مفتی منیب الرحمٰن


گزشتہ پارے میں تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے خوابوں کی تعبیر کے حوالے سے شہرت کے سبب بادشاہ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو دربار میں طلب کیا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جب تک مجھ پر لگنے والے الزام کی صفائی نہ ہو جائے‘ میں جیل سے باہر نہیں آؤں گا؛ چنانچہ خود عزیزِ مصر کی بیوی کے خاندان سے ایک فرد نے گواہی دی کہ اگر یوسف کی قمیص سینے کی جانب سے پھٹی ہے تو یہ قصوروار ہیں اور اگر پُشت کی جانب سے پھٹی ہے‘ تو عورت قصوروار ہے‘ اور آپ کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہوئی تھی‘ اس طرح سے آپ کی برأت ثابت ہوئی اور خود عزیزِ مصر کی بیوی نے بھی اعتراف کر لیا کہ یوسف علیہ السلام پاکدامن ہیں اور میں نے ہی اُنہیں دعوتِ گناہ دی تھی۔ حضرت یوسف علیہ السلام اپنی پاکدامنی ثابت ہونے پر تفاخر کا اظہار کرنے کے بجائے اللہ کا شکر اداکرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں اپنے نفس کی برأت کا دعویٰ نہیں کرتا؛ نفس تو برائی کا بہت حکم دینے والا ہے ‘مگر جس پر میرا رب رحم فرمائے (اُسے اُس کے نفس کی برائی سے محفوظ فرماتا ہے) بے شک میرا پروردگار بہت بخشنے والا بہت مہربان ہے۔ پھر بادشاہ نے یوسف علیہ السلام سے کہا کہ آج کے بعد آپ ہمارے نزدیک مُقتدر اور امانت دار ہیں۔ یوسف علیہ السلام نے فرمایا: مجھے اِس ملک کے خزانوں کا انچارج مقرر کر دیں‘ بے شک میں حفاظت کرنے والا‘ علم والا ہوں یعنی اللہ نے مجھے یہ علم عطا کیا ہے کہ مال کس سے لیا جائے اور کس کو دیا جائے اور قومی خزانوں کی حفاظت کس طرح کی جائے؟ پھر جب سارے ملک میں قحط پڑا‘ تو کنعان سے یوسف علیہ السلام کے بھائی بھی غَلّہ لینے کیلئے آئے۔ جب دوسری مرتبہ برادرانِ یوسف حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچے تو اُن کے ساتھ حضرت یوسف علیہ السلام کے سگے بھائی بنیامین بھی تھے‘ اُنہوں نے اپنے بھائی کو روکنے کی ایک خفیہ تدبیر کی کہ بھائی کے سامان میں شاہی پیالہ رکھ دیا اور اس تدبیر سے اُن کو روک لیا‘ اُن کو روکنے کی یہی ایک صورت تھی۔ برادرانِ یوسف نے پیشکش کی کہ بنیامین کے بجائے ہم میں سے کسی کو روک لیا جائے‘ لیکن ظاہر ہے کہ کسی اور کو روکنا مقصود ہی نہیں تھا۔ برادرانِ یوسف نے واپسی پر یہ واقعہ والد کے سامنے بیان کیا تو اُنہیں ایک بار پھر شدید دکھ ہوا مگر پھر صبرِ جمیل کو اختیار کیا۔ شدّتِ غم سے روتے روتے یعقوب علیہ السلام کی آنکھوں کی بینائی بھی چلی گئی اور اُنہوں نے کہا: میں اپنی پریشانی اور غم کی شکایت صرف اللہ سے کرتا ہوں‘ پھر یعقوب علیہ السلام نے برادرانِ یوسف کو یوسف علیہ السلام اور بنیامین کی تلاش میں بھیجا اور اُن کے مصر پہنچنے پر بالآخر یوسف علیہ السلام نے حقیقتِ حال بھائیوں پر ظاہر کر دی‘ وہ شرمسار ہوئے‘ اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہم پر فضیلت دی ہے۔ یوسف علیہ السلام نے کہا: اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کیا ہے اور جو تقویٰ پر کاربند ہو اور صبر کرے‘ تو اللہ نیکو کاروں کے اجر کو ضائع نہیں فرماتا۔ اس موقع پر یوسف علیہ السلام نے انتہائی اخلاقی عظمت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے بھائیوں کو معاف کر دیا۔ اپنی قمیص اُنہیں عطا کی کہ اس کو میرے باپ کے چہرے پر ڈالو (اِن شاء اللہ) اُن کی بینائی لوٹ آئے گی اور اپنے سب گھروالوں کو میرے پاس لے آؤ۔ جونہی برادرانِ یوسف مصر سے چلے‘ حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا: مجھے یوسف کی خوشبو محسوس ہو رہی ہے۔ الغرض پھر قمیصِ یوسف‘ حضرت یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر ڈالتے ہی اُن کی بینائی لوٹ آئی اور اُنہوں نے برادرانِ یوسف کیلئے اللہ کی بارگاہ میں استغفار کی‘ پھر جب یہ قافلہ مصر میں داخل ہوا تو یوسف علیہ السلام نے نہایت اعزاز کے ساتھ اُن کا استقبال کیا اور جب یہ قافلہ شاہی دربار میں پہنچا تو خاندانِ یعقوب کے تمام لوگ حضرت یوسف علیہ السلام کی تعظیم کیلئے سجدے میں گر گئے۔ یوسف علیہ السلام نے کہا: اے میرے والد! یہ میرے اُس پہلے خواب کی تعبیر ہے‘ بے شک میرے رب نے اُس کو سچ کر دکھایا اور اُس نے مجھ پر احسان فرمایا۔
سورۃ الرعد: اس سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ کی قدرت و جلالت کو بیان کیا گیا ہے‘ اُس کا بغیر ستونوں کے آسمانوں کو بلندی پہ قائم رکھنا‘ سورج اور چاند کو ایک نظم کے تابع کرکے چلانا‘ زمین کا پھیلاؤ اور اُس میں پہاڑوں کو لنگر کی طرح قائم رکھنا‘ دریاؤں کی رَوانی‘ نظامِ لیل و نہار‘ طرح طرح کے پھل‘ انگوروں اور کھجوروں کے باغات اور اُمورِ کائنات کی تدبیر وغیرہ۔ پھرفرمایا: اہلِ عقل کیلئے اِس میں نشانیاں ہیں۔ آیت 8 میں فرمایا کہ اللہ ہر مادہ کے حمل اور رحم کے حالات کو جانتا ہے اور اُس کے نزدیک ہر چیز کا ایک اندازہ ہے۔ آگے چل کر فرمایا کہ اللہ تمہیں کبھی ڈرانے کیلئے اور کبھی اُمید دلانے کے لیے بجلی کی چمک دکھاتا ہے اور بھاری بادل پیدا کرتا ہے۔ آیت 13میں رعد کا ذکر ہے۔ اجرامِ فلکی یا بادلوں کی رگڑ سے جو آواز پیدا ہوتی ہے‘ اُس کو ''رعد‘‘ کہتے ہیں اور ایک حدیث کی رُو سے رعد اُس فرشتے کا نام ہے‘ جو بادلوں کو چلانے پر مامور ہے؛ چنانچہ فرمایا کہ یہ مُعین فرشتہ اُس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتا ہے اور باقی فرشتے (بھی) اُس کے خوف سے (حمد و تسبیح) کرتے ہیں۔ آیت 15میں فرمایا: آسمانوں اور زمین میں جو بھی چیزہے‘ وہ سب خوشی اور ناخوشی سے اللہ ہی کیلئے سجدہ کر رہی ہے‘ یعنی مظاہرِ کائنات میں سے ہر چیز کا قادرِ مُطلق کی جانب سے تفویض کی ہوئی اپنی ڈیوٹی کو انجام دینا‘ یہ اُس کی عبادت ہے۔ آیت 17 سے فرمایا کہ آسمان سے برسنے والی بارش کے نتیجے میں ندی‘ نالے جاری ہوتے ہیں‘ پھر سیلاب سے بلبلے والے جھاگ پیدا ہوتے ہیں۔ آگے چل کر فرمایا: پس رہا جھاگ تو وہ تو (بے فائدہ ہونے کی وجہ سے) زائل ہو جاتا ہے‘ لیکن جو چیز لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہے‘ وہ زمین میں باقی رہتی ہے۔ آیت 18 سے بیان فرمایا کہ وہ اہلِ عقل نصیحت حاصل کرتے ہیں جو اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور پکے عہد کو نہیں توڑتے اور قرابت کے جن رشتوں کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے‘ اُنہیں جوڑے رکھتے ہیں‘ اللہ کی رضاکی طلب میں صابر رہتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘ ظاہراً اور پوشیدہ طور پر اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں‘ برائی کو بھلائی سے ٹالتے ہیں‘ اُن کے لیے آخرت کا گھر کتنا پیارا ہے۔ پھر منکرین کیلئے فرمایا کہ عہد شکنی کرتے ہیں‘ قطع رحمی کرتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں‘ ان پر لعنت ہے اور ان کا برا ٹھکانہ ہے۔ آیت 28 میں فرمایا کہ سکونِ قلب کی دولت اللہ کے ذکر سے ہی ملتی ہے‘ مومن نیکوکاروں کیلئے خوشخبری ہے اور بہترین انجام۔ آیت 31 سے مشرکینِ مکہ کے ناروا مطالبات کا ذکر ہوا‘ وہ کہتے ہیں کہ کوئی ایسا قرآن ہوتا کہ جس سے پہاڑ چل پڑتے‘ زمین پھٹ جاتی‘ مردے کلام کرنے لگتے‘ تو اللہ نے فرمایا: یہ سب چیزیں اللہ کے اختیار میں ہیں‘ مسلمان کافروں کی ان بیہودہ باتوں سے نااُمید نہ ہوں‘ اگر اللہ کی مشیت اِس میں ہوتی کہ سب اطاعت گزار ہو جائیں‘ تو وہ سب لوگوں کو ہدایت دے دیتا۔
سورہ ابراہیم: سورۂ ابراہیم کے شروع میں ایک بار پھر قرآن کی حقانیت اور اللہ تعالیٰ کی قدرت و اختیار کا ذکر ہوا۔ آیت 4 میں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کے درمیان جو رسول بھیجا‘ وہ اُنہی کی زبان بولنے والا تھا تاکہ وہ وضاحت کے ساتھ اللہ کے اَحکام کو بیان کر سکے اور لوگوں پر اللہ کی حجت قائم ہو جائے۔ آیت 18 میں بتایا کہ کافروں کے اعمال کی مثال اُس راکھ کی سی ہے کہ سخت آندھی کے دن تیز ہوا کا جھونکا آئے اور سب اُڑا لے جائے۔ آیت21 سے بتایا کہ سب کفار آخرت میں اللہ کی عدالت میں پیش ہوں گے‘ اُن کے کمزور‘ اپنے بڑوں سے کہیں گے کہ دنیا میں ہم تمہاری پیروی کرتے تھے‘ کیا اب اللہ کے عذاب سے نجات کیلئے تم ہمارے کسی کام آؤگے‘ وہ کہیں گے کہ ہمیں خود کوئی چھڑانے والا نہیں‘ اسی طرح شیطان بھی اپنے پیروکاروں سے اپنا دامن جھاڑ لے گا اور کہے گا کہ تم نے اللہ کے سچے وعدے کو رَد کیا اور میرے جھوٹے وعدے کو مانا‘ سو تم مجھے ملامت نہ کرو‘ بلکہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ اب‘ ہم ایک دوسرے کے کام آنے والے نہیں۔ آیت 37 سے اُس واقعے کاذکر ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام اللہ کے حکم سے حضرت ہاجرہ اور اسماعیل علیہ السلام کو مکہ کی بے آب وگیاہ زمین میں چھوڑ کر آئے‘ تو رخصت ہوتے وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی: ''اے ہمارے ربّ! (میں نے) اپنی بعض اولاد کو تیری حرمت والے گھر کے نزدیک بے آب وگیاہ وادی میں ٹھہرا دیا ہے تاکہ وہ نماز کو قائم رکھیں اور لوگوں میں سے بعض کے دلوں کو ان کی طرف مائل فرما اور ان کو پھلوں سے روزی عطا فرما۔