علامہ ابتسام الہٰی ظہیر


قرآنِ پاک کے پچیسویں پارے کا آغاز سورہ حم سجدہ سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پچیسویں پارے کے شروع میں ارشاد فرماتے ہیں کہ قیامت کا علم اسی کی طرف لوٹایا جاتا ہے‘ اسی طرح ہر اُگنے والے پھل کا علم اس کے پاس ہے اور ہر عورت کے حمل اور اس کے بچے کی پیدائش کا علم اللہ کے پاس ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ خود بنانے والے ہیں‘ اس لیے ان سے کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کافروں کو پکارے گا اور پوچھے گا کہ وہ کہاں ہیں جنہیں تم نے میرا شریک قرار دے رکھا تھا؟ تو کافر کہیں گے کہ ہمیں ان کی کچھ خبر نہیں اور جن کو وہ خدا کے سوا پکارتے ہوں گے‘ وہ سب غائب ہو جائیں گے اور کافر یقین کر لیں گے کہ آج اللہ کے سوا کوئی مخلص نہیں‘اس کے در کے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہیں۔ لیکن اس موقع پر کسی کا ایمان لانا اسے نفع نہ دے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سورۂ مبارکہ میں فرماتے ہیں کہ انسان بھلائی کی دعائیں کرتے ہوئے نہیں تھکتا لیکن جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو مایوس ہو جاتا ہے اور آس توڑ بیٹھتا ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا ہے کہ وہ انسان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذاتوں میں بھی‘ یہاں تک کہ انسانوں کو یقین ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ ہی حق ہے۔
سورۃ الشورٰی: اس کے بعد سورۃ الشوریٰ ہے۔ سورۃ الشورٰی میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا ذکر کیا ہے کہ فرشتے اپنے رب کی پاکی اور اس کی تعریف بیان کرتے ہیں اور زمین میں رہنے والے اہلِ ایمان کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی مخلوق پر کس قدر مہربان ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نورانی فرشتے جہاں اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں‘ وہیں پر اللہ کے حکم سے اہلِ ایمان کے لیے دعائے مغفرت بھی کرتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نے آپﷺ پر قرآنِ عربی کی وحی کی ہے تاکہ آپﷺ ام القریٰ (مکہ مکرمہ) اور اس کے گرد بسنے والوں کو قیامت کے دن سے ڈرائیں‘ جس کی آمد میں کوئی شبہ نہیں ہے اور جب ایک گروہ جنت میں جائے گا اور ایک گروہ جہنم میں۔ رسول کریمﷺ سے پہلے جتنے بھی انبیاء کرام مبعوث ہوئے‘ وہ سب کے سب اپنی بستیوں‘ اپنے علاقوں اور اپنی اقوام کے لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے رہے‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو جمیع انسانیت کا رہنما بنایا اور آپﷺ کی دعوت مکہ مکرمہ سے شروع ہوئی‘ جو بستیوں کی ماں یعنی ان کا مرکز ہے اور اس کے بعد یہ پوری دنیا میں پھیل گئی۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب قیامت کا دن آئے گا تو آپ اس دن ظالموں کو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے خوفزدہ دیکھیں گے اور اس کا وبال ان پر آ کر رہے گا اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے تو وہ جنت کے باغات میں ہوں گے۔ اس سورت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول کریمﷺ کو تلقین کی کہ آپ اعلان فرما دیں کہ میں دین کی دعوت کے سلسلے میں کسی اجر کا طلبگار نہیں ہوں‘ لیکن میں اتنا ضرور چاہوں گا کہ میرے اعزہ و اقارب سے پیار کا سلوک کیا جائے۔ انبیاء کرام علیہم السلام دعوتِ دین کا کام صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا کے لیے کرتے ہیں اور اس کے بدلے وہ دنیا کی زندگانی اور آسائشوں کے طلبگار نہیں ہوتے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ انسان کو زندگی میں جتنی بھی مصیبتیں آتی ہیں‘ ان کا بنیادی سبب انسان کے اپنے گناہ ہوتے ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ بہت سے گناہوں کو نظر انداز فرما دیتے ہیں۔ قرآنِ مجید فرقانِ حمیدکے ایک اور مقام پر ارشاد ہوا کہ اگر اللہ تعالیٰ انسانوں پر گرفت فرمائیں تو زمین پر کو ئی مخلوق زندہ باقی نہ رہے۔ اس سورت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ مسلمانوں کے تمام کام مشاورت سے طے ہوتے ہیں‘ یعنی حقیقی مسلمان ہر کام میں اپنی رائے کو مقدم سمجھنے کے بجائے مشاورت کے راستے کو اختیار کرتا ہے۔
سورۃ الزخرف: سورۃ الشوریٰ کے بعد سورۃ الزخرف ہے۔ سورۃ الزخرف میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس قرآن کو عربی میں اتارنے کی وجہ یہ تھی کہ اہلِ عرب اس زبان کو جانتے تھے اور اس کو پڑھ کر وہ شعور حاصل کر سکتے ہیں اور یہ بھی بتلایا گیا کہ اپنے نزول سے قبل قرآنِ مجید‘ لوحِ محفوظ میں موجود تھا۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کیا کہ انہوں نے اپنے والد اور قوم کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ میں تمہارے معبودوں سے برأت کا اظہار کرتا ہوں اور میرا پروردگار کہ جس نے مجھے پیدا کیا ہے‘ یقینا وہی میری رہنمائی کرے گا۔ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اس بات کو اپنی اولاد میں بھی جاری فرما دیا تاکہ وہ حق کی طرف رجوع کرتے رہیں۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مشرکین مکہ کی معاندانہ روش کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وہ کہتے تھے کہ یہ قرآن مکہ اور طائف کے کسی بااثر شخص پر کیوں نہیں اترا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یوں دیا کہ کیا میری رحمتوں کو تقسیم کرنا ان کے اختیار میں ہے؟ میں جب چاہتا ہوں اور جہاں چاہتا ہوں اپنی رحمت کو اتار دیتا ہوں۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اعراض کرتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ شیطان کو ان کا ساتھی بنا دیتے ہیں اور وہ راہِ ہدایت سے بھٹک جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ سیدھے راستے پر ہیں۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا بھی ذکر کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے تھے‘ جن پر اللہ نے اپنا انعام کیا تھا اور ان کو بنی اسرائیل کے لیے اپنی نشانی بنا دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی ایک نشانی ہیں اور حدیث پاک میں اس بات کی صراحت ہے کہ قربِ قیامت حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرشتوں کے جلو میں دمشق کی جامع مسجد کے شرقی مینار پر اتریں گے۔ خنزیر کو قتل کریں گے‘ صلیب کو توڑیں گے ‘ جزیے کو موقوف کریں گے اور فتنۂ دجال کا خاتمہ فرمائیں گے۔
سورۃ الدخان : اس کے بعد سورۃ الدخان ہے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نے قرآنِ مجید کو برکت والی رات میں نازل فرمایا ہے۔ سورۂ دخان میں بھی اللہ تعالیٰ نے قومِ فرعون کا ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے قومِ فرعون کو آزمائش میں ڈالا اور ان کے پاس ایک عزت والے رسول یعنی موسیٰ علیہ السلام آئے‘ جنہوں نے اس (فرعون) سے کہا: تم اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کر دو‘ میں بے شک تمہارے لیے اللہ کا امانت دار پیغمبر ہوں اور اللہ کے حکم سے سرکشی اختیار نہ کرو، بے شک میں تمہارے پاس ایک واضح دلیل لے کر آیا ہوں۔ فرعون نے اس موقع پر جناب موسیٰ علیہ السلام کو سنگسار کرنے کی دھمکی دی‘ جناب موسیٰ علیہ السلام نے اس سے کہا کہ میں اپنے اور تمہارے رب سے پناہ مانگتا ہوں کہ تم مجھے سنگسار کرو۔ اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو مجھ سے دور ہو کر رہو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پروردگارِ عالم کو پکار کر کہا کہ اے رب! یہ تو مجرموں کی قوم ہے۔ تو اللہ نے ان سے کہا: آپ میرے بندوں کو لے کر رات میں نکل جائیے‘ آپ کا پیچھا کیا جائے گا اور آپ کے لیے ہم سمندر کو ٹھہری ہوئی حالت میں چھوڑ دیں گے۔ بے شک یہ (تعاقب کرنے والے) ڈوبنے والا لشکر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس طریقے سے بنی اسرائیل کو سرکش اور حد سے تجاوز کرنے والے فرعون کے رسوا کن عذاب سے نجات دی۔
سورۃ الجاثیہ : اس کے بعد سورۃ الجاثیہ ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بہت سی نشانیوں کا ذکر کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زمین و آسمان میں نشانیاں ہیں ایمان والوں کے لیے اور انسانوں اور جانوروں کی تخلیق میں نشانیاں ہیں‘ یقین رکھنے والوں کے لیے اور صبح و شام کی گردش میں اور آسمان سے اترنے والے پانی میں جس سے مردہ زمینیں زندہ ہوتی ہیں اور ہوائوں کے چلنے میں نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سمندروں کو مسخر کیا تاکہ اس کے حکم سے ان سمندروں میں کشتیوں کو چلایا جائے اور اس کے فضل کو تلاش کیا جائے تاکہ اس کا شکریہ ادا کیا جائے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب و حکمت اور نبوت دی اور پاکیزہ رزق بھی دیا اور ان کو جہانوں پر فضیلت دی۔ پھر اس کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی شریعت اور یہ فضیلت بنی اسرائیل سے لے کر رسول کریمﷺ کے ذریعے مسلمانوں کے سپرد کر دی اور تلقین کی کہ یہود و نصاریٰ کی خواہشات کو کوئی اہمیت نہیں دینی اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کرنی ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں قرآنِ پاک پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے، آمین!