مفتی منیب الرحمٰن


سورۃ المؤمنون: سورہ مؤمنون کی ابتدائی گیارہ آیات تعلیماتِ اسلامی کی جامع ہیں‘ ان میں فلاح یافتہ اہلِ ایمان کی یہ صفات بیان کی گئی ہیں؛ نمازوں میں خشوع وخضوع‘ ہر قسم کی بیہودہ باتوں سے لاتعلقی‘ زکوٰۃ کی ادائیگی‘ اپنی پاکدامنی کی حفاظت‘ امانت اور عہد کی پاسداری اور نمازوں کی پابندی۔ آخر میں فرمایا کہ ان صفات کے حامل اہلِ ایمان ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ آیت 13 سے انسانی تخلیق کے مدارج کو بیان کیا‘ یعنی نطفہ‘ پھر علقہ (جما ہوا خون)‘ پھر گوشت کا لوتھڑا اور پھر گوشت اور ہڈیوں پر مشتمل جسم کی تشکیل اور اسی کو حیات بعد الموت کی دلیل قرار دیا۔ آیت 17سے اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر اپنی قدرت کی نشانیوں کو بیان کیا۔ آیت 33 سے بیان ہوا کہ ہود علیہ السلام کی قوم کے کفار‘ منکرینِ آخرت اور خوشحال لوگوں نے اپنے نبی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو ہم جیسے بشر ہیں‘ عام انسانوں کی طرح کھاتے اور پیتے ہیں اور اپنے جیسے بشر کی اطاعت کرنا بڑے خسارے کی بات ہے، یہ حیات بعد الموت کا وعدہ کرتے ہیں‘ جو ناقابلِ یقین بات ہے۔ انہوں نے کہا: جو کچھ ہے‘ اسی دنیا کی زندگی میں ہے‘ مرنے کے بعد کس نے جینا ہے۔ آیت 85 سے اللہ تعالیٰ نے استفہامی انداز میں بیان فرمایا کہ اگر ان منکرینِ آخرت سے پوچھا جائے کہ زمین اور اس کے خزانوں کا مالک کون ہے‘ سات آسمانوں اور عرشِ عظیم کا مالک کون ہے‘ ہر چیز کی بادشاہت کس کے قبضے میں ہے کہ جس کا مقابل کوئی نہیں‘ تو ہر سوال کے جواب میں کہیں گے کہ اللہ! تو پھر آپ ان سے پوچھئے کہ کیا تم سحر زدہ ہو‘ یعنی پھر اس مالک الملک پر ایمان کیوں نہیں لاتے‘ اس کے احکام کو تسلیم کیوں نہیں کرتے؟ آیت 91 سے بیان ہوا کہ اللہ کی کوئی اولاد نہیں‘ اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں، اگر ایسا ہوتا کہ ایک سے زیادہ خدا ہوتے تو ہر ایک اپنے لشکر کو لے کر دوسر ے پر غلبہ پانے کی کوشش کرتا حالانکہ اللہ وحدہٗ لاشریک کے اقتدار کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
سورۃ النور: سورۂ نور میں اللہ تعالیٰ نے خانگی اور معاشرتی اَحکام کو بیان فرمایا ہے۔ ابتدائی آیات میں زنا کرنے والے (غیر شادی شدہ) مرد و عورت کی سزا کو بیان کیا کہ اُن کی سزا سوکوڑے ہے اور (صاحبانِ اقتدار) اہلِ ایمان کوکہا گیا کہ تمہیں اس سزاکے نفاذ میں اُن پر رحم نہیں آنا چاہیے اور تمہاری ایک جماعت کو اس سزاکے نفاذ کے وقت موجود رہنا چاہیے۔ آیت 5 سے بیان کیا گیا کہ جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں‘ پھر (اُس کے ثبوت میں) چار گواہ نہ پیش کر سکیں‘تو تم اُن کو 80 کوڑے مارو اور اُن کی شہادت کوکبھی بھی قبول نہ کرو اور یہی لوگ فاسق ہیں۔ سوائے اُن لوگوں کے جو اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے توبہ اور اصلاح کر لیں۔ آیت 6 سے یہ ضابطہ بیان فرمایا ''اگرکوئی شخص اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے اور اُس کے ثبوت میں چار گواہ نہ پیش کر سکے اور اُس کی بیوی اس تہمت کا انکار کرے‘ تو فریقین ایک دوسرے پر لِعان کریں‘ شوہر چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ کہے: بیشک وہ ضرور سچوں میں سے ہے اور پانچویں بار یہ کہے: اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو تو اُس پر اللہ کی لعنت‘‘۔ اورعورت سے حدِ زنا اس طرح دور ہو سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھاکر کہے کہ اُس کا خاوند یقینا جھوٹوں میں سے ہے اور پانچویں بار کہے کہ اگر اُس کا خاوند سچوں میں سے ہو تو اُس (عورت) پر اللہ کا غضب نازل ہو۔ آیت 11 سے ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر جو منافقین نے تہمت لگائی تھی‘ اُس کی جانب اشارہ فرمایا اور اُن چیزوں کا سَدِّ باب کیا‘ جو معاشرے کی بگاڑ کا باعث ہو سکتی ہیں اور جن منافقین نے یہ تہمت لگائی تھی‘ اُن کا پردہ فاش کیا‘ جو مسلمان منافقین کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس گئے تھے‘ اُن پر بھی عتاب فرمایا اور اُن کو تنبیہ کی کہ وہ آئندہ ہوشیار رہیں اور منافقین کے کہنے میں نہ آئیں۔ منافق مسلمانوں کی عزت وناموس کو برباد کرنے کے درپے ہیں‘ اس لیے مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ سنی سنائی بات کو آگے بڑھا دیں بلکہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اپنوں کے متعلق نیک گمان کرنا چاہیے۔ آیت23 سے پاک دامن‘ بے خبر‘ ایمان والی عورتوں پر (بدکاری) کی تہمت لگانے والوں کے لیے دنیاو آخرت میں لعنت اور بہت بڑے عذاب کا بیان ہوا ہے۔ آیت27 سے فرمایا کہ مسلمانوں کے لیے ایک دوسرے کے گھروں میں بلا اجازت داخل ہونا جائز نہیں اور اجازت لے کر داخل ہونے پر گھر والوں کو سلام کریں اور اگر اُن سے کہا جائے کہ لوٹ جاؤ‘ تو اُنہیں واپس چلے جانا چاہیے۔ ہاں! اگر کسی گھر میں لوگوں کی رہائش نہ ہو اور وہاں مسلمانوں کی کوئی چیز ہو‘ تو وہاں داخل ہونے میں کوئی حرج نہیں۔ (جیسے پبلک مقامات وغیرہ) آیت 39 سے کافروں کے اَعمال کی مثال کو اس طرح بیان کیا کہ وہ زمین میں چمکتی ہوئی اُس ریت کی طرح ہیں‘ جس کو پیاسا دُور سے پانی گمان کرتا ہے حتیٰ کہ جب وہ اُس کے قریب پہنچتا ہے تو کچھ نہیں پاتا اور وہ اللہ کو اپنے قریب پاتا ہے‘ جو اُس کو اُس کا پورا حساب چکا دیتا ہے یا (اُن کے اعمال) گہرے سمندرکی تاریکیوں کے مثل ہیں‘ جن کو تہہ در تہہ موج ڈھانپے ہوئے ہے۔ اُس کی بعض تاریکیاں بعض سے زیادہ ہیں‘ جب کوئی اپنا ہاتھ نکالے تو اُس کو دیکھ نہ سکے اور جس کیلئے اللہ نور نہ بنائے‘ اُس کیلئے کوئی نور نہیں ہے۔ آیت 43 سے فرمایاکہ کیا آپ نے نہیں دیکھاکہ اللہ بادلوں کو چلاتا ہے‘ پھر اُن کو (باہم) جوڑ دیتا ہے‘ پھراُن کو تَہہ دَر تَہہ کر دیتا ہے۔ پھر آپ دیکھتے ہیں کہ اُن کے درمیان سے بارش ہوتی ہے اور اللہ آسمانوں کی طرف سے پہاڑوں سے اولے نازل فرماتا ہے۔ سو‘ وہ جس پر چاہے اُن اولوں کو برسا دیتا ہے اورجس سے چاہے اُن کو پھیر دیتا ہے۔ قریب ہے کہ اُس کی بجلی کی چمک آنکھوں کی بینائی کو زائل کر دے۔ اللہ دن اور رات کو بدلتا رہتا ہے‘ بے شک اس میں غور کرنے والوں کے لیے بڑی نصیحت ہے۔ آیت 55 میں اہلِ ایمان کو یہ بشارت دی کہ اللہ تمہیں زمین میں ضرور خلافت عطا فرمائے گا اور ضرور بالضرور اس دین کو مُحکم اور مضبوط کرے گا۔ تم نماز قائم کرو‘ زکوٰۃ ادا کرو اور (اخلاص کے ساتھ) رسول کی اطاعت پر ڈٹے رہو‘ اللہ تمہارے خوف اور پریشانی کو حالتِ امن اور سکون سے بدل دے گا۔ آیت 58 سے پردے کے اَحکام کی وضاحت فرمائی کہ تمہارے نوکروں اور نابالغ بچوں کیلئے بھی تین اوقات میں اجازت حاصل کرنی ضروری ہے: (1) نمازِ فجر سے پہلے (2) ظہر کے بعد‘ جب تم (قیلولہ کی غرض سے) اپنے (فالتو) کپڑے اتار دیتے ہو (3) عشاء کی نماز کے بعد۔ جب تمہارے لڑکے بلوغت کی عمر کو پہنچ جائیں‘ تو اُن کو بھی اجازت طلب کرکے آناچاہیے۔ آیت 62 میں یہ بیان کیا گیا کہ مومنین صرف وہی ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول پر حقیقتاً ایمان رکھتے ہیں اورجب وہ کسی مجتمع ہونے والی مہم میں رسول کے ساتھ ہوتے ہیں‘ تو اُن کی اجازت کے بغیر کہیں نہیں جاتے‘ ایسے ایمان والوں کوضرورت کی بنا پر اجازت دینے کیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے سفارش فرمائی ہے۔ آیت 63 میں کہا گیا کہ تم رسولﷺ کے بلانے کو ایسے قرار نہ دو‘ جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو اورجو لوگ رسولﷺ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں‘ وہ اس سے ڈریں کہ اُنہیں کوئی مصیبت پہنچ جائے یا اُنہیں کوئی دردناک عذاب پہنچ جائے۔ بے شک اللہ ہی کی ملکیت ہے‘ جوکچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے۔ اللہ کو تمہارے حال کا خوب علم ہے۔
سورۃ الفرقان: سورۂ فرقان کے شروع میں اللہ تعالیٰ کی جلالت‘ توحید‘ اولاد کی نسبت اور شرک سے برأت کا ذکر ہے۔ کفار کے باطل معبودوں کے مخلوق ہونے‘ اپنے لیے نفع اور نقصان اور موت وحیات کا مالک نہ ہونے کا ذکر ہے۔ آیت 4 سے اس بات کا بیان ہے کہ کفار نے قرآنِ مجید کے کلامِ الٰہی ہونے کا انکار کیا اور اسے رسول کریمﷺ کا خود ساختہ کلام قرار دیا کہ یہ پچھلے لوگوں کی کوئی افسانوی کہانیاں ہیں‘ جو انہوں نے لکھوا لی ہیں۔ کفارِ مکہ کے اس اعتراض کا بھی ذکر ہے کہ یہ رسول کھانا کھاتے ہیں‘ بازاروں میں چلتے ہیں‘ ان کی تائید کیلئے کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا؟ انہیں کوئی خزانہ اور باغات کیوں نہ عطا کیے گئے‘ انہوں نے اللہ کے رسول کو سحر زدہ کہا اور قیامت کے دن کو جھٹلایا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی ان بے تکی باتوں کا رَد فرمایا، قرآنِ مجید کو اللہ کا کلام قرار دیا اور اُن پر یہ بھی واضح کر دیا کہ پہلے رسول بھی بشری تقاضے کے تحت کھانا کھاتے تھے اور اپنی ضرورت کیلئے بازار جاتے تھے‘ یعنی بشری ضروریات نبوت و رسالت کے منافی نہیں۔