علامہ ابتسام الہٰی ظہیر


قرآنِ پاک کے اٹھائیسویں پارے کا آغاز سورۃالمجادلہ سے ہوتا ہے۔ سورۂ مجادلہ کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے سیدہ خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ ذکر کیا ہے کہ جن کے شوہر نے ناراضی میں ان کو کہہ دیا تھا کہ تم میرے لیے میری ماں کی پشت کی طرح ہو۔ یہ درحقیقت عربوں کا ایک رواج تھا جسے 'ظِہار‘ کہا جاتا تھا۔ یہ طلاق ہی کی ایک قسم تھی جس سے بیوی شوہر پر حرام ہو جاتی تھی۔ حضرت خولہؓ اس معاملے پر رہنمائی حاصل کرنے کے لیے رسول کریمﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں تو آپﷺ نے بھی اس مسئلے پر رخصت دینے سے تردد فرمایا (سیدہ خولہ رضی اللہ عنہا نے اس مسئلے پر آپﷺ سے مزید بات کرنا چاہی تو آپﷺ نے ان سے اعراض کر لیا) اس پر سیدہ خولہ رضی اللہ عنہا نے بارگاہ رب العالمین میں دعا مانگی کہ اے اللہ! اس سلسلے میں میری مدد فرما۔ اللہ تعالیٰ نے سیدہ خولہ رضی اللہ عنہا کی فریاد سن لی اور حضرت رسول کریمﷺ پر وحی نازل فرمائی کہ اللہ نے اس عورت کی بات سن لی ہے‘ جو آپﷺ سے اپنے شوہر کے بارے میں بحث کر رہی تھی اور اللہ تعالیٰ آپ دونوں کا مکالمہ سن رہا تھا‘ بے شک اللہ خوب سننے اور بڑا دیکھنے والا ہے۔ اس کے بعد اللہ نے ''ظہار‘‘ کے کفارے کے لیے حکم نازل فرما دیا کہ جو لوگ اپنی بیویوں سے ''ظہار‘‘ کریں اور پھر اپنی کی ہوئی بات سے رجوع کرنا چاہیں تو انہیں یا تو ایک غلا م آزاد کرنا ہو گا یا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا ہو ں گے اور ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہو گا۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے محبت اور نفرت کا معیار بھی بتایا کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والا کوئی شخص ایسا نہیں‘ جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے دشمن کے بارے میں محبت ہو۔ جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے لیے محبت ہے‘ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے نفرت کرتا ہے‘ چاہے وہ اس کا قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو۔
سورۃالحشر: سورۂ مجادلہ کے بعد سورۂ حشر ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں‘ جو رسول اللہﷺ عطا کرتے ہیں اس کو تھام لیا کرو اور جس سے روکتے ہیں‘ اس سے رک جایا کرو۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کے تین طبقوں کا ذکر کیا ہے۔ ایک طبقہ وہ کہ جنہوں نے اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے ہجرت کی اور اپنے گھر بار اور اموال کو اللہ تعالیٰ کے فضل اور خوشنودی کے حصول کے لیے خیرباد کہہ دیا، دوسرا طبقہ انصاری صحابہ کرام کا تھا‘ جو مہاجرین سے محبت کرتے تھے اور ان کو دیے گئے مال کے بارے میں اپنے دل میں معمولی سی تنگی بھی محسوس نہیں کرتے تھے اور انہیں اپنے آپ پر ترجیح دیتے تھے‘ چاہے انہیں خود تنگی کا سامنا کرنا پڑتا ہو۔ تیسرا طبقہ مہاجرین اور انصار کے بعد آنے والے اہلِ ایمان کا تھا‘ جو مہاجرین اور انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے لیے یا اپنے سے پیشتر دنیا سے چلے جانے والے مومنوں کے لیے دعا مانگتے تھے کہ اے ہمارے رب! تُو ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو معاف فرما جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمان لانے والوں کے بارے میں کینہ پیدا نہ فرما، بے شک تو بڑی شفقت اور بہت رحم کرنے والا ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعا لیٰ نے اس امر کا بھی ذکر کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید کو کسی پہاڑ پر نازل فرماتے تو پہاڑ اللہ تعالیٰ کے خوف سے ریزہ ریزہ ہو جاتا اور ان مثالوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ غور و فکر کرنے والوں کے لیے بیان فرماتے ہیں۔ سورۃالحشر کی آخری تین آیات میں اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنیٰ کا ذکر ہوا ہے۔
سورۃالممتحنہ : سورۂ حشر کے بعد سورۂ ممتحنہ ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو اسلام کے دشمنوں سے برأت کرنے کاحکم دیا ہے اور اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کے کردار کو نمونے کے طور پر اہلِ ایمان کے سامنے رکھا ہے کہ جنہوں نے مشرکوں اور غیر اللہ کے پجاریوں سے کامل برأت کا اظہار کیا تھا۔ اس سورت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ بھی بتلایا ہے کہ وہ کافر جو مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں اور ان کے خلاف سازشیں نہیں کرتے‘ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے اور جو کافر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں‘ ان کے ساتھ سختی والا معاملہ کرنا چاہیے۔ اس سورت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمان عورتوں کے کافر مردوں کے ساتھ نکاح کو ناجائز قرار دیا ہے اور یہ بھی بتلایا ہے کہ اگر کافر عورت‘ ہجرت کر کے اہلِ ایمان کے پاس آ جائے تو اہلِ ایمان کو حق مہر ادا کرنے کی صورت میں اس عورت کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت ہے۔
سورۃ الصف: اس کے بعد سورۂ صف ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو اللہ کے راستے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح صف باندھ کر لڑتے ہیں۔ اس سورت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کے اس فرمان کا بھی ذکر کیا کہ انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں کو کہا تھا کہ تم مجھے کیوں تکلیف دیتے ہو‘ جبکہ تمہارے علم میں ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ جب وہ سیدھے راستے پر نہ آئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا۔
سورۃ الجمعہ : اس کے بعد سورۃ الجمعہ ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہود کے ان علماء کا ذکر کیا ہے جو توریت کو پڑھتے تو ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے‘ جیسے گدھے پر کتابوں کو لاد دیا جائے جو کتابوں کا بوجھ تو اٹھا سکتا ہے لیکن اس کے معنی اور مفہوم کو سمجھ نہیں سکتا۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو نمازِ جمعہ کے آداب بتلائے ہیں کہ جب جمعہ کی اذان ہو جائے تو کاروبار چھوڑ کر فوراًجمعہ کی طرف متوجہ ہو جانا چاہیے اور جب جمعہ کی نماز کو ادا کر لیا جائے تو اس کے بعد کاروبار کرنے کی اجازت ہے۔
سورۃ المنافقون ـ: سورۂ جمعہ کے بعد سورۂ منافقون ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا ذکر کیا کہ منافق رسول کریمﷺ کے پاس آ کے قسمیں کھا کھا کر شہادت دیتے تھے کہ آپﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ کو پتا ہے کہ یقینا آپﷺ اس کے رسول ہیں‘ لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق جھوٹ بولتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ذکر کیا کہ دنیا کا مال و دولت اور ان کے جسموں کی کیفیت دیکھ کر عام انسان متاثر ہوتا ہے‘ لیکن منافقوں کے لیے آخرت میں کچھ بھی نہیں ہے۔
سورۃ التغابن : اس کے بعد سورۂ تغابن ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو مصیبت بھی آتی ہے‘ اللہ کے حکم سے آتی ہے اور جو کوئی اللہ پر ایمان لاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی رہنمائی فرما دیتے ہیں۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جس حد تک ممکن ہو‘ اللہ تعالیٰ کے ڈر (تقویٰ) کو اختیار کرنا چاہیے۔
سورۃ الطلاق : اس کے بعد سورۃ الطلاق ہے۔ سورۂ طلاق میں اللہ تعالیٰ نے طلاق کی مختلف عدتوں کا ذکر کیا ہے کہ بوڑھی عورت کی عدت تین ماہ ہے جبکہ عام عورت کی عدت تین حیض ہے اور حاملہ کی عدت وضع حمل تک ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے فوائد کا بھی ذکر کیا کہ جو تقویٰ کو اختیار کرتا ہے‘ اللہ تعالیٰ اس کی تنگیوں کو دور فرما دیتے ہیں‘ اس کے معاملات کو آسان فرما دیتے ہیں اور اس کو رزق وہاں سے عطا کرتے ہیں‘ جہاں سے انسان گمان بھی نہیں کر سکتا۔
سورۃ التحریم: اس کے بعد سورۂ تحریم ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے کامیابی کو ایمان و عمل سے مشروط کیا ہے اور ازواجِ مطہراتؓ اور اہلِ ایمان کو سیدنا نوح علیہ السلام اورسیدنا لوط علیہ السلام کی بیویوں کا حوالہ دیا ہے کہ وہ نبیوں کی رفاقت میں رہ کر بھی اپنی بدعملی کی وجہ سے ناکام ہو گئیں اور ان کے مدمقابل فرعون کی بیوی آسیہ سلام اللہ علیہا اورسیدہ مریم سلام اللہ علیہا کامیاب رہیں کہ جنہوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی بندگی کو اختیار کیا اور اپنے کردار کو ہر طرح کی آلودگی سے بچا لیا۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں قرآنِ مجید میں مذکور مضامین سے نصیحت حاصل کرنے اور اس کی تعلیمات پر عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین!