تحریک انصاف ،عمران خان کی حکومت کے 100روزہ ایجنڈے نے دعویٰ کیاکہ ان کے پاس معاشی ڈھانچے کی پختگی اور تعمیر کا پورا خاکہ اور تصور موجود ہے۔جو کہ کسی ایک طبقے کے لیے نہیں بلکہ پوری قوم کی اقتصادیات کی بحالی کا منصوبہ ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت میں اب تک4قومی اسمبلی کے اجلاس ہوئے اور1مشترکہ اجلاس سینیٹ کے ساتھ ہوا۔اس طرح کل 5اجلاس ہوئے۔حکومت کا بنیادی کام قانون سازی جوصرف ایک اجلاس میں ہوئی جو کہ دوسرااجلاس تھا۔ فنانس ایکٹ میں ترامیم کی گئیں اورانکم ٹیکس لگائے گئے۔سالانہ4لاکھ سے8لاکھ تک آمدن والوں پر بھی1ہزار ٹیکس لگا دیا گیا۔جبکہ 8لاکھ سے12لاکھ سالانہ آمدن پر 2ہزار ٹیکس لگا دیا گیا۔اس طرح عوامی حکومت کا آغاز عوام پر ٹیکسوں اور مہنگائی میں اضافے سے کیا گیا۔اس سے پہلے کم آمدن رکھنے والے افراد پر کوئی ٹیکس نہیں تھا۔
تحریک انصاف نے اپنے100روزہ ایجنڈے کے لئے جو اہداف طے کئے، ان پر کتنا عمل ہوا مندرجہ ذیل ہے۔
- نوجوانوں کیلئے روزگار کی فراہمی
100روزہ ایجنڈے کے مطابق پانچ برس کے دوران ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنے کے لئے ملکی سطح کی حکمت عملی سامنے لائے جانے کا اعلان کیا گیا ۔حکومت نے4لاکھ نوجوانوں کوہنر مند ٹرینگ دینے کا اعلان کیا ۔ 1کروڑ نوکریوں کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کر دی گئی ۔ ٹاسک فورس میں شامل افراد کے بارے میں تفصیلات نہ منظر عام پر آئیں اورنہ ہی اس کی پیشرفت کے بارے میں مختلف محکموں کے افسران کو کوئی علم ہے۔ اس ٹاسک فورس کے رپورٹ جمع کرانے کے بعد ہی تعین ہو گا کہ کس طرح نوکریاں فراہم کی جائیں گی مگر دور دور تک اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔پہلا اعلان وزیر ریلوے شیخ رشید نے 23ہزارآسامیاں پر کرنے کے لیے کیا،مگراس میں سے2031آسامیاں پر کرنے کی وزیر اعظم نے منظوری دی۔اس سلسلے میںآسامیوں کا اشتہار17نومبر2018کو دیا گیا۔جس کے تحت بھرتیاں کی جائیں گی۔مگراعلان کے برعکس100دنوں میں یہ نوکریاں بھی نہ دی جا سکیں گی۔
- پیداواری شعبے کی بحالی اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کی تیزی سے ترقی کی راہ ہموار کرنا
تحریک انصاف کے پہلے100روزہ پلان کے مطابقپاکستان کی پیداواری صنعت کو عالمی منڈی میں مقابلے کی اہلیت سے آراستہ کرنے کے لیے اقدامات کیے جانا تھے۔اس ضمن میں کوئی ٹاسک فورس بنائی گئی نہ ہی اس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد سے کسی قسم کی کوئی مشاورت کا عمل جاری ہوا ۔ایجنڈے میں برآمدات کو فروغ دینے کا دعویٰ کیا گیا۔مگر اس سلسلے میںکوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔برآمدات بڑھانے کے لیے کوئی ٹاسک فورس نہ بنائی گئی اورتا حال چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری افراد خام مال کی مہنگا ئی سے پریشان ہیں۔ان کی پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے جبکہ عوام کی قوت خرید میں کمی سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری افراد فکرمند ہیں۔ان کی رائے میں اسی طرح کچھ عرصہ میں انہیں اپنے کاروبار بند کرنے پڑیں گے اور اس سے ان کے ہنرمند مزدور بے روزگار ہو جائیں گے۔برآمدات پر چھوٹ دینے کا بھی ایجنڈے میں کہا گیا مگرکاروباری افراد کاروبار جاری رکھنے کے لئے ہاتھ پاوں مار رہے ہیں برآمدات تو ان کے مطابق دیوانے کا خواب ہے۔مزدوروں کی حفاظت کے لیے وفاقی سطح پر لیبر پالیسی متعارف کی جانی تھی مگر تا حال کوئی مسودہ نہیں پیش کیا گیا۔ چھوٹے کاروبار کے لیے نوجوانوں کوآسان شرائط پر قرضے کی سہولت دینے کااعلان کیا گیا ۔تاہم قرضے دینے کا طریقہ کاراور دیگر امور پرواضع پالیسی نہیں دی گئی۔جس کی وجہ سے یہ ابہام پیدا ہو گیا ہے کہ کن صنعتوں کو ترجیح دی جائے گی۔اس سلسلے میں نہ کوئی اشتہار جاری کیا گیا ہے نہ ہی معلوماتی سیمینار منعقد کیے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے عام شہری کی اس سہولت تک رسائی اپنے آپ میں ایک جدوجہد ہے ۔
- پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کیلئے پالیسی
100روزہ ایجنڈے کے مطابق نجی شعبے کے تعاون سے پانچ برسوں میں پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کی جانے کا منصوبہ دیا گیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم نے اپنا گھر پروگرام کے نام سے پراجیکٹ لگانے کااعلان کیا تھا۔17رکنی ٹاسک فورس بنائی گئی۔ پروگرام شروع ہوتے ہی پہلا کام پراجیکٹ کانام بدلنے کا کیا گیا۔ نیا پاکستان ہاوسنگ اتھارٹی بنائی گئی۔ جس میں عوام سے فارم جمع کرانے کا کہاگیا ۔شروع میں چند شہروں تک یہ پروگرام محیط تھا بعد میں توسیع کا اعلان کرتے ہوئے اسے پھیلایا گیا۔بہاولپور کے ضلع میں انکشاف ہوا کہ فارم جمع کرانے کا نظام ہی نہیں۔فیصل آباد میں7ہزار سے زائد درخواستیں موصول ہوئیں۔ذرائع کے مطابق فیصل آباد شہر میں حکومت کے پاس جگہ ہی نہیں جہاں گھر بنائے جا سکیں۔صوبائی وزیر نے پنجاب ہاوسنگ اینڈ ٹاون پلاننگ ایجنسی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے نیا پاکستان ہاوسنگ سکیم کیلئے دستیاب اراضی کی رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت کی جس سے حکومتی دعوں کا پول کھل گیا۔وفاقی سطح پر وزیراعظم کی نگرانی میںسب کمیٹیاں کراچی اور اسلام آباد کے لیے قائم کر دی گئی ہیں۔سب کمیٹیاں متعلقہ صوبے میںمنصوبے کی مالیت،طریقہ کار،گھر کی فراہمی،گھروں کی قسطوں اور بینکوں کے معاملات کی نگرانی کریں گی۔100دن پورے ہونے سے دو دن پہلے 5ارب روپے بھی جاری کر دینے سے کوئی گھر بننے سے تو رہا ۔ماضی کی حکومتوں کی طرح اس حکومت نے بھی عوام کو100دن ایجنڈے کے نام پرتاحال خالی اعلانات ہی دیے
- سیاحت کا فروغ
تحریک انصاف کے100دن کے ایجنڈے کے مطابقملک میں موجود سیاحتی مقامات کو بہتر بنانے اور نئے مقامات کی تعمیر کے لیے نجی شعبے سے سرمایہ کاری کیلئے فریم ورک مکمل کرنے کا اعلان کیا گیا ۔نجی شعبے سے تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی جس کا حکومت نے اعلان کیا تھا۔ حکومتی گیسٹ ہاوسز کو ہوٹلز میں تبدیل کر کے عام عوام کے لیے کھولے جانے کا اعلان ببانگ دہل کیا گیا۔مگر کس ڈیپارٹمینٹ کے گیسٹ ہاوسز یا اس عمل میں کن عمارتوں کا انتخاب کیا گیاکوئی فہرست منظر عام پر نہیں آئی۔متعلقہ حکام اس قدم کے سوالات پر لاعلم تھے کہ کون سا مرد مومن ٹاسک فورس لے کر اس جہاد پر نکلا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ کم از کم 4نئے سیاحتی مقامات دریافت کیے جانے کا اعلان کیا گیا۔مگر اس ضمن میں بھی کسی سرکاری افسر نے اس دعوے کے والی وارث کا دروازہ نہیں دکھایا جس سے100دنوں میں اس پر کیے جانے والی پیشرفت پر بات کی جا سکتی۔پنجاب ہاوس مری کو ہوٹل جبکہ گورنر ہاوس پشاوراورلاہور کو میوزیم میں تبدیل کیے جانے کی منظوری وزیر اعظم نے دے دی۔چند دن بعد انکشاف ہوا کہ گورنر ہاوس میں موجود دفاتر کے لیے کوئی نئی جگہ ڈھونڈنی پڑے گی۔چمبہ ہاوس کو گورنر ہاوس میں تبدیل کرنے کی تجویز سامنے آئی۔اب گورنر ہاوس کے اتنے بڑے سٹاف کے لیے تین کمروں کا چمبہ ہاوس چھوٹا پڑتا محسوس ہوا تو اس ارادے کو بھی ترک کر دیا گیا۔ گورنر ہاوس پنجاب کے ہی پلان میںردو بدل کر کے مخصوص اوقات میں چند حصے عوام کے لیے کھول دیے گئے۔ان حصوں کو بعد میں مزید محدود کردیا۔
اس طرح گورنر ہاوس کی تبدیلی کا ایجنڈا قصہ ماضی ہو گیا۔اسی طرح اگر صوبائی سطح کا جائزہ لیں تو سند ھ گورنرہاوس کی بھی کہانی ایسی ہے۔بلوچستان حکومت نے اس سلسلے میںکوئی پیشرفت نہ کی۔ وزیرسیاحت خیبرپختونخوا نے حکومتی 100روزہ ایجنڈے کو بڑھاتے ہوئے 10نئے سیاحتی مقامات دریافت کر کے آباد کرنے کا اعلان کر دیا۔پہلے چار کی تلاش میں ہی ہم مارے مارے پھر رہے تھے ۔سہولت یہ ہوئی ہے کہ اس کے ساتھ سیاحی پولیس فورس بنانے کا اعلان کیا گیا ہے جس دن وہ نظر آگئے ان سے ہی ان مقامات کا پوچھ لیں گے۔100دن تو پورے ہونے کو ہیں مگر یہ سہولیات کس طرح عوام تک پہنچیں گی یہ کسی عوامی نمائندوں کوتاحال نہیں پتہ۔ تحریک انصاف کو پتہ ہوتا کہ یہ کتنے دنوں میں ممکن ہے توغالبا© ًان کو 100دن کے اہداف میں شامل نہ کرتے۔
- ٹیکس ایڈمنسٹریشن میں اصلاحات
100روزہ ایجنڈے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سربراہ کا میرٹ پر تقرر کرنے کا اعلان کیا۔تقرر تو ہو گیا مگر تاحال نوٹس جاری ہونے کے علاوہ کوئی ٹیکس اصلاح متعارف نہیں ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایف بی آر کیلئے اصلاحاتی پروگرام متعارف کروانے کا اعلان کیا اس تناظر میں دیکھیں تو ماہر کو میرٹ پر تعینات کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی اگر اصلاحات تحریک انصاف نے لانی تھیں۔ معیشت کی بحالی اور قرضوں پر انحصار کم کرنے کیلے کاروبار دوست اور عد ل پر مبنی ٹیکس پالیسی لاگو کرنے کا اعلان کیا گیا۔مگر حالیہ لگائے گئے ٹیکس اور ریگولیٹری ڈیوٹیاں عوام و کاربار دوست ہوں یا نا ہوں مگر قرضوں پر انحصار نہ کم کر سکیں۔پاکستان کو نہ صرف دوست ممالک سے مدد مانگنی پڑی بلکہ اس کے باوجود آئی ایم ایف کو مدد کے لیے درخواست جمع کرانا پڑی۔ جن سے معاملات طے پانے کے مراحل پر ہیں۔فنانس بل لا کر ٹیکسز لگائے گئے اس کے ساتھ ساتھ درآمدات میں کمی لانے کے لیے ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی گئی۔اس سے تجارتی خسارے میں کمی آئے نہ آئے مگر امید ضرور ہے۔ٹیکس کے متعلق عدالتوں میں کیسز کو جلد حل انجام تک پہنچایا جانے کا عزم کیا گیا۔مگر اس سلسلے میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ایف بی آر سے ٹیکس پالیسی کااختیارلے لیا گیا ہے۔اس وقت ایف بی آر صرف ٹیکس اکھٹا کررہا ہے۔پالیسی کی تشکیل کے لیے بورڈ بنا دیا گیا ہے۔100 دن پورے ہونے کو ہیں مگرکوئی تبدیلی نظر میں نہیں آرہی
- پاکستان کو کاروبار دوست ملک میں بدلنا
پانچ برس میں پاکستان کو کاروبار کی عالمی درجہ بندی میں 147سے 100نمبر پر لانا فہرست میں شامل ہے۔مگرتحریک انصاف نے 100روزہ پلان میں بھی اسے ڈال دیا۔پاکستان میں کاروبار کرنے کو آسان بنانا،سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنا،غیر ملکی پاکستانیوں کو پاکستانی معیشت کے دھارے میں لانا،برآمدات میں اضافہ کرنے کے لیے وزیر اعظم کی سربراہی میں"کونسل آف بزنس لیڈرز"قائم کرنا مندرجہ بالا اہداف حاصل کرنے کی حکمت عملی مرتب کرنا مقصود تھا۔22رکنی بزنس کونسل بن گئی ہے مگر کوئی پالیسی اس کی طرف سے وزیر اعظم کو نہیں جمع کرائی گئی۔اس پر فیڈرل چیمبر آف کامرس نے اعتراض بھی کیا ہے کہ اسے اس کونسل میں نمائندگی نہیں دی گئی۔اگر تاجر برادری کی نمائندہ تنظیم نہیں اس عمل میں شامل تو بڑے پیمانے پر اس سے وابستہ لوگوں کے مسائل کون حل کرے گا۔ملک کو کاروبار دوست بنانے کے برعکس بجلی کی اور پیٹرول کی قیمتوں میںاضافہ کیا گیا ہے ۔اس کی وجہ سے فیکٹریوں اور کاروبار کرنے کے اخراجات مزید بڑھ گئے ہیں۔انٹر نیشنل انجینئرنگ ٹریڈ فیئرمنعقد کرایا گیا۔پاک چین بزنس ایکسپو کا اہتمام کیا گیا مگر پاکستانی اشیا نہ ہونے کے برابر تھیں۔ٹی ڈیپ کے ذرائع کے مطابق پاکستانی صنعتیں اب پہلے سے ابتر حالات میں ہیں۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے پاکستان میں سرمایہ کاری کر نے کی دعوت دی گئی اور اعلانات کیے جاتے تھے کہ اربوں کی ریل پیل ہو جائے گی۔ مگر بیرون ملک ترسیلات کے اعدادوشمار میں کوئی واضع فرق نہیں آیا۔اب تک کوئی بڑی سرمایہ کاری عمل میں نہیں آئی۔معاشی ماہرین کے مطابق اگر سٹاک ایکس چینج کے اعدادو شمار پر نظردوڑائی جائے تو بیرون ملک سرمایا کار اپنا سرمایہ نکال رہے ہیں۔
- ریاستی اداروں کی تنظیم نو
تحریک انصاف نے "پاکستان ویلتھ فنڈ" کے قیام کے ذریعے ریاست کے زیر ملکیت اداروں میں انقلاب کی بنیاد رکھنے کااعلان کیا تھا ۔عوامی ملکیت کی صنعتیں وزارتوں سے الگ کر کے آزاد بورڈ آف گورنرز اور بہترین صلاحیتوں کے حامل منتظمین کے حوالے کی جانی تھیں مگر تاحال ایسا نہیں کیا گیا۔ اس کی ابتدا ہنگامی طور پر ائیر لائن، ریلویز، توانائی پیدا کرنے والے ادارے اور تقسیم کار کمپنیاں سے کرنے کا عزم کیا گیا مگراکتفا دفتری اوقات کو صبح 8سے شام4بجے کی بجائے صبح9بجے سے5بجے تبدیلی پر کیاگیا۔اس کے ساتھ وزیراعظم پاکستان نے تمام اعلیٰ شخصیات کے فرسٹ کلاس میں فضائی سفر پر پابندی کے ساتھ ساتھ خصوصی طیارے پر بھی قدغن لگائی مگر چند ہی دنوں میںاپنے احکامات کو ہوا میں اڑاتے ہوئے خصوصی طیارے پر سعودیہ روانہ ہو گئے۔وزارت خزانہ نے تمام افسرں کے سفری اخراجات بھی محدود کیے۔ملاوٹ کرنے والے عناصر کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا۔وزیر اعظم کے عزم کی تکمیل کے لیے ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں 19ممبران پر مشتمل ٹاسک فورس بنائی گئی جو کہ اپنی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کرے گی۔100روزمکمل ہونے کو ہیں مگر رپورٹ کے بارے میں پوچھا گیا تو بتایا گیا مکمل رپورٹ تو نہیں پیش ہو سکتی مگر جزوی دے دی جائے گی۔یادرہے ڈاکٹر عشرت حسین جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی 11رکنی "قومی کمیشن برائے حکومتی اصلاحات "کی بھی سربراہی کے فرائض ادا کر چکے ہیں جس کے آخر میں صرف ایک رپورٹ شائع کی گئی اورعملی طور پر اصلاحات لانے کے ضمن میں کچھ نہ کیاگیا۔
- توانائی کے بحران کا خاتمہ
تحریک انصاف نے حکومت میں آنے کے بعدسستی بجلی فراہم کرنے کا دعویٰ کیا ۔مگر تین ماہ میں متعددبار بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیاگیا اس کے ساتھ ساتھ گردشی قرضے کے اسباب پر توجہ دیے جانے اور ریگولیٹری ریفارمز لاکر کرایہ پر چلنے والے ماڈل سے نجات کا دعوہ کیا گیا۔ بجلی چوروں کے خلاف آپریشن کی منظوری دی گئی۔اس کے بعد ملک کے تمام حصوں میں بلا تفریق کارروائی کی جا رہی ہے۔وزیر اعظم نے مزید دو گیس کمپنیاں بنانے کی منظوری دے دی۔اس کے باعث انتظامی طور پرموجودہ کمپنیوں پر بوجھ کم ہو جائے گا اور صارفین کو بہتر سروس ملے گی۔پنجاب کے دو ایل این جی پاور پلانٹس کی نجگاری کا فیصلہ لیا گیا۔سعودی عرب سے ادھار تیل حاصل کیا گیا۔گوادر میں سعودی عرب کے ساتھ مل کر آئل سٹی بنانے پر اتفاق ہوا۔اس بارے میں جب حکام سے پوچھا گیا تو تا حال کوئی پیش رفت نہ ہونے کا بتایا گیا۔آئندہ25سالوں کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے انرجی پالیسی بنانے کا اعلان کیا گیا ۔بلوچستان میں20ہزار گھروں کے لیے ایک میٹر ریڈر ہے کا جاننے کے بعدوزیر اعظم نے انتظامی طور پر بہتریاں لانے کے لیے تجاویز مانگ لیں۔پنجاب کابینہ نے توانائی منصوبوں کے بارے میں جملہ امور کا جائزہ لینے اور قائداعظم سولرپرائیویٹ لمیٹڈ کے پراجیکٹ سے متعلقہ امور طے کرنے کیلئے عبدالعلیم خان کی سربراہی میں کمیٹی بھی بنا دی۔
- پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو حقیقتاً ایک انقلابی منصوبہ بنانا
تحریک انصاف نے حکومت میں آنے کے بعد پاک چین راہداری منصوبے کو انفراسٹرکچر پراجیکٹ کے ساتھ ساتھ اقتصادی راہداری بنانے کا وعدہ کیا۔چین کے ساتھ مل کر
زراعت،صنعت اور خدمات کے شعبوں میں ترقی کو یقینی بنایا جانا بھی 100روزہ پلان کا حصہ تھا۔تاہم تاحال حکومت نے نیا ورکنگ گروپ بنایا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ2فوکل پرسن مقرر کیے ہیں۔وفاقی کابینہ کی سی پیک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا چیئر مین خسرو بختیار کو مقرر کیا گیا ہے۔
- شہریوں اور صنعت کاروں کی مالی وسائل تک رسائی میں اضافہ
حکومت کے پہلے 100دنوں میں عام شہریوں اور صنعتوں کی سرمائے تک رسائی کو آسان بنایا جانا تھا۔قومی مالیاتی شراکت داری کی حکمت عملی کے نافذ کرنے میں اور ڈیجیٹل نظام سے بھرپور فائدہ اٹھایا جانا تھا۔بچت کے کلچر کو فروغ دیتے ہوئے پاکستان کے بینکوں میں رکھے گئے سرمائے کو جی ڈی پی کے 50فیصد تک لایا جانا تھا۔بڑے منصوبوں کے لیے درکار سر مائے کی فراہمی کے لیے ایک نیا انفراسٹرکچر بینک بنانے کا عزم کیا گیا تھا۔