مفتی منیب الرحمٰن


سورۃ المجادلہ: اس سورۂ مبارکہ کا پسِ منظر یہ ہے کہ صحابیہ خولہؓ بنت ثعلبہ کے ساتھ ان کے شوہر اوسؓ بن صامت نے ظِہار کر لیا تھا۔ ظِہارکے ذریعے زمانۂ جاہلیت میں بیوی شوہر پر حرام ہو جاتی تھی۔ حضرت خولہؓ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا: پہلے میں جوان تھی‘ حسین تھی اب میری عمر ڈھل چکی ہے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں‘ انہیں شوہر کے پاس چھوڑتی ہوں تو ہلاک ہو جائیں گے اور میرے پاس کفالت کے لیے مال نہیں ہے۔ رسول اللہﷺ خاموش رہے‘ کیونکہ ابھی ظِہار کا حکم نہیں آیا تھا۔ حضرت خولہؓ رسول اللہﷺ سے بحث و تکرار کرنے لگیں کہ میرے مسئلے کا حل کیا ہے اور اللہ سے فریاد کرنے لگیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتدائی آیات میں بیان فرمایا: ''(اے رسول!) اللہ نے اس عورت کی بات سن لی‘ جو آپ سے اپنے خاوند کے بارے میں بحث کر رہی تھی اور اللہ سے شکایت کر رہی تھی اور اللہ تم دونوں کی باتیں سن رہا تھا ‘ بے شک اللہ بہت سننے والا خوب دیکھنے والا ہے‘‘؛ چنانچہ حضرت خولہؓ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے نزول کا سبب بنیں۔ ایک بار حضرت عمر فاروقؓ سواری پر آ رہے تھے کہ حضرت خولہؓ نے انہیں روک لیا اور باتیں کرنے لگیں۔ کسی نے کہا: امیر المومنین اس بڑھیا کی خاطر آپ اتنی دیر سے رکے ہوئے ہیں۔ انہوں نے فرمایا: میں زمین پر اس کی بات کیوں نہ سنوں‘ جس کی فریاد کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر سن لیا۔ اس سورۂ مبارکہ کے بعد اسلام میں ظِہار کا حکم نازل ہوا کہ جو لوگ اپنی بیویوں سے ظِہار کر لیں اور پھر رجوع کرنا چاہیں تو ان کا کفارہ بیوی سے قربت سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا ہے اور جسے اس کی استطاعت نہ ہو‘ اُس کے لیے دو مہینے کے لگاتار روزے رکھنا ہے اور جو یہ بھی نہ کر سکے تو ساٹھ مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلانا ہے۔ ظِہار یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے: ''تو مجھ پر میری ماں کی پشت کی مثل ہے‘‘ یا بیوی کے کسی عضو کو اپنی ماں کے عضو سے تشبیہ دے‘ تو اس سے ظِہار ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو صرف اتنا کہے کہ تو میری ماں ہے یا بہن ہے تو اگر چہ یہ قولِ ناپسندیدہ ہے‘ مگر اس سے کوئی چیز لازم نہیں آتی‘ یعنی اس کی بیوی حرام نہیں ہو گی۔ آیت 9 سے معصیت پر مبنی سرگوشیوں سے منع کیا گیا ہے اور آیت 10میں آدابِ مجلس بیان کیے گئے اور آخری آیت میں فرمایا کہ مومنِ صادق اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی نہیں کر سکتا ‘ خواہ وہ اس کے ماں باپ یا اولاد یا بہن بھائی یا خاندان کے لوگ ہی کیوں نہ ہوں۔
سورۃ الحشر: اس سورۂ مبارکہ کی آیت 9 میں ایک واقعے کے پسِ منظر میں بیان ہوا کہ اہلِ ایمان خود حاجت مندہونے کے باوجود ایثار و قربانی کا پیکر بن کر دوسروں کی حاجات پوری کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ آیت 10میں السابقون الاولون مہاجرین و انصار صحابۂ کرامؓ کا مدح کے انداز میں ذکر فرمانے کے بعد فرمایا کہ وہ بعد میں آنے والے اپنے سابق اہلِ ایمان بھائیوں کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور یہ آیت ایصالِ ثواب کی اصل ہے۔ آیت 21 میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کی جلالت و ہیبت کو بیان فرمایا کہ اگر ہم اس قرآن کو پہاڑ پر نازل کرتے اور (اسے عقل وشعور کی نعمت عطا کرتے تو) تو اے انسان! تُو دیکھتا کہ وہ پہاڑ (قرآن کی ہیبت سے) جھکا ہوا ہوتا اور اللہ کے خوف سے پاش پاش ہو جاتا۔ اس سورۂ مبارکہ کی آخری آیات وہ ہیں جہاں اللہ کے متعدد اسمائے صفات کو یکجا بیان کیا گیا ہے کہ صرف وہی مستحقِ عبادت ہے‘ ہر ظاہر و باطن کا جاننے والا ہے۔
سورۂ ممتحنہ: اس سورت میں اہلِ ایمان کو دشمنانِ خدا اور دشمنانِ اسلام کی دوستی سے منع کیا گیا ہے؛ البتہ یہ فرمایا کہ جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں قتال نہیں کیا اور تمہیں جلا وطن نہیں کیا تو ان سے نیکی کرنے اور انصاف کرنے سے اللہ نہیں روکتا‘ لیکن جنہوں نے دین کے معاملے میں مسلمانوں سے قتال کیا اور انہیں جلاوطن کیا یا اس سلسلے میں مسلمانوں کے دشمنوں کی مدد کی تو اللہ ان کی دوستی سے منع فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ ان سے دوستی کرنے والے ظالم ہیں۔ آیت 11 میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو فرمایا کہ اگر مومنات صحابیات آپ سے ایک طے شدہ دستور اور منشور پر بیعت کرنا چاہیں تو ان کی بیعت قبول کیجئے اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے استغفار کیجئے‘ وہ منشور یہ ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی‘ چوری نہیں کریں گی‘ زنا نہیں کریں گی‘ (افلاس کے خوف سے) اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی ‘ بے اصل بہتان طرازی نہیں کریں گی اور کسی بھی نیک کام میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی۔
سورۃ الصف: اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں قول و فعل کے تضاد سے منع کیا گیا ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے ناراض ہوتا ہے‘ جن کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ مزید فرمایا: اللہ تعالیٰ ان مجاہدین کو پسند فرماتاہے‘ جو اس کی راہ میں صف بستہ قتال کرتے ہیں‘ جیسے وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔ آیت 8 میں فرمایا کہ دشمنانِ دین چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں سے (پھونکیں مار کر) بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو پورا کرنے والا ہے‘ خواہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔
سورۃ الجمعہ: اس سورت کے شروع میں بعثتِ رسول کے مقاصد کو بیان کیا گیا‘ یعنی تلاوتِ آیاتِ الٰہی‘ تزکیۂ باطن اور کتاب و حکمت کی تعلیم۔ اس کے بعد یہود کا ذکر ہوا اور انہیں دعوت دی گئی کہ اگر تمہارا دعویٰ سچاہے کہ تمام لوگوں کو چھوڑ کر تم ہی اللہ کے دوست ہو تو‘ اگر تم اس دعوے میں سچے ہو تو موت کی تمنا کرو‘ کیونکہ مُحب اپنے محبوب سے جلد از جلد ملنا چاہتا ہے اور پھر قرآنِ مجید نے پیش گوئی کی کہ اپنے ناروا کرتوتوں کے سبب یہ کبھی موت کی تمنا نہیں کریں گے۔ اس سورۂ مبارکہ کے دوسرے رکوع میں نمازِ جمعہ کی فرضیت کا حکم نازل ہوا کہ جب نمازِ جمعہ کے لیے ندا دی جائے تو سب کام کاج چھوڑ کر نماز کے لیے دوڑے چلے آؤ اور جب نماز ادا کر چکو تو وسائلِ رزق کو تلاش کرو۔
سورۃ المنافقون: اس سورۂ مبارکہ کے دوسرے رکوع میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مال اور اولاد (کی محبت) تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دے اور فرمایا کہ ہم نے تمہیں جو مال عطا کیا ہے‘ موت سر پر آنے سے پہلے اسے دین کی راہ میں خرچ کرو‘ ورنہ فرشتۂ اجل کو دیکھ کر ہر ایک کہے گا کہ مجھے تھوڑی سی مہلتِ حیات مل جائے کہ میں صدقہ کروں اور نیکو کاروں میں سے ہو جاؤں۔
سورۃ التغابن: اس سورۂ مبارکہ میں فرمایا گیا کہ ''تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے کچھ تمہارے دشمن ہیں‘ سو ان سے ہوشیار رہو‘‘ یعنی بعض اوقات اہل وعیال کی محبت کے غلبے اور ان کی جائز و ناجائز فرمائشوں اور خواہشات کی تکمیل کیلئے انسان دین سے دور ہوجاتا ہے۔
سورۃ الطلاق: اس سورہ کے شروع میں فرمایا کہ جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دو‘ ان کی عدت کا وقت (شروع ہونے سے پہلے طُہر میں) انہیں طلاق دو‘ یعنی طلاق کے بعد عدت کا حساب رکھنا اور پورا کرنا ضروری ہے۔ قرآنِ مجید میں مختلف احوال کی مناسبت سے عدت کے احکام بیان کیے گئے ہیں کہ ایک بوڑھی عورت کی عدت تین ماہ ہے‘ عام عورت کی عدت تین حیض ہے‘ جبکہ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل تک ہے۔ قرآنِ کریم نے یہ بھی فرمایا کہ طلاقِ رجعی کی صورت میں عدت کی تکمیل سے پہلے بھلائی کے ساتھ یعنی نیک ارادے سے رجوع کر لو یا دستور کے مطابق جدا کر دو اور رجوع کی صورت میں دو گواہ مقرر کر لو۔ قرآنِ پاک نے یہ بھی حکم دیا کہ مطلقہ عورتوں کو عدت کے دوران اپنی حیثیت کے مطابق نان نفقہ دو اور انہیں تنگ نہ کرو اور اگر وہ حاملہ ہیں تو وضعِ حمل تک ان کو نان نفقہ دو اور اگر وہ وضعِ حمل کے بعد بچے کی پرورش کرنے اور دودھ پلانے پر آمادہ ہوں تو انہیں اس کی اجرت بھی دو اور یہ تمام مصارف صاحبِ حیثیت اپنی حیثیت کے مطابق ادا کرے اور تنگ دست اپنی حیثیت کے مطابق کرے۔
سورۃ التحریم: اس سورہ کے شروع میں بیان ہوا کہ رسول کریمﷺ نے بعض وجوہ سے شہد نہ کھانے کی قسم فرما لی‘ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کفارہ ادا کرکے قسم توڑ دیں۔ ازواجِ رسول کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر نبی نے تمہیں طلاق دے دی‘ تو عنقریب ان کا رب ان کو تمہارے بدلے میں تم سے بہتر بیویاں عطا کر دے گا جو فرمانبردار‘ ایمان دار‘ عبادت گزار‘ روزے دار‘ شوہر دیدہ اور کنواریاں ہوں گی۔ ظاہر ہے کہ اس کی نوبت نہیں آئی تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ازواجِ مطہرات طیبات امہات المومنین رضی اللہ عنہما نے اللہ تبارک و تعالیٰ کے رسول کو دل وجان سے راضی رکھا۔ آیت 6 میں مسلمانوں کو حکم ہوا کہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔