علامہ ابتسام الہٰی ظہیر


سورۃ المومنون
اٹھارہویں پارے کا آغاز سورہ مومنون سے ہوتا ہے‘ جس میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے اس گروہ کا ذکر کیا ہے جو جنت کے سب سے بلند مقام یعنی فردوس کا وارث بننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ''وہ مومن کامیاب ہوئے جنہوں نے اپنی نمازوں میں اللہ کے خوف اور خشیت کو اختیار کیا‘ جنہوں نے لغویات سے اجتناب کیا‘ جو زکوٰۃ کو صحیح طریقے سے ادا کرتے ہیں‘ جو امانتوں اور وعدوں کی پاسداری کرتے ہیں‘ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں‘ جو اپنی پاک دامنی کا تحفظ کرتے ہیں‘ سوائے اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے کسی کی خلوت میں نہیں جاتے، جو صاحبِ ایمان ایسا کرے گا‘ وہ فردوس کا وارث بن جائے گا‘‘۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کا تفصیلی ذکر فرمایا کہ اللہ نے انسان کو نطفے سے بنایا، پھر نطفے کا لوتھڑا بنایا، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنایا، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر اسے ایسی صورت دی کہ وہ مکمل انسان بن کر وجود میں آیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب کافروں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آئے گا تو وہ چیخ پڑیں گے۔ اس وقت ان سے کہا جائے گا‘ آج چیخ و پکار مت کرو‘ بے شک ہمارے مقابلے میں کسی طرف سے تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔ ہماری آیات کی تمہارے سامنے تلاوت کی جاتی تھی تو تم ایڑیوں کے بل بھاگ پڑتے تھے، تکبر کرتے تھے اور اپنی رات کی محفلوں میں اس قرآن کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے تھے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ کافروں کی غفلت اور سرکشی کو اجاگر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا انہوں نے قرآنِ کریم پر غور نہیں کیا یا ان کے پاس کوئی ایسی چیز آ گئی ہے جو ان کے آبائو اجداد کے پاس نہیں آئی یا انہوں نے اپنے رسولﷺ کو پہلے سے نہیں پہچانا‘ جو ان کا انکار کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس حقیقت کو واضح فرما رہے ہیں کہ رسول کریمﷺ کی سابقہ زندگی ان کے سامنے ہے‘ اس لیے ان کو صادق اور امین رسول کا انکار نہیں کرنا چاہیے اور صرف اس وجہ سے قرآنِ مجید کو رد نہیں کرنا چاہیے کہ یہ ان کے آبائو اجدا د کے عقائد سے مطابقت نہیں رکھتا بلکہ ان کو حق پر مبنی دعوت پر غور کرنا چاہیے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی اس وحی کو دل وجان سے قبول کرنا چاہیے۔ درحقیقت وہ یہ چاہتے تھے کہ حق ان کی خواہشات کے تابع ہو جائے حالانکہ اگر وحی کو ان کی خواہشات کے تابع کر دیا جائے تو آسمان و زمین میں موجود ہر چیز فساد کا شکار ہو جائے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ بعض لوگوں کا یہ گمان ہے کہ ہم نے ان کو بغیر وجہ کے پیدا کر دیا ہے اور انہوں نے ہمارے پاس پلٹ کر نہیں آنا حالانکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دوبارہ پیش ہوں گے اور ان کو اپنے کیے کا جواب دینا ہو گا۔ اس سورت کے آخر میں ارشاد ہوا کہ جو کوئی بھی غیر اللہ کو پکارتا ہے اس کے پاس ایسا کرنے کی کوئی دلیل نہیں اور اس کا حساب پروردگار کے پاس ہے اور اس نے کبھی کافروں کو کامیاب نہیں کیا۔
سورۃ النور
سورۃ النور میں اللہ تعالیٰ نے فحاشی کی روک تھام کیلئے زنا کی سزا مقرر فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ زانی اور زانیہ (غیر شادی شدہ) کو ایک سو کوڑے مارنے چاہئیں؛ اگر اس گناہ کا ارتکاب شادی شدہ مرد یا عورت کرے تو‘ حدیث پاک میں‘ ایسے مجرم کے لیے سنگسار کی حد مقرر کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاک دامن عورتو ں پر تہمت لگانے کی سخت مذمت کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں اور پھر چار گواہوں کو پورا نہیں کرتے‘ ایسے لوگوں کو بھی اسّی کوڑے مارنے چاہئیں اور مستقبل میں ان کی کوئی گواہی قبول نہیں کرنی چاہیے اور ان کا شمار فاسقوں میں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور میں ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برأت کا اظہار فرمایا ہے اور قیامت تک آنے والے اہلِ ایمان کو ازواجِ مطہرات کی حرمت اور ناموس کے بارے میں باخبر کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو یہ بھی سمجھایا کہ اہلِ ایمان کو ایک دوسرے کے بارے میں اچھا گمان رکھنا چاہیے اور اگر کوئی کسی کی کردار کشی کرے تو سننے والے کو فوراً سے پہلے کردار کشی کو بہتان سے تعبیر کرنا چاہیے اور اس بات کو سمجھ جانا چاہیے کہ اگر کسی واقعہ پر چار گواہ موجود نہ ہوں تو الزام تراشی کرنے والا اللہ تبارک و تعالیٰ کی نظروں میں جھوٹا ہے۔ معاشرے میں برائی کی روک تھام کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس پارے میں مومن مردوں کو اپنی نگاہیں جھکانے کا حکم دیا ہے اور مومن عورتوں کو اپنی نگاہیں جھکانے کے ساتھ ساتھ پردہ کرنے کا بھی حکم دیا ہے اور محرم رشتہ داروں کے علاوہ تمام لوگوں سے اپنی زینت چھپانے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے غیر شادی شدہ مردکی شادی کرنے کا حکم دیا ہے اور ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی شخص فقیر ہو تو نکاح کرنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اس کو غنی فرما دیں گے۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ رب العزت نے اپنے نور کی مثال بیان فرمائی ہے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے اور اس کے نور کی مثال ایسے ہے جیسے ایک طاق میں ایک چراغ ہو‘ اور وہ چراغ دھرا ہو ایک شیشے میں اور وہ شیشہ ایسے ہے جیسے ایک چمکتا ہوا تارہ، اس چراغ میں ایک مبارک زیتون کے درخت کا تیل جلتا ہے اور وہ درخت نہ مشرق کی طرف ہے اور نہ مغرب کی طرف، اس کا تیل ایسا ہے کہ آگ نہ بھی چھوئے تو بھی وہ جلنے کو تیار ہے، خوب روشنی پر روشنی ہو رہی ہے۔اس مثال کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ زمین اور آسمان کو روشن فرمانے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے نور کے ذر یعے جس کو چاہتے ہیں‘ ہدایت کے راستے پر گامزن فرما دیتے ہیں۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ان مومن مردوں کا بھی ذکر کیا ہے کہ جو تجارت اور سوداگری یعنی کارِ دنیا میں مشغول ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز سے غافل نہیں ہوتے۔اللہ تعالیٰ نے صحیح ایمان رکھنے والے مومنوں کا ذکر کیا ہے کہ جب ان کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ جواب میں کہتے ہیں: ہم نے سنا اور اطاعت کی، اور صحیح کامیابی انہی صاحبِ ایمان لوگوں کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان سے وعدہ کیا ہے کہ جو ایمان اور عملِ صالح کے راستے پر چلے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو زمین پر خلافت عطا فرمائیں گے‘ جس طرح اللہ تعالیٰ نے سابقہ اہلِ ایمان کو خلافتِ ارضی سے نوازا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس وعدے کو اپنے نبی کریمﷺ ہی کی حیاتِ مبارکہ میں پورا فرما دیا تھا اور سرزمین حجاز پر آپﷺ کی حکومت کو قائم کر دیا اور آپﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جناب ابوبکر صدیق‘ حضرت عمر فاروق‘ حضرت عثمان غنی اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم کو بھی خلافت سے بہرہ ور فرما دیا اور خلفائے راشدینؓ کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری و ساری رہا‘ یہاں تک کہ ایمان کی کمی اور بدعملی کی شدت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حاکم سے محکوم اور غالب سے مغلوب کر دیا۔ اس سورۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے خلوت کے تین اوقات کا ذکر کیا کہ ان اوقاتِ ممنوعہ میں کسی کے گھر جانا درست نہیں۔ ایک وقت عشاء کے بعد‘ دوسرا فجر سے پہلے اور تیسرا ظہر کے بعد ہے۔ ان تین اوقات میں کسی کے گھر جانا درست عمل نہیں ہے۔ ان تین اوقات کے علاوہ انسان کسی بھی وقت کسی کے گھر اجازت لے کر ملاقات کرنے کے لیے جا سکتا ہے۔ اس سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریمﷺ کے احکامات کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ رسولﷺ کے احکامات کی مخالفت کرتے ہیں‘ ان کو ڈر جانا چاہیے کہ کہیں وہ دنیا میں فتنے کا نشانہ نہ بن جائیں اور آخرت میں ان کو درد ناک عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سورۃ الفرقان
سورۃ النور کے بعد سورۃ الفرقان ہے‘ جس میں اللہ تبار ک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ بابرکت ہے‘ وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان کو نازل کیا تاکہ وہ دنیا والوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائیں۔ فرقان کا مطلب فرق کرنے والا ہوتا ہے۔ قرآن مجید فرقانِ حمید نیکی اور بدی‘ ہدایت اور گمراہی‘ شرک اور توحید‘ حلال اور حرام کے درمیان فرق کرنے والا ہے‘ اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو فرقان کہہ کر پکارا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآنِ مجید سمجھنے‘ پڑ ھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے، آمین!