مفتی منیب الرحمٰن


سورۃ الزمر: اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے اور حق کو جھٹلانے والے کو جہنمی قرار دیا گیا اور سچے دین کو لے کر آنے والے‘ یعنی رسول اللہﷺ اور ان کی تصدیق کرنے والے (مفسرین نے اس سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مراد لیا ہے) کو متقی قرار دیا گیا ہے۔ آیت 38 میں بتایاکہ اللہ کی قدرت پر کسی کا بس نہیں چلتا۔ آیت 41 میں رسول اللہﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے آپ پر حق پر مبنی کتاب نازل کی‘ سو جو ہدایت کو اختیار کرے گا‘ اس کا فائدہ اسی کو پہنچے گا اور جو گمراہی کو اختیار کرے گا‘ اس کا وبال اسی پر ہوگا‘ آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ اگلی آیت میں نیند کو عارضی موت سے تعبیر کیا اور بتایا کہ نیند اور موت میں اتنا ہی فرق ہے کہ موت کی صورت میں بندے کی روح عارضی طور پر نہیں‘ بلکہ مدتِ دراز کیلئے قبض کرلی جاتی ہے۔ آیت 47 میں بے پناہ دولت جمع کرنے والوں کو خبردار کیا کہ اگر وہ زمین کی ساری دولت کے مالک بن جائیں اور اس کے برابر اور بھی ان کو مل جائے اور وہ قیامت کے دن یہ سب کچھ دے کر عذاب سے اپنی گردن چھڑانا چاہیں تو بھی ان کی گلو خلاصی نہیں ہو سکے گی۔ آیت 53 میں گناہگارانِ امت کو بشارت دی گئی کہ ''(اے رسولؐ!) کہہ دیجئے اے میرے وہ بندو جو گناہ کرکے اپنی جانوں پر ظلم کر چکے ہو‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘ بے شک اللہ تمام گناہوں کو بخش دے گا‘ یقینا وہ بہت بخشنے والا‘ بہت مہربان ہے‘‘۔ یعنی جو اللہ کی راہ سے بھٹک چکا ہے‘ اسے امید دلائی گئی ہے کہ سچی توبہ کے ذریعے واپسی کا راستہ باقی ہے۔ آیت 71 میں بتایا کہ کافروں کو گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانکا جائے گا اور وہاں ان کا استقبال توہین آمیز انداز میں ہو گا‘ جبکہ اہلِ ایمان کو اکرام کے ساتھ جنت کی طرف لے جایا جائے گا اور وہاں ان کا استقبال اعزاز و اکرام کے ساتھ ہو گا۔
سورۃ المؤمن: اس سورۂ مبارکہ کی آیت 2 میں اللہ کے بندوں کو ایک بار پھر نویدِ مغفرت دیتے ہوئے فرمایا: ''وہ گناہوں کا بخشنے والا اور توبہ قبول فرمانے والا‘ (سرکشوں کو ) سخت عذاب دینے والا ہے اور (نیکو کاروں پر) بڑا احسان فرمانے والا ہے‘‘۔ آیت7 میں فرمایا: ''وہ فرشتے جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اس کے گرد ہیں‘ وہ سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور مومنوں کیلئے مغفرت طلب کرتے ہیں‘ (اور کہتے ہیں) اے ہمارے رب! تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز کو محیط ہے‘ سو جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرے راستے کی اتباع کی ہے‘ ان کی مغفرت فرما اور ان کو دوزخ کے عذاب سے بچا‘‘۔ اس آیت میں بتایا گیا کہ اللہ کے مقرب فرشتے نہ صرف اس کے تائب بندوں کیلئے‘ بلکہ ان کے صالح آبائو اجداد‘ ان کی بیویوں اور ان کی اولاد کیلئے بھی جنت کی دائمی نعمتوں کی دعائیں مانگتے رہتے ہیں۔ آیت 17 میں بتایا کہ قیامت کے دن سب کے ساتھ پورا پورا انصاف ہوگا‘ وہاں ظالموں کا کوئی حمایتی اور سفارشی نہیں ہوگا‘ اللہ خیانت کرنے والی آنکھوں اور سینوں میں چھپے رازوں کو بھی جانتا ہے۔ آیت 23 میں بتایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ہم نے اپنی نشانیاں اور روشن معجزے عطا کرکے فرعون‘ ہامان اور قارون کی طرف بھیجا تو انہوں نے انہیں (معاذ اللہ) جادوگر اور جھوٹا قرار دیا اور اس کے بعد انہی واقعات کا ذکر ہے‘ جو اس سے پہلے بھی گزر چکے ہیں۔ آیت 37 میں بتایا کہ فرعون نے ہامان سے کہا: میرے لیے ایک بلند عمارت بناؤ تاکہ میں آسمانوں کے راستوں تک پہنچوں اور موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کے بارے میں خبر لوں اور میرا گمان تو یہ ہے کہ (معاذ اللہ) یہ جھوٹے ہیں اور اسی طرح فرعون کے برے عمل کو اس کے نزدیک خوشنما بنا دیا گیا اور (اس کی سرکشی کے سبب) اسے سیدھے راستے سے روک دیا گیا۔ آیت 46 میں فرمایا: جس نے برا کام کیا‘ اس کو صرف اسی کے برابر سزا دی جائے گی اور جس مرد وعورت نے ایمان پر قائم رہتے ہوئے نیک کام کیا‘ تو وہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے‘ جہاں انہیں بے حساب رزق عطا کیا جائے گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں‘ بے شک اللہ بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے۔ سو‘ اللہ نے مخالفین کی سازشوں سے انہیں محفوظ رکھا اور فرعونیوں کو بدترین عذاب نے گھیر لیا‘ انہیں صبح و شام دوزخ کی آگ پر پیش کیا جاتاہے اور جس دن قیامت آئے گی‘ (یہ حکم دیا جائے گا کہ) آلِ فرعون کو شدید ترین عذاب میں ڈال دو۔ آیت 49 میں بتایا کہ جہنمی‘ جہنم کے داروغوں سے کہیں گے کہ اپنے رب کو بلاؤ کہ ہمارے ساتھ عذاب میں ایک دن کی تخفیف کر دے‘ جہنم کا محافظ عملہ ان سے کہے گا کہ کیا دنیا میں تمہارے پاس رسول نشانیاں لے کر نہیں آئے تھے؟ وہ اقرار کریں گے۔ آگے چل کر فرمایا کہ قیامت میں ظالموں کی عذر خواہی ان کے کوئی کام نہیں آئے گی‘ ان کیلئے لعنت ہے اور برا گھر ہے۔ آیت 64 میں فرمایا: وہی (ہمیشہ) زندہ رہنے والا ہے‘ اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں‘ سو تم اخلاص کے ساتھ اسی کی بندگی کو اختیار کرو۔ آیت 77 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''بے شک ہم نے آپ سے پہلے بھی بہت رسول بھیجے‘ ہم نے ان میں سے بعض کے واقعات آپ کے سامنے بیان کیے ہیں اور بعض کے واقعات بیان نہیں کیے‘‘ البتہ سورۂ ہود کی آیت 120 میں فرمایا: ''ہم آپ کے سامنے تمام رسولوں کی خبریں بیان کر رہے ہیں‘‘ یعنی رسول اللہﷺ کو تمام انبیائے کرام کے احوال بتا دیے گئے تھے‘ قرآن میں جن انبیائے کرام کے نام بتا دیے گئے ہیں‘ ان پر نام بہ نام ایمان لانا فرضِ عین ہے اور دیگر انبیائے کرام علیہم السلام پر تعداد کے تعین کے بغیر اجمالی طور پر ایمان لانا فرض ہے۔
سورہ حٰمٓ السجدہ: اس سورۂ مبارکہ کی آیت 5 میں کفار کی انتہائی سرکشی کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ''اور انہوں نے کہا: جس دین کی طرف آپ ہمیں بلا رہے ہیں، ہمارے دلوں میں اس پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور ہمارے کانوں میں لاٹ ہے اور ہمارے اور آپ کے درمیان حجاب ہے، سو آپ اپنے کام سے کام رکھیے اور ہم اپنے ڈھب پر کاربند رہیں گے‘‘، یعنی وہ کسی بھی طور پر قبولِ حق کیلئے تیار نہیں تھے۔ آیت 9 سے ایک بار پھر اس کائنات کی تخلیق کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی بے پایاں قدرت وجلالت کا ذکر ہے اور ان کھلی نشانیوں کو دیکھنے کے باوجود منکر قوموں کی سرکشی کا ذکر ہے۔ آیت 15 سے قومِ عاد کی سرکشی کا ذکر ہے کہ انہیں اپنی مادی طاقت پر بڑا ناز تھا اور کہتے تھے کہ ہم سے بڑھ کر بھی کوئی زبردست ہے؟ ان کو جواب دیا گیا کہ تم سے بڑا زبردست وہ اللہ ہے، جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر قومِ عاد پر منحوس دنوں میں خوفناک آواز والی آندھی بھیجی اور ان کا نام ونشان مٹا دیا گیا، قومِ ثمود کا انجام بھی برا ہوا۔ آیت 19 سے بیان ہوا کہ قیامت کے دن اللہ کے دشمنوں کو جمع کرکے جہنم کی طرف لے جایا جائے گا تو جب وہ جہنم تک پہنچیں گے تو ان کے کان، آنکھیں اور ان کی جلدیں ان کے خلاف سلطانی گواہ بن جائیں گی، کفار اپنی جلدوں سے کہیں گے: تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی؟ (ان کے اعضاء) جواب دیں گے: ہمیں اسی اللہ نے قوتِ گویائی عطا کی، جس نے ہر چیز کو بولنا سکھایا اور اسی نے تم کو پہلی بار پیدا کیا اور اسی کی جانب لوٹائے جاؤ گے۔ آیت 30 سے بتایا کہ ایمان پر ثابت قدم رہنے والے اہلِ ایمان کی روح جب اس دنیا سے پرواز کرے گی تو اس کے استقبال کیلئے فرشتے نازل ہوں گے اور کہیں گے کہ تم نہ کسی آنے والی بات کا خوف کرو اور نہ کسی گزشتہ بات کا رنج و ملال اور اس جنت کی بشارت سنو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا، پھر انہیں بتایا جائے گا کہ اللہ غفور الرحیم نے ان کیلئے جنت میں ضیافت کا اہتمام فرمایا ہے اور وہاں وہ جس نعمت کی بھی خواہش کریں گے انہیں دستیاب ہو گی۔ آیت 24 میں بتایا کہ نیکی اور بدی برابر نہیں ہیں، دوسروں کی بدی کا جواب نیکی سے دو، اس کے نتیجے میں تمہارا مخالف تمہارا سرگرم اور پُرجوش دوست بن جائے گا۔ آیت 39 سے اللہ تعالیٰ نے حیات بعد الموت کے ثبوت کیلئے حسی مثال دی کہ تم دیکھتے ہو کہ زمین خشک، بنجر اور غیر آباد ہوتی ہے تو ہم اس پر بارش کا پانی نازل کرتے ہیں، جس کے ذریعے وہ سرسبز اور شاداب ہو جاتی ہے اور نمو یعنی نباتات اگانے اور بڑھانے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، جو زمین کیلئے حیات ہے؛ پس جو اللہ بے جان زمین میں جان ڈالتاہے، وہی آخرت میں مردوں کو زندہ کرے گا۔ آیت 42 میں قرآن کی شانِ اعجاز کو بیان کیا کہ اس میں کسی بھی جانب سے باطل کی آمیزش نہیں ہو سکتی، یہ سراسر حق ہے۔ اگلی آیت میں بتایا کہ یہ قرآن مومنوں کیلئے ہدایت اور شفا ہے اور کافر جن کے حق میں ہدایت مقدر نہیں ہے، ان کے کان قبولِ حق کیلئے بند ہو جاتے ہیں اور ان کی آنکھیں اندھی بن جاتی ہیں۔ آخری آیت میں فرمایا کہ ہر شخص کو اس کے نیک عمل کی جزا اور برے عمل کی سزا ملے گی اور تمہارا رب اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔