مفتی منیب الرحمٰن


سورۃ الملک : حدیث پاک میں سورۃ الملک کے بڑے فضائل بیان کیے گئے ہیں‘ اسے ''المنجیہ‘‘ (نجات دینے والی) اور ''الواقیاہ‘‘ (حفاظت کرنے والی) کہا گیا‘ اس سورۂ مبارکہ کی تلاوت عذابِ قبر میں تخفیف اور نجات کا باعث ہے‘ اس کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے موت وحیات کی حکمت بیان فرمائی کہ اس کا مقصد بندوں کی آزمائش ہے کہ کون عمل کے میزان پر سب سے بہتر ثابت ہوتا ہے۔ اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اوپر تلے سات آسمانوں کی تخلیق کو اپنی قدرت کی نشانی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کی تخلیق میں تمہیں کوئی عیب یا نقص نظر نہیں آئے گا‘ ایک بار پھر نظر پلٹ کر دیکھ لو‘ کیا اس میں تمہیں کوئی شگاف نظر آتا ہے‘ پھر بار بار نظر اٹھا کر دیکھ لو (اللہ کی تخلیق میں کوئی عیب یا جھول تلاش کرنے میں) تمہاری نظر تھک ہار کر ناکام پلٹ آئے گی۔ آسمانِ اول کے نیچے لاتعداد چمکتے تاروں کو اللہ نے قمقموں سے تعبیر فرمایا۔
سورۃ القلم :اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے قلم اور کارکنانِ قضا وقدر کے نوشتوں کی قسم فرما کر کفار کے الزامات سے اپنے رسولِ مکرمﷺ کا دفاع فرمایا کہ اپنے رب کے فضل سے آپ مجنون نہیں ہیں اور آپﷺ کیلئے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے اور آپﷺ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں‘ عنقریب آپ دیکھ لیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ حقیقت میں کون مجنون تھا۔ عام اصول یہ ہے کہ جس پر الزام ہو‘ وہ اپنی صفائی پیش کرتا ہے‘ لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ اعزاز عطا فرمایا کہ آپﷺ پر کفار ومشرکین کی جانب سے جو الزام لگائے جاتے رہے‘ اللہ تعالیٰ نے آیاتِ قرآنی میں ان کا ردّ فرمایا۔
سورۃ الحاقہ : اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں قیامت کے حق اور یقینی ہونے کو بیان کیا گیا ہے‘ پھر قومِ ثمود و عاد اور فرعون پر نازل ہونے والے عذاب کا ذکر ہے۔ آیت 19سے بتایا کہ قیامت میں جس کا نامۂ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا‘ یہ اس کے سرخرو ہونے کی علامت ہو گی اور وہ افتخار کے ساتھ لوگوں سے کہے گا: آؤ میرا نامۂ اعمال پڑھو۔ اس کے برعکس جس کا نامۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا‘ یہ اس کی رسوائی کی علامت ہو گی اور وہ کہے گا کہ کاش مجھے میرا نامۂ اعمال دیا ہی نہ جاتا اور موت کے ساتھ ہی میرا قصہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکا ہوتا۔ انہی آیات میں صالحین کے لیے جنت کی نعمتیں اور منکرین کے لیے اخروی عذاب کا بیان ہے۔
سورۃ المعارج : اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں عذابِ قیامت کے بارے میں ایک بار پھر بیان ہے کہ حشر کا ایک دن پچاس ہزار سال کے برابر ہو گا‘ آسمان پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوجائے گا‘ پہاڑ دُھنکی ہوئی رنگین اون کی طرح ہو جائیں گے اور کوئی کسی کا پرسانِ حال نہ ہو گا‘ اس وقت مجرم یہ تمنا کرے گا کہ بیوی‘ بھائی اور رشتے دار‘ سب کو اپنا فدیہ دے کر اپنی جان چھڑا لے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اہلِ حق‘ ان کی اعلیٰ صفات اور اُخروی جزا کا بیان ہے۔ اس امر کا بھی بیان ہے کہ قرآن نہ کسی شاعر کا بیان ہے اور نہ کسی کاہن کا کلام‘ یہ صرف اور صرف اللہ کا کلام ہے۔
سورۂ نوح : حضرت نوح علیہ السلام اللہ کی بارگاہ میں فریاد کرتے ہیں کہ میں نے اپنی قوم کو شب و روز دعوتِ حق دی مگر ان کی سرکشی میں اضافہ ہی ہوتا رہا اور جب بھی میں انہیں دعوتِ حق دیتا تو وہ قبولِ حق سے انکار کے لیے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے اور ضد اور تکبر میں اپنے آپ کو کپڑوں سے ڈھانپ لیتے۔ جب نوح علیہ السلام جماعتِ انبیاء میں طویل ترین عرصۂ تبلیغ گزارنے کے بعد قوم کے ایمان سے مایوس ہوئے تو انہوں نے ان کیلئے دعائے عذاب کی کہ اے اللہ ان کا نام ونشان مٹا دے اور اسی موقع پر اپنے لیے‘ اپنے والدین کے لیے اور جملہ مومنین اور مومنات کے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔
سورۃ الجن : اس سورت میں اس امر کا بیان ہوا کہ جنات عالَم بالا میں خبروں کی سن گن لینے کے لیے جایا کرتے تھے‘ مگر اب وہ وقت آ گیا تھا کہ عالَم بالا میں ان کا داخلہ بند ہوگیا اور جو بھی جاتا محافظ ان کا راستہ روک لیتے اور آگ کے گولے ان پر برسائے جاتے۔ جنات نے مشورہ کیا کہ پورے روئے زمین کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ آخر یہ سارا منظر کیوں تبدیل ہوگیا‘ ضرور کوئی بڑی تبدیلی آئی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان کی ایک جماعت تہامہ (مکہ) کی طرف گئی اور وہاں نبی کریمﷺ عکاظ کے بازار میں اپنے اصحاب کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے۔ جب انہوں نے قرآن کو سنا تو کہا: یہی وہ چیز ہے جو ہمارے اور آسمان کے درمیان حائل ہو گئی ہے اور پھر انہوں نے جا کر اپنی قوم کو بتایا کہ ہم نے عجب قرآن سنا ہے جو راہِ ہدایت کی طرف رہنمائی کرتا ہے‘ ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم ہرگز اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے‘ بے شک ہمارے رب کی شان بلند ہے اور اس کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ بیٹا۔ انہوں نے کہا کہ ہم میں سے کچھ اطاعت گزار ہیں اور کچھ سرکش ہیں اور جنات کا سرکش گروہ جہنم کا ایندھن بنے گا۔
سورۃ المزمل : اس سورۂ مبارکہ میں محبت کے انداز میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو ان کی ایک خاص ادا کے ساتھ مخاطَب فرمایا کہ ''اے چادر اوڑھنے والے!‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کے ''قیام اللیل‘‘ کا بیان فرمایا‘ قرآن کے اندازِ بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ساری ساری رات قیام فرماتے تھے‘ تو اللہ نے فرمایا: آپ رات کو نماز میں قیام کریں‘ مگر تھوڑا‘ آدھی رات یا اس سے کچھ کم کر لیں یا اس پر کچھ اضافہ کر دیں اور قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں۔ یہ بھی فرمایا کہ: رات کو اٹھنا نفس پر سخت بھاری ہے اور کلام کو درست رکھنے والا ہے۔ نیز فرمایا کہ آپﷺ اپنے رب کے نام ذکر کرتے رہیں اور سب سے منقطع ہوکر اسی کے ہو رہیں۔ دوسرے رکوع میں پھر فرمایا کہ آپ کا رب جانتاہے کہ آپ (کبھی) دو تہائی رات کے قریب قیام کرتے ہیں اور کبھی آدھی رات تک اور کبھی تہائی رات تک اور آپﷺ کے ساتھ صحابہ کی ایک جماعت بھی مصروفِ عبادت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تکرار کے ساتھ فرمایا کہ جتنا آسانی سے قرآن پڑھ سکتے ہیں‘ پڑھ لیا کریں۔ علمائے کرام نے فرمایا کہ یہ تہجد کے بارے میں ہے اور آپﷺ پر نمازِتہجد فرض یا واجب تھی۔
سورۃ المدثر : اس سورۂ مبارکہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو شانِ محبوبی کے ساتھ خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ''اے چادر لپیٹنے والے‘ اٹھئے اور لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیے اور اپنے رب کی کبریائی کا اعلان کیجئے‘‘۔ آیت 42 میں فرمایا: جہنمیوں سے پوچھا جائے گا کہ تمہارے جہنم میں جانے کا سبب کیا بنا‘ تو وہ کہیں گے ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے‘ ہم مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے اور ہم لغو کاموں میں مشغول رہتے تھے اور ہم قیامت کے دن کو جھٹلاتے تھے کہ موت سر پہ آ گئی۔
سورۃ القیامۃ: ان لوگوں کے بارے میں جو آخرت کے منکر ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے نفس لوامہ (اپنے اوپر ملامت کرنے والے نفس) کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا: کیا انسان نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ہم مرنے کے بعد اس کی ہڈیوں کو جمع نہیں کریں گے‘ کیوں نہیں‘ ہم اس بات پر بھی قادر ہیں کہ ان کی انگلیوں کے پور جیسے پہلے تھے‘ ویسے ہی بنا دیں۔ آیت 16سے فرمایا: (اے رسول!) وحیِ ربانی کو جلد یاد کرنے کے شوق میں آپ اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کیجئے‘ اس قرآن کو جمع کرنا اور آپ کی زبان پر جاری کرنا ہمارے ذمۂ کرم پر ہے‘ سو جب ہم (یعنی ہمارا بھیجا ہوا فرشتہ) پڑھ لیں تو آپ اس پڑھے ہوئے کی اتباع کریں‘ پھر اس کا (معنی) بیان کرنا بھی ہمارے ذمہ ہے۔
سورۃ الدھر: اس سورۂ مبارکہ میں انفاق فی سبیل اللہ‘ مسکین ‘ یتیم اور اسیر (قیدی) کو کھانا کھلانے کی نیکی کو اپنے بندوں کے وصفِ کمال کے طور پر بیان کیا ہے۔
سورۃ المرسلات : اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں آثارِ قیامت کا ذکر ہے اور فرمایا گیا ہے کہ اس دن قیامت کو جھٹلانے والوں کیلئے ہلاکت ہے اور آخر میں ایک بار پھر اہلِ تقویٰ کیلئے اجرِ آخرت اور اُخروی نعمتوں کی بشارت ہے۔