”ابتدائی 100 دن“ کی اصطلاح کیسے منظر عام پر آئی؟

تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے انتخابات کے قبل حکومت تشکیل دینے کی صورت میں ابتدائی سو دنوں کا ایجنڈا دیا گیا تھا جس میں مختلف اہداف حاصل کرنے کے دعوے کیے گئے تھے۔

رواں ہفتے تحریک انصاف کی حکومت کے ابتدائی سو دن مکمل ہو جائیں گے، اس حوالے سے حکومتی اپوزیشن اراکین اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہیں۔ حکومت کے "ابتدائی 100 دن"، کا دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ صرف ایک جملہ نہیں جو تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے پہلی بار استعمال کیا بلکہ یہ ایک اصطلاح ہے جو اپنے وجود میں آنے کی تاریخ رکھتی ہے۔ اصل خوشی اہداف کے حصول اور تخلیقی کام کے جنون میں ہے۔ یہ الفاظ 1932ء میں امریکہ کے 32 ویں صدر بننے والی شخصیت فرینکلن ڈی روز ویلٹ کے ہیں جو تادم مرگ 1945ء تک امریکہ کے صدر رہے۔

فرینکلن ڈی روز ویلٹ 1921ء میں پولیو کے حملے میں معذور ہو گئے تھے مگر انھوں نے کبھی اس معذوری کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ فرینکلن ڈی روز ویلٹ نے امریکی تاریخ کے بدترین مالی بحران "گریٹ ڈپریشن" کے دور میں عوامی ترقی کے منصوبے، اقتصادی اصلاحات متعارف کرائیں جنھیں "نیوڈیل" کا نام دیا گیا۔ فرینکلن ڈی روز ویلٹ "نیوڈیل" کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کو جمع کیا اور نیوڈیل اتحاد قائم کیے۔ اسی اتحاد کے ذریعے ناصرف 1932ء کا صدارتی الیکشن جیتا اور 8 مارچ 1932ء سے 16 جون 1932ء تک کے ابتدائی سو دنوں میں نیو ڈیل کی بنیاد پر پیش 16 بل پاس کر کے سب کو حیران کر دیا۔ امریکی صدر نے معاشی طور پر بدحال امریکیوں کو ایک بار پھر امریکہ کو مضبوط بنانے کی جانب راغب کیا اور نیو ڈیل میں شامل مختلف منصوبوں کو ابتدائی سو دنوں میں شروع کر کے عوام کو ایک بار پھر متحرک ہونے پر مجبور کر دیا۔ فرینکلن ڈی روزویلٹ نے جو چند معروف اقدامات اپنی حکومت کے ابتدائی سودنوں میں کیے ان میں چند درج ذیل ہیں۔

1: معاشی طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچے امریکہ میں صدارت سنبھالنے کے اگلے روز فرینکلن ڈی روز ویلٹ نے بینکوں کی سرکاری تعطیل کا اعلان کر دیا تھا، اس دوران فرینکلن ڈی روز ویلٹ نے نیو ڈیل کے مطابق بینکنگ سسٹم متعارف کرایا اور بینکوں پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے فنانس سسٹم لاگو کرنے کے ایک ہفتے بعد بینک دوبارہ کھول دیے۔

2: فرینکلن ڈی روز ویلٹ نے افراد زر کی کمی سے بچنے کیلئے سونے کے ذخائر کو کرنسی چھاپنے کیلئے معیار کے طور پر کینسل کرنے کا حکم جاری کر دیا جس کے بعد حکومت کو مکمل طور مطلوبہ تعداد میں کرنسی چھاپنے اور خرچ کرنے کا اختیار مل گیا تھا جس کے ذریعے امریکی اکانومی فوری طور سنبھل گئی تھی۔

3: فرینکلن ڈی روز ویلٹ نے "گلاس سٹیگل ایکٹ" متعارف کرایا جس کے بینکنگ کے نظام میں بہتری کے لیے قواعد و ضوابط لاگو کیے گئے۔

4: فوری طور پر فیڈرل ڈیپوزٹ انشورنس کمیشن قائم کیا گیا جس کے ذریعے ہر بینک کو 25 ہزار ڈالر دیے گئے تا کہ عوام کا اعتماد بحال ہو اور انھیں اپنا سرمایہ محفوظ نظر آئے۔

5: ایگریکلچر ایڈجسٹمنٹ ایکٹ کے ذریعے کسانوں کو ریلیف دیا گیا جس سے فصل کے سرپلس میں کمی ہوئی اور ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔

6: پبلک ورکس ایڈمنسٹریشن کے ذریعے عوامی منصوبوں کی تعمیر میں مدد کی گئی اور ملک بھر میں سکول، ہسپتال، ائیرپورٹس، ڈیمز اور پورٹس بنانے میں مدد ملی۔

7: فیڈرل ایمرجنسی ریلیف ایکٹ کے ذریعے بے روزگار امریکنز کو ریلیف فراہم کیا گیا۔


فرینکلن ڈی روز ویلٹ نیو ڈیل کے ذریعے چار بار امریکی صدر منتخب ہوئے، ان کے سو روزہ پروگرام ایک بنچ مارک بن گئے اور اس کے بعد مختلف ممالک کے رہنماﺅں نے اسے اختیار کیا۔ رواں سال مئی میں ملائیشیا میں انتخابات ہوئے، سابق وزیراعظم مہاتیر محمد نے ان انتخابات میں دوبارہ حصہ لیا اور حکومت میں آنے کی صورت میں اپنا سو روزہ ایجنڈا دیا۔ ایجنڈے میں حکومت کے قیام کے بعد ابتدائی 100 دنوں میں جی ایس ٹی ختم کرنے، فیول سبسڈیز دوبارہ شروع کرنے، شہری علاقوں کی جانب ہجرت کرنے والوں پر عائد ٹیکس ختم کرنے، گھریلو خواتین کے لیے ایمپلائز پراویڈنگ فنڈ متعارف کرانے، ملک بھر میں ملازمین کی ماہانہ آمدن کی حد مقرر کرنے، منفی سرگرمیوں میں ملوث اداروں کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کرنے، ملائیشین ایکٹ 1963ء کے مطابق عوامی حقوق کی بحالی، صحت کی بنیادی سہولیات اور تمام میگا پروجیکٹس پر کام کے آغاز کے اعلانات شامل تھے۔ مہاتیر محمد کے ان نکات پر مشتمل ایجنڈے کو عوام میں پزیرائی ملی اور رواں سال 9 مئی کوہونے والے انتخابات میں وہ ایک بار پھر وزیراعظم منتخب ہو گئے، انھوں نے 10 مئی 2018ء کو حلف اٹھایا اور کابینہ تشکیل دینے کے بعد اپنے ایجنڈے پر عمل شروع کر دیا۔ 20 اگست کو وزیراعظم مہاتیر محمد کی حکومت کے سو دن پورے ہوئے تو غیر سرکاری تنظیموں اور ملائیشین میڈیا نے حکومتی سو دنوں کے حوالے سے رپورٹس دینی شروع کر دیں۔ وزیراعظم مہاتیر محمد نے اپنے ایجنڈے کے پیٹرول کی قیمتوں میں سبسڈی دینے اور جی ایس ٹی ختم کرنے کے نکات پر ابتدا میں ہی عمل کر دیا تھا جبکہ ایجنڈے میں شامل دیگر نکات پر ابتدائی نوعیت کے اقدامات کیے گئے تھے۔ مہاتیر محمد نے اپنی حکومت کے ابتدائی سو دن مکمل ہونے کے موقع پر اپنے خطاب میں حکومتی کارکردگی بیان کی۔ انھوں نے اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کے حوالے سے عوام کو آگاہ کیا اور جن نکات پر عمل نہ کیا جا سکا تھا اس پر عوام سے معافی مانگی۔ بین الاقوامی میڈیا اور ملائیشین قومی میڈیا پر ایجنڈے پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے پر مہاتیر حکومت پر تنقید کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کی صاف گوئی کے حوالے سے تعریف بھی کی گئی۔

عمران خان کی حکومت کے پہلے سودن کا ایجنڈا

تحریک انصاف نے اپنے سو روزہ ایجنڈا میں وعدہ کیا کہ پاکستان کو بدلنے کیلئے تحریک انصاف کے منصوبے میں حکومت اور طرزِ حکومت میں تبدیلی سرفہرست ہے۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پچھلی تمام حکومتوں سے مختلف ہوگی۔ حکومت میں حکمرانی کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے اور عمران خان ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہم قومی اداروں کو یوں تعمیر کریں گے کہ وہ پوری جرات، قابلیت، آزادی اور تیزی سے کام کر سکیں گے۔ ہم حکومت کو ملک بھر میں گاﺅں اور قصبے کی سطح تک منتقل کریں گے اور بلاتفریق احتساب کر کے حکومت کی عملداری میں بہتری لائیں گے۔ریاست کے تین اہم ستون جن میں پولیس، عدلیہ اور بیوروکریسی شامل ہے میں اصلاحات ہمارے منصوبے کا حصہ ہیں۔اپنی حکومت کے ابتدائی سو ایام کے دوران طرز حکومت میں تبدیلی کیلئے ہم مجموعی طور پر 5کلیدی کام کریں گے۔
  1. احتساب حکومت کا اہم ستون
  2. تحریک انصاف نے اپنے سو روزہ ایجنڈا میں کہا تھا کہ قومی احتساب بیورو کو مکمل خود مختاری دی جائے گی۔بیرون مُلک محفوظ مقامات پر چُھپائی گئی چوری شدہ قومی دولت وطن واپسی کیلئے خصوصی ٹاسک فورس قائم کی جائے گی اور بازیاب کی گئی دولت غربت میں کمی لانے اور قرض کی ادائیگیوں میں استعمال کی جائے گی۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے بلندوبالا دعوے تو کیے لیکن ان پر عمل درآمد کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ۔اگر بات کی جائے قومی احتسات بیورو کو مکمل خود مختار کرنے کی تو اس پر سیاسی بیان تو آتے رہے لیکن حقیقت میں اس پر کوئی کام نہیں ہوا ۔اپوزیشن کا کہنا ہے کہ قومی احتساب بیورو اگر خودمختار ہوتا تو پاکستان تحریک انصاف کے ان لوگوں کے خلاف بھی بلا امتیاز کارروائیاں ہورہی ہوتی جن پر مختلف قسم کے الزامات ہیں لیکن احتساب بیورو نے کسی بھی قسم کی کارروائی نہیں کی۔ اگرچہ نیب نے رواں سال503 گرفتاریاں کی ہیں لیکن اپوزیشن کا اعتراض ہے کہ ان میں سے زیادہ تر گرفتاریاں گزشتہ دورے حکومت کے نمائندگان کی ہیں جبکہ تحریک انصاف کے نمائندوں کو گرفتار کرنے سے قومی احتساب بیورو گریزاں ہے اور قومی احتساب کا یہ دوہرا معیار اس کے کردار کو مشکوک کرتا ہے۔ ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے تین بڑے رہنماﺅں کو گرفتار کرنے کیلئے نیب ہچکچاہٹ کا شکاررہا ہے۔ تحریک انصاف حکومت نے ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس پاکستان لانے کیلئے ٹاسک فورس بنانے کی بات تو پوری کر دی جس کے چیئرمین وزیرِ اعظم پاکستان کے مشیر شہزاد اکبر بنادیئے گئے ہیں اوریہ لوٹی ہوئی دولت لانے کیلئے برطانیہ کا دورہ بھی کرچکے ہیں لیکن کسی بھی قسم کی پیش رفت نہیں ہوئی۔دورے سے قبل شہزاد اکبر نے دعویٰ کیا تھا کہ) (Un-explained Wealth Order-2018 کی مدد سے لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے۔ اس آرڈر کوجنوری2018 میں کریمنل فنانس ایکٹ 2017 کا حصہ بنایا گیا اس کو عدالتی حکم نامہ کی ایک قسم کہا جاتا ہے جس کا مقصد ان لوگوں کو اپنے ذرائع آمد بتانے پر مجبور کرنا ہے جنہوں نے اپنے ذرائع آمدن کی وضاحت نہیں کی ہوتی۔ جبکہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان کسی بھی قسم کا ایسا کوئی معاہدہ سامنے نہیں آیا۔اگرچہ اس ٹاسک فورس نے اس حوالے سے اجلاس بھی کیا ہے لیکن اپوزیشن کا کہنا ہے کہ جب اس طرح کا کوئی معاہدہ نہیں ہے تو اس کا مطلب صاف ہے کہ ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے والی باتیں صرف مفروضے ہیں اور صرف ٹاسک فورس بنانے سے کسی دوسرے ملک سے دولت واپس نہیں لائی جا سکتی ۔

  3. گاؤں تک عوام کو اختیارات کی فراہمی
  4. تحریک انصاف نے اپنی حکومت کے پہلے سو روز میں پختونخوا کے طرز کے بہتر بلدیاتی نظام کو باقی ملک میں لانے کا عہد کیا تھا جس کے ذریعے اختیارات اور وسائل کی گاﺅں کی سطح تک منتقلی کی راہ ہموار کی جائے گی۔ اس وعدے کو دیکھا جائے تو پنجاب میں نئے بلدیاتی نظام کے حوالے سے پنجاب حکومت اور خیبرپختوانخوا حکومت کی طرف سے لاہور میں متعدداجلاس ہوئے ۔پنجاب کی سربراہی علیم خان جبکہ خیبرپختونخوا کی سربراہی عاطف خان نے کی اور متعدد میٹنگز اور اجلاس وزیرِ اعظم پاکستان کی سربراہی میں بھی ہوئے لیکن اب تک وہ بھی بے نتیجہ رہے۔تحریک انصاف حکومت نے پہلے کہا کہ پورے پاکستان میں خیبرپختونخوا طرز کا بلدیاتی نظام لا رہے ہیں اور اب ذرائع کے مطابق حکومت خیبرپختونخوا کا بلدیاتی نظام بھی تبدیل کر رہی ہے۔100دن میں حکومت اس حوالے سے واضح پالیسی دینے میں ناکام رہی ہے۔ان دونوں صوبوں میں تو تحریک انصاف کی حکومت ہے تب یہ حال ہے بلوچستان جہاں حکومتی اتحاد اور سندھ جہاں تحریک انصاف اپوزیشن میں ہے وہاں اس نظام پر مسلسل خاموشی ہے۔

  5. سیاست سے پاک اور بااختیار پولیس
  6. سو روزہ ایجنڈہ میں تحریک انصاف نے تمام صوبوں میں قابل اور پیشہ ورانہ مہارت کے حامل انسپکٹر جنرلز کی تعیناتیوں کے ذریعے پولیس کو غیر سیاسی اور بہتر بنانے کا اعادہ کیا تھا۔ پنجاب کی پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کرنے کیلئے خیبرپختونخوا پولیس کے ماڈل کو پنجاب میں متعارف کروانے کے حوالے سے5رکنی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا ۔جس کے چیئرمین سابق آئی خیبر پختونخوا ناصر خان درانی جبکہ دیگر ممبران میں ڈی آئی جی شہزادہ سلطان، ایس ایس پی سی ٹی ڈی شہزاد آصف خان، ایس پی نجیب الرحمن اور ایس ایس پی محمد شعیب شامل تھے ۔اس کمیشن نے پنجاب پولیس کو غیر سیاسی بنانے کیلئے سفارشات مرتب کرنا تھی لیکن کچھ عرصہ بعد ہی اس کمیشن کے چیئرمین ناصر خان درانی نے خود کو اس کمیشن سے علیحدہ کر لیااور اس کے بعد کسی بھی قسم کی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔اپوزیشن کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پولیس کو غیر سیاسی تو اب تک نہ کر سکی لیکن ان سو دن میں ایک بار ڈی پی اوپاکپتن اور آئی جی اسلام آباد اور آئی جی پنجاب کے تبادلوں پر سپریم کورٹ اور عوام کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور اپنے ہی دعوﺅں کے برعکس تحریک انصاف کو کام کرنا پڑا۔

  7. فراہمی انصاف میں انقلابی تبدیلی
  8. تحریک انصاف کا یہ وعدہ تھاکہ پہلے سو روز میں زیرالتواءمقدمات کے خاتمے کا بندوبست کیا جائے گا۔ ایک برس کی مدت کے اندر تمام دیوانی مقدمات کے تیز تر اور شفاف ترین فیصلوں کیلئے متعلقہ ہائی کورٹس کی مشاورت سے خصوصی طور پر© تحریک انصاف کے جوڈیشل ریفارمز پروگرام کا آغاز کیا جائے گا۔ فراہمی انصاف میں انقلابی تبدیلیوں کیلئے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ٹاسک فورس قائم کر دی ہے اور اس ٹاسک فورس نے ابتدائی ایام میں کام بھی کیا ۔لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ جس طرح حکومت میں آنے سے پہلے دعوے کیے گئے تھے کہ ایسے قوانین متعارف کروائیں گے کہ عوام کو 90دن میں انصاف ملے گا وہ صرف باتیں ہی تھی اور ابھی تک کسی بھی قسم کا عملی کام نہیں کیا گیا۔ اب تو وزیرِ قانون نے خود یہ بات کی کہ 100میں قوانین میں تبدیلیاں نہیں کر سکتی اس کیلئے مزید وقت درکا ہے جو کہ عوام کے ساتھ حکومت کا صرف مذاق ہے۔

  9. سول سروسز میں اصلاحات کی ابتدا
  10. پاکستان تحریک انصاف کا پہلے سو روز کیلئے یہ وعدہ بھی تھا کہ وفاقی بیوروکریسی میں خالصتاً اہلیت و قابلیت کی بنیاد پر موزوں ترین افسران مقرر کریں گے۔اس کے ساتھ سول سروسز کے ڈھانچے میں کلیدی تبدیلی کے منصوبے کی تیاری کیلئے ٹاسک فورس قائم کی جائے گی جو سرکاری افسران کی مدت ملازمت کے تحفظ اور احتساب کے طریقہ کارکے ذریعے بیوروکریسی کی ساکھ بہتر بنانے کیلئے قابل عمل تجاویز مرتب کرے گی، جس کے نتیجے میں ذہین اور قابلیت کے حامل افراد کو بیوروکریسی میں شمولیت کی ترغیب ملے گی اور ملک کی تعمیروترقی کیلئے ان کی خدمات کے حصول کا انتظام کیا جائے گا۔ تحریک انصاف کو حکومت میں آتے ہی بیوروکریسی کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جس میں ڈی سی راجن پور اللہ دتہ وڑائچ کی جانب سے تحریک انصاف کے ہی ایم این اے پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے حلقہ میں تقررو تبادلے کرنے سے روکا ہے اسی طرح سے ڈی سی چکوال نے بھی تحریک انصاف کے ایم این اے سردار ذوالفقار علی خان کے خلاف وزیرِ اعظم پاکستان کو خط لکھا تھا کہ ان پر پٹواریوں کے تبادلے کیلئے دباﺅ ڈالا جا رہا ہے۔ان واقعات نے تحریک انصاف کے بیوروکریسی کے ساتھ اختلافات کو کھول کر رکھ دیا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے سول سروسز میں اصلاحات کیلئے ٹاسک فورس بنا دی ہے۔جس کے چیئرمین مشیر وزیرِ اعظم ڈاکٹر عشرت حسین جبکہ دیگر ممبران چاروں صوبوںسے لیے گئے ہیں لیکن ذرائع کے مطابق ابھی تک اس ٹاسک فورس نے کسی قسم کا عملی کام شروع نہیں کیا۔ٹاسک فورس نے اب تک کوئی علامیہ جاری نہیں کیا نہ ہی کسی قسم کا کوئی اجلاس بلایا گیا ہے ۔

تحریک انصاف کا اپنے سو روزہ ایجنڈا میں یہ کہنا ہے کہ وفاقی اکائیوں کی مضبوطی وفاق پاکستان کی مضبوطی کی دلیل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کسی ایک خاص صوبے کی نہیں بلکہ پورے ملک کی حکومت چلائیں گے۔ تحریک انصاف وہ مشکل اور کٹھن فیصلے کرے گی جن پر حکومت نے سطحی سی توجہ دی۔ عمران خان کی بطور وزیرِ اعظم موجودگی میں پاکستان کی مرکزی حکومت تقویت پائے گی اور صوبے مضبوط ہونگے۔وفاق پاکستان کو مضبوط کرنے کیلئے عمران خان مندرجہ ذیل پانچ نکات پر ترجیحی بنیادوں پر کام کا آغاز کریں گے۔
  1. فاٹا کا پختونخوا میں انضمام
  2. پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اگر آگئی تو پہلے سو دن میں فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کیلئے قانون سازی کی جائے گی۔ فاٹا کی تعمیروترقی کیلئے ایک بڑے منصوبے(میگا پراجیکٹ ) پلان کا آغاز کیا جائے گا اور فاٹا میں باقی تمام قوانین کو لاگو کرنے کا آغاز کیا جائے گا۔ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے ایجنڈا میں اس نقطہ کو رہنے دیا کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میںضم کیا جائے گا جبکہ فاٹا کا انضمام عام انتخابات سے پہلے 30مئی2018کو پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت نے صدرِ پاکستان ممنون حسین کی منظوری کے ساتھ خیبر پختونخوا میں کیا تھا ۔ستمبر کے آخر میں وفاقی حکومت نے فاٹا کو ضم کرنے کیلئے 15ارب کا منصوبہ شروع کرنے کی منظوری دی تھی لیکن اتنا عرصہ گزرنے کے بعد اب تک کسی بھی قسم کا کام شروع نہیں کیا گیا ۔ وزیرِ اعظم نے فاٹا اور پاٹا کے انضمام کے حوالے سے ٹاسک فورس ستمبر میں بنا دی تھی جس کا چیئرمین شہزاد ارباب کو بنایا گیا تھا ۔اس ٹاسک فورس نے فاٹا کے حوالے سے کوئی تجویز پیش نہیں کی۔

  3. بلوچستان میں مفاہمتی عمل
  4. تحریک انصاف نے اپنے ایجنڈہ میں اس بات کا اعادہ کیا تھا کہبلوچستان میں بڑے پیمانے پر سیاسی مفاہمت کی کوششیں شروع کی جائیں گی اور اس مقصد کیلئے صوبائی حکومت کو بااختیار بنایا جائے گا۔ اس کے ساتھ صوبے میں ترقیاتی منصوبوں خصوصاً گوادر میں جاری ترقیاتی عمل میں مقامی آبادی کی شمولیت یقینی بنائی جائے گی۔ بلوچستان میں مفاہمتی عمل کی بات کی جائے تو تحریک انصاف کی حکومت آنے سے اب تک وزیرِ اعظم پاکستان نے وفاقی کابینہ کے کچھ وزراءکے ساتھ ایک بار کوئٹہ کا دورہ کیا اور اس طرح دکھایا گیا ہے کہ جیسے پورے بلوچستان میں سیاسی مفاہمت قائم ہوچکی ہے۔بلوچستان حکومت کو بااختیار بنانے کیلئے ضروری ہے کہ اتحادیوں میں اتفاق ہو جبکہ تحریک انصاف کے صوبائی صدر یار محمد رند کے اپنی اتحادی جماعت کے ساتھ اختلافات ہیں اور انہوں نے متعدد بار کہا ہے کہ بلوچستان حکومت کے ساتھ ٹیم بی کے طور پر ہم کام نہیں کر سکتے ۔ان سب اختلافات کے ساتھ تحریک انصاف اپنے ہی وعدوں کی نفی کر رہی ہے۔

  5. انتظامی بنیادوں پر صوبہ جنوبی پنجاب کا قیام
  6. تحریک انصاف نے وعدہ کیا تھا کہ اپنی حکومت کے پہلے سو روز میں جنوبی پنجاب میں بسنے والے تین کروڑ پچاس لاکھ لوگوں کو غربت کی دلدل سے نکالنے اور صوبوں کے مابین انتظامی توازن قائم کرنے کے بنیادی مقاصد کے تحت صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کیلئے قومی اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے گا۔ انتخابی مہم کے دوران پاکستان تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب کو انتظامی بنیادوں پر الگ صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا اور اسی وعدے کی بنیاد جنوبی پنجاب صوبہ محاذ گروپ پاکستان تحریک انصا ف میں شامل ہواتھا تاکہ حکومت میں آکر الگ صوبہ بنوایا جا سکے۔ تحریک انصاف حکومت نے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کیلئے اکتوبر میں ایگزیکٹو کونسل بنائی تھی جس کے چیئرمین سابق ایم این اے چوہدری طاہر بشیر چیمہ جبکہ دیگر ممبران ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی سردار دوست محمد خان مزاری، صوبائی وزیرِ خوراک سمیع اللہ چوہدری ، 4ایم پی ایز اور کچھ سابق بیوروکریٹ شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق جب سے یہ کونسل بنی ہے اس نے کسی بھی قسم کا عملی کام نہیں کیا ۔ اس ایگزیکٹو کونسل نے ابھی تک جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے حوالے سے کوئی تجویز پیش نہیں کی۔ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کی پنجاب میں اتحادی جماعت کے رکن اسمبلی نے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے پر بھی اعتراض کیا ہے کہ بہاولپور کو علیحدہ صوبہ بنانے کی بات ہوئی تھی لیکن اب حکومت بہاولپور کو بھی جنوبی پنجاب میں شامل کرنے کی باتیں کررہی ہے جو کہ ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں۔

  7. کراچی کی بہتری
  8. سو روزہ پلان میں یہ عہد بھی کیا گیا تھا کہ کراچی کی بہتری کیلئے خصوصی منصوبہ لایا جائے گا جس میں بہتر انتظامات، سیکیورٹی ، انفراسٹرکچر، گھروں کی تعمیر، ٹرانسپورٹ کا نظام، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اور پینے کے صاف پانی جیسی سہولیات مہیا کی جائیں گی۔ وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان نے ستمبر میں کراچی کا دورہ کیا جہاں پر شہر کیلئے بڑوں منصوبوں کا اعلان تو کیا لیکن اس کے بعد کراچی کو بھول گئے۔حکومتی اتحادی جماعت ایم کیو ایم پاکستان کے میئر وسیم اختر نے نمائندہ دنیا نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کراچی کو مسلسل نظرانداز کر رہی ہے اور ہمیں کسی بھی قسم کی سہولیات نہیں دی جا رہی۔ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں صفائی کی حالت نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ کراچی میں روزانہ 12ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے جس میں سے 8ٹن کچرا تو اٹھا لیا جاتا ہے لیکن 4ٹن کچرا وہیں پڑا رہتا ہے جوکہ کراچی کے مسائل کا منہ بولتا ثبوت ہے اوروفاقی حکومت نے ہمیں کسی بھی قسم کی مدد فراہم نہیں کی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ وفاق نے وعدہ کیا تھا کہ کراچی کو وافر مقدار میں پانی دیا جائے گا لیکن موجودہ حالات سے لگ رہا ہے کہ کراچی کا پانی مزید کم کیا گیا ہے۔اسی طرح بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن تحریک انصاف نے ابھی تک اپنا ایک بھی وعدہ وفا نہیں کیا۔

  9. پاکستان کے غریب ترین اضلاع کیلئے غربت میں کمی کی تحریک کا آغاز
  10. تحریک انصاف نے اس بات کا عزم کیا تھاکہ پنجاب ، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے پسماندہ اور غریب ترین اضلاع سے غربت کے خاتمے کیلئے جاری کاوشوں کو تقویت دینے کیلئے خصوصی پلان تیار کیا جائے گا۔ پاکستان تحریک انصاف نے غریبوں کو سہولیات دینے کیلئے ابھی تک کوئی خصوصی پیکج نہیں دیا بلکہ ہر چیز کو مہنگاکیا جا رہا ہے اور ناجائز تجاوزات کے نام پر بھی زیادہ نقصان غریبوں کا ہورہا ہے۔ غربت کے خاتمے کیلئے وفاقی حکومت نے اب تک کوئی لائحہ عمل نہیں دیا اور نہ ہی کسی طرح کے غربت مکاﺅ پروگرام کی ابتدا کی گئی ہے۔

تحریک انصاف ،عمران خان کی حکومت کے 100روزہ ایجنڈے نے دعویٰ کیاکہ ان کے پاس معاشی ڈھانچے کی پختگی اور تعمیر کا پورا خاکہ اور تصور موجود ہے۔جو کہ کسی ایک طبقے کے لیے نہیں بلکہ پوری قوم کی اقتصادیات کی بحالی کا منصوبہ ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں اب تک4قومی اسمبلی کے اجلاس ہوئے اور1مشترکہ اجلاس سینیٹ کے ساتھ ہوا۔اس طرح کل 5اجلاس ہوئے۔حکومت کا بنیادی کام قانون سازی جوصرف ایک اجلاس میں ہوئی جو کہ دوسرااجلاس تھا۔ فنانس ایکٹ میں ترامیم کی گئیں اورانکم ٹیکس لگائے گئے۔سالانہ4لاکھ سے8لاکھ تک آمدن والوں پر بھی1ہزار ٹیکس لگا دیا گیا۔جبکہ 8لاکھ سے12لاکھ سالانہ آمدن پر 2ہزار ٹیکس لگا دیا گیا۔اس طرح عوامی حکومت کا آغاز عوام پر ٹیکسوں اور مہنگائی میں اضافے سے کیا گیا۔اس سے پہلے کم آمدن رکھنے والے افراد پر کوئی ٹیکس نہیں تھا۔
تحریک انصاف نے اپنے100روزہ ایجنڈے کے لئے جو اہداف طے کئے، ان پر کتنا عمل ہوا مندرجہ ذیل ہے۔
  1. نوجوانوں کیلئے روزگار کی فراہمی
  2. 100روزہ ایجنڈے کے مطابق پانچ برس کے دوران ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنے کے لئے ملکی سطح کی حکمت عملی سامنے لائے جانے کا اعلان کیا گیا ۔حکومت نے4لاکھ نوجوانوں کوہنر مند ٹرینگ دینے کا اعلان کیا ۔ 1کروڑ نوکریوں کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کر دی گئی ۔ ٹاسک فورس میں شامل افراد کے بارے میں تفصیلات نہ منظر عام پر آئیں اورنہ ہی اس کی پیشرفت کے بارے میں مختلف محکموں کے افسران کو کوئی علم ہے۔ اس ٹاسک فورس کے رپورٹ جمع کرانے کے بعد ہی تعین ہو گا کہ کس طرح نوکریاں فراہم کی جائیں گی مگر دور دور تک اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔پہلا اعلان وزیر ریلوے شیخ رشید نے 23ہزارآسامیاں پر کرنے کے لیے کیا،مگراس میں سے2031آسامیاں پر کرنے کی وزیر اعظم نے منظوری دی۔اس سلسلے میںآسامیوں کا اشتہار17نومبر2018کو دیا گیا۔جس کے تحت بھرتیاں کی جائیں گی۔مگراعلان کے برعکس100دنوں میں یہ نوکریاں بھی نہ دی جا سکیں گی۔

  3. پیداواری شعبے کی بحالی اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کی تیزی سے ترقی کی راہ ہموار کرنا
  4. تحریک انصاف کے پہلے100روزہ پلان کے مطابقپاکستان کی پیداواری صنعت کو عالمی منڈی میں مقابلے کی اہلیت سے آراستہ کرنے کے لیے اقدامات کیے جانا تھے۔اس ضمن میں کوئی ٹاسک فورس بنائی گئی نہ ہی اس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد سے کسی قسم کی کوئی مشاورت کا عمل جاری ہوا ۔ایجنڈے میں برآمدات کو فروغ دینے کا دعویٰ کیا گیا۔مگر اس سلسلے میںکوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔برآمدات بڑھانے کے لیے کوئی ٹاسک فورس نہ بنائی گئی اورتا حال چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری افراد خام مال کی مہنگا ئی سے پریشان ہیں۔ان کی پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے جبکہ عوام کی قوت خرید میں کمی سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری افراد فکرمند ہیں۔ان کی رائے میں اسی طرح کچھ عرصہ میں انہیں اپنے کاروبار بند کرنے پڑیں گے اور اس سے ان کے ہنرمند مزدور بے روزگار ہو جائیں گے۔برآمدات پر چھوٹ دینے کا بھی ایجنڈے میں کہا گیا مگرکاروباری افراد کاروبار جاری رکھنے کے لئے ہاتھ پاوں مار رہے ہیں برآمدات تو ان کے مطابق دیوانے کا خواب ہے۔مزدوروں کی حفاظت کے لیے وفاقی سطح پر لیبر پالیسی متعارف کی جانی تھی مگر تا حال کوئی مسودہ نہیں پیش کیا گیا۔ چھوٹے کاروبار کے لیے نوجوانوں کوآسان شرائط پر قرضے کی سہولت دینے کااعلان کیا گیا ۔تاہم قرضے دینے کا طریقہ کاراور دیگر امور پرواضع پالیسی نہیں دی گئی۔جس کی وجہ سے یہ ابہام پیدا ہو گیا ہے کہ کن صنعتوں کو ترجیح دی جائے گی۔اس سلسلے میں نہ کوئی اشتہار جاری کیا گیا ہے نہ ہی معلوماتی سیمینار منعقد کیے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے عام شہری کی اس سہولت تک رسائی اپنے آپ میں ایک جدوجہد ہے ۔

  5. پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کیلئے پالیسی
  6. 100روزہ ایجنڈے کے مطابق نجی شعبے کے تعاون سے پانچ برسوں میں پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کی جانے کا منصوبہ دیا گیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم نے اپنا گھر پروگرام کے نام سے پراجیکٹ لگانے کااعلان کیا تھا۔17رکنی ٹاسک فورس بنائی گئی۔ پروگرام شروع ہوتے ہی پہلا کام پراجیکٹ کانام بدلنے کا کیا گیا۔ نیا پاکستان ہاوسنگ اتھارٹی بنائی گئی۔ جس میں عوام سے فارم جمع کرانے کا کہاگیا ۔شروع میں چند شہروں تک یہ پروگرام محیط تھا بعد میں توسیع کا اعلان کرتے ہوئے اسے پھیلایا گیا۔بہاولپور کے ضلع میں انکشاف ہوا کہ فارم جمع کرانے کا نظام ہی نہیں۔فیصل آباد میں7ہزار سے زائد درخواستیں موصول ہوئیں۔ذرائع کے مطابق فیصل آباد شہر میں حکومت کے پاس جگہ ہی نہیں جہاں گھر بنائے جا سکیں۔صوبائی وزیر نے پنجاب ہاوسنگ اینڈ ٹاون پلاننگ ایجنسی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے نیا پاکستان ہاوسنگ سکیم کیلئے دستیاب اراضی کی رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت کی جس سے حکومتی دعوں کا پول کھل گیا۔وفاقی سطح پر وزیراعظم کی نگرانی میںسب کمیٹیاں کراچی اور اسلام آباد کے لیے قائم کر دی گئی ہیں۔سب کمیٹیاں متعلقہ صوبے میںمنصوبے کی مالیت،طریقہ کار،گھر کی فراہمی،گھروں کی قسطوں اور بینکوں کے معاملات کی نگرانی کریں گی۔100دن پورے ہونے سے دو دن پہلے 5ارب روپے بھی جاری کر دینے سے کوئی گھر بننے سے تو رہا ۔ماضی کی حکومتوں کی طرح اس حکومت نے بھی عوام کو100دن ایجنڈے کے نام پرتاحال خالی اعلانات ہی دیے

  7. سیاحت کا فروغ
  8. تحریک انصاف کے100دن کے ایجنڈے کے مطابقملک میں موجود سیاحتی مقامات کو بہتر بنانے اور نئے مقامات کی تعمیر کے لیے نجی شعبے سے سرمایہ کاری کیلئے فریم ورک مکمل کرنے کا اعلان کیا گیا ۔نجی شعبے سے تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی جس کا حکومت نے اعلان کیا تھا۔ حکومتی گیسٹ ہاوسز کو ہوٹلز میں تبدیل کر کے عام عوام کے لیے کھولے جانے کا اعلان ببانگ دہل کیا گیا۔مگر کس ڈیپارٹمینٹ کے گیسٹ ہاوسز یا اس عمل میں کن عمارتوں کا انتخاب کیا گیاکوئی فہرست منظر عام پر نہیں آئی۔متعلقہ حکام اس قدم کے سوالات پر لاعلم تھے کہ کون سا مرد مومن ٹاسک فورس لے کر اس جہاد پر نکلا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ کم از کم 4نئے سیاحتی مقامات دریافت کیے جانے کا اعلان کیا گیا۔مگر اس ضمن میں بھی کسی سرکاری افسر نے اس دعوے کے والی وارث کا دروازہ نہیں دکھایا جس سے100دنوں میں اس پر کیے جانے والی پیشرفت پر بات کی جا سکتی۔پنجاب ہاوس مری کو ہوٹل جبکہ گورنر ہاوس پشاوراورلاہور کو میوزیم میں تبدیل کیے جانے کی منظوری وزیر اعظم نے دے دی۔چند دن بعد انکشاف ہوا کہ گورنر ہاوس میں موجود دفاتر کے لیے کوئی نئی جگہ ڈھونڈنی پڑے گی۔چمبہ ہاوس کو گورنر ہاوس میں تبدیل کرنے کی تجویز سامنے آئی۔اب گورنر ہاوس کے اتنے بڑے سٹاف کے لیے تین کمروں کا چمبہ ہاوس چھوٹا پڑتا محسوس ہوا تو اس ارادے کو بھی ترک کر دیا گیا۔ گورنر ہاوس پنجاب کے ہی پلان میںردو بدل کر کے مخصوص اوقات میں چند حصے عوام کے لیے کھول دیے گئے۔ان حصوں کو بعد میں مزید محدود کردیا۔ اس طرح گورنر ہاوس کی تبدیلی کا ایجنڈا قصہ ماضی ہو گیا۔اسی طرح اگر صوبائی سطح کا جائزہ لیں تو سند ھ گورنرہاوس کی بھی کہانی ایسی ہے۔بلوچستان حکومت نے اس سلسلے میںکوئی پیشرفت نہ کی۔ وزیرسیاحت خیبرپختونخوا نے حکومتی 100روزہ ایجنڈے کو بڑھاتے ہوئے 10نئے سیاحتی مقامات دریافت کر کے آباد کرنے کا اعلان کر دیا۔پہلے چار کی تلاش میں ہی ہم مارے مارے پھر رہے تھے ۔سہولت یہ ہوئی ہے کہ اس کے ساتھ سیاحی پولیس فورس بنانے کا اعلان کیا گیا ہے جس دن وہ نظر آگئے ان سے ہی ان مقامات کا پوچھ لیں گے۔100دن تو پورے ہونے کو ہیں مگر یہ سہولیات کس طرح عوام تک پہنچیں گی یہ کسی عوامی نمائندوں کوتاحال نہیں پتہ۔ تحریک انصاف کو پتہ ہوتا کہ یہ کتنے دنوں میں ممکن ہے توغالبا© ًان کو 100دن کے اہداف میں شامل نہ کرتے۔

  9. ٹیکس ایڈمنسٹریشن میں اصلاحات
  10. 100روزہ ایجنڈے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سربراہ کا میرٹ پر تقرر کرنے کا اعلان کیا۔تقرر تو ہو گیا مگر تاحال نوٹس جاری ہونے کے علاوہ کوئی ٹیکس اصلاح متعارف نہیں ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایف بی آر کیلئے اصلاحاتی پروگرام متعارف کروانے کا اعلان کیا اس تناظر میں دیکھیں تو ماہر کو میرٹ پر تعینات کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی اگر اصلاحات تحریک انصاف نے لانی تھیں۔ معیشت کی بحالی اور قرضوں پر انحصار کم کرنے کیلے کاروبار دوست اور عد ل پر مبنی ٹیکس پالیسی لاگو کرنے کا اعلان کیا گیا۔مگر حالیہ لگائے گئے ٹیکس اور ریگولیٹری ڈیوٹیاں عوام و کاربار دوست ہوں یا نا ہوں مگر قرضوں پر انحصار نہ کم کر سکیں۔پاکستان کو نہ صرف دوست ممالک سے مدد مانگنی پڑی بلکہ اس کے باوجود آئی ایم ایف کو مدد کے لیے درخواست جمع کرانا پڑی۔ جن سے معاملات طے پانے کے مراحل پر ہیں۔فنانس بل لا کر ٹیکسز لگائے گئے اس کے ساتھ ساتھ درآمدات میں کمی لانے کے لیے ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی گئی۔اس سے تجارتی خسارے میں کمی آئے نہ آئے مگر امید ضرور ہے۔ٹیکس کے متعلق عدالتوں میں کیسز کو جلد حل انجام تک پہنچایا جانے کا عزم کیا گیا۔مگر اس سلسلے میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ایف بی آر سے ٹیکس پالیسی کااختیارلے لیا گیا ہے۔اس وقت ایف بی آر صرف ٹیکس اکھٹا کررہا ہے۔پالیسی کی تشکیل کے لیے بورڈ بنا دیا گیا ہے۔100 دن پورے ہونے کو ہیں مگرکوئی تبدیلی نظر میں نہیں آرہی

  11. پاکستان کو کاروبار دوست ملک میں بدلنا
  12. پانچ برس میں پاکستان کو کاروبار کی عالمی درجہ بندی میں 147سے 100نمبر پر لانا فہرست میں شامل ہے۔مگرتحریک انصاف نے 100روزہ پلان میں بھی اسے ڈال دیا۔پاکستان میں کاروبار کرنے کو آسان بنانا،سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنا،غیر ملکی پاکستانیوں کو پاکستانی معیشت کے دھارے میں لانا،برآمدات میں اضافہ کرنے کے لیے وزیر اعظم کی سربراہی میں"کونسل آف بزنس لیڈرز"قائم کرنا مندرجہ بالا اہداف حاصل کرنے کی حکمت عملی مرتب کرنا مقصود تھا۔22رکنی بزنس کونسل بن گئی ہے مگر کوئی پالیسی اس کی طرف سے وزیر اعظم کو نہیں جمع کرائی گئی۔اس پر فیڈرل چیمبر آف کامرس نے اعتراض بھی کیا ہے کہ اسے اس کونسل میں نمائندگی نہیں دی گئی۔اگر تاجر برادری کی نمائندہ تنظیم نہیں اس عمل میں شامل تو بڑے پیمانے پر اس سے وابستہ لوگوں کے مسائل کون حل کرے گا۔ملک کو کاروبار دوست بنانے کے برعکس بجلی کی اور پیٹرول کی قیمتوں میںاضافہ کیا گیا ہے ۔اس کی وجہ سے فیکٹریوں اور کاروبار کرنے کے اخراجات مزید بڑھ گئے ہیں۔انٹر نیشنل انجینئرنگ ٹریڈ فیئرمنعقد کرایا گیا۔پاک چین بزنس ایکسپو کا اہتمام کیا گیا مگر پاکستانی اشیا نہ ہونے کے برابر تھیں۔ٹی ڈیپ کے ذرائع کے مطابق پاکستانی صنعتیں اب پہلے سے ابتر حالات میں ہیں۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے پاکستان میں سرمایہ کاری کر نے کی دعوت دی گئی اور اعلانات کیے جاتے تھے کہ اربوں کی ریل پیل ہو جائے گی۔ مگر بیرون ملک ترسیلات کے اعدادوشمار میں کوئی واضع فرق نہیں آیا۔اب تک کوئی بڑی سرمایہ کاری عمل میں نہیں آئی۔معاشی ماہرین کے مطابق اگر سٹاک ایکس چینج کے اعدادو شمار پر نظردوڑائی جائے تو بیرون ملک سرمایا کار اپنا سرمایہ نکال رہے ہیں۔

  13. ریاستی اداروں کی تنظیم نو
  14. تحریک انصاف نے "پاکستان ویلتھ فنڈ" کے قیام کے ذریعے ریاست کے زیر ملکیت اداروں میں انقلاب کی بنیاد رکھنے کااعلان کیا تھا ۔عوامی ملکیت کی صنعتیں وزارتوں سے الگ کر کے آزاد بورڈ آف گورنرز اور بہترین صلاحیتوں کے حامل منتظمین کے حوالے کی جانی تھیں مگر تاحال ایسا نہیں کیا گیا۔ اس کی ابتدا ہنگامی طور پر ائیر لائن، ریلویز، توانائی پیدا کرنے والے ادارے اور تقسیم کار کمپنیاں سے کرنے کا عزم کیا گیا مگراکتفا دفتری اوقات کو صبح 8سے شام4بجے کی بجائے صبح9بجے سے5بجے تبدیلی پر کیاگیا۔اس کے ساتھ وزیراعظم پاکستان نے تمام اعلیٰ شخصیات کے فرسٹ کلاس میں فضائی سفر پر پابندی کے ساتھ ساتھ خصوصی طیارے پر بھی قدغن لگائی مگر چند ہی دنوں میںاپنے احکامات کو ہوا میں اڑاتے ہوئے خصوصی طیارے پر سعودیہ روانہ ہو گئے۔وزارت خزانہ نے تمام افسرں کے سفری اخراجات بھی محدود کیے۔ملاوٹ کرنے والے عناصر کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا۔وزیر اعظم کے عزم کی تکمیل کے لیے ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں 19ممبران پر مشتمل ٹاسک فورس بنائی گئی جو کہ اپنی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کرے گی۔100روزمکمل ہونے کو ہیں مگر رپورٹ کے بارے میں پوچھا گیا تو بتایا گیا مکمل رپورٹ تو نہیں پیش ہو سکتی مگر جزوی دے دی جائے گی۔یادرہے ڈاکٹر عشرت حسین جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی 11رکنی "قومی کمیشن برائے حکومتی اصلاحات "کی بھی سربراہی کے فرائض ادا کر چکے ہیں جس کے آخر میں صرف ایک رپورٹ شائع کی گئی اورعملی طور پر اصلاحات لانے کے ضمن میں کچھ نہ کیاگیا۔

  15. توانائی کے بحران کا خاتمہ
  16. تحریک انصاف نے حکومت میں آنے کے بعدسستی بجلی فراہم کرنے کا دعویٰ کیا ۔مگر تین ماہ میں متعددبار بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیاگیا اس کے ساتھ ساتھ گردشی قرضے کے اسباب پر توجہ دیے جانے اور ریگولیٹری ریفارمز لاکر کرایہ پر چلنے والے ماڈل سے نجات کا دعوہ کیا گیا۔ بجلی چوروں کے خلاف آپریشن کی منظوری دی گئی۔اس کے بعد ملک کے تمام حصوں میں بلا تفریق کارروائی کی جا رہی ہے۔وزیر اعظم نے مزید دو گیس کمپنیاں بنانے کی منظوری دے دی۔اس کے باعث انتظامی طور پرموجودہ کمپنیوں پر بوجھ کم ہو جائے گا اور صارفین کو بہتر سروس ملے گی۔پنجاب کے دو ایل این جی پاور پلانٹس کی نجگاری کا فیصلہ لیا گیا۔سعودی عرب سے ادھار تیل حاصل کیا گیا۔گوادر میں سعودی عرب کے ساتھ مل کر آئل سٹی بنانے پر اتفاق ہوا۔اس بارے میں جب حکام سے پوچھا گیا تو تا حال کوئی پیش رفت نہ ہونے کا بتایا گیا۔آئندہ25سالوں کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے انرجی پالیسی بنانے کا اعلان کیا گیا ۔بلوچستان میں20ہزار گھروں کے لیے ایک میٹر ریڈر ہے کا جاننے کے بعدوزیر اعظم نے انتظامی طور پر بہتریاں لانے کے لیے تجاویز مانگ لیں۔پنجاب کابینہ نے توانائی منصوبوں کے بارے میں جملہ امور کا جائزہ لینے اور قائداعظم سولرپرائیویٹ لمیٹڈ کے پراجیکٹ سے متعلقہ امور طے کرنے کیلئے عبدالعلیم خان کی سربراہی میں کمیٹی بھی بنا دی۔

  17. پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو حقیقتاً ایک انقلابی منصوبہ بنانا
  18. تحریک انصاف نے حکومت میں آنے کے بعد پاک چین راہداری منصوبے کو انفراسٹرکچر پراجیکٹ کے ساتھ ساتھ اقتصادی راہداری بنانے کا وعدہ کیا۔چین کے ساتھ مل کر زراعت،صنعت اور خدمات کے شعبوں میں ترقی کو یقینی بنایا جانا بھی 100روزہ پلان کا حصہ تھا۔تاہم تاحال حکومت نے نیا ورکنگ گروپ بنایا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ2فوکل پرسن مقرر کیے ہیں۔وفاقی کابینہ کی سی پیک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا چیئر مین خسرو بختیار کو مقرر کیا گیا ہے۔

  19. شہریوں اور صنعت کاروں کی مالی وسائل تک رسائی میں اضافہ
  20. حکومت کے پہلے 100دنوں میں عام شہریوں اور صنعتوں کی سرمائے تک رسائی کو آسان بنایا جانا تھا۔قومی مالیاتی شراکت داری کی حکمت عملی کے نافذ کرنے میں اور ڈیجیٹل نظام سے بھرپور فائدہ اٹھایا جانا تھا۔بچت کے کلچر کو فروغ دیتے ہوئے پاکستان کے بینکوں میں رکھے گئے سرمائے کو جی ڈی پی کے 50فیصد تک لایا جانا تھا۔بڑے منصوبوں کے لیے درکار سر مائے کی فراہمی کے لیے ایک نیا انفراسٹرکچر بینک بنانے کا عزم کیا گیا تھا۔

پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور زرعی ترقی سے ہی ملکی معیشت کی ترقی وابستہ ہے۔ زرعی شعبہ کو ملک میں روزگار کا سب سے بڑا وسیلہ اور دیہی علاقوں سے غربت مٹانے کاسب سے موثر ذریعہ مانا جاتا ہے۔ البتہ اس شعبہ کا مکمل انحصار پانی کی فراہمی پر ہے۔ بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق پاکستان تیزی سے پانی کی قلت کی جانب بڑھ رہا ہے اور 2025ءتک یہ بحران انتہائی شدت اختیار کر لے گا۔چونکہ ملک میں میسر پانی کا 90 فیصدحصہ زرعی شعبہ استعمال کرتا ہے اس لئے پانی کے بحران سے یہ شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔ ان حالات کے پیش نظرپاکستان تحریک انصاف نے ملک میں زراعت کے فروغ اور تحفظ آب کی خاطر اقدامات کو اپنے سو روزہ ایجنڈے میں شامل کیا جس کے لئے درج ذیل پانچ بنیادی اقدامات اٹھانے کا تہیہ کیا۔
  1. کاشتکار کیلئے زراعت کو منافع بخش بنانے کیلئے زرعی ایمرجنسی کا نفاذ
  2. پاکستان تحریک انصاف نے اپنے سو روزہ ایجنڈے میں زرعی اجناس میں کاشتکار کا منافع بڑھانے، ڈیزل پر ٹیکس کم کرنے، زراعت کے جدید طریقے متعارف کروانے اور دیگر اقدامات کے ساتھ سبسڈی پروگرامز کو موثر بنانے کے لئے زرعی پالیسی لاگوکرنے کا اعادہ کیا تھا تاہم پاکستان بزنس کونسل اور پاکستان کسان اتحاد کی اپیلوں کے باوجود حکومت پہلے سو روز میں زرعی ایمرجنسی کے نفاذ یا دیگر کوئی منافع بخش اقدامات متعارف کروانے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ اس کے علاوہ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی نرخوں میں اضافے کے باعث کھادیں، کیڑے مار ادویات اور دیگر زرعی مداخل کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوگیا۔ ملک میں کھاد کی قلت کو مدنظر رکھتے ہوئے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے کسانوں کو ریلیف دینے کے لئے ایک لاکھ میٹرک ٹن یوریا کھاد درآمد کرنے اور فی بوری 960 روپے سبسڈی کا فیصلہ کیا تھاتاہم 15 نومبر کو ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں 50 ہزار ٹن یوریا کھاد درآمد کرنے کی منظوری مل گئی ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابرہے، البتہ وفاقی حکومت نے کسانوں کو ریلیف دینے کی غرض سے ملک بھر کے چوبیس ہزار زرعی ٹیوب ویل صارفین کے لئے بجلی 50 فیصد سستی کر دی ہے۔پاکستان کسان اتحاد پنجاب کے صدر چوہدری رضوان اقبال کے مطابق پاکستان کسان اتحاد نے زرعی اصلاحات کے متعلق اپنے مطالبات وزیر خزانہ اسد عمر اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو پیش کیے تھے اور دونوں وزراءنے حکومت کے پہلے سو روز میں ان پر عمل درآمد ناممکن قرار دیتے ہوئے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ حکومت اگلے سو روزہ ایجنڈا میں کسانوں کے لئے خصوصی زرعی ایمرجنسی پلان متعارف کرائے گی۔ محکمہ زراعت پنجاب نے حکومت کے 100 روزہ پلان کے مطابق زرعی پالیسی کی تشکیل کے سلسلے میں ڈرافٹ تشکیل دیا تھا جس کے جائزہ اجلاس میں متعلقہ سٹیک ہولڈرزنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ پالیسی میں ایک نیا ادارہ "پنجاب سیڈ رجسٹریشن اینڈ ریگولیشن اتھارٹی"کے قیام کی تجویز دی گئی ہے جو مقامی بیج کمپنیوں کی رجسٹریشن اور بیج کے معیار کا معائنہ کرے گی، اور اپنے لیبل میں بتائے ہوئے معیار کو پورا نہ کرنے والی کمپنیوں کے خلاف کارروائی کرے گی۔ تاجران کا کہنا تھا کہ انٹرنیشنل کمپنیوں کو بغیر کسی ٹیسٹ کے بیج بیچنے کی اجازت جبکہ مقامی کمپنیوں پر سخت ریگولیٹری اقدامات مقامی سطح پر بیج کی صنعت اور کسانوں کے مفاد کے خلاف ہے جبکہ اس مقصد کے لئے وفاق کی سطح پر ادارہ موجود ہے اس لئے بھی اس ادارے کا قیام سودمند نہیں ہوگا۔تاہم اس پالیسی کو نظرثانی کے بعد پنجاب کابینہ میں پیش کیاگیا۔جب حکومت کے سودن پورے ہونے میں چند روز باقی تھے ، حکومت نے اپنے ایجنڈے کی کامیابی کا تاثر دینے کے لئے 23نومبر کو ہونے والے اجلاس میں متعدد مسودہ قوانین سمیت زرعی پالیسی 2018ءکے مسودے کی بھی منظوری دے دی ۔ سیکرٹری زراعت پنجاب واصف خورشید کے مطابق حکومت پنجاب ڈرپ اریگیشن سسٹم لگانے پر بھی 60 فیصد سبسڈی فراہم کر رہی ہے۔

  3. کسانوں کی مالی امداد اور وسائل تک رسائی میں اضافہ
  4. اپنے سو روزہ پلان میں تحریک انصاف نے مالیاتی اداروں کے تعاون سے کسانوں کے لئے باسہولت اور سستے قرضوں کا انتظام اور جدید انداز میں مالیاتی وسائل کی فراہمی کے اسباب مہیا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس ضمن میں حکومت نے تا حال کوئی نئی پالیسی یا پیکیج کااعلان نہیں کیا جس سے واضع ہوکہ کسانوں کی مالی امداد اور وسائل تک رسائی میں اضافہ کو ممکن بنایاجا سکے البتہ حکومت نے عمومی طور پر نوجوانوں کو ذاتی کاروبارشروع کرنے کے لئے سستے قرضے دینے کا اعلان کیا ہے لیکن کاشتکاروں کی سہولت سے متعلق کوئی عملی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اس حوالے سے پاکستان کسان اتحاد کے ضلعی صدر صابر نیاز کا کہنا تھا کہ اس سکیم کو موثر بنانے کے لئے زراعت کے شعبے میں انویسٹ کرنے کے خواہش مند نوجوانوں کے لئے الگ کوٹہ ہونا چاہیے تھا لیکن حکومت نے اس حوالے سے کوئی توجہ نہیں دی۔

  5. زرعی منڈیوں میں تبدیلی
  6. تحریک انصاف نے زرعی اجناس کے مناسب دام یقینی بنانے کے لئے منڈیوں اور گوداموں کے اضافے کی مہم شروع کرنے اور اس مہم میں نجی شعبے کی شرکت کی راہ ہموار کرنے کے لئے موزوں قانون سازی کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔مزید یہ کہ برآمدات کو خصوصی طور پر نگاہ میں رکھتے ہوئے فوڈ پراسسنگ کی چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعت کے فروغ کے لئے سہولیاتی منصوبہ مرتب کرنا بھی اس ہدف کا حصہ تھا۔ حکومت کی جانب سے سو روزہ کارکردگی کے جائزے کے لئے متعارف کرائی گئی ویب سائٹ پر بتایا گیا ہے کہ اس ہدف کے حصول کے لئے ہوم ورک شروع ہو چکا ہے اور پرائیویٹ سیکٹر کی شراکت کے حوالے سے قانون سازی کی گئی ہے البتہ اس حوالے سے کسی قسم کی پیش رفت کے حوالے سے باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا۔

  7. لائیو اسٹاک
  8. سوروزہ ایجنڈے میں تحریک انصاف نے پاکستان کو دودھ اور دودھ سے بنی مصنوعات میں خودکفیل بنانے کا منصوبہ شروع کرنے اور گوشت کی پیداوار کو بڑھانے پر ایک پروگرام متعارف کرانے کا وعدہ کیا تھا۔اس ہدف کے حصول کے لئے اب تک کی جانے والی اقدامات میں صرف ایک قومی سطح پر ورک فورس ٹیم کی تشکیل شامل ہے جس نے سو دن میں صرف ایک اجلاس کا اہتمام کیا تھا۔ اجلاس میٹنگ منٹس کے مطابق یہ اجلاس نااہل سیاستدان جہانگیر ترین کی سربراہی میں ہوا تھا جس پر کافی اعتراض اٹھائے گئے۔ حکومت نے سودنوں میں کوئی نئی پالیسی یا پیکیج متعارف نہیں کروایا، لہٰذا دیگر وعدوں کی طرح اس ہدف کے حصول میں بھی تحریک انصاف کی حکومت مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔

  9. قومی واٹر پالیسی پر عملدرآمد
  10. آبی مسائل کے حل کے لئے تحریک انصاف نے اپنے سو روزہ پلان میں دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر میں تیزی کے لئے وزیراعظم کی سربراہی میں فوری طور پر نیشنل واٹر کونسل قائم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ قومی سطح پر پانی کے بچاو¿ کی کوششوں میں توسیع کے لئے قومی واٹر پالیسی سے ہم آہنگ منصوبہ مرتب کرنے کا اعادہ کیا تھا جس کے ذریعے پانی ذخیرہ کرنے اور ضیاع آب روکنے کے منصوبوں کی حوصلہ افزائی سمیت پانی کی تقسیم اور نگرانی کے جدید طریقے لاگو کرسکے۔ آبی شعبے میں درپیش مشکلات سے نمٹنے اور قومی آبی پالیسی میں متعین کیے گئے اہداف کے حصول کے لئے نیا پانچ سالہ آبی منصوبہ تیار کر لیا گیا ہے جس میں چھوٹے، درمیانے اور بڑے درجے کے ڈیمز کی تعمیراورموجودہ آبپاشی کے نظام کو نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ وزیراعظم نے قوم سے اپنے دوسرے خطاب میں تمام شہری بالخصوص بیرون ملک پاکستانیوں سے ڈیم بنانے کے لئے مدد کی اپیل کی تھی جس کے بعد چیف جسٹس کی شروع کردہ مہم پر حکومت کی طرف سے بھی فنڈ ریزنگ کمپیئن جاری ہے۔اس کے علاوہ وفاقی حکومت نے وزیراعظم کی سربراہی میں 23 رکنی نیشنل واٹر کونسل بھی قائم کر دی ہے۔پنجاب حکومت بھی پانی کے بچاو¿ کے لئے اقدامات کر رہی ہے۔پنجاب حکومت نے زمین سے پانی نکالنے والوں کو قانون کے شکنجے میں لانے کے لئے اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دے دی تھی۔ کمیٹی نے زیر زمین پانی کی کم ہوتی سطح پر قابو پانے کے لئے تجاویز دیں تھی جن کو مدنظررکھتے ہوئے چند روز قبل وزیراعلیٰ کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں کچھ اہم فیصلے کیے گئے، جن میں بوتلوں میں پانی بیچنے والی کمپنیوں سے چارجز لینے کی منظوری، سروس سٹیشنز پر صاف پانی سے گاڑیاں دھونے پر پابندی اور پانی کے غیر قانونی کنکشن ختم کرنے کا حکم شامل ہیں۔تاہم حکومت کے ان تمام فیصلوں اور منصوبوں پر عمل درآمد کرانے کا مرحلہ ابھی باقی ہے۔

سماجی خدمات کسی بھی ملک اور معاشرے کا اہم جزو ہوتے ہیں۔تحریک انصاف نے اپنے 100روزہ ایجنڈے میں6کروڑ غریب ترین پاکستانیوں کو غربت سے نکالنے اورسماجی خدمت کے شعبے میں انقلابی تبدیلیاں لانے کا بھی دعوہ کیا تھا۔
  1. صحت اور تعلیم میں تبدیلی
  2. تحریک انصاف کی جانب سے صحت اور تعلیم کے شعبے میں انقلاب برپا کرنے کے لئے عملی اقدامات کیے جانے کا اعلان کیا گیا تھا۔اس ضمن میں ایک جامعہ پلان دیا جائے گا جس کے ذریعے صحت اور تعلیم تک عوام کی رسائی ممکن بنائی جائے گی۔صحت انصاف کارڈ کو پورے ملک میں موجود خاندانوں تک توسیع دی جائے گی۔

    صحت:
    وفاقی حکومت کے اقدامات واعلانات:
    اس ضمن میںوفاق کی سطح پر محکمہ صحت سہولیات اور ریگولیشن اور باہمی رابطہ میں ہوئی تقسیم کو ختم کر کے دوبارہ ایک محکمہ بنایا گیا تھا۔دو ٹاسک فورسز قائم کی گئیںجو صحت اور نرسنگ کے شعبے میں بہتری کیلئے وزیر اعظم کو تجاویز دیں گی۔مگر تا حال کوئی میٹنگ نہیں ہوئی۔ادویات کی قیمتوں کا تعین کرنے کی پالیسی پر نظر ثانی اور پی ایم ڈی سی کے ضابطہ پرنظرثانی کر کے وزیراعظم کوپیش کرنے کی ہدایت کی گئی۔مگر ہدایات سے آگے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔صحت کے ترقیاتی بجٹ میں کمی کر دی گئی49ارب76کروڑ8لاکھ سے کم کر کے 34ارب2کروڑ کر دیا گیا۔اس کے ساتھ ساتھ34صحت کے قومی ترقی کے منصوبے ختم کر دیے گئے۔ہیپاٹائٹس، ٹی بی پروگرام اور ایپی ڈیمک انفلوئنزہ کیلئے 12کروڑ منظور کر دیے گئے۔باقی34ارب کا کوئی پتہ نہیں کب دیا جائے گا۔ہیلتھ انشورنس پلان کا مریض 5لاکھ روپے تک علاج کرا سکے گا اور 30ہزارخاندانوں کو صحت کارڈ جاری کرنے کا اعلان وفاقی وزیر صحت نے کیا۔وزیراعظم کا تھر کی صوتحال پر بریفینگ کے بعدمتعلقہ محکموںکی کارکردگی پر تشویش کا اظہار کیا اور2موبائل ہسپتال سمیت4ایمبولینسز فراہم کرنے کا حکم کر دیا۔
    پنجاب حکومت کے اقدامات واعلانات:
    پنجاب کی صوبائی وزیر برائے صحت یاسمین راشد نے صوبہ پنجاب میں بھرتیوں اور ترقیوں میں میرٹ پر سمجھوتہ نا کرنے کا اعلان کیا ۔ پنجاب کے 19اضلاع میںہیلتھ انشورنس سکیم کے اجراءکی منظوری دے دی۔ٹھوس وجوہات کے بغیر تحصیل ہسپتالوں سے مریضوں کو بڑے شہروں میں ریفر ناکرنے اور دو ماہ میںہسپتالوں کی کارکردگی بہتر کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔ادویات کا فرانزک آڈٹ کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔نسخہ کے بغیر ادویات کی فروخت پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔سیکٹری ہیلتھ کو ہسپتال کے نظام پر ٹی او آرز بنا کرتجاویز اور سفارشات وزیر اعلیٰ کو جمع کرانے کی ہدایت کی گئی۔پنجاب میں موجود نجی ہسپتالوں کے طبی معاملات جانچنے کیلئے ٹاسک فورس تشکیل دے دی گئی۔وفاقی حکومت پبلک سیکٹر پروگرام کے تحت پنجاب کو آبادی کنٹرول پروگرام کے سلسلے میں11ارب روپے دے گی۔انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ کی ہنگامی بنیادوں پر بحالی کا فیصلہ کیا گیااور ری سٹرکچرنگ پلان پر2ہفتے میں رپورٹ طلب کر لی گئی۔پنجاب حکومت نے ہیلتھ ورک فورس سٹریٹجی کو حتمی شکل دے دی ہے۔مگر میل نرس کے بارے میں ڈگری پنجاب سے مل سکے گی یا سندھ حکومت سے لے کر لوگوں کو پہلے کی طرح کام چلانا پڑے گا ،اس پر کوئی عہدیدار جواب نہیں دے رہا۔55فیصد آبادی ہیلتھ ورک فورس کی کمی کے باعث صحت کی سہولیات سے محروم ہے۔صوبائی وزیر صحت نے18ہزار سیٹوں پر جلد بھرتیاں کرنے کا اعلان کیا۔سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجہ کی نئی حکمت عملی تیار کر لی گئی،مریض کی پہلی تشخیص جو ڈاکٹر کرے گا وہی اسکے علاج کا ذمہ دار ہو گا۔ سرکاری ہسپتال میں 100فیصد مفت ادویات کی فراہمی کا فیصلہ کیا گیا۔پنجاب کابینہ نے صحت کے دونون محکموں کے انضمام کے حوالے سے حتمی سفارشات تیار کرنے کے لیے کمیٹی بنا دی۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے نجی ہسپتالوں اور کالجوں کے امور کا جائزہ لینے کیلئے ٹاسک فورس بنانے کا حکم دے دیا۔وزیر اعلیٰ نے ڈیرہ غازی خان کے دورہ پر ٹیکنیکل یونیورسٹی،کارڈیالوجی سینٹر،سالڈویسٹ مینجمنٹ کمپنی،واسا، چھوٹے ڈیم اور مویشی منڈی کے قیام کا اعلان کیا۔
    تعلیم:
    وفاقی حکومت کے اقدامات واعلانات:
    سرکاری سکول ٹھیک کریںگے۔وفاقی وزیر تعلیم کی زیر صدارت نیشنل ٹاسک فورس برائے تعلیم بنائی گئی۔22رکنی ٹاسک فورس میں چاروں صوبوں کے وزیر تعلیم سمیت کشمیر و گلگت بلتستان کے وزرا بھی شامل۔90روز مین تعلیمی پالیسی دیں گے۔امیر غریب کیلئے یکساں نظام تعلیم ہوگا۔یکساں نظام تعلیم،نصاب اور سرٹیفیکیشن سسٹم کیلئے طریقہ کار تعلیمی پالیسی میں شامل کر لیا گیا۔بجٹ میں سکولوں کیلئے 34ارب مختص کر دیے گئے۔مالی مشکلات کی وجہ سے دانش سکولوں کے بجٹ میں1ارب کی کٹوتی کی گئی۔سکولوں کے ترقیاتی بجٹ سے25ارب کی کٹوتیاں ، نئی سکیموں کو بجٹ میں شامل نہیں کیا گیا۔کابینہ کی طرف سے مدارس اور سکولوں میں یکساں نصاب تعلیم کے نفاذ کی منظوری دے دی گئی۔جسمانی سزاوں پر مکمل پابندی اور صوبائی حکومتوں کے ذریعے نجی سکولوں کی فیسوں کو مناسب سطح پر لانے کی منظوری بھی کابینہ نے دے دی۔تعلیمی اعدادوشمار اکٹھی کرنے کے لیے نظام کو مزید مو¿ثر بنائیں گے۔
    پنجاب حکومت کے اقدامات واعلانات:
    صوبائی وزیر تعلیم نے دانش سکول اتھارٹی ختم کرنے کا اعلان کیا اور موجودہ اثاثے ہائر ایجوکیشن کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔نجی سکولوںکے چیک اینڈ بیلنس کے لیے ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرنے کا اعلان۔سرکاری اور نجی سکولوں کی مانیٹرنگ کیلئے خصوصی ٹیمیں تشکیل۔سکیورٹی انتظامات اورانرولمینٹ کمپین کو مانیٹر کریں گے۔ صوبائی وزیر تعلیم والدین کی شکایات سیل کو خود مانیٹر کریں گے۔حکومت پنجاب نے کنٹریکٹ پر بھرتی سکول اساتذہ کو مستقل کرنے کی منظوری دے دی۔پرائیویٹ سکولز کے لیے ریگولیٹری اتھارٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔سیکٹری سکولز کو ذمہ داری دے دی گئی۔صحت ،انکم سپورٹ کارڈ اور دیگر حکومت پنجاب کی اہم سہولیات قانون سازی کے ذریعے بچوں کو سکول بھیجنے سے مشروط۔پنجاب میںیکساں تعلیمی نظام لانے کیلئے قانون سازی کا فیصلہ۔حکومت صوبہ کے 9اضلاع میں عالمی معیار کی تحقیقاتی جامعات کے قیام کامنصوبہ بنا رہی ہے۔ایک یونیورسٹی جنوبی،دوسری شمالی اور تیسری وسطی پنجاب میںبنانے کے انتظامات کر لیے گئے 6ارب لاگت آئے گی۔نالج بیسڈ اکانومی کو فروغ دیا جائے گا۔استاتذہ کی ٹرینگ پر توجہ دی جائے گی۔ عالمی معیار کی تعلیم کے لیے گرلز سکول منتخب کر لیا گیا۔سینکڑوں پرائمری سکولوں کوآپ گریڈ کرنے کی منظوری۔محکمہ سکولز ایجوکیشن نے آئندہ پانچ سالہ تعلیمی روڈ میپ پر کام شروع کر دیا۔ٹیکنیکل ایجوکیشن کیلئے 2یونیورسٹیاں قائم کرنے کا فیصلہ۔

  3. سوشل سیفٹی نیٹ میں توسیع
  4. حکومت میں آنے کے بعد انکم سپورٹ پروگرام کو 54لاکھ خاندانوں سے بڑھا کر خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے 80لاکھ خاندانوںتک توسیع دی جائے گی۔ معذور افراد کے لئے خصوصی پروگرام شروع کریں گے اور اسکول سے باہر بچوں کے داخلہ کو فروغ دینے کے لیئے اضافی مدد فراہم کریں گے۔ وفاقی کابینہ نے بچوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ، زیادتی کے واقعات،چائلڈ لیبر روکنے کیلئے اقدامات اور سٹریٹ چلڈرن کیلئے ملک میں یتیم خانے بنانے کی منظوری دے دی۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے بناولینٹ فنڈ کو 10ہزار روپے سے بڑھا کر15ہزار کر دیا۔میرج گرانٹ15ہزار سے بڑھا کر50ہزار روپے کر دی گئی۔ملازمین کی وفات پر گرانٹ فنڈ10ہزار سے بڑھا کر40ہزاراور طلبا کا وظیفہ10ہزار سے بڑھا کر15ہزار کر دیا۔اس کے ساتھ ساتھ بناولینٹ فنڈ میں اضافے کی منظوری دے دی ہے۔

  5. خواتین کی ترقی اور بہبود
  6. ملک میں خواتین کی ترقی کے لیے "کریمنل جسٹس ریفارمز"کا آغاز کیا جائے گا۔اس کے ساتھ وراثت میں خواتین کا حق محفوظ منانے کیلئے لائحہ عمل دیا جائے گا۔معاشی طور پر خواتین کو بہتر کرنے کیلئے ویمن اکنامک ایمپاورمنٹ پیکج شروع کیا جانا تھا اور خواتین کیلئے فراہمی روزگار یقینی بنایا جانا تھا اور سمیت دیگر سکیمیں متعارف کروائی جانی تھیں۔ وفاقی سطح پر خواتین کے وراثت میں حصہ کیلئے قوانین بنائے جانے کا اعلان ہوا تاکہ وراثت میں حصہ یقینی بنایا جائے۔خیبر پختونخواحکومت نے خواتین کے تحفظ کے لیے نیا بل لا نے کا اعلان کیا ہے جس میں خاتون پر تشدد کرنے پر مرد کو30ہزار جرمانہ ہو گا۔ خاتون اگر جھوٹا الزام مرد پر لگائے گی تو اسے 50ہزار جرمانہ ادا کرنا ہو گا ۔

  7. شہریوں کیلئے پینے کے صاف پانی کی فراہمی
  8. تحریک انصاف کی حکومت نے شہریوں کیلئے پینے کے صاف پانی کی فراہمی کیلئے وفاقی سطح پر منصوبے تیار کرنے کا اعلان کیا تھا جن کو فوری طور پر نافذ کیا جانا تھا۔ان منصوبوں کا آغاز وفاقی اور صوبائی دارالخلافوں سے کیا جانا تھا۔اس حوالے سے حکومت نے تا حال کچھ نہیں کیا۔

  9. شجرکاری اور ماحول کے تحفظ کی مہم کا آغاز
  10. تحریک انصاف نے ماحولیات کے تحفظ کے ایجنڈے میں "گرین گروتھ ٹاسک فورس"کی بنیاد ڈالنے کا اعلان کیا تھا۔جس کے ذریعے مطلوبہ قانون سازی اور منصوبہ سازی کا عمل آگے بڑھایا جانا تھا۔ملک بھر میں دس ارب درخت لگانے کا اعلان کیا گیا اور صوبائی دارالخلافوں میں"اربن ٹری سونامی پروگرامز"شروع کیئے جانے تھے۔اس سلسلے میںوفاقی کابینہ نے ملک بھر میں 10ارب درخت لگانے کی منظوری دے دی،2ستمبر کو ملک بھر میں پلانٹ برائے پاکستان دن منایا گیا۔اس دن 15لاکھ پودے مفت تقسیم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

  1. اداراتی ڈھانچے میں جدت و توسیع
  2. پاکستان کی علاقائی اور عالمی مطابقت میں اضافہ
  3. خارجہ پالیسی کے ذریعے معیشت کی مضبوطی
  4. نیشنل سیکیورٹی آرگنائزیشن کا قیام
  5. داخلی سیکیورٹی میں اضافہ

100 دن کی حکومتی کارکردگی معروف شخصیات کی نظر میں

تحریک انصاف کی حکومت کی سودن کی کارکردگی کے حوالے سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات نے اپنی رائے دی۔

تفصیلات کیلئے کلک کریں