مفتی منیب الرحمٰن


سورہ حم السجدہ:اس پارے کی ابتدا میں بتایا کہ قیامت‘ شگوفوں سے نکلنے والے پھلوں‘ حمل اور وضع حمل کا علم اللہ ہی کی طرف لوٹایا جائے گا۔ انسان کی فطری خود غرضی کو آیت 49 میں بیان کیا کہ انسان اپنی بھلائی کی دعا مانگتے ہوئے تو کبھی نہیں تھکتا لیکن اگر اسے کبھی کوئی شر پہنچ جائے تو وہ مایوس اور ناامید ہو جاتا ہے۔ آیت 51 میں پھر فرمایا: اور جب ہم انسان پر کوئی انعام کرتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتا ہے اور پہلو بچا کر ہم سے دُور ہو جاتا ہے اور جب اس پر مصیبت آتی ہے تو لمبی چوڑی دعائیں کرنے والا ہو جاتا ہے‘ یعنی اللہ کی ذات سے وہ خود غرضی اور ذاتی منفعت پر مبنی تعلق تو قائم رکھتا ہے مگر اس کے اَحکام کو فراموش کر دیتا ہے۔ انسان کو تکلیف پہنچنے کے بعد اللہ کوئی رحمت عطا کرے تو وہ اسے انعامِ الٰہی سمجھنے کے بجائے‘ اپنا استحقاق سمجھنے لگتا ہے اور قیامت کا انکار کرنے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر قیامت آ بھی گئی تو وہاں بھی مجھے یہ سب نعمتیں حاصل ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم کافروں کو ان کے اعمالِ بد کی سخت سزا دیں گے۔
سورۃ الشورٰی: اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں ایک بار پھر اللہ تعالیٰ کی قدرت کو بیان کیا اور قیامت کا منظر بیان کرتے ہوئے فرمایا: عنقریب آسمان (اس کی ہیبت سے) اپنے اوپر پھٹ پڑیں گے‘ (یعنی آسمانوں کی شکست وریخت اوپر سے نیچے کی طرف ہو گی) اور فرشتے اس کی حمد کے ساتھ تسبیح پڑھتے رہتے ہیں اور زمین والوں کیلئے مغفرت طلب کرتے رہتے ہیں‘ سنو! بے شک اللہ ہی بہت بخشنے والا بے حد رحم فرمانے والا ہے۔ آیت 8 میں بتایا کہ اگر سب لوگوں کی جبری اطاعت‘ اللہ کی مشیت ہوتی تو وہ سب لوگوں کو ایک دین پر کاربند فرما دیتا لیکن جزا وسزا کا مَدار اختیاری اطاعت پر ہے اور جو اپنے اختیار سے اطاعت کریں گے‘ وہی رحمت کے حق دار ہوں گے۔ آیت 27 میں بتایا کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے سب بندوں کا رزق وسیع کر دیتا تو وہ ضرور زمین میں سرکشی کرتے لیکن اللہ اپنی حکمت سے جتنا چاہتا ہے روزی عطا کرتا ہے‘ بے شک وہ اپنے بندوں کے حالات سے باخبر ہے۔ آیت 36 سے بتایا: سو تم کو جو کچھ بھی دیا گیا ہے‘ وہ دنیا کی زندگی کا فائدہ ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے‘ وہ ایمان والوں کے لیے زیادہ اچھا ہے اور زیادہ باقی رہنے والا ہے اور وہ اپنے رب پر ہی توکل کرتے ہیں۔ مزید بتایا کہ مسلمانوں کے معاملات باہمی مشاورت سے طے ہوتے ہیں اور برائی کا بدلہ اس جیسی برائی ہے‘ (یعنی یہ عدل کا تقاضا ہے) لیکن ‘جس نے اپنے (قصوروار کو) معاف کر دیا‘ تو اس کا اجر اللہ کے ذمۂ کرم پر ہے۔ آیت 49 سے بتایا کہ آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کے لیے ہے‘ وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے اور جس کو چاہے بیٹیاں عطا کرے اور جسے چاہے بیٹے دے اور جسے چاہے بانجھ کر دے‘ بے شک وہ بہت علم والا ‘ قدرت والا ہے۔ مزید فرمایا: کسی بشر کی شان میں نہیں کہ وہ اللہ سے کلام کرے ‘ سوائے اس کے کہ وہ وحی فرمائے یا پردے کی اوٹ سے کلام فرمائے یا وہ کسی فرشتے کو بھیج دے کہ وہ اللہ کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کرے‘ اس سے مراد یہ ہے کہ وحی ہی اللہ سے ہم کلام ہونے کا ذریعہ ہے‘ خواہ بالمشافہ اور بالمشاہدہ بندے سے ہم کلام ہو‘ جیسا کہ معراج کی حدیث میں ہے یا اس صورت میں ہو کہ کلام تو سنائی دے‘ لیکن جلوۂ ذات دکھائی نہ دے جیسا کہ اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا۔ مزید فرمایا: اور اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے آپ کی طرف روح (قرآن) کی وحی کی ہے‘ اس سے پہلے آپ از خود یہ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا چیز ہے اور ایمان کیا ہے‘ لیکن ہم نے اس کتاب کو نور بنا دیا‘ جس سے ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہیں ہدایت دیتے ہیں اور بے شک آپ ضرور صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کتاب اللہ کا مآخذ وحیِ ربانی ہے‘ اس کا مَدار عقل و قیاس پر نہیں ہے۔
سورۃ الزخرف: اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں بتایا کہ ہر عہد کے منکرین اپنے نبی کا مذاق اڑاتے رہے‘ مگر پھر ہم نے بڑی طاقت ور قوموں کو بھی ہلاک کر دیا۔ کفار فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے؛ حالانکہ وہ اللہ کی مخلوق ہیں۔ اللہ نے فرمایا: کیا یہ لوگ ان (فرشتوں) کی پیدائش کے وقت موجود تھے؛ چنانچہ آیت 16 میں کفار کے اِس انداز کے بارے میں فرمایا: کیا اس نے مخلوق میں سے اپنے لیے بیٹیاں بنائیں اور تمہارے لیے بیٹے مختص کر دیے؛ حالانکہ ان میں سے جب کسی کو اس کی بشارت دی جائے‘ جس کے ساتھ اس نے رحمن کو متصف کیا ہے‘ (یعنی بیٹیاں) تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتاہے اور وہ غصے میں کڑھتا رہتا ہے۔ آیت31 سے کفارِ مکہ کا یہ مطالبہ بیان ہوا کہ یہ قرآن دو بستیوں مکہ اور طائف کے کسی بڑے آدمی‘ (یعنی ولید بن مغیرہ اور ابو مسعود ثقفی) پر کیوں نازل نہ کیا گیا؟ اللہ نے فرمایا: کیا آپ کے رب کی رحمت کو یہ تقسیم کرتے ہیں‘ (یعنی یہ فیصلہ تو اللہ نے کرنا ہے کہ منصبِ نبوت کسے عطا کیا جائے) ہم نے ان کی دنیاوی زندگی میں ان کی معیشت (کے وسائل) کو تقسیم کیا ہے اور ہم نے (معاشی اعتبار سے) بعض کو بعض پر کئی درجے فضیلت عطا کی ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے خدمت لیں اور آپ کے رب کی رحمت اس مال سے بہت بہتر ہے‘ جس کو یہ جمع کر رہے ہیں۔ دنیا کی زندگی کی بے وقعتی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر لوگوں کے کفر میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو ہم ان کے لیے گھروں کی چھتیں‘ سیڑھیاں‘ دروازے اور مسندیں چاندی کی بنا دیتے (اور چاندی ہی کیا) سونے کی بھی بنا دیتے مگر یہ سب دنیا کا سامانِ زیست ہے اور آپ کے رب کے پاس آخرت (کی نعمتیں صرف) متقین کے لیے ہیں۔ مزید فرمایا: جو رحمن کی یاد سے (غافل ہو کر) اندھا ہو جاتا ہے‘ اس پر ہم شیطان کو مسلط کر دیتے ہیں‘ تو وہی اس کا ساتھی ہے۔
سورۃ الدخان: اس سورت کے شروع میں لیلۂ مبارَکہ کا ذکر ہے‘ بیشتر مفسرین نے اس سے لیلۃ القدر ہی مراد لی ہے جس میں قرآنِ حکیم کا نزول ہوا، البتہ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے حوالے سے بعض مفسرین نے اس سے شعبان المعظم کی پندرہویں شب مراد لی ہے۔ اس رات کے طے شدہ معاملات فرشتوں کو تفویض ہوتے ہیں۔ آیت 25 سے بنی اسرائیل کی نجات اور فرعونیوں کے غرق کیے جانے کے پسِ منظر میں فرمایا: وہ کتنے ہی باغات، چشمے، (لہلہاتے) کھیتوں، عمدہ محلات اور وہ نعمتیں جن میں وہ مصروفِ عیش تھے‘ (اپنے پیچھے ) چھوڑ گئے، اور ہم نے سب چیزوں کا دوسروں کو وارث بنا دیا، سو ان کی بربادی پر نہ آسمان رویا اور نہ زمین اور نہ ہی انہیں مہلت دی گئی۔ اس میں ان سب لوگوں کے درسِ عبرت ہے جو دنیا کی ناپائیدار عیش وعشرت ہی کو اپنا مقصودِ حیات بنا لیتے ہیں اور پھر ایک دن منظر یوں ہوتاہے کہ سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا، جب لاد چلے گا بنجارا۔ اس سورت کے آخر میں بتایا کہ کفار و مشرکین کی غذا جہنم میں زقوم (تھوہر) کا درخت ہوگا‘ جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح پیٹوں میں جوش مارے گا‘ جیسے کھولتا ہوا پانی جوش مارتا ہے‘ انہیں گھسیٹتے ہوئے جہنم کے وسط میں لے جایا جائے گا اور پھر ان کے سر پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا اور یہ صورتِ عذاب ہوگی۔ اس کے بعد متقین کے لیے جنت کی عالی شان نعمتوں کا ذکر ہے۔
سورۃ الجاثیہ: اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں اللہ تعالیٰ کی قدرت وجلالت کی نشانیوں کا ذکر ہے۔ ان مضامین کو قرآنِ مجید میں بار بار بیان کیا گیا ہے۔ آیت 23 میں فرمایا: پس کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا کہ جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا اور اللہ نے اس کو علم کے باوجود گمراہ کر دیا اور اس کے کان اور اس کے دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ پس‘ اللہ کے بعد اس کو کون ہدایت دے سکتا ہے‘ تو کیا تم نصیحت قبول نہیں کرتے۔ یعنی اگر ایک طرف اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے اور دوسری جانب بندے کے اپنے نفس کے مطالبات اور خواہشات ہوں اور وہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو نظر انداز کر کے اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی اختیار کر لے‘ تو خواہ وہ کلمہ پڑھتا ہو‘ عملاً تو اس نے اپنے نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے۔ اس کے بعد منکرینِ آخرت کے اس نظریے کو بیان کیا‘ جو ہر دور کے ملحدین کا عقیدہ رہا ہے کہ جو کچھ ہے یہ دنیا کی زندگی ہے، پسِ مرگ کچھ بھی نہیں۔ قرآنِ مجید نے بتایا کہ جس نے پہلی بار پیدا کیا‘ وہی دوبارہ زندہ کرے گا۔ جنہوں نے اس دنیا میں قیامت کے دن کو فراموش کر رکھا ہے‘ قیامت کے دن انہیں رحمتِ باری تعالیٰ نظر انداز کر دے گی اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اور کوئی ان کا مددگار نہیں ہو گا۔