علامہ ابتسام الہٰی ظہیر


تیسرے پارے کا آغاز بھی سورہ بقرہ سے ہوتا ہے۔ تیسرے پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا کہ اللہ کے بعض رسولوں کو دوسرے رسولوں پر فضیلت حاصل ہے‘ ان میں سے بعض نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کلام کیا اور بعض کے درجات کو اللہ رب العزت نے بلند فرما دیا اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ تمام رسولوں میں سے سب سے زیادہ بلند مقام ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیﷺ کا ہے۔ اس پارے میں آیت الکرسی ہے‘ جو قرآنِ مجید کی سب سے افضل آیت ہے۔ آیت الکرسی کی تلاوت کرنے والے کو اللہ تعالیٰ شیاطین کے حملوں سے محفوظ فرما لیتے ہیں۔ تیسرے پارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سے اہم واقعات بھی بیان کیے ہیں۔ پہلا واقعہ جناب ابراہیم علیہ السلام کا دربارِ نمرود میں اُس کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کے بارے میں مناظرانہ مکالمے کا ہے۔ جس وقت ابراہیم علیہ السلام دربارِ نمرود میں جا کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی تبلیغ کرتے ہیں‘ تو ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں کہتے ہیں: میرا پروردگار زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے۔ جواب میں نمرود کہتا ہے کہ میں بھی مارتا ہوں اور زندہ کرتا ہوں۔ اپنے اس مفروضے کو ثابت کرنے کے لیے اس ظالم نے ایک مجرم کو آزاد کر دیا اور ایک بے گناہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اس کے مکر کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق سے لے کر آتا ہے‘ پس تُو اس کو مغرب سے لے کر آ۔ یہ بات سن کر نمرود کے لبوں پر چپ کی مہر لگ گئی‘ اس لیے کہ وہ جانتا تھا کہ اس مطالبے کو پورا کرنا ناممکن ہے۔ آگے چل کر بیان ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے سوال کیا: اے اللہ ! میں اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہوں کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ کیا اس حقیقت پر تمہارا ایمان نہیں ہے؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ اے رب ! میرا ایمان ہے کہ تو مردوں کو زندہ کرے گا اور انہیں نیکی و بدی کا بدلہ دے گا، لیکن اس حقیقت کے بارے میں عین الیقین کا درجہ حاصل کرنا چاہتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کرلی، اور کہا کہ چار پرندوں کو ذبح کر کے ایک ساتھ ملا دو اور انہیں مختلف پہاڑوں پر ڈال دو، پھر انہیں بلاؤ، وہ تمہارے پاس اڑتے چلے آئیں گے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایسا ہی کیا اور وہ سب پرندے اڑتے ہوئے ان کے پاس آگئے۔ اسی پارے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر علیہ السلام کے اس واقعے کا بھی ذکر کیا ہے کہ وہ ایک اجڑی ہوئی بستی کے پاس سے گزرے اور کہا کہ یہ بستی کیونکر دوبارہ زندہ (آباد) ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر علیہ السلام کو سو برس کے لیے سلا دیا اور پھر ان کو دوبارہ زندہ کر دیا۔ حضرت عزیر علیہ السلام اور جناب ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ یہ بات سمجھاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے قیامت کے دن مردوں کو زندہ کرنا چنداں مشکل نہیں ہے اور جب اللہ تبارک و تعالیٰ انسانوں کو زندہ ہونے کا حکم دیں گے‘ تو سبھی مردہ انسان بالکل صحیح حالت میں اٹھ کر کھڑے ہوں گے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے انفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت کا بھی ذکر کیا ہے اور بتلایا کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کیے گئے مال کو اللہ تعالیٰ سات سو گنا کر کے پلٹائیں گے اور کئی لوگوں کو اس سے بھی زیادہ بدلہ ملے گا۔ اس پارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سود کی بھی مذمت کی اور کہا کہ جو لوگ سود کھانے سے باز نہیں آتے‘ ان کا اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔
سورۂ آلِ عمران: سورہ بقرہ کے بعد سو رہ آلِ عمران ہے۔ سورہ آلِ عمران کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کو حق کے ساتھ نازل فرمایا جو سابقہ کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور اس سے قبل اس نے تورات اور انجیل کو نازل فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میں اس امر کا بھی ذکر کیا کہ وہ رحمِ مادر میں انسانوں کو جس طرح چاہتا ہے‘صورت عطا فرما دیتا ہے‘ وہ بغیر رنگ‘ روشنی اورکینوس کے‘ دھڑکتے ہوئے دل والا انسان بنا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں یہ بھی بتلایا کہ قرآنِ مجید میں دو طرح کی آیات ہیں‘ ایک محکم اور دوسری متشابہ۔ فرمایا کہ محکم آیات کتاب کی اصل ہیں اور متشابہات کی تاویل کا حقیقی علم صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کے پاس ہے۔ جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہوتا ہے وہ متشابہات کی تاویل کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں اور اہلِ ایمان کہتے ہیں‘ جو کچھ بھی ہمارے رب نے اتارا‘ ہمارا اس پر کامل ایمان ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے اس لیے جو آخرت کی فلاح و بہبود کا خواہش مند ہے‘ اس کو اسلام کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ اللہ نے حضرت آدم‘ حضرت نوح‘ آلِ ابراہیم اور آلِ عمران کو دنیا پر فضیلت عطا فرمائی تھی۔ سورہ آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ نے جنابِ عمران کی اہلیہ کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے منت مانی کہ وہ اپنے نوزائیدہ بچے کو اللہ تبارک وتعالیٰ ٰ کے لیے وقف کر دیں گی۔ آپ کے یہاں پر بچے کے بجائے بچی کی ولادت ہوئی۔ جناب عمران کی اہلیہ نے اپنی منت کو بچی ہونے کے باوجود پورا کیا اور اس بچی کا نام مریم رکھ کر اس کو جناب زکریا علیہ السلام کی کفالت میں دے دیا۔ اللہ تعالیٰ نے جناب مریم کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما لیا اور آپ کے بچپن سے لے کر جوانی تک کے تمام ایام اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی میں صرف ہوتے رہے‘ یہاں تک کہ بارگاہِ الٰہی سے آپ کے لیے یہ کرامت بھی ظاہر ہوئی کہ آپ کے پاس بے موسم کے پھل آنے لگے۔ حضرت زکریا علیہ السلام‘ جو حضرت مریم کے خالو بھی تھے‘ ایک دن اس محراب میں داخل ہوئے‘ جہاں سیدہ مریم عبادت میں مشغول رہتی تھیں۔ انہوں نے سیدہ مریم سے پوچھا کہ آپ کے پاس یہ بے موسم کے پھل کہاں سے آتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں‘ وہ جس کو چاہتا ہے‘ بلاحساب رزق دیتا ہے۔ حضرت زکریا علیہ السلام بے اولاد تھے اور آپ کی بیوی بانجھ تھیں۔ سیدہ مریم کے پاس بے موسم کے پھل دیکھ کر جناب زکریا علیہ السلام بھی رحمتِ الٰہی سے پُرامید ہو گئے اور آپ علیہ السلام نے دعا مانگی: اے میرے پروردگار! مجھے بھی اپنی طرف سے پاک اولاد عطا فرما۔ حضرت زکریا علیہ السلام محراب میں نماز ادا فرما رہے تھے کہ فرشتے نے آپ کو پکارکر کہا: ''اے زکریا! آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یحییٰ نامی پارسا اور سردار بیٹے کی بشارت ہو‘‘۔ حضرت زکریا علیہ السلام اس کے بعد تین دن تک خلوت نشین ہوکر اللہ تبارک وتعالیٰ کے ذکر اور تسبیح میں مشغول رہے۔
اس کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے جناب مریم کے ہاں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی معجزاتی ولادت کا ذکر کیا ہے۔ سیدہ مریم کا دل اس بات کو قبول نہیں کر رہا تھا‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو بنا شوہر کے ایک بیٹا عطا کیا‘ جو اللہ کے حکم سے کوڑھ اور برص کے مریضوں پر ہاتھ پھیرتا تو وہ شفایاب ہو جاتے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے لوگوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے گھر میں کھائے جانے اور باقی رہ جانے والے کھانے کی بھی خبر دیتے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی معجزاتی پیدائش کی وجہ سے عیسائی ان کو اللہ کا بیٹا قرار دینے لگے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم جیسی ہے‘ جن کو اللہ نے بن باپ اور بن ماں کے مٹی سے پیدا کیا اور کہا 'ہو جا‘ تو وہ ہو گئے۔ اس سورہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ کفار حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جان کے درپے تھے۔ اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بشارت دی کہ میں آپ کو زندہ اٹھا لوں گا اور کفار آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکیں گے۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں رسول کریمﷺ کے مقام کا بھی ذکرکیا ہے کہ عالم ارواح میں اللہ نے انبیاء کرام علیہم السلام کی روحوں سے اس بات کا عہد لیا تھا کہ اگر ان کی زندگی میں محمد رسول اللہﷺ آ جائیں تو پھر ان پر ایمان لانا اور ان کی حمایت کرنا گروہِ انبیاء پر لازم ہو گا۔ اس پارے کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ کفر پر مرنے والے اگر زمین کی مقدار کے برابر سونا بھی لے کر آئیں تو اللہ تعالیٰ اس سونے کے بدلے میں بھی انہیں معاف نہیں کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔