مفتی منیب الرحمٰن


دسویں پارے کے شروع میں کفار پر غلبے کی صورت میں حاصل شدہ مالِ غنیمت کا حکم بیان کیا گیا ہے کہ اس کے چار حصے مجاہدین کے درمیان تقسیم ہوں گے اور پانچواں حصہ اللہ اور رسولؐ اور (رسولؐ کے) قرابت داروں‘ یتیموں‘ مسکینوں اور مسافروں کیلئے ہے‘ یعنی یہ اللہ کے رسولﷺ کی صوابدید پر ہو گا۔ آیت 42 میں بتایا کہ میدانِ بدر میں مسلمان مجاہدین کی زمینی پوزیشن کفار کے مقابلے میں بظاہر کمزور تھی‘ جس کی وجہ سے مسلمانوں کے دلوں میں خدشات پیدا ہوتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: (یہ اس لیے ہوا) کہ اللہ تعالیٰ اپنے طے شدہ فیصلے کو نافذ کر دے‘ یعنی ظاہری کمزوری کے باوجود مسلمانوں کا غلبہ اور فتح مقدر کر دے اور اللہ تعالیٰ جو فیصلہ فرما دیتا ہے‘ وہ نافذ ہو کر رہتا ہے۔ آیت 54 میں بتایا کہ آلِ فرعون اور پچھلی امتیں آیاتِ الٰہی کو جھٹلانے کے جرم میں ہلاک کی گئیں۔ آیت 60 میں فرمایا کہ دشمن کے مقابلے میں اپنی پوری دستیاب قوت اور اسباب کے ساتھ تیار رہو‘ اس کے ذریعے تم اللہ اور اپنے دشمنوں کو ڈرا سکو گے۔ آیت 63 میں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور اگر تم زمین کے سارے خزانے بھی خرچ کرتے تو یہ باہمی الفت تمہارے اندر پیدا نہ ہوتی، اور فرمایا: اے نبی! آپ کو اللہ کافی ہے اور آپؐ کے تابع فرمان مومنوں کی جماعت کو کافی ہے۔ آیت 65 سے نبی کریمﷺ کو حکم ہوا کہ مومنوں کو جہاد پر ابھاریے‘ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے سے دس گنا تعداد پر مشتمل کافروں پر فتح عطا فرمائے گا‘ پھر بعد میں جب مسلمانوں میں کمزوری آئی تو فرمایاکہ اللہ تعالیٰ تمہیں دشمنوں کی دگنی تعداد پر فتح عطا فرمائے گا۔ آیت 72 میں بتایا کہ جان و مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومنین مہاجرین اور انصار صحابۂ کرام ایک دوسرے کے دوست ہیں۔
سورۃ التوبہ: سورۂ انفال اور سورۂ توبہ کے مضامین چونکہ باہم مربوط ہیں‘ اس لیے ان دونوں کے درمیان فـصل کیلئے بسم اللہ نہیں لکھی جاتی۔ اس سورت کی پہلی آیت میں مشرکینِ عرب سے برأت کا اعلان کرتے ہوئے انہیں مسلمانوں سے فیصلہ کن جنگ کرنے یا اسلام قبول کرنے کیلئے چار مہینے کا ٹائم دیا گیا اور جن کفار کے ساتھ مسلمانوں کا پہلے سے کوئی معاہدہ ہے‘ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف کسی دشمن کی مدد بھی نہیں کی‘ تو مقررہ مدت تک مسلمان یکطرفہ طور پر معاہدے کو نہ توڑیں، پھر فرمایا کہ چار مہینے کا نوٹس پیریڈ گزرنے کے بعد مسلمان مشرکینِ عرب کے خلاف کریک ڈائون کریں‘ ان کا مکمل محاصرہ کریں اور وہ جہاں بھی ملیں‘ انہیں کیفرِ کردار تک پہنچائیں۔ آیت 8 میں بتایا کہ کفار مسلمانوں کے ساتھ منافقانہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور اگراُن کی اَخلاقی حالت یہ ہے کہ وہ مسلمانوں پر خدا نخواستہ غالب آ جائیں تو قرابت داری کا بھی پاس نہ کریں۔ آیت 23 میں حکم ہوا کہ تمہارے باپ‘ دادا اور بھائیوں میں سے جو کفر کو ایمان پر ترجیح دیں‘ ان سے تعلق توڑ دو اورکافروں سے دوستی کرنے والا ظالم ہے۔ آیت 24 میں ان تمام چیزوں کا یکے بعد دیگرے ذکر فرمایا جن سے انسان کو فطری اور طبعی طور پر محبت ہوتی ہے‘ یعنی باپ دادا‘ اولاد‘ بھائی بہن‘ بیویاں یا شوہر‘ کنبہ اور قبیلہ‘ کمایا ہوا مال اور تجارت‘ جس کے خسارے کا کھٹکا لگا رہتا ہے اور پسندیدہ مکانات‘ ان سب چیزوں کی محبت اپنے اپنے درجے میں مسلَّم‘ لیکن اگر یہ سب چیزیں مل کر بھی تمہارے لیے اللہ‘ اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب ہو جائیں‘ (تو ایمان کا دعویٰ تو دور کی بات ہے) پھر تمہیں اللہ کے عذاب کا انتظار کرنا چاہیے۔ آیت 25 میں غزوۂ حنین کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ بعض اوقات کثرتِ تعداد پر اترانا اور نازاں ہونا بھی شکست کا باعث بن جاتا ہے‘ یہی مسلمانوں کے ساتھ غزوۂ حنین میں ہوا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مومنوں پر قلبی سکون نازل کیا اور غیبی لشکروں سے ان کی مدد فرمائی۔ آیت 30 میں بتایا کہ یہود نے عزیرؑ کو اللہ کا بیٹا کہا اور نصاریٰ نے مسیحؑ کو اللہ کا بیٹا کہا‘ مگر یہ سب ان کی خود ساختہ باتیں ہیں‘ ان پر اللہ کی مار ہے۔ مزید فرمایا کہ نصاریٰ نے اپنے علماء اور راہبوں کو خدا بنا لیا ہے اور مسیح ابن مریم کو بھی؛ حالانکہ انہیں وحدہٗ لاشریک اللہ کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا۔ آگے چل کر فرمایا کہ منکر اپنی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں‘ مگر اللہ ان کی خواہش کے برعکس اس نور کو مکمل فرمائے گا اور اللہ نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے‘ تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے۔ آیت 34 میں سونا اور چاندی (یعنی دنیاوی دولت) ذخیرہ کرنے والوں اور راہِ خدا میں خرچ نہ کرنے والوں کو درد ناک عذاب کی وعید سنائی ہے اور پھر بتایا کہ قیامت کے دن ان کے اپنے جمع کیے ہوئے مال کو نارِ جہنم میں تپا کر اُس سے اُن کی پیشانیوں‘ پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اپنے ہی جمع کیے ہوئے مال کا مزہ چکھو۔ آیت 36 میں بتایا کہ ابتدائے آفرینش سے اللہ کی کتابِ تقدیر میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے‘ اُن میں سے چار (ذوالقعدہ‘ ذوالحجہ‘ محرم اور رجب المرجب) حرمت والے ہیں‘ ان مہینوں میں جنگ کو ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ کفارِ مکہ جب ان مہینوں میں جنگ کرنا چاہتے تو ان کی ترتیب میں رَدّ و بدل کر دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مہینوں کو مؤخر کرنا کفر میں زیادتی ہے۔
آیت 40 میں سفرِ ہجرت کے موقع پر غارِ ثور میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رفاقتِ خاص کو ایک شانِ امتیازی کے ساتھ بتایا اور اس آیت میں چھ مرتبہ مختلف انداز میں سیدنا صدیق اکبرؓ کا ذکر ہوا، پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کلمۂ کفر کو پست رکھا اور اللہ کا دین ہی سربلند ہے۔ آگے فرمایا کہ جب جہاد کیلئے عام لام بندی کا حکم ہو جائے تو پھر جس حال میں بھی ہو‘ تمام وسائل کے ساتھ جہاد میں شریک ہو جائو۔ پھر فرمایا کہ منافقین قسمیں کھا کھا کر اور طرح طرح کے بہانے بنا کرجہاد سے پہلو تہی اختیار کریں گے‘ جبکہ سچے مومن دل و جان سے جہاد کیلئے نکل کھڑے ہوں گے۔ مزید فرمایا کہ جہاد سے پہلوتہی اختیار کرنے والے وہی لوگ ہیں‘ جن کا اللہ اور قیامت پر ایمان نہیں اور جن کے دلوں میں شک کی بیماری ہے‘ ایسے تشکیک کے مارے جنگ میں شامل بھی ہو جائیں تو فساد کا باعث بنتے ہیں اور مجاہدین کی صفوں میں فتنے اور سازشیں کرتے ہیں اور یہ لوگ پہلے بھی ایسا کرتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''اے رسولؐ! کہہ دیجئے کہ ہمیں ہرگز کوئی مصیبت نہیں پہنچتی‘ سوائے اس کے جو اللہ نے ہمارے لیے مقدر کر دی ہے‘‘۔ آیت 60 میں اللہ تعالیٰ نے صدقاتِ واجبہ اور زکوٰۃ کے مصارف (مستحقین) کو قطعیت کے ساتھ بیان کیا‘ جو یہ ہیں: فقراء‘ مساکین‘ عاملینِ زکوٰۃ‘ مؤلَّفَۃُ القلوب‘ غلامی سے گردن کو آزاد کرنا‘ جو قرض کے بار تلے دبے ہوئے ہوں‘ فی سبیل اللہ (یعنی جنہوں نے اپنے آپ کو کل وقتی طور پر اللہ کے دین کی کسی خدمت کیلئے وقف کر رکھا ہو) اور مسافر۔ آیت61 میں فرمایا کہ بعض منافق اللہ کے نبی کو ایذا پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ کانوں کے کچے ہیں‘ جبکہ نبی کریمﷺ کا تمام لوگوں کی بات سننا مومنین کیلئے باعثِ رحمت ہے اور جو لوگ رسول کریمﷺ کو ایذا پہنچاتے ہیں‘ ان کیلئے درد ناک عذاب ہے۔ فرمایا ''منافق جھوٹی قسمیں کھا کر مسلمانوں کو راضی کرنے کا یقین دلاتے ہیں، اگر وہ سچے مومن ہوتے تو اللہ اور اس کا رسول اس کے زیادہ حق دار ہیں کہ انہیں راضی کیا جائے‘‘۔ آیت 67 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ منافق مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے مشابہ ہیں‘ وہ برائی کا حکم دیتے ہیں اور نیکی سے روکتے ہیں اور خیر کے کاموں سے اپنا ہاتھ روکے رکھتے ہیں۔ آگے چل کر فرمایا کہ مومن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں‘ وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں‘ برائی سے روکتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘ زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں۔ آیت 73سے فرمایا کہ کفار اور منافقین سے جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے‘ یہ کلمۂ کفر کہتے ہیں اور پھر قسمیں کھا کر منکر ہو جاتے ہیں۔ آیت 75 میں فرمایا کہ بعض منافق وہ ہیں‘ جو اللہ تعالیٰ سے عہد کرتے ہیں کہ اگر اللہ نے اپنے فضل سے ہمیں عطا کیا ‘تو ہم ضرور صدقہ کریں گے‘ پس جب اللہ نے اپنے فضل سے انہیں مال عطا کیا تو انہوں نے بخل کیا اور رُوگردانی کی۔ آیت 78 میں اللہ تعالیٰ نے متنبہ فرمایا کہ اللہ دلوں کے رازوں اور سرگوشیوں کو بھی جانتا ہے اور وہ غیبی باتوں کو بہت زیادہ جاننے والا ہے۔ آیت 79 میں منافقوں کا ایک شِعار یہ بتایا کہ نادار مومنین جب اپنی محنت کی کمائی سے تھوڑا سا مال صدقہ کرتے ہیں تو یہ منافق ان پر طَعن کرتے ہیں اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں‘ (اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ) اللہ ان کو ان کے مذاق کی سزا دے گا۔