علامہ ابتسام الہٰی ظہیر


سورۃ الذاریات: قرآنِ پاک کے ستائیسویں پارے کا آغاز سورۃ اَلذَّارِیَات سے ہوتا ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں اور جنات کی تخلیق کے مقصد کا بھی ذکر کیا ہے کہ جنات اور انسان کی تخلیق کا مقصد صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ نہ تو مجھے ان سے رزق کی طلب ہے اور نہ میں نے کبھی ان سے کھانا مانگا ہے۔
سورہ طور: اس کے بعد سور ہ طور ہے۔ سورہ طور میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے طور پہاڑ‘ بیت معمور‘ بلند و بالا آسمان‘ سمندر کی لہروں اور کتابِ مقدس کی قسم اٹھا کر کہا ہے کہ قیامت کا دن ضرور آ ئے گا اور اس دن پہاڑ چلنے لگیں گے۔ اس دن یومِ جزا کو جھٹلانے والوں کو جہنم کی آگ کا سامنا کرنا پڑے گا اور ان کو کہا جائے گا کہ یہ وہ آگ ہے‘ جس کا تم انکار کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس بات کاذکر کیا ہے کہ اہلِ تقویٰ جنت اور نعمتوں میں پروردگارکی عطاؤں سے بہرہ مند ہو رہے ہوں گے اور ان کا رب ان کو عذابِ جہنم سے بچا لے گا۔ ان سے کہا جائے گا کہ اپنے اعمال کے بدلے جو جی چاہے کھاؤ اور پیو اور وہ ایک دوسرے سے جڑے قطارمیں بچھے تختوں پر ٹیک لگائے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کشادہ اور بڑی آنکھوں والی حوروں کو ان کی زوجیت میںد ے گا اور اہلِ ایمان کی اولاد نے بھی‘ اگر ایمان اور اعمالِ صالح میں اپنے آبا کی پیروی کی ہو گی‘ تو اللہ تبارک و تعالیٰ جنت میں ان کی اولاد کو بھی ان سے ملا دیں گے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا بھی ذکر کیا ہے کہ رسولِ کریمﷺ نہ تو (معاذ اللہ) کاہن تھے اور نہ ہی شاعر۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر کافر اپنے الزامات میں سچے ہیں تو ان کو چاہیے کہ قرآنِ مجید جیسی کوئی دلیل‘ کوئی بات پیش کریں۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کو نہیں مانتے ان کو سوچنا چاہیے کہ ان کو کس نے بنایا ہے یا وہ خود ہی اپنے خالق ہیں؟ درحقیقت اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات کا انکار کرنے والوں کے دلائل انتہائی کمزور اور کھوکھلے ہیں۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو صبر کی تلقین بھی کی اور کہا کہ آپ اپنے پروردگار کے حکم پر صبر کریں‘ بے شک آپ میری آنکھوں کے سامنے ہیں‘ یعنی جو صبر بھی رسول کریمﷺ کریں گے‘ اللہ تعالیٰ اس سے بخوبی آگاہ ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور معیت ہمیشہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتی ہے۔
سورۃ النجم: سورۂ طور کے بعد سورۂ نجم ہے اور اس سورۂ مبارکہ میں پروردگار عالم نے فرمایا ہے کہ رسول اللہﷺ اس وقت تک کوئی کلام نہیں کرتے‘ جب تک مالکِ کائنات ان پر وحی کا نزول نہیں فرماتے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریمﷺ کے سفرِ معراج کا بھی ذکر کیا ہے اور یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ انہوں نے سفرِ معراج میں اپنے پروردگار کی بہت سی نشانیوں کو دیکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: کیا جو میرے بندے نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تم اس پر شک کرتے ہو؟ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ کفرکے اس باطل عقیدے کابھی ذکرکیا ہے کہ وہ فرشتوں کو عورتیں قرار دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے‘ وہ فرشتوں کو عورتیں قرار دیتے ہیں اور ان کے پاس اس حوالے سے کچھ بھی علم نہیں۔ وہ لوگ صرف وہم اور گمان کی پیروی کرتے ہیں‘ جبکہ گمان حق کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ کبیرہ گناہوں اور فحاشی کے کاموں سے اجتناب کرتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے گا۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کی وسعت کا بھی ذکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو اس وقت سے جانتے ہیں ‘جب ان کے خمیروں کو مٹی سے اٹھایا گیا اور جب وہ اپنی مائوں کے پیٹوں میں (جنین کی حیثیت سے) موجود تھے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کے صحیفوں اور موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہونے والی وحی کے اہم مضامین کا ذکر کیا کہ ان صحیفوں میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرما دیا تھا کہ بے شک انسان کے لیے وہی کچھ ہے‘ جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور وہ اپنی کوشش کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو قرآن مجید پر تعجب کرتے ہیں اور رونے کے بجائے ہنسی مذاق میں اپنا وقت بِتا رہے ہیں اور موسیقی سننے میں اور دیگر لغویات میں اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہونا چاہیے اور اُسی کی عبادت کرنی چاہیے۔
سورۃ القمر: اس کے بعد سورۂ قمر ہے‘ جس کے شروع میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا۔ شقِ قمرکا واقعہ رسول اللہﷺ کی ہجرت سے تقریباً پانچ برس قبل رونما ہوا تھا اور چاند جبل حرا کے دونوں طرف ہو گیا تھا۔ اتنی بڑی نشانی کو دیکھ کر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کافرایمان لے آتے لیکن وہ سرکشی پرتلے رہے‘ جس پر اللہ تعالیٰ نے اعلان فرما دیا۔ کفار اگرکوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو ایک جادو ہے‘ جو پہلے سے چلا آ رہا ہے۔ سورۃ القمر میں اللہ تعالیٰ نے قوم نوح‘ قوم لوط‘ قوم عاد اور قوم ثمود کا ذکر کیا کہ جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنیں۔ قوم نوح پر سیلاب‘ قوم عاد پر ہوا‘ قوم ثمود پر چیخ اور قوم لوط پر پتھروں کی بارش کو برسایا گیا۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اس حقیقت کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کو سمجھنے والوں کے لیے آسان بنا دیا‘ پس ہے کوئی جو نصیحت کو حاصل کرے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے متقیوں کے مقام کا ذکر کیا کہ بے شک پرہیزگار لوگ جنت اور نہروں میں ہوں گے‘ اپنے حقیقی گھروں میں مقتدر بادشاہ کے پاس۔
سورۃ الرحمن: سورۂ رحمن میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ رحمن نے قرآنِ مجید سکھلایا‘ انسان کو بنایا اور اس کو بیان کرنے کی صلاحیت عطا فرمائی۔ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور ستارے اور درخت اللہ تبارک و تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں۔ اسی نے آسمان کو بنایا اور ترازو کو قائم کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسانوں کو چاہیے کہ ترازو کو صحیح طریقے سے قائم کیا کریں اور تولنے میں کوتاہی نہ کیا کریں۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے زمین کی تخلیق کا بھی ذکر کیا اور اس میں مختلف طرح کے پھلوں اور خوشبوئوں کو پیدا فرمایا اور انسانوں اور جنات کو مخاطب ہو کر کہا کہ تم دونوں گروہ پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے؟ اللہ تبارک و تعالی نے اس سورۂ مبارکہ میں جنت کے حسین مناظرکو بیان کیا ہے کہ جو شخص اپنے رب کے مقام سے ڈرتا ہے‘ اس کے لیے دو باغات ہیں۔ وہ دونوں باغ سبز شاخوں والے ہوں گے۔ ان دونوں باغوں میں دوچشمے رواں ہوں گے۔ ان دونوں میں ہر پھل کی دو قسمیں ہوں گی۔ اس سورۂ مبارکہ کے آخر میں اللہ تبارک وتعالیٰ ذوالجلال والاکرام نے اپنے نام کے بابرکت ہونے کا بھی ذکر کیا ہے۔
سورۃ الواقعہ: سورۃ الرحمن کے بعد سورۂ واقعہ ہے۔ سورۂ واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے تین گروہوں کا ذکر کیا۔ ایک گروہ مقربین کا‘ دوسرا عام جنتیوں کا اور تیسرا گروہ جہنمیوں کا ہے۔ مقربین کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی نعمتوں کو تیار کیا ہے جبکہ عام جنتی بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی عنایات پر شاداں و فرحاں ہوں گے‘ ان کے برعکس جہنمیوں کو تھوہر کا درخت کھانا پڑے گا‘ جس سے ان کے معدے ابل اور پگھل جائیں گے اور ان کو پیپ اور بھاپ والا پانی پلایا جائے گا۔
سورۃ الحدید: سورۃ الواقعہ کے بعد سورۃ الحدید ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کا ذکر کیا کہ وہ اول بھی ہے اور آخر بھی‘ ظاہر بھی ہے اور پوشیدہ بھی اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ اس سورت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے صحابہ کرام ؓکی دو جماعتوں کا بھی ذکر کیا کہ فتح مکہ سے پہلے اسلام لانے والے صحابہ کرامؓ کا مقام فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والوں کے مقابلے میں زیادہ ہے؛ البتہ دونوں گروہ جنتی ہیں۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ کتاب کی ایمانی حالت کا بھی ذکرکیا ہے کہ کتاب کے نزول کا ایک عرصہ بیت جانے کے بعد ان کے دل سخت ہوگئے اور ان کی اکثریت گناہ گار ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو تلقین فرماتے ہیں کہ ان کی مانند مت ہو جانا۔
دعاہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآنِ مجید میں مذکور مضامین اور حقائق سے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق دے، آمین!