مفتی منیب الرحمٰن


تیسویں پارے کے اہم مضامین
سورۃ النباء: ''نبا‘‘ خبر کو کہتے ہیں۔ سورت کے شروع میں فرمایا کہ لوگ ایک عظیم خبر کے متعلق‘ جس کے بارے میں یہ باہم اختلاف کر رہے ہیں‘ ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں‘ یعنی قیامت‘ اس کے وقوع اور حق ہونے کے بارے میں کچھ لوگوں کو اختلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: عنقریب قیامت برپا ہوگی تو انہیں معلوم ہو جائے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فیصلے کے دن کا وقت مقرر ہے اور پھر علاماتِ قیامت کا بیان فرمایا۔ اس کے بعد جہنمیوں کے لیے عذاب اور اہلِ تقویٰ کیلئے انعامات کا بیان ہوا۔ سورۃ النازعات میں بتایا کہ موت کے فرشتے جہنمیوں کی روح نہایت سختی سے نکالتے ہیں اور اہلِ ایمان کی روح کو نہایت نرمی سے‘ اس کے بعد فرشتوں کا ذکر ہے کہ جنہیں کارخانۂ قدرت کے معاملات کی تدبیر تفویض کی جاتی ہے‘ پھر اس امر کا بیان ہے کہ فرعون نے اپنے آپ کو ''ربِ اعلیٰ‘‘ قرار دیا‘ یعنی خدائی کا دعویٰ کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے عذاب دے کر درسِ عبرت بنا دیا۔ اس سورت میں حیات بعد الموت کے منکرین کے اس اشکال کا جواب دیا کہ ایک بار مر جانے کے بعد دوبارہ کون زندہ کرے گا؟ اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کی تخلیق کا حوالہ دے کر فرمایا کہ دوبارہ پیدا کرنا دشوار ہے یا اتنے بڑے نظامِ کائنات کو جو تمہارے سامنے ہے‘ قائم کرنا؟ سورۃ التکویر میں بھی علاماتِ قیامت کا ذکر ہے کہ سورج کی بساطِ نور کو لپیٹ دیا جائے گا‘ ستارے جھڑ جائیں گے‘ پہاڑ چلائے جائیں گے‘ دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں بے کار چھوڑ دی جائیں گی‘ وحشی جانور جمع کیے جائیں گے‘ سمندر بھڑکائے جائیں گے‘ جانیں ایک بار پھر جسموں سے ملا دی جائیں گی‘ اعمال کے صحیفے پھیلا دیے جائیں گے‘ دوزخ بھڑکائی جائے گی‘ جنت قریب کر دی جائے گی اور ہر شخص جان لے گا کہ اس نے اپنی آخرت کیلئے کیا ذخیرہ عمل آگے بھیجا ہے۔ اس کے بعد سورۃ الانفطار میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر بندے کے نامۂ اعمال کو لکھنے کیلئے فرشتے مقرر کر رکھے ہیں‘ جنہیں ''کراماً کاتبین‘‘ (معزز لکھنے والے) کہا گیا ہے اور بندہ جو بھی عمل کرتاہے‘ وہ جانتے ہیں ۔ سورۃ المطففین: ''تطفیف‘‘ کے معنی ناپ تول میں کمی کرنے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ناپ تول میں کمی کرنے والوں کیلئے شدید عذاب ہے کہ جب وہ لوگ دوسروں سے لیتے ہیں تو پورا پورا ناپ کر لیتے ہیں اور جب دوسروں کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کمی کر دیتے ہیں‘ یعنی ڈنڈی مار تے ہیں۔ فرمایا کہ کافروں کا نامۂ اعمال ''سجین‘‘ میں ہے جو مہر لگایا ہوا صحیفہ ہے۔ نیکوکاروں کا صحیفۂ اعمال ''علیین‘‘ میں ہو گا‘ یہ بھی ایک مہر بند صحیفہ ہے جس پر اللہ کے مقرب بندے گواہ ہیں۔ سورۃ الانشقاق میں بھی آثار واحوالِ قیامت کا بیان ہے اور یہ کہ قیامت کے دن جس کا صحیفۂ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا‘ اُس کا اخروی حساب بہت آسان ہو گا اور وہ اپنے اہل کی طرف خوشی خوشی لوٹے گا اور جس کا نامۂ اعمال پیٹھ پیچھے سے دیا جائے گا‘ وہ کہے گا: کاش کہ مجھے موت آ جائے اور اسے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونک دیا جائے گا۔ سورۃ البروج میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اللہ عزیز و حمید پر ایمان لانے کی پاداش میں ''اصحابِ اخدود‘‘ (خندقوں والے) کو اس طرح قتل کیا گیا کہ انہیں بھڑکتی آگ میں ڈال دیا گیا‘ ان اہلِ حق کی تفصیلات کتبِ تفسیر میں موجود ہیں۔
سورۃ الطارق میں انسان کو اس کے مادۂ تخلیق اور کیفیتِ تخلیق کی جانب متوجہ فرمایا اور فرمایا: جس دن چھپی باتیں ظاہر کر دی جائیں گی‘ اس وقت اللہ کے سوا نہ کوئی مدد گار ہوگا اور نہ کسی کے پاس طاقت ہو گی۔ سورۃ الاعلیٰ کے آخر میں فرمایا؛ جس نے اپنا باطن صاف کرلیا اور اپنے رب کا نام لے کر نماز پڑھی وہ کامیاب ہوا۔ سورۃ الغاشیہ کے شروع میں ان لوگوں کے انجام کا ذکر ہے‘ جو آخرت میں عذاب سے دوچار ہوں گے‘ اس کے بعد ان خوش نصیب مومنوں کا ذکر ہے جنہیں اخروی نعمتوں سے سرفراز کیا جائے گا اور پھر اللہ تعالیٰ کی شانِ تخلیق کا ذکر ہے۔ سورۃ الفجر میں قومِ عاد‘ ثمود اور فرعون کا ذکر ہے‘ ان اقوام نے طاقت کے زعم میں آکر سرکشی اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب کے کوڑے برسائے‘ پھر فرمایا کہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے‘ ایک دوسرے کو یتیم کے کھلانے کی ترغیب نہیں دیتے‘ وراثت میں ملا ہوا سارے کا سارا مال ہڑپ کر جاتے ہو‘ تمہیں مال سے بے پناہ محبت ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ آخرت میں اس مال کی ناپائیداری کا احساس ہوگا‘ انسان پچھتائے گا مگر یہ پچھتاوا کچھ کام نہیں آئے گا۔ آخری آیت میں فرمایا کہ ''نفسِ مطمئنہ‘‘ یعنی اعلیٰ درجے کے ایمان کے حاملین کا وفات کے وقت اعزاز واکرام کے ساتھ استقبال کیا جائے گا۔ سورۃ البلد میں فرمایا کہ ہم نے انسان کو دیکھنے کیلئے دو آنکھیں‘ بولنے کیلئے زبان اور دو ہونٹ عطا کیے اور نیکی اور بدی کا شعور عطا کیا۔ سورۃ اللیل میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان کی جدوجہد دو مختلف سمتوں میں جاری رہتی ہے‘ ایک طبقہ وہ ہے کہ اللہ کے عطا کردہ مال میں سے اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے ‘ تقویٰ پر کاربند رہتا ہے اور نیک باتوں کی تصدیق کرتا ہے تو ہم اس کیلئے آسانی‘ یعنی جنت تک رسائی کی منزل آسان کر دیں گے۔ دوسرا طبقہ وہ ہے کہ جو اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے بخل کی وجہ سے خرچ نہیں کرتا‘ وہ دولت کی فراوانی میں مست ہوکر اللہ سے بے پروا ہو جاتا ہے اور نیک باتوں کو جھٹلاتا ہے تو اس کیلئے ہم مشکل منزل یعنی دوزخ کا راستہ آسان کر دیتے ہیں۔ سورۃ الضحیٰ سیدالمرسلینﷺ کی عظمت کو بیان کر رہی ہے۔ اللہ عزوجل نے فرمایا کہ اے رسولِ مکرمﷺ! آپ کے رب نے نہ آپ کو چھوڑا ہے‘ نہ آپ سے وہ ناراض ہوا ہے‘ آپ کی ہر آنے والی ساعت آپ کی پہلی ساعت سے بہترہو گی اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔
سورۃ الانشراح میں رسولﷺ کے شرحِ صدر کا ذکر ہے۔ اِس میں ایک آیت رفعتِ شانِ مصطفیﷺ کیلئے غیر معمولی عطائے ربانی ہے کہ اللہ نے فرمایا ''اور ہم نے آپ کے لیے آپ کا ذکر بلند کر دیا ہے‘‘۔ سورۃ التین میں فرمایا ''بے شک ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیا اور پھر اُس کو سب سے نچلے طبقے میں لوٹا دیا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں تقرب اور عِزّو شرف کامدار انسان کی ظاہری صورت پر نہیں بلکہ ایمان و عمل پر ہے۔ سورۃ العلق کی پہلی پانچ آیات وہ پہلی وحیٔ ربانی ہے‘ جو غارِ حرامیں سید المرسلینﷺ پر نازل ہوئی اور آپﷺ کی نبوت کا اعلان ہوا۔ سورۃ القدر شبِ قدر کی فضیلت میں نازل ہوئی۔ اسے ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا۔ شبِ قدر کو قطعیت کے ساتھ متعین نہیں فرمایا تاکہ بندوں کے ذوق اور خیر کی جستجو کا امتحان ہو۔ سورہ زلزال میں قیامت کا منظر بیان کیاگیا کہ زمین کے سینے میں جو بھی راز چھپے ہیں‘ وہ سارے اگل دے گی یا جو بھی میتیں مدفون ہیں‘ اُنہیں نکال باہر کرے گی اور ہر ایک اپنی معمولی سے معمولی نیکی یا بدی کا انجام دیکھ لے گا۔ سورۃ العادیات میں اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کے گھوڑوں کی مختلف کیفیات کو قسم کے ساتھ بیان فرمایا۔ سورۂ تکاثر میں بتایا کہ زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کی خواہش نے انسان کو اللہ سے غافل کر دیا مگر جب قبروں میں پہنچیں گے تو اس کا انجام معلوم ہوجائے گا۔ سورۃ العصر میں بتایا کہ انسان خسارے میں ہے اور اس سے نکلنے کی صورت صرف یہی ہے کہ ایمان لائیں، عملِ صالح کریں اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی وصیت کریں۔ سورۃ الھمزہ میں اللہ تعالیٰ نے طعنہ زنی اور عیب جوئی کی شدید مذمت فرمائی اور بتایا کہ ایسے لوگوں کا انجام اللہ کی بھڑکائی ہوئی ایسی آگ ہے جو چورا چورا کر دے گی۔ سورۃ الماعون میں اللہ تعالیٰ نے یتیم کے ساتھ ناروا سلوک اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہ دینے جیسے مذموم عمل کو قیامت کے جھٹلانے سے تعبیر کیا اور نمازوں میں ریاکاری کی مذمت بیان فرمائی ۔ سورۃ الکوثرمیں اللہ عزوجل کی جانب سے رسول اللہﷺ کو کوثر عطاکیے جانے کا ذکر ہے، اس سے مراد خیرِ کثیر ہے‘ جس کا ایک حصہ حوضِ کوثر بھی ہے جہاں محشر میں رسول اللہﷺ اہلِ ایمان کو سیراب کریں گے۔ سورۃ الکافرون میں یہ پیغام دیاگیا کہ حق اور باطل میں کوئی مفاہمت نہیں ہو سکتی۔ سورۃ النصر میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت سے اسلام کی فتح کو اپنی نعمت کے طور پر بیان کیا۔ سورۃ الاخلاص میں اللہ تعالیٰ کی توحیدِ خالص کا بیان ہے کہ وہ بے نیاز ہے، ابنیت اور اُبوّت کی نسبت سے پاک ہے اور اُس کاکوئی ہمسر نہیں۔ سورۃ الفلق اور سورۃ الناس میں اللہ تعالیٰ نے تعلیم فرمائی کہ اس کی مخلوق کے شر، ہر قسم کی ظلمت کے شر، جادوگروں کے شر، حاسدین کے شر، چھپ کر وسوسے ڈالنے والوں کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی جائے اور بتایا کہ انسانوں کو بہکانے والے، وسوسے اور توہمات میں ڈالنے والے جن بھی ہوتے ہیں اور انسان بھی۔ رسول اللہﷺ کا معمول تھاکہ آپ صبح و شام ان آخری تین سورتوں کی تلاوت فرماکر اپنے ہاتھوں پر دَم فرماتے اور پھر ہاتھوں کو اپنے سر اور چہرۂ مبارک اور پورے بدنِ مبارک پر پھیر دیتے اور یہ عمل آپ تین مرتبہ فرماتے۔