوریہ بھی کہا کہ حاجی کوزادِ راہ کی ضرورت ہے اور سب سے بہترین زاد ِراہ تقویٰ ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ بعض لوگ دعا مانگتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا میں بہترین دے جبکہ بعض لوگ‘ جو اِن کے مقابلے میں بہتر دعامانگتے ہیں‘ وہ کہتے ہیں کہ ''اے پرور دگار! ہمیں دنیا میں بھی بہترین دے اور آخرت میں بھی بہترین دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا ‘‘۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے سابقہ اُمتوں کے ان لوگوں کا بھی ذکرکیا ہے جن کو ایمان لانے کے بعد تکالیف، مصائب اور زلزلوں کو برداشت کرناپڑا۔اللہ تعالیٰ نے اہل ِایما ن کو سابقہ اُمتوں کی تکالیف سے اس لیے آگاہ فرمایا تاکہ ان کے دلوں میں یہ بات راسخ ہوجائے کہ جنت میں جاناآسان نہیں بلکہ ا س کے لیے تکالیف اورآزمائشوں کوبرداشت کرناپڑے گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا بڑا گہرا اثر لیا اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں بے مثال قربانیاں دیں۔حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حرہ کی تپتی ہوئی سرزمین پرلٹایاگیا‘تپتی ریت پر ان کی کمر کو جھلسادیاگیا۔ ان کے سینے پرسنگِ گراں رکھا گیا‘آپؓ کے سینے میں سانس تنگ ہوگیا لیکن پھر بھی آپؓ اَحد‘ اَحد کا نعرہ لگاتے رہے۔ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کوظلم کا نشانہ بنایاگیا۔ ابوجہل نے ان کے جسم کے نازک حصوں پرنیزوں کی اَنی کومارااور ستم بالائے ستم کہ آپ کی ایک ٹانگ کوایک اونٹ کے ساتھ اوردوسری ٹانگ کو دوسرے اونٹ کے ساتھ باندھاگیا۔ ایک اونٹ کوایک طرف ہانکاگیا اور دوسرے اونٹ کودوسری سمت ہانکاگیا۔حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کا وجود چرچرایااور دوٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا نے جامِ شہادت کونوش فرمالیا لیکن اللہ کی توحید سے ہٹناگوارا نہیں کیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرح ہماری بھی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لیے ہرطرح کی قربانی دینے پرآمادہ اورتیار رہیں۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے دین سے پھر جانے کے وبال کابھی ذکر کیا کہ جو شخص اپنے دین سے منحرف ہو جائے گا اور کفر کی حالت میں مرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے اعمال کو ضائع کر دیں گے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے شراب اور جوئے کے بارے میں بتلایا کہ گو اِن میں بعض فائدے والی باتیں بھی ہیں لیکن ان کے نقصانات ان کے فوائد سے زیادہ ہیں اس لیے بنی نو ع انسان کو ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ناپاکی کے ایام میں عورتوں سے اجتناب کا حکم دیا اور طلاق کے مسائل کو بھی بیان فرمایا کہ طلاق کا اختیار مرد کے پاس دو دفعہ ہوتا ہے‘ اگر وہ مختلف اوقات میں دو دفعہ طلاق دے دے تو وہ اپنی بیوی سے رجوع کر سکتا ہے لیکن اگر وہ تیسری طلاق بھی دے دے تو پھر رجوع کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
اس کے بعد اللہ نے رضاعت کی مدت کا ذکر کیا کہ عورت اپنے بچے کو دو برس تک دودھ پلاسکتی ہے۔ اس کی بعد اللہ نے بیوہ کی عدت کا ذکر کیا کہ بیوہ عورت کو چاہیے کہ چار مہینے اور دس دن تک عدت پوری کرے۔اس کے بعد اگر وہ کہیں اور نکاح کرنا چاہے تو اس کو اس کی مکمل اجازت ہے۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نمازوں کی حفاظت کا ذکر کیا کہ تمام نمازوں خصوصاًدرمیانی یعنی عصر کی نماز کی حفاظت کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ دوسرے پارے میں بیان کردہ مضامین کوسمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اوران سے حاصل ہونے والے اسباق پرعمل پیراہونے کی بھی صلاحیت عطا فرمائے۔ آمین!

سورۃ الفاتحہ: یہ ترتیب کے اعتبار سے قرآن کی سب سے پہلی سورت ہے‘ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی قرأت کو ہر نماز کی ہر رکعت میں واجب قرار دیا گیا ہے۔ یہ سورت سات آیات پر مشتمل ہے اور ایک حدیثِ قُدسی میں اسے ''صلوٰۃ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر دیا ہے‘ یعنی جب بندہ ''اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘‘ پڑھتاہے ‘تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آتی ہے کہ میرے بندے نے میری حمد بیان کی اور جب بندہ ''اَلرَّحْمَنِ الرَّحِیْم‘‘ پڑھتاہے ‘تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آتی ہے کہ میرے بندے نے میری ثنا کی اور جب بندہ ''مَالِکِ یَومِ الدِّیْن‘ ‘پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آتی ہے کہ میرے بندے نے میری عظمت وجلالت بیان کی اور جب بندہ ''اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن‘‘ پڑھتاہے‘ تو ندا آتی ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے‘ یعنی عبادت صرف میری کی جائے گی اور ہر مشکل میں مدد کے طلبگار بندے کی مدد کی جائے گی اور جب بندہ ''اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمِ‘‘ سے ''وَلَا الضَّآلِّیْن‘‘ تک پڑھتا ہے تو چونکہ یہ کلماتِ دعا ہیں اور بندہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صراطِ مستقیم پر قائم ودائم رہنے کی دعا مانگتا ہے‘ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آتی ہے کہ یہ میرے بندے کیلئے ہے اور میرے بندے نے یہ سوال کیا ہے‘ وہ اُسے عطا ہو گا‘‘۔ (صحیح مسلم: 877) سورۃ الفاتحہ کو سورۃ الدعا‘ سورۃ الشفاء‘ سورۃ الکنز‘ سورۃ الواقیہ‘ سورۃ الکافیہ‘ سورۃ الرُّقیہ اور سورۃ الحمد کے ناموں سے بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اور اس کی عظمت کا بیان ہے‘ اس امر کا بیان ہے کہ عبادت کی حق دار صرف‘ اسی کی ذات پاک ہے اور بالذات صرف اسی سے مدد طلب کی جائے‘ اس میں اللہ کی بارگاہ سے دعا والتجاکے آداب بیان کیے گئے ہیں۔
سورۃ البقرہ: سورۃ البقرہ کی دوسری آیت میں یہ بتایا گیا کہ اگر قرآن کی حقانیت کے دلائل پر کوئی ٹھنڈے دل سے غور کرے‘ تو اس پر عیاں ہو گا کہ اس کتاب میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کفار ومشرکینِ مکہ قرآن کے کلام اللہ ہونے کا انکار کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ یہ نبی کریمﷺ کا اپنا بنایا ہوا کلام ہے؛ چنانچہ سورۂ بقرہ کی آیات 22 اور 23 میں ایسے تمام معاندین اور منکرین کو چیلنج کیا گیا کہ اگر تمہیں قرآن کے کلام اللہ ہونے میں شک ہے‘ تو تم سب مل کر اس جیسا کلام بنا کر لے آؤ اور تاریخ میں ایسا کوئی حوالہ نہیں ہے کہ قرآن کے اس چیلنج کو قبول کیا گیا ہو۔آیت3 تا 5 میں مومنین کی صفات‘ ایمان بالغیب‘ اقامتِ صلوٰۃ‘ انفاق فی سبیل اللہ‘ کتبِ الٰہیہ پر ایمان اور آخرت پر ایمان کا ذکر ہے۔ آیت 5 اور 6 میں ان لوگوں کا ذکر ہے جن کا کفر ظاہر و عیاں ہے اور وہ اپنی سرکشی میں اس حد تک آگے جا چکے ہیں کہ اب ان کا ہدایت پانا عملاً ناممکن ہے اور اُن پر ابدی شقاوت اور بدبختی کی مہر لگ چکی ہے۔ آیت 8 تا 20 میں منافقین کا ذکر ہے‘ یہ انسانیت کا وہ طبقہ ہے جن کے ظاہر وباطن میں تضاد ہے‘ دنیوی مفاد کیلئے ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن دل ایمان سے خالی ہیں۔ آیت 21 اور 22 میں توحید کی دعوت اور شرک سے باز رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مختلف نعمتوں کا ذکر کر کے بتایا گیا کہ نعمتیں عطا کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے‘ وہی حیات دینے والا ہے اور وہی موت دینے والا ہے اور آخر کار سب کو اسی کی عدالت میں جانا ہے۔ آیت 30 تا 39 میں ہے کہ فرشتوں کے سامنے اﷲ تعالیٰ نے اعلان فرمایا کہ میں آدم کو زمین میں اپنا خلیفہ بنا رہا ہوں‘ فرشتوں نے اپنی فہم کے مطابق‘ بارگاہِ الٰہی میں یہ عرض کیا کہ بنی آدم زمین میں فساد و خون ریزی کریں گے اور اے اﷲ! ہم ہمہ وقت تیری تسبیح و تقدیس میں مشغول رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں جن اَسرار اور حکمتوں کو جانتا ہوں‘ تم نہیں جانتے اور پھر نعمتِ علم کے ذریعے آدم علیہ السلام کی فضیلت اور برتری کو فرشتوں پر ثابت کیا‘ پھر فرشتوں کو حکم ہوا کہ آدم کو سجدہ کرو اور ابلیس لعین کے سوا تمام ملائک نے حکمِ ربّانی کی بلا چون و چِرا تعمیل کی۔ یہ سجدہ عبادت کا نہیں تھا بلکہ ''سجدۂ تعظیمی‘‘ تھا، پھر آدم و حوا علیہما السلام کے جنت میں داخل کرنے اور وہاں اُن کیلئے اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتوں سے استفادے کی اجازت کے ساتھ ساتھ ایک درخت کے قریب نہ جانے کی پابندی کا ذکر ہے۔ اسی کے ساتھ ابلیسِ لعین کے آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے‘ حضرت آدم وحوا علیہما السلام کو بہکانے اور جنت سے نکالے جانے کا ذکر ہے اور پھر آدم علیہ السلام کو توبہ کے کلمات اِلقا کیے جانے‘ ان کلمات سے ان کی توبہ اور توبہ کی قبولیت کا ذکر ہے۔ یہ کلماتِ توبہ سورۂ اعراف‘ آیت 23 میں مذکور ہیں‘ جن کا ترجمہ یہ ہے ''اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی‘ پس اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ فرمائے‘ تو ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے‘‘۔
اس کے بعد بنی اسرائیل اور اُن کی طرح طرح کی عہد شکنیوں‘ اُن پر مختلف انعامات اور اُن کی سرکشی کے مختلف انداز بیان کیے ہیں۔ پہلے تواللہ تعالیٰ نے ان پر نازل کی گئی اپنی کئی نعمتوں کا ذکر فرمایا جو یہ ہیں: فرعون اور فرعونیوں کے تسلُّط اور نسل کشی سے نجات دلانا‘ ان کیلئے سمندر کو پاٹ کر وادیٔ سینا میں پہنچانا‘ وادیٔ سینا میں اُن پر طویل عرصے تک بادلوں کا سایہ فِگن ہونا‘ مَنّ وسَلویٰ کی صورت میں تیار خوانِ نعمت کا نازل کرنا‘ چٹان پر عصائے موسیٰ کی ضرب سے بارہ قبیلوں کیلئے بارہ چشموں کا جاری ہونا‘ گائے ذبح کرکے اس کے مقتول پر لَمس سے قاتل کا پتا چلانا‘ ان کو اپنے عہد کے لوگوں پر فضیلت دینا‘ بنی اسرائیل میں بکثرت انبیائے کرام کی بعثت وغیرہ‘ پھراس کے بعد اُن کی سرکشی کا تفصیلی بیان ہوا جس کی تفصیل یہ ہے: اﷲ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد وپیمان کو توڑنا‘ ان کے علماء کے قول و فعل کا تضاد‘ دنیاوی مال کی لالچ میں بااثر لوگوں کیلئے اَحکامِ الٰہی میں ردّ وبدل کرنا یا اَحکامِ الٰہی کو جان بوجھ کر چھپانا‘ موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر گئے توان کی عدم موجودگی میں بچھڑے کی پوجا کرنا‘ من وسلویٰ کی گراں قدر اور تیار سَماوی نعمت کو ٹھکرا کر زمینی اجناس طلب کرنا‘ انبیاء کو ناحق قتل کرنا‘ سَبت (ہفتہ) کے دن کی حرمت کو پامال کرنا‘ گائے ذبح کرنے کے سیدھے سادے حکم کو ماننے کے بجائے اس کے بارے میں کئی سوالات اٹھانا‘ تورات وانجیل میں سیدنا محمد رسول کریمﷺ کے بارے میں بیان کی گئی بشارتوں کو چھپانا‘ شوہر اور بیوی میں تفریق کیلئے جادو سیکھنا اور اس کا استعمال‘ اِشارات و کنایا ت اور لفظی رد وبدل کے ذریعے رسول اللہﷺ کی شان میں اہانت کرنا وغیرہ؛ چنانچہ آیت 104 میں واضح ارشاد ہوا کہ ''اے اہلِ ایمان! (جب تمہیں نبی کی کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو دوبارہ بیان کیلئے) ''رَاعِنَا‘‘ (یعنی ہماری رعایت کیجئے) نہ کہو (کیونکہ اسے یہود اور منافقین اہانت کے معنی میں بھی استعمال کرتے ہیں‘ لہٰذا یوں کہو کہ) یا رسول اللہ! ہم پر توجہ فرمائیے اور ( اس سے بھی زیادہ ادب کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے ہی نبی کی بات کو) خوب توجہ سے سنو‘‘۔ یعنی مومنوں کو رسول کریمﷺ کی شان میں ایسا کلمہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے جس کو کوئی بدفطرت شخص اشارۃً‘ کنایۃً یا صراحۃً اہانت کے معنی میں استعمال کر سکتا ہو۔ پھر بتایا گیا کہ بچھڑے کی پرستش کے جرم کی توبہ اِس طرح قبول ہوئی کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ایک دوسرے کو قتل کیا‘ ان کی صورتوں کو مسخ کرکے انہیں ذلیل بندر کی شکل دے دی گئی اور پھر وہ موت سے ہمکنار ہوئے۔
بنی اسرائیل جبرئیل ؑ سے اس لیے عداوت رکھتے تھے کہ ان کے ذریعے بنی اسرائیل پر اللہ کا عذاب نازل ہوا‘ تو اللہ نے فرمایا کہ جبرئیل و میکائیل اللہ تعالیٰ ہی کے احکام کو نازل کرتے ہیں‘ پس جو ان کا دشمن ہے‘ وہ اللہ کا دشمن ہے۔ بنی اسرائیل کی اس خوش فہمی کو بھی رَد کیا گیا کہ وہ کسی استحقاق کے بغیر اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں۔ اہلِ ایمان کو یہ بتایا گیاکہ جب تک تم یہود ونصاریٰ کی خواہشات کی پیروی نہ کرلو ‘وہ تم سے راضی نہیں ہو سکتے۔ آیت 123 اور اس کے بعد کی آیات میں حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کے منصبِ امامت پر فائز کیے جانے کا تذکرہ ہے۔ حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کے بیت اللہ کو تعمیر کرنے کاذکر ہے اوراس امر کا بیان ہے کہ تعمیر ِ بیت اللہ کے بعد انہوں نے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعا کی: اے ہمارے رب اِن (اہلِ مکہ) میں‘ انہی میں ایک عظیم رسول کو مبعوث فرما‘ جو ان لوگوں پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور ان کو کتاب وحکمت کی تعلیم دے۔ اسی لئے رسولﷺ فرماتے تھے کہ میں حضرت عیسیٰؑ کی بشارت اور حضرت ابراہیمؑ کی دعا کا ثمر ہوں۔ اس کے بعد اس سورت میں اولادِ ابراہیم حضرت اسماعیل‘ حضرتِ اسحاق ‘ حضرت یعقوب اور ان کی اولاد حضرت موسیٰ وعیسیٰ اور اجمالی طور پر دیگر انبیائِ کرام علیہم السلام کا ذکر ہے اور یہ بھی کہ اہلِ ایمان سب انبیاء پر ایمان لاتے ہیں اور ایمان کے لانے میں رسولوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے اور یہ بھی کہ سب کے سب پیغمبر ایک ہی دینِ اسلام کے علمبردار اور داعی تھے۔

پہلے پارے کا آغاز سورۂ فاتحہ سے ہوتا ہے۔ اس سورہ کو اُمّ الکتاببھی کہا جاتا ہے۔ حدیث پاک کے مطابق‘ سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے تمام امراض کی شفا رکھی ہے۔ سورۂ فاتحہ کا آغاز بسم اللہ سے ہوتا ہے۔ بسم اللہ کی تلاوت کے ذریعے اس بات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ ہم ہر کام کا آغاز اللہ تعالیٰ کے بابرکت نام کے ساتھ کرتے ہیں‘ جو نہایت مہربان اور بہت رحم فرمانے والا ہے۔ بسم اللہ کے بعد سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد اور ثناء کا بیان ہے کہ تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں جو مہربان اور بہت زیادہ رحم فرمانے والا ہے۔ اس کے بعد اس بات کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ یومِ جزا کا مالک ہے۔ یومِ جزا ایک ایسا دن ہے‘ جس میں جزا اور سزا کا صحیح اور حقیقی فیصلہ ہوگا۔ ہر ظالم‘ کافر اور غاصب کو اپنے کیے کا جواب دینا پڑے گا۔ اس کے بعد سورۂ فاتحہ میں اس عقیدے کا اظہار کیا گیا ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرنے والے اور تجھ ہی سے مدد مانگنے والے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے سیدھے راستے کی طلب کی گئی ہے جو کہ ان لوگوں کا راستہ ہے‘ جن پر اللہ کا انعام ہوا اور ان لوگوں کا راستہ نہیں‘ جو اللہ کے غضب کا نشانہ بنے یا گمراہ ہوئے۔
سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ بقرہ ہے۔ سورۃالبقرہ کے آغاز میں تین گروہوں کا ذکر کیا گیا؛ ایک ایمان والوں کا گروہ‘ جن کا اللہ‘ یومِ حساب‘ قرآن مجید اور سابقہ کتب پر ایمان ہے اور جو نمازوں کو قائم کرنے والے اور زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں۔ دوسرا کافروں کا گروہ ہے‘ جو کسی بھی طور پر ایمان اور اسلام کے راستے کو اختیار کرنے پر تیار نہیں۔ تیسرا گروہ منافقین کا ہے‘ جو بظاہر تو ایمان کا دعویدار ہے‘ لیکن ان کے دِلوں میں کفر چھپا ہوا ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں ان کو چاہیے کہ قرآن کی کسی سورت جیسی کوئی سورت بنا کر لے آئیں؛ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو انہیں چاہیے کہ اس آگ سے ڈر جائیں جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالی نے انسانوں کے جدِ امجد جناب آدم علیہ السلام کی پیدائش کا ذکر کیا ہے۔ آدم علیہ السلام کی پیدائش کاواقعہ ان تمام سوالوں کا جواب پیش کرتا ہے کہ انسان کی پیدائش کب‘ کیوں اور کیسے ہوئی۔ انسانوں کی تخلیق سے قبل زمین پر جنات آباد تھے‘ جنہوں نے زمین پر سرکشی اور بغاوت کی‘ جسے کچلنے کے لیے اللہ تعالی نے فرشتوں کی ایک جماعت کو کہ جس میں ابلیس (عزازیل) بھی شامل تھا‘ روانہ کیا۔ ابلیس؛ اگرچہ گروہِ جنات سے تھا‘ لیکن مسلسل بندگی کی وجہ سے وہ فرشتوں کی جماعت میں شامل ہوگیا تھا۔ اس بغاوت کوکچلنے کے بعد ابلیس کے دل میں ایک خفیہ تکبرکی کیفیت پیدا ہو گئی جس سے اللہ علیم و قدیر پوری طرح آگاہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر انسانوں کی تخلیق کا فیصلہ فرمایا اور فرشتوں سے مخاطب ہو کرکہا: میں زمین پر ایک خلیفہ پیدا کرنے والا ہوں۔ فرشتے اس سے قبل زمین پر جنات کی یورش دیکھ چکے تھے؛ چنانچہ انہوں نے کہا: اے اللہ! تُو زمین پر اُسے پیدا کرے گا‘ جو خون بہائے گا اور فساد پھیلائے گا‘ جبکہ ہم تیری تعریف اور تقدیس میں مشغول رہتے ہیں۔ اللہ نے کہا: جو میں جانتا ہوں‘ تم نہیں جانتے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنانے کے بعد ان کو علم کی دولت سے بہرہ ور فرمایا اور ان کو اشیا کے ناموں سے آگاہ کر دیا۔ اس کے بعد فرشتوں اور آدم علیہ السلام کو جمع کر کے بعض اشیا کے ناموں کے بارے میں ان سے سوالات کیے‘ چونکہ فرشتے ان اشیا سے بے خبر تھے‘ اس لیے انہوں نے اللہ عزوجل کی پاکیزگی کا اعتراف اور اپنی عاجزی کا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو ان اشیا کا نام بتلانے کا حکم دیا تو انہوں نے ان اشیا کے نام فوراً بتلا دیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرشتوں کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ میں زمین و آسمان کی پوشیدہ باتوں کو جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور چھپاتے ہو‘ اس کو بھی جانتا ہوں۔ جب آدم علیہ السلام کی فضیلت ظاہر ہو گئی‘ تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم علیہ السلام کے سامنے جھک جائیں۔ فرشتوں میں چونکہ سرکشی نہیں ہوتی‘ اس لیے تمام فرشتے آدم علیہ السلام کے سامنے جھک گئے؛ تاہم ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس تکبر پر اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو ذلیل و خوار کر کے اپنی رحمت سے دُور فرما دیا اور آدم علیہ السلام کو ان کی اہلیہ کے ساتھ جنت میں آباد فرمایا۔ ابلیس نے اس موقع پر اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ رہتی دنیا تک آدم علیہ السلام اور ان کی ذُریت کو راہِ ہدایت سے بھٹکانے کے لیے سرگرم رہے گا۔
جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو جنت میں آباد فرمایا تو ان کو ہر چیز کھانے پینے کی اجازت دی ‘مگر ایک مخصوص درخت کے قریب جانے اور اس کا پھل کھانے سے روک دیا۔ ابلیس جو کہ آتشِ انتقام میں جل رہا تھا‘ اس نے آدم علیہ السلام اور جناب حوا علیہا السلام کے دل میں وسوسہ ڈالا کہ آپ کو شجرِ ممنوعہ سے اس لیے روکا گیا ہے کہ کہیں آپ کو ہمیشہ کی زندگی حاصل نہ ہو جائے۔ آدم اور ان کی اہلیہ حوا علیہما السلام اس وسوسے میں مبتلا ہو کر شجرِ ممنوعہ کے پھل کو کھا لیتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ اس پر خفگی کا اظہار فرماتے ہیں اور ان سے لباسِ جنت اور جنت کی نعمتوں کو چھین لیتے ہیں اور ان کو جنت سے زمین پر اُتار دیتے ہیں۔ آدم علیہ السلام اور حوا علیہا السلام جب معاملے پر غور کرتے ہیں تو انتہائی نادم ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آ کر دُعا مانگتے ہیں۔ ''اے ہمارے پروردِگار! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم یقینا خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے‘‘۔ آدم علیہ السلام اور حوا علیہا السلام جب اللہ کی بارگاہ میں فریاد کرتے ہیں تو اللہ ان کی خطا کو معاف فرما دیتے ہیں اور ساتھ ہی اس امر کا بھی اعلان کر دیتے ہیں کہ زمین پر رہو‘ میں تمہارے پاس اپنی طرف سے ہدایت بھیجوں گا۔ پس‘ جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا‘ نہ اس کو غم ہو گا‘ نہ خوف۔
اس پارہ میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر اپنے احسانات اور انعامات کا ذکر بھی کیا ہے اور ان کی نافرمانیوں اور ناشکریوں کا بھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انہوں نے بنی اسرائیل پر من و سلویٰ کو نازل فرمایا، ان کو رزق کی تگ ودو کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان پر بادلوں کو سایہ فگن فرما دیا اور ان کو دھوپ سے محفوظ فرما دیا۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے بارہ چشموں کو جاری فرمایا لیکن ان تمام نعمتوں کو حاصل کرنے کے بعد بھی وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور نا شکری کرتے رہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کے واقعے کا بھی ذکرکیا کہ انہوں نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ہمراہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لیے اللہ تعالیٰ کے گھر (خانہ کعبہ) کو تعمیر فرمایا۔ تعمیر فرمانے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعامانگی: اے باری تعالیٰ! ہمارے عمل کو قبول فرما‘ بے شک تو سننے اور جاننے والا ہے۔ آ پ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعا بھی مانگی: ''اے اللہ! اہلِ حرم کی رہنمائی کے لیے ایک ایسا رسول بھی مبعوث فرمایا جو ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم د ے اور ان کو پاک کرے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو قبول فرما کرجناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ دُعا ہے کہ اللہ ہمیں پہلے پارے کے مضامین کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے، آمین!