مفتی منیب الرحمٰن


سورہ یٰسٓ
اس پارے کی ابتدا میں بجائے اس کے کہ مشرکین کے باطل معبودوں کی مذمت کی جاتی‘ نہایت حکیمانہ انداز میں فرمایا: ''میں اس معبود کی عبادت کیوں نہ کروں‘ جس نے مجھے پیدا کیا اور تم بھی اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے‘ کیا میں معبودِ برحق کو چھوڑ کر ان (بتوں) کو معبود قرار دوں کہ اگر رحمن مجھے نقصان پہنچانا چاہے تو ان کی شفاعت میرے کسی کام نہ آئے اور نہ ہی وہ مجھے نجات دے سکیں‘‘۔ آیت 38 سے اللہ تعالیٰ کی قدرت وجلالت کو بیان کیا کہ سورج‘ چاند اور سیارے قادرِ مطلق کے نظم کے تابع چل رہے ہیں اور یہ ممکن ہی نہیں کہ ان میں کوئی فساد یا ٹکراؤ ہو جائے۔ آیت 65 سے بتایا کہ قیامت کے دن مجرموں کے مونہوں پر مہریں لگا دی جائیں گی اور ان کے ہاتھ اور پاؤں (اور دیگر اعضا) سلطانی گواہ بن کر اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ان کے خلاف گواہی دیں گے کہ ہم سے کیا کیا جرائم کرائے جاتے رہے۔ آیت 78 سے منکرینِ آخرت کے اس عقلی سوال کا ذکر فرمایا کہ جب انسان مر جائے گا اور ہڈیاں تک بوسیدہ ہو جائیں گی ‘ تو دوبارہ کون زندہ کرے گا؟ اور پھر جواب دیا کہ دوبارہ بھی وہی خالق تبارک وتعالیٰ زندہ کرے گا‘ جس نے بغیر کسی نام ونشان کے پہلے پیدا کیا تھا؛ حالانکہ اب تو ذرۂ خاک یا راکھ موجود ہے۔ مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کا ارادہ فرماتاہے تو فرماتا ہے ''کُن‘‘ (ہو جا)‘ تو وہ چیز وجود میں آ جاتی ہے۔ یہ واضح رہے کہ ''کُن‘‘ کہنا بھی ضروری نہیں‘ صرف اللہ تعالیٰ کا ارادہ کافی ہے۔
سورۃ الصّٰفٰت
پہلے شیطان کا داخلہ عالَمِ بالا کی طرف ہوتا تھا‘ مگر آیت 10 میں بتایا کہ اب اس کا داخلہ عالَمِ بالا میں بند ہے اور اگر وہ ادھر کا رخ کرے تو اس پر آگ کے کوڑے برسائے جاتے ہیں۔ آیت 40 سے اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کو آخرت میں عطا کی جانے والی نعمتوں کا ذکر ہے کہ انہیں عمدہ میوے ملیں گے‘ وہ جنت میں اعزاز و اکرام کے ساتھ ایک دوسرے کے مقابل مسندوں پہ بیٹھے ہوئے ہوں گے‘ سفید اور لذیذ شرابِ طہور کے جام گردش میں ہوں گے کہ جن سے نہ دردِ سر ہو گا اور نہ ہوش اڑیں گے‘ پیکرِ شرم و حیا حوریں ہوں گی اور وہ بلند مقام سے جہنمیوں کا مشاہدہ کر رہے ہوں گے۔ آیت 62 سے جہنمیوں کی کیفیت کو بیان کیا کہ شیطان کے سروں کی طرح دوزخ کی جڑ سے پیدا ہونے والا ''زقوم‘‘ (تھوہر) کا درخت ان کی غذا ہوگا‘ پھر انہیں جہنم کا کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا۔ آیت 83 سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ ایک بار پھر مذکور ہوا کہ آپ قوم کے ساتھ میلے میں نہ گئے اور ان کے بڑے بت کو پاش پاش کر دیا اور پھر انہوں نے آگ کا ایک الاؤ تیار کرکے ابراہیم علیہ السلام کواس میں ڈال دیا ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ان کی تدبیر کو ناکام بنا دیا۔ اس کے بعد اسماعیل علیہ السلام کی ولادت کی بشارت‘ اپنے باپ کا ہاتھ بٹانے کی عمر کو پہنچنے کے بعد خواب میں ان کے ذبح کا حکم دیے جانے اور پھر باپ بیٹے دونوں کے حکمِ ربانی کے سامنے سرِ تسلیم خم کئے جانے کا ذکر ہے۔ آیت 105 میں فرمایا کہ ابراہیم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا اور اسماعیل علیہ السلام کے فدیے کے طور پر غیب سے نمودار ہونے والے ایک مینڈھے کے ذبح کئے جانے کا ذکر ہے‘ جسے قرآن نے ''ذبحِ عظیم‘‘ قرار دیا ہے۔ اس کے بعد یونس علیہ السلام کے قوم سے بھاگ کر کشتی میں سوار ہونے‘ پھر قرعہ اندازی کے ذریعے ڈولتی ہوئی کشتی سے دریا میں ڈالے جانے اور پھر مچھلی کے انہیں نگل جانے کا ذکر ہے اور اللہ کی شانِ اعجاز کہ انہیں مچھلی کے پیٹ میں سلامت رکھا اور ان تمام مراحل میں وہ اپنی خطائے اجتہادی پر اپنے آپ کو ملامت کرتے رہے۔ پھر انہوں نے توبہ کے ارادے سے یہ تسبیح پڑھی: ''لاالٰہ الا انت سبحانک انی کنت من الظٰلمین‘‘۔اللہ عزوجل نے فرمایا: اگر وہ تسبیح نہ پڑھتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے مچھلی نے انہیں ساحل پر اگل دیا۔ وہ بیمار تھے‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کیلئے لوکی کی ایک بیل کو اُگا کر ان پر سایہ فگن کر دیا۔ قرآن نے یہ بھی بتایا کہ وہ ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔ آیت 149سے مشرکوں کی عجب فطرت کا ذکر ہے کہ اپنے لئے بیٹوں کی تمنا کرتے ہیں اور اللہ کی طرف بیٹیوں کی نسبت کرتے ہیں، (وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے)۔ وہ اللہ کی طرف جھوٹ پر مبنی اولاد کی نسبت کرتے ہیں حالانکہ اللہ اس سے پاک ہے۔
سورہ صٓ
اس سورہ میں ان مشرکین کو‘ جنہیں اپنی طاقت پر ناز تھا اور جو خدائی کے دعوے کرتے تھے‘ فرمایا کہ اگر آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان ہر چیز کی بادشاہت ان کی ہے تو پھر انہیں چاہئے کہ آسمانوں کی طرف چڑھیں اور ظاہر ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے‘ تو پھر انہیں اپنے عجز کا اعتراف کر لینا چاہیے۔ اس سورہ مبارکہ میں قومِ نوح‘ عاد و فرعون‘ ثمود‘ قومِ لوط اور اصحاب الایکہ کا ایک بار پھر ذکر ہے کہ انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا تو ان پر اللہ کا عذاب سچا ثابت ہوا۔ آیت 17سے داؤد علیہ السلام اور ان کے معجزات کا ذکر ہے کہ پرندے زبور کی تلاوت کرتے وقت جمع ہوتے تھے اور اللہ نے انہیں سلطنت‘ حکمت اور قولِ فیصل عطا کیااور ان کے پاس دائر ایک مقدمے کا ذکر آیا۔ ایک شخص نے کہا کہ میرے بھائی کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک ہی دنبی ہے اور وہ مجھ پر دباؤ ڈال رہا کہ میں وہ ایک بھی اسی کو دے دوں۔ داؤد علیہ السلام نے کہا کہ ایک دنبی کا مطالبہ کرکے اس نے ظلم کیا ہے اور اکثر شرکا ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں‘ سوائے ان کے جو ایمان لائے اور اعمالِ صالحہ کئے۔ قرآن سلیمان علیہ السلام کا ذکر فرماتا ہے کہ وہ اللہ کے بہت اچھے بندے اور اس کی طرف بہت رجوع کرنے والے تھے۔ آیت31 سے سلیمان علیہ السلام کے سامنے سدھائے ہوئے تیز رفتار گھوڑوں کے پیش کئے جانے کا ذکر ہے، آپ علیہ السلام نے ان پر ہاتھ پھیرا، پھر ان کی آزمائش کا ذکر ہے جس کی تفصیل کو قرآن نے بیان نہیں کیا، تفاسیر میں مختلف روایات ہیں لیکن ہر ایسی روایت جو مقامِ نبوت کے خلاف ہو‘ اسے رد کر دیناچاہئے۔ آیت 41 سے حضرت ایوب علیہ السلام اور ان کے مصائب کا ذکر ہے ۔ اللہ نے انہیں حکم دیا: اپنا پاؤں زمین پر مارو‘ ان کے پاؤں کی ضرب سے غسل اور پینے کیلئے ٹھنڈا پانی نکل آیا اور مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ ان کیلئے وسیلۂ شفا بھی بنا‘ پھر اللہ تعالیٰ نے آزمائش کے طور پر اہل ومال کی جونعمتیں ان سے سلب فرمائی تھیں وہ ان کو دگنی مقدار میں دوبارہ عطا فرما دیں۔ انہوں نے کسی وجہ سے اپنی بیوی کو سو کوڑے مارنے کی قسم کھائی تھی‘ اللہ تعالیٰ نے اس قسم سے بری ہونے کیلئے ان کو یہ تدبیر بتائی کہ سو تنکوں کا ایک جھاڑو بنا کر ایک ضرب لگائیں تو یہ قسم پوری ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایوب علیہ السلام صابر تھے‘ اللہ کے پیارے بندے تھے اور اس کی طرف بہت رجوع کرنے والے تھے۔ آیت 49 سے اہلِ تقویٰ کیلئے جنت کی نعمتوں اور جہنمیوں کیلئے عذاب کی مختلف صورتوں کا ذکر ہے۔ آیت 71 سے آدم علیہ السلام کی تخلیق‘ تمام فرشتوں کے انہیں سجدہ کرنے اور تکبر کی بنا پر شیطان کی طرف سے سجدے سے انکار کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان سے جواب طلب فرمایا کہ آدم کو میں نے اپنے دستِ قدرت سے بنایا‘ تو تمہارے اس کو سجدہ کرنے سے کون سی چیز مانع ہوئی۔ شیطان نے کہا کہ میں آدم سے افضل ہوں‘ میرامادۂ تخلیق (آگ) آدم علیہ السلام کے مادۂ تخلیق (مٹی) سے افضل ہے۔ اللہ نے فرمایا: تُو مردود ہے‘ جنت سے نکل جا اور قیامت تک تجھ پر میری لعنت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اپنی خطا (اجتہادی) کو تسلیم کرنا اور اس پر اللہ سے معافی مانگنا آدم علیہ السلام کی سنت ہے اور اپنی معصیت پر ڈٹ جانا اور اس کو درست ثابت کرنے کے لئے دلیل کا سہارا لینا‘ یہ ابلیس کا شعار ہے۔ پھر بتایا کہ شیطان کو قیامت تک کیلئے مہلت دے دی گئی اور اُس نے عہد کیا کہ میں اللہ کے مخلص بندوں کے سوا تمام اولادِ آدم کو گمراہ کروں گا۔