علامہ ابتسام الہٰی ظہیر


چوتھے پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ''تم اس وقت تک بھلائی کو نہیں پہنچ سکتے‘ جب تک اس چیز کوخرچ نہیں کرتے‘ جو تمہیں محبوب ہے اور جوکچھ تم خرچ کرتے ہو‘ اللہ اس کو خوب جانتا ہے‘‘۔ اس آیت کے نزول کے بعد صحابہ کرامؓ نے اپنے محبوب ترین مال کو بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا شروع کر دیا تھا۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت انسؓ بن مالک سے مروی ہے کہ جناب ابوطلحہؓ بہت مالدار صحابی تھے۔ ان کا سب سے محبوب مال بیرحاء کا باغ تھا‘ جو مسجد نبوی کے بالمقابل تھا۔ رسول کریمﷺ کبھی کبھار اس باغ میں تشریف لاتے اور اس کا میٹھا پانی پیتے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے رسول کریمﷺ سے عرض کی کہ میرا سب سے محبوب مال بیرحاء کا باغ ہے‘ میں اسے اللہ تبارک و تعالیٰ کے راستے میں صدقہ کرتا ہوں۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکرکیا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے پہلا گھر مکہ مکرمہ میں تعمیر کیا گیا تھا اور ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ جو بھی اس گھر میں داخل ہوتا ہے‘ اس کو امان حاصل ہو جاتی ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کا بھی ذکر کیا کہ اگر اہلِ ایمان‘ اہلِ کتاب کے کسی گروہ کی اطاعت اختیار کریں گے تو وہ ان کو ایمان کی سرحدوں سے نکال کر کفر کی حدود میں داخل کر دے گا۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے تمام مومنوں کو اس بات کی نصیحت کی کہ ان کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لینا چاہیے اور تفرقے میں نہیں پڑنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی رسی سے مراد قرآنِ مجید ہے۔ اگر تمام مسلمان مضبوطی کے ساتھ قرآنِ پاک کو تھام لیں تو ان کے باہمی اختلافات بہ آسانی دور ہو سکتے ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ قیامت کے دن اہلِ ایمان کے چہرے سفید اور ایمان کو ٹھکرانے والوں کے چہرے سیاہ ہو ں گے۔ سفید چہروں والے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے مستحق ٹھہریں گے‘ جبکہ سیاہ چہرے والے اپنے کفر کی وجہ سے شدید عذاب سے دوچار ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ نے اس پارے میں اس بات کا بھی ذکر کیا کہ مسلمان بہترین اُمت ہیں‘ جن کی ذمہ داری نیکی کا حکم دینا اور بُرائی سے روکنا ہے؛ اگر ہم صحیح معنوں میں بہترین اُمت بننا چاہتے ہیں‘ تو ہمیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے راستے پر چلنا چاہیے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ جب مسلمانوں کو کوئی تکلیف پہنچے تو کافر خوش ہوتے ہیں اور جب ان کو کوئی خوشی حاصل ہو تو کافر‘ غیظ و غضب میں مبتلا ہو جاتے ہیں‘ اگر مسلمان صبر اور تقویٰ کا راستہ اختیار کریں تو کافروں کی کوئی خوشی اور ناراضی مسلمانوں کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتی۔
اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے غزوۂ بدر کا ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ سے وعدہ کیا تھا کہ مسلمانوں کی نصرت کے لیے تین ہزار فرشتوں کو اتارے گا اور اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اگر کافر مسلمانوں تک رسائی حاصل کر لیں گے اور مسلمان صبر و استقامت سے ان کا مقابلہ کریں‘ تو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ پانچ ہزار فرشتوں کو مسلمانوں کی مدد کے لیے اتارے گا۔ سورۂ انفال میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں کی مدد ایک ہزار فرشتوں سے کی جائے گی‘ جن کے بعد مزید فرشتے آئیں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ فرشتوں کی مدد تو ایک خوش خبری اور بشارت ہے‘ وگرنہ اصل میں تو مدد فرمانے والی اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات بالا صفات ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ایمان والو! سود در سود کھانے سے اجتناب کرو۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنت کی طرف تیزی سے بڑھنے کی تلقین کی ہے اور کہا ہے کہ جنت کا عرض زمین اور آسمان کے برابر ہے۔ اس سورت میںاللہ تعالیٰ نے جنتی مومنوں کی یہ صفت بیان کی ہے کہ جب ان سے صغیرہ یا کبیرہ گناہوں کا ارتکاب ہو جاتا ہے تو انہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کا خوف دامن گیر ہو جاتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے سوا کون گناہوں کو معاف کر سکتا ہے۔
غزوۂ احد میں مسلمانوں کو کفار کے ہاتھوں کافی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ اس نقصان کی وجہ سے مسلمان بہت دکھی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر تمہیں زخم لگا ہے تو تمہاری طرح تمہارے دشمنوں کو بھی زخم لگا ہے اور ان ایام کو ہم لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں اور اس ذریعے سے اللہ تبارک و تعالیٰ مومنوں کو بھی جانچ لیتا ہے اور کئی لوگوں کو شہادت کا منصب بھی عطا فرما دیتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس فرمان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خوشی اور غم‘ تکلیف اور راحت سب اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ہے اور دِنوں کے پھرنے میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم لوگ اہلِ کتاب اور مشرکین سے بہت سی ایذا رسانی کی باتیں سنو گے لیکن تم نے دل گرفتہ نہیں ہونا اور صبر اور تقویٰ کو اختیار کرنا ہے، بے شک یہ بہت بڑا کام ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے نبیﷺ کے بارے میں مشرکین‘ عیسائی اور یہودی طرح طرح کی باتیں کرتے رہے اور ان کے ساتھ ساتھ منافقین کا سردار عبداللہ ابن ابی بھی اپنے ساتھیوں کی ہمراہی میں اللہ تعالیٰ کے آخری رسولﷺ کو ایذا دینے میں مصروف رہا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی مدد فرمائی اور آپﷺ کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو ناکام اور نامراد بنا دیا۔
سورۃ النساء
سورہ آلِ عمران کے بعد سورۃ النساء ہے۔ سورۃ النساء کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اس بات کی تلقین کی ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے جو اُن کا پروردگار ہے اور اس نے ان کو ایک جان‘ یعنی آدم علیہ السلام سے پیدا کیا اور ان سے ان کی زوجہ کو پیدا کیا اور پھر کثیر تعداد میں مردوں اور عورتوں کو پیدا کیا۔ اس آیت میں اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ذات پات اور برادری وجۂ عزت نہیں‘ اس لیے کہ تمام انسانوں کی اصل ایک ہی ہے۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے صنفی بدامنی کو روکنے والی ایک تدبیر بھی بتلائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''تم اپنی من پسند دو‘ تین اور چار عورتوں سے نکاح کر سکتے ہو؛ تاہم اگر تم محسوس کرو کہ تم انصاف نہیں کر سکتے تو ایسی صورت میں ایک ہی کافی ہے‘‘۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے وراثت کے مسائل کو بھی بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے والد کی جائیداد میں سے بیٹوں کا بیٹیوں کے مقابلے میں دُگنا حصہ رکھا ہے۔ اگر کسی انسان کی صرف بیٹیاں ہوں تو اس صورت میں وہ انسان کی دو تہائی جائیداد کی مالک ہوں گی اور اگر صرف ایک بیٹی ہو تو وہ نصف جائیداد کی مالک ہو گی۔
شوہر اپنی بیوی کی جائیداد میں ایک چوتھائی حصے کا مالک ہو گا‘ جبکہ بیوی اپنے شوہر کی جائیداد میں آٹھویں حصے کی مالک ہو گی۔ والد اور والدہ کا اپنے بیٹے کی جائیداد میں چھٹا حصہ ہو گا‘ اسی طرح بے اولاد شخص کی جائیداد اس کے بہن بھائیوں میں تقسیم ہو گی۔ جائیداد کی تقسیم سے قبل انسان کے ذمہ واجب الادا قرض کو ادا کرنا چاہیے اور اگر اس نے کسی کے حق میں کوئی وصیت کی ہو‘ جو ایک تہائی سے زیادہ نہیں ہو سکتی‘ تو اس کو ادا کرنا چاہیے۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے حق مہر کے حوالے سے ارشاد فرمایا کہ ''انسان اپنی بیوی کو حق مہر کے طور پر خزانہ بھی دے سکتا ہے اور انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ حق مہر دینے کے بعد اس کو واپس لینے کی کوشش کرے‘‘۔ حکم ہوا کہ حق مہر کم ہو یا زیادہ‘ ادا کرنا چاہیے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دُعا ہے کہ ہمیں قرآن مجید پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!